Saturday, March 27, 2010
چاۓ خانہ ( کینٹیگ ) میں گۓ ۔ وہاں تفصیلی گفتگو ہوئی ۔
وہ کرے ہر بات جس بات سے خوشبو آۓ
بولے وہی بات جس کو اردو آۓ
ڈیوڈ میتھیوز سے ہماری اکّثر ملاقات ہوتیں رہیں ۔مگر جب ہم ان سے ممبئی یو نیورسٹی میں ملے وہاں ڈیوڈ میتھیوز ،مسسز میتھیوز اور محمد قاسم دلوی کے اعزازمیں تہنیتی جلسہ منعقد کیا گیا تھا ۔دوسرے روز ان کی لندن کے لۓ روانگی تھی۔ہم لوگ چاۓ خانہ ( کینٹیگ ) میں گۓ ۔ وہاں تفصیلی گفتگو ہوئی ۔ڈیوڈ میتھیوز اردو زبان میں مہارت رکھنے والے ایک ایسے انگریز ہیں ۔ جو یوروپ میں اردو زباں کے فروغ کے اور احیائ کے لۓ گزشتہ چالیس برسوں سے سرگرم ہیں ۔بلکل مرحوم رالف رسل کی طرح ۔ڈیوڈ میتھیوز نے اردو زبان و ادب کا ایک بڑا سرمایہ بالخصوص شعری سرمایہ انگریزی زبان میں منتقل کیا ہے ۔غالب ،اقبال ،انیس کے علاوہ کئی دکنی شعرائ کی غزلوں اور نظموں کو انہوں نے انگریزی کا جامہ پہنایا ہے ۔اور وہ بھی منظوم ۔ڈیوڈ میتھیوز نے یوروپ میں اردو زبان پڑھنے والوں کے لۓ اردو کا نصاب بھی تیار کیا ہے ۔وہ بے حد فصیح اور بلیغ اردو بولتے ہیں ۔ان کی تحریر بھی پختہ ہے ۔گفتگو کے دوران ڈیوڈسر نے کہا وہ جب اس طرح کے سوالات سنتے ہیں کہ اردو کا مستقبل کیا ہے ؟کیا اردو زندہ رہے گی؟تو انھیں بے حد افسوس ہوتا ہے ۔انھوں نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا کہ آج بھی لوگ فیض سے واقف ہے ۔غالب کو جانتے ہیں ۔اردو بر صغیر میں چاہے ۔جس روپ میں ہو ،بولی اورسمجھی جاتی ہے ۔۔بھلا اردو کیسے مر سکتی ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ بہر حال یہ اردو والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زبان کے فروغ کے لۓ کام کریں ۔مسسز ڈیوڈ میتھیوز بھی اچھی طرح اردو سمجھتی ہیں ۔وہ بھی روسی اسکالر ہیں ۔اس ملاقات میں انھوں نے بھی حصّہ لیا ۔اور اردو میں ایک پیارا سا گیت بھی سنائيں۔
Labels:
david mathews,
mumbai,
munawwar sultana,
urdu blogging
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment