You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Saturday, December 22, 2018

*آج - 21 / دسمبر / 1982* *پاکستانی قومی ترانے کے خالق، افسانہ نگار، ممتاز و معروف شاعر” حفیظ جالندھری صاحب “ کا یومِ وفات…* *حفیظؔ جالندھری* ، نام *محمد حفیظ، ابوالاثر کنیت*، *حفیظؔ* تخلص۔ *۱۴؍جنوری۱۹۰۰ء* کو *جالندھر* میں پیدا ہوئے۔مروجہ دینی تعلیم کے بعد اسکول میں داخل ہوئے۔ حفیظ کو بچپن ہی سے شعروسخن سے دلچسپی تھی۔ *مولانا غلام قادر گرامی* جو ان کے ہم وطن تھے، ان کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔کسب معاش کے لیے عطر فروشی، کلاہ سازی، خیاطی، فوج کی ٹھیکیداری، خطوط نویسی ، مزدوری، سنگر سیونگ مشین کمپنی کی مینیجری سب کچھ کرڈالا۔۱۹۲۱ء میں سنگر کمپنی کی ملازمت چھوڑ دی اور وطن واپس آگئے۔ وہاں سے اردو زبان میں ایک ماہانہ رسالہ *’’اعجاز‘‘* جاری کیا جو پانچ ماہ بعد بند ہوگیا۔۱۹۲۲ء میں لاہور آئے۔ان کا شروع سے اس وقت تک شعروادب اوڑھنا بچھونا تھا۔ رسالہ *’’شباب‘‘* میں ملازمت کرلی۔اس کے بعد *’’نونہال‘* اور *’ہزار داستان‘* کی ادارت ان کے سپرد ہوئی۔ پھر *’پھول‘ اور ’تہذیب نسواں‘* سے منسلک رہے۔ کچھ عرصہ ریاست خیرپور کے درباری شاعر رہے۔ نظم *’’رقاصہ‘‘* وہیں کی یادگار ہے۔ *’’قومی ترانہ‘‘* کے خالق کی حیثیت سے *حفیظ* کو بہت شہرت ملی۔ *۲۱؍دسمبر ۱۹۸۲ء* کو *لاہور* میں انتقال کرگئے۔چند تصانیف یہ ہیں: *’نغمۂ زار‘، ’سوز وساز‘، ’تلخابۂ شیریں‘، ’چراغِ سحر‘۔ ’’شاہنامہ اسلام‘‘* (چار جلدوں میں)۔ *’ شاہنامہ اسلام ‘* سے ان کی شہرت میں بہت اضافہ ہوا۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے۔ بچوں کے لیے گیت اور نظمیں بھی لکھیں۔ *بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:356* ⭐ *پیشکش : آئی ۔ اے انصاری* 🌹 *معروف شاعر حفیظؔ جالندھری کے یومِ وفات پر منتخب اشعار احبابِ ذوق کی خدمت* 🌹 ابھی میعادِ باقی ہے ستم کی محبت کی سزا ہے اور میں ہوں --- احباب کا شکوہ کیا کیجئے خود ظاہر و باطن ایک نہیں لب اوپر اوپر ہنستے ہیں دل اندر اندر روتا ہے --- آ ہی گیا وہ مجھ کو لحد میں اتارنے غفلت ذرا نہ کی مرے غفلت شعار نے --- اس کی صورت کو دیکھتا ہوں میں میری سیرت وہ دیکھتا ہی نہیں --- *مل جائے مے تو سجدۂ شکرانہ چاہیے* *پیتے ہی ایک لغزش مستانہ چاہیے* --- الٰہی ایک غمِ روزگار کیا کم تھا کہ عشق بھیج دیا جانِ مبتلا کے لیے --- او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا اب میں دل کو کیا سمجھاؤں مجھ کو بھی سمجھاتا جا --- *اہلِ زباں تو ہیں بہت کوئی نہیں ہے اہلِ دل* *کون تری طرح حفیظؔ درد کے گیت گا سکے* --- تصور میں بھی اب وہ بے نقاب آتے نہیں مجھ تک قیامت آ چکی ہے لوگ کہتے ہیں شباب آیا --- دل کو خدا کی یاد تلے بھی دبا چکا کم بخت پھر بھی چین نہ پائے تو کیا کروں --- عاشق سا بد نصیب کوئی دوسرا نہ ہو معشوق خود بھی چاہے تو اس کا بھلا نہ ہو --- قائم کیا ہے میں نے عدم کے وجود کو دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں --- *تم تو بے صبر تھے آغازِ محبت میں حفیظؔ* *اس قدر جبر سہو گے مجھے معلوم نہ تھا* --- وہ قافلہ آرام طلب ہو بھی تو کیا ہو آوازِ نفس ہی جسے آوازِ درا ہو --- *رہنے دے جامِ جم مجھے انجامِ جم سنا* *کھل جائے جس سے آنکھ وہ افسانہ چاہیے* --- 🥀 *حفیظؔ جالندھری* 🥀 *انتخاب : آئی ۔ اے انصاری*

Monday, December 10, 2018

مشاعرہ و کوی سمیلن


)سنسکرتی سنگم کلیان کے زیر اہتمام۹؍ دسمبر بروز اتوار شام چھ بجے ایک کامیاب اور شاندار اعزازی مشاعرہ اور کوی سمیلن کا انعقاد ایل ڈی سوناونے کالج آڈیٹوریم بمقابل فائر برگیڈ نزد درگاڈی قلعہ کلیان ویسٹ میں ہوا ۔ جس میں عالمی شہرت یافتہ شاعرڈاکٹر انجمؔ بارہ بنکوی کو اعزاز سے نوازا گیا۔اس اعزازی مشاعرہ اور کوی سمیلن
کی صدارت ایڈوکیٹ زبیر اعظمی (ڈائریکٹر اردو مرکز ممبئی )نے کی۔مہمان ِمعظم کی حیثیت سے ماہر قانون داں ایڈوکیٹ یٰسین مومن(سکریٹری آل انڈیا راشٹروادی کانگریس اقلیتی شعبہ)  شریک ہوئے۔
اپنے صدارتی خطبے میں ایڈوکیٹ زبیر اعظمی نے سنکرتی سنگم کلیان کے صدر ڈاکٹروجئے پنڈت اور سینئر نائب صدر افسر دکنی اوراراکین کا شکریہ ادا کرتےہوئے کہا کہ آج کے اس پر آشوب دور میںہندی، اردو اور ،مراٹھی ادب کی یکساں طورپر خدمت کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ انھوںنے مذید یہ کہا ان تینوں زبانوں کے ادباء واشعرا ء کی پزیرائی کا اہم فریضہ بھی سنکرتی سنگم ادا کر رہی ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔اس ادارے نے کلیان جیسے قدیم شہر کے ادبی ماحول کو قائم رکھا ہے۔
مہمان معظم ایڈوکیٹ یٰسین مومن نے مشاعروں کی تہذیبی روایات اور شعری وادبی نشستوں کے سلسلے میںاپنی یادیں اور باتیں سامعین کے گوش گزار کیں ۔ انھوںنے کہا کہ اردو، ہندی اور مراٹھی کے شعراء کا سنکرتی سنگم کےمنچ پر یہ سنکرتی ملن در اصل قومی یکجہتی کا ایک مثبت پیغام ہے جس کی ہمارے ملک کو اشد ضرورت ہے اور اس فریضہ کی ادائیگی پر میں سنکرتی سنگم کے تمام اراکین بشمول صدر اور نائب صدر مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔انھوں نے مذید یہ کہا کہ کلیان جیسے شہر میں جہاں اد ب کے نام پر کم کم پروگرا م  ہوتے ہیں سنکرتی سنگم کا ہر ماہ ہونے والے یہ مشاعرے اور کوی سمیلن یہاںکی ادبی فضاء کوخوشگواربنانے میں ساز گار ثابت ہونگے۔   
مشاعرے اور کوی سمیلن کی نظامت کے فرائض جدید لب ولہجہ کےمشہور شاعر اعجازؔ ہندی نے کی۔ ڈاکٹر وجئے پنڈت نے اس موقع پرعالمی شہرت یافتہ شاعرڈاکٹر انجم بارہ بنکوی ‘ایڈوکیٹ زبیر اعظمی اور ایڈوکیٹ یٰسین مومن کی شال، گلدستہ اور مومینٹو دیکر پزیرائی کی۔  
اس مشاعرے اور کوی سمیلن میںڈاکٹر انجم بارہ بنکوی ، ڈاکٹر وجئے پنڈت ‘منوج اورئی‘امیش شرما‘مہیش بھارتی ‘افسر ؔدکنی‘شہرت ؔادیبی‘شکیل احمد شکیل ؔ ‘شبیر احمد شادؔ‘نور شادانی ‘لطیف بستوی‘ثمر کاوش‘نعمت رضوی‘رخسانہ خان انّوؔ‘سازؔالہ آبادی ‘دیارام دردؔ فیروز آبادی ‘راجندر سنگھ ‘سلیم رشکؔ،جامیؔ کلیانوی (مزاحیہ ) ایازؔبستوی‘شفیق الایمان‘باہو بلی سنگم ‘منوہر کاملبے(مراٹھی )،جتیندرلاڈؔ(مراٹھی )،احمد شرجیل (ریختہ)،باری الہ آبادی‘جعفر بلرامپوری اور دیگر اشعراء نے اپنےکلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ بڑی تعداد میں اردو، ہندی اور مراٹھی شاعری کے دلدادہ  محبّان ادب نے اس مشاعرے اور کوی سمیلن میں شرکت کی اور شعراء کی حوصلہ افزائی کی۔ افسر دکنی نےمہمانان ‘شعراء اورسامعین باتمکین کا شکریہ ادا کیا۔

Sunday, December 09, 2018

ایک تلخ حقیقت

*تلخ حقیقت*
میرے خیال میں آج اتنی غربت نہیں جتنا شور ھے۔ ۔
۔آجکل ہم جس کو غربت بولتے ہیں وہ در اصل خواہش پورا نہ ہونے کو بولتے ہیں۔۔
ہم نے تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ  اسکول میں تختی پر (گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو (سواگہ) لگایا کرتے تھے۔۔
(سلیٹ)پر سیاہی کے پیسے نہیں ہوتے تھے (سیل کا سکہ) استمعال کرتے تھے۔
اسکول کے کپڑے جو لیتے تھے وہ صرف عید پر لیتے تھے۔
اگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے تو اسکول کلر کے ہی لیتے تھے۔۔
کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے۔۔
جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے تھے۔۔
اور جوتا *سروس یا باٹا* کا نہیں پلاسٹک کا ہوتا تھا۔۔
گھر میں اگر مہمان آجاتا تو پڑوس کے ہر گھر سے کسی سے گھی کسی سے مرچ کسی سے نمک مانگ کر لاتے تھے۔۔
آج تو ماشاء اللہ ہر گھر میں ایک ایک ماہ کا سامان پڑا ہوتا ھے۔۔ مہمان تو کیا پوری بارات کا سامان موجود ہوتا ھے۔ ۔
آج تو اسکول کے بچوں کے ہفتے کے سات دنوں کے سات جوڑے استری کرکے گھر رکھے ہوتے ہیں۔ ۔
روزانہ نیا جوڑا پہن کر جاتے ہیں۔
آج اگر کسی کی شادی پہ جانا ہو تو مہندی بارات اور ولیمے کے لیے الگ الگ کپڑے اور جوتے خریدے جاتے ہیں۔۔
ہمارے دور میں ایک چلتا پھرتا انسان جس کا لباس تین سو تک اور بوٹ دوسو تک ہوتا تھا اور جیب خالی ہوتی تھی۔۔
آج کا چلتا پھرتا نوجوان جو غربت کا رونا رو رہا ہوتا ھے اُسکی جیب میں تیس ہزار کا موبائل،کپڑے کم سے کم دو ہزار کے، جوتا کم سے کم تین ہزار کا،گلے میں سونے کی زنجیر ہاتھ پہ گھڑی۔۔
غربت کے دن تو وہ تھے جب گھر میں بتّی جلانے کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا روئی کو سرسوں کے تیل میں ڈبو کر جلا لیتے...
آج کے دور میں خواہشوں کی غربت ھے..
اگر کسی کی شادی میں شامل ہونے کے لیے تین جوڑے کپڑے یا عید کے لیے تین جوڑے کپڑے نہ سلا سکے وہ سمجھتا ھے میں غریب ہوں۔
*آج خواہشات کا پورا نہ ہونے کا نام غربت ھے..*

Saturday, December 08, 2018

معروف شاعر ناصر کاظمی

*8 دسمبر..مشہور و معروف شاعر ناصر کاظمی صاحب کا یوم ولادت*

ناصر رضاکاظمی نام اور ناصر تخلص تھا۔٨ دسمبر ۱۹۲۳ء کو انبالہ(ہندستان) میں پیدا ہوئے۔اسلامیہ کالج لاہور سے ایف اے پاس کرنے کے بعد بی اے میں پڑھ رہے تھے کہ چند وجوہ کی بنا پر امتحان دیے بغیر وطن انبالہ واپس چلے گئے۔۱۹۴۷ء میں دوبارہ لاہور آگئے۔ایک سال تک’’اوراق نو‘‘ کے عملہ ادارت میں شامل رہے۔ اکتوبر۱۹۵۲ء سے ’’ہمایوں‘‘ کی ادارت کے فرائض انجام دینا شروع کیے۔ ناصر کی شعر گوئی کا آغاز ۱۹۴۰ء سے ہوا۔حفیظ ہوشیارپوری سے تلمذ حاصل تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اردو غزل کے احیا میں ان کا نمایاں حصہ ہے۔۲؍مارچ ۱۹۷۲ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’برگ نے‘، ’دیوان‘، ’پہلی بارش‘، ’خشک چشمے کے کنارے‘(مضامین) ’نشاط خواب‘، ’انتخاب نظیر اکبرآبادی‘،کلیات ناصر کاظمی بھی چھپ گئی ہے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:155
موصوف کے کچھ منتخب اشعار آپ احباب کی خدمت میں.....

*آرزو ہے کہ تو یہاں آئے*
*اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں*

اپنی دھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں

*بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے*
*تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دوں گا*

دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا

*دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا*
*وہ تری یاد تھی اب یاد آیا*

دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا

*حال دل ہم بھی سناتے لیکن*
*جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا*

اس شہر بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں

*جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ*
*وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں*

میں اس جانب تو اس جانب
بیچ میں پتھر کا دریا تھا

*مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی*
*وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا*

مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں

*نیند آتی نہیں تو صبح تلک*
*گرد مہتاب کا سفر دیکھ*

‏اے  دوست  ہم  نے ترک  محبت کے باوجود   
محسوس کی  ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

*‏میری پیاسی تنہائی پر*
*آنکھوں کا دریا ہنستا تھا*

*‏زباں سُخن کو، سُخن بانکپن کو ترسے گا*
*سُخن کدہ، مِری طرزِ سُخن کو ترسے گا*

چھپ جاتی ہیں آئینہ دکھا کر تری یادیں
سونے نہیں دیتیں مجھے شب بھر تیری یادیں

*‏ایک تم ہی نہ مل سکے ورنہ*
*ملنے والے بچھڑ بچھڑ کے ملے*

‏نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

*‏یہ آج راہ بھول کے آئے کدھر سے آپ*
*یہ خواب میں نے رات ہی دیکھا تھا خواب میں*

پیشکش ڈب طارق سلیم

Wednesday, November 21, 2018

Thursday, November 15, 2018

ماں کی ممتا

🕊🕊🕊🕊🕊🕊🕊🕊

*وہ ایک خوبصورت اور رنگین چڑیا تھی ۔۔۔۔۔۔سمندر کے قریب ایک     پرانے  اور گھنے پیڑ پر اس نے ایک سال کی محنت کے بعد اپنا گھونسلہ بنایا تھا۔۔۔۔۔۔۔پھر  اس نے اپنے پانچ  انڈوں کی دیکھ بھال کرنی شروع کردی ۔۔۔مگر ایک دن جب وہ دانہ چگنے گئی تھی تب ایک بہت بڑا سانپ آیا اور سارے کے سارے انڈے کھا کر غائب ہو گیا۔۔۔۔ بیچاری رنگین چڑیا جو پہلی دفعہ ماں بنی تھی اپنے انڈوں کے ٹوٹے ہوئے پوست دیکھکر مسلسل روتی رہی ۔۔۔مگر دو دفعہ ۔۔تین دفعہ اور پھر  نو دفعہ وہی دشمن سانپ اس کے انڈے کھاتا رہا۔۔۔۔۔پھر ایک دن وہ سانپ آیا مگر آج چڑیا کے اندر اس کی ممتا نے انتقام  کی شکل لے لی۔۔۔رنگین چڑیا اپنی تمام قوتیں یکجا کیے سانپ پر  ٹوٹ پڑی اور اپنی تیز چونچ سے اس کی آنکھیں نوچ لی اور اسی غصے میں اس نے سانپ کو مار دیا ۔۔۔۔۔۔اب وہ مطمئن تھی کہ میرے بچے محفوظ ہیں مگر ۔۔۔اسی پیڑ  پر موجود ایک کوّے  نے اس کے انڈوں کو گرا کر توڑ نا شروع کردیا۔۔۔۔رنگین چڑیا پھر سے روتی رہی مگر ایک دن اس نے کوے کو نوچ نوچ کر اندھا اور بیمار کردیا۔۔۔پھر طوفان اس کا دشمن بن گیا اس کی ممتا کے کتنے امتحان ہوتے چلے گئے مگر وہ ننھی چڑیا کبھی نہیں ہاری۔۔۔ سمندر میں ایسا طوفان آیا کہ اس کے بچے کبھی انڈے سے باہر آنے ہی نہیں پائے ۔۔۔۔اسی طرح 6 سال گزر گئے اور آج تک اس نے اپنے بچوں کی شکل نہیں دیکھی آخرکار۔۔۔۔۔۔سات سال کی دعا ئیں اور آنسو رنگ لائے۔۔۔ آج پہلی دفعہ رنگین چڑیا کے بچے انڈوں سے باہر آئے ۔۔۔اتنے خوبصورت اور اتنے پیارے  تھے کہ رنگین چڑیا اسقدر خوش  ہوگئی کہ زندگی کا ہر غم بھول گئی۔۔۔۔مگر بچوں کی آوازوں کو سن کر ایک دشمن چیل اس کے بچوں کے پاس اڑنے لگی لیکن رنگین چڑیا نے کسی طرح اپنے بچوں کو اڑنا سکھا دیا اور آسمان میں اڑا دیا۔۔۔*
*پھر کچھ دن بعد رنگین چڑیا نے انڈے دیئے۔۔۔ بچے ابھی اڑان میں کچے تھے مگر ایسی تیز  آندھی  آئی کہ اس کا گھونسلا پیڑ سے علیحدہ ہو گیا۔۔۔اے ماں تجھے سلام۔۔۔۔ رنگین چڑیا نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور لگاتار اسی پیڑ پر پھر سے نیا گھونسلہ بنانے میں مگن ہو گئی۔۔۔۔۔۔غور طلب بات یہ ہے کہ چھوٹی سی چڑیا نے ہر بار طوفان سے مقابلہ کیا۔۔۔ بارش کا سامنا کیا ۔۔۔۔ہر دشمن کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔۔۔لیکن کبھی بھی خوف کی وجہ سے اپنی ہمت اور اپنے حوصلے کو ٹوٹنے نہیں دیا۔۔۔۔غور کیجئے کہ ایک چڑیا ۔۔۔چھوٹی سی چڑیا جب اپنے بچوں کے لئے اتنی محنت کر سکتی ہے اور ان کو صحیح پرواز  بھرنے کی تربیت دے سکتی ہے۔۔۔ تو پھر ہم انسان بھی ہیں۔۔۔عورت بھی ہیں۔۔۔۔۔۔۔مگر ہماری نئی نسل ماں کی ذمہ داری کتنی ایمانداری سے نبھا رہی ہے۔۔۔۔کیا صرف جنم دینے سے ہی قدموں تلے جنت دے دی گئی ہے۔۔صرف بارہ برس تک اپنے بچے کو سنت  نبوی کی تعلیم دیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ماں اپنے 24/گھنٹوں  میں سے ایک گھنٹہ اپنے  بچوں کو ایک ساتھ بٹھا کر  دینی تعلیم دے یہ ضروری ہے۔۔۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہر ماں نو مہینے تک لاالہ الا اللہ کا ذکر کرے ار شیر مادر دیتے وقت محمد الرسول اللہ کا ورد کرے۔۔۔پھر  میں یقین سے کہتی ہوں کہ  ہر گھر میں  حضرت  امام غزالی  اور حضرت  رابعہ بصری ضرور  پیدا ہوں گے۔۔۔۔۔۔  کیونکہ نیک ماں سے نیک نسل جنم لیتی ہے اور گمراہ ماں سے گمراہ نسل جنم لیتی ہے۔۔۔نئی نسل کی ماؤں کا مسئلہ یہ ہے کہ کبھی غیبت سے ۔۔کبھی حسد سے۔۔کبھی موبائل سے۔۔ ان کو فرصت  ہی نہیں  ملتی کہ اپنے بچوں کی تربیت پر دھیان دے سکیں۔۔۔۔۔ایک سوال کا جواب دیجئے؟؟؟ کیا ایک ماں  کو رنگین چڑیا سے زیادہ مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے نہیں تو پھر؟

Wednesday, November 14, 2018

پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہرلال نہرو

یوم اطفال


جواہر لال نہرو اور اردو زبان*
———————-م—————————
ہندوستان ایک قدیم ملک ہے اور اس ملک میں کئی تاریخی شخصیتوں نے جنم لیا ہے – کبھی یہاں مولانا ابوالکلام آزاد نے جنم لیا تو کبھی رادھا کرشنن نے کبھی فیض تو کبھی کالی داس وغیرہ – بہر حال ہمارا ملک دانشوروں سے کبھی خالی نہیں رہا – جہاں رابندر نارتھ ٹیگور اور علامہ اقبال نے ادبی سطح پر ملک کو عالمی وقار بخشے ہیں وہیں مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو اس ملک کی سیاسی تاریخ کے اہم سپوت شمار کئے جاتے ہیں .
پنڈت جواہر لال نہرو ایک خوش حال گھرانے میں 14 نومبر 1989ء کو پیدا ہوئے – اعلی تعلیم اور بیرسٹری کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے والد کے ساتھ وکالت کرنے لگے –
گلابوں اور بچوں سے بے پناہ محبت کرنے والے پنڈت جواہر لال نہرو اردو زبان سے بھی والہانہ محبت کرتے تھے اس محبت میں کوئی مصلحت سیاست یا کھوٹ نہیں تھی – اس زبان کی شیرینی اور دلکشی ان کی طبیعت میں بسی ہوئی تھی – آزادی کے بعد جب قانون ساز اسمبلی میں ہندوستان کے دستور کے شیڈول آٹھ میں دوسری قومی زبانوں کے ساتھ اردو کو بھی شامل کرنے کی بحث ہورہی تھی تو ایک اردو مخالف رکن نے پوچھا ” اردو بھلا کس کی زبان ہوسکتی ہے ،، تو پنڈت جواہر لال نہرو نے بلند آواز اور غصہ کے ساتھ کہا ” اردو میری ماں اور میری دادی کی زبان ہے – انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں اس سوال کے جواب میں کہ اردو سیکھ کر نئی نسل کو کیا فائدہ ہوگا ،، تو انہوں نے کہا تھا کہ اردو اس ملک کی ایک اہم اور مقبول زبان ہے جو کروڑوں لوگوں کی مادری زبان بھی ہے ان کے لئے اس زبان کا جاننا ضروری ہے اس زبان کا جاننا ملک کی دوسری زبانوں خاص طور پر ہندی کو مالا مال کر نے میں مددگار ہوگا – انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اردو اس ملک کی ایک عظیم مذہب-اسلام کے تہذیبی و ثقافتی ورثہ کو سمجھنے میں مدد دیگی اور آخر کار یہ کہ اردو ہمارے ہمسایہ ملک پاکستان اور ان ممالک جہاں عربی و فارسی رسم الخط رائج ہے ان سے رشتے جوڑنے میں معاون ہوگی.
صد افسوس کہ ملک میں اردو تعلیم کو فروغ دینے میں پنڈت جواہر لال نہرو کا خواب ابھی بھی پورا نہیں ہوا – خیر – وہ ہمارے ملک کے پہلے وزیراعظم تھے ان کے یوم پیدائش کو پورے ہندوستان میں بچوں کے دن کے نام سے جانا جاتا ہے اور بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے .
بچوں کے چاچا نہرو بچوں سے بہت پیار کرتے تھے – اپنی گوناگوں مصروفیتوں کے باوجود وہ بچوں کے پروگراموں میں حصہ لیتے تھے – ان کے ساتھ کھلتے تھے خود بھی ہنستے تھے اور بچوں کو ہنساتے تھے انھیں تحفے تحائف دیتے تھے اور انکا حوصلہ بڑھاتے تھے – چاچا نہرو کہا کرتے تھے کہ ”بچے مستقبل کے معمار ہیں” ہندوستان کو آگے بڑھانے ، ترقی یافتہ بنانے ، سائنس ٹیکنالوجی ، زراعت اور ہر میدان میں ملک کو خود کفیل بنانے کی ذمےداری بچوں کی ہی ہوگی کیونکہ آج کے بچے کل بڑے ہونگے اور ملک و قوم کا بوجھ انکے کندھوں پر ہوگا – انھیں بچوں میں کل کے ہندوستان کی تصویر نظر آتی ہے – آج جب چاچا نہرو ہمارے درمیان نہیں ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ان کے آدرشوں پر چل کر ملک و قوم کو آگے بڑھائیں .
آخر وہ دن بھی آگیا کہ ان کے سامنے بہت سارے مسائل ہیں، بہت سارے پروگرام ہیں، جنہیں پورا کرنا تھا مگر وقت کسی کو مہلت نہیں دیتا – آخر کار 27 مئی 1964ء کو خواب دیکھنے والی یہ آنکھیں ہمشیہ ہمیش کے
لئے سوگیں – وصیت کے متابق انکے چتا کی خاک گنگا میں بہادی گئی تاکہ وہ سمندر میں جا ملے –

Sunday, October 28, 2018

Monday, September 24, 2018

عوامی اتحاد ویلفیئر اور لنترانی میڈیا کے اشتراک سے قومی ایکتا تقریب کا انعقاد

عوامی اتحاد ویلفیئر اور لنترانی میڈیا کے اشتراک سے قومی ایکتا تقریب کا انعقاد

تھانہ  : گذشتہ دنوں قومی یکجہتی کی تقریب کا انعقاد عوامی ویلفیئر ایسو سیشن اور لنترانی میڈیا کے اشتراک سے تھانہ کے این ٹی کالج میں کیا گیا ، تقریب کا اآغاز انصار شیخ نے بہت پیاری حمد سنائی۔ اس کے بعد ایم ایچ انٹرٹینمنٹ (لنترانی میڈیا کی شاخ) کی جانب سے تمام گلوکاروں نے بہت ہی بہترین نغمےسنائے جس میں محمد رفیع ، کشور کماراور مکیش کے علاوہ اور بھی کئی لوگوں کے گانے گائے کالج میں بیٹھے تمام لوگوں نے تالیاں بجا کر ان کی حوصلہ افزائی کی ۔ عوامی اتحاد ویلفیئر ایسو سیشن تھانہ میں ضرورت مند کے لئے بہت سے فلاحی کام کرتے آرہی ہیں۔صدر رشید سید، ناصر نائیک جنرل سیکریٹری، اشفاق شیخ خزانچی، مہیلا بچت گٹ کی صدر ریشما خان، روبینہ میمن، عائشہ شیخ، مقامی نگر سیویکا انکیتا شندے ، آئیڈیل اسکول کے ٹرسٹیان بھی موجود تھے۔ عوامی وکاس پارٹی کے صدر شمشیر خان پٹھان نے سبھی لوگوں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ بہت اچھی تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے ایسی تقریب ہوتے رہنا چاہئیے۔ آج کے موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی یکجہتی تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔ گلوکاروں نے حب الوطنی پر بہت ہی اچھے گانے پیش کئے۔ نظامت کے فرائض یاسمین شیخ اور حسرت خان نے بخوبی نبھاتے ہوئے دونوں نے تقریب کے دوران بہت ہی دلچسپ لطیفے بھی سنائے، محبّ اردو ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کئی بار عمدہ اشعار بھی لوگوں کو سنائے ، این کے ٹی کالج ہال میں بیٹھے کثیر تعداد میں لوگوں نے تالیاں ںبجاتے ہوئے حوصلہ افزائی کی او اپنے موجودگی دکھائی۔ عوامی اتحاد ویلفیئر ایسو سیشن کی جانب سے ایم ایچ انٹرٹینمنٹ ناصر نائیک، نگر سیویکا انکیتا شندے کے ذریعے منور سلطانہ اور حنیف شیخ کو گلدستہ اور ٹرافی بطور ایوارڈ سے نوازا ساتھ ہی تمام سنگرس کو بھی کمیٹی کی جانب سے ایوارڈ سے نوازاگیا سلام بن عثمان (افسانہ نگار، صحافی) لنترانی میڈیا کے فعال رکن کو بھی سماجی خدمت ایوارڈ دیا گیا۔ علاقے کے جوڈو کراٹے کلاس کے استادذاکر شیخ، انس شیخ اور بچوں کو بھی ایوارڈ دیا گیا جس میں ایک سات سال کا بھی بچہ تھا۔ تقریب کے اختتام میں حسرت خان نے رسم شکریہ ادا کیا۔







Saturday, September 22, 2018

.

دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے

کتنے دنوں کے پیاسے ہوں گے یارو سوچو تو
شبنم کا قطرہ بھی جن کو دریا لگتا ہے

آنکھوں کو بھی لے ڈوبا یہ دل کا پاگل پن
آتے جاتے جو ملتا ہے تم سا لگتا ہے

اس بستی میں کون ہمارے آنسو پونچھے گا
جو ملتا ہے اس کا دامن بھیگا لگتا ہے

دنیا بھر کی یادیں ہم سے ملنے آتی ہیں
شام ڈھلے اس سونے گھر میں میلہ لگتا ہے

کس کو پتھر ماروں قیصرؔ کون پرایا ہے
شیش محل میں اک اک چہرا اپنا لگتا ہے

قیصر الجعفری

Tuesday, August 28, 2018

فراق گورکھپووری

*_ 28 / اگست / 1896ء... _*

*بیسویں صدی کے اردو زبان کے صفِ اول کے شعرا میں شمار، ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، اپنے بصیرت افروز تنقیدی تبصروں کے لئے مشہور شاعر” فراقؔ  گورکھپوری صاحب “ کا یومِ پیدائش...*

نام *رگھوپتی سہائے*، تخلص *فراقؔ*، *28 اگست 1896ء* کو *گورکھپور (اترپردیش)* میں پیدا ہوئے۔ گھر میں شعرو شاعری کا چرچا عام تھا۔ ان کے والد *منشی گورکھ پرشاد عبرتؔ* بھی مشہور شاعر تھے ۔فراق نے تعلیم آلہ آباد میں حاصل کی اور اردو اور فارسی کے علاوہ انگریزی میں بھی اعلی لیاقت حاصل کی۔ بعد میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوگئے۔ کچھ مدت تک *جواہر لعل نہرو* کے ساتھ کام کیا۔ جیل بھی گئے۔انگریزی میں ایم۔ اے کرنے کے بعد الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد ہوگئے ۔یہیں سے 1959میں ریٹائر ہوئے۔ فراق گورکھپوری کے کلام کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔ ان میں *’’روحِ کائنات‘‘ ،’’رمز و کنایات‘‘،’’غزلستان‘‘، ’’شبنمستان‘‘* اور *’’گلِ نغمہ‘‘* خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ *’’اندازے‘‘* اور ان کی کتاب *’’اردو کی عشقیہ شاعری‘‘* بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ شاعری میں *فراقؔ*  کی غزل اور ان کی رباعی کاانداز سب سے الگ ہے ۔ انہوں نے رباعی کی صنف کو ہندوستانی ثقافت کا ترجمان بنادیا۔
*3 مارچ 1982ء کو فراق گورکھپوری انتقال کر گئے* ٠

💢  *فراقؔ  گورکھپوری صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین...* 💢

آج بھی  قافلۂ عشق رواں ہے  کہ جو تھا
وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا
-----
ہے ترے کشف و کرامات کی دنیا قائل
تجھ سے اے دل نہ مگر کام ہمارا نکلا
-----
*دیدار میں اک طرفہ دیدار نظر آیا*
*ہر  بار  چھپا  کوئی  ہر  بار  نظر   آیا*
-----
رفتہ رفتہ عشق کو تصویر غم کر ہی دیا
حسن بھی کتنا خراب گردشِ  ایّام تھا
-----
*طور  تھا  کعبہ  تھا  دل تھا  جلوہ  زار یار تھا*
*عشق سب کچھ تھا  مگر پھر عالمِ اسرار  تھا*
-----
*حسن کافر سے کسی کی نہ گئی پیش فراقؔ*
*شکوہ  یاروں  کا  نہ  شکرانۂ  اغیار چلا*
-----
تری  نگاہ  کی  صبحیں  نگاہ  کی   شامیں
حریمِ راز یہ دنیا جہاں نہ دن ہیں نہ رات
-----
*پھر  وہی  رنگِ تکلّم  نگۂ  ناز  میں ہے*
*وہی انداز وہی حُسنِ بیاں ہے کہ جو تھا*
-----
ہر  جنبشِ  نگاہ  میں  صد  کیف   بے  خودی
بھرتی پھرے گی حسن کی نیت کہاں کہاں
-----
*نگاہِ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا*
*حجاب اہل محبت کو آئے ہیں کیا کیا*
-----
چھلک کے کم نہ ہو ایسی کوئی شراب نہیں
نگاہ   نرگسِ   رعنا   ترا   جواب     نہیں
-----
*شامِ غم کچھ  اس نگاہِ ناز کی باتیں کرو*
*بے خودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو*
-----
کیوں انتہائے ہوش کو کہتے ہیں بے خودی
خورشید ہی کی آخری منزل تو رات ہے
-----
شریک شرم و حیا کچھ ہے بد گمانی‌ٔ حسن
نظر اٹھا یہ جھجک سی نکل تو سکتی ہے
-----
*کوئی  پیغامِ  محبت  لبِ  اعجاز    تو   دے*
*موت کی آنکھ بھی کھل جائے گی آواز تو دے*
-----
*مجھ کو تو غم نے فرصتِ غم بھی نہ دی فراقؔ*
*دے  فرصتِ  حیات  نہ  جیسے   غمِ  حیات

     🔰  *فراقؔ  گورکھپوری*  🔰

        *انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*

🌺🌺

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP