You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Tuesday, September 20, 2016

میر تقی میر

میر تقی میر اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ

آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔

؎

ریختہ كے تمہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے ميں كوئى مير بھی تھا
حالات زندگی ترميم

میر تقی میر، آگرہ میں 1723ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام محمد علی تھا لیکن علی متقی کے نام سے مشہور تھے۔ اور درویش گوشہ نشین تھے۔ میر نے ابتدائی تعلیم والد کے دوست سید امان للہ سے حاصل کی مگر مزید تعلیم سے پہلے جب میر ابھی نو برس کے تھے وہ چل بسے تب ان کے بعد ان کے والد نے خود تعلیم و تربیت شروع کی۔ مگر چند ماہ بعد ہی ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ یہاں سے میر کی زندگی میں رنج و الم کے طویل باب کی ابتداء ہوئی۔
ان کے سوتیلے بھائی محمد حسن نے اچھا سلوک نہ کیا۔ تلاش معاش کی فکر میں دہلی پہنچے اور ایک نواب کے ہاں ملازم ہو گئے۔ مگر جب نواب موصوف ایک جنگ میں مارے گئے تو میر آگرہ لوٹ آئے۔ لیکن گزر اوقات کی کوئی صورت نہ بن سکی۔ چنانچہ دوبارہ دہلی روانہ ہوئے اور اپنے خالو سراج الدین آرزو کے ہاں قیام پذیر ہوئے۔ سوتیلے بھائی کے اکسانے پر خان آرزو نے بھی پریشان کرنا شروع کر دیا۔ کچھ غم دوراں، کچھ غم جاناں سے جنوں کی کیفیت پیدا ہو گئی۔
میر کا زمانہ شورشوں اور فتنہ و فساد کا زمانہ تھا۔ ہر طرف تنگدستی و مشکلات برداشت کرنے کے بعد بالآخر میر گوشہ عافیت کی تلاش میں لکھنؤ روانہ ہو گئے۔ اور سفر کی صعوبتوں کے بعد لکھنو پہنچے ۔ وہاں ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی۔ نواب آصف الدولہ نے تین سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا۔ اور میر آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔ لیکن تند مزاجی کی وجہ سے کسی بات پر ناراض ہو کر دربار سے الگ ہو گئے۔ آخری تین سالوں میں جوان بیٹی او ر بیوی کے انتقال نے صدمات میں اور اضافہ کر دیا۔ آخر اقلیم سخن کا یہ حرماں نصیب شہنشاہ 87 سال کی عمر پا کر 1810ء میں لکھنو کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سو گیا۔

میر کی زندگی کے بارے میں معلومات کا اہم ذریعہ ان کی سوانح عمری "ذکرِ میر"، جو ان کے بچپن سے لکھنؤ میں ان کے قیام کے آغاز کی مدت پر محیط ہے۔ میر نے اپنی زندگی کے چند ایام مغل دہلی میں صر ف کئے۔ اس وقت وہ پرانی دہلی میں جس جگہ رہتے تھے اسے کوچہ چلم، کہا جاتا تھا۔
مولانا محمد حسین آزاد ؔ اپنی کتاب ’’آبِ حیات‘‘ میں لکھتے ہیں۔

” میر تقی میر جب لکھنؤ چلے تو ساری گاڑی کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہوگئے تو دلی کو خدا حافظ کہا۔ تھوڑی دور آگے چل کر اس شخص نے کچھ بات کی۔ یہ اس کی طرف سے منہ پھیر کر ہو بیٹھے۔ کچھ دیر کے بعد پھر اس نے بات کی میر صاحب چیں بجبیں ہوکر بولے کہ صاحب قبلہ آپ نے کرایہ دیا ہے۔ بے شک گاڑی میں بیٹھے۔ مگر باتوں سے کیا تعلق! اس نے کہا۔ حضرت کیا مضائقہ ہے۔ راہ کا شغل ہے باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔ میر صاحب بگڑ کر بولے۔ کہ خیر آپ کا شغل ہے۔ میری زبان خراب ہوتی ہے۔ لکھنؤ میں پہنچ کر جیسا کہ مسافروں کا دستور ہے ایک سرائے میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں مشاعرہ ہے۔ رہ نہ سکے۔ اسی وقت غزل لکھی۔ اور مشاعرے میں جاکر شامل ہوئے۔ ان کی وضع قدیمانہ تھی۔ کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، اک پورا تھان پستولیے کا کمر سے بندھا، ایک رومال پٹڑی دار تہہ کیا ہوا اس میں آویزاں، مشروع پاجامہ، جس کے عرض کے پائیچے، ناگ پھنی کی انی دار جوتی جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب، غرض جب داخل محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنو ، نئے انداز ، نئی تراشیں، بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے، میرؔ صاحب بیچارے غریب الوطن، زمانے کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے، شمع ان کے سامنے آئی، تو پھر سب کی نظر پڑی۔ بعض اشخاص نے سوچھا! حضور کا وطن کہاں ہے؟ میرؔ صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا:
؎ کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو

ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

سب کو حال معلوم ہوا۔ بہت معذرت طلب کی، میر صاحب سے عفو تقصیر چاہی، کمال کے طالب تھے۔ صبح ہوتے ہوتے شہر میں مشہور ہو گیا کہ میرؔ صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں، رفتہ رفتہ نواب آصف الدولہ مرحوم نے سنا اور دو سو روپیہ مہینہ کردیا۔ عظمت و اعزاز، جوہر کمال کے خادم ہیں، اگرچہ انہوں نے لکھنؤ میں بھی میر صاحب کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ مگر انہوں نے بد دماغی اور نازک مزاجی کو جو ان کے ذاتی مصاحب تھے، اپنے دم کے ساتھ ہی رکھا۔ چنانچہ کبھی کبھی نواب کی ملازمت میں جاتے تھے۔ ایک دن نواب مرحوم نے غزل کی فرمائش کی۔ دوسرے تیسرے دن جو پھر گئے تو پوچھا کہ میر صاحب! ہماری غزل لائے! میرے صاحب نے تیوری بدل کر کہا: جناب عالی! مضمون غلام کی جیب میں تو بھرے ہی نہیں کہ کل آپ نے فرمائش کی آج غزل حاضر کردے۔ اس فرشتہ خصال نے کہا۔ خیر میرؔ صاحب۔ جب طبیعت حاضر ہوگی کہہ دیجئے گا۔ ایک دن نواب نے بلا بھیجا۔ جب پہنچے تو دیکھا کہ نواب حوض کے کنارے کھڑے ہیں۔ ہاتھ میں چھڑی ہے۔ پانی میں لال، سبز مچھلیاں تیرتی پھرتی ہیں۔ آپ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ میرؔ صاحب کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہا میر صاحب کچھ فرمائیے۔ میرؔ صاحب نے غزل سنانی شروع کی۔ نواب صاحب سنتے جاتے تھے اور چھڑی کے ساتھ مچھلیوں سے بھی کھیلتے جاتے تھے۔ میر صاحب چیں بجبیں ہوتے اور ہر شعر پر ٹھہر جاتے تھے۔ نواب صاحب کہے جاتے تھے کہ ہاں پڑھیے۔ آخر چار شعر پڑھ کر میر صاحب ٹھہر گئے۔ اور بولے کہ پڑھوں کیا آپ مچھلیوں سے کھیلتے ہیں۔ متوجہ ہوں تو پڑھوں۔ نواب نے کہا جو شعر ہوگا۔ آپ متوجہ کرلے گا۔ میر صاحب کو یہ بات زیادہ تر ناگوار گزری۔ غزل جیب میں ڈال کر گھر کو چلے آئے اور پھر جانا چھوڑ دیا۔ چند روز کے بعد ایک دن بازار میں چلے جاتے تھے۔ نواب کی سواری سامنے سے آگئی۔ دیکھتے ہی نہایت محبت سے بولے کہ میرؔ صاحب آپ نے بالکل ہی ہمیں چھوڑ دیا۔ کبھی تشریف بھی نہیں لاتے۔ میرؔ صاحب نے کہا۔ بازار میں باتیں کرنا آداب شرفا نہیں۔ یہ کیا گفتگو کا موقع ہے۔ غرض بدستور اپنے گھر میں بیٹھے رہے اور فقر و فاقہ میں گزارتے رہے۔ آخر1325ھ میں فوت ہوئے .

Sunday, September 18, 2016

غزل

*غزل*

مَیں کیوں نہ ترکِ تعلق کی ابتدا کرتا
وہ دُور دیس کا باسی تھا کیا وفا کرتا؟

وہ میرے ضبط کا اندازہ کرنے آیا تھا
مَیں ہنس کے زخم نہ کھاتا تو اور کیا کرتا؟

ہزار آئینہ خانوں میں بھی مَیں پا نہ سکا
وہ آئینہ جو مجھے خود سے آشنا کرتا

درِ قفس پہ قیامت کا حبس تھا ورنہ
صبا سے ذکر تیرا مَیں بھی سُن لیا کرتا

میری زمیں تُو اگر مجھ کو راس آ جاتی
مَیں رفعتوں میں تجھے آسمان سا کرتا

غمِ جہاں کی محبت لُبھا رہی تھی مجھے
مَیں کس طرح تیری چاہت پہ آسرا کرتا؟

اگر زبان نہ کٹتی تو شہر میں "محسن"
مَیں پتھروں کو بھی اِک روز ہمنوا کرتا
                *محسن نقوی*

نعت رسول پاک

۔   🌹  *نعتِ رسولِ پاک ﷺ* 🌹

قسم یہ کھاتے ہیں تابندہ عشق کرتے ہیں
ہم اپنے آقا سے پائندہ عشق کرتے ہیں

خدا نے صدقۂ احمد ہمیں دیا جتنا
ہیں راضی اس سے نمائندہ عشق کرتے ہیں

حضور آپ کے کردار کی وہ عظمت ہے
ہم اس کے واسطے آئندہ عشق کرتے ہیں

نبی کا رمز ہمیں راستہ دکھاتا ہے
کہ اہلِ حق سے وہ پائندہ عشق کرتے ہیں

ہمیشہ آپ کی تائید میں نظر آئے
صحابہ آپ سے رخشندہ عشق کرتے ہیں

گناہ گار شب و روز ان کی چوکھٹ پر
جو توبہ کرتے ہیں شرمندہ عشق کرتے ہیں

عقیدتوں میں رکھیں جو بھی روح کا جزبہ
رسولِ پاک سے وہ زندہ عشق کرتے ہیں

۔        *تلک راج پارس جبلپور*

Wednesday, September 14, 2016

اقبال کا تصور عورت

اقبال پر یہ اعتراض تجدید پسند حلقوں کی جانب سے اکثر کیا جاتا ہے کہ وہ عورت کو جدید معاشرہ میں اس کا صحیح مقام دینے کے حامی نہیں ہیں جبکہ انہوں نے اس باب میں تنگ نظری اور تعصب سے کام لیا ہے اور آزادی نسواں کی مخالفت کی ہے۔ یہ اعتراض وہ لوگ کرتے ہیں جو آزادی نسواں کے صرف مغربی تصور کوپیش نظر رکھتے ہیں اور اس معاشرتی مقام سے بے خبر ہیں جو اسلام نے عورت کو دیا ہے اقبال کے تمام نظریات کی بنیاد خالص اسلامی تعلیمات پر ہے اس ليے وہ عورت کے بارے میں وہی کچھ کہتے ہیں جس کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں اقبال کے خیالات کا جائزہ لینے سے پہلے آزادی نسواں کے مغربی تصور اور اسلامی تعلیمات کا مختصر تعارف ضروری ہے۔
آزادی نسواں کا مغربی تصور
مغرب میں آزادی نسواں کا جو تصور اُبھرا ہے وہ افراد و تفریظ کا شکا ر ہونے کے باعث بہت غیر متوازن ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ تک دیگر معاشروں کی طرح مغرب میں بھی عورت کو کسی قسم کا کوئی معاشرتی حق حاصل نہیں تھا اور اس کی حیثیت مرد کے غلام کی سی تھی۔ اسی ردعمل کے طور پر وہاں آزادی نسواں کی تحریک شروع ہوئی اور اس کی بنیاد مر دوزن کی مساوات پر رکھی گئی مطلب یہ تھا کہ ہر معاملہ میں عورت کومرد کے دوش بدوش لایا جائے ۔ چنانچہ معاشرت، معیشت ، سیاست اور زندگی کے ہر میدان میں عورت کو بھی ان تمام ذمہ داریوں کا حق دار گردانا گیا جواب تک صرف مرد پوری کیا کرتا تھا۔ ساتھ ہی عورت کو وہ تمام حقوق بھی حاصل ہوگئے جو مرد کو حاصل تھے ۔ اسی بات کو آزادی نسواں یا مساوات مرد وزن قرار دیا گیا ۔ اس کا نتیجہ اس بے بنیاد آزادی کی صورت میں برآمد ہوا کہ عورت تمام فطری اور اخلاقی قیود سے بھی آزاد ہو گئی۔ عورت کی آزادی تحریر : علامہ محمد یوسف جبریل آج کل عورتوں کے حقوق کے حصول کی مہم دنیا کے ہر پیش رفتہ اور پسماندہ ملک میں زوروں پر ہے اور عموماً پسماندہ ملکوں کی عورتیں پیشرفتہ ملکوں کی عورتوں کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد کا لائحہ عمل تیار کرتی ہیں اور اس پر عمل پیرا ہوتی ہیں۔ اس معاملے میں ہماری رائے کچھ اچھی نہیں۔ جاننا چاہیئے کہ پیش رفتہ کیا ہے اور پسماندہ کیا ہے ؟ یورپین ممالک دستکاری اور سائنس میں تو مانا کہ مشرقی ممالک کے مقابلے میں پیش رفتہ ہیں لیکن یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ عورتوں کے حقوق کے معاملے میں بھی ان کی روش قابل تقلید ہے ؟ تو پھر یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ مذہب بھی ان ہی کا قبول کر لینا چاہیئے کہ وہ ایک پیش رفتہ اورترقی یافتہ قوم ہیں۔ یاد رکھیئے کہ مشرق کی عورت اور مغرب کی عورت اور دونوں کے حالات و ماحول میں کوئی مشابہت اور مطابقت نہیں کم از کم تفاوت ضرور ہے۔ جن دشواریوں اور مشکلوں کے پیشِ نظر مغربی عورت کو اپنے حقوق کے حصول کے لئے پیش قدمی کرنی پڑتی ہے۔ مشرقی عورت کو اس کی کوئی حاجت نہیں یا کم از کم حاجت ہے ۔ جن لوگوں کو یورپین ممالک دیکھنے اور ان کے معاشرتی، معاشی، سماجی، اخلاقی، مذہبی اور اقتصادی حالات کا جائزہ لینے کا موقع ملا ہے وہ ہمارے اس دعوے کوسرسری نہیں کہیں گے اور تھوڑی بہت ردوقدح کے بعد اتنا ضرور مان لیں گے کہ مشرق میں عورت ذات کو ایسی مہم پر کمربستہ ہونے کی کوئی ایسی ضرورت تو نظر نہیں آتی، البتہ انجام اس مہم کا نہایت خطرناک اور نقصان دہ ہو گا۔ ہاں یہ بات ہم مانیں گے مشرقی ممالک میں عورتیں کئی لحاظ سے مظلوم ہیں مگر ھندوستان اور پاکستان کا اس زمرے میں شمار نہیں ہو سکتا ۔ جن مشرقی ممالک میں لڑکیاں پیسے کے بدلے بیاہی جاتی ہیں یا جہاں عورتوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے یا جہاں مردوں کو بغیر کوئی جرمانہ یا حق ادا کئے محض اپنی مرضی پر عورت کو نکال دینے کا جواز ہے یا جہاں عورت کو محض لونڈی غلام بنا کر رکھنے کا رواج ہے، ان ممالک میں عورتوں کوحق پہنچتا ہے کہ اپنی بہتری کے لئے کوئی مطالبہ کریں مگر سخت نا امُید لہجے میں کہنا پڑتا ہے کہ ایسے ممالک میں عورتوں کے لئے کوئی ایسا میدان تیار نہیں ہو سکتا یا بہت مشکل سے تیار ہو گا مگر ھندوستان اور پاکستان جیسے ممالک میں نہیں۔ یہاں صرف تین ہی شکایات مناسب معلوم ہوتی ہیں۔ ایک خاوند کی بدسلوکی، مارپیٹ ،بد چلنی، آوارگی، لاپرواہی اور دوسری عدمِ حق طلاقِ اور تیسری خاوند کی ایک سے زیادہ شادیوں کا جواز۔ تینوں شکائتیں بجا ہیں اور تینوں کا حل اسلام میں موجود ہے ۔ حکومتوں کو چاہیئے کہ ان امور میں اسلامی فرامین کی روشنی میں قانون وضع کریں اور اس کمزور مخلوق کو ظالموں کے پنجے سے نجات دلائیں۔ اگر ان تینوں شکائیتوں میں سے کسی ایک کے لئے بھی ہماری مائیں بہنیں کوئی اقدام کریں تو ہماری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ خدا انہیں کامیابی عطا کرے اور ہمیں عقل و انصاف ۔باقی عرض یہ ہے کہ یہ تینوں شکائتیں مردوں کی جہالت کے سبب پیدا ہوئیں۔ اگر عوام تعلیم یافتہ اور فراخ دل ہوں گے تو عورتوں کو مارنے پیٹنے اور عذاب دینے سے باز رہیں گے۔ دوسرا ہے طلاق کا مسئلہ ۔ سو اسلام نے عورت کو چند وجوہ کی بنا پر شرعاً طلاق لینے کا جواز دیا ہے۔ اسلام طلاق کی اجازت دیتا ہے مگر طلاق کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ باقی رہا ایک سے زیادہ شادیوں کا سوال سو کوئی آدمی جو قرآن پر صحیح معنوں میں ایمان رکھتا ہے اور اس کی تعلیم پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہے وہ کبھی ایک سے زیادہ شادی کی جرات نہیں کرے گا ۔ ہاں اگر کرے گا تو اس صورت میں جس میں اسے دوسری شادی نہ کرنے کی صورت میں کسی گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو جانے کا احتمال نظر آتا ہو۔ کیوں کہ قران حکیم کی ہدایت یہ ہے کہ تم چار تک شادیاں کر سکتے ہو اور شرط یہ ہے کہ تم سب کے ساتھ انصاف کرسکو اور اگر ایک سے زیادہ بیویوں والے مرد کی ہرعورت اس سے انصاف پاتی ہے تو پھر شکائیت کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
اسلامی تعلیمات
اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حقوق چودہ سو سال قبل اس وقت دئیے تھے۔ جب عورت کے حقوق کا تصور ابھی دنیا کے کسی بھی معاشرہ میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ عورت اور مرد کی مساوات کا نظریہ دنیا میں سب سے پہلے اسلام نے پیش کیا اور اس طرح عورت کو مرد کی غلامی سے نجات دلائی جس میں وہ صدیوں سے جکڑی ہوئی تھی اس مساوات کی بنیاد قرآن مجید کی اس تعلیم پر ہے جس میں فرمایا گیا کہ
” تم (مرد ) ان کے (عورت ) کے ليے لباس ہو اور وہ تمہارے ليے لباس ہیں۔“
اور قرآن نےیہ بھی کہا ہےمرد عورتوں پر حاکم ہے
اس طرح گویا مختصر ترین الفاظ اور نہایت بلیغ انداز میں عورت اور مرد کی رفاقت کو تمدن کی بنیاد قرار دیا گیا اور انہیں ایک دوسرے کے ليے ناگزیر بتاتے ہوئے عورت کو بھی تمدنی طور پر وہی مقام دیا گیا ہے جو مرد کو حاصل ہے اس کے بعد نبی کریم نے حجتہ الودع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا ۔
” عورتوں کے معاملہ میں خدا سے ڈرو تمہارا عورتوں پر حق ہے اور عورتوں کا تم پر حق ہے۔“
یہاں بھی عورت کو مرد کے برابر اہمیت دی گئی ہے اور عورتوں پر مردوں کی کسی قسم کی برتری کا ذکر نہیں ہے اس طرح تمدنی حیثیت سے عورت اور مرد دونوں اسلام کی نظر میں برابر ہیں۔ اور دونوں کو یکساں اہمیت حاصل ہے۔
یہ تعلیمات اس کائناتی حقیقت پر مبنی ہیں ۔ کہ ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ہر شے ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہے۔ اور اس طرح سب کو یکساں اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کا کوئی بھی تعلق ہو اس میں ایک فریق کو کچھ نہ کچھ غلبہ حاصل ہوتا ہے یہ ایک فطری اصول ہے۔ اور اسی بناءپر چند چیزوں میں مرد کو عورت پر برتری اور فضیلت حاصل ہے۔ اس کی وجہ حیاتیاتی اور عضویاتی فرق بھی ہے اور فطرت کے لحاظ سے حقوق و مصالح کی رعایت بھی ہے اسی ليے قران نے مرد کو عورت پر نگران اور ”قوامیت “ کی فوقیت دی ہے۔ مگر دوسری جانب اسلام نے ہی عورت کو یہ عظمت بخشی ہے کہ جنت کو ماں کے قدموں تلے بتا یا ہے گویا کچھ باتوں میں اگر مرد کو فوقیت حاصل ہے تو تخلیقی فرائض میں عورت کو بھی فوقیت حاصل ہے۔ فرق صرف اپنے اپنے دائرہ کار کا ہے۔یہی وہ تعلیمات ہیں جنہوں نے دنیا کی ان عظیم خواتین کو جنم دیا کہ زندگی کے ہر میدان میں ان کے روشن کارنامے تاریخ اسلام کا قابلِ فخر حصہ ہیں۔
اقبال کا نظریہ
عورت کے بارے میں اقبال کا نظریہ بالکل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے وہ عورت کے ليے وہی طرز زندگی پسند کرتے ہیں جو اسلام کے ابتدائی دور میں تھا کہ مروجہ برقعے کے بغیر بھی وہ شرعی پردے کے اہتمام اور شرم و حیا اور عفت و عصمت کے پورے احساس کے ساتھ زندگی کی تما م سرگرمیوں میں پوری طرح حصہ لیتی ہیں۔ اس ليے طرابلس کی جنگ میں ایک لڑکی فاطمہ بنت عبداللہ غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تو اس واقعہ سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اسی لڑکی کے نام کوہی عنوان بنا کر اپنی مشہو ر نظم لکھی ۔
فاطمہ! تو آبرو ئے ملت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر!
ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر!
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی
اقبال کی نظر میں عورت کا ایک مخصوص دائرہ کار ہے۔ اور اسی کے باہر نکل کر اگر وہ ٹائپسٹ، کلرک اور اسی قسم کے کاموں میں مصروف ہو گی تو اپنے فرائض کو ادا نہیں کرسکے گی۔ اور اسی طرح انسانی معاشرہ درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ البتہ اپنے دائرہ کار میں اسے شرعی پردہ کے اہتمام کے ساتھ بھی اسی طریقہ سے زندگی گزارنی چاہیے کہ معاشرہ پر اس کے نیک اثرات مرتب ہوں اور اس کے پرتو سے حریم ِ کائنات اس طرح روشن ہو جس طرح ذاتِ باری تعالٰی کی تجلی حجاب کے باوجود کائنات پر پڑ رہی ہے۔
پردہ
اقبال عورت کے ليے پردہ کے حامی ہیں کیونکہ شرعی پردہ عورت کے کسی سرگرمی میں حائل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں ایک عورت زندگی کی ہر سرگرمی میں حصہ لے سکتی ہے اور لیتی رہی ہے اسلام میں پردہ کا معیار مروجہ برقعہ ہر گز نہیں ہے اسی برقعہ کے بارے میں کسی شاعر نے بڑ ا اچھا شعر کہا ہے۔
بے حجابی یہ کہ ہر شے سے ہے جلوہ آشکار
اس پہ پردہ یہ کہ صورت آج تک نادید ہے
بلکہ اصل پردہ وہ بے حجابی اور نمود و نمائش سے پرہیز اور شرم و حیا کے مکمل احساس کا نام ہے اور یہ پردہ عورت کے ليے اپنے دائرہ کا ر میں کسی سرگرمی کی رکاوٹ نہیں بنتا ۔ اقبال کی نظر میں اصل بات یہ ہے کہ آدمی کی شخصیت اور حقیقت ذات پر پردہ نہ پڑا ہو اور اس کی خودی آشکار ہو چکی ہو۔
بہت رنگ بدلے سپہر بریں نے
خُدایا یہ دنیا جہاں تھی وہیں ہے
تفاوت نہ دیکھا زن و شو میں ، میں نے
وہ خلوت نشیں ہے! یہ خلوت نشیں ہے!
ابھی تک ہے پردے میں اولاد آدم
کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے
اس بارے میں پروفیسر عزیز احمد اپنی کتاب ”اقبال نئی تشکیل “ میں لکھتے ہیں:
” اقبال کے نزدیک عورت اور مرد دونوں مل کر کائنات عشق کی تخلیق کرتے ہیں عورت زندگی کی آگ کی خازن ہے وہ انسانیت کی آگ میں اپنے آپ کو جھونکتی ہے۔ اور اس آگ کی تپش سے ارتقاءپزیر انسان پیدا ہوتے ہیں۔۔۔۔ اقبال کے نزدیک عورت کو خلوت کی ضرورت ہے اور مرد کو جلوت کی۔“
یہی وجہ ہے کہ اقبال ، عورت کی بے پردگی کے خلاف ہیں ان کے خیال میں پرد ہ میں رہ کر ہی عورت کو اپنی ذات کے امکانات کو سمجھنے کا موقعہ ملتا ہے۔ گھر کے ماحول میں وہ سماجی خرابیوں سے محفوظ رہ کر خاندان کی تعمیر کا فرض ادا کرتی ہے ۔ جو معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے گھر میں وہ یکسوئی کے ساتھ آئند ہ نسل کی تربیت کا اہم فریضہ انجام دیتی ہے اس کے برخلاف جب پردے سے باہر آجاتی ہے تو زیب و زینت ، نمائش ، بے باکی، بے حیائی اور ذہنی پراگندگی کا شکار ہو جاتی ہے چنانچہ یہ فطری اصول ہے کہ عورت کے ذاتی جوہر خلوت میں کھلتے ہیں جلوت میں نہیں۔ ”خلوت“ کے عنوان سے ایک نظم میں اقبال نے کہا ہے۔
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ آئنہ دل ہے مکدر
بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے
ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر

Tuesday, September 13, 2016

Eid-Ul-Adha-Al-Mubarak


Monday, September 12, 2016

عید قربان


اعجاز صدیقی
کِیا نہ ترکِ تمنّا کا دل نے قصد اگر
محال ہے کہ کسی آرزو کی ہو تکمیل
دُکانِ خیر سے کچھ اپنے ساتھ لے کے چلیں
مسافرانِ عدم سے کہو، سفر ہے طویل
غم و خوشی سے جسے چاہے سرفراز کرے
نہیں ہے مصلحتِ ایزدی میں کوئی دخیل
یہ بات جان لے انساں تو مطمئن ہوجائے
کوئی نہیں ہے خدا کے سِوا قدیر و کفیل
--------------
وہ ایک قطرۂ خوں، حق کی راہ میں جو بہے
وہ ایک جسم کہ جو بندگی میں ہو تحلیل
رہے گا سیکڑوںقطراتِ خوں میں تابندہ
ملے گا کثرتِ اجسام میں مقامِ جلیل
گریز کرتے ہیں وہ گَردِ مادّیت سے
جو چاہتے ہیں فروزاں ہو روح کی قندیل
--------------
ورائے عرش رسائی تھی جن کی نظروں کی
پیام اُن کے لیے لائے بارہا جبریلؑ
سلام آئے انہیں تک، کلام انہیں سے ہوا
خدا کے حکم کی کرتے رہے ہیں جو تعمیل
بنایا خواب کو اپنے حقیقتِ کبریٰ
نہیں ہے خوابِ براہیمؑ بے ثبوت و دلیل
وہ ہر متاعِ عزیز اپنی سونپ دیتے ہیں
جنہیں ہو فکرِ حصولِ رضائے ربِّ جلیل
کسی کو پھر نہ ملا رتبۂ ذبیح اللہ
شرف تھا یہ بھی مقدّر بنام اسماعیلؑ
جہادِ نفس وہی ہے، وہی ہے قربانی
نہ جس میں عُذر کا پہلو، نہ موقعِ تاویل
اگر نہ جذبۂ ایثار ہم میں ہو پیدا
ہمارے خواب ادھورے، ہماری عید علیل
فلاحِ نوعِ بشر کے سِوا کچھ اور نہتھی
نوائے مصطفویؐ ہو، کہ ہو دعائے خلیلؑ
--------------
ہے چل چلاؤ تو قربانیاں ہی دے کے چلیں
کسے خبر ہے کب آجائے وقتِ کوسِ رحیل
*(اعجاز صدیقی علّامہ سیماب اکبر آبادی کے فرزند اور جانشین تھے، وہ ۱۹۳۲ ء سے ۱۹۷۸ ء تک ماہنامہ شاعر کے مدیرِ اعلیٰ رہے۔ زیرِ نظر نظم ان کے مجموعۂ کلام ’’ کربِ خود کلامی‘‘ سے لی گئی ہے)*

خطبہ حج کا مکمل اردو ترجمہ


فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس حٖظہ اللہ   
ترجمہ: محمد عاطف الیاس، مولانا اجمل بھٹی  ریسرچرز پیغام ٹی وی 
نظر ثانی: حافظ یوسف سراج  ، ہیڈ ریسرچ ڈیپارٹمنٹ ، پیغام ٹی وی
تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔ ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں،اسی سے معافی مانگتے ہیں، اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔   اپنے نفس کے شر سے اور اپنی بد اعمالیوں سے اللہ ہی کی پناہ میں آتے ہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں ۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے اللہ رب العزت گمراہ کر ڈالے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ ہم اللہ تعالیٰ کی تعریف اسی انداز میں کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند اور اللہ تعالیٰ کے شایان شان ہو۔ ہم اللہ تعالیٰ کی خوب تعریف بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ یقینًا ہم تیری تعریف کما حقہ ادا نہیں کر سکتے اور اے اللہ ہم کبھی کما حقہ تیرا شکر ادا نہیں کر سکتے۔ بہرحال ہم اللہ کی اتنی تعریف کرتے ہیں کہ جس سے آسمان کا ہر گوشہ زمین کا ہر کونہ اور سمندر و خشکی کی ہر ذرہ بھر جائے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کی بے شمار رحمتیں ، بے بہا برکتیں اور ان گنت سلامتی نازل ہو آپ ﷺ پر، آپ ﷺ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر۔  
بعد ازاں! 
لوگو! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تلقین کرتا ہوں۔ ’’اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘ (آل عمران:102)
’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔‘‘ (النساء:1)
’’اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘ (احزاب:81-80)
اے ابن آدم! تو ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ یاد رکھ! قیامت کے بے حد طویل دن میں تجھے اس کا ثمرہ ملے گا اور آج کی اس محنت سے تو اس سخت دن میں خوش ہو جائے گا۔  
یاد رکھئے ! اگر انسان کو زندگی اور جہان کی تمام آسائشیں یکجا ہو کر بھی میسر آ جائیں لیکن اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت آدمی تقویٰ سے خالی ہو تو اسے زندگی کی تمام آسائشوں کا ذرہ بھر فائدہ نہیں ہو سکے گا۔ 
اے امت اسلامیہ! 
اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں ایک دوسرے کاجانشین اور خلیفہ بنا کر بے پناہ عزت اور شرف عطا فرمایا ہے۔ اللہ کا فرمانِ ذیشان ہے۔ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘ (البقرۃ:30)
اللہ تعالیٰ کا انسان کو زمین میں خلیفہ اور جانشین بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ زمین میں تعمیر و اصلاح کا کام کرے۔ نیکی اور بھلائی  کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ لوگوں کے درمیان عدل قائم کرے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سے رسول مبعوث فرمائے ہیں تاکہ وہ عظیم پیغام لوگوں تک پہنچائے اور یوں لوگوں کے پاس اپنی غلط روش اور گمراہی کی کوئی حجت اور دلیل باقی نہ رہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ اُن کو مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے۔‘‘ (النساء:165)
اللہ تعالیٰ نے اپنے ان مبعوث کردہ رسولوں کی تائید بڑی عظیم نشانیوں اور معجزات سے فرمائی ہے جو ان انبیاء کی نبوت کی سچائی پر بڑی واضح دلالت کرتی ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا۔‘‘(الحدید:25)
پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کی طرف ہمارے پیارے نبی،محترم ، رسول مکرم، ساری اولادِ آدم کے سردار، تمام نبیوں کے امام اور خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ ہم نے تمہیں گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔‘‘ (الاحزاب:45) 
آپ ﷺ سچے اور کھرے دین اسلام کے ساتھ مبعوث فرمائے گئے جس نے لوگوں کے لیے زندگی کا ہر راستہ روشن کر دیا اور خالص توحید کی طرف رہنمائی فرمائی۔ اسی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو شرک کی آلودگی اور اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے بچا لیا۔ دین اسلام کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اپنے جیسی مخلوق کی غلامی سے آزاد فرما کر خالق حقیقی کی غلامی سکھائی ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے واضح ہدایت کا دروازہ کھولا  اور کامیابی کی راہ کی طرف بہترین رہنمائی فرمائی ہے، تاکہ لوگ ادھر ادھر رائیگاں بھٹکنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف یکسو ہو کر متوجہ ہو جائیں،اور یوں اپنی پیدائش کا حقیقی مقصد اور  تخلیق انسانی سے وابستہ اللہ کی مقدس حکمت پوری کریں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’میں نے جن اور انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘ (الذاریات:56) 
اسی طرح فرمایا: ’’ہم نے تُم سے پہلے جو رسُول بھی بھیجا ہے اُس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔‘‘ (انبیاء:25)
دیکھئے، اس آیت مبارکہ سے کس قدر توحید کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ دراصل توحید ہی لوگوں کے ذمے  اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اسی کے لیے رسولوں کو مبعوث کیا گیا اور اسی کی خاطر کتابیں نازل کی گئیں۔ 
سو اے اللہ کے بندے! اپنے یکتا خالق کے منفرد و ممتاز راستے پر یکسوئی سے گامزن ہو جا۔ میرا مطلب ہے کہ حق اور ایمان کی راہ پر یکسو ہو جا۔
اسلام دین حق لے کر آیا ہے، چنانچہ اب کسی مسلمان کو قطعاً زیب نہیں دیتا کہ وہ اس دین میں شک کرے ۔ یاد رہے ، اب اللہ تعالیٰ دین اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین قبول نہیں فرمائے گا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: 
’’یہ دین اس لیے آیا ہے تاکہ لوگوں کو خیر اور بھلائی کی ترغیب دلائےاور نجات اور کامیابی کی طرف انسانیت کی رہنمائی کرے۔ ‘‘
اے بیت اللہ کے حاجیو!
وہ وقت یاد کیجے کہ جب میرے اور آپ کے عظیم نبی محمد ﷺ ٹھیک اسی عظیم جگہ پر قیام پذیر ہوئے تھے، اسی مقدس جگہ پر کھڑے ہو کر 
آپؐ نے حقوق انسانی کا واضح منشور یعنی حجۃ الوداع کا عظیم خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ جس میں آپ ﷺ نے دین اسلام کے بنیادی ارکان واضح فرمائے تھے اور جاہلیت کی خرافات ختم کرنے کا واضح اعلان فرما دیا تھا۔ اس خطبے میں رسول مکرم ﷺ نے لوگوں کی جانیں انتہائی محترم قرار دی تھیں۔ آپ ﷺ نے خطبہ ارشاد کرتے ہو ئے فرمایا تھا، آج دین کامل اور ،مکمل ہو گیا، دین کے تمام احکام بالکل واضح ہوگئے، اللہ تعالیٰ کی نعمت پوری ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس دین کو لوگوں کے لیے پسند فرما لیا۔ اور پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو الوداعی کلمات سے ایسے اشارے دئیے کہ جس سے لگتا تھا ،یہ اس طرح کی آخری ملاقات ہے ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے ۔‘‘ (المائدہ:3)
نبی کریم ﷺ نے اس مبارک دن میں کیسا عظیم خطبہ ارشاد فرمایا اور کیا ہی عمدہ نصیحتیں فرمائیں۔ گو یہ ایک مختصر خطبہ تھا تاہم دین کے تمام اصول اس میں سمٹ آئے تھے۔ آپ ﷺ نے لوگوں کے ذہنوں میں دین اسلام کے أصول راسخ فرما دئیے تھے۔ اور بڑے اور بنیادی  اصولوں کا ذکر کرتے ہوئے جزئیات اور تفصیلات کی طرف بھی اشارہ فرما دیا تھا۔
یقینا آپ ﷺ نے لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے کیے بڑی محنت اور کوشش فرمائی تھی تاکہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت سے ایک نئی اور توانا امت جنم لے جو واضح اہداف کی حامل ہو اور جو عظیم اصولوں پر عمل پیرا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو انسانوں کی گمراہی کے بعد ہدایت عطا فرمائی، انتشار اور تفرقے  کے بعد اجتماعیت اور اتحاد نصیب فرمایا اور جہالت کے بعد علم و دانش عطا فرمائی۔ آپ ﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع میں حقوق انسان واضح فرمائے اور آزادی کا مفہوم بھی متعین فرما دیا۔ انسانی عزت و کرام کے اصول واضح فرمائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سنو! تمھارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے کے لیے اسی طرح قابلِ احترام ہیں جس طرح اس ملک اور اس شہر میں یہ دن حرمت والا ہے۔‘‘
اسلام نے ان پانچ ضروری چیزوں کی حفاظت یقینی بنائی ہے جس کے بغیر انسان کی زندگی ٹھیک طرح چل ہی نہیں سکتی۔ اسلام نے دین، جان، مال، عقل اور عزت پر حملہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ یہ اسی لیے ہے تاکہ لوگ امن وامان اور اطمینان کے ساتھ زندگی جی سکیں۔ دنیا وآخرت کے لیے اطمینان سے کام کر سکیں اور سارا معاشرہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح اتحاد واتفاق کے ساتھ قائم اور استوار رہ سکے۔ تاکہ لوگوں کے احوال سنور جائیں اور ان کے معاملات درست ہو جائیں۔ آپ ﷺ نے اپنے عظیم خطبے میں مسلمان عورت کے بارے میں بھی نصیحت فرمائی۔ اس کے حقوق اور فرائض واضح فرماتے ہوئے  یہ بھی  واضح فرما دیا کہ ایک مسلمان عورت کو کیا ادا کرنا ہے اور بدلے میں کیاوصول کرنا ہے۔ 
اے مسلمانو!
اسلام نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اولادِ آدم ہونے کے لحاظ سے سب لوگ ایک جیسے ہیں۔ سب کے حقوق اور واجبات بھی ایک ہی جیسے ہیں۔ کسی عربی  اور عجمی میں تقویٰ کے سوا کوئی فرق نہیں۔ کسی کو کسی پر کوئی نسبی یا نسلی برتری نہیں۔ کسی کو بر بنائے رنگ بھی کسی دوسرے پر کوئی برتری نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگو! تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک ہی ہے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’حقیقت میں اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘ (الحجرات:13) کسی عربی کو کسی عجمی پر تقویٰ کے علاوہ کوئی فضیلت نہیں۔
اسی طرح اسلام کا اقتصادی نظام بھی بڑا منفرد اور شاندار ہے۔  اس میں لوگوں کی انسانی اور فطری ضروریات کا خیال بڑے توازن کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ جس کی مثال کسی دوسرے نظام میں نہیں ملتی۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر۔‘‘ (القصص:77)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام نے مالی لین دین کے عظیم اور مفید اصول وضع کیے ہیں جو سچائیاور عدل واحسان پر مبنی ہیں۔ ظلم، جہالت، دھوکے بازی، مکاری اور فریب کاری جیسی خرافات اور انسانوں کو گھاٹے میں ڈالنے والے معاملات سے روکتے ہیں۔ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے: ’’دو تجارت کرنے والے اپنے معاملے میں اس وقت تک آزاد ہیں جب تک وہ سودہ کر کے الگ نہ ہو جائیں۔ اگر وہ سچائی کی بنا پر تجارت کریں گے اور زیر تجارت چیز کے عیب و اوصاف  بیان کردیں گے تو ان کے سودے میں برکت شامل کر دی جائے گی۔‘‘ اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو دھوکہ دہی کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘
اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور لوگوں کے مال نا جائز طریقوں سے ہتھیانے  سے بھی روکا ہے۔
اسلام میں باہمی معاشرتی ذمے داریوں کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلامی نظام صرف مادی چیزوں تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ معاشرے کی تمام تر انفرادی اور اجتماعی، مادی اور روحانی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو‘‘ (المائدہ: 2)۔ اسی طرح فرمایا: ’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔‘‘ (التوبہ:71)
تکافل یعنی باہمی ذمے داریوں کا دائرہ انتہائی وسیع ہے اور اس میں تمام لوگ اپنی ذمے داریوں سمیت سما جاتے  ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ (حجرات:13)
پھر اس میں نیکی اور بھلائی کی تمام شکلیں بھی شامل ہیں۔ اسلام نے والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ احسان والا معاملہ کرنے کی بھی بڑی تلقین فرمائی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور  والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو ۔‘‘(الاسراء:23)
اسلام نے رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے سے بھی منع کیا ہے اور رشتہ داری توڑنے والے کو بد ترین وعید سنائی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اب کیا تم لوگوں سے اِس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟‘‘(محمد:22)
اسلام میں ہمسائے کے حقوق کا بھی خوب خیال رکھا گیا ہے۔ خاص طور قرابت دار ہمسائے کے حقوق کی طرف اور زیادہ توجہ دلائی گئی ہے۔ عام طور پر تمام ہمسائیوں کے حقوق کی تلقین کی گئی ہے۔ فرمان نبوی ہے: ’’جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے۔‘‘
اسلام نے انسانی جان کی حفاظت کو بھی پوری طرح یقینی بنایا ہے چنانچہ اس نے انسانی خون کو بہت زیادہ محترم قرار دیا ہے۔ دین میں جان کی حفاظت کو ایک عظیم مقصد بنایا گیا ہے۔ چنانچہ اسلام نے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ اسلام نے افراد کی تمام انفرادی اور اجتماعی مشکلات کا حل پیش کیا ہے اور ہر معاملے میں شرعی حدود وقیود واضح کر دی  ہیں جو قطعی ، حتمی اور ناقابل تبدیل ہیں اور جن کو درست اور مفید ماننے پر آج کی جدید دنیا کا ہر شخص بھی مجبور ہیں، یہی حدود قیود ہیں جو اسلامی معاشرے میں مجرموں کو جرم سے روکے رکھتی ہیں اور مفسدوں کو مقررہ حدود سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیتیں اور یوں اس طرح سے یہ اصول وضوابط زمین پر عدل قائم کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ چنانچہ اسلام نے ان اصولوں پر عمل کرنا لازم قرار دیا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’سی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ "جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔‘‘ (المائدۃ:32)
اسلام ہی وہ معتدل اور متوازن طریقہ لے کر آیا ہے کہ جس کے ذریعے سے بھلائیاں حاصل ہو جاتی ہیں اور برائیاں کافور ہو جاتی ہیں۔ اسلام نے تعمیر وترقی اور فلاح و بہود کا حکم دیا ہے اور تعمیر وترقی کے تمام ااسباب و وسائل اپنانے کی نصیحت فرمائی ہے تاکہ مسلمان اپنے دینی اصول اسلام پر قائم رہتے ہوئے ہر جدید دور کے ساتھ چل سکیں اور جدید چیزوں کو سمجھ سکیں۔ اسی طرح اسلام نے فساد پھیلانے والے تمام ذرائع سے رکنے کا حکم دیا ہے اور اسلام کے عظیم مفادات کا خیال کرتے ہوئے ادنی مفادات کو نظر انداز کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح دین اسلام کے مفادات، امت کی اجتماعی کمائی ، اس کے مستقبل اور اس کی ناموس  کا خیال نہ کرنے والے کو دنیا وآخرت کی بد ترین وعید سنائی ہے اور ان مفادات پر اثر انداز ہونے سے روکا ہے۔
  اے مسلمان حکمرانو اے امت اسلامیہ کے لوگو!کیا شک ہے کہ 
آج ہماری  امت اسلام اپنی تاریخ کے انتہائی مشکل مرحلہ سے گزر رہی ہے۔ ان حالات میں ہم پر لازم ہے کہ ہم تمام اختلافات چھوڑ کے اکٹھے ہو جائیں اور دل و جذبات میں ایک دوسرے کا خیال رکھیں، کسی بھی معاملے میں کوئی سا بھی موقف اختیار کرنے سے پہلے باہم مشورہ کر لیں، معاملات کو دیکھنے کا انداز ایک سا کر لیں اور اپنی کوششوں کو ہم آہنگ کر لیں تاکہ یہ امت مسائل اور مشکلات حل کرنے میں کامیاب حقیقی اعتبار سے کامیاب ہو سکے۔ ہمارے مسائل میں سب سے نمایاں مسئلہ مسئلۂ فلسطین اور مسجد اقصیٰ کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح شام، عراق، یمن اور دیگر ممالک میں ہمارے بھائیوں کی خستہ حالت زار بھی سب کے سامنے ہے۔ اس وقت ہم سب سے کو سب سے بڑھ کی باہم مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ اکٹھے بیٹھ کر اپنے معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو بھلائی کی نصیحت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اخوت اسلامیہ کا اخوت و اتحاد اور یک جہتی و وحدت کا رنگ نظر آ سکے۔ یقینا ہم سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
ہمیں اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ معاشرے کی اصلاح، امت کی فلاح ، امن وامان کی بقا اور وحدت کی ضیا حکمرانوں کے ساتھ عوام کے تعاون پر موقوف ہے، حکمرانوں کے گرد جمع ہونے پر اور حکمرانوں کا ہاتھ بٹانے پر منحصر ہے۔ 
مسلمان حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے کندھے پر پڑنے والی بھاری امانت کا احساس کریں اور بھر پور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ وہ ذہن نشین کر لیں کہ اختلافات اور نزاع کا باعث بننے والے تمام جدید مسائل کو حل کرنا ان کی ذمہ داری ہے اور انہیں حل کرنے کا بہترین طریقہ باہممذاکرات اور باہمی تعاون، مشورہ، عدل اور ظلم کا خاتمہ ہے۔
اے امت اسلامیہ!
عدل اسلام کی عظیم بنیاد اور اساس ہے۔ یہ بہترین ترازو ہے۔ یہ رسولوں کا پیغام ہے۔ یہ رب العالمین کا حکم ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے‘‘(النحل:90) اسی طرح فرمایا: ’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو‘‘.(النساء:35) فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔‘‘(الحدید:25)
اسلام نے تمام تر اصول اور ضابطوں  میں عدل کو بڑی اہمیت دی ہے۔ یہ اس لیے کہ عدل بذات خود بڑی اہم چیز ہے اور اس کے نتائج بڑے عمدہ ہیں۔ عدل کے ذریعے ہی انسانوں کی زندگی بھلی بن سکتی ہے اور اسی کے ذریعے نیکی پھل پھول اور پھیل سکتی ہے۔ اسی کے ذریعے خوشبختی حاصل ہو سکتی ہے اور عین اسی پر  امت کی خیر وہدایت، بقا اور فلاح منحصر ہے۔ عدل سے بھلائی پھیلتی ہے اور نیکی بڑھتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں سکون اور سرور آ جاتا ہے اور لوگوں کو چین نصیب ہوتا ہے۔ 
اسلام نے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کو بھی عظیم عبادت قرار دیا ہے اور اس کی بھی خوب ترغیب دلائی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران:110)
مسلمانو!
تمہارا دین باہمی لین دین اور باہمی برتاو کا دین ہے، انصاف اور رحمت کا دین ہے۔ یہ بہترین رویے سکھانے والا دین ہے، عمدہ فیصلے کرنے اور درست عمل اپنانے کا دین ہے۔ اسلام بھلے برتاؤ کے ذریعے ہی تو پھیلا ہے۔ اس طرح کے برتاؤ کے ذریعے کہ جس کے اصول اسلام نے وضع کیے ہیں اور جنہیں اسلام کے باشندوں نے اپنایا ہے۔ جیسے عدل، احسان، سچائی، امانت اور بھلے اخلاق۔
اسلام نے اخلاقی تربیت اور کردار سازی کے حوالے سےبھی بہترین اور عمدہ ترین نمونہ فراہم کرنے کو بھی بڑی اہمیت دی ہے۔ اے لوگو! لوگوں نےتمھارے نبی محمد ﷺ کو دیکھا تھا کہ وہ ایسے ہی اوصاف حمیدہ ، خصائلِ پاکیزہ اور محاسنِ عظیمہ سے متصف  انسان تھے اور ان کی ذاتِ والا صفات میں یہ ساری صفات موجود ہیں۔ چنانچہ وہ ان زندہ نظر آتی مثالوں پر ایمان لائے، ان کے دل ودماغ نے ان اعلیٰ صفات کو بے ساختہ قبول کیا اور ان کے جذبات و احساسات نے انہیں بھلا سمجھا۔ پھر لوگوں نے ان صفات کو اپنانا شروع کیا اور اپنی زندگی میں نافذ کر دکھایا۔  آپ ﷺ لوگوں کے لیے بہترین استاد، بہترین نمونہ اور تربیت دینے والے تھے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا‘‘(الاحزاب:21) اسی طرح فرمایا: ’’اے محمدؐ، ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔‘‘ (الانبیاء:107)
اے مسلمان نوجوانو!
آج کے دور میں جن مصیبتوں کا ہمیں سامنا ہے ان میں ایک نمایاں مصیبت زمین فساد برپا کرنے کی کئی شکلیں ظاہر ہونا ہے جنہیں ہم مجمل طور پر دہشتگردی کا نام دے سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ وہ دہشتگردی کہ جس کی برائی بڑی بڑی قوموں، نسلوں اور مذاہب میں سرایت کر چکی ہے۔ اس برائی کو کسی قوم ، کسی دین، کسی ثقافت یا کسی ملک کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ دہشتگردی کی تہمت اسلام کے نام بھی قطعا نہیں لگائی جا سکتی۔
امت کی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ اس کے کچھ باشندوں کو شیطان نے حق سے پھیر لیا ہے اور راہ راست سے بھٹکا دیا ہے۔ اس طرح وہ دین اسلام کے اعتدال پسند طریقے سے ہٹ گئے ہیں اور لوگوں پر کفر کے فتوے لگانے میں جلد بازی کرنے لگے۔ ہیں یقینًا یہ رویہ بڑے ہولناک نتائج سامنے لانے والا ہے۔ تکفیر سے مؤمنوں کے دل لرز اٹھتے ہیں اور مسلمانوں کی جانیں کانپ اٹھتی ہیں۔ کس قدر بے خوف لوگ ہیں کہ جنھوں نے مسلمانوں کا کافر قرار دیا ہے اور ان کی محترم اور محفوظ جانوں پر حملہ کرنا جائز سمجھا، انھوں نے اسلام کے عطا کردہ حرمت والے معاہدے توڑ ڈالے ہیں، زمین میں فساد برپا کیا ہے ۔ دھماکے کیے ہیںاور توڑ پھوڑ کی ہے۔
معصوم جانوں کو قتل کیا ہے، مسلمان اور غیر مسلم امن پسند شہریوں کو ڈرایا دھمکایا ہے، اللہ کی کتاب، سنت رسول ﷺ اور امت کے علما کے اجماع کو پس پشت ڈال دیا ہے کہ جو سب ان ناپاک اور بد ترین اعمال کو نا جائز قرار دینے پر متفق ہیں۔
تو مسلمان نوجوانو!
آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ آپ ہی امت کا سرمایہ اور آپ ہی اس کا مستقبل ہو۔ سو لازم ہے کہ ہر اس راستے سے بچو جو امت اسلامیہ کی صفیں بکھیرنے، تفرقہ بازی پھیلانے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے والا ہو۔ جان رکھو کہ امت میں گمراہی اور انحراف پھیلانے کے اسباب میں سے قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کرنے والے مسلمانوں کو کافر قرار دینے میں جلدی کرنا بھی ہے۔ یہ بہت بڑی مصیبت  اور بڑا ہلاکت خیز رویہ ہے۔
یاد رکھو! نبی اکرم ﷺ نے بڑے زور دار انداز میں اور بہت ہولناک الفاظ میں اس بڑے گناہ سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! اپنے آپ کو تقویٰ، علم اور سمجھ کے ذریعے ہر وقت ان چیزوں سے محفوظ رکھو۔ امت کے علما کی طرف رجوع کرو اور ان کی باتیں دلائل اور واضح نشانیوں کے ساتھ مانو۔
امت کو تم سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں تو تم ساری دنیا کو اپنے دین کی بھلائیاں، اس کی نرمی، اس کی رحمت اور اس کے اخلاق حسنہ دکھاؤ۔ دوسروں کے لیے بہترین نمونہ بنو۔ اپنے فارغ اوقات کا بھر پور فائدہ اٹھاؤ، اپنی صلاحیتیں ان اعمال میں صرف کرو جن میں امت اسلامیہ کی فلاح وبہبود ہو، اسی میں تمھاری اور  اسلام کی عزت ہے اور اسی میں دنیا وآخرت میں آپ کا فائدہ ہے ۔ 
اے تربیت دینے والو!
بھلے اخلاق تمام آسمانی شریعتوں کا مرکز ومحور اور جوہر ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کی بعثت کا مقصد بھی اخلاق درست کرنا ہی تھا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود اُنہی میں سے اٹھایا، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے،‘‘۔ (الجمعہ:2)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نبی اکرم ﷺ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ : ’’اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو‘‘ (القلم:4)
اسلام نے لوگوں کی اخلاقی تربیت، کردار سازی اور نیکی پر نفوس کی تربیت کرنے کو اپنی ترجیحات میں اولیت دی ہے۔ چنانچہ عظیم دینی اخلاق پر نفس کی تربیت اسلام کا طریقہ ہے اور یقینا اسی طرح سے لوگوں کو سکون اور چین اور کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا  پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی  یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا  اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا۔‘‘ (الشمس:10-7)
اسی تربیت کی وجہ سے ہی لوگ افضلیت میں ایک دوسرے سے بڑھ سکتے ہیں۔ فرمان نبوی ہے: تم میں بہترین وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق کا حامل ہے‘‘
مسلمانوں کے بعض معاشروں کو عملی اعتبار سے  ان حسین اصولوں سے دوری کا سامنا ہے۔ یہ بڑی خطرناک چیز ہے اور ہمارے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ چنانچہ اے والدین، اے تربیت دینے والو! آپ کے سر پر بچوں کی بھلی اور اخلاق پر مبنی تربیت کی عظیم ذمہ داری ہے۔ خاص طور پر اس زمانے میں کہ جس میں برائی اور فتنے کے اسباب عام ہو چکے ہیں۔ آج جنگ نے ایک نیا روپ اختیار کر لیا ہے اور وہ اصول ومبادئ اور اخلاق کی جنگ بن چکی ہے۔ 
اے اسلام کے علما!
آپ انبیا کے وارث ہو، انبیا کے پیغام کے حامل ہو، آپ پر ساری امت کی فلاح وبہبود منحصر ہے۔ سو سنو! امت میں اختلافات پھیلانے کا سبب مت بنو۔ بھلائی کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرو، حق بیان کرو، باطل کی حمایت مت کرو، لوگوں کو راہ دکھاؤ، لوگوں کو شریعت اسلامیہ کے مطابق فتوے دو، نہ تشدد کرو اور نہ حد سے زیادہ نرمی برتو۔ اللہ کا دین تشدد اور نرمی کے مابین رہتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک "امت وسط" بنایا ہے۔‘‘ (البقرۃ:143)
لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرو اور ان کی مشکلات دور کرو۔ فرمان الٰہی ہے: ’’دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں‘‘(الحج:78) رسول مکرم ﷺ کو جب بھی دو چیزوں میں سے ایک اپنانے کا کہا گیا تو آپ ﷺ نے آسان چیز اختیار فرمائی۔ الا یہ کہ آسان چیز گناہ پر مشتمل ہو۔
اے اللہ کی طرف بلانے والو!
اللہ کی طرف بلانا انبیا اور رسولوں کا کام ہے۔ تو آپ دعوت کے معاملے  صحیح طریقہ اپناؤ۔ علم، سمجھ داری اور اخلاص کے ساتھ دعوت دو۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ادع إلے سبیل ربک ... أحسن‘‘
اسی طرح فرمایا: ’’(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے ۔‘‘ (آل عمران:159) دوسروں کے لیے اچھا نمونہ بنو۔ جنہیں دعوت دے رہے ہو، ان پر رحم کرو، بھلے انداز سے گفتگو اور بحث کرنا آپ کی دعوت کا اسلوب ہونا چاہیے۔ علم کو اپنا اسلحہ بنائیے۔ لوگوں کی حق کے ذریعے رہنمائی کرنا اپنا ہدف بنائیے۔ فرقہ وارانہ رویے سے بچئے! نئے فرقے اور گروہ ایجاد کرنے سے باز رہئے۔ الگ ہونے اور نئی شناخیں بنانے سے گریز کیجے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو ۔‘‘ (آل عمران:103) اسی طرح فرمایا: ’’آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی۔‘‘ (الانفال:46)
اے میڈیا کے لوگو! اے سوشل میڈیا کے حاملو!
میڈیا، میڈیا کے ذرائع اور میڈیا کی سائیٹس کو دین کے فائدے کے لیے، اس کا دفاع کرنے کے لیے برتو ۔ اس کی خیر اور بھلائیاں بیان کرنے میں میڈیا استعمال کرنے کا اہتمام کرو۔ الفاظ کے استعمال میں ذمہ داری مظاہرہ کرو، اپنی بات پر قائم رہنا سیکھو اور سچائی سے کام لو۔ قلم کی ذمہ داری کو سمجھو۔ حقیقت پسندی سے کام لو۔ با مقصد طریقۂ تحریر اپناؤ۔ ہلچل مچانے والی تحریروں سے، افواہوں سے اور تنقید برائے تنقید سے دور رہو۔ ان ذرائع کو بنانے والا بناؤ بگاڑنے والا نہ بناؤ۔ جمع کرنے والا بناؤ، تفرقہ پھیلانے والا نہ بناؤ۔ قوت پھیلانے والا بناؤ، کمزور کرنے والا نہ بناؤ۔ 
اے بیت اللہ کے حاجیو!
آپ حرمت والے شہر میں ہیں۔ اس کی عظمت کو جانو اور اس کی تقدس ذہن نشین کر لو۔ اللہ تعالیٰ نے اس محترم شہر کو ایسی خصوصیات سے مختص فرمایا ہے کہ جو کسی دوسرے شہر کو نہیں ملیں۔ یہ امن والا ہے، محترم ہے اور قیامت تک یوں ہی رہے گا۔ فرمان الٰہی ہے: ’’ جو اِس (مکہ) میں داخل ہوا مامون ہو گیا۔‘‘
یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا تھی، فرمان الٰہی ہے: ’’"پروردگار، اِس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔‘‘ (ابراہیم:35) اللہ تعالیٰ اس شہر کو اپنے نبی ابراہیم علیہ السلام کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ فرمان الٰہی ہے: ’’اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں۔‘‘ (الحج:27) حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر لبیک کہا۔ میں حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوـ میں حاضر ہوں۔ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ میں حاضر ہوں۔ تعریف بھی تیری ہی ہے اور ساری نعمتیں بھی تیری اور ساری بادشاہت بھی تیری ہی ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد اللہ کے انبیا، رسول اور اللہ کے بندے اسی طرح لبیک کہتے رہے۔ 
اللہ نے انہیں بلایا تو انہوں نے راضی ہوتے ہوئے اور محبت کرتے ہوئے اس پاکر پر لبیک کہا۔ پھر جب انہوں اللہ کو پکارا تو اللہ ان کے نفس کی نسبت ان سے زیادہ قریب تھا۔ 
اللہ کے گھر کے حاجیو!
دیکھو! تم اللہ کے امن والے شہر میں آئے ہو، تمھارے کے لیے راستے آسان کر دیے گئے ہیں۔ آپ کی مشکلات آسان کر دی گئی ہیں۔ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرو! مزید فضل وکرم کا سوال کرو! یہ اللہ کا مقدس گھر ہے۔ اللہ کے نازل کردہ امن کی وجہ سے امن والا ہے۔ فرمان الٰہی ہے: ’’اور قسم ہے اِس پرامن شہر (مکہ) کی۔‘‘(التین:3) اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حرمت والا اور محترم ہے۔ اس کے امن کو تباہ کرنے سے بچو۔ اس کے مقامات کا احترام کرو۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو)، اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔‘‘ (الحج:32) اسی طرح فرمایا: ’’یہ تھا (تعمیر کعبہ کا مقصد) اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے‘‘ (الحج:30)
عبادت گاہوں کا صاف ستھرا ماحول آلودہ کرنے سے اجتناب کرو۔ فرمان الٰہی ہے: ’’اِس (مسجدِ حرام) میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا اسے ہم درد ناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔‘‘ (الحج:25)
حرمین کا امن اور حجاج کی سلامتی ایسی سرخ لائنیں ہیں جن سے آگے بڑھنا، سیاسی بینرز اٹھانا یا فرقہ وارانہ نعرے لگانا کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ 
اس ملک پر اللہ کا فضل وکرم ہے کہ اس ملک کو اس نے حکمت والی قیادت مہیا فرمائی ہے۔ جو حرمین کی خدمت اور نگہبانی کے ذریعے شرف حاصل کرتی ہے۔ 
حکومت نے خدمات کا طویل سلسلہ تیار کر رکھا ہے اور ہر قسم کی ممکنہ کوشش کی ہے تاکہ حرمین میں آنے والے امن وامان اور اطمینان کے ساتھ اپنی عبادت سر انجام دے سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجمل بھٹی صاحب
اللہ تعالیٰ ہمارے حاکم سلمان بن عبدالعزیز کو اسلام اور مسلمانوں کی خدمت پر جزائے خیر عطا فرمائے اور اس کی کاوشوں کو بابرکت بنائے۔ اس کی تمام کاوشوں کو اس کے لیے باعث اجر و ثواب بنائے اور اسے صحت و عافیت سے نوازے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حاکم اس کے دونوں نائبین اور تمام ساتھیوں کو اپنی رضا اور خوشنودی والے کام سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس طرح ہم ہر اس شخص کے لیے دعا گو ہیں جس نے حج کی ادائیگی کو آسان بنانے میں اپنی خدمات پیش کیں اور حجاج کرام کو ادائیگی حج میں اطمینان و سکون فراہم کیا۔ ان سب کے سرخیل امیر حج اور امیر مکہ کو اللہ حاجیوں کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔
اسی طرح بہادر سیکورٹی فورسز کے اراکین کو بھی اللہ جزائے خیر سے نوازے، جنہوں نے حجاج کرام کی خدمت اور ہماری ملکی حدود کی حفاظت کیلئے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیاں قبول فرمائے اور ان کی کوششوں کو بابرکت بنائے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے ان کے قول و عمل کی درستی کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ ان کی کاوشوں کو خیر و برکت کا باعث اور اجر عظیم کا سبب بنائے۔
یہ اور ان کے دیگر بھائی جو حجاج کرام اور حرمین شریفین کی خدمت پر مامور ہیں۔ کوئی حجاج کرام کی راہنمائی کیلئے فتویٰ دے رہا ہے، کوئی دعوت و ارشاد کے لیے مقرر ہے، کوئی صحت و سلامتی کے لیے خدمات دے رہا ہے اور اس جیسی دیگر کئی ذمہ داریاں نبھانے والے کئی اور کتنے ہی لوگ ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب کو اجر عظیم عطا فرمائے۔
اے حجاج کرام!
تمہارا آج کا دن بڑا عظیم اور مبارک دن ہے۔ نبی کریم eفرماتے ہیں: جتنے لوگوں کو اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن جہنم سے آزادی عطا فرماتے ہیں، کسی اور دن عطا نہیں کرتے۔ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے پھر فرشتوں کے سامنے بندوں پر فخر کا اظہار فرماتا ہے اور ان سے پوچھتا ہے: ’’میرے یہ بندے کیا چاہتے ہیں؟‘‘
اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: میرے ان بندوں کو دیکھو کہ کس طرح میلے کپڑوں اور غبار آلود بالوں کے ساتھ حاضر ہیں، اے فرشتو! تم گواہ ہو جائو کہ میں نے انہیں معاف کر دیا ہے۔‘‘
لہٰذا آج خوب دعائیں مانگو۔ نبی کریم e فرماتے ہیں: ’’بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور وہ بہترین دعا جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام نے اللہ سے کی ہے، وہ یہ ہے:
لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کل شی ءٍ قدیر
’’اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ ساری بادشاہی اسی کی ہے۔ سب تعریفیں اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
لوگو! اپنے نبی کی سنت کا اہتمام کرو۔ عرفہ میں وقوف کرو۔ ابھی ظہر و عصر کی نمازیں جمع اور قصر کر کے ادا کرو۔ جیسا کہ تمہارے نبی eنے کیا تھا اور فرمایا تھا: ’’مجھ سے اپنے حج کے احکام سیکھ لو۔‘‘
پھر مغرب کے بعد مزدلفہ چلے جائو، وہاں پہنچ کر مغرب و عشاء کی نمازیں جمع اور قصر کر کے ادا کرو۔ آدھی رات کے بعد منیٰ جا کر جمرہ عقبہ کو کنکریاںمارو۔ پھر ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارو۔ جو منیٰ میں دو دن رہ کر واپس جانا چاہے وہ 11اور 12 تاریخ کو تمام جمرات کو کنکریاں مارے اور جو 13تاریخ کو بھی منیٰ رہنا چاہے وہ 13کو بھی کنکریاں مارے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’جو دو دنوں میں جلدی کرے، اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو تاخیر کرے (13 واں دن بھی منیٰ میں گزارے) اس پر بھی کوئی حرج نہیں۔ جو متقی ہو۔‘‘
جان لو کہ تمام راتوں میں بھی کنکریاں ماری جا سکتی ہیں۔ اللہ تمہاری حفاظت فرمائے۔ مقامات مقدسہ کے درمیان نقل و حرکت کے دوران خصوصی ہدایات و قوانین پر عمل کرو۔ تمام مناسک حج کی ادائیگی میں متعلقہ اداروں کی راہنمائی پر عمل کرو۔ دھکم پیل اور دوسروں کو تکلیف دینے سے بچو۔ آرام و سکون سے چلو اور نیکی و بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔ گناہ اور برائی میں ایک دوسرے کا ساتھ مت دو۔ اللہ سے ڈرو۔ اپنی زبان اور دیگر اعضاء کو کنٹرول میں رکھو۔ صبر، حوصلے ،خوشخبری اور حسن ظن سے کام لو۔ شکست خوردگی ، مایوسی اور نا امیدی سے بچو۔ کیونکہ اللہ کا دین ہی کامیاب ہے اور اللہ اپنے دین کا ، شہروں کا اور بندوں کا محافظ ہے۔ عزت اللہ ،اس کے رسول اور مومنوں کیلئے ہے اور اللہ اپنے امر پر غالب ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
اللہ کے بندو!
تمہارا بہترین عمل، اللہ کے ہاں نہایت پاکیزہ اور درجات کو بلندی دینے والاعمل، اللہ کے رسول مصطفیٰ پر کثرت سے درود و سلام بھیجنا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:’’اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجو۔‘‘
اے اللہ! اپنے نبی اور بندے ہمارے پیارے رسول محمد eپر درود و سلام بھیج۔ اے محمد eکی سفارش چاہنے والو، نبی پر درود و سلام بھیجو۔ اس وقت تک درود و سلام بھیجتے رہو کہ جب تک حج کرنے والے لبیک پکارتے رہیں۔ اللہ ذوالجلال نبی علیہ السلام پر اپنی بے شمار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔
اے اللہ! اپنے نبی کے خلفائے راشدین ابوبکر، عمر، عثمان اور علی ]  اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا۔ تابعین کرام اور تاقیامت نیکی میں ان کے نقش قدم پر چلنے والوں سے راضی ہوجا۔ اے ارحم الراحمین! اپنے فضل و کرم سے هہمیں بھی معاف کر دے اور ہم سے راضی ہو جا۔
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت و غلبہ عطا فرما۔ اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ دے دے۔ اسلام کی حفاظت فرما۔ کلمہ حق اور دین اسلام کو سر بلند کر دے۔ حجاج کرام اور عمرہ کرنے والوں کو سلامتی عنایت فرما۔ اے اللہ! ملت اسلامیہ کو ہر بھلائی کی توفیق عطا فرما۔ اے اللہ! مومن مردوں اور عورتوں، مسلمان مرد و خواتین کو معاف فرما دے۔ ان کے دلوں کو جوڑ دے۔ ان کے باہمی جھگڑے ختم فرما دے۔ انہیں ہدایت کی راہوں پر گامزن فرما۔ انہیں ان کے دشمن اور اپنے دشمن پر غلبہ عطا فرما۔ انہیں ظاہری اور باطنی فتنوں اور برائیوں سے محفوظ فرما۔ اے اللہ! دکھیوں کےد کھ دور فرما۔ پریشان حال لوگوں کی پریشانیاں دو رکر دے۔ مقروضوں کے قرض ادا کر دے۔ ہمارے اور مسلمانوں کے مریضوں کو شفا عطا فرما دے۔ اے اللہ! مسلمانوں کے دلوں کو اپنی اطاعت پر ثابت رکھ۔ انہیں شریر لوگوں کے شر سے بچا۔ اے اللہ! ہمیں ہمارے وطنوں میں امن و امان عطا فرما۔ اے اللہ! ہمارے ائمہ کرام اور حکمرانوں کی اصلاح فرما۔ یامنان یا دیان! ہمارے حاکم سلمان اور اس کے دونوں نائبین کو ہر خیر و بھلائی کی توفیق عطا فرما۔ اے ذوالجلال والاکرام۔ انہوں نے حرمین شریفین، مقامات مقدسہ اور حجاج کرام کے لیے جو خدمات سر انجام دیں، انہیں قبول فرما۔ انہیں ان کے میزانِ حسنات میں شمار فرما۔ اے اللہ! اے ذوالجلال والاکرام اس ملک کے امن و سکون، خوشحالی، عقیدے اور حاکموں کی حفاظت فرما۔ اے اللہ! ہمارے حفاظتی دستوں کی حفاظت فرما۔ حرمین شریفین اور حجاج کرام کی حفاظت کی خدمات کی جزائے خیر عطا فرمائے۔
ہماری سرحدوں کی حفاظت پر انہیں بہترین ثواب عطا فرما۔ اے اللہ! جو ہمارے ملک، ہمارے مقامات مقدسہ اور امن و امان کو برباد کرنے کے منصوبے بنائے، اے اللہ! اس کے برے منصوبوں کو اس کے گلے کا ہار بنا دے اور اسے اس کی جان کی فکر میں ڈال دے۔ اس کی چالوں کو اس کی بربادی کا ذریعہ بنا دے۔ اے اللہ! مسلمان حکمرانوں کو کتاب و سنت کے مطابق فیصلے کرنے کی توفیق دے۔ اے اللہ! امت اسلامیہ کی حالت زار بدل دے اور انہیں کتاب و سنت پر جمع کر دے۔ اے فضل و کرم اور عطا کرنے والے! اے اللہ! ہمارے حج کو حج مبرور اور ہماری سعی کو مقبول سعی بنا دے۔ ہمارے گناہ معاف فرما دے۔ اے ارحم الراحمین! اے اللہ! ہمارے حاکم کو تمام اقوال و اعمال میں توفیق اور درستی عطا فرما۔ اے پروردگار اس کی عمر و عمل میں برکت فرما۔ ا س کے اعمال کو اپنی خوشنودی کا باعث بنا دے۔ اسے خیر خواہ ساتھی عطا فرما۔ اے اللہ! پوری دنیا کے مسلمانوں کے حالات درست فرمادے۔ ان کی جانیں محفوظ فرما دے۔ ان کے دکھ دور کر دے۔ ان کے نوجوانوں کو ہدایت عطا فرما۔ بیماروں کو تندرستی دے دے۔ آزمائش میں گھرے ہووں کو عافیت سے نواز دے۔
بندگانِ الٰہی! ﵃
ہمارے عظیم مفتی اور جلیل القدر عالم کا شکریہ ادا کرنا اور ان کے لیے دعا کرنا واجب ہے۔ جنہوں نے 35سال تک اس منبر سے خطبہ حج ارشاد فرمایا۔ انہوں نے 35سال امت کی راہنمائی کی اور ان سے خیر خواہی کا فریضہ ادا کیا۔ اللہ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ انہیں ڈھیروں ثواب دے ۔ان کی عمر، علم اور عمل میں برکت دے۔ اے اللہ !تو نے آج کے اس عظیم دن میں جتنی خیر و برکت، صحت و سلامتی، وسیع رزق اور جہنم سے آزادی رکھی ہے، ہمیں اس سے خوب سرفراز فرما اور ہمیں ان خوش نصیبوں میں شامل فرما جن کی بدولت تو اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کا اظہار فرماتا ہے اور کہتا ہے: ’’جائو! میں نے تمہیں معاف کیا۔‘‘
اے اللہ! مسلمانوں کی جانیں محفوظ فرما۔ اے اللہ! پوری دنیا میں ہمارے مظلوم دینی بھائیوں کی مدد فرما۔ اے اللہ! ہمارےفلسطینی بھائیوں کی مدد فرما۔ یہودی استعمار سے مسجد اقصیٰ کو آزادی عطا فرما اور اسے تاقیامت عظمت و شان عطا فرما۔ اے اللہ! ہمارے شامی بھائیوں کا مددگار ہو جا۔ اے اللہ! وہ بڑے مظلوم ہیں ان کی مدد فرما۔ اے مظلوموں کی مدد فرمانے والے۔ اے اللہ! عراق، یمن ، اراکان اور تمام علاقوں میں ہمارے بھائیوں کے حالات سنوار دے۔ اے اللہ! ہمارے حفاظتی دستوں اور دینی محافظوں کی مدد فرما۔ اے اللہ! ہمارے ملک کی مدد فرما اور ہمارے ملک کو امن و امان کا گہوارہ بنا۔ تمام اسلامی ممالک کو امن و سکون عطا فرما۔
’’اے ہمارے رب، ہمیں اور ہمارے اُن سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں۔‘‘(الحشر:10)
’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔‘‘(البقرۃ:201)
’’اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘(البقرۃ:127)
اے اللہ! ہماری ، ہمارے والدین، ہمارے اجداد اور تمام مسلمان مرد و خواتین کی بخشش فرما۔ بلاشبہ تو بڑا سننے والا، قریب اور دعائوں کو قبول کرنے والا ہے۔
سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون و سلام علی المرسلین والحمدللہ رب العالمین (بشکریہ پیغام ٹی وی۔ واضح رہے امام حج الشیخ عبدالرحمٰن السدیس پاکستانی چینل پیغام ٹی وی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چئیر میں ہیں۔)

Sunday, September 04, 2016

غلام محمد قاصر کی یوم پیدائش

Sep 04, 1941

20 فروری 1999ء کو اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، نقاد اور ڈرامہ نگار غلام محمد قاصر پشاور میں وفات پاگئے۔
غلام محمد قاصر 4 ستمبر 1941ء کو پہاڑپور، ڈیرہ اسماعیل خان کے مقام پر پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک خوش گو شاعر تھے اور ان کے شعری مجموعے تسلسل، آٹھواں آسمان بھی نیلا ہے اور دریائے گماں اردو کے اہم شعری مجموعوں میں شمار ہوتے ہیں۔ غلام محمد قاصر کی کلیات بھی ’’اک شعر ابھی تک رہتا ہے‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لئے بھی کئی ڈرامے تحریر کئے جو ناظرین میں بے حد مقبول ہوئے۔
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2006ء میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

         🔸 *منتخب غزل* 🔸

شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے
گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے

خارِ چمن تھے شبنم شبنم پھول بھی سارے گیلے تھے
شاخ سے ٹوٹ کے گرنے والے پتے پھر بھی پیلے تھے

سرد ہواوں سے تو تھے ساحل کی ریت کے یارانے
لو کے تھپیڑے سہنے والے صحراوں کے ٹیلے تھے

تابندہ تاروں کا تحفہ صبح کی خدمت میں ‌پہنچا
رات نے چاند کی نذر کیے جو تارے کم چمکیلے تھے

سارے سپیرے ویرانوں میں گھوم رہے ہیں بین لیے
آبادی میں رہنے والے سانپ بڑے زہریلے تھے

تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

کون غلام محمّد قاصر بے چارے سے کرتا بات
یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے

    

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP