You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Saturday, November 24, 2012

ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کو مجیدیہ سلور جبلی ایوارڈ



                        ناقد، افسا نہ نگار، محقق اور صدر شعبۂ اردو، چو دھری چرن سنگھ یو نیورسٹی، میرٹھ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کو تعلیم کے فروغ کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں دہلی کے معروف مجیدیہ گروپ آف اسکولز نے انہیں مجیدیہ سلور جبلی ایوارڈ012 برا ئے فروغ تعلیم سے نوازا ہی۔ ڈا کٹر اسلم جمشید پوری کو یہ ایوارڈ شاہ آڈیٹویم، نزد کشمیری گیٹ بس اڈہ میں ایک شاندار پرو گرام میں سا بق چیف جسٹس ،ایم پی محترم فخرالدین اور دہلی کے ہر دلعزیز ایم ایل اے اور دہلی وقف بورڈ کے چیئر مین جناب چودھری متین احمد نے دیا۔ایوارڈ ایک شال، ایک سپاس نامہ، ایک ٹرافی اور 2100 روپے نقد پر مشتمل تھا۔
            واضح رہے کہ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری گذشتہ0برسوں سے تعلیم کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں۔ وہ متعدد تعلیمی اداروں سے وا بستہ ہیں۔ مختلف تنظیموں کے ذریعہ وہ تعلیم اور اردو کے فروغ کے لیے ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ یہی نہیں آپ نے صحافت کے میدان میں بھی خاصی خدمات انجام دی ہیں۔ کئی رسا لے آپ کی ادارت میں شائع ہو رہے ہیں۔ آپ معروف افسا نہ نگار اور نئی نسل کے اہم ناقد کے طور پر بین الاقوامی شناخت رکھتے ہیں۔آپ کی تقریبا ڈیڑھ درجن کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ بے شمار طالب علم آپ کی نگرا نی میں تربیت حاصل کر کے آج مختلف عہدوں پر کام کررہے ہیں۔آپ کے میرٹھ قیام کے دوران مغربی اتر پردیش کے اردو حلقوں میںنئی روح سرایت ہو ئی ہی۔
            مجیدیہ سلور جبلی ایوارڈ سے نوازے جانے پر احباب اور طالب علموں نے انہیں مبارک باد دی۔ خصوصا ڈاکٹر آصف علی، محترم آ فاق احمد خاں، محترم ذیشان خاں،محترم سید اطہر الدین، ڈاکٹر شاداب علیم، قاری شفیق الرحمن قاسمی، سعید احمد سہارنپوری ،طالب زیدی وغیرہ نے اظہار مسرت کیا اور مبا رک باد دی

ٹیسٹاسیلواد کو اعزاز


ممبئی امن کمیٹی ،علماءکونسل ،جمعیت علما خیر امت ٹرسٹ ، اردو مرکز اور جماعت اسلامی  کے  اشتراک سے آج کاؤس ہال ( میٹرو سینما) میں 2002 میں گجرات میں نریندر مودی اینڈ کمپنی کے ذریعہ کراۓ گۓ مسلمانوں کے زبردست قتل عام کے  خلاف پوری قوت سے آواز بلند کرنے والی  سماجی شخصیات کی مسلم تنظیموں  کی جانب زبردست پذیرائی  کی گئی اور ان کی خدمات کو سراہا گیا ۔معروف سماجی خادم ٹیسٹاسیتلواد نے اس موقع پر  اپنے خیالات  کا اظہار  کرتے ہوۓ کہاکہ  فرقہ وارانہ تشددبل پاے کروانے کا یہ بہترین موقع ہے  ۔ اس موقع پر ہمیں متحد ہوکر حکومت پر دباؤ  ڈالنا چاہیے ۔ انھوں نے  فاروق ماپکر اور اپنی ٹیم کے  دیگر ارکان کو سلام  تو کیا اور مہاراشٹر گورنمنٹ کو آڑے ہاتھوں ہیتے ہوۓ  کہا کہ حکومت نے سر ی کرشنا کمیشن کے نفاذ کے نام پر  الیکشن  تو جیتے  لیکن  اس کو آج تک نافذ نہیں کیا اور ( مہاراشٹر) کے فساد متاثرین  کو انصاف نہیں ملا ۔
یہ تقریب کا مقصد تھا کہ گجرات میں فساد ذدگان کے لیے جدوجہد  کرنے والوں کو اغزازات سے نواز کر ان  کےکاموں کا اعتراف کیا جاۓ ۔اس تقریب میں آر بی  سری  کمار ، مولانا سجّاد نعمانی ، جسٹس باسبٹ  سریش  مولانا خلیل الرحمن  ، میگزین تہلکہ  کے ایڈیٹر  اشیش کھیتان  اور شہر و اطراف بہت سی اہم شحضیات موجود تھیں ۔اور کافی تعداد میں  لوگ موجود تھے ۔  نظامت کے فرائض امتیاز خلیل نے انجام دیے ۔




Friday, November 23, 2012

حضرت امام حسان


یہ احسان عظیم ہے کہ امام حسین نے اسلا م کو زندہ کردیا
حضرت امام حسین اور حضرت امام حسین ''حضرت  محمد صلی اللہ  علیہ وسلم  کے نواسے  یعنی شہزادی کونین خاتون جنت  فاطمتہ الزہرہ  اور حضرت علی  کے فرزند تھے اور ان کی رکنیت ابو عبداللہ ہے ۔ آپ اکثر فرما یا  کرتے تھے کہ میرے دو نوں نواسے  ایسے پھول  ہیں جس کی خوشبو سے میری زندگي  معطر  رہتی ہے ۔اہل   بیت میں آپ سب سے زیادہ اپنے نواسوں سے ہی پیار کرتے تھے ۔امام حسین کا سراپا   حضور پاک کے  جیسا تھاے دیا  ۔اہل بیت  کے  یہ اصول تھے کہ  کوئی  بھی بھوکا  شخص ان  کے در  پر آجاتا تو اپنے حصے کا کھانا  اور پانی  تک اسے دے دیا کرتے  تھے ۔ایسی فطرت رکھنے والے کو یزید نے  دھوکے سے  کوفہ میں بلاکر   بے وفائی  کی رسم  ادا کی  اور زندگی سے منسلک  تمام  چیزوں پر پہرے لگوادیئے۔
امام  عالی مقام نے یہ جنگ حق  و صداقت کی   بالا دستی  اور مذہب  اسلام  کی عظمت  کے لیے  لڑی  تھی ۔ یہاں  تک کہ انھوں نے  اپنے  اصولوں  کے لیے  یذید کے آگے  سر جھکانے کے  بجاۓ  کربلا  میں  سر کٹا کر  اسلام  کو زندہ  کردیا ۔دین کے لیے قربان ہو کر  اپنے نانا کی امّت پر انہوں نے  احسان عظیم  کیا  تا قیامت یہ احسان احسان ہی رہے گا ۔
 ( اثّر ستار )




Sunday, November 18, 2012

مولانا آزاد اور غبار خا طر


امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کا شمار ملک کی ان عظیم شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی ملک و قوم کی خدمت کیلئے وقف کردی تھی۔مولانا موصوف نے اپنی انتھک جد و جہد اور مخلصانہ خدمات سے ملک و قوم اور ادب کی دنیا کو بہت فائدہ پہونچایا ہی۔وہ ایک ساتھ کئی حیثیتوں کے مالک تھے ان کو جہاں ہم ایک ممتاز ادیب ،صحافی اور انشاء پرداز کے روپ میں دیکھتے ہیں وہیں ایک عظیم مفکر ،دانشور ،فلسفی اور ماہر سیاستداں کی صورت میں بھی ہمارے سامنے آتے ہیں ۔مولانا کے مزاج میں خود داری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔زندگی کا بڑا حصہ مشکلات اور قید و بند میں گذرا۔
        قلعہ احمد نگر کی اسیری کے دوران مولانا آزاد نے کچھ خطوط اپنے رفیق خاص مولانا حبیب الرحمن خاں رئیس بھیکم پور کو لکھے تھے یہ خطوط رہائی کے بعد شائع ہوئے اور غبار خاطر کے عنوان سے منظر عام پر آئے ۔ دوران اسیری زندان کی آہنی سلاخوں سے باہر کا راستہ مولانا سے کاٹ دیا گیا تھا ۔ان کو اپنے دوست احباب سے بھی خط و کتابت کی اجازت نہیں تھی چند ایک اخبار کے علاوہ جرائد و رسائل بھی ان تک نہیں پہونچ سکتے تھی۔ اپنی علمی اور ادبی نیز تحریری تشنگی کو بجھانے کے لئے یہ خطوط موصوف نے تحریر فرمائے نیز جیسا کہ اس کتاب کے دیباچہ میں درج ہے کہ ان کے سکریٹری کی درخواست پر یہ شائع ہوکر اردو ادب کی گرانقدر پونجی میں ایک نئے اضافے کا سبب ہی۔
        بیسویں صدی کا نصف اول سائنس و ایجادات کا زریں دور تھا ۔اس عہد میں ادب کے افق سے مرصع نگاری مسجع کاری اور پیچیدگی و مشکل پسندی کے کالے بادل چھٹ چکے تھے اور ادب کی دنیا سادگی و سلاست ،متانت و سنجیدگی اور لطافت و شیرینی کے خوشگوار ماحول میں داخل ہو چکی تھی ۔اس دور نے ادبی دنیا کو عوامی رشتہ سے جوڑا ۔اس قول کی صداقت کے نمونے ہم غالب ،سر سید ،حالی ،نذیر اور آزاد وغیرہ کی تخلیقات میں دیکھ سکتے ہیں لیکن اس سے ہٹ کر مولانا آزاد کی نگارشات و تخلیقات جن اچھوتے رنگوں سے بھری ملتی ہیںوہ فی الواقع انہیں کا حصہ ہیں۔قدیم و جدید کا حسین امتزاج ہی۔تحریر میں جہاں مرصع نگاری اور مسجع کاری کے فن کا کامیاب مظاہرہ کیا ہے وہیں لطافت و رنگینی ،متانت و سنجیدگی کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے نثر میں نظم کا لطف آتا ہے ۔تحریروں میں فلسفیانہ انداز اور مفکرانہ گہرائی نمایاں ہے مگر موضوع سے مربوط اور ہم آہنگ ہوتی ہیں۔موصوف کے اعصاب رموز شاعری سے کس حد تک آ شنا تھے اس کا اندازہ غبار خاطر کو پڑھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ۔۳۲ مکتوبات پر مشتمل ۸۸۲ صفحات کا احاطہ کرنے والی اس کتاب میں تقریباً چھ سو (۰۰۶) اشعار اس خوبی کے ساتھ استعمال کئے گئے ہیں کہ ہر شعر اپنی جگہ درست و چست اور ہم آہنگ ہے کہیں پر کوئی کھٹک محسوس نہیں ہوتی ۔عبارت کا ہر نمونہ جمالیاتی ذوق اور لطافت و رنگینی کا ایسا شاہکار ہوتا ہے کہ پڑھتے جایئے اور جھومتے جایئے ۔البلاغ اور الہلال وغیرہ مولانا کی صحافتی زندگی کے بہترین غماز ہیں ۔ان میں انداز گفتگو خطیبانہ ہے ۔بعد مطالعہ یہ کہنا ہر گز مبالغہ نہیں ہو گا کہ نگارشات غبار خاطر مصنف کی ناقابل تسخیر فنی مہارت ،علمی بصیرت نیز قادرالکلامی پر دال ہیں۔
        خطوط غبار خاطر میں سیاست ،فلسفہ ،ادب ،مذہب ،سائنس ،طنز و مزاح ،تاریخ نیز فنون لطیفہ و دیگر موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ، اس اعتبار سے بعض حیثیتوں سے یہ خطوط مکتوب نگاری کے فن سے الگ نظر آتے ہیں پھر بھی

Friday, November 16, 2012



Tuesday, November 13, 2012

دیوالی

  
۔ 
 ۔
 دیوالی روشنیوں اور خوشیوں کا تہوار ہے ۔ا اس دن نیکی کی بدی پر جیت ہوئ  تھی ہم لنترانی ( اردو فیملی  کی طرف سے  تمام وزیٹرس کو دیپاولی ،یوالی    کی مبارک باد پیش کرتے ہیں ۔اور آنے والے نۓ سال کے لیے نیک خواہشات پیش کرتے ہیں 

Sunday, November 11, 2012

یوم تعلیم





عوامی وکاس پارٹی کے قومی صدر شمشیر خان پٹھان نے مولانا  ابولکلام  آزاد  کی 125 ویں یوم ولادت کے موقع پر  پارٹی کے دفتر میں منعقدہ ایک  تقریب   سے  خطاب  کرتے ہوۓ کہا  کہ مولانا نے ہندومسلم اتحاد کا جو خواب دیکھا تھا اسے شرمندہ  تعبیر کرنے کے لیے  ہم کو بغیر کسی مذہب و ملّت کے  بھائی  چارہ  کے ساتھ  ایک دوسرے کے شانہ بشانہ  کام کرنے کی ضرورت ہے ۔تاکہ انھوں نے جو شمع  روشن کی  تھی  س کا اجالا  دور  دور تک  پھیلے ۔ملک  کی موجودہ صورت حال   کے مسائل  پر اپنے  خیالات  کا   اظہار کرتے ہوۓ کہا کہ آج ہمارے  سیاست دانوں  نے  اپنے   سیا سی  مفاد  کے لیے  عوام کو مختلف  حصوں میں بانٹ  دیا   ہے ۔ ہندو مسلمانوں  کو قریب  لانے  کی بجاۓ  دونوں  قو موں  کو آپس میں ٹکرا کر  اپنا  الّو  سیدھا  کیا ہے ۔اور وہ اس  میں کامیاب  بھی ہوۓ ہیں ۔اب ہمارا مقصد ہے امن و امان  قائم رکھیں۔ کوئی بھی اچھا کام کرے تو ہم اس کا ساتھ ديں  لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لائيں       ۔جن کے ساتھ نا انصافی ہو تی  ہیں ان کے لیے آواز  اٹھائيں ۔
اس موقع پر مشہور صحافی ہارون افروز  نے اپنے تاّثرا ت میں  بھارت کے آئين کے آرٹیکل  کا  تذکرہ  کرتے ہوۓ  کہا کہ آئين ہند  نے تمام ہندوستانیوں کو بلا  لحاظ مذہب و ملت  کے ایک جیسا  درجہ دیا ہے ۔مگر یہاں  کے ہندوستانی  مسلمان  جو یہاں کی دوسری  سب سے بڑی    اکّثریت ہے اس فائدہ سے محروم کردی  گئي ہے ریاست  مہاراشٹر میں  ایک  ہندو کھاٹیک  کو  ریسرویشن   کی جو مراعات    حاصل  ہے ۔ وہ مسلم گھاٹیک ( قریشی) کو  دستیاب نہیں ہے ۔آ خر  یہ  دو راۓ  معیار  کیوں ہے ؟ آج کے اس یوم تعلیم کے موقع پر قومی صدر نے یہ اعلان کیا کہ اس معاملے کے حل کے لیے ہم بہت جلد ہی بڑے پیمانے پر بلکہ ملک گير  سطح پر  ایک بڑا آند ولن  شروع کریں گے ۔ستیہ گرہ بھی کریں گے ۔تاکہ ہندوستانی اقلیتوں  اور پچھڑے  ہوۓ  طبقوں  کو ان کا حق  ملے ۔اور ہمیں یقین ہے کامیابی ضرور ہوگي ۔اس پروگرام کی نظامت ڈاکٹر ریشما نبی ادریسی  (عوامی وکاس پارٹی کی مہیلا  جنرل سیکریٹری ) نے  کیں ۔مہمانان میں غزالہ آزاد ، منور آزاد ،اسلم خان   گنپتی اناچی ،نگار ،سائرہ  ایس  خان ، اور بہت  سے پارٹی ورکر موجود تھے ۔  اس خوشی کے موقع پر مٹھائی  تقسیم کی گئی ۔ رسم شکریہ کے فرائض منور  سلطانہ  نے انجام دیۓ ۔راشٹریہ گیت کے ساتھ ہی اس تقریب کا اختتام ہوا ۔ 

Saturday, November 10, 2012


Thursday, November 08, 2012

پریس کانفرنس



بدھ کو مراٹھی پترکار سنگھ میں منعقدہ پریس کانفرنس میں عوامی و کاس پارٹی کےقومی صدر شمشیر  خان پٹھان  نے کہا کہ ہر سال  عیدالضحی کے موقع پر  ہندوتوا وادی  تنظیموں کے ذریعے  قربانی کے  جانوروں  کی گاڑیوں کو  روکنے کی شکایتیں موصول ہوتی ہے ۔جس سے نظم و نسق کا خطرہ لاحق    ہو جا تا ہے ۔ اس لیے ہندو وتوا تنظیموں  کے ساتھ  بات چیت  کی جاۓ گی ۔افہام و تفہیم کے ذریعے  اس مسئلے کا حل نکالا جاۓ گا ۔قومی صدر نے کہا کہ عوامی وکاس پارٹی نے جو پہل کی ہے  اس سے قبل کسی نے نہیں کی ۔  انھوں نے کہا کہ یہ پارٹی  اس طرح کے سارے مددوں  پر آواز اٹھاۓ گی ۔ یہ کوئی خاص طبقے کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ عوام کے وکاس  یعنی ترقی کے لیے گامزن ہے ۔عوامی وکاس پارٹی کے نام کی تشریح کرکے بتائيں ۔ اور یہ اعلا ن کیا کہ انصاف کی لڑائی جاری رہے گی اور عوام کے مفاد کےلیے کسی سے بھی کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کیا جاۓ گا ۔پریس کانفرنس کے موقع پرعوامی وکاس پارٹی کے جنرل سکریٹری سلیم الوارے  ممبئی مہیلا ادھیکش ڈاکٹر ریشما  نبی ادریسی ۔اعجاز مقدم اور بہت سے پارٹی  ارکان موجود تھے ۔   

Monday, November 05, 2012

جسٹس مارکنڈے کاٹجو



جوہو پر واقع جے ڈبلیو میرٹ ہوٹل کے بال  روم میں منعقدہ کانفرنس سے  خطاب کرتے ہوۓ وزیر اعلی  پرٹھوی راج  چوہان  نے کہا کہ ''  سینما نے  اردو کو چھوڑ دیا  جس کا مجھے بے حد  افسو س ہے ۔ یہ بات بھی  قابل    افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں  کچھ لوگ   اردو کو مذہب  کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہو گۓ ہیں ۔ ہم اردو کو سر کاری طور پر پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں ۔اور چاہتے ہیں کہ نئي نسل اردو تہذیب  و ثقافت سے جڑے  کیونکہ یہ بہت ضروری ہے ۔شری چوہان نے یہ بھی کہا کہ اگر اردو اور مراٹھی اسکولوں میں انگریزی کی تدریس  پر خاص توجہ دی جاۓ تو والدین  اپنے بچوں کو  انگریزی میڈیم کے اسکولوں  میں داخل کرنے سے باز رہ سکیں گے ۔ انہوں نے ''اردو وراثت کارواں ''کی ستائش کرتے ہوۓ کہا کہ جسٹس     مارکنڈےکاٹجو کی  کی سر پرستی میں  یہ  ایک اچھا قدم  اٹھایا گیا ہے جو قابل مبارکباد ہے ۔وزیر اعلی نے فخریہ انداز میں یہ بتایا کہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم کی تقریر اردو میں لکھی ہوتی ہے ۔کاٹجو صاحب نے کہا کہ سنسکرت اور اردو کو پہلی جماعت سے پانچویں تک لازمی  کر دینا چاہیے تاکہ ان زبانوں کو سیکھ جائيں۔   اس کانفرنس میں  مشہور شاعر و نغمہ نگار جاوید اختر ۔ مہیش بھٹ ، جسٹس مارکنڈے کاٹجو   ،  ڈاکٹر   خواجہ اکرام الدین  ( ڈائریکٹر آف  این سی پی یو ایل ) وزیر مملکت عارف نسیم خان ، ایڈوکیٹ مجید میمن ،ممبر سیکریٹری  مہاراشٹر اردو ساہیتہ اکیڈمی ڈاکٹر قاسم امام ، آصف اعظمی ،  رما پانڈے ، رومی جعفری اورانو ملک نے بھی  خطاب کیا ۔کافی لوگوں نے اس سیمینار میں شرکت کی اور مقررین کو سنا ۔ پو لیس افسر قیصر خالد کے شکریے کے ساتھ  یہ کانفرنس  رات دس بجے اختتام کو پہنچی ۔

ارادے سو گنا بڑھ گۓ ہیں





عیدالضحی کے موقع پر ممبئی  کے دیونار مذبح چانے میں سرکاری  کاموں میں  دخل اندازی کرنے کے الزام  تحت سابق اسسٹنٹ کمیشنر آف پولس شمشیر خان پٹھان  کو آج کرلا کورٹ کی عدالت میں پولس کی حفاظت میں  پیش کیا گیا  تو وہاں پولس کی   کثیر تعداد کے ساتھ ساتھ  پارٹی کے کارکان کی بھی بھیڑ تھی  ۔انھیں عدالت میں 4 بجے حاضر کیا گیا ۔عصر کی اذان کے وقت عدالت کے مجسٹریٹ  نے    ضمانت منظور کی ۔رہائی کے بعد انھوں نے اخباری نمائندوں سے بتایا کہ کہ وہ بے قصور ہیں ۔ ان کی پارٹی کو کمزور کرنے کے ارادے سے یہ کاروائی کی گئی ہے ۔اپنے حقوق کی حفاظت  کے لیے اور نا انصافی کے  خلاف  ایک دن تو کیا اس سے زائد  دن بھی پولس کی  تحویل میں رہنا پڑے  تو وہ اس کے لیے تیار ہیں ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی پارٹی کی  بڑھتی ہوئي  مقبولیت سے بوکھلا کر  بر سر اقتدار جماعت نے ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ  دائر کردیا ہے ۔ لیکن اس سے ان کے حوصلے  پست  نہیں بلکہ  سو گنا بڑھ  گۓ ہیں ۔اور وہ قوم کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گۓ۔
شمشیر خان پٹھان  صاحب  قوم سے  والہا نہ محبت کرنےوالے  پر اّثر شخصیت کے مالک ہیں ۔ان کے عزائم و مقاصد نیک ہیں ۔ہم دعا گو ہیں کہ اللہ انھیں اپنے مقاصد میں کامیابی عطا کریں ۔  آمین ثمہ آمین ۔

Sunday, November 04, 2012

تصو ّف اور پنجاب










پنجاب کے صوفیائے کرام کی عطا سے تصو ّف کی کائنات مالا مال ہوئی ہے  :  پروفیسر اخترالواسع
’’تصو ّف اور پنجاب ‘‘کے موضوع پر پنجاب اُردو اکادمی کادو روزہ قومی سیمینار کامیابی سے اختتام پذیر ۔پورے ملک سے اُردو دانشوروں کی شرکت
            مالیرکوٹلہ 3نومبر 2012  ( پریس ریلیز )  پنجاب اُردو اکادمی کی جانب سے قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان ، نئی دہلی کے اشتراک سے گورنمنٹ کالج مالیرکوٹلہ کی آرٹ گیلری میں منعقدہ دو روزہ قومی سیمینار کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ سیمینار کی افتتاحی تقریب کی صدارت مفسّر قرآن ورکن آل انڈیا مُسلم پرسنل لا بورڈ مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی صاحب نے فرمائی اور کلیدی خطبہ معروف اسلامی دانشور اور دہلی اُردو اکادمی کے نائب صدر پروفیسر اخترا الواسع نے پیش کیا ۔ مالیرکوٹلہ کے ایس۔ ڈی ۔ایم جناب راجیش ترپاٹھی مہمان اعزازی کے طور پر شریک ہوئے اس تقریب میں چودھری چرن سنگھ یونی ورسٹی کے صدر شعبۂ اُردو ڈاکٹر اسلم جمشید پوری بھی بطور خاص تشریف لائے ۔
            اکادمی کے سیکرٹری ڈاکٹر محمد اقبال نے موضوع کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ سر زمین پنجاب نے علوم و فنون تہذیب و تمدن کے ارتقاء میں نمایاں رول ادا کیا ہے اور تصو ّف کی تاریخ بھی پنجاب کا ذکر کئے بغیر کسی طور مکمل نہیں ہوتی ۔ انھوں نے کہا کہ پانچ دریاؤں کی سر زمین میں چھٹا دریا تصو ّف اور روحانیت کا رواں دواں رہا ہے ۔ اکادمی کے تیسرے قومی سیمینار کے انعقاد کو انھوں نے نیک شگون قرار دیا ۔ پروفیسر اخترالواسع نے اپنے پر مغز کلیدی خطبہ میں پنجاب اور تصو ّف کے باہمی رشتہ پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے صوفیائے کرام اور بزرگانِ دین کی عطا سے تصو ّف کی کائنات مالا مال ہوئی۔ پروفیسر اخترالواسع نے مختلف شہادتوں اور مثالوں سے تصو ّف کی تعریف و توضیح کرتے ہوئے پنجاب کے روحانی ماحول پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ پروفیسر اخترالواسع نے مالیرکوٹلہ اور کالج کے ساتھ اپنے قدیم رشتہ کو بھی بیان کیا انھوں نے اہم موضوع پر سیمینار کے انعقاد کے لیے منتظمین کو مبارکباد پیش کی ۔ افتتاحی تقریب کی نظامت ڈاکٹر ندیم احمدنے فرمائی اکادمی کے رکن ڈاکٹر انوار احمد انصاری نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ سیمینار کے تعلیمی اجلاسوں میں مختلف دانشوروں نے اپنے مقالے پیش کئے ۔ تین مختلف تعلیمی نشستوں کی مجلس صدارت میں پروفیسر اخترالواسع ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ فلسفہ کے ڈاکٹر لطیف حسین کاظمی اور گورنمنٹ کالج مالیرکوٹلہ کے پروفیسر عبدالرشید شامل تھے ۔ دوسری مجلس کی صدارت میں پروفیسر ڈاکٹر منظور حسن ، پروفیسر دھرم چند واتش،ڈاکٹر اسلم جمشید پوری اور تیسری تعلیمی اجلاس کی مجلس صدارت میں نامور سنسکرت دانشور پروفیسر ڈی ۔ڈی۔ بھٹّی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے ڈاکٹر شکیل اختر شامل تھے ۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر منظور حسن نے بحسن و خوبی ادا کئے ۔
            جن دانشوروں نے اپنے مقالے تینوں اجلاسوں میں پیش کئے ان میں پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کے ڈاکٹر محمد حبیب، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے شعبۂ اسلامک اسٹڈیز کے ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق تجاروی ، گوتم بدھ یونیورسٹی نوئیڈاکی ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ، این ۔آر۔ ایل ۔ سی پٹیالہ کے ڈاکٹر ندیم احمد اور پنجابی کے دانشور پروفیسر ڈاکٹر راجندر سنگھ ،مالیرکوٹلہ کے ڈاکٹر محمد اقبال ، مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی ، ڈاکٹر سلیم زبیری ، جناب عابد علی خان ، ڈاکٹر اسلم جمشید پوری،ڈاکٹر ندیم احمد، پنچکولہ سے ڈاکٹر دیس راج سپرا، ڈاکٹر منظور حسن اور لدھیانہ سے ڈاکٹر کیول دھیراورعلی گڑھ کے ڈاکٹر لطیف حسین کاظمی قابل ذکر ہیں ۔ ان تمام دانشوروں نے تصو ّف اور پنجاب کے باہمی استوار رشتہ کے مختلف پہلوؤں کو مدلل اور محققانہ انداز سے بیان کیا۔ مختلف دانشوروں نے پنجاب کے نامور صوفیاء کی حیات و تعلیمات کے مختلف گوشوں کو مو ٔثر انداز سے پیش کیا۔ تحقیقی مقالوں میں پنجاب کے تصو ّف کے تئیں گرانقد عطا کا احاطہ کیا گیا۔
            اختتامی تقریب کی صدارت ہریانہ اُردو اکادمی کے ڈائرکٹر ڈاکٹر دیس راج سپرا نے فرمائی اور مہمانان میں ادیب انٹر نیشنل لدھیانہ کے چیرمین ڈاکٹر کیول دھیر اور چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اُردوڈاکٹر اسلم جمشید پوری شامل تھے ۔ اختتامی تقریب کو خطاب کرتے ہوئے اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا کہ گزشتہ سال جب انھیں اکادمی کے سکریٹری کی ذمہ داری سنبھالی گی تو ان کی اولین خواہش اس اکادمی کو فعال اور سرگرم بنانے کی تھی ۔ اس عرصہ میں منعقد تین قومی سیمینار اسی کوشش کا حصّہ ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ وہ ابھی تک منزل کو حاصل نہیں کرپائے ہیں انھوں نے محبان ِ اُردو کے تعاون کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہ وہ خد اکے فضل اور محبان اُردو کی نیک خواہشات سے اُردو اکادمی کو ملک کی صفِ اوّل کی اکادمی بنانے کے لیے کوشاں ہیں ۔
            مختلف مقررین نے پنجاب اُردو اکادمی کو جمود سے نکالنے کے لیے ڈاکٹر اقبال کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے دو روزہ قومی سیمینار کو اکادمی کی اہم کامیابی سے تعبیر کیا۔ تقریب میں تمام اُردو دانشوروں اور مہمانوں کا اعزازو کرام بھی کیا گیا۔ اس سیمینار میں پنجاب کے مشہور افسانہ نگار جناب کرشن بیتاب کا افسانوی مجموعہ ’’شعلوں پر برف باری‘‘ ، مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی کی کتاب’’سیدھا راستہ ‘‘ کاڈاکٹر انوار احمد انصاری کی طرف سے پنجابی میں ترجمہ کی گئی کتاب کی رسم اجراء بھی عمل میں آئی ۔ اکادمی کی طرف سے پاسدارن اُردو پنجاب ( رجسٹرڈ )کے جنرل سکریٹری اورناور اُردو و پنجابی شاعرجناب ناز بھارتی نے تمام حاضرین و مندوبین کا شکریہ ادا کیا۔

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP