You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Tuesday, October 24, 2017

یوم ولادت بہادر شاہ ظفر

*بہادر شاہ ظفر کا یوم ولادت*
آج 24 اکتوبر ایک خودار بادشاہ..حوصلہ مند مجاہد آزادی اور بہترین شاعر بہادر شاہ ظفر کا یوم ولادت ہے..تیمور خاندان نے جس  سلطنت مغلیہ کی بنیاد رکھی یہ اس کے آخری بادشاہ تھے....یہ وہ بدنصیب باپ ہے انگریزوں نے جس کے چاروں بیٹوں کے سروں  تن سے جدا کرکے تھال میں سجاکر ان کو پیش کئے گئے....
بہادر شاہ ظفر کو یہ شرف حاصل رہا کہ وہ  ابراہیم ذوق اور مرزا غالب جیسے شعراء کے شاگرد رہے...
موصوف کے کچھ منتخب اشعار احباب کی خدمت میں...

*

‏یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گی

*‏دیکھے جو ہمارے بت مغرور کی گردن*
*غلمان کے تن سے ہو جدا حور کی گردن*

‏خاکساری کیلئے گرچہ بنایا تھا مجھے
کاش , خاک ِ  درِ  جانانہ  بنایا  ہوتا

‏ *صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹھہرے*
*ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا*

‏تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں
ہم نے تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا دیا

*اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل*
*دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل*

‏کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل ، کوئی کیا کسی سے لگائے دل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل ، وہ دکان اپنی بڑھا گئے

*‏اِتنا ہی ہُوا حُسن میں وہ شُہرۂ آفاق !*
*جِتنے ہُوئے ہم عِشق میں رُسوائے زمانہ*

‏عمرِ دراز مانگ لائے تھے، چار دن۔
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

*‏کانٹوں کو مت نکال چمن سے کہ باغبان*
*یہ بھی گلوں کے ساتھ پلے ہیں بہار میں*

‏اے فاتحہ کوئی آئے کیوں، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی شمع آ کے جلائے کیوں کہ میں بے کسی کا مزار ہوں

*‏یار تھا گلزار تھا باد صبا تھی میں نہ تھا*
*لائق پابوس جاناں کیا حنا تھی میں نہ تھ*ا
                                    
‏کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

*یاں تک عدو کا پاس ہے ان کو کہ بزم میں*
*وہ بیٹھتے بھی ہیں تو مرے ہم نشیں سے دور*

ظفرؔ بدل کے ردیف اور تو غزل وہ سنا
کہ جس کا تجھ سے ہر اک شعر انتخاب ہوا

*بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی*
*جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی*

کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل دغدار میں

*میرے سرخ لہو سے چمکی کتنے ہاتھوں میں مہندی*
*شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے*

*ہم ہی ان کو بام پہ لائے اور ہمیں محروم رہے*
*پردہ ہمارے نام سے اٹھا آنکھ لڑائی لوگوں نے*

سب مٹا دیں دل سے ہیں جتنی کہ اس میں خواہشیں
گر ہمیں معلوم ہو کچھ اس کی خواہش اور ہے

*دولت دنیا نہیں جانے کی ہرگز تیرے ساتھ*
*بعد تیرے سب یہیں اے بے خبر بٹ جائے گی*

غزل

رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی
سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی

خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے
زخمی تھا بہت پاؤں مسافت بھی بہت تھی

سب دوست میرے منتظرِ پردہء شب تھے
دن میں تو سفر کرنے میں دِقت بھی بہت تھی

بارش کی دعاؤں میں نمی آنکھ کی مل جائے
جذبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی بہت تھی

کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی

پھولوں کا بکھرنا تومقدر ہی تھا لیکن
کچھ اس میں ہواؤں کی سیاست بھی بہت تھی

وہ بھی سرِ مقتل ہے کہ سر جس کا تھا شاہد
اور واقفِ احوال عدالت بھی بہت تھی

اس ترکِ رفاقت پہ پریشاں تو ہوں لیکن
اب تک کے ترے ساتھ پہ حیرت بھی بہت تھی

خوش آئے تجھے شہرِ منافق کی امیری
ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی

پروین شاکر

Saturday, October 21, 2017

مرزا محمد ھادی رسوا

مرزا محمد ھادی رسوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج 21 ، اکتوبر معروف ناول نگار اور ادیب مرزا ھادی رسوا کا یومِ وفات ھے ۔
سال پیدائش : 1857ء
تاریخ وفات : 21، اکتوبر 1931ء
مرزا محمد ہادی رسوا (1857ء تا 21 اکتوبر، 1931ء) ایک اردو شاعر اور فکشن کے مصنف (بنیادی طور پر مذہب، فلسفہ، اور فلکیات کے موضوعات پر) گرفت رکھتے تھےانہیں اردو، فارسی، عربی، عبرانی، انگریزی، لاطینی، اور یونانی زبان میں مہارت تھی۔ ان کا مشہور زمانہ ناول امراؤ جان ادا 1905ء میں شائع ہوا جو ان کا سب سے پہلا ناول مانا جاتا ہے۔ یہ ناول لکھنؤ کی ایک معروف طوائف اور شاعرہ امراؤ جان ادا کی زندگی کے گرد گھومتا ہے بعد ازاں ایک پاکستانی فلم امراؤ جان ادا (1972)، اور دو بھارتی فلموں، امراو جان (1981) اور امراو جان (2006) کے لئے بنیاد بنا۔ 2003ء میں نشر کئے جانے والے ایک پاکستانی ٹی وی سیریل کی بھی بنیاد یہی ناول تھا۔
مرزا محمد ہادی رسوا کی زندگی کی درست تفصیلات دستیاب نہیں ہیں اور ان کے ہم عصروں کی طرف سے دی گئی معلومات میں تضادات موجود ہیں البتہ رسوا نے خود تذکرہ کیا ہے کہ ان کے آباء و جداد فارس سے ہندوستان میں آئے اور ان کے پردادا سلطنت اودھ کے نواب کی فوج میں ایک ایڈجوٹنٹ تھے۔ جس گلی میں رسوا کا گھر تھا اسے ایڈجوٹنٹ کی گلی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے والد اور دادا کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں بتایا کہ وہ دونوں ریاضی اور فلکیات میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ مرزا محمد ہادی رسوا 1857ء کو، ایک گھڑسوار، فوجی افسر، مرزا محمد تقی کے گھر لکھنؤ، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔انہوں نے گھر میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ وہ سولہ سال کے تھے جب ان کے والدین دنیا سے کوچ کر گئے۔ نوجوانی میں وفات پانے والےان کے بڑے بھائی مرزا محمد ذکی، ایک علمی شخصیت تھے۔ اس دور کے ایک مشہور خطاط حیدر بخش نے رُسوا صاحب کو خوش خطی سکھائی اور انہیں کام کرنے کے لئے کچھ رقم ادھار بھی لیکن حیدر بخش کی آمدنی ڈاک کی جعلی ٹکٹ سازی سے آتی تھی لہٰذا اُسے گرفتار کر لیا گیا اور ایک طویل مدت کے لئے قید کی سزا سنائی گئی۔رُسوا کے لکھنے کے کیریئر میں اُن کی مدد کرنے والے بہت سے لوگوں میں سے ایک اردو شاعر، دبیر بھی تھے۔ رسوا نے گھر میں تعلیم حاصل کی اور میٹرک پاس کیا، اس کے بعد انہوں نے منشی فاضل کے کورس کا امتحان دیا اور منشی فاضل ہوگئے۔؎کوئٹہ بلوچستان میں ریلوے میں ملازمت کی۔ دوران ملازمت کیمیا کا ایک رسالہ ہاتھ لگ گیا جس کے مطالعے کے بعد کیمیا گری کی طرف مائل ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ مرزا رسوا نے پچاس سے زیادہ تصنیفات یاد گار چھوڑیں تاہم اردو ادب میں ان کا نام ناول نگار کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔

اردو غزل

دبی دبی سی وہ مسکراہٹ لبوں پہ اپنے سجا سجا کے
وہ نرم لہجے میں بات کرنا ادا سے نظریں جھکا جھکا کے
وہ آنکھ تیری شرارتی سی وہ زلف ماتھے پہ ناچتی سی
نظر ہٹے نہ ایک پل بھی، میں تھک گیا ہوں ہٹا ہٹا کے
وہ تیرا ہاتھوں کی اُنگلیوں کو ملا کے زلفوں میں کھو سا جانا
حیا کو چہرے پہ پھر سجانا، پھول سا چہرہ کھلا کھلا کے
وہ ہاتھ حوروں کے گھر ہوں جیسے، وہ پاؤں پریوں کے پر ہوں جیسے
نہیں تیری مثال جاناں، میں تھک گیا ہوں بتا بتا کے۔۔

Sunday, October 08, 2017

ٹام الٹر ۔۔۔۔ آپ یاد آؤ گے

ٹام الٹر الوداع ........"

ٹام الٹر، نیلی انکھون والا ہندوستانی گورا جو ایک غضب کا اداکار تھا، اب ہمارے درمیان نہیں رہا۔
ٹام الٹر کا جنم 22 جون 1950 میں میسوری اتر کنڈ انڈیا میں ایک پادری کے گھر ہوا۔ انکے دادا، دادی عیسائیت کی تبلیغ کیا کرتے تھے اور اس سلسلے میں وہ امریکی ریاست اوہائیو سے نومبر 1916 کو بحری جہاز میں چنائی اگئے اور وہاں سے بذریعہ ٹرین لاہور چلے گئے۔ اس دوران انکے دادا دادی راولپنڈی پشاور اور سیالکوٹ میں عیسائیت کی تبلیغ کرتے رہے۔ ٹام الٹر کے والد کا جنم سیالکوٹ میں ہوا تھا، تقسیم ہند کے بعد انکے والد انڈیا اگئے جہاں وہ آلہ اباد کے ایک کریسچن کالج میں پڑھایا کرتے تھے۔ انہیں فلسفہ تاریخ اور مزہب سے سے بڑا لگاؤ تھا۔ ٹام الٹر کے دادا دادی نے پاکستان میں ہی رہنا پسند کیا۔ ٹام الٹر کا بچپن میسوری الہ آباد سہارن پور اور راج پور میں گزرا۔ ٹام الٹر نے ابتدائی تعلیم ووڈ سٹاک سکول میسوری سے حاصل کی، میٹرک کے بعد اٹھارہ سال کی عمر میں والد نے انہیں کالج پڑھنے کیلئے امریکا بھیجا لیکن وہاں مشکل پڑھائی کیوجہ سے انکا دل پڑھنے میں نہیں لگا وہ زیادہ دیر تک اوارہ گردی کرتے رہے اور پھر ایک سال بعد واپس انڈیا اگئے۔ انکے پادری والد نے انہیں فارغ رہنے نہیں دیا اور انہیں جگادری ہریانہ کے سینٹ ٹھامس سکول میں بھرتی کروایا جہاں انہوں نے چھ مہینے کرکٹ کوچنگ کی۔ ٹام الٹر کی زندگی میں ٹرنینگ پوائنٹ ہریانہ جگادری میں ہی آیا، شروع میں ٹام الٹر کا رجحان کھیلوں کی طر ف تھا، لیکن جگادری ہریانہ میں انہوں نے ایک دن راجیش کھنہ کی فلم ارادھنا دیکھی اور وہ اس فلم سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے من بنا لیا کہ اب وہ فلموں میں کام کرینگے۔ لیکن اسوقت سیدھا منہ اٹھا کر فلموں میں جو جلا جاتا تھا اسے منہ کی کھانی پڑتی تھی اس لئے ٹام الٹر نے اداکاری سیکھنے کیلئے پونا کا رخ کیا اور وہاں انہوں نے پونا فلم انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لیا جہاں پر اوم پوری شبانہ اعظمی نصیرالدین شاہ اور بنجمن ایرانی بھی ایکٹینگ سیکھ رہے تھے۔ پونا میں ٹام الٹر کی نصیر الدین شاہ سے بہت گہری دوستی بنی وہ اپنے کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی بنے اور نصیر الدین شاہ انکے ساتھ ٹیم میں شامل تھے۔ پونا میں ٹام الٹر نے 1972 سے لیکر 1974 تک دو سالوں میں اپنے گرو روشن تنیجا سے اداکاری سیکھی۔ اسکے بعد وہ ممبئی اگئے جہاں انہیں پہلا چانس رمانند ساگر کی فلم چرس میں ملا جس میں اسوقت کی مشہور جوڑی دھرمیندر اور ہیما مالینی نے کام کیا تھا یہ فلم 1976 میں ریلیز ہوئی۔ شروعات میں انہیں گورے رنگ کی وجہ سے انگریز افسر کا کردار ملا کرتا تھا جس میں عموماً وہ غنڈہ گردی کرتے نظر آیا کرتے تھے۔ بعد میں انہیں ہندی کردار بھی ملنے لگے۔ ٹام الٹر نے مشہور زمانہ بنگالی فلمساز ستیہ جیت رے کی ہندی فلم ’شطرنج کے کھلاڑی' میں کام کیا جسے بہت سراہا گیا بعد میں انہوں نے رچرڈ اینٹنبرو کی فلم گاندھی اور راج کپور کی فلم ’رام تیری گنگا میلی‘ جیسی کامیاب فلموں میں غضب اداکاری کی۔ منوج کمار محب وطنی پر بنی فلموں کیوجہ سے مشہور مانے جاتے ہیں اس لئے جب منوج کمار نے فلم ’کرانتی‘ بنانا شروع کی تو انہوں نے انگریز افسر کے کردار کیلئے ٹام الٹر کو چنا اور اس کردار میں ٹام الٹر نے شاندار اداکاری کی، اس فلم کے انکی منوج کمار سے بڑی اچھی دوستی بنی۔
ٹام الٹر نے جب ارادھنا فلم دیکھی تھی تب انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے محبوب اداکار روجیش کھنہ کے ساتھ ایک دن کام کرینگے لیکن سچی لگن سے انہوں نے یہ خواب سچ کرکے دکھایا انہوں راجیش کھنہ کے ساتھ دو فلموں میں کام کیا۔ ہری کیش مکھرجی کی فلم نوکری اور 1993 میں بنی فلم سردار میں انہوں نے راجیش کھنہ کے ساتھ کام کیا فلم سرادر مشہور نیتا سردار پٹیل کی زندگی پر بنی تھی۔
ہندی کے علاوہ انہوں نے انگریزی فلم ’وِتھ لَو، دلّی‘، ’سن آف فلاور‘، ’سائیکل کِک‘، ’اَوتار‘، ’اوسیان آف اَن اولڈ مین‘، ’وَن نائٹ وتھ دی کنگ‘، ’سائلنس پلیز‘ جیسی فلموں میں اہم کردار ادا کیے۔
ٹام نے تقریباً 300 فلموں میں کام کیا۔
فلموں کے علاوہ انھوں نے اپنے کیریر کا ایک بڑا وقت تھیٹر کو دیا۔ ٹام الٹر نے 1977 میں اپنے دوست نصیر الدین شاہ اور بنجمن ایرانی کے ساتھ موٹلی کے نام سے ایک تھیٹر گروپ بنایا۔ ٹام الٹر مولانا عبدالکلام آزاد سے بہت متاثر تھے۔ انہوں نے 2014 میں راجیہ سبھا ٹی وی کے پروگرام ’سنویدھان‘ میں مولانا ابوالکلام آزاد کا کردار نبھایا جس میں ان کے کردار کی بہت تعریف ہوئی۔ ٹام الٹر نے ٹیلی وژن پر بھی کام کیا اور لوگوں کی دل میں ایک خاص مقام بنایا۔ اسی سال ان کی فلم ’سرگوشیاں‘ ریلیز ہوئی ہے جس میں انھوں نے مرزا غالب کا کردار نبھایا۔ تھیٹر میں ٹام الٹر نے کئی سالوں تک مولا عبدالکلام آزاد پلے کیا۔ اسکے علاوہ انہوں نے مولانا ظفر علی خان، گاندھی، ساحر لدھیانوی، غالب اور ٹیگور کا کردار ادا کیا۔ ٹام الٹر کو اردو زبان سے جنون کی حد تک عشق تھا۔ صاف اردو کیوجہ سے ٹام الٹر سٹیج پر اتنی جاندار اداکاری کرتے تھے کہ کسی کا دھیان ان کے گورے چہرے پر نہیں جاتا تھا،
ٹام الٹر کو فلموں کے علاوہ کھیل میں بھی کافی دلچسپی تھی۔ ٹام سچن تندولکر کا انٹرویو لینے والے پہلے شخص تھے۔ 1988 میں جب ماسٹر بلاسٹر سچن 15 سال کے تھے، تب ٹام نے ان کا پہلا انٹرویو لیا تھا۔
ٹام کو جلد کا کینسر تھا۔ وہ طویل مدت سے بیمار تھے۔ ان کا ممبئی کے سیف اسپتال میں علاج چل رہا تھا جہاں اکثر وہ تنہا ہی ہوتے تھے۔ اپنی اسی روداد کو ٹام نے ریختہ کو دیے انٹرویو میں غالب کے شعر کے بہانے شاید یوں بیان کیا تھا۔

"پڑیے اگر بیم.ار، تو کوئی نہ ہو تیماردار

اور مر جائیے اگر، تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو...

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP