Saturday, December 22, 2018
*آج - 21 / دسمبر / 1982* *پاکستانی قومی ترانے کے خالق، افسانہ نگار، ممتاز و معروف شاعر” حفیظ جالندھری صاحب “ کا یومِ وفات…* *حفیظؔ جالندھری* ، نام *محمد حفیظ، ابوالاثر کنیت*، *حفیظؔ* تخلص۔ *۱۴؍جنوری۱۹۰۰ء* کو *جالندھر* میں پیدا ہوئے۔مروجہ دینی تعلیم کے بعد اسکول میں داخل ہوئے۔ حفیظ کو بچپن ہی سے شعروسخن سے دلچسپی تھی۔ *مولانا غلام قادر گرامی* جو ان کے ہم وطن تھے، ان کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔کسب معاش کے لیے عطر فروشی، کلاہ سازی، خیاطی، فوج کی ٹھیکیداری، خطوط نویسی ، مزدوری، سنگر سیونگ مشین کمپنی کی مینیجری سب کچھ کرڈالا۔۱۹۲۱ء میں سنگر کمپنی کی ملازمت چھوڑ دی اور وطن واپس آگئے۔ وہاں سے اردو زبان میں ایک ماہانہ رسالہ *’’اعجاز‘‘* جاری کیا جو پانچ ماہ بعد بند ہوگیا۔۱۹۲۲ء میں لاہور آئے۔ان کا شروع سے اس وقت تک شعروادب اوڑھنا بچھونا تھا۔ رسالہ *’’شباب‘‘* میں ملازمت کرلی۔اس کے بعد *’’نونہال‘* اور *’ہزار داستان‘* کی ادارت ان کے سپرد ہوئی۔ پھر *’پھول‘ اور ’تہذیب نسواں‘* سے منسلک رہے۔ کچھ عرصہ ریاست خیرپور کے درباری شاعر رہے۔ نظم *’’رقاصہ‘‘* وہیں کی یادگار ہے۔ *’’قومی ترانہ‘‘* کے خالق کی حیثیت سے *حفیظ* کو بہت شہرت ملی۔ *۲۱؍دسمبر ۱۹۸۲ء* کو *لاہور* میں انتقال کرگئے۔چند تصانیف یہ ہیں: *’نغمۂ زار‘، ’سوز وساز‘، ’تلخابۂ شیریں‘، ’چراغِ سحر‘۔ ’’شاہنامہ اسلام‘‘* (چار جلدوں میں)۔ *’ شاہنامہ اسلام ‘* سے ان کی شہرت میں بہت اضافہ ہوا۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے۔ بچوں کے لیے گیت اور نظمیں بھی لکھیں۔ *بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:356* ⭐ *پیشکش : آئی ۔ اے انصاری* 🌹 *معروف شاعر حفیظؔ جالندھری کے یومِ وفات پر منتخب اشعار احبابِ ذوق کی خدمت* 🌹 ابھی میعادِ باقی ہے ستم کی محبت کی سزا ہے اور میں ہوں --- احباب کا شکوہ کیا کیجئے خود ظاہر و باطن ایک نہیں لب اوپر اوپر ہنستے ہیں دل اندر اندر روتا ہے --- آ ہی گیا وہ مجھ کو لحد میں اتارنے غفلت ذرا نہ کی مرے غفلت شعار نے --- اس کی صورت کو دیکھتا ہوں میں میری سیرت وہ دیکھتا ہی نہیں --- *مل جائے مے تو سجدۂ شکرانہ چاہیے* *پیتے ہی ایک لغزش مستانہ چاہیے* --- الٰہی ایک غمِ روزگار کیا کم تھا کہ عشق بھیج دیا جانِ مبتلا کے لیے --- او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا اب میں دل کو کیا سمجھاؤں مجھ کو بھی سمجھاتا جا --- *اہلِ زباں تو ہیں بہت کوئی نہیں ہے اہلِ دل* *کون تری طرح حفیظؔ درد کے گیت گا سکے* --- تصور میں بھی اب وہ بے نقاب آتے نہیں مجھ تک قیامت آ چکی ہے لوگ کہتے ہیں شباب آیا --- دل کو خدا کی یاد تلے بھی دبا چکا کم بخت پھر بھی چین نہ پائے تو کیا کروں --- عاشق سا بد نصیب کوئی دوسرا نہ ہو معشوق خود بھی چاہے تو اس کا بھلا نہ ہو --- قائم کیا ہے میں نے عدم کے وجود کو دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں --- *تم تو بے صبر تھے آغازِ محبت میں حفیظؔ* *اس قدر جبر سہو گے مجھے معلوم نہ تھا* --- وہ قافلہ آرام طلب ہو بھی تو کیا ہو آوازِ نفس ہی جسے آوازِ درا ہو --- *رہنے دے جامِ جم مجھے انجامِ جم سنا* *کھل جائے جس سے آنکھ وہ افسانہ چاہیے* --- 🥀 *حفیظؔ جالندھری* 🥀 *انتخاب : آئی ۔ اے انصاری*
Labels:
اردو بلاگنگ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment