Sep 04, 1941
20 فروری 1999ء کو اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، نقاد اور ڈرامہ نگار غلام محمد قاصر پشاور میں وفات پاگئے۔
غلام محمد قاصر 4 ستمبر 1941ء کو پہاڑپور، ڈیرہ اسماعیل خان کے مقام پر پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک خوش گو شاعر تھے اور ان کے شعری مجموعے تسلسل، آٹھواں آسمان بھی نیلا ہے اور دریائے گماں اردو کے اہم شعری مجموعوں میں شمار ہوتے ہیں۔ غلام محمد قاصر کی کلیات بھی ’’اک شعر ابھی تک رہتا ہے‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لئے بھی کئی ڈرامے تحریر کئے جو ناظرین میں بے حد مقبول ہوئے۔
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2006ء میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
🔸 *منتخب غزل* 🔸
شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے
گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے
خارِ چمن تھے شبنم شبنم پھول بھی سارے گیلے تھے
شاخ سے ٹوٹ کے گرنے والے پتے پھر بھی پیلے تھے
سرد ہواوں سے تو تھے ساحل کی ریت کے یارانے
لو کے تھپیڑے سہنے والے صحراوں کے ٹیلے تھے
تابندہ تاروں کا تحفہ صبح کی خدمت میں پہنچا
رات نے چاند کی نذر کیے جو تارے کم چمکیلے تھے
سارے سپیرے ویرانوں میں گھوم رہے ہیں بین لیے
آبادی میں رہنے والے سانپ بڑے زہریلے تھے
تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
کون غلام محمّد قاصر بے چارے سے کرتا بات
یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے
No comments:
Post a Comment