You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Saturday, November 02, 2013

ڈاکٹر اسلم جمشید پوری

ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کو ادب اور ڈرا ما کے فروغ کے لیے کملیشور ایوارڈ سے نوازا گیا
یو نائٹیڈ پرو گریسیو تھیٹر ایسو سی ایشنPTA،میرٹھ کے چوتھے یوم تاسیس میں’’ایک اور درونا چاریہ‘‘ کھیلا گیا۔
         
                             ’’ یو نائٹیڈ پرو گریسیو تھیٹر ایسو سی ایشن، میرٹھ نے اپنے چار سالہ کامیاب سفر کے دوران شہر کے متعدد مقامات پر سماجی مسائل پر مبنی مختلف ڈرامے پیش کر کے تہذیبی وراثت اور اخلا قی قدروں کو فروغ دینے کا کار نامہ انجام دیا ہی۔جسے شہر کے غیور عوام نے  خوب سرا ہا  ہی۔اب ہمیں اور محنت کر کے اور دیگر تنظیموں کو بھی اس میں شامل کر کے بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی شناخت قائم کرنی ہوگی۔’’ڈراما’’ایک اور دروناچاریہ‘‘ سماج میں خصوصاً شعبۂ تعلیم میں پھیلتے جارہے کرپشن پر کاری ضرب ہی۔‘‘ یہ الفاظ تھے صدر شعبۂ اردو ڈا کٹر اسلم جمشید پو ری کے جو کملیشور ایوارڈ حاصل کر نے کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھی۔
           یو نائٹیڈ پرو گریسیو تھیٹر ایسو سی ایشن،میرٹھ نے اپنے چو تھے یوم تاسیس کے مو قع پر سینٹ جوزف انٹر کالج میں ایک ڈرا ما بعنوان’’ ایک اور درونا چاریہ‘‘ کا کامیاب اسٹیج شو پیش کیا۔جس میں دکھایا گیا کہ ایک استادکوکس طرح مسائل میں الجھا کر غلط کام کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہی۔
          اسٹیج شو کا آ غاز سینٹ جوزف انٹر کالج کے سیمینار ہال میں ہوا جس میں پربھو دیال بالمیکی(ایم ایل ای) اور چھا ئونی پریشد کی نائب صدر شپرا رستوگی،نریش کنسل اور شکتی سنگھ مہمانان خصوصی کے طور پر شریک ہو ئی۔ ڈرا مے میں عہد قدیم کے درونا چاریہ اور عہد حاضر کے ایک استاد اروند کے حالات کو یکساں دکھایا گیا ہی۔انل شرما کی ہدا یت میں بھا رت بھو شن شرما، انل شرما، ونود بے چین، ہیمنت گویل، سیما سمر، ونشی دھر چترویدی، عابد سیفی، شیبا غزالہ، امت، رمیش، ارجن وغیرہ نے ڈرا مے کے کرداروں کو انتہائی کامیابی کے ساتھ پیش کیا۔اسٹیج شو میں برقی انتظام نو جوان ڈرا مہ نگار جتیندر سی راج اور سیٹ کا ڈیزائن ہیمنت کمار نے خوبصورتی کے ساتھ کیا تھا۔
           اس موقع پر اُپٹا نے ادبی،صحافت ،سماجی خدمات اور ڈراما نگاری کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے وا لوں کو ایوارڈ سے سر فراز کیا۔اس سلسلے میں باالترتیب ادب اور سماجی خدمات کے فروغ کے لیی’’اُپٹا ایکسی لینسی ایوارڈ013ء (کملیشور ایوارڈ) معروف افسانہ نگار اور رنگ منچ کو فروغ دینے وا لے ڈا کٹر اسلم جمشید پو ری،صحافت کے لیے اُپٹا میڈیا ایوارڈ013ء (ڈاکٹر دھرم ویر بھارتی ایوارڈ)مشہور معروف صحافی محترم شمبھو ناتھ شکل اور رنگ منچ کی دنیا کے لیے اُپٹا ناٹیہ ایوارڈ013ئ(ناٹیہ رتن) نو جوان ڈرا ما نگار محترم جتیندر سی راج کو پیش کیے گئی۔
          اسٹیج شو کو کامیاب بنانے میں یو نائٹیڈ پرو گریسیو تھیٹر ایسو سی ایشن،میرٹھ تنظیم کے ارا کین اور عہدیداران میں سے سریندر شرما، کنوینر،راکیش کو شک اور عا بد رضوی نے بطور خاص تعاون پیش کیا۔
          اس مو قع پر ذیشان احمد خان، حاجی مشتاق سیفی، سلیم سیفی،ڈاکٹر شاداب علیم،سائرہ اسلم، شناور اسلم، مدیحہ اسلم، رخسانہ عثمانی، ارقم شجاع میرٹھی،سعید احمد سہارنپوری،سمیع اللہ الائی،شاہد چودھری،سندیپ سریواستو، ریتا سریواستو، شاہین خان،سلیم صدیقی اور کثیر تعداد میں طلبا و طالبات اور عماہدین شہر نے شر کت کی۔
         
            یو نائٹیڈ پرو گریسیو تھیٹر ایسو سی ایشن،میرٹھ نے میرٹھ اور اس کے نواحی علاقوں کے نوجوانوں کو رنگ منچ کی دنیا  اور اس کی تکنیک سے رو برو کرا نے کے لیے مستقبل قریب میں ایک تھیٹر ورکشاپ ود پروڈکشن پلے کا بھی اہتمام کرنے کا فیصلہ لیاہی۔

          پریس کانفرنس میں محترم بھارت بھو شن شرما، انل شرما، سریندر شرما، ہیمنت گویل، جتیندر سی راج وغیرہ موجود رہے

محمد طارق غازی


اسلام21 سیمنار، 16 اکتوبر 1999
بشکریہ
محمد طارق غازی
آٹوا، کینڈا
پہلی بات تو یہ سمجھ لیجئے کہ اگر آپ کو ان تمام آزادیوں سے پیار ہے تو آپ کو ان کے ساتھ مغرب کے وہ تاریخی تجربات بھی قبول کرنے اور تجربہ کرنے پڑیں گے جن کا نتیجہ یہ آزادیاں ہیں۔ یہ بات سمجھ میں آگئی تو اب یہ سمجھنا آسان ہے کہ مثلاً مسلم ملکوں میں یہ باہم کشت و خون کیوں ہورہا ہے۔ ابھی تیس چالیس سال پہلے تو سبھی فرقے شیر و شکر تھے۔ تو اب کیا ہوگیا؟ جی ہاں۔ ہم یورپ کی عمرانی نقل کرنے پر بضد ہیں تو یورپ کی تاریخ دوہرانے پر بھی مجبور ہیں۔
    دوسری بات یہ کہ جدید عمرانیات تمام ترمغرب کےسیاسی اورمعاشی تجربات کی معاشرتی اورفلسفیانہ ناکامیوں کی تاریخ نے مرتب کی ہے. دشواری یہ ہے کہ باقی دنیا کے لوگ اس عمرانیات کو یہ سمجھ کر  پڑ ھتے اور پڑھاتے ہیں جیسے وہ ان کی آپ بیتی ہو. اس تاریخ نے یورپ کی جدید سیاسیات مرتب کی ھے جو ہمارے تعلیمی اداروں میں صرف اس لئے پڑھائی جاتی ہے کہ کچھ  لوگوں کا اصرار تھا اور اب بھی ہے کہ دنیا میں ترقی صرف مغرب کی نقالی ہی سے ممکن ہے ورنہ تم سلطنت مغلیہ اورسلطنت عثمانیہ کے بوریئے سمیٹتے رہنا کیونکہ ان جیسی مسلم سلطنتوں نے کچھ کیا نہ کیا ترقی ہرگز نہیں کی تھی.
    ہمارا گمان، بلکہ یقین یہ بھی ہے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے ھندستان میں یا مسلم دنیا میں کہیں بھی تعلیم وغیرہ کچھ نہیں تھی اور ملک کا وزیر اعظم اور صدرالصدور (چیف جسٹس) بھی  جاہل لوگ ہوا کرتے تھے. بلکہ ہم یہ بھی باور کرتے ہیں کہ رامیشورم اور بنارس کے مندر؛ آگرہ، لاہور، دہلی، گوالیار، گولکنڈہ اوراحمد نگرکے قلعے ؛ آگرہ کا تاج محل ؛ ٹھٹہ، لاھور، احمد آباد اورجونپورکی مسجدیں ؛ بیجاپورکا گول گنبد؛ دلی کا قطب مینار، دولت آباد اور برہان پور کا 24 گھنٹہ گھروں میں پانی کی  مفت فراہمی کا نظام ؛ سری نگراورلاہور کےنشاط باغ اور شالامار باغ ؛ حیدر آباد اور بخارا کے چار مینار؛ استنبول کی جامع سلطان احمد ، جامع ایوب سلطان، دولما باغچی سرائے (محل) ؛ قاھرہ کی مسجد عمرو  ؓابن العاص، مسجد سلطان حسن، بازار خان خلیلی، دمشق کی جامع اموی، غرناطہ کا قصر الحمرا، سمر قند کی الغ بیک کی رصد گاہ، اصفہان کا پُل خاجو، ھرات کی جامع مسجد اور شاہ شجاع الملک کا دربار، وغیرہ اگر راتوں میں چھپ کرجنات نے نہیں بنائے تھے تو یقینا وہ بھی انگریز بنا کر ھم جہلا سے منسوب کر گئے تھے.
    اب  دیکھئے  کیسے مزہ کی  بات ہے کہ ڈیڑھ سو برس سے ھم  اُس ملک کے پیچھے دوڑے چلے جارہے ہیں جو 65 برس سے طوفانی رفتارسے زوال کی منزلیں طے کئے جارہا ہے، اور ھمارا خیال ہے کہ ہم ترقی  ہی کر رہےہیں ۔
    ھم میں سے بڑی تعداد نے مغرب کو اپنا نیا وطن بنا لیا ھے۔ یقینا مغرب میں کچھ ایسی خوبیاں ضرور ہیں جو شائد  کبھی ھمارے دیسوں میں بھی تھیں مگر وہاں کی حکوتوں، وہاں کے حکمرانوں، وہاں کے لیڈروں، وھاں کے معاشروں نے ھمارے اپنے وطنوں میں ان خوبیوں سے ھمیں محروم کردیا تھا۔ اسی لئے ھمارے قافلے اپنے ثقافتی ڈھورڈنگروں سمیت نئے گیاہستانوں کی کھوج میں اتنی دور نکل آئے جتنا کہکشاں کے مرکز سے ھمارا سورج ۔ ایسا تاریخ میں ہوتا رہا ہے اورجب تک انسان تاریخ بناتا رہے گا ایسا ہوتا رہے گا۔ مگر ایک بات جو ہم اکثر بھول جاتے ہیں یہ کہ ہر معاشرے کے اپنے تجربات ہوتے ہیں جن سے ان معاشروں کا مزاج، ان کی تہذہب وملت اور ان کی تاریخ بنتی ھے۔ اور کوئی تہذیب آسانی سے نہیں بن جاتی۔ اس کے لئے کڑی جد وجہد کے علاوہ بہت سے صدمات بھی جھیلنے پڑتے ہیں ۔ مغرب کی موجودہ تہذیب کے لئے ھم نے کوئی مصیبت نہیں جھیلی۔ ھم صرف اس تہذیب کو جھیل رہے ہیں۔ یہ ایک نئی تہذیب کے صدمات کا نقطۂ آغاز ہوسکتا ہے، بشرطیکہ ان نئے صدمات کو ھم کوئی معاشرتی عنوان دے دیں۔
    قصہ مختصر، مغرب کی موجودہ تہذیب سازی میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس تاریخ میں ھندستان کے گندم اورمصر کی کپاس اورملایا کی ربڑ اور زنجیبار و موزمبیق کے گرم مصالحے اورعرب کے تیل  نے بڑا کردار ادا کیا ہے، مگر یہ سب اجناس ھیں، انسان نہیں۔ اجناس سے تاریخ نہیں بنتی، تاریخ بنانے والے کا پیٹ بھرتا ہے یا تن ڈھکتا ہے۔ ممکن ہےسو سال بعد ہماری آنے والی نسلیں مغرب میں کوئی اردو نما تہذیب اورتاریخ بنا دیں۔ مگر اس کے لئے آج ارادہ کرنا پڑے گا۔ اب یہ ذرا بہت ہمت والوں کا کام ہے۔ مگر اس سفر میں یہ خیال رکھنا پڑے گا کہ مغرب کے تاریخی تجربوں نے یہاں جو معاشرہ اورجو ثقافت اورجو تہذیب بنائی ہے وہ ھماری ثقافت، تہذیب اور تاریخ نہیں ہے اور اس لئے نہی ہے کہ وہ سب مناظر جو یہاں ہمارے سامنے ہیں ھمارے عمرانی تجربہ کے نتائج نہیں ہیں۔ ہمارے عمرانی تجربات کے نتائج تو قاہرہ، دہلی، حیدرآباد، دمشق، لاہور، کراچی، کابل،  پشاور، جلال آباد، ھرات، سمر قند، تاشقند، ڈھاکہ، سلہٹ، سرائیوو، ملتان، تہران، اصفہان، ادرنہ، استنبول، ازمیر، تونس، صنعا، نیروبی، دارالسلام، ڈربن، الجزائر، بن غازی، فاس اوررباط میں رہ گئے۔
    ایک بات یاد رکھئے۔ ھر تہذیب ساری انسانیت کی میراث ہوتی ہے، مگرھر تہذیب ساری دنیا کی ملکیت نہیں ہوتی۔ وادیٔ گنگا و جمنا کی تہذیب اوروادیٔ دجلہ و فرات کی تہذیب پر نظر ڈالیں تو یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ یہی فرق مشرق و مغرب کے عمرانی اورمعاشرتی اورسیاسی تجربات میں بھی پایا جاتا ہے۔
    تو بس بات صرف اتنی ہے کہ کہیں بھی کوئی نئی تہذیب بنانی ہے توخود کو ذ را مختلف ثابت کرنا پڑے گا۔ مختلف بننا پڑے گا۔ آگے بڑھنے کا ایک یہی نسخہ ہے۔ باقی نقل کرکے آدمی بندر تو بن سکتا ہے ، مہذب نہیں۔  تووہ برطانیہ جو زوال کی گھاٹیوں میں اب ٹہل فرمارہا ہے اسی برطانیہ کے رہنے والے ایک نو- مسلمان سفارت کار، استاذ اور صحافی چارلس لی گائی ایٹن نے ایک بار کہا تھا کہ مسلمان جب تک مغرب کی نقالی کرتے رہیں گے اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔
    دل کو لگتی ہے بات ایٹن کی؟


۔

Happy Diwali



تمام لنترانی کے وزیٹرس کو   روشنیوں  و خوشیوں  کا تہوار  مبارک  ہو 
دیوالی مبارک ہو

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP