You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Sunday, January 26, 2014

Monday, January 13, 2014

Eid-E-Milad Mubarak


Tuesday, January 07, 2014

مراٹھی ساہتیء

  مراٹھی ساہتیہ سمیلن میں قرآن اور دیگر مراٹھی اسلامی لٹریچر کی زبردست مانگ 
          اس سال کل ہند مراٹھی ساہتیہ سمیلن کا 87 واں اجلاس پونے کے ساہسواد میں منعقد ہوا ۔ساہسواد، دریائے کارتھا کے کنارے پونے کا ایک شہر ہے ۔ہر سال کی طرح اس سال بھی جماعت اسلامی کے ذیلی اشاعتی ادارہ اسلامک مراٹھی پبلیکیشن ٹرسٹ نے مراٹھی ترجمہ قرآن اور دیگر مراٹھی اسلامی لٹریچر کا اپنا اسٹال لگایا تھا ۔مراٹھی ساہتیہ سمیلن کی ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس میں دور دراز سے مراٹھی نام پر شامل ہوتے ہیں جس میں ایک کثیر تعداد گائوں دیہات کے سیدھے سادھے لوگوں کی ہوتی ہے ۔ایسے ہی گائوں کے لوگوں کیلئے اسلامک مراٹھی پبلیکیشن ٹرسٹ کا اسٹال دلچسپی کا سبب تھا ۔انہیں یہ جان کر تعجب ہو رہا تھا کہ قرآن اور اسلامی لٹریچر مراٹھی میں بھی موجود ہے ۔انہیں اس بات کی خوشی تھی کہ اب ہم قرآن اور اسلام کا مطالعہ ہم اپنی زبان میں کر پائیں گے اور اللہ کی کتاب کو ہم ے لوگوں میں اکثریت غیر مسلموں کی تھی ۔اس اجلاس میں قرآن کے مراٹھی ترجمہ کے 400 سے زیادہ نسخے لوگوں نے لئے اسی کے ساتھ ہی پچاس ہزار سے زائد کے اسلامی لٹریچر بھی لوگوں نے لئے ۔ واضح ہو کہ اسلامک مراٹھی پبلیکیشسمجھ پائیں گے ۔یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن اور دیگر اسلامی لٹریچر لینے والن ٹرسٹ نے قرآن کا مراٹھی ترجمہ کا اٹھارہواںایڈیشن اور دو سو سے زیادہ ٹائیٹل میں اسلامی لٹریچر شائع کیا ہے

          


۔

Sunday, January 05, 2014

ڈیمیج کنٹرول : متاثرین سے ہمدردی یا ووٹ بینک کی درستگی

ڈاکٹر اسلم جمشید پوری


            یہ زبان بھی کیا عجیب شئے ہی؟ الفاظ، وقت حا لات اور استعمال سے کیسے کیسے معنی دیتے ہیں۔ انگریزی سے دور دور ہنے وا لے اور ہندی اور اردو کا دم بھرنے وا لے بھی انگریزی کے بعض الفاظ کا دھڑ لے سے استعمال کر نے سے خود کو روک نہیں پاتے ہیں۔ سو شل انجینئرنگ سے تو آپ سب وا قف ہو ہی گئے ہو ں گی۔ اب ڈیمیج کنٹرول کا استعمال ہندی اور اردو رو زناموں میں تیزی سے ہو رہا ہی۔ مظفر نگر فساد کے بارے میں قیا فہ شناس بھی حیران ہیں کہ ایسا تو نہیں سو چا تھا۔ مجھے لگتا ہے منصو بہ بنا نے وا لوں کے بھی وہم و گمان میں نہیں ہو گا کہ اونٹ اس کروٹ بیٹھ جا ئے گا۔
            بعض لو گوں کا ماننا ہے کہ چو را سی پریکرما کی طرح مظفر نگر فساد بھی بی جے پی اور سماج وا دی کا ایک منصو بہ بند ڈرامہ تھا۔کچھ لوگوں نے اسی’’فکسڈ‘‘ بھی قرار دیا۔ کچھ نے اسے دو پہلو انوں کی’نو را کشتی‘ سے بھی تعبیر کیا۔۔ چو را سی پریکرما اور مظفر نگر فساد کے ابتدا ئی کے دنوں کے حا لات سے قیاس کرنے وا لوں کی بات میں کچھ دم ضرور نظر آرہا تھا۔ لیکن رو ز بروز بدلتے منظر نامے نے مظفر نگر فساد کی تصویر کو خا صا تبدیل کر کے رکھ دیا ۔ فساد کے متا ثرین کے آ نسو، آہیں، بے دری، بھوک، پیاس، خوف، دہشت وغیرہ نے معمولی فساد سمجھ رہے لوگوں کی آنکھیں کھول کر رکھ دیں۔ اب جو حقیقتیں سامنے آنے لگیں تو پتہ چلا کہ قتلِ عام ہوا ہی۔گھروں اور دکانوں میں آ تش زنی کی گئی ہی۔ عورتوں اور لڑکیوں کی عصمتیں بھی تار تار ہو ئی ہیں اور یہ سب حفاظت کے ذمہ داروں کے سا منی، ان کی شہ اور ان کی شمو لیت کے سا تھ ہوا۔معاملات کی نزاکت اور شدت نے سب کچھ تبدیل کردیا۔ گجرات کا منظر نامہ، نظروں میں زندہ ہو گیا۔ سماج وا دی پارٹی کی آ نکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اتر پردیش کو ہر طرح محفوظ رکھنے کا وعدہ کرنے وا لی سر کار اتنی ناکام کیسے ہو گئی۔ مانا نفرت کی آگ پھیلانے وا لے مخصوص جماعتوں کے تھی، ان کی نشاندہی بھی کی گئی لیکن کوئی بتائے کہ اس قدر بڑے پیمانے پر تبا ہی کیا ایک دو دن میں برپا ہو تی ہی۔ یہ تو مہینوں کی تیاری کا پیش خیمہ ہی۔ ایسے میں سر کاری انتظا میہ، پولس آ فیسران کیا کررہے تھی؟ ملزمین کو قابو میں کیوں نہیں کیا گیا؟ خدا کا شکر ہے کہ ڈی جی پی، اتر پردیش نے پولس افسران کی خامی کو قبول تو کیا لیکن وہ کون سے افسران تھی؟ ان کے خلاف کارروا ئی جلد ہو نی چا ہیی۔ مقدمے قائم ہوں اور ان کی گرفتاریاں ہونی چا ہییں۔ اس سے عوام میں اعتماد بحال ہوگا۔ اس وقت متاثرین کا اعتماد بحال کرنا اولین ضرورت ہی۔
            سماجی ڈیمیج  :
          مظفر نگر میں تقریباً رو زانہ بڑے بڑے سیا سی رہنما ئوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جا ری ہی۔ حکومت کے نما ئندہ سیا سی رہنما، بے گھروں کو بسا ئے جانے کا دلا سہ دے رہے ہیں۔ جلد از جلد انہیں اپنے گائوں میں آباد کیا جائے یا پھر الگ سے بستیاں بسائی جا ئیں۔ پو را منصو بہ منظر عام پر آنا چا ہیے اور ایک ڈیڈ لائن بھی مقرر ہونی چاہیی۔ سر کار اس کا اعلان کرے کہ فلاں تاریخ کے بعد کوئی کیمپ میں نہیں رہے گا۔کیا کیمپوں کو ابھی اس لیے بحال رکھا جارہا ہے کہ آ قا ئوں کو آ نے پر کیا دکھائیں گی۔ سر کار کی دیکھ ریکھ میں ہندو۔ مسلم اور پو لس کے نو جوانوں پر مشتمل کمیٹیاں بنیں اور پناہ گزینوں کو آ باد کر نے کا کام تیزی سے ہو۔ معا وضہ فو راً دیا جائی، جو لوگ بے رو ز گار ہو ئے ہیں، ان کو روزگار کے لیے رقم مہیا کرا ئی جائی۔ اس طرح سماجی سطح پر ہو نے وا لے ڈیمیج کو کنٹرول کیا جا سکتا ہی۔ اس میں سر کار، دو نوں مذا ہب کی رفا حی تنظیموں کا سہا را بھی لے سکتی ہی۔پھر ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بھی کچھ ذمہ دا ری سو نپی جا ئی۔ انہیں بھی ایک ایک گا ئوں سپرد کیے جائیں۔ گا ئوں میں چھوٹی چھوٹی چو کیاں بنا ئی جائیں۔ شا ہرا ہوں سے گا ئوں کو جوڑنے والی سڑکوں کو درست کیا جائے اور پیٹرو لنگ پو لس کی گشت بڑھا ئی جائی۔ آنے وا لے ایام میں بقر عید، دسہرہ اور دیوالی جیسے تہوار کی آمد آ مد ہی۔ ان سے پہلے آپسی نفرت کو بھا ئی چارے میں بدلنا ہو گا تا کہ ان تہوا روں کو ہم پھر سے مل کر منائیں۔ دلوں میں نفرت کا شا ئبہ تک نہ رہی۔ محبت اور اتحاد قائم رکھنے وا لے تہذیبی و ثقا فتی پرو گرام منعقد کرا ئے جائیں۔ حالات معمول پر آئیں گی۔ ہم ایک دوسرے سے مل کر رہیں گی۔ یہ ہما ری سرشت میں شامل ہی۔ ہم ہندوستانی مختلف ہو تے ہوئے بھی متحد ہیں۔یہی ہماری شناخت ہے اور اسے قائم رکھنا ہی ہماری شان ہے اور وقت کا تقاضا بھی۔
            مظفر نگر فساد پر سیا ست  :

            فساد ہوا، خونی ہو لی کھیلی گئی۔ دکانوں کو نذر آتش کیا گیا۔ تبا ہی کی نئی داستان رقم کی گئی۔بچے کھچے لوگوں نے ادھر اُدھر بھاگ کر جان بچا ئی۔ متعدد مدارس میں لوگوں نے قیام کیا۔ عورتیں، بچی، بوڑھی، مریض، حاملائیں،چیختی، کراہتے لوگ، ہمیشہ کے لیے جدا ہو جانے وا لوں کے لیے آہ و بکا، علاج کے فقدان میں تڑپتے زخمی_ایک طرف تو یہ سب تھا دوسری طرف بی جے پی اس پورے معاملے کا سیا سی فا ئدہ اٹھانے کے لیے ہر وقت تیار۔ بی جے پی کے بڑے رہنمائوں کا بیان کہ فساد سماج وا دی کا سو چا سمجھا منصو بہ ہی۔ یہی نہیں ایک اسٹنگ آپریشن نے سماج وا دی کے بڑے مسلم لیڈر اعظم خاں کو ہی کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ بس پھر کیا تھا بی جے پی کے رہنمائوں نے محمد اعظم خاں کو فساد کا ذمہ دار قرار دے کر ان کی گرفتاری اور ان پر مقدمہ چلا ئے جانے کی مانگ زور و شور سے کی جانے لگی۔ کئی دن اخبارات کے سر ورق پر یہ خبر جلی حرفوں میں شا ئع ہوئی۔ دوسری طرف بی ایس پی کے رہنما ئوں نے بیان دیا کہ یہ بی جے پی اور سماج وا دی کی ملی جلی سا زش ہی۔ بی ایس پی کے ایک ایم پی پر بھی فساد بھڑ کانے کا الزام ہی۔ راشٹریہ لوک دل، جس کی زمین ہی جاٹ ۔مسلم ووٹ ہیں، اس فساد سے بہت زیا دہ متاثر ہیں۔ ان کے رہنما ئوں کا بیان ہے کہ مظفر نگر فساد سماج وادی کا مسلم ووٹوں پر قبضے کا ایک کھیل ہے اور سماج وا دی نے جاٹ۔ مسلم اتحاد کو توڑنے کی کوشش کی ہی۔ کانگریسی رہنمائوں کے بیان آ رہے ہیں کہ یہ بی جے پی کو فا ئدہ پہنچا نے کے لیے سماج وا دی کی چا ل ہے کہ ووٹ کہیں اور نہ جائی۔ صرف بی جے پی اور سماج وا دی میں ہی تقسیم ہو۔ خود سماج وا دی کے کئی لیڈران بیان دے چکے ہیں کہ یہ فا شسٹ طاقتوں کا کھیل ہی۔ ان بیان با زیوں کے درمیان تھوڑی دیر کے لیے یہ سو چیں کہ کس سیاسی جماعت نے حالات کو قابو میں کرنی، متاثرین کی امداد اور انہیں آباد کیے جانے کے لیے کیا کیا تو آپ کو علم ہوگا کہ یہ سب صرف زبان جمع خرچ کررہے ہیں۔ سر کار ہو یا حزب مخالف سب کے چہرے عوام کے سامنے ہیں۔
            سیا سی ڈیمیج کنٹرول  :
            سماجی اعتبار سے تو ڈیمیج کنٹرول کی کوئی خاص کوشش اب تک نظر نہیںآرہی ہی۔ سماجی اور مذہبی تنظیمیں اپنی اپنی سطح پر امداد و تعاون میں لگی ہوئی ہیں۔ سماج وا دی پا رٹی کے تعلق سے شور ہوا کہ اس فساد کا منفی اثر سب سے سے زیا دہ سماج وا دی پر پڑے گا اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی کہ باغپت سے سماج وا دی امید وا ر سوم پال شاستری نے سماج وا دی کا دا من چھوڑ دیا جب کہ وہ ایسے قد آور رہنما تھے کہ وہ اجیت سنگھ کو ایک بار شکست بھی دے چکے ہیں دو بارہ بھی ان سے امید کی جاسکتی تھی۔ سماج وا دی نے راتوں رات سوال خاص کے ایم ایل اے حاجی غلام محمد کو امید وار بنا دیا۔ یہی نہیں کئی سال سے پارٹی سے خا رج عمران مسعود کو بھی نہ صرف پا رٹی میں شامل کیا گیا بلکہ ایم پی کے لیے سہا رنپور سے امید وار بنایا۔ سماج وا دی کے اس اقدام سے دو سری جماعتوں کی را توں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔غلام محمد مسلمانوں کے علا وہ جا ٹوں، گوجروں اور دوسرے طبقات میں بھی مقبول ہیں۔وہ اجیت سنگھ کو بھی ٹکر دے سکتے ہیں۔ عمران مسعود نو جوا نوں کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں۔ عمران مسعود کو مظفر نگر فساد میں نا راض مسلمانوں کو منانے کی ذمہ داری دی گئی ۔پھر شیو پال یا دو کو بھی سیا سی ڈیمیج کنٹرول کرنے کے لیے خصوصی طور پر بھیجا گیا ہی۔معاوضہ کا اعلان، آباد کیے جانے کا بھروسہ اور ملزمین کی گرفتاری سے سماج وا دی اپنے نقصان کو پو را کرنے میں لگی ہی۔ اس پورے معا ملے سے محمد اعظم خاں کو الگ رکھا جا رہا ہی۔ شاید سماج وا دی کے اندر کے ایک حلقے کی منشا یہی تھی۔ یہ وہ حلقہ ہے جو اندرونی طور پر محمد اعظم خاں کے خلاف تھا۔ ایسے میں بخا ری صا حب نے تو کھلم کھلا اعظم خاں کی مخا لفت کرتے ہو ئے انہیں پا رٹی سے بر خواست کرنے تک کی مانگ کی۔
            مظفر نگر فساد سے زیادہ متا ثر ہو نے وا لی دوسری پا رٹی، را شٹریہ لوک دل ہی۔ اس کی مشکل یہ ہے کہ اس کی سیا ست کی بنیاد جاٹ۔مسلم اتحاد ہی پارہ پارہ ہو گیا ہی۔ اس سے مسلم بھی نا راض ہیں اور جاٹ بھی۔ مسلمانوں کی نا راضگی تو شاید اجیت سنگھ برداشت بھی کر لیں لیکن جاٹ نا را ضگی ان کے سیا سی کیرئیر کا زوال ہی ہو گا۔شاید یہی وجہ ہے کہ اجیت سنگھ نے باغپت میں ڈیمیج کنٹرول کے دوران ہی جاٹ ریزرویشن کا اشا رہ بھی عوام کو دیا۔
            بی ایس پی اس پو رے معا ملے میں’ واچ اینڈ ویٹ‘س، کی پا لیسی اپنا رہی ہی۔ اس کے ایک ایم پی کی گرفتاری کا حکم نامہ جا ری ہو گیا ہے اور اب سپریمو کے اشا رے بھی مل گئے ہیں کہ گرفتار ہو جا ئو۔ گرفتاری کا ایک سیا سی فا ئدہ بھی ہے کہ ہمدردی کی ایک لہر عوام میں سرا یت کر جا تی ہی۔ بی جے پی اسی لہر کو کیش کرنا بھی چا ہتی ہی۔ ان سب سے الگ کانگریس مسلم ووٹوں کو پھر سے اپنا نے کے حربے آزما رہی ہی۔ یہ سب یوںہی چلتا رہے گا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈیمیج کنٹرول کے پردے میں کیا کیا گل کھلتے ہیں۔ لوگ فساد متا ثرین کے ڈیمیج کو ٹھیک کرتے ہیں یا پھر اپنے سیا سی نقصانات کی بھر پائی اور یہ بھی قابل غور ہے کہ پناہ گزینوں کے کیمپ کب تک اپنے وجود کے ساتھ بد نما دا غوں کے مصداق مغربی اتر پردیش کے دامن پر نظر آئیں گے اور کب ان بیچا روں کو امن و امان، سکون، گھر بار، کارو بار وغیرہ میسر ہوں گی۔



Dr. Aslam Jamshedpuri
HOD, Urdu CCS University, Meerut

Raising Day Celebration






 Program of the Mumbai Police - 'Raising Day Celebration' a release of book in various languages i.e. English, Hindi, Marathi, Urdu & Gujarati. The English version Fearless Forever on Friday 3rd January 2014 at Anjuman-I-Islam, C.S.T. Complex, Mumbai. 

The program was a great success attended full house about 1800 attendees. The program was attended mostly by students from professional courses of Anjuman and other colleges in the vicinity. It was also attended by Professionals such as Doctors, Advocates, Press representatives and public at large.

The message of ' Fearless Forever' would go a long way.

ek haqiat ek afsana

Shazia Andleeb
                                                             
                                                          
تحریر شازیہ عندلیب
امروز عمران چھٹی کے روز پاجامہ بنیان پہنے باہر  پائیں باغ میں اخبار کی مقامی خبروں سے محزوز ہو رہا تھا۔ماہ اپریل میں انار کے درخت کے نیچے ٹھنڈی مست خرام ہوائیں سرور دے رہی تھیں۔لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے وہ باہر چلا گیا تھا۔امروز ایک کاٹج اندسٹری کا مالک تھا۔چھوٹا سا مگر کامیاب کاروبار تھا دو بچے اور ایک خوبرو بیگم کے ساتھ زندگی خوشگوار گزر رہی تھی۔اس نے اخبار کے اندرونی صفحہ پر مقامی خبروں کی سرخیوں پر نظر دوڑائی تو  طرح طرح کی ہیجان خیز سرخیوں نے اسکی توجہ مبذول کر لی ۔مگر اس دوران اسے گیٹ پر دستک کی وجہ سے تین مرتبہ اٹھ کر جانا پڑا۔ملازم چھٹی پر تھا ۔بیگم اتوار بازار خریداری کے لیے گئی ہوئی تھی۔وہ ذرا اخبار لے کر بیٹھتا دروازے پر دستک ہوتی۔لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بیل بھی نہیں بج رہی تھی مگر مجال ہے جو لوگوں کو چین ہو ۔صدر دروازے کی دستکیں مسلسل اسکی اخبار بینی میں رخنہ ڈال رہی تھیں۔
ضلع ہزارہ سے چھ بچوں کی ماں عاشق کے ساتھ فرار۔
میانوالی میں میاں بیوی کے جھگڑے میں پڑوسی زخمی۔
شدید ٹھنڈ میں راہ والی کے راستے تودہ گرنے سے بند۔
بھمبر میں بجلی کی بندش کے دوران مظاہرین کا بانس بردار مظاہرہ۔
نوسر بازحسینہ شادی شدہ مرد سے رقم بٹور کر فرار۔
آخری خبر نے امروز عمران کی توجہ کھینچ لی۔خبر کچھ یوں تھی۔
اسلام آباد کے پوش علاقے میں ایک الٹرا ماڈرن عورت نے ایف الیون میں گیٹ پر موجود چپڑاسی سے پانی مانگا ۔چوکیدار کی غفلت سے فائدہ اٹھا تے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی وہ اسی قدر پڑھ پایا تھا کہ گیٹ پر پھر دستک ہوئی۔وہ بڑ بڑاتا ہوا اٹھا۔اب تک وہ چار مرتبہ گیٹ پر آ چکا تھا پہلی مرتبہ ودھ ولا تھا دوسری مرتبہ ایک پردہ پوش فقیرنی تیسری مرتبہ ایک بھٹکے ہوئی مسافر کو وہ بھگتا چکا تھا۔پردہ پوش فقیرنی دو مرتبہ آ چکی تھی۔بڑی مشکل سے اس سے جان چھرائی وہ اپنے نادیدہ شوہر کی بیماری کا سرٹیفکیٹ دکھا کر کافی رقم اینٹھ چکی تھی۔پانچویں مرتبہ پھر جب دستک ہوئی وہ انتہائی بیزاری سے اپنا کاندھا کھجاتے ہوئے اٹھا،جس پر ایک مچھر چٹکی کاٹ چکا تھا اس سے پہلے کہ وہ مچھر کا نشانہ لیتا کہ گیٹ کی دستک نے اسکا نشانہ خطا کر دیا۔وہ جیسے ہی گیٹ پر پہنچا اسکی نظر گیٹ کے نیچے کالے لباس پر پڑی۔وہ چونکا اچھا پھر وہی برقعہ پوش فقیرنی ہے اس نے آج میرا ہی گھر دیکھ لیا ہے۔یا پھر مجھے اکیلا دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سوچ کر ہی اسے جھر جھری سی آ گئی آجکل کے زمانے میں  عورتیں تو کیا اکیلا مرد بھی محفوظ نہیں۔۔۔مگر اس نے جیسے ہی فقیرنی کو ڈانٹنے کے ارادے سے گیٹ کھولا اسکی نظر خوبصورت ریشمی پھولدار ساڑہی پر پڑی۔ایک نہائیت دلکش درمیانی عمر کی عورت تراشیدہ بالوں اور ہلکے میک اپ میں کھڑی مسکرا رہی تھی۔اسے دیکھ کر امروز کو اپنے پاجامہ بنیان پر ندامت سی محسوس ہوئی ۔اس نے خجالت سے پوچھا جی آپ کون  ؟کس سے ملنا ہے؟؟
مگر یہ کیا  اسکا جواب سنتے ہی اسکے چودہ طبق روشن ہو گئے اور دن میں تارے سے نظر  آنے لگے۔یہ تو پردہ پوش بھکارن سے بھی ذیادہ خطرناک نکلی۔ساڑھی میں ملبوس خوش پوش عورت بڑی خوش الحانی سے بولی میں مسز امروز ہوں۔جی میں کسی مسز امروز کو نہیں جانتا مگر میں تو جانتی ہوں اس نے بدستور اک ادائے دلبرانہ سے جواب دیا۔کیا میں آپکی مسز  سے مل سکتی ہوں ؟اس نے کھلے گیٹ کے اندر نظ دوڑاتے ہوئے پوچھا ۔گویا چیک کر رہی ہو کہ گھر میں کوئی اور ہے یا نہیں۔امروز کے ذہن میں نو سر بازحسینہ کی خبر گردش کرنے لگی۔اس نے بغور اسکے چہرے کا جائزہ لیا دلکش سراپا پر کشش صورت  وہ لمحہ بھر کو اس سے متاثر ہونے لگا مگر یہ سوچ کر سنبھل گیا کہ یہ بھی کوئی حسینہ چار سو بیس یا نو سر باز  ہو سکتی ہے۔اگر افزانہ نے اسے یہا ں دیکھ لیا اور اس نے میری مسز ہونے کا دعویٰ کر دیااور جھوٹے ثبوت ۔۔۔جیسا کہ ایسے معاملات میں ہوتا ہے اور اس کے ایک جاننے والے کے ساتھ بھی ہو چکا ہے تو پتہ نہیں کیا ہنگامہ کھڑا ہو جائے  ویسے بھی اس کے سسرالی رشتہ دار اس کی بیوی کو بھڑکا کر لڑاتے رہتے ہیں۔انہیں تو موقعہ مل جائے گا۔وہ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ سن گلاسز اور لانگ شرٹ میں ملبوس اسکی بیگم سودا لے کر آ گئی اور آتے ہی بڑے تپاک سے اس ساڑھی پوش عورت سے ملی اور کہنے لگی امروز یہ ہماری نئی پڑوسن ہیں مسز امروز ہاشم ۔امروز خجل سا ہو کر دونوں کو اندر جاتا دیکھتا رہا۔



 
 
 






Seminar & Grand Mushaira held in Toronto on 31 December 2013



University of Karachi Graduates Forum Canada held Seminar and Grand Mushaira in Toronto on 31 December 2013.
5 Guests were invited from Pakistan to participate and grace the event.


دبئی میں اب تک کی آتش بازی کا بڑا مظاہرہ۔ باعث شرم

سمیع احمد قریشی

 ان ہی راستوں سے ہوکرآتا ہے قوموں پہ زوال
            آج کی دنیا ، کسی بھی دور سے انتہائی ترقی یافتہ کہلاتی ہی۔ یہ ترقی محض سائنس اور ٹیکنالوجی کی بناء پر ہی۔ جو ممالک سائنس اور ٹیکنالوجی میں اول اول ہیں۔ وہ انتہائی ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔ جن کے پاس غیر معمولی سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ سامانِ حرب، دور مار ہتھیار، انسانوں کی تباہی بربادی کے انتہائی جدید ہتھیار اور بم وغیرہ وغیرہ ہیں۔ وہ سپر پاور کہلارہے ہیں۔ یہ انسانیت کا ماتم نہیں تو کیا ہی؟ آج دنیا کو عدل و انصاف ، مساوات ، اخلاقیات کی اشد ضرورت ہی۔ مگر جو ممالک و طاقتیں انسانیت کو تار تار کرنے میں یکتا ہیں وہ صاحب اعزاز ہیں۔ وہ بڑے اور سپر پاور ہیں۔ بہت خوبصورت طریقہ سے یہ دُنیا کے سپر پاور پوری دنیا میں کمزور، نہتّے افراد و ممالک کا استحصال کررہے ہیں۔ اپنی حرص طمع لالچ نے ان سپر پاور طاقتوں کو درحقیقت انسانیت سے نیچے گرا دیا ہی۔ کیا وقت کے ساتھ انسانی اقدار کے پیمانے بدل گئے ہیں؟ کیا وقت بدلا تو انسانیت کی قدریں بھی بدل گئیں؟ عدل و انصاف کے لیے قائم کردہ عالمی ادارے بھی، ان سپر پاوروں نے ہتھیا لےی، یرغمال بنالیے ہیں۔ یہ عالمی عدل و انصاف کے اداروں کا وجود بھی بے معنی سا ہوکر رہ گیا ہی۔ ان کی مرضی کے بغیر سپر پاوروں نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ شیطانی طاغوتی سپر پاور نے اپنے شیطانی عزائم کی تکمیل کے لےی، اسلام اورمسلمانوں کے خلاف نام نہاد دہشت گردی کا حربہ اپناکر، عالم اسلام کے متعدد ممالک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ لگتا ہے ’’سرد جنگ‘‘ کے خاتمہ اور روس کے بکھر جانے کے بعد، ان شیطانی طاقتوں کو، ان کے طاغوتی عزائم میں عالم اسلام ہی سے خطرہ ہی۔ بات عالم اسلام کے خلاف ہی محدود نہیں، دُنیا کے متعدد ممالک کے خلاف ریشہ دوانیوں میں، آج کے سپر پاور صرف فوجی بل بوتے پر ہی نہیں بلکہ نت نئے ذرائع سے اپنے مکروح عزائم کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ گلوبلائزیشن یعنی دُنیا سمٹ کر اک جگہ آگئی ہی۔ یہ سپر پاور حقیقتاً نت نئے قوانین کے ذریعہ، عالمی بازار پر پکڑ بنائے ہیں۔ متعدد ممالک کی پیداوار پر حریفانہ نظر رکھتے ہیں۔ نام بھی خوبصورت دے دیئے گئے ہیں۔
            کمزور چھوٹے ممالک کو، نام نہاد سپر پاور سے بچانا ضروری ہی۔ ورنہ بھوک مری، غربت اور انسانی تباہ کاریوں کا سلسلہ یوں ہی دراز ہوگا۔ آج منظم نشانہ عالم اسلام ہی۔ کل پھر اور ہوں گی۔ مذہب اسلام پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے آیا۔ ہماری نبیؐ پوری دُنیا کے لیے رحمت ہیں۔ بھلائی کی تلقین کرنا، بُرائی سے روکنا، ہم مسلمانوں کا فرض اولین ہی۔ ہم خیرامت ہیں۔ راہِ ہدایت کے لیے اللہ کی کتابیں، صحیفے دُنیا میں آئی۔ ان پر ہمارا ایمان ہی۔ ہم جب جب اللہ کی ہدایتوں پر ہماری زندگی میں فکر و عمل پر چلی، سرخرو رہی۔ آج کے سپر پاوروں کی طرح اک زمانہ کے سپر پاور قیصر و کسری کو جھکنا پڑا، انسانیت کے آگے سرنگوں ہونا پڑا۔ آج ہم اسلام کے ماننے والے اس قدر مائل بہ زوال کیوں؟
وہ دنیا میں معزز تھے مسلماں ہوکر
 اور  تم  خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
            آج بھٹکتی، تباہ ہوتی انسانیت کا درماں صرف اسلام کے دامن میں ہی۔ یہ وقت ہم مسلمانوں کے لیے انتہائی اہمیت و افادیت کا ہی۔ یعنی ساری دُنیا میں بقائے امن و انسانیت کی خاطر، ساری زنجیروں کو توڑتے ہوئے عملی میدان میں آئیں۔ بے شک راہ ہدایت کے لیے قرآن موجود ہی۔
نہ گھبرائو مسلمانوں خدا کی شان باقی ہی
ابھی اسلام زندہ ہے ابھی قرآن باقی ہی
            قرآن کے ساتھ ساتھ مستند احادیث نبیؐ بھی ہیں۔ افسوس صد افسوس ہم مسلمانوں کو میرکارواں بننا تھا۔ ہم گرد کا رواں بن گئی:
زمین کی پستیوں میں آسماں بن کر رہو
زندہ رہنا ہے تو میر کارواں بن کر رہو
            لہو لعب، فضول خرچیاں، عریانیت، فحاشی، اچھل کود، رقص و سرود، ان شیطانی اعمال کو ہم نے اپنا لیا۔ پھر خدا کی مار ہم پر کیوں نہیںپڑی۔ یہ عرب مسلمانوں کو کیا ہوگیا؟ اللہ نے بے انتہا دولت دی، اُس کا استعمال، آخرشیطان کو خوش کرنے کے لیے ہی؟ حکومت دی تو کیا مملکت، ذاتی جائیداد  تو نہیں؟ اس قدر عرب ممالک میں تیل معدنیات کیا بیت المال کے بدلی، خاندانی ورثہ بن جائی؟ خاص کر عرب شیوخ ہوں کہ سربراہان مملکت بادشاہ ملکی آمدنی کو آزادی کے ساتھ، خاندانی ذاتی ملکیت بنائے ہیں۔ متعدد مغربی ممالک میں ان کے شاندار بنگلی، بے پناہ جائیدادیں، بے شمار نوکر چاکر، بے پناہ لائو لشکر، عرب کے صحرا گذار زمین، ریت ہی ریت، ذہنی سیر و تفریح کے لیے تفریحی گاہیں، ڈزنی لینڈ، ضرورت سے زیادہ بے پناہ سڑکیں۔ لائو لشکر، مذہب اسلام تو کہتا ہے کہ پورے کا پورا اسلام میں آئو۔ مگر یہ عرب ہیں کہ اک طرف چہرے مہرے سے اسلام کی پہچان ،مگر اُسی پہچان کے ساتھ ذہنی گراوٹ، عیش و عشرت کی علامتی تصویر بھی بن گئی۔ اکثر فلموں میں نظر آتا ہی۔ شاباشی ہے اُن چھوٹے چھوٹے فلسطینی بچوں اور نوجوانوں پر جو اپنی غصب کی ہوئی زمین کے حصول کی خاطر، فلسطین کی آزادی کی خاطر، بیت المقدس یعنی قبلہ اول کی آزادی اور نبیوں کی سرزمین القدس کی آزادی کے لےی، ظالم یہود و نصاریٰ کے ساتھ دو دو ہاتھ کیے ہوئے ہیں۔ جدید ہتھیاروں کے ساتھ غلیل اور کنکریوں پتھروں سے نبرد آزما ہیں۔ اپنی جان کی شہادت پیش کررہے ہیں۔ اُنہیں ایمان کامل ہی۔ عقل و انصاف کے حصول کی خاطر لڑجائو۔ اللہ کی نصرت مل کر رہے گی۔ شرم باعث شرم ڈوب مرنے کا مقام ہی۔ مسلمانوں کے سب سے بڑے قاتل دشمن یہود و نصاریٰ کے ساتھ ، عرب سربراہان یاری دوستی کیے ہوئے ہیں۔ ان یہودیوں نے مل کر فریب کا، دنیا میں ریکارڈ بنایا ہی۔ اللہ کی اِن پر مار پڑی۔ عرصہ دراز سے یہ مارے مارے پھر رہے ہیں۔ تھوڑے سے فائدے کے لیے اپنے نبیوں کا قتل کیا۔ آخر ان سربراہان مسلم عرب کو کیا ہوا۔ مسلمانوں کے ازلی دشمنوں سے یاری ہی نہیں بلکہ ان کی گوری عورتوں کو اپنے حرم میں داخل کرکے رشتہ داری بھی قائم کررکھا ہے ۔
            تاز بہ تازہ ابھی ابھی دبئی میں نئے سال کا جشن منایا گیا۔ آتش بازی کا مظاہرہ ، اس قدر کہ آج تک کہیں نہیں ہوا، دبئی اک مسلم عرب ریاست ہی، نئے سال کی آمد کے موقع پر دُنیا کی انتہائی اونچی عمارت برج الخلیفہ سے عین یکم جنوری 2014ئ؁ کی آمد پر ٹھیک 12 بجے رات سے ہوا۔ بے پناہ سرمایہ پانی کی طرح ، آتش بازی میں صرف ہوا۔ اپنے ہی ہم مذہب خلیجی ریاست کویت کا آتش بازی کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا۔چلئی، کچھ تو کیا کہیں تو ریکارڈ قائم کیا ،جن کے آبا و اجداد نے دنیا کو سائنس و ٹکنالوجی سے آگاہ کیا ان کی اولاد اب خوبصورت عمارتیں بنانے ،آتش بازی جیسے ریکارڈ توڑنے اور شاندار عالیشان جہاز میں سفر کرنے میں اپنا ریکارڈ قائم کررہی ہے ۔
پہلے قوت و فکر و عمل پہ فنا آتی ہی
پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہی
            آج یوم اعمال ہی۔ کل روز جزاء (قیامت) ہی۔ تعمیر انسانیت کی خاطر ہم مسلمانوں کواپنی فکر و عمل کے ساتھ نمونہ بننا ہی۔ یہ ہم ہی کرسکتے ہیں کوئی اور نہیں!  کیونکہ قرآن اور سنت ہمارے ہی پاس محفوظ ہیں۔ مگر افسوس فکر و عمل نہیں۔
سبق  پڑھ پھر صداقت کا، عدالت کا ، شجاعت کا
لیا جئے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
            خوبصورتی کا تاج محل، بلندی کا قطب مینار، انتہائی بلند رہائش بروج الخلیفہ بے پناہ  عمارتیں ہم نے بنائیں۔ ضرورت تو ہے اخلاقی بلند عمارتوں کی، سیمنٹ اور گارا ہمارے پاس ہی۔ دیر کس بات کی، ورنہ مستقبل کا مورخ آنے والی نسلیں ہمیں کس نام سے یاد رکھیں گی۔


Malegaon Urdu Kitab Mela






--
             

Ghazal Darakht by Iftekhar Raghib

Assalamu alikum wrb,


Raghib - A Poet of Atypical Diction

Dr. Faisal Hanif


ہر ایک غزل تجھ سے ہی منسوب ہے میری
انداز مِرا تیری بدولت ہی الگ ہے

Each of my couplets is attributable to you, my love
My style of diction, because of you, is atypical

Iftekhar Raghib, in the above couplet, attributes his style of diction to his beloved. I, on the contrary, attribute his atypical and elevated style of diction to his astonishing originality, integrity and sincerity, his distinctive poetic techniques, his impassioned intuition, and his romantic and philosophical sensibility.
These comments are intended to provide the reader a peek into Iftekhar Raghib's poetry, and his new book 'Ghazal Darakhat' whilst highlighting and emphasizing some important aspects of the poetry as an art. The preamble of considerable length is aimed to set the stage for the purpose of 'differentiation', as it deems indispensable for the introduction of a poet like Raghib who, as I know, is one of the very few poets of our age who employs no 'marketing tools and techniques' but his poetry as a vehicle to showcase his poetic talent. Despite his humble person, he is distinguishable as a genuine literary artist. Ghalib's below couplet appropriately applies:
شوق ہر رنگ  رقیبِ سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
Passion, in every form appeared rival to the material possessions
Qais appeared undisguised even in the guise of an image

Poetry enthusiasts know that good poetry is a source of delight and fulfillment. If you try to define the utility of poetry in your ideal state, ignoring its aesthetic function and value, you might end up banishing poets. Plato's approach towards poetry was fundamentally utilitarian, and for that reason he condemned poetry as immoral and untruthful. Aristotle took up the challenge of Plato and asserted the superiority of poetry over philosophy. We often make general statements in regards to poetry and in judging the excellence and merit of someone's literary work. In today's fast-paced environment and knowledgeable world, where literature, particularly Urdu poetry is on the decline, one needs a less ambivalent approach in assessing poetic work. It is essential to recognize that the poet's universe is different. Therefore, looking at it through our existing paradigms would result in flawed judgment.
Albert Einstein, one of the greatest physicists of all time, whose scientific and intellectual accomplishments have made his name synonymous with genius, considers imagination more important than knowledge for the reason that imagination is evidently infinite in nature whereas knowledge is limited. Einstein was an artist. Being a very fine pianist and violinist, he relates his approach and thoughts to imagination by saying: "when I examine myself and my methods of thought, I come close to the conclusion that the gift of imagination has meant more to me than any talent for absorbing absolute knowledge."
Mirza Asadullah Khan Ghalib, the greatest and the most versatile poet of Urdu language, whose poetry and prose represent the highest artistic achievement of Urdu language and literature, in his letter to his friend Munshi Hargopal Tufta, writes: "poetry is imagination, not metrical composition."
Altaf Hussain Hali, Ghalib's famous disciple, a remarkable poet, critic, and prose-writer, who is among one of the 'five-pillars' of Urdu, (others are Sir Syed Ahmed Khan, Maulana Mohammed Hussain Azad, Deputy Nazeer Ahmed, and Allama Shibli Nomani) also sees imagination as the most important feature of a great couplet. He believes that imagination is a source of sophistication and fineness. To Hali, the power of imagination is what distinguishes a poet from a non-poet. He quotes Ghalib's following couplet as one of the examples of power of imagination where a simple thought transforms itself into extremely fine poetry when imagination is employed.
پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے، شراب تو دے

O' wine-cupbearer, pour into my cupped-hands, if you hate me
If you do not like giving me a cup, so be it, but give me wine
A large number of contemporary Urdu poets skillfully exhibit metrical achievement. They, however, disgracefully fail on the account of originality, imagination, and philosophy. The result is substandard poetry that lacks all the necessary characteristics of good poetry. The inherent weakness in the idea of Urdu poetry is the rule which dictates that a metrical composition makes two-lines a couplet. What about, imagination, expressions, knowledge, reasoning, emotions, feelings, intellect, analytical ability, musicality, delightfulness, re-creation of experience, and intuition? 
Poetry, by no means is just composition of words in a meter. It deals with facts, experiences, and problems that we human beings face in our day-to-day life. It does two things to complete the process; first, it relates them to our emotions. Second, it transfigures and transforms them by employing the power of imagination. Here one might ask that, since all above qualities characterize prose also, how poetry differs from prose? Where is the dividing line? The answer is simple--certain form of expression i.e. rhythmical language or poetic meter where thought is condensed in a few words where reader's attention is caught at once, distinguishes poetry from prose. In poetry, the poet adds layer after layer of meaningful expressive words, powerful metaphors, varied and translucent images, and other vehicles for perception. It all builds up into one holistic perception. In fine, the poetry originates directly in that impassioned intuition which is the main requisite of poetry. It is the intuition, and the power of imagination that distinguish the work of a gifted artist from that of a mediocre mind. Without afore-mentioned qualities any subject treated in poetic meter will not be worthy of being classified as 'poetry'. Raees-ul-Mutaghazaleen Jigar Moradabadi has rightly said:
کاریگران   شعر سے   پوچھے   کوئی   جگر
سب  کچھ تو ہے مگر یہ کمی کیوں اثر میں ہے

Would someone ask poetry-technicians (poets), Jigar
why poetry, despite all the right ingredients,  fails to create impact
Urdu poetry is witnessing a decline in quality due to the creation of meaningless poetry by most of the contemporary poets. Therefore, despite great love and passion for Urdu, readers' thoughts cannot always lean on the optimistic side of things. This cynicism springs from the tasteless poetry which keeps testing readers' endurance. Many so-called poets write poetry by coining droll terminologies without focusing on the form and substance. This is done solely at the expense of good, sincere and skilful poets. At this juncture quoting Ghalib's famous couplet is indispensible. 
ہر بو‌الہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی
Every deceptor has now adopted beauty-worshipping
the dignity of the men of integrity and passion, is now lost
The above statement is reminiscent of those who have an eye for the fine qualities of poet's genius for balancing the form (beauty) and the substance (thought) in poetry. This is an extension to Bertrand Russell's quote used expounding on Plato, "the man who only loves beautiful things (form) is dreaming, whereas the man who knows absolute beauty (form and substance) is wide awake.  The former has only opinion; the latter has knowledge."
I'm sifting through the pages of Iftekhar Raghib's new book 'Ghazal Darakhat' while keeping in mind all the characteristics of good poetry.  I could say that this book is made of fantastic Urdu ghazals. The intelligent question to ask is "so what?" In other words, an intelligent reader would like to know the value of the book. Will this book repay his reading?  Hundreds or perhaps thousands of books in the name of Urdu poetry are published every year. It is becoming increasingly difficult for the readers to make a distinction between an artist and a non-artist. In my note below, I have aimed to show the reader the value of this book by highlighting the fine points in Iftekhar Raghib's poetry in general, and this book in particular.
A poet must be sensitive and observant. Raghib's observation is very keen. The first thing that strikes us about Raghib as a poet is his lyric intensity and his thematic variety. His principal themes are love, pain, nostalgia, hope, peace, spirituality, betrayal, humanity, and values. Therefore, his poetry appeals to every mood. His approach to these aspects of human life differs from that of other contemporary poets. What will surprise the reader, is Raghib's variety of topics, situation, and treatment of the typical themes with novelty and genuineness.

ہاتھ رکھّا تھا ہمارے دل پر اُس نے ایک بار
کچھ نہیں معلوم جب سے دل ہمارا ہے کہاں

My beloved, once looked at me with kindness
Since then, in ecstasy, I have lost myself

ایسے پودے ہیں کہ واقف نہیں شادابی سے
ایسی ندیاں ہیں کہ سیلاب سے ناواقف ہیں

There are buds that never blossomed
There are rivers that have not met the storm
ایسے بھی گل ہیں جو واقف نہیں رنگ و بو سے
ایسی آنکھیں بھی ہیں جو خواب سے ناواقف ہیں

There are flowers that are deprived of beauty and fragrance
There are minds that suffer from the lack of imagination and thought
---
ایک وحشت ہے کہ جینے نہیں دیتی راغبؔ
اِک محبت ہے کہ جینے کی دعاکرتی ہے

Madness, on the one hand, pushes towards devastation
Love, on the other, calls for happiness and rebuilding
---
تم کیا بچھڑے ساری شوخی ختم ہوئی
آوازے کستا ہے مجھ پر سنّاٹا

Separation from you took away my exuberance
So much that impassiveness mocks me

Chief features of Raghib's poetry are the use of skillful language, originality, organized ideas, simplicity, concentrated expressions, and re-creation of experience. In general, poets, who acquire an intellectual tone, become deficient in emotion and imagination. In this sense, Raghib stands unique among the crowd of poets. He has presented intellect in his poetry, but not at the expense of emotions and imagination, which are the true substance of poetry. Thus, his poetry is delightful and thoughtful at the same time. This delight is not just confined to momentary aesthetic pleasure; it rather leaves indelible mark on readers' mind.

پھر اُٹھایا جاؤں گا مٹّی میں مل جانے کے بعد
         گرچہ ہوں سہما ہوا  بنیاد ہل جانے کے بعد
 
I will be restored to life after I am extinguished
I am, however, restless after my foundation is wrecked

خوف آتا ہے بلندی کی طرف چڑھتے ہوئے
گل کا  مرجھانا  ہی رہ جاتا ہے کھل جانے کے بعد

The thought of climbing upward is freighting
As deliquesce always follows efflorescence

اِس طرح حیران ہیں سب دیکھ کر راغبؔ  مجھے
جیسے کوئی آگیا ہو مستقل جانے کے بعد

Everyone is astonished to see me, Raghib, as if
Someone has come back after permanent departure

While giving a peep into poet's thinking, above couplets have many religious and philosophical reverberations. The first striking quality of this ghazal is that it is teeming with thoughts. It has strong intellectual appeal. It clearly appears to be the product of a philosophical mind and is remarkable for its chaste simplicity and for the beauty of the diction employed.

We would agree that every work of literature has two aspects, form and substance. Great poetry is produced when poet takes due care of both form and substance.  Most poets disturb the balance in favour of form and devote too much attention to formal perfection, thus producing poetry which 'looks good' but 'tastes bitter'.  Iftekhar Raghib has been successful in maintaining the balance between form and substance.
The poet himself says:
 
چاہیے معنی و مفہوم کی نیرنگی بھی
صرف کافی نہیں الفاظ کا چسپاں ہونا

Essential is a rainbow of imagination and emotions
Metrical composition alone, just does not suffice

Raghib is an 'aroozi' poet who is noted for strict observance of the rules of language.  Today many people are of the opinion that writing poetry according to the standards and rules laid down by the classical Urdu poets, results in repression of emotion and imagination and in correctness and elegance of expression. It is true that regular ghazal and nazm (when compared with prose and particularly with nasri nazm) restrict spontaneity, but it guarantees the beautiful, most desired, and appropriate structure. Raghib's poetry is demonstrative of a skillful poet who says new and significant while following the basic rules of prosody.

In Doha Qatar, Guzergah-e-Khayal Forum organizes symposium on Mirza Ghalib every month to enhance understanding of Ghalib, where prominent literary personalities of Qatar, poets, writers, and Ghalib-experts discuss, interpret, and critically appraise Mirza's ghazals. Iftekhar Raghib, in first symposium, made an earnest attempt to compose a humorous ghazal using a verse from Ghalib's couplet and adding his own to the next. His poetic creatively and 'aroozi' skillfulness was greatly appreciated and much liked by the participants and attendees so much so that he was requested to continue with his endeavour to present such composition at every Ghalib-symposium.

On nostalgia, and in the state of hardship and pain, noted Urdu poet Fani Badayoni said:

فانی ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں بے گور و کفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا

Fani, while being alive, I'm a shroudless unburied corpse
Who is expatriated from homeland and couldn't settle abroad

Being a stranger, away from home has its own unique experience. Raghib has gone through that experience being an expatriate in Qatar for many years. He too handled a similar situation, like Fani, in a masterly fashion by creating imagery of sensation which is quite prominent in his couplets below. It clearly suggests the quick and acute sensuous perception reaching the heart of the reader with overpowering effect.

لے جائے جہاں چاہے ہوا ہم کو اُڑا کر
ٹوٹے ہوئے پتّوں کی حکایت ہی الگ ہے

The wind, like the hand of destiny, sweeps away the leaves
The tale of the leaves plucked from the trees, is atypical

پردیس میں رہ کر کوئی کیا پانْو جمائے
گملے میں لگے پھول کی قسمت ہی الگ ہے

How would one settle down in a foreign land?
Destiny of the flower planted in flower-pot, is atypical
Raghib has employed the technique of throwing up a shower of translucent images to depict the helplessness and the state of being hapless, which can coalesce into a meaningful obvious reality. His distinctive poetic technique, simple use of words, and remarkable originality exhibit quick sensibility to the world around him, where he himself suffers and sees others in nostalgic pain too. Fani, whose poetry largely revolves around the theme of death, and sorrowfulness runs through all of his compositions, his poetical pondering on underlying theme is certainly a remarkable one. Raghib with wide variety of themes, however, expresses this reality with freshness. I can, with confidence, make a case that the above couplets are among the best poetry created in our time. These couplets show Raghib's deep sensibility. He could not have written such couplets if he was not sensitive and observant.
The above couplets, due to their deep simplicity and authentic expression, deserve to occupy a significantly vital place in contemporary Urdu poetry.
In a similar situation, it is interesting to note how different poets select words and expressions that suit their purpose most and employ special connotations to deepen implication and association. Ghalib on the way to Calcutta to plead for the case of his hereditary pension, wrote a ghazal in which he described, in his unique style, his keen perception and lived experience. Maqta' is:
تھی وطن میں شان کیا غالبؔ کہ ہو غربت میں قدر
بے تکلّف، ہوں وہ مشتِ خس کہ گلخن میں نہیں

Ghalib, was I dignified at home so I should expect to be valued abroad?
Frankly, I'm that fistful of garden-waste that is not in the waste-container

A specimen from Raghib's 'Ghazal Darakhat':
ظالم سے لڑوں گا میں قلم ہاتھ میں لے کر
دشمن کی یہ کوشش ہے کہ شمشیر اٹھا لوں

With the oppressor, I'm determined to fight with pen in hand
My foe, even so, is provoking me to pick up the sword
---
دامن کا ہے جو حال وہی دوستی کا ہے
پیوند کیا  لگاۓ کوئی  چاک چاک میں

Try not to patch up my extremely tattered cloths
The state of my garb is no different than our friendship

اُس لفافے میں بند ہوں راغبؔ
جس پہ نام اور پتہ نہیں موجود

I'm locked in an envelope, Raghib
Which has no name and address

In the first couplet, he handles the situation with an alarming sense and succeeds in exhibiting robust optimism in his faith and himself. It is faith that he has expressed so well and so authentically.

The second couplet is a perfect specimen of deep simplicity and passion with rich decorative quality. Ornamental imagery of relating 'dosti (relationship)' to 'daman (garb)' is exquisite, representative, and quintessential of Raghib's poetic art. The expression, the sweep and the flow of the couplet, is reminiscent of the glorious diction of the great eighteenth century classical Urdu poet Mir Taqi Mir.

The above three couplets give an impression of Raghib's poetry, from the point of view of his approach towards creating themes with intense integrity and sincerity. He has exhibited quick sensibility, and expressed his thoughts involving different philosophical dimensions to the world he lives in.

میں چاہتا تھا تم سے نہ جیتوں کبھی مگر
کھا جاؤں خود سے مات نہیں چاہتا تھا میں

I never wanted to win against you, but
To lose against my own self, is not what I wanted either

کیا حال اب ہے تیرے تعاقب میں اے حیات
تُو یوں ہی آئے ہات نہیں چاہتا تھا میں

What a distressing state I'm in, in pursuing success
I get you effortlessly, is not what I wanted either

Raghib is one of the very few genuine and original poets of Qatar. He is a star poet of Dabistan-e-Qatar. Distinctive aesthetic pleasure and thoughtfulness is what Raghib's poetry is about. In support of my views, I quote below a fine sample from Raghib's poetry with its English translation.

اندازِ ستم اُن کا نہایت ہی الگ ہے
گزری ہے جو دل پر وہ قیامت ہی الگ ہے

Her style to cause an emotional anguish and distress, is atypical
Tragedy and pain, I have been through, and barely survived, is atypical

لے جائے جہاں چاہے ہوا ہم کو اُڑا کر
ٹوٹے ہوئے پتّوں کی حکایت ہی الگ ہے

The wind, like the hand of destiny, sweeps away the leaves
The tale of the leaves plucked from the trees, is atypical

پردیس میں رہ کر کوئی کیا پانْو جمائے
گملے میں لگے پھول کی قسمت ہی الگ ہے

How would one settle down in a foreign land?
Destiny of the flower planted in flower-pot, is atypical
باہر سے تو لگتا ہے کہ شاداب ہے گلشن
اندر سے ہر اِک پیڑ کی حالت ہی الگ ہے

From surface, it appears a blossom garden of exquisiteness
In fact, the inner state of each tree (forsaken hearts), is atypical

جتنا ہے ثمر جس پہ وہ اُتنا ہے خمیدہ
پھل دار درختوں کی طبیعت ہی الگ ہے

Accomplished ones, are gifted with the virtue of modesty
The nature, and the content of fruit-bearing trees, is atypical

ہر ایک غزل تجھ سے ہی منسوب ہے میری
انداز مِرا تیری بدولت ہی الگ ہے

Each of my couplets is attributable to you, my love
My style of diction, because of you, is atypical

کس کس کو بتاؤں کہ میں بزدل نہیں راغبؔ
اس دور میں مفہومِ شرافت ہی الگ ہے

How shall I convince others, that I'm not a coward, Raghib
The sense of decency, and civility, in our age, is atypical

The intelligent reader is more concerned about the substance in the poetry, and appreciates the artistic side of it. Coherent structure, and thematically connected parts are, however, the basic requirements that make poetry worth reading. Raghib, in this book, has succeeded in providing a feast of keen delight to the readers. His thoughts are bright and clear. He has expressed complex sensibilities in appropriate manners with his unique style marked by elegant terseness, precision, and density of expression. Raghib has skillfully and boldly experimented with words. This book's title 'Ghazal Darakhat' is Raghib's own coined term.
'Ghazal Darakhat' is not another run-of-the-mill poetry book. The variety and scope of Iftekhar Raghib's poetry topics are truly remarkable. Raghib has previously published two poetry books namely 'Lafzon Main Ehsaas (Emotions in Words)' and 'Khayal Chehrah (Face of Imagination)'. His newest book 'Ghazal Darakhat' is atypical of his previous poetry work. The name fits the book perfectly for the reason that it presents new themes, and also touches on familiar themes, but with variation. I, therefore, feel that it holds special allure for the Urdu poetry enthusiasts. Please enjoy the book; you will certainly appreciate depth, and originality of it.
Dr. Faisal Hanif
Founder and President of Guzergah-e-Khayal Forum
Doha, Qatar



Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP