You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Saturday, February 28, 2009

شکری



میں تمام لنترانی بلاگ کو پڑھنے والے خواتین و حضرات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے میرا یہ بلاگ پڑھا اور اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا اور میری حوصلہ افزائی کیی۔ خاص کرکے جناب ڈاکٹر منّور حسین کاظمی صاحب اور ان کی اہلیہ کا جو خود بھی ڈاکٹر ہیی ۔ میں انہیں ذاتی طور پر جانتی ہوں ۔شکریہ کے ساتھ ان کا روانہ کیا ہوا میل اور ان کی تصویر پوسٹ کررہی ہوں ۔
بہت بہت شکریہ

شجر سے امید بہار


ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ
ممکن نہیں ہری ہو صبح اب بہار سے
ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ و با سے
ہے تیرے گلستان میں بھی فصل خزاں کا دور
خالی ہے جیب گل زر کا مل عیار سے
جو نغمہ زن تھے خلوت اوراق میں طیور
رخصت ہوۓ ترے شجر سایہ دار سے
شاخ بریدہ سے سبق اندوزہو کہ تو
نا آشنا ہے قاعدہ روز گا ر سے
مّلت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے اوی د بہار رکھ

Tuesday, February 24, 2009

حال ہما را جا نے


پتا پتا بو ٹا بوٹا حال ہما را جا نے ہیں
جانے نہ جانے گل ہی نہ جا نے باغ تو سارا جانے ہیں
عاشق سا تو سادا کوۂی اور نہ ہو گا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اسکے اپنا دوارا جانے ہیں
چا رہ گری بیما ری ء دل کی رسم شہرۂحسن نہیں
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جا نے ہیں
عاشق تو مردا ہیں ہمیشہ جی اٹھتا ہیں دیکھتے ہی
یار کے آ جانے کو یکا یک عمر دوبارہ جانےہیں
کیا کیا فتنے سرپہ لا تا ہے معشوق اپنا
جس بے دل بے تاب ۂ تباں کو عشق کا مارا جا نے ہین
تشنہ خوں ہیں اپنا کتنا میر بھی کتنا تلخی کش
دمدار آب اےتیغ کو اسکے آپ گوارہ جانے ہیں

Sunday, February 22, 2009

کالا باپ اور گورا باپ

کچھ دنوں پہلے ہمارے پڑوس میں نۓ لوگ رہنے کے لۓ آۓ ۔ان کے رہن سہن کے طریقے سے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ لوگ کون ہے ۔یا پھر کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔بعد میں یہ معلوم ہوا کہ وہ لوگ گجراتی مسلم ہے ۔انکی لڑکی فلموں میں کام کرتی ہے ۔اور ماڈلنگ بھی کرتی ہے ،انکے گھر کا ماحول بھی بہت مختلف ہے ۔مجھے بھی ایک کہانی یاد آرہی ہے ، جس کا عنوان ہے ، کالا باپ اور گورا باپ ۔اس کہانی کے مصنف ہے ۔مہیپ سنگھ اس میں انہوں نے مسلم سماج میں شادی اورطلاق کے مسئلے کے ساتھ ساتھ اس کہانی میں بدلے ہوۓ جدید دور میں مسلم معاشرے کی جھلک بتائی ہے۔جو اپنے شوہر کے طرف سے ٹھکرائی ہوئی عورت اپنی دو چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ دکھ اور مصیبتوں کو جھیلتی ہے ۔شوہر جسکا نام یونس ہے ۔وہ دوسری بیوی کے ساتھ عیش و عشرت کی زندگی گزارتا ہے ۔بیوی کو تین بار طلاق کہکر اپنے بچیوں کے فرائض بھی پورے نہیں کرتا ہے ۔پہلی بیوی جسکا نام جمیلہ ہے۔ایک پردے والی اور برقع پوش خاتون تھی۔اسنے پردے اوربرقع کو چھوڑ کر مغریبی تہذیب کو اپنا کر فلمی دنیا کی رنگینیوں میں رس بس جاتی ہے ۔ دونوں لڑکیوں کو فلموں میں کام مل جاتا ہے ۔امیروں کی طرح زندگی
گزارتے ہیں۔دس سال کے بعد جب یونس واپس آتا ہے تو اسے بہت پچھتاوا ہوتا ہے کیوں کی اسکی بیٹی اسکو اپنا باپ ماننے سے انکار کرتی ہے اور یونس کو بیمار اور پھٹے حال مجبور لاچاردیکھ کر کہتی ہے کہ مجھے یہ کالا باپ نہیں چاہیے۔دل میں یہ خیال آتا ہے کہ ان حالات کا ذمہ دار کون؟؟؟

چلو پھر آج اسی بے وفا کی بات کریں



سزا کا حال سنائیں جزا کی بات کریں
خدا ملا ہو جنہیں وہ خدا کی بہت کریں
انہیں پتہ بھی چلے اور وہ خفا بھی نہ ہوں
اس احتیا ط سے کیا مّدعا کی بات کریں
ہما رے عہد کی تہذیب میں قبا ہی نہیں
اگر قبا ہو تو بند قبا کی بات کریں
ہر ایک دور کا مذہب نیا خدا لایا
کریں تو ہم بھی مگر کس خدا کی بات کریں
وفا شعار کئی ہیں ، کوءی حسیں بھی تو ہو
چلو پھر آج اسی بے وفا کی بات کریں

Friday, February 20, 2009

سکھ کا سایا



صدیوں سے انسان یہ سنتے آیا ہے
دکھ کی دھوپ کے آگے سکھ کا سایا ہے
ہم کو ان سستی خوشیوں کا لوبھ لوبھ نہ دو
ہم نے سوچ سمجھ کر غم اپنایا ہے
جھوٹ تو قاتل ٹھہرا اس کا کیا رونا
سچ نے بھی انساں کا خون بہایا ہے
پیدائش کے دن سے موت کی زد میں ہیں
اس مقتل میں کون ہمیں لے آیا ہے
اّول اّول جس دل نے برباد کیا
آخر آخر وہ دل ہی کام آیا ہے
اتنے دن احسان کیا دیوانوں پر
جتنے دن لوگوں نے ساتھ نبھایا

لگتا نہیں ہے جی میرا


New Page 1


لگتا نہیں ہے جی میرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عا لم نہ پا ئدار میں
بلبل کو پا سباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید تھی لکھی فصل بہار میں
کہۂ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغ دار میں
عمر دراز مانگ کے لاۓ تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گۓ دو انتظار میں
دن زندگی کے ختم ہوۓ شام ہو گئی
پھیلاکے پاؤں سوئیں گے کنج مزارمیں
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لۓ
دو گز زمیں بھی مل نہ سکی کو ۓ یار میں

Thursday, February 19, 2009

میمود


New Page 1





{ میمود }
کل شام میں نے '' شیلیش مٹیانی '' مصنف کی لکھی ہوءی کہانی 'میمود' پڑھی ۔ اس کہانی میں انہوں نے مسلم سماج میں اوسط طبقے کےلوگوں کی مختلف رسم ورواج اور انکی ذاتی مجبوریوں کو بتایا ہے کرداروں اور مکا لموں کو پڑھ کردل میں ایک ہوک سی اٹھی اور میری قلم بھی رک نہ سکی ۔مسلم اوسط طبقے کی خاتون جسکا نام جّدن ہے وہ بے اولاد ہے ۔اسکے دو سوتیلے بّچے ہیں ۔مگر وہ دونوں ہی اسکو اپنی ماں کا درجہ نہ دے سکے ۔ وہ اولاد کے پیار کے لۓ ترسی ہوءی ہے ایک چھوٹے سے بکرے کو اپنے بیٹے کو طرح پالتی ہے اسکا خیال رکھتی ہے اسکو اولاد کی طرح پیار کرتی ہے ۔ اسکا نام 'میمود' رکھتی ہے پڑوسیوں سے بکرے کے لے جھگڑے بھی کرتی ہیں میمود کو ہر پل اپنے ساتھ ہی رکھتی ہے میمود ۔میمود کرتے اسکی زبان نہیں تھکتی ۔بکرا بھی اسے بہت پیار کرتا ہے ایک فرمابردار بیٹے کی طرح ایک آواز پر اسکے ساتھ چل پڑتا ہے ۔پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میمود ایک بکرا نہیں ہے بلکہ اسکے پیٹ سے جنم لیا ہوا اپنا بیٹا ہے ۔انکے گھر کے حالات تنگدستی میں گزر رہے ہیں . اسکی سوتیلی لڑکی کی شادی کی تاریخ طے کرنے کے لۓ رائے بریلی سے مہمان آنے والے تھے پچھلی بار جب جّدن کے گھر والے ان کے گھر گۓ تھے تو ان لوگوں نے کافی مہمان نوازی کی تھی ان کےسامنے اپنی عزت تو رکھنی ہی تھی ۔فرسودہ روائتوں اوررسم و رواج کے حساب سے اچھے اچھے پکوان پکا کر مہمانوں کی خاطر مدارت کرنا بھی ضروری تھا ۔ مگر جیب تو خالی تھی ۔جّدن کے گھر والے یہ سوچتے ہیں کیوں نہ گھر چیز گھر
کے ہی کام آجا ۓ وہ لوگ میمود کو ذبح کر کے اسکے گوشت سے پلاؤ شوربہ کباب اور کوفتے بناکر مہمانوں کی خوب خاطر مدارت کرتے ہیں ۔اورخود بھی شیر شکم ہوتے ہیں ۔بوڑھی عورت جّدن اپنے شوہر اور رسم ورواج کے سامنے مجبور ہو کر خود کو کمرے میں بند کر لیتی ہے ۔وہ میمود کے لۓ زاروقطار روتی ہیں ۔رات میں اسکے سامنے میمود کے گوشت سے بنا ہوا پلاؤ کوفتے اور کباب لا کر رکھا جاتا ہے تو اسکا کلیجہ پھٹ جاتا ہے مگر وہ اپنی آواز باہر جانے نہیں دیتی کیوںکہ مہمان خانہ میں رشتہ پکّا ہورہا ہے ۔مہمانوں کی خاطر کی جا رہی ہے ۔جّدن کو وہ بات یاد آ رہی ہے کہ صبح سے ہی وہ اپنا منہ اسکے کان میں بھرا جا رہا تھا اور وہ اسکا تھوتھنا پکڑ کر دھکّا دیکر دور کر رہی تھی ۔میں کیا جانوں کہ بد نصیب چپکے جپکے سے کان میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ امّاں ''آج ہم چلے جائیںگے''

Sunday, February 15, 2009

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں



نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آسکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں
میرا رنگ روپ بگڑ گیا ،میرا یار مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں
پۓ فا تحہ کو ءی آۓ کیوں کوءي چا ر پھول چڑھا ۓ کیوں
کو ءي آ کے شمع جلا ۓ کیوں میں وہ بے کسی کا مز ا ر ہوں
نہ تو میں کسی کا حبیب ہوں نہ تو میں کسی کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہو ں جو اجڑ گیا وہ د یار ہو ں

Friday, February 13, 2009


کٹھن ہے راہ گز ر تھوڑی دور ساتھ چلو
بہت کڑا ہے سفر تھوڑی دور ساتھ چلو
تمام عمر کہاں کوئی ساتھ دیتا ہے
میں جانتا ہو ں مگر تھوڑی دور چلو
یہ ایک شب کی ملاقات بھی غنیمت ہے
کسے ہے کل کی خبر تھوڑی دور ساتھ ہے
ابھی تو جاگ رہے ہیں چراغ راہوں میں
ابھی تو دور ہےسحر تھوڑی دور ساتھ چلو

کٹھن ہے راہ گز ر تھوڑی دور ساتھ چلو
بہت کڑا ہے سفر تھوڑی دور ساتھ چلو
تمام عمر کہاں کوئی ساتھ دیتا ہے
میں جانتا ہو ں مگر تھوڑی دور چلو
یہ ایک شب کی ملاقات بھی غنیمت ہے
کسے ہے کل کی خبر تھوڑی دور ساتھ ہے
ابھی تو جاگ رہے ہیں چراغ راہوں میں
ابھی تو دور ہےسحر تھوڑی دور ساتھ چلو

Thursday, February 12, 2009

صو رت نہ ہوئی


کچھ طبیعت ہی ملی تھی ایسی چین سے جینے کی صو رت نہ ہوئی
جس کو چا ہا اسے اپنا نہ سکے جو ملا اس سے محبت نہ ہو ئی
جس سے اب تک ملے دل ہی سے ملے۔ دل جو بدلا تو فسا نہ بد لا
رسم دنیا کو نبھا نے کے ہم سے رشتوں کی تجا رت نہ ہوئی
دور سے تھا وہ کئی چہر وں میں ۔پا س سے کو ئی بھی ویسا نہ لگا
بے و فا ئی بھی اسی کا تھا چلن پھر کسی سے بھی شکا یت نہ ہوئی
وقت روٹھا رہا بچو ں کی طر ح راہ میں کو ءی کھلو نا نہ ملا
دوستی بھی تو نبھاۂی نہ گئی دوشمنی میں بھی عداوت نہ ہوءی

Tuesday, February 10, 2009

شب غم

Sunday, February 08, 2009

کبوتر لوٹ آیںگۓ


Friday, February 06, 2009

زندگی

Thursday, February 05, 2009

شکریہ


Wednesday, February 04, 2009

خاموش کیا رہے




Sunday, February 01, 2009

داتا


اتنی شکتی ہمیں دینا داتا
اتنی شکتی ہمیں داتا من کا وشواس کمزور ہونا
ہم چلے نیک رستے پہ ہم سے بھول کر بھی کوی بھول ہونا
دور اگیان کے ہواندھیرے تو ہمیں گیان کی روشنی دے
Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP