You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Thursday, December 29, 2011

مت مسلہ اور ادھار کی تہذیب!


اگر کسی قوم کو مغلوب کرنا ہوتو اس کے دو طریقے ہیں۔ ایک اسے زرو زور سے مغلوب کردیا جائے ۔ غلامی کی زنجیریں اس کے گلے میں بزور ڈال دی جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کی سوچ وفکر کو تبدیل کردیجیے وہ قوم خود بہ خود مغلوب ہوکر آپ کی غلام بن جائیگی۔پہلا طریقہ کافی مؤثر ہوتا ہے اوراس کے نتائج فوری ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ اس کے لیے کثیر وسائل و زورِبازو کی ضرورت درکار ہوتی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ طریقہ صرف اس وقت تک ہی کار گر رہ سکتا ہے جب تک غلام قوم اپنی طاقت کو دوبارہ پا نہیں لیتی اِدھر وہ منظم ہوئی کہ اُدھر ظالم کو اس کے انجام تک پہنچتے دیر نہیں لگتی۔ 
دوسراطریقہ پہلے کے مقابل کافی صبر آزما اور وقت طلب ہے۔اس کے لیے موجودہ وسائل کاطریقۂاستعمال کافی اہمیت رکھتا ہے ۔ آپ کے طریقہ استعمال اور حکمت عملی ( عیاری) اس کے نتائج اور کامیابی کا تعین کرتے ہیں۔ آپ کو کسی کے مدمقابل کھڑے ہوکر زور آمائی کی بھی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ آپکا حریف دھیرے دھیرے آپکی تدبیروں سے مات کھاتاہوا آپ کا غلام بن جاتاہے ۔ آج کے دور میں خود کو ترقی یافتہ کہلانے والی اسلام دشمن اقوام اسی پر عمل کر کے آج عالم اسلام کو ہر میدان میں پست کرنا چاہتی ہے۔ اس طریقہ کا سب سے مہلک پہلو یہ ہے کہ مغلوب قوم کی عقل و خودی اس قدر بے کار ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے غالب آقاؤں کی اگلی ہوئی الٹیوں کو بلا کراہت نگلنے لگتی ہیں ۔ اس پر غالب قوم اس کے افکار کو اپنی بیڑیوں میں جکڑ لیتی ہے ۔ اُسے آزادی کے وہی معنی نظر آتے ہیں جو اس کے آقا بتلاتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ بھی آج انہیں امراض کا شکار ہوچکاہے۔ ملت اسلامیہ ہند جس کے قدموں میں کبھی ہندوستان کا تاج ہوا کرتاتھا آج انتہائی ذلت و پسماندگی میں مبتلا ہے۔ اس کے باوجود اس امت کی اکثریت ’’ پدرم سلطان بود ‘‘ کی یادوں اور گھمنڈ سے نکل نہیں پا رہی ہے۔اس کے باوجود نقالی اس کے رگ وپے میں بسی ہوئی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب سرسید احمد خان کو محض اس لیے طعنے سننے پڑے تھے کہ لوگوں کو ڈر تھا کہ کہیں انگریزی کے ساتھ انکے بچے یورپ کی بری تہذیب بھی نہ سیکھ لیں۔ لیکن وقت کے ساتھ تصویر بدلتی گئی ۔ آج ہم اگر اپنی قوم کا جائزہ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ جو جتنا مغرب زدہ اور مغرب پرست ہے عوام کی نظروں میں اتنا ہی زیادہ صاحبِ حیثیت و باعزت سمجھا جاتا ہے۔ لوگ تصور کرتے ہیں کہ وہ بھی اس کے نقش قدم پر چلیں گے تو باعزت کہلائیں گے۔ جبکہ عزت و ذلت کا دینے والا تو صرف اللہ ہے اور اللہ کے یہاں عزت و ذلت کا کیا پیمانہ ہے اس سے مسلمان قرآن و حدیث کی روشنی میں خوب واقف ہیں ۔لیکن ہم جب قرآن اور سنت نبوی ﷺ سے منھ موڑ چکے ہیں تو اس کا علاج کیا ہے۔
ہندوستان میں امت مسلمہ کی تاریخ دیکھیں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک دور میں اس ملک کا تاج مسلمانوں کے قدموں میں تھا۔ پھر انگریزوں کی مکاری و چالبازی نے ان سے وہ تاج چھین لیا۔ لیکن تب تک انگریز بھی جان چکے تھے کہ اس قوم کا سب سے بڑا ہتھیار اس کی حمیت اسلامی ہے۔ بس حکمت عملی بدلی اور سب سے پہلا وار اس غیور قوم کی غیرت پر کیا گیا۔ جس کی طاقت کا مقابلہ سارا ہندوستان نہیں کرپایا مٹھی بھرانگریزوں کی چال بازیاں ان کے طاقت کے محل کو چکنا چور کر گئی اول اقتدار ہاتھوں سے جا نے لگا۔ امت معاشی و اخلاقی پستیوں کا شکار ہوتی چلی گئی جو سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس کی خودی مٹتی گئی اور قومی غیرت تباہ ہوتی گئی ۔ جو کبھی اس ملک میں اقتدار پر قابض تھی 1857 ؁.ء میں اپنی جا ن بچانے کے لیے گلی گلی چھپنے لگی۔ جس نے اس ملک پر ایک تقریباً ہزار سال حکومت کی جنگ آزادی میں بھی پیش پیش رہی آزادی کے بعد وہ قوم اس قابل بھی نہیں رہی کہ اپنی عبادت گاہوں کی بھی حفاظت کر سکے۔ 1857 ؁.ء کی ناکامی کو ایک صدی بھی نہ گزرنے پائی کہ90 سال بعد ہی تقسم ملک اور چھوٹی مسلم ریاستوں کے الحاق نے اسے مزید پستی کی طرف جھونک دیا۔ ابھی تقسیم اور اسکے فسادات سے نکل بھی نہ پائے کہ ان کی عبادت گاہوں پر خطر ات منڈلانے لگے ۔ تقسیم کے 45 سال بعد ہی بابری مسجد سانحے نے اسے گھیر لیا۔ ابھی اس سانحے کو ایک دہائی بھی نہ گذری کہ ملک بھر میں فسادات کی ہوا عام ہوگئی جس کے نتیجے میں گجرات کے نسل کش فسادات، جعلی انکاؤنٹرس کا سلسلہ جاری ہوگیا جو ہنوز جاری ہے۔اب حال تو یہ ہے کہ امت کے مفکرین کو یہ طئے کرنابھی ایک عظیم مسئلہ لگ رہا ہے کہ کس مسئلے پر کتنی توجہ دیں۔ کشمیرمسئلہ پر توجہ دیں یا ظالم حکمرانوں کو سزا دلانے کے لیے انصاف کی مانگ کریں۔ اس قوم کو معاشی پستی سے نکالنے کے لیے حکومتی اسکیمات اور ریزویشن پر غور کریں کہ اس قوم کے مستقبل کی نسلوں کے لیے تعلیمی حصول کو ممکن بنائیں۔
لیکن ان سب سے دور امت کی اکثریت اب بھی نقالی میں اس قدر مبتلا ہے کہ اسے اپنے سامنے صرف ایک ہی جملہ نظر آرہا ہے کہ ’’ بابر بہ عیش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ ۔ اسے صرف اپنی زندگی اور اس کے لیے درکار چیزوں کا حصول ہی اس کا مقصد بنا ہوا ہے۔
ان لو گوں کے لیے نیا سال منانا ۔ خود ساختہ مہذب قوموں کی نقالی کرنا ہی ان کے لیے بے حد خوشی کی بات ہے۔ انھیں نہ اپنے مذہب کی پرواہ ہے نہ ہی اپنی قوم کی۔ ان کے لیے مذہب صرف اتنا ہے کہ مخصوص دنوں میں روزہ رکھنا۔دل میں آئے تو نماز پڑھ لینا ۔ لیکن بعض کو تو یہ بھی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ ہا ں البتہ انھیں نئے سال کی پارٹی ، کسی شناساکے یہاں منعقد یوم پیدائش کی تقریب وغیرہ منانے میں خوشی محسوس ہوتی ۔ یہ معاشرہ کدھر جارہا ہے اسکی منزل کیا ہے؟ اسکی پہچان کیا ہے؟ ان سوالات سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں۔ نہ ہی زعماء ملت کو ہی اس کا احساس ہے۔اگر دلچسپی ہے تو اس استعاری تہذیب سے جس کا لبادہ انھوں نے اپنی خودی اور غیرت کو بیچ کر اوڑھا ہے۔کاش ہم لوگ اپنے مقام کو پہچان پاتے کاش ہمیں ہمارا معمار جہاں کا کردار یاد آجائے۔ کاش ہم اپنے مقام سے آگاہ ہوپاتے ۔ہمارا کام یہ نقالی کرنا نہیں بلکہ سارے جہاں کو اپنے نقش قدم پر چلانا ہے۔ سب کی رہنمائی کرنا ہے۔ نہ کہ کسی کی نقل کرنا۔ ہماری پہچان یہ ادھار کی تہذیب نہیں بلکہ ہماری پہچان ہمارے اسلاف کے کارنامے ہیں جو آج بھی سارے عالم کے لیے سنگ ہائے میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ساری دنیا ہمارے پیچھے آئے گی ۔ ہماری رہنمائی سیدھے اللہ کی طرف سے کی گئی ہے ۔ ساری انسانیت کے ہے رہنما ہم ہیں۔
کاش امت مسلمہ اس کے مقام کو پہچان جائے کہ اس کی نسبت کس سے
تیری نسبت براہیمی ہے معمار جہاں تو ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عبدالمقیت عبدالقدیر شیخ ، بھوکر
 
Mob: 9867368440

Sunday, December 25, 2011

خوشی ہم سب کی


5 جنوری 2009ء کو ہماری لنترانی ویب سائٹ بلاگ کی صورت میں سب کے سامنے آئی  اور اس پر پہلی پو سٹ شائع کی گئ تھی ۔ اور اردو نستعلیق میں لنترانی اللہ کے رحم و کرم سے اور آپ وزیٹرس کے تعاون سے  بہت  جلد مشہور و مقبول ہو گئی اور'' عالمی ڈآئری '' کے نام سے پہچانی جارہی ہے ۔  ایک بات بتادوں کہ اب " لنترانی میڈیا ہاؤس "بن چکا ہے ۔اس کے آٹھ شعبے اپنی پوری محنت کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔
1۔ لنترانی ڈاٹ کام
2۔ لنترانی پبلیکیشن
3۔ لنترانی سائبر
4۔ لنترانی فائن آرٹ
5۔ لنترانی میوزک
6۔ لنترانی لینگواٹرانس
7۔لنترانی ایجوکیشن ایونٹس
8۔ لنترانی اردو کمپیوٹر ''ورک شاپ اور پرزنٹیشن

انشا اللّہ بہت جلد لنترانی پبلیکیشن کی پہلی کتاب '' انمول اقوال ''اقوال زریں کا نایاب تحفہ  ''سی ڈی'' کے ساتھ منظر عام پر آرہا ہے ۔ سی ڈی سے بچوں میں کمپیوٹر سے دلچسپی پیدا ہو گی ۔ اور بچوں میں اچھے اقدار پیدا ہوںگے ۔
لنترانی  فلم کی پہلی پیش کش جو کہ ایک آرٹ فلم ہے جو صرف 40 منٹ کی ہے پریمیئر شو ہونے سے پہلے ہی بروز اتوار مورخہ 18 دسمبر 2011ء کو فیض آباد فلم فیئر فیسٹیول میں دکھائی گئی ۔ اور بہت پسند کی گئی ۔فلم کو کافی سراہا گیا ۔ اس پر بحث و مباحثہ کیا گیا ۔اور بہت سے لو گوں نے مبارکباد دیں ۔ہم تمام ٹیم کے طرف سے سب وزیٹرس اور لنترانی کے خیر خواہاں کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ امید ہے کہ آپ کا تعاون ہمیشہ ہمارے ساتھ بنارہے گا ۔اور لنترانی میڈیا ہاؤس اسی طرح توقی کی راہ پر گامزن رہے گا ۔ آمین  ثمّہ آمین  
 

اردو کمپیوٹر ورک شاپ

 
مدنی ہائی اسکول جوگیشوری ممـبئی میں کاوش کے طرف سے اساتذہ کے لۓ کمپیوٹر بیداری کے لۓ و رک شاپ رکھا گیا تھا ۔ پچاس ساٹھ اساتذہ موجود تھے ۔ لنترانی میڈیا ہاؤس کے مینجینگ  ڈائریکٹر ڈاکٹر روپیش سریواستو نے اس ورک شاپ میں کمپیوٹر کی اہمیت اور اپنی تدریس میں کمپیوٹر کا کس طرح استعمال کرسکتے ہیں ۔اور کس طرح ہمارے لۓ فائدے مند رہے گا ۔یہ سمجھایا ۔اور بغیرکسی سوفٹ ویئر کے ہم کمپیوٹر میں کس طرح اردو ایکٹیویٹ کرکے باقاعدہ اردو لکھ سکتے ہیں ۔اسے پروجیکٹر اور اسکرین  پر  سمجھایا ۔اور پھر پریکٹیکل یعنی عملی طور پر کروا کر رہنمائی کی گئی ۔ یہ  ورک شاپ بہت کامیاب رہا ۔ کاوش ( تنظیم اساتذہ) کی یہ کوشش کامیاب رہی ۔

Wednesday, December 14, 2011

حسین ڈے

سہیوگ کلچرل سوسائٹی اورالکمال اردو فاؤنڈیشن  کے زیر اہتمام  اسلام جمخانہ کے جابر ہال میں بروزسنیچر مورخہ 10 دسمبر 2011ء کو تیرہواں سالانہ ( حسین ڈے ) کی مجلس منعقد کی گئی ۔عبدالسمیع بوبیرے(صدر سہیوگ  کلچرل سوسائٹی)  نے کہا کہ ''امام حسین  نے باطل کے  خلاف انسانیت  کو ایک نیا چارٹر دیا ہے ۔ ہمارا یہ پروگرام  لوگوں میں اتحاد و اتفاق و بھائی چارے  کو فروغ دینے کی کاوش  ہے ۔  حسین ڈے  کے  عنوان پر مقّررین نے اس طرح کا اظہار خیال کیا ۔ پدم شری ڈاکٹر محمودالرحمن  نے  کہا کہ" حسین ڈے میں  تمام عقائد و مذہبی  رہنماؤں کی موجودگی  اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ امام حسین نے  اپنی  شہادت  سے پوری انسانیت کو یکجا کرنے کا حوصلہ دیا ہے ۔"مولانا مظہر  نے اپنے خطاب میں کہا کہ ''امام عالی مقام سیدنا امام حسین نے تاریخ انسانیت میں یذید کی حکومت   کو باطل قرار  دینے اور دین  کی عظمت  کو بلند  کرنے میں جو کردار اور عمل  دکھایا ہے کہ اس کا اعتراف  پوری  انسانیت  کے حق پرست   کرتے ہیں۔ اس موقع پر  پارسی مذہبی  رہنما یزدی پنٹکی  عیسائی مزہبی رہنما رمیش دیسوزا ، شری کے آر  پوری ، ایڈوکیٹ  بی  اے دیسائی ، محمد حسین کھنڈوانی ،آصف اعظمی ( صحافی دہلی)  ڈاکٹر کامران خان نے  اور  نجات  فاؤنڈیشن کے فاروق اعظمی نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔مشہورو معروف شاعر عبدالاحد ساز ،عبدالحمید ساحل اوررؤف معروف نے روحانی مشاعرے میں حصہ لیا ۔اور اپنے کلام سے  مجمع کو محظوظ کیا ۔اور پھر عشائيہ پر پروگرام  کا اختتام ہوا ۔

Sunday, December 04, 2011

21 وی صدی کے اساتذہ

 کاوش ( بزم اساتذہ) کے زیر اہتمام 26 نومبر 2011ء کو دوپہر 3بجے نہرو  پلینٹوریم  ہال آف ہارمونی ورلی ممبئی میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد ورکشاپ  کا انعقاد کیا گیا تھا ۔ جس میں مختلف  عنوانات جیسے (1) اکیسویں صدی  کے طلبا ء اساتذہ کے  لیے   چیلینچ   (2)  سائٹ افیکٹ آف  ٹینالوجی ( 3) ٹیوشن ضرورت یا تجارت ( 4) غیر انگریزی ( اردو ) اسکولوں کا مستقبل  پر سیمینار رکھا گیا ۔سب سے پہلے تلاوت  قران کے بعد استقبال کے وقت پروجیکٹر پر سلائڈس  اور ویڈیو ی  بتاۓ گیے ۔پروگرام کا آغاز   عارف عثمانی سر نے کیا ۔ پورے پروگرام کا لائحہ عمل تر تیب وار  پیش کیا ۔اور ٹیکنالوجی کی مختصر معلومات دی ۔اور یہ بات واضح کرنے کی کوشش کیں ۔    جب بچہ اسکول آتا ہے تو بے پناہ  معلومات  اور تجسس کا سمندر لے کر  آتا ہے ۔اب طلباء اساتذہ سے زیادہ آگے بڑھ رہے ۔ انٹرنیٹ سے معلومات حاصل  کررہے ہیں ۔ یعنی انھوں نے اکیسویں صدی میں قدم رکھا ہے جو کہ ٹیکنیکی دور ہے ۔ ان  کی ذہنی عمر (آئ ،کیو )  بڑھ گئی ہے ۔۔اساتذہ کو بھی خود کو تکنیک سے آراستہ کرنا ہے ۔  گولڈ میڈلسٹ ڈاکٹر ضیاءالرحمان ،سر ( پرنسپل آف رئیس   ہائ اسکول بھیونڈ ی) نے اکیسویں صدی کے اساتذہ  کے  لیے چیلینچ  اس پر بہت اچھے انداز میں گفتگو کیں۔ اور شروعات اس طرح کی کہ پہلے بلیک بورڈ  ( تختہ سیاہ ) کالا ہوتاتھا ۔اب وہ ہرا ہو گیا ۔ہے ۔بچے  زیادہ ایڈوانس ہو گیے ہیں۔  ٹیکنالوجی  جیسی   آندھی کا رخ مثبت  بنانے میں ٹیچرس کوبھی اپنا مزاج  بنانا ہو گا ۔طلباء کا آئي کیو 15سے 18٪ بڑھ گیا ہے ۔اس  لیے اب ٹیچرس کی ذہن سازی ضروری ہے ۔  کاظم ملک اور عامر انصاری نے ایک گھنٹے تک ویڈیو چیٹنگ کے ذریعے ٹاک شو لیا ۔تمام لوگوں نے  اس میں  حصّہ  لیا  ۔   مسسز نجمہ قاضی ، ڈاکٹر رخشندہ،  ڈاکٹر ریحان انصاری،سعید خان پینیلسٹ تھے ۔اس میں تمام سامعین نے حصہ لیا،ا نقلاب کے مدیر شاہد لطیف  سرکے ہاتھوں  تعلیمی ویب سائٹ     رہنمائی     ڈاٹ کام کا افتتاح کیا گیا ۔اور انھوں نےکہا کہ ہمیں  ایک پلیٹ فارم  بنانا ہے ہم میں جو کوالیٹی  ہے اس کو پہچان کر مل جل کر آگے بڑھنا ہے ۔ہر ٹیچر ایک  انجمن ہے سب مل کر کام کریں تو انقلاب لا سکتے ہیں۔  اور اس طرح کے پروگرام مختلف علاقوں میں ہونے چاہیے۔رسم  شکریہ اخلاق سرنے ادا کیں۔اس طرح سے پروگرام کا اختتام ہوا      







 اس ورکشاپ کے لیے پہلے سے ہی اساتذہ کا رجسٹریشن کیا گیا تھا ۔  اس ورکشاپ سے 200 سے  زیادہ اساتذہ نے استفادہ حاصل کیا ۔  پروگرام کے کنوینر مسٹر الطاف ناٹوسکر صاحب تھے ۔ان کا انتظام بہت اچھاتھا ۔پروگرام کافی کامیاب رہا ۔

Saturday, December 03, 2011

کل ہند سیمینار و مشاعرہ


ملّت ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی جھانسی  (ہندوستان) کے زیر اہتمام گورنمنٹ میوزیم کے سبھا گرمیں پانی پت و ہریانہ کے مشہور محقق رمیش چندرپوہار کی صدارت میں ایک کل ہند سیمینار بہ عنوان  ''اردو شعراء و ادب میں  غیر مسلم  شعراء  ادباء کی خدمات منعقد ہوا ۔،بطور مہمان خصوصی  سابق ایم ۔ایل ۔اے  برجیندر ویاس عرف ڈم ڈم مہاراج رہے ۔اس موقع پر پروفیسرشیخ عائشہ سمن  کے شعری مجموعہ  '' نقرئی گنگن بول اٹھے '' کا اجراء کیا گیا ۔اور انھیں ایوارڈ سے نوازا گیا ۔سیمینار میں میرٹھ کالج کے صدر شعبہء اردو سپروفیسر خالد امبالا کے مہندرپرتاپ چاند ۔۔جالندھر پنجاب کے ۔۔۔۔۔معروف شاعر سینچھی معروف ادیبہ ڈاکٹرو سماجی کارکن سہارنپور کی شسما بجاج نے شرکت کیں ۔پروفیسر خالد نے کہا ۔اردو کے لۓ مخلصانہ و عہددرانہ جذبہ  رکھنےوالے  مسلمانوں  سے زیادہ غیر مسلم شعراء و ادباء  ہیں۔ہریانہ کے مہندر پرتاپ چاند  نے کہا  کہ یہاں کے   غیر مسلم شعراء و ادباء کے فکر کے بغیر  اردو  شاعری نامکمل ہے ۔ان کی خدمات کو فراموش نہیں  کیا  جاسکتا ۔مالٹیر کوئلہ پنجاب کے نو جوان  شاعر ضمیر علی ضمیر نے اس موضوع پر منعقد ہونے والے سیمینار کو وقت  اور حالات  کی اہم ترین ضرورت  بنایا ۔انہوں نے کہا اردو  شعراء و ادباء کی تحسین و ستائش  ہمارا فرض ہے ، سیمینار کے کنوینیئر فیروز خان ندوی نے اپنے استقبالیہ خطاب میں تمام مہمانوں کا تعارف کراتے ہوۓ کہا کہ '' اردو کو کسی بھی  دھرم  کسی بھی مذہب سے جوڑا نہیں جاسکتا ،اردو پر یہ بہت بڑا الزام ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے ۔یہ  بلکل غلط ہے ۔اردو ہندوستان کی زبان ہے ۔اس  موقع پر جھانسی کے استاد شاعر جان رابرٹ پال  نادرشاہ جہاں پوری کی یاد میں ایک مشاعرہ بھی منعقد کی گیا ۔  جس میں تمام شعراء نے اپنے کلام سناکر سامعین کو محظوظ کیا ۔ اس خالص ادبی تقریب میں  شہر کی معروف نمائندہ شعراء و معزّزین  اہل و دانش نے شرکت کی۔ جن میں قابل  ذکراقبال حسن مہیبا ، ارمان بتوارے ،عبدالغنی دانش،  عثمان اشک ، عمر اشک حاجی  قمر صدیقی  نیاز مبوودے ، فاروق کیفی ، محمود خان ڈاکٹر انیس احمد وغیرہ موجود رہے ۔کلمات تشکّر سرفراز معصوم نے ادا کۓ ۔یہ ادبی تقریب کامیاب رہی ۔ایسے پروگرام ہونے چاہیے ۔      


























       

Friday, December 02, 2011

Quiz time




او بی سی اسکالرشپ کے سلسلے میں سی سی آئی کی سرگرمیاں : مالیگاؤں ، ۲؍ دسمبر


مہاراشٹر میں اقلیتی طلبہ کو حکومتی اسکالرشپ اسکیمات سے فائدہ دلانے کیلئے سرگرم تنظیم سی سی آئی نے آج وزیر اقلیتی امور اور نائب وزیر اعلی و وزیر اعلیٰ مہاراشٹر کو خط لکھ کر او بی سی ( OBC) اسکالرشپ اسکیم کے فارم کو آن لائن کر دینے سے ہونے والے نقصانات پر تشویش جتائی ہے۔ اس ضمن میں سافٹ وئیر کی بعض کمزوریوں کے پیش نظر OBCطبقہ کے لاکھوں مستحق طلبہ کو اسکالرشپ سے محرومی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سی سی آئی کے قومی کارگزار صدر پروفیسر عبدالمجید صدیقی کی قیادت میں مالیگاؤں کے معاملیدار ہرش گائیدھنی سے آج نمائندہ وفد نے ملاقات کرکے OBCاسکالرشپ کے حصول میں درپیش دشواریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ آج اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے طلبہ کو صرف اسلئے او بی سی اسکالرشپ سے محروم کیا جارہا ہے کہ انھوں نے چند سال قبل SSCکا فارم بھرتے وقت مقررہ ذات کے کالم میں OBCکا اندراج نہیں کروایا تھا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جس وقت طالب علم SSCامتحان میں شریک ہوتا ہے اس وقت اس کے پاس ذات پات کا کوئی سرٹیفکٹ موجود نہیں ہوتا اس لئے جان بوجھ کر وہ ذات کے کالم میں اپنی کاسٹ کو واضح نہیں کرتا ۔ عام طور پر ہمارے ملک میں ذات کے دستاویز SSCپاس کرنے کے بعد میں بنوائے جاتے ہیں ۔ البتہ سی سی آئی نے رواں تعلیمی سال میں SSCفارم بھرتے وقت ذات کے کالم میں OBCیا دیگر ذاتوں کے اندراج کی ’’ بیداری مہم‘‘ چلائی ہے ۔ لیکن چند سال قبل جن طلبہ نے SSCپاس کرلیا ہے ۔ ان کے پاس آج OBC سرٹیفکیٹ موجود ہونے کے باوجود انھیں صرف اس لئے اسکالرشپ سے محروم رکھا جارہا ہے کہ انھوں نے SSCفارم میں اس کا خلاصہ نہیں کیا تھا ۔ اسی طرح کی فیڈنگ والے سافٹ وئیر کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں حقدار طلبہ کے اسکالرشپ فارم براہِ راست مسترد ہورہے ہیں ۔ اور ان میں مسلم طلبہ کی بہت بڑی تعداد ہے ۔ سی سی آئی نے حکومت مہاراشٹر سے درخواست کی ہے کہ سافٹ وئیر کی اس تیکنکی خامی کو فوراً دور کرلیا جائے ۔ اور ممکن ہو تو آن لائن فارم کے ساتھ ساتھ کاغذی فارم بھی قبول کئے جائیں ۔ تاکہ کوئی بھی حق دار طالب علم محروم نہ رہے۔ دیگر مطالبات میں کہا گیا کہ تحریری عریضہ فارم کے ساتھ ذات کے سرٹیفکٹ کی مستند کاپی قبول کی جائے اور اس سلسلے میں سماج کلیان محکمہ کو فوری طور پر ہدایت جاری کی جائے ایک اور مطالبہ یہ کیا گیا کہ اسکالرشپ کے آن لائن سسٹم کیلئے بنائے گئے سافٹ وئیر میں بہت سارے کالجوں کا اندراج تک نہیں ہے۔ ایسے کالجوں کے طلبہ بھی محرومی کا شکار ہورہے ہیں ۔ لہذا اسکالرشپ کے ضمن میں ان تمام کمزوریوں کو فوری طور پر دور کرلیا جائے ۔
اس سلسلے میں آج حکومتی نمائندوں سے ملنے والے وفد میں پرنسپال عبدالمجید صدیقی ، پرنسپال عتیق شعبان ، اشفاق عمر ، انعام وحید ، اخلاق بالے مقادم ، ڈاکٹر مجیب الرحمن شامل تھے ۔ وفد نے این سی پی کے مالیگاؤں صدر حاجی محمد یوسف سے بھی اس موضوع پر تبادلۂ خیال کیا۔ اوران کی رہنمائی میں چند روز کے بعد وزیر اعلی ، نائب وزیر اعلیٰ اور محکمہ اقلیتی امور کے ذمہ داران سے ملاقات کیلئے وفد ممبئی بھی پہنچے گا۔ اس ضمن میں تمام متعلقہ وزیر اور محکمہ جاتی سکریٹریز کو محضر نامے روانہ کئے گئے ہیں ۔
***

حیاتِ اقبال کا سبق



سید ابوالاعلیٰ مودودی
دنیاکا میلان ابتدا سے جدید ترین دور تک ”اکابر پرستی“ (Hero-Worship)کی جانب رہا ہے۔ ہر بڑی چیز کو دیکھ کر ہذا ربی ہذا اکبر کہنے کی عادت، جس کا ظہور قدیم ترین انسان سے ہوا تھا، آج تک اس سے نہیں چھوٹی ہے۔ جس طرح دو ہزار برس پہلے بودھ کی عظمت کا اعتراف اِس مخلوق کے نزدیک بجز اس کے اور کسی صورت سے نہ ہوسکتا تھا کہ اس کا مجسمہ بناکر اس کی عبادت کی جائی، اسی طرح آج بیسویں صدی میں دنیا کی سب سے زیادہ سخت منکر عبودیت قوم (روس) کا ذہن لینن کی بزرگی کے اعتراف کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں سوچ سکتا کہ اس کی شخصیت کے آگے مراسم عبودیت بجالائیں۔ لیکن مسلمان کا نقطہ نظر اس باب میں عام انسانوں سے مختلف ہے۔ اکابر پرستی کا تصور اس کے ذہن کی افتاد سے کسی طرح میل نہیں کھاتا۔ وہ بڑوں کے ساتھ برتاو کرنے کی صرف ایک ہی صورت سوچ سکتا ہی، یعنی اولئک الذین ہداہم اللہ فبھد ہٰم افتدہ ”اللہ نے ان کو زندگی کا سیدھا راستہ بتایا تھا جس پر چل کر وہ بزرگی کے مراتب تک پہنچی، لہٰذا ان کی زندگی سے سبق حاصل کرو اور اس کے مطابق عمل کرو“۔ اسی نقطہ نظر سے میں اس مختصر سے مضمون میں اپنی قوم کے نوجوانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ جس اقبال کی عظمت کا سکہ ان کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہی، اس کی زندگی کیا سبق دیتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اقبال نے یہی مغربی تعلیم حاصل کی تھی جو ہمارے نوجوان انگریزی یونیورسٹیوں میں حاصل کرتے ہیں۔ یہی تاریخ، یہی ادب، اقتصادیات، یہی سیاسیات، یہی قانون اور یہی فلسفہ انہوں نے بھی پڑھا تھا، اور ان فنون میں بھی وہ مبتدی نہ تھے بلکہ منتہی فارغ التحصیل تھے۔ خصوصاً فلسفہ میں تو ان کو امامت کا مرتبہ حاصل تھا جس کا اعتراف موجودہ دور کے اکابر فلاسفہ تک کرچکے ہیں۔ جس شراب کے دوچار گھونٹ پی کر بہت سے لوگ بہکنے لگتے ہیں، یہ مرحوم اس کے سمندر پئے بیٹھا تھا۔ پھر مغرب اور اس کی تہذیب کو بھی اس نے محض ساحل پر سے نہیں دیکھا تھا جس طرح ہمارے 99 فی صدی نوجوان دیکھتے ہیں، بلکہ وہ اس دریا میں غوطہ لگاکر تہہ تک اتر چکا تھا، اور ان سب مرحلوں سے گزرا تھا جن میں پہنچ کر ہماری قوم کے ہزاروں نوجوان اپنے دین و ایمان، اپنے اصول تہذیب و تمدن اور اپنے قومی اخلاق کے مبادی تک سے برگشتہ ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ اپنی قومی زبان تک بولنے کے قابل نہیں رہتے۔ لیکن اس کے باوجود اس شخص کا حال کیا تھا؟ مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا، اس کے منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہوچکا ہی، اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی ہی نہیں رہا۔ وہ جو کچھ سوچتا تھا قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا، جو کچھ دیکھتا تھا قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔ حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شے واحد تھی، اور اس شے واحد میں وہ اس طرح فنا ہوگیا تھا کہ اس دور کے علمائے دین میں بھی مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو فنائیت فی القرآن میں اس امامِ فلسفہ اور اس ایم ای، پی ایچ ڈی بار ایٹ لا سے لگّا کھاتا ہو۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آخری دور میں اقبال نے تمام کتابوں کو الگ کردیا تھا، اور سوائے قرآن کے اور کوئی کتاب وہ اپنے سامنے نہ رکھتے تھے۔ سالہا سال تک علوم و فنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعدوہ جس نتیجے پر پہنچے تھی، وہ یہ تھا کہ اصل علم قرآن ہی، اور یہ جس کے ہاتھ آجائے وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے۔ ایک کسی شخص نے ان کے پاس فلسفہ کے چند اہم سوالات بھیجے اور ان کا جواب مانگا۔ ان کے قریب رہنے والے لوگ متوقع تھے کہ اب علامہ اپنی لائبریری کی الماریاں کھلوائیں گے اور بڑی بڑی کتابیں نکلواکر ان مسائل کا حل تلاش کریں گے۔ مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لائبریری کی الماریاں مقفل کی مقفل رہیں اور وہ صرف قرآن ہاتھ میں لے کر جواب لکھوانے بیٹھ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِمبارک کے ساتھ ان کی والہانہ عقیدت کا حال اکثر لوگوںکو معلوم ہی، مگر یہ شاید کسی کو نہیں معلوم کہ انہوں نے اپنے سارے تفلسف اور اپنی تمام عقلیت کو رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ایک متاع حقیر کی طرح نذر کرکے رکھ دیا تھا۔ حدیث کی جن باتوں پر نئے تعلیم یافتہ نہیں، پرانے مولوی تک کان کھڑے کرتے ہیں اور پہلو بدل بدل کر تاویلیں کرنے لگتے ہیں یہ ڈاکٹر آف فلاسفی ان کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم پر ایمان رکھتا تھا، اور ایسی کوئی حدیث سن کر ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں شک کا گزر نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک صاحب نے ان کے سامنے بڑے اچنبھے کے انداز میں اس حدیث کا ذکر کیا جس میں بیان ہوا کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب ثلاثہ کے ساتھ کوہِ احد پر تشریف رکھتے تھے۔ اتنے میں احد لرزنے لگا اور حضور نے فرمایاکہ ٹھیر جا تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس پر پہاڑ ساکن ہوگیا۔“ اقبال نے حدیث سنتے ہی کہا کہ اس میں اچنبھے کی کون سی بات ہی؟ میں اس کو استعارہ و مجاز نہیں بالکل ایک مادی حقیقت سمجھتا ہوں، اور میرے نزدیک اس کے لیے کسی تاویل کی حاجت نہیں۔ اگر تم حقائق سے آگاہ ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ ایک نبی کے نیچے آکر مادے کے بڑے سے بڑے تودے بھی لرز اٹھتے ہیں، مجازی طور پر نہیں، واقعی لرز اٹھتے ہیں۔ اسلامی شریعت کے جن احکام کو بہت سے روشن خیال حضرات فرسودہ اور بوسیدہ قوانین سمجھتے ہیں اور جن پر اعتقاد رکھنا ان کے نزدیک ایسی تاریک خیالی ہے کہ مہذب سوسائٹی میں ان کی تائید کرنا ایک تعلیم یافتہ آدمی کے ڈوب مرنے سے زیادہ بدتر ہی، اقبال نہ صرف ان کو مانتے اور ان پر عمل کرتے تھی، بلکہ برملا ان کی حمایت کرتے تھے اور ان کو کسی کے سامنے ان کی تائید کرنے میں باک نہ تھا۔ اس کی ایک معمولی مثال سن لیجیے۔ ایک مرتبہ حکومتِ ہند نے ان کو جنوبی افریقہ میں اپنا ایجنٹ بناکر بھیجنا چاہا اور یہ عہدہ ان کے سامنے باقاعدہ پیش کیا۔ مگر شرط یہ تھی کہ وہ اپنی بیوی کو پردہ نہ کرائیں گے اور سرکاری تقریبات میں لیڈی اقبال کو ساتھ لے کر شریک ہوا کریں گے۔ اقبال نے اس شرط کے ساتھ یہ عہدہ قبول کرنے سے صاف انکار کردیا، اور خود لارڈ ولنگڈن سے کہا کہ میں بے شک ایک گناہ گار آدمی ہوں، احکام اسلامی کی پابندی میں بہت کوتاہیاں مجھ سے ہوتی ہیں، مگر اتنی ذلت اختیار نہیں کرسکتا کہ محض آپ کا ایک عہدہ حاصل کرنے کے لیے شریعت کے حکم توڑ دوں۔ اقبال کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ وہ فقط اعتقادی مسلمان تھی، عمل سے ان کو کچھ سروکار نہ تھا۔ اس بدگمانی کے پیدا کرنے میں خود ان کی افتادِ طبع کا بھی بہت کچھ دخل ہی، ان میں کچھ فرقہ
¿ ملامتیہ کے سے میلانات تھی، جن کی بناءپر اپنی رندی کے اشتہار دینے میں انہیں کچھ مزا آتا تھا۔ ورنہ درحقیقت وہ اتنے بے عمل نہ تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت سے ان کو خاص شغف تھا اور صبح کے وقت بڑی خوش الحانی کے ساتھ پڑھا کرتے تھی، مگر آخر زمانے میں طبیعت کی رقت کا یہ حال ہوگیا تھا کہ تلاوت کے دوران روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور مسلسل پڑھ ہی نہ سکتے تھے۔ نماز بھی بڑے خشوع و خضوع سے پڑھتے مگر چھپ کر۔ ظاہر میں یہی اعلان تھا کہ نرا گفتار کا غازی ہوں۔ ان کی سادہ زندگی اور فقیرانہ طبیعت کے حالات ان کی وفات ہی کے بعد لوگوں میں شائع ہوئی، ورنہ عام خیال یہی تھا کہ جیسے اور ”سرصاحبان“ ہوتے ہیں ویسے ہی وہ بھی ہوں گے اور اسی بناءپر بہت سے لوگوں نے یہاں تک بلاتحقیق لکھ ڈالا تھا کہ ان کی بارگاہِ عالی تک رسائی کہاں ہوتی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ شخص حقیقت میں اس سے بھی زیادہ فقیر منش تھا جتنا اس کی وفات کے بعد لوگوں نے اخبارات میں بیان کیا ہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ سن لیجیے جس سے اس نائٹ اور بیرسٹر کی طبیعت کا آپ اندازہ کرسکیں گے۔ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورے کے لیے اقبال اور سر فضلحسین مرحوم اور ایک دو اور مشہور قانون داں اصحاب کو اپنے ہاں بلایا اور اپنی شاندارکوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پاکر معاً ان کے دل میں خیال آیا کہ جس رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے نصیب ہوئے ہیں اس نے بورئیے پر سو سو کر زندگی گزاری تھی۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسووںکی جھڑی بندھ گئی۔ اس بستر پر لیٹنا ان کے لیے ناممکن ہوگیا۔ اٹھے اور برابرکے غسل خانے میں جاکر ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور مسلسل رونا شروع کردیا۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلاکر اپنا بستر کھلوایا اور ایک چارپائی اس غسل خانے میں بچھوائی اور جب تک وہاں مقیم رہی، غسل خانے ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے جب باہر کی دنیا ان کو سوٹ بوٹ میں دیکھا کرتی تھی۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ اس سوٹ کے اندر جو شخص چھپا ہوا ہے اس کی اصلی شخصیت کیا ہی؟ وہ ان لوگوں میں سے نہ تھا جو سیاسی اغراض کے لیے سادگی و فقر کا اشتہار دیتے ہیں اور سوشلسٹ بن کر غریبوں کی ہمدردی کا دم بھرتے ہیں، مگر پبلک کی نگاہوں سے ہٹ کر ان کی تمام زندگی رئیسانہ اور عیش پسندانہ ہے۔ اقبال کے نائٹ ہڈ اور سر شفیع مرحوم جیسے حضرات کے ساتھ ان کے سیاسی رشتہ کو دیکھ کر عام خیال یہ تھا اور اب بھی ہے کہ وہ محض شاعری ہی میں آزاد خیال تھی، عملی زندگی میں آزاد خیالی ان کو چھوکر بھی نہ گزری تھی، بلکہ وہ نرے انگریز کے غلام تھے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان کے قریب جو لوگ رہے ہیں اور جن کو گہرے ربط و ضبط کی بنا پر ان کی اندرونی زندگی اور ان کے اندرونی خیالات کا علم ہے وہ جانتے ہیں کہ انگریزی سیاست سے ان کو خیال اور عمل دونوں میں سخت نفرت تھی۔ بارگاہِ حکومت سے وہ کوسوں دور بھاگتے تھے۔ سرکار اور اس کے پرستار دونوں ان سے سخت بدگمان تھے اور ان کی ذات کو اپنے مقاصد میں حارج سمجھتے تھے۔ سیاسیات میں ان کا نصب العین محض کامل آزادی ہی نہ تھا بلکہ وہ آزاد ہندوستان میں ”دارالاسلام“ کو اپنا مقصودِ حقیقی بنائے ہوئے تھے۔ اس لیے کسی ایسی تحریک کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ تھے جو ایک دارالکفر کو دوسرے دارالکفر میں تبدیل کرنے والی ہو۔ صرف یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عملی سیاسیات میں ان لوگوں کے ساتھ مجبورانہ تعاون کیا جو برٹش گورنمنٹ کے زیرسایہ ہندو راج کے قیام کی مخالفت کررہے تھے۔ گو مقاصد کے اعتبار سے اُن میں اور اس طبقے میں کوئی ربط نہ تھا، مگر صرف اس مصلحت نے ان کو اس طبقے کے ساتھ جوڑ رکھا تھا کہ جب تک مسلمان نوجوانوں میں ”دارالاسلام“ کا نصب العین ایک آتش فروزاں کی طرح بھڑک نہ اٹھے اور وہ اس کے لیے سرفروشانہ جدوجہد پر آمادہ نہ ہوں، اُس وقت تک کم ازکم انقلاب کے رخ کو بالکل دوسری جانب پلٹ جانے سے روکے رکھا جائے۔ اس بنا پر انہوں نے ایک طرف اپنی شاعری سے نوجوانانِ اسلام کے دلوں میں وہ روح پھونکنے کی کوشش کی جس سے سب لوگ واقف ہیں اور دوسری طرف عملی سیاسیات میں وہ روش اختیار کی جس کے اصل مقصود سے چند خاص آدمیوں کے سوا کوئی واقف نہیں، اور جس کے بعض ظاہری پہلووں کی وجہ سے وہ خود اپنے بہترین عقیدت مند معترفین تک کے طعنے سنتے رہے۔

تیموری بیگمات کا شعری ذوق


 امیر تیمور کو سلطنت مغلیہ کابانی کہا جاتا ہے۔شہنشاہ بابر، ہمایون، اکبر، جہاں گیر، شاہ جہاں، اورنگ زیب بلکہ سارے ہی مغل حکمراں اسی تیمور کی اولاد میں ہیں۔ مغل بادشاہوں، بیگموں، شہزادوں اور شہزادیوں کواسی لئے تیموری کہاجاتا ہے۔تیموری بادشاہ اور شہزادے فنی حرب و ضرب میں مہارت کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ خصوصاً رقص و موسیقی اور شعر و ادب کے دلدادہ ہوتے تھے۔ تیموری بیگمات اور شہزادیاں بھی فنون جنگ اور فنون لطیفہ سے کم دلچسپی نہ رکھتی تھیں۔ بعض بیگمات قلعہ میں ہر وقت ہتھیار بند رہتی تھیں،میدان جنگ میں داد شجاعت دیتیں رقص و موسیقی میں مہارت کے علاوہ شعر وشاعری میں وہ اپنے عہد کی خواتین میں ممتاز تھیں۔
آئیے تیموری خواتین (شاعرات) سے ملاقات کرتے ہیں۔ یہ ہیں:
امتہ الحبیب: یہ محترمہ ترکی خلیفہ کی اسلامی فوج میں ’’لیفٹیننٹ‘‘ کے عہدہ پرفائز تھیں۔مردانہ لباس میں رہتیں۔تیمور نے جب خلافت اسلامیہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی ، ستر ہزار مسلمانوں کو اپنے ہوس ملک گیری کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ تو قیدی سپاہیوں کی جان بچانے کے لئے انھوں نے تیمور سے شادی کرلی۔ تیمور نے اسے حمیدہ بانو بیگم کا نام دیا۔
ترکی عربی فارسی کے علاوہ چینی اور زرتشی زبانوں سے واقف تھیں’’ترکی خواتین‘‘ اور ’’امیر تیمور کی فتوحات ہندیہ‘‘ دوکتابیں ان کی یاد گار ہیں۔ ترکی اور عربی زبان میں اشعار موز وں کرتی تھیں ۔ اور یہ ہیں:
’’آرام جاں بیگم‘‘ نور الدین جہاں گیر کی پانچویں بیگم۔ حاضر جوابی، بے ساختگی اور فی البدیہہ شعر کہنے میں جو ملکہ انھیں میسر ہے وہ بیگموں کو تو کیا خود جہاں گیر بادشاہ کو بھی میسر نہیں۔ عربی زبان میں بھی طبع آزمائی کرتی تھیں مگر عربی اشعار کم پایہ ہیں۔ اس کی فارسی شاعری قابل داد ہے۔
حضرات! لیجئے محترمہ جہاںآراء بیگم صاحبہ جلوہ افروز ہورہی ہیںیہ حسین و جمیل شہزادی شاہجہاں بادشاہ کی چہیتی بیٹی ہیں جو ارجمند بانو بیگم کے بطن سے 1023ھ میں پیدا ہوئیں۔ ہوشیار ، طباع، اور عربی و فارسی کی بہترین انشاء پرداز اکثر اوقات فارسی میں اشعار موزوں کرتی ہیں۔ ان کی آخری آرامگاہ مزارِ حضرت نظام الدینؒ اولیاء سے متصل ہے جہاں 1092ھ سے آرام فرما ہیں۔
جاناں بیگم سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔قرآن کی تفسیر لکھنے کا شرف حاصل ہے ۔وزیر الملک مرزا عبدالرحیم خاں المخاطب بہ خان خاناں کی دختر ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی تفسیر قرآن کی واحد کاپی کو شہنشاہ اکبر نے پچاس ہزار دینار میں خریدا تھا۔
ان کی سخنوری اور طباعی کا کیا پوچھنا۔ استاد شعراء میں ان کا شمار ہے۔ نازک خیالی اور مضمون آفرینی میں اپنا جواب نہیں رکھتیں۔ ان کے شوہر نامدار کانام شہزادہ دانیال ہے۔ شہزادہ کے انتقال کے بعد شہنشاہ جہاں گیر ان کا خواستگار ہوا اپنی عصمت و عفت بچانے کے لئے انھوں نے اپنے تمام دانت اکھڑوالئے۔ سر کے بال بے دردی سے کٹوادئیے۔بادشاہ جہانگیر ان کی پاکبازی اور شوہر سے وفاد اری دیکھ کر بہت متاثر ہوا اور کثیر انعام دے کر رخصت کیا ۔سن وفات 1070ھ ہے۔ حمیدہ بانو بیگم وہ خوش نصیب ہستی ہیں جنھیں شوہر نصیرالدین محمد ہمایوں جیسا بادشاہ ملا اور بیٹا مغل اعظم شہنشاہ جلال الدین اکبر جیسا۔ فارسی زبان میں بہت ہی برجستہ شعر کہتی تھیں۔ شوہر ہمایون کا 963ھ میں انتقال ہو گیا یہ اس کے بعد انسٹھ(59) برس زندہ رہیں 1010ھ میں انتقال ہوا۔
زیب النساء بیگم مخفی صاحبہ بادشا اورنگ زیب عالمگیر کی سب سے پہلی اولاد ہیں۔ بدیع الزماں خاں عرف شاہ نواز خاں صفوی کی بیٹی دل رس بانو بیگم کے بطن سے شوال 1048ھ میں پیدا ہوئیں ۔عربی و فارسی کی تعلیم نہایت اعلیٰ درجہ کی حاصل کی، بڑے بڑے علماء فضلاء ان کی خدمت میں رہتے تھے۔ نظم و نثر میں ملا سعید اشرف ماژندانی سے اصلاح لیتی تھیں۔ شادی نہیں کیں۔ صحیح قول کے مطابق 1113ھ میں انتقال ہوا۔
علو م عربیہ وفارسیہ میں کمال رکھتی تھیں۔ خط نستعلیق ، نسح اور شکستہ بہت عمدہ لکھتی تھیں۔ صاحب’’مخزن الغرائب ‘‘ احمد علی سندیلوی کے بقول ان کا بھی کلام محفوظ نہیں۔ امام رازی علیہ رحمتہ کی تفسیر کبیرکے ترجمہ کے علاوہ بے شمار کتابیں علماء سے انھوں نے تصنیف کروائیں۔
اورنگزیب نے جب شاعری کودربار سے نکال دیاتھا تو وہ زیب النساء ہی تھیں جنھوں نے قلعہ میں شاعری اور شعرا ء کو باریابی کا شرف دلایا۔ 65؍ سال کی عمر میں وفات پائی مقبرہ لاہور میں ہے۔
زہدۃ النساء بیگم : مذکورہ زیب النساء کی حقیقی بہن اور عالمگیر بادشاہ کی دختر ہیں۔ 26
؍ رمضان 1061ھ میں پیدا ہوئیں۔ترکی اور عربی زبان میں بلا تکلف گفتگو کرتی ہیں۔ دیگر علوم و فنون سے واقف اور قادر الکلامی اور سخن سنجی میں مشہور ہیں۔ دادا شاہ جہاں نے دارا شکوہ کے چھوٹے فرزند سپہر شکوہ سے ان کا نکاح کرایا تھا۔ سن وفات عالمگیر بادشاہ کی ہی سن وفات ہے۔
سلیمہ سلطان بیگم(مرز ا نور الدین کی بیٹی اور بادشاہ ہمایون کی بھانجی) کی طبیعت نہایت موزوں واقع ہوئی تھی۔ شعر گوئی اور شیریں بیانی اور بندش الفاظ اور بے ساختگی جو سلیمہ سلطان بیگم کوحاصل تھی کم شعراء میں دیکھی جاتی تھی۔ اس کے اشعار نہایت مضمون خیز اور پر لطف ہوتے ۔ عالمہ فاضلہ اور شاعرہ تھی۔ اکبر بادشاہ نے اس کی شادی بیرم خان عرف خان بابا سے کرائی تھی۔ بیرم خان کے قتل کے بعد خود اکبر بادشاہ نے ان سے نکاح کرلیا۔
جمیلہ خاتون کے شوہر محمد مرزا ہیں ان کا پورانام رشید النساء عرف آرام جان تھا۔ یہ بھی استاد شاعرہ تھیں۔ فارسی شعر فی البدیہہ کہتی تھیں۔ اس دور کے ادباء و شعراء اس بات پر متفق تھے کہ رشید النساء شاعرہ پیدا ہوئی ہے۔ اولاد میں صرف ایک لڑکی زندہ رہی جو عباسہ بیگم کے نام سے مشہور ہوئی۔
عباسہ بیگم مذکورہ بالاجمیلہ خاتون عرف رشیدالنساء عرف آرام جان کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ ان کے والد محمدمرزا ہیں۔ اپنی ماں کی طرح یہ بھی شاعرہ تھیں اور بہت اچھا شعر کہتی تھیں۔
اشرف زمانی بیگم، شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر کی’’بہو‘‘ اور شہزادہ محمد معظم شاہ عالم بہادر شاہ اول کی ’’حرم‘‘ (ملکہ) ہیں۔ قابلیت کامادہ بچپن ہی سے طبیعت میں تھا باپ کے فیض صحبت اور تعلیم کے اثر نے سونے پر سہاگہ کاکام کیا، مشکل سے مشکل اشعار فوراً سمجھ لیتی تھی۔ خود بھی فارسی اشعار کہتی تھی۔
بادشا بیگم اورنگ زیب بادشاہ کی بیٹی ہیں اپنی بہنوں (زیب النساء اور زہدۃ النساء ) کی طرح یہ بھی فارسی زبان کی شاعرہ ہیں۔ ذہن بہت تیز، نظر بہت وسیع سخت سے سخت زمین میں بر جستہ شعرکہتیں اور خوب کہتیں۔اپنے والدعالم گیر بادشاہ کی شان میں انھوں نے ایک قصیدہ لکھا بادشاہ نے اس قصیدہ کو بہت پسند کیا اور ایک شعر کو کئی کئی مرتبہ پڑھ کر سنا لیکن بیٹی سے کہا کہ امراء اور خواص کاکام شاعری کرنانہیں۔چنانچہ بادشاہ بیگم نے پھر بھول کر شعرو سخن کانام نہیں لیا۔
اب تک جن شاعرات کا تذکرہ کیا گیا وہ فارسی (یا عربی یا ترکی) کی شاعرات ہیں اس وقت ملک ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی تھی۔بادشاہ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد تیموری خاندان کازوال شروع ہو گیا۔ لیکن اردو زبان کے اقبال کا ستارہ نصف النہار پر ضو فشانی کرنے لگا۔روشن اخترمحمد شاہ (رنگیلا) پہلا تیموری بادشاہ ہے جس نے اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کے لئے اردو کا سہارا لیا اور فارسی اور ھندی کے ساتھ ساتھ اردوبھی قلعہ معلی میں عزت کی نگاہ سے دیکھی جانے لگی۔ شاہ عالم ثانی آفتاب تیموری بادشاہوں میں اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر تھا۔ ذیل میں تیموری خاندان کی اردو شاعرات کا تذکرہ ملاحظہ ہو:
نواب اخترمحل اختر: خاندان تیموریہ کی شاہزادی ، ذی علم، طبیعت عالی، مضمون آفرینی میں یکتا اور بے انتہا نیک دل خاتون تھیں، 1292ھ مطابق 1876ء تک بقیدحیات تھیں نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
لکھ کرجو میرانام زمیں پر مٹا دیا
ا ن کا تھا کھیل خاک میں ہم کو ملا دیا
تیغ نگاہ یار کا دونوں پر وار ہے
ٹکڑے ادھر جگر ہے اِدھر دل فگار ہے
قدسی کی مشہور فارسی نعت پر ان کی خمسہ موجود ہے:
تجھ پہ قربان ہوں اے ہاشمی و مطلبی
کہ ہے مشہور دو عالم تری عالی نسبی
دیکھ رتبے کو ترے شوکت افلاک دبی
مرحبا سید مکی مدنی العربی
دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی
اشک: دہلی کے شاہی خاندان کی ایک عورت تھیں ان کا تخلص اشک تھا۔ 1290ھ تک زندہ رہیں:
(’’میں نہ مانوں گا‘‘ کا لفظ دیکھ کر شک کرنے کی ضرورت نہیں۔ پروین شاکر اور فہمیدہ ریاض سے پہلے خواتین شاعرات عموماً اپنے مذکر کے صیغے ہی استعمال کرتی تھیں) نواب جینا بیگم بنت مرزا بابر گورگانی: یہ شہزادہ جواں بخت جہاندار شاہ جہاندار ابن شاہ عالم ثانی آفتاب کی محل خاص تھیں۔کبھی کبھی موزونئ طبع کی بدولت شعر کہتی تھیں اور خوب کہتی تھیں ان کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
نہ دل کو چین نہ دل کو قرار رہتا ہے
تمھارے ملنے کا نت انتظار رہتا ہ
ے
نواب حیات ا لنساء بیگم عرف بھورا بیگم شاہ عالم ثانی آفتاب، شاہ نصیر دہلوی کی شاگردہ تھیں۔ حیانے پوری زندگی یاد الٰہی میں بسر کی اور شادی بھی نہیں کی۔ عمر بھی کافی پائی۔ بہادر شاہ ظفر کے عہد میں انتقال فرمایا:
ہے موتیوں کے ہار میں پرتو نگار کا
آب گہر میں عکس نہاتا ہے یار کا
نہ کیوں حیرت ہو یارب وہ زمانہ آگیا ناقص
حیا ڈھونڈے نہیں ملتی برائے نام سوسو کوس
نواب قدسیہ بیگم: ان کا نام ادھم بائی۔۔۔ بائی جیو صاحبہ اور صاحبتہ الزمانی تھا اور تخلص رعنائی تھا ۔ یہ محمد شاہ (رنگیلا) کی حرم تھیں۔ رنگیلے شوہر نے انھیں بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا تھا۔ بڑی بیدار مغز اور ہوشیار تھیں۔ اپنی عاقلانہ رائے سے اچھے اچھوں کو حیران کر دیا کرتیں ۔ مگر محمد شاہ کی طرح یہ بھی رات دن شراب کے نشہ میں مخمور رہنے لگیں۔بیٹے احمد شاہ بادشاہ کے عہد میں سارا نظام مملکت انھیں کے ہاتھ میں تھا۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے بے حد عقیدت تھی۔ دہلی کے مشہور کشمیری دروازے کے قریب ایک خوشنما باغ بنوایا اور اسی میں ایک مسجد بھی تعمیر کروائی تھی۔ اردو کے علاوہ فارسی اور ہندی میں بھی طبع آزمائی کرتی تھیں۔ ان کا ایک شعر بہت مشہور ہے:
نواب شرف النساء بیگم ضرورت: شہزادہ وجیہہ الدین مرزا کو چک بہادر کی محل خاص تھیں۔ بہت کم عمری میں بیوہ ہو گئیں۔شعر و شاعری سے بے انتہا دل چسپی تھی مگر شعر بہت کم کہتی تھیں۔ نعت پاک ان کا خاص موضوع تھا:
سر سبز رہے باغ سدا دین بنیؐ کا
مکی مدنی ہاشمی و مطلبی کا
کیفی: خود کو تیموری شہزادی کہتی تھیں۔ تاریخ کی کتابوں میں ان کا نام درج نہیں1857ء سے قبل ان کا انتقال ہوا۔ قدسی کی مشہور فارسی نعت پر ان کا بھی خمسہ ’’حدیثِ قدسی‘‘ میں موجو د ہے ایک بندملاحظہ ہو:
کس کا منہ ہے جو کرے مدح میرے نبیؐ!
نعت اطہر میں ہے جب شخصِ ذکی ، محض غبی
حّبذا ذات تری، مایہء حاجت طلبی
مرحبا سید مکی مدنی العربی
دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی
گیتی آراء: دلی کی ایک غیر معروف خاتون کا نام اور تخلص تھا جو خود کو شہزادی کہتی تھیں۔ شعر گوئی سے ذوق تھا۔’’ تذکرۂ نسوان ھند‘‘ میں ان کا ایک شعر محفوظ ہے:
ہم نشیں وہ ہیں کہاں کوئی ٹھکانہ نہ رہا
یا ہمیں وہ نہ رہے یا وہ زمانہ نہ رہا
نواب سلطان جہاں بیگم مخفی: صاحب’’گلستان سخن‘‘مرزا قادر بخش گورگانی کی محل خاص تھیں۔ اور با کمال شاعرہ تھیں۔
خدا جانے کیا بات ہے اس میں مخفی
کہ اس ظلم پر جی کو بھاتا بہت ہ
ے
نواب عالم آراء بیگم ناز: خاندان تیموری کی ایک با کمال شہزادی تھیں۔ انقلاب1957ء سے قبل قلعہ معلی کی شاعرات شہزادیوں میں انھیں بلند مقام حاصل تھا۔ لیکن حادثات زمانہ کی نیرنگیوں نے ترک شاعری پر مجبور کر دیا۔ رنگ سخن یہ ہے:
شور ہے اس کی بے وفائی کا
بس نہیں چلتا واں رسائی کا
دام زلف سیاہ سے اس کی
نہ بنا کوئی ڈھب رہائی کا
کر غلامی علیؓ کی تو اے ناز
ہے اگر شوق بادشاہی کا
مجھ سے روٹھا وہ یا ر جانی ہے
جان جانے کی یہ نشانی ہے
یاد: صاحب ’’تذکرۂ بہارستان ناز‘‘ لکھتے ہیں:’’ یہ عورت دہلی کی شہزادیوں میں سے تھی۔ 1292ھ میں اس نے انتقال کیا ۔ ہنگام نزع جو اس نے ایک قطعہ لکھا تھاوہی گوش زد ہوا اور کچھ کلام ا س کے ہاتھ نہ آیا۔‘‘:
عجب فکر درماں ہے اے اقربا
کہ اب یاد تو یاں سے چلنے کو ہے
سر انجام غسل و کفن کر رکھو
تنِ زار سے جاں نکلنے کو ہے

یم جسیم الدین 
Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP