You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Tuesday, November 01, 2022

بچوں کے شاعر اسمعیل میرٹھی

*آج یکم نومبر دنیائے ادب کا معتبر نام مولوی اسمٰعیل میرٹھی صاحب کا یوم وفات*

بچوں کےادب و شاعری کے لئے مشہور مولوی اسماعیل میرٹھی  ۱۲؍نومبر ۱۸۴۴ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ گلستاں ، بوستاں اور شاہ نامہ وغیرہ فارسی کتب درسیہ ختم کرنے کے بعد نارمل اسکول میں داخل ہوئے اور امتحان پاس کیا۔ ۱۸۶۷ء سے ۱۸۷۰ء کے عرصے میں سہارن پور کے ضلع اسکول میں مدرس فارسی رہے۔ تھوڑے عرصے بعد ترقی کرکے فارسی کے ہیڈ مولوی مقرر ہوئے۔پہلے سہارن پور پھر میرٹھ میں ایک عرصے تک اس عہدہ پر فائز رہ کر ۱۸۸۸ء میں سنٹرل نارمل اسکول، آگرہ تبدیل ہوگئے۔آگرہ میں بارہ برس مدرس فارسی کے عہدے پرمامور رہے۔ ۱۸۹۹ء میں پنشن ہوگئی۔ پنشن کے بعد اپنے وطن میرٹھ آگئے اور بقیہ عمر تصنیف وتالیف میں گزار دی۔ ان کی اعلا قابلیت اور ادبی خدمات کے صلے میں’خان صاحب‘ کا خطاب ملا۔ بچوں کے متعدد درسی کتابوں کے مصنف تھے۔ ایک کلیات ان کی یادگار ہے۔ غزلیات کے علاوہ انھوں نے اخلاقی نظمیں، قصے ،کہانی کے طور پرلکھی ہیں جن سے عمدہ اخلاقی نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔ یکم نومبر۱۹۱۷ء کو میرٹھ میں انتقال کرگئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:21
موصوف کے یوم وفات کے موقع پر ان کے کچھ منتخب اشعار احباب کی خدمت میں پیش ہیں


*کیا ہو گیا اسے کہ تجھے دیکھتی نہیں*
*جی چاہتا ہے آگ لگا دوں نظر کو میں* 
 
 دوستی اور کسی غرض کے لئے 
وہ تجارت ہے دوستی ہی نہیں 

*خواہشوں نے ڈبو دیا دل کو* 
*ورنہ یہ بحر بیکراں ہوتا*

کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا 
کہ جو تم سے کوئی کرتا تمہیں ناگوار ہوتا 

*یا وفا ہی نہ تھی زمانہ میں*
*یا مگر دوستوں نے کی ہی نہیں*

اظہار حال کا بھی ذریعہ نہیں رہا 
دل اتنا جل گیا ہے کہ آنکھوں میں نم نہیں 

*تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا* 
*کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا.......!*

چھری کا تیر کا تلوار کا تو گھاؤ بھرا 
لگا جو زخم زباں کا رہا ہمیشہ ہرا 

 *تھی چھیڑ اسی طرف سے ورنہ*
*میں اور مجال آرزو کی....!* 

آغاز عشق عمر کا انجام ہو گیا 
ناکامیوں کے غم میں مرا کام ہو گیا 
  
 *تو ہی ظاہر ہے تو ہی باطن ہے* 
*تو ہی تو ہے تو میں کہاں تک ہوں* 

تو نہ ہو یہ تو ہو نہیں سکتا 
میرا کیا تھا ہوا ہوا نہ ہوا 

*یاران بزم دہر میں کیا کیا تپاک تھا* 
*لیکن جب اٹھ گئے تو نہ بار دگر ملے* 

ہر شکل میں تھا وہی نمودار 
ہم نے ہی نگاہ سرسری کی 
 
 *سیر ورود قافلۂ نو بہار دیکھ*
*برپا خیام اوج ہوا میں گھٹا کے ہیں* 
 
 *اسی کا وصف ہے مقصود شعر خوانی سے*
*اسی کا ذکر ہے منشا غزل سرائی کا*

 گر خندہ یاد آئے تو سینہ کو چاک کر 
گر غمزہ یاد آئے تو زخم سناں اٹھ

 *ہاں دل بے تاب چندے انتظار*
*امن و راحت کا ٹھکانہ اور ہے* 

جب غنچہ کو واشد ہوئی تحریک صبا سے 
بلبل سے عجب کیا جو کرے نغمہ سرائی

 *بد کی صحبت میں مت بیٹھو اس کا ہے انجام برا* 
*بد نہ بنے تو بد کہلائے بد اچھا بد نام برا*
 
 *صبح کے بھولے تو آئے شام کو*
*دیکھیے کب آئیں بھولے شام کے*
بشکریہ طارق اسلم

Monday, October 18, 2021

سرسید کی ٹریجڈی

*سرسید کی ٹریجڈی !*

 



سرسید کو ان کی زندگی میں بڑے بڑے خطابات دیے گئے۔ انہیں مصلح کہا گیا، مفکر کہا گیا، مدبر کہا گیا، مفسر کہا گیا، علمی دماغ کہا گیا، روشن خیال کہا گیا، دو قومی نظریے کا بانی کہا گیا، اردو کا نیا اسلوب دینے والا کہا گیا۔ مگر سرسید کی شخصیت کا مرکزی حوالہ علی گڑھ ہے، جدید علوم و فنون کی سرپرستی اور ان کی مسلمانوں میں ترویج ہے، سرسید مصلح بھی اسی لیے کہلائے، مفکر بھی اسی لیے قرار پائے اور انہیں مدبر بھی اسی لیے کہا گیا۔ سرسید کا مشہور مقولہ ہے، ایک ہاتھ میں قرآن دوسرے ہاتھ میں جدید سائنس اور سر پر لاالہ کا تاج۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرسید کے دائیں ہاتھ میں بھی مغربی فکر تھی اور بائیں ہاتھ میں بھی مغربی فکر اور سر پر بھی انہوں نے مغربی فکر کی ٹوپی رکھی ہوئی تھی۔ بعض لوگ ہمارے اس فقرے کو طعنہ سمجھ سکتے ہیں چناں چہ عرض ہے کہ سرسید نے قرآن سمجھا تو جدید مغربی فکر کی بنیاد پر، وہ سائنس کے دلدادہ تھے تو اس کے جدید دواور مغربی ہونے کی وجہ سے اور انہوں نے سر پر بٹھایا تو مغرب کی عقل پرستی کو۔ مغرب کے فکر اور فلسفے کو۔ ظاہر ہے کہ لاالہ اور مغرب کی عقل پرستی اور مغرب کے فکر اور فلسفے کو ہم معنی بات نہیں کہا جاسکتا۔ خیر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ سرسید کا تصور علم اور تصور تعلیم اور ان کا برپا کیا ہوا نظام تعلیم ہی سرسید کا سب سے بڑا اور سب سے اہم تعارف ہے ورنہ ان کی مذہبی فکر وغیرہ کو حالی اور نواب محسن الملک جیسے سرسید پرستوں نے لایعنی کہہ کر مسترد کردیا تھا۔
سرسید کا خیال تھا کہ مغربی علم اور مغربی تعلیم کے بغیر مسلمان ’’ترقی‘‘ نہیں کرسکتے۔ نہ ان میں ’’لیاقت‘‘ پیدا ہوسکے گی۔ اتفاق سے سرسید نے مغربی تعلیم کا جو پودا لگایا تھا وہ سرسید کی زندگی میں نہ صرف یہ کہ پیڑ بن گیا بلکہ اس پر ’’پھل‘‘ بھی آگئے۔ ان پھلوں کا عالم کیا تھا اور سرسید ان پھلوں کو چکھ کر کتنے بدمزہ، ناراض، افسردہ اور مایوس ہوئے اور خود سرسید کی زبانی ملاحظہ کیجیے۔ سرسید نے لکھا۔
’’اب تو گویا بالاتفاق تمام مسلمان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انگریزی پڑھنے اور علوم جدیدہ کے سیکھنے سے مسلمان اپنے عقاید مذہبی میں سست ہوجاتے ہیں بلکہ ان کو لغو سمجھنے لگتے ہیں اور لا مذہب ہوجاتے ہیں اور اسی سبب سے مسلمان اپنے لڑکوں کو انگریزی پڑھانا نہیں چاہتے۔ مسلمانوں پر کیا موقف ہے‘ انگریز بھی ایسا ہی خیال کرتے ہیں‘‘۔
(تہذیب الاخلاق۔ صفحہ۔ 192-193۔ بحوالہ افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 221)
ایک اور مقام پر سرسید نے مغربی تعلیم کے ایک اہم نتیجے پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
’’مجھے نہایت افسوس اور رنج ہوتا ہے جب میں دیکھتا یا سنتا ہوں کہ ہماری قوم کے بعض لڑکے۔۔۔ جو انگریزی پڑھنا شروع کرتے ہیں، ان کا پورا پورا ادب نہیں کرتے۔ جو سوشل اور اخلاقی صفات یورپین میں ہیں وہی نہایت اعلیٰ درجہ کی ہیں۔ اگر ہم صدیوں تک کوشش کریں تو شاید وہاں تک پہنچیں۔ مگر افسوس ہے کہ ہمارے نوجوان ان کی خوبیوں کا تو دھیان تک نہیں کرتے اور ان میں جو عیب ہیں ان کو اختیار کرلیتے ہیں۔۔۔ بزرگوں سے بے پروائی سے پیش آنے لگے، ماں باپ کا ادب جیسا چاہیے اس قدر بجا لانا چھوڑ دیا، اپنے سے عمر میں جو بڑا ہے اس کا اور اپنے بزرگوں کے دوستوں کا لحاظ ترک کردیا۔ یہ تمام باتیں نہایت رنج دہ ہیں‘‘۔
(افکار سرسید۔ صفحہ 220)
ایک اور جگہ سرسید نے اپنے ہاتھ سے لگائے گئے مغربی تعلیم کے پودے کے نتیجے کا ذکر کرتے ہوئے کوئی لفظ چبائے بغیر کہا۔
’’تعجب یہ ہے کہ جو تعلیم پاتے جاتے ہیں اور جن سے قومی بھلائی کی اُمید تھی وہ خود شیطان اور بدترین قوم ہوتے جاتے ہیں۔ جس کو نہایت سعادت مند سمجھو اخیر وہ شیطان معلوم ہوتا ہے‘‘۔
(افکار سرسید۔ صفحہ 222)
سرسید نے اپنے متعارف کرائے ہوئے تعلیمی نظام کا سب سے بڑا اور سب سے اہم نتیجہ یہ بتایا ہے کہ جدید علوم پڑھنے والے مذہبی عقاید میں سست بلکہ لامذہب ہوجاتے ہیں اور اسی سبب سے مسلمان اپنے بچوں کو جدید تعلیم نہیں دلانا چاہتے۔ سرسید کا یہ تبصرہ یا تجزیہ سو فی صد درست ہونے کے باوجود کئی اعتبار سے عجیب و غریب ہے۔ اسی تبصرے یا تجزیے کا پہلا عجیب پہلو یہ ہے کہ سرسید کیکر کے درخت لگا کر اس سے انگور توڑنے کی خواہش کررہے تھے اور جب انہوں نے کیکر کے درخت کو انگوروں کے بجائے کانٹوں سے بھرا پایا تو ناراض ہوگئے۔ حالاں کہ اس میں ناراضی کی کوئی بات نہ تھی۔ سرسید نے انگور کا درخت لگایا ہوتا تو اس پر انگور ہی آتے مگر سرسید کیکر کے درخت کو انگور کا درخت باور کرتے رہے تو اس میں انہی کا قصور تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ کتنے بڑے مفکر، مدبر اور عالی دماغ تھے۔ سرسید کے تبصرے یا تجزیے کا دوسرا عجیب پہلو یہ ہے کہ ان پر مغربی علوم اور مغربی تعلیم کی حقیقت آشکار ہوگئی مگر انہوں نے مغربی تعلیم کے سلسلے کو موقوف کرنے کے بجائے اسے جاری رکھا۔ یعنی وہ زبر کو زبر تسلیم کرنے کے باوجود اپنی قوم کے منہ میں زیر کو انڈیلتے رہے۔ اس پر بھی لوگ کہتے ہیں کہ سرسید کی ’’نیت‘‘ بڑی اچھی تھی اور وہ مسلمانوں کے ’’مخلص رہنما‘‘ تھے۔ سرسید جس زمانے میں برصغیر کے مسلمانوں کو مغربی علوم پڑھا رہے تھے اس سے بہت پہلے مغرب میں جدید علوم الحاد کا طوفان برپا کرچکے تھے۔ اسی لیے سرسید نے یہ کہا ہے کہ جدید علوم کو صرف مسلمان ہی نہیں انگریز بھی خطرناک سمجھتے ہیں۔ مگر انگریزوں سے سب کچھ سیکھنے والے سرسید نے انگریزوں سے یہ سیکھ کر نہ دیا کہ جدید علوم مذہبی عقاید کے لیے کتنے ضرر رساں ہیں۔
مسلمانوں کی تہذیب میں علم اور تعلیم کے چار بڑے مقاصد رہے ہیں۔
(1) عارف بااللہ پیدا کرنا۔
(2) اچھا یا نیک انسان پیدا کرنا۔
(3) تخلیقی صلاحیتوں کا حامل انسان پیدا کرنا۔
(4) انسان کو رزق کمانے کا اہل بنانا۔
بدقسمتی سے سرسید نے جو نظام تعلیم متعاراف کرایا اس میں تعلیم کے پہلے تین اہم ترین مقاصد کہیں موجود ہی نہ تھے۔ سرسید کا نظام تعلیم صرف ایک مقصد کے گرد طواف کررہا تھا۔ یہ مقصد حصول روزگار کے سوا کچھ نہ تھا۔ سرسید مر کھپ گئے، مگر ان کا نظام تعلیم آج بھی زندہ ہے اور وہ پہلے دن کی طرح آج بھی کولہو کے بیل کی طرح روزگار کے دائرے ہی میں گردش کررہا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سرسید کے نظام تعلیم نے برصغیر کی ملت اسلامیہ کی روحانی، اخلاقی، علمی اور تخلیقی زندگی کو تباہ و برباد کردیا اور مسلمانوں کی عظیم ترین اکثریت کو صرف پیٹ کا بندہ بنا دیا۔ یہ کوئی طنز نہیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے دیوبند کی تعلیم کو ’’دل روشن‘‘ قرار دیا ہے، ندوے کی تعلیم کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اس سے ’’زبانِ ہوش مند‘‘ پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ان کا خیال تھا کہ علی گڑھ کی تعلیم یا سرسید کے نظام تعلیم سے صرف ’’معزز پیٹ‘‘ پیدا ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے سرسید کے نظام تعلیم کو ’’شکم مرکز‘‘ نظام تعلیم بھی کہا جاسکتا ہے اور شکم اور دل کے بارے میں اقبال نے کہا ہے۔
دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
سرسید کو اپنے نظام تعلیم کے ٹکسال سے برآمد ہونے والی نسل میں یہ عیب بھی نظر آیا کہ وہ ماں، باپ اور بزرگوں کا ادب نہیں کرتی۔ ارے صاحب مغرب کے جو علوم خدا اور رسولؐ کا ادب نہیں سکھاتے وہ ماں، باپ اور بزرگوں کا ادب کہاں سے سکھائیں گے۔ جس انسان کی زندگی ’’خدا مرکز‘‘ نہیں ہوتی وہ نہ انسانوں سے حقیقی محبت کرسکتا ہے نہ ان کا حقیقی ادب کرسکتا ہے۔ مگر سرسید کو توقع تھی کہ کیکر کے درخت پر انگور ضرور لگیں گے۔ مگر کیسے؟ اس کی نہ کوئی نقلی دلیل سرسید کے پاس تھی نہ عقلی دلیل۔ یہاں اقبال پھر یاد آئے۔ اقبال نے کہا ہے۔
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
سرسید کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ برصغیر میں غلاموں کے امام تھے۔ چناں چہ انہیں یہ کیسے نظر آسکتا تھا کہ جدید مغربی علوم ماں، باپ اور بزرگوں کا ادب سکھا ہی نہیں سکتے۔
سرسید اپنے نظام تعلیم سے نمودار ہونے والے نوجوانوں کو دیکھ کر اتنے وحشت زدہ ہوئے کہ انہوں نے انہیں شیطان ہی قرار دے دیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جدید تعلیم کے ادارے شیاطین پیدا کرنے والے کارخانوں کے سوا کیا ہیں مگر سرسید نے شیطان دیکھ کر بھی شیطان پیدا کرنے والا اپنا کارخانہ بند نہیں کیا۔ ہماری تہذیب کا اصول یہ ہے پہلے تولو پھر بولو۔ مگر سرسید کا اصول حیات یہ تھا۔ پہلے بولو پھر تولو۔ چناں چہ جو تیر سرسید کی کمان سے نکل گیا تھا وہ اسے واپس نہیں لے سکتے تھے۔ یہ تیر آج بھی ہمارے تعاقب میں ہے۔
سرسید کے نظام تعلیم نے سرسید کی قوم کا جو حال کیا سو کیا خود سرسید بھی اس نظام تعلیم سے برآمد ہونے والی مخلوق کے پیروں تلے روندے گئے۔ انہیں ان کی زندگی کے آخری حصے میں ان کے فرزند سید محمود نے گھر سے نکال دیا۔ اس سانحے کی روداد بیان کرتے ہوئے میر ولایت حسین نے اپنی آپ بیتی میں لکھا۔
’’حاجی اسمٰعیل خان، صاحب (سرسید) کو اپنی چھوٹی کوٹھی میں لے گئے۔ سید صاحب کو بے گھر ہونے سے سخت تکلیف ہوئی تھی۔ منشی ناظر خان اور نجم الدین، جو سید صاحب کی خدمت میں حاضر رہتے تھے، ان کا بیان ہے کہ جس وقت سید صاحب حاجی اسمٰعیل خان صاحب کی کوٹھی پر پہنچے۔۔۔ ایک آہ کھینچی اور کہا کہ ہائے افسوس، ہم کو کیا معلوم تھا کہ سید محمود آخر عمر میں ہم کو گھر سے نکال دیں گے، ورنہ کیا ہم اس قابل نہ تھے کہ اپنے لیے ایک جھونپڑی بنالیتے؟‘‘ اس روحانی صدمے کا اثر سید صاحب پر ایسا ہوا کہ حاجی اسمٰعیل خان صاحب کی کوٹھی پر چند ہی دن رہنے پائے تھے کہ ان کا پیشاب بند ہوگیا‘‘۔ (بحوالہ: سرسید احمد خان، ایک سیاسی مطالعہ‘‘ ص، 306)۔
اولاد کا ناخلف ہونا نئی بات نہیں۔ ہم نے مذہبی کہلانے والی اولاد کو بھی ماں کی تذلیل کرتے دیکھا اور سُنا ہے۔ لیکن سرسید خود کہہ چکے ہیں کہ جدید تعلیمی نظام سے نکلنے والے نہ مذہب کے رہتے ہیں نہ وہ ماں، باپ اور بزرگوں کا احترام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ شیاطین کی طرح نظر آتے ہیں۔ چناں چہ سید محمود نے سرسید کے ساتھ جو کیا اس کا ایک تناظر ہے۔ سید محمود کی شخصیت یعنی جدید تعلیمی نظام سے پیدا ہونے والی شخصیت کو سمجھنا ہو تو بابائے اردو مولوی عبدالحق کا یہ تبصرہ ملاحظہ کر لیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’ان کی زندگی کے آخری ایام انتہا درجے کی تلخی اور کرب والم میں گزرے۔ پہلا صدمہ کالج کے روپے کے غبن کا ہوا اور دوسرا اس سے بڑھ کر سید محمود کا۔ کثرتِ شراب نوشی نے سید محمود کا دماغ مختل کردیا تھا اور وہ عالم دیوانگی میں ایسی حرکات کربیٹھتے تھے جو کسی عنوان قابلِ برداشت نہیں ہوسکتی تھیں۔
(سرسید احمد خان۔ حالات و افکار، ص 85)
یہ ہے سرسید کے عظیم الشان تعلیمی منصوبے کا نتیجہ۔ یہ ہے کیکر لگا کر اس سے انگور توڑنے کی تمنا کرنے کا انجام۔ مولانا روم نے فرمایا ہے۔
علم را برتن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود
مطلب یہ کہ اگر تو علم سے مادی فائدے اٹھائے گا جو علم سانپ بن جائے گا اور تیری روحانی ہلاکت کا باعث ہوگا اور اگر تو علم کا اثر دل پر لے گا یعنی عشق و روحانیت کی طرف بڑھے گا تو علم تیرا دوست بن جائے گا۔


Tuesday, May 26, 2020

آہ ‏پدم شری مجتبی حسین ‏نہیں ‏رہے

اردو کے مشہور مزاح نگار پدم شری جناب مجتبیٰ حسین کا انتقال ہوگیا ۔انہوں نے 1962ء میں محکمہ اطلاعات میں ملازمت کاآغاز کیا۔ 1972 میں دہلی میں گجرال کمیٹی کے ریسرچ شعبہ سے وابستہ ہو گئے۔دلی میں مختلف محکموں میں ملازمت کے بعد 1992 میں ریٹائر ہو گئے۔ مجتبیٰ حسین ملک کے پہلے طنزومزاح کے ادیب ہیں جن کو وفاقی حکومت نے بحیثیت مزاح نگار پدم شری کے باوقار سویلین اعزاز سے نوازا۔ تاہم انہوں نے جاریہ سال کے اوائل میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بطور احتجاج پدم شری ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا تھا۔ قارئین کو زندگی بھر ہنسانے والا یہ ادیب جاتے جاتے ہمیں غمگین کرگیا ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔
مجتبیٰ حسین کے مضامین پر مشتمل 22 سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی 7 کتابیں ہندی زبان میں شائع ہویئں۔ جاپانی اور اڑیہ زبان میں بھی ایک ایک کتاب شائع کی گئی

Thursday, April 23, 2020

اردو ‏کے ‏سپاہی ‏

عروس البلاد شہر ممبئی سے شائع ھونے والے اردو روزناموں میں *روزنامہ ہندوستان* کا شمار بھی قدیم اور یلاناغہ شائع ھونے والے ج   مرااریدوں میں ھوتا ھے ۔ آج 23 اپریل کو اسکے بانی ٰ مالک و مدیرِ اعلی اور اردو کے سپاہی مرحوم  غلام احمد خان *آرزو* کو انکے یومِ وفات پر *خراجِ عقیدت* پبش کرتے ہیں ۔ 
ﷲتعالی مرحوم کو غریقِ رحمت کرے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔ آمین
اپنے دورِ ادارت میں مرحوم نے کئی نومشق شعراء ٰ ادباء اور صحافیوں کو موقع دیا جنہوں نے بعد میں آگے چل کر اپنے اپنے دائرۂ عمل میں خوب نام کمایا ۔ معروف شاعر ٰ صاحبِ دیوان اور فلمی نغمہ نگار مرحوم *عیش کنول* ( بزم شعراء کے پہلے صدر ) ٰ اور مشہور ناظمِ مشاعرہ اور معروف ادیب و قلم کار مرحوم *سعید متھراوی* ( نائب صدر بزم شعراء )  اور بھی کئی لوگ مرحوم آرزو صاحب سینئر کی ہی دین تھے ۔

Tuesday, April 14, 2020

ڈراما مالیگاؤں آ گیا؟؟؟

ڈراما مالیگاؤں آگیا؟ از۔ ایم مبین 

کردار
بوڑھی : بس کی ایک بوڑھیا مسافر
کنڈیکٹر : بس کا کنڈیکٹر
ڈرائیور : بس کا ڈرائیور
بس کے چند مسافر …
(منظر :  ایک بس کے اندر کا منظر۔ رات کا وقت ہے۔ مسافر اپنے اپنے سیٹ پر بیٹھے یا تو سورہے ہیں یا اونگھ رہے ہیں۔ اگلی سیٹ پر ڈرائیور بیٹھا بس چلا رہا ہے۔ آخر سیٹ پر بیٹھا کنڈیکٹر خراٹے لے رہا ہے۔ اس سے دو سیٹ آگے ایک بوڑھی عورت بیٹھی جاگ رہی ہے۔ وہ بے چینی سے کبھی کھڑکی کے باہر دیکھتی ہے تو کبھی مڑ کر کنڈیکٹر کو دیکھنے لگتی ہے۔)
بوڑھی : (کنڈیکٹر کو جگاتے ہوئے) بیٹا! کنڈیکٹر۔
کنڈیکٹر : (چونک کر) کون؟ کیا بات ہے؟
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آیا؟
کنڈیکٹر : (جھلا کر) اماں! تمہارا دماغ توخراب نہیں ہوگیا! ابھی تو منماڑ بھی نہیں آیا تو مالیگائوں کہا ںسے آئے گا۔!
بوڑھی : بیٹا پھر یہ کونسا اسٹاپ ہے؟
کنڈیکٹر : اسٹاپ کہاں ہے اماں! ابھی تو بس چل رہی ہے۔
بوڑھی : اب کونسا اسٹاپ آنے والا ہے۔ 
کنڈیکٹر : اماں انکائی آنے والا ہے۔ لیکن وہاں بس نہیں رکتی ہے… صرف منماڑ میں بس رکے گی۔ 
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں کب آئے گا۔؟
کنڈیکٹر : اماں! منماڑ کے بعد والا اسٹاپ مالیگائوں ہی ہے۔ 
بوڑھی : اچھا اچھا۔
کنڈیکٹر : تم ایولہ سے بیٹھی ہوں نا؟
 کنڈیکٹر : ۔اماں ابھی ایولہ چھوڑے ہوئے بس کو ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوا ہے۔ مالیگائوں آنے میں دیڑھ دو گھنٹہ لگیں گے۔ 
بوڑھی : اچھا بیٹا! رات کاوقت ہے۔ میرے پاس گھڑی بھی نہیں ہے۔ اس لئے اندازہ نہیں ہورہا ہے کہ کونسا اسٹاپ آرہا ہے۔ 
ایک مسافر : اماں تم اطمینان رکھو! بلکہ میں کہوں گا تم ایک آدھ گھنٹہ سو جائو۔ مالیگائوں آجائے گا تو بس رک جائے گی کنڈیکٹر ، میں یا کوئی مسافر تمہیں جگادے گا ۔
بوڑھی : اس بڑھاپے میں نیند کہاں آتی ہے بیٹا!
مسافر : اگر تمہیں نیند نہیں آرہی ہے تو کم سے کم دوسروں کی نیند تو خراب مت کرو۔ خود نہیں سورہی ہو تو کم سے کم دوسروں کو تو سونے دو۔
بوڑھی : سوجائو بیٹا! میں کب چاہتی ہوں کہ میری وجہ سے دوسروں کی نیند خراب ہو۔
مسافر : ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ 
(مسافر سونے کی کوشش کرتا ہے بوڑھی آنکھ بند کرتی ہے پر کھول کربے چینی سے چاروں طرف دیکھنے لگتی ہے۔ پھرآنکھ بند کرکے سیٹ سے پشت لگا دیتی ہے۔ پھر اپنے بازو والے مسافر کو اٹھاتی ہے۔)
بوڑھی : بیٹا! یہ بس مالیگائوں رکے گی نا۔
بازووالا : (آنکھ ملتے ہوئے) اماں یہ بس جلگائوں جارہی ہے۔
بوڑھی : یہ تو مجھے بھی معلوم ہے۔ 
بازووالا : پھر اتنا نہیں جانتی کہ یہ بس مالیگائوں سے ہوکر جلگائوں جائے گی اور مالیگائوں بھی رکے گی۔
بوڑھی : اطمینان نہیں ہورہا ہے نا بیٹا۔
بازووالا : اطمینان رکھو۔۔ اماں! یہ بس مالیگائوں ضرور رکے گی۔
بوڑھی : اچھا بیٹا۔ 
(سیٹ پر سر رکھ کر سونے کی کوشش کرتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد بس کے اندرکی بتی جلتی ہے۔ بس رک جاتی ہے۔ کنڈیکٹر آنکھیں ملتا ہوا جاگتا ہے۔ کھڑکی کے باہر جھانکتا ہے اور آواز لگاتا ہے۔ )
کنڈیکٹر : اے منماڑ آگیا۔ منماڑ! ہے کوئی منماڑ میں اترنے والا۔ 
(ایک مسافر اٹھتا ہے۔ اپنا بیگ لیکر بس سے اتر جاتا ہے۔ بوڑھی چونک کر اٹھتی ہے۔)
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آگیا؟
کنڈیکٹر : نہیں اماں مالیگائوں نہیں آیا۔
بوڑھی : پھر یہ بس کیوں رک گئی ہے؟ یہ کونسا اسٹاپ ہے؟
ایک مسافر : اماں یہ منماڑ ہے۔
بوڑھی : مالیگائوں کب آئے گا؟
دوسرامسافر: اماں! مالیگائوں اس کے بعد کااسٹاپ ہے۔ 
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آئے تو مجھے بتادینا۔ 
پہلا مسافر : اماں فکر مت کرو! مالیگائوں آئے گا تو ہر کوئی تمہیں بتادے گا کہ مالیگائوں آگیا ہے۔ 
بوڑھی : اچھا بیٹا۔
کنڈیکٹر : (آواز لگاکہ) ہے کوئی۔۔ مالیگائوں، دھولیہ، جلگائوں (بس میں کوئی نہیں چڑھتا ہے ۔ کنڈیکٹر ڈبل بیل دیتا ہے بس چل دیتی ہے۔ اندر کی بتی بجھ جاتی ہے۔سارے مسافر پھر سوجاتے ہیں۔ بوڑھی اپنے پیچھے والی سیٹ کے مسافر کو جگاتی ہے۔)
بوڑھی : بیٹا سنو!
مسافر : کیا بات ہے اماں؟
(مسافر آنکھیں ملتا بوڑھی کی طرف دیکھتا ہے۔)
بوڑھی : مالیگائوں کتنی دیر میں آئے گا؟
مسافر : اماں میںتو سورہا تھا۔ پتہ نہیں بس کونسے اسٹاپ پر رکی تھی اور اس وقت کہاں ہے؟
بوڑھی : بیٹاابھی منماڑ پر رکی تھی۔
مسافر : تو اماں! ایک گھنٹہ بعد مالیگائوں آجائے گا۔ رات کا وقت ہے اگر ڈرائیور نے تیز بس چلائے تو ممکن ہے 45منٹ بعد بھی مالیگائوں آجائے۔ 
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آجائے تو مجھے جگادینا۔
مسافر : اچھا اماں! میں جاگا رہا تو مالیگائوں آنے پر آپ کو جگادوں گا۔
بوڑھی : ٹھیک ہے بیٹا۔
مسافر : اماں تم سوجائو۔ اور مجھے اور دوسرے مسافروں کو بھی سونے دو…
بوڑھی : اچھا بیٹا!
(کہہ کر سیٹ سے پشت لگا کر آنکھیں بند کردیتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد گہرے گہرے خراٹے لینے لگتی ہے۔ بس چلتی رہتی ہے۔ وقت گزرتا ہے…کچھ وقفہ کے بعد بس کے اندر کی بتیاں جلتی ہیں۔ بس رک جاتی ہے ۔ کنڈیکٹر آنکھیں ملتا اٹھتا ہے۔ کھڑکی سے باہر جھانک کر آواز لگاتا ہے۔)
کنڈیکٹر : مالیگائوں آگیا۔ مالیگائوں۔ ہے کوئی مالیگائوں اتر نے والا؟
(ایک دومسافر اپنا سامان لیکر بس سے اتر جاتے ہیں ایک دو مسافر بس میں چڑھ کر سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ بوڑھی خراٹے لے رہی ہے۔ کنڈیکٹر ڈبل بیل دیتا ہے بس چل دیتی ہے۔ بس کے اندر کی بتی بجھ جاتی ہے تھوڑی دیر بعد… بوڑھی بس کو لگنے والے جھٹکے سے اچانک چونک کر اٹھتی ہے اور گھبرا کر چاروں طرف دیکھنے لگتی ہے۔ پھر بازو والے مسافر کو جگاتی ہے۔)
بوڑھی : بیٹا کیا مالیگائوں آگیا؟
بازو والا : (نیند میں) پتہ نہیں اماں! مالیگائوں آیا یا نہیں مجھے علم نہیں ہے میں تو سورہا تھا۔
بوڑھی : اچھا بیٹا۔
بازو والا : کسی اور مسافر سے پوچھ لو۔
بوڑھی : اچھا بیٹا۔
(سامنے والی سیٹ کے مسافر کو جھنجھوڑ تی ہے)
مسافر : (چونک کر) کیا بات ہے؟
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آیا؟
مسافر : پتہ نہیں اماں۔ مالیگائوں آیا یا نہیں آیا۔میں نہیں جانتا۔ میں تو سورہا تھا۔ تم کنڈیکٹر سے پوچھ لو۔
بوڑھی : بیٹا وہ بھی تو سورہا ہے۔ 
مسافر : تو ڈرائیور سے پوچھ لو۔ وہ تو جاگ رہا ہے۔ اسے تو پتہ ہوگا کہ مالیگائوں آیا یا نہیں۔ 
بوڑھی : اچھا بیٹا۔ (آواز لگا کر) اے ڈرائیور بیٹے اے ڈرائیور بیٹے۔
ڈرائیور : (پیچھے مڑکر)جی ماں جی
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آگیا؟
ڈرائیور : مالیگائوں تو کب کا آکر جا چکا ہے۔ بس اب دھولیہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مالیگائوں سے 15,10کلومیٹر آگے آگئی ہے۔ 
بوڑھی : (کلیجہ تھام کر) ہائے! مالیگائوں آکر چلا گیا اور کسی نے مجھے بتایا نہیں۔ 
(بوڑھی کی چیخ سن کر سارے مسافر جاگ اٹھتے ہیں۔)
پہلا مسافر : کیا بات ہے اماں مالیگائوں آکر چلا گیا؟
بوڑھی : ہاں بیٹا! ڈرائیور تو کہہ رہا ہے مالیگائوںآکرجاچکا ہے۔
دوسرا مسافر : مالیگائوں آکر چلا گیا اور کسی نے بھی تمہیں نہیں جگایا اماں!
بوڑھی : (روہانسی آواز میں) ہاں بیٹا۔
دوسرا مسافر : کنڈیکٹر نے بھی نہیں؟
بوڑھی : نہیں بیٹا۔
پہلا مسافر : (غصے سے) یہ تو کنڈیکٹر کی لاپرواہی ہے۔ کہاں ہے کنڈیکٹر؟
دوسرا مسافر : سو رہا ہے۔ 
پہلا مسافر : جگائو اسے؟
پہلا مسافر : (کنڈیکٹر کو جگاتے ہوئے) کنڈیکٹر صاحب ذرا نیند سے جاگنا تو…
کنڈیکٹر : (آنکھ ملتے ہوئے) کیا بات ہے۔؟
مسافر : مالیگائو ں آگیا؟
کنڈیکٹر : مالیگائوں تو کب کا آکر جا چکا ہے۔ تھوڑی دیر میں دھولیہ آئے گا۔
دوسرا مسافر : مالیگائوں آیا تو تم نے اس بوڑھیا کو کیوں نہیں جگایا۔؟
کنڈیکٹر : آئی شپت۔ مجھے یاد ہی نہیں رہا ہے۔ 
پہلا مسافر : اس بوڑھی کو مالیگائوں میں اتر نا تھا۔ اب اس کا کیا کیا جائے۔؟
کنڈیکٹر : اسے ہم دھولیہ میں اتار دیں گے۔ وہ وہاں سے کوئی بس پکڑ کر مالیگائوں چلی جائے گی۔ 
دوسرامسافر : یہ بالکل غلط بات ہے۔ آدھی رات کو یہ بوڑھی عورت دھولیہ اتر کر اکیلی کس طرح مالیگائوں جائے گی۔ یہ ساری بس کے لوگوں سے کہہ چکی تھی کہ مالیگائوں آئے تو اسے جگا دیا جائے لیکن سب سورہے تھے کسی نے اسے نہیں جگایا۔ 
پہلا مسافر : دوسرے مسافروں کو تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن کنڈیکٹر صاحب! یہ تمہاری ڈیوٹی تھی تمہیں تو اس بوڑھی کو جگانا چاہئے تھا۔ 
کنڈیکٹر : میں نیند میں تھا۔ مالیگائوں آیا تو اس کے بارے میں بھول ہی گیا۔ 
دوسرا مسافر : جو کچھ بھی ہوا ہے ۔ غلطی تم سے ہوئی ہے اس لیے اس غلطی کو تمہیں ہی سدھارنا پڑے گا۔ اس بڑھیا کو مالیگائوں پہنچا نا پڑے گا۔ 
کنڈیکٹر : لیکن بس تو مالیگائوں سے 15کلو میٹر دور آگئی ہے۔ 
پہلامسافر : بس کو واپس مالیگائوںکی طرف موڑو۔ اوراس بڑھیا کو مالیگائوں پہونچاو۔ آدھی رات کو یہ اکیلی بڑھیا بھلا کہاں جائے گی۔ 
دوسرا مسافر : بس کو مالیگائوں کی طرف موڑو۔
تیسرا مسافر : غلطی تمہاری ہے۔ تمہیں اس کو سدھار نا پڑے گا۔ 
چھوتھا مسافر : بس کو مالیگائوں لے جایا جائے بھلے ہمارا وقت برباد ہوجائے۔ لیکن اس بڑھیا کو ہم آدھی رات کو اس طرح نہیں چھوڑ سکتے۔
کنڈیکٹر : (بس ڈرائیورسے) کیا کیا جائے؟
ڈرائیور : تم کہو تو میں بس کو مالیگائوں کی طرف موڑتا ہوں۔ غلطی سچ مچ ہمار ی ہے اور یہ انسانیت کا تقاضہ بھی ہے۔ اتنی رات کو ہم اس بوڑھیا کو اکیلے دھولیہ کے بس اسٹینڈ پر کس طرح چھوڑ سکتے ہیں۔ پھر جب بس کے سار ے مسافر کہہ رہے ہیں کہ بڑھیا کو مالیگائوں لے جایا جائے بس کو واپس مالیگائوں کی طرف موڑ دیا جائے تو ہمیں بھی سب کی با ت مان لینی چاہئے۔
کنڈیکٹر : ٹھیک ہے۔ بس کو مالیگائوں کی طرف موڑ لو۔ ہم بڑھیا کو مالیگائوں چھوڑ کر واپس اپنا سفر شروع کریں گے۔ 
ڈرائیور : ٹھیک ہے۔ 
(بس کو موڑ تا ہے۔)
بوڑھی : (روتے ہوئے) مالیگائوں آکر چلا گیا اور مجھے کسی نے نہیں بتایا۔
پہلا مسافر : اماں! روومت! بس واپس مالیگائوں جارہی ہے۔ تمہاری لیے بس واپس مالیگائوں جارہی ہے۔ 
بوڑھی : ٹھیک ہے بیٹا! اس بار مالیگائوں آئے تو بتانا۔
مسافر : اماں ہر کوئی تمہیں بتائے گا مالیگائوں آگیا ہے۔ تم اطمینان رکھو۔
بوڑھی : اچھا بیٹا!
(بس چلتی ہے تھوڑی دیر بعد بس کے اندر بتی جلتی ہے اور بس رک جاتی ہے۔)
کنڈیکٹر : لو اماں! مالیگائوں آگیا۔
بوڑھی : اچھا بیٹا!(اپنی گود میں رکھی تھیلی کھولتی ہے ) 
کنڈیکٹر : اماں اپنا سامان سمیٹو اور جلدی سے بس سے اترو۔ تمہارے لیے 15کلو میٹر سے واپس آئی ہے تمہارا مالیگائوں آگیا ہے اب جو کرنا ہے وہ کرو۔
بوڑھی : ہاں بیٹا وہی تو کررہی ہوں جو مجھے مالیگائوں آنے پر کرنا تھا۔
کنڈیکٹر : اماں! مالیگائوں آنے پر تمہیں کیا کرنا تھا؟
بوڑھی : مالیگائوں آنے پر مجھے دوا کی ایک خوراک پینی تھی۔ میری بیٹی نے مجھ سے کہا تھا۔ مالیگائوں آنے پر یاد سے دھیان سے دوا کی ایک خوراک لے لینا۔ وہی کر رہی ہوں۔ 
(دوا کی خوراک لیتی ہے۔)
کنڈیکٹر : تو مالیگائوں میں تمہیں دوا پینی تھی؟
بوڑھی : ہاں بیٹا!
کنڈیکٹر : تمہیں جانا کہاں ہے؟
بوڑھی : مجھے دھولیہ جانا ہے بیٹا!
سب : (ایک ساتھ ) تم کو دھولیہ جانا ہے……


(پردہ گرتا ہے)
Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP