رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی
سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی
خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے
زخمی تھا بہت پاؤں مسافت بھی بہت تھی
سب دوست میرے منتظرِ پردہء شب تھے
دن میں تو سفر کرنے میں دِقت بھی بہت تھی
بارش کی دعاؤں میں نمی آنکھ کی مل جائے
جذبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی بہت تھی
کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی
پھولوں کا بکھرنا تومقدر ہی تھا لیکن
کچھ اس میں ہواؤں کی سیاست بھی بہت تھی
وہ بھی سرِ مقتل ہے کہ سر جس کا تھا شاہد
اور واقفِ احوال عدالت بھی بہت تھی
اس ترکِ رفاقت پہ پریشاں تو ہوں لیکن
اب تک کے ترے ساتھ پہ حیرت بھی بہت تھی
خوش آئے تجھے شہرِ منافق کی امیری
ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment