اسلام21
سیمنار، 16 اکتوبر 1999
بشکریہ
محمد طارق
غازی
آٹوا، کینڈا
پہلی بات
تو یہ سمجھ لیجئے کہ اگر آپ کو ان تمام آزادیوں سے پیار ہے تو آپ کو ان کے ساتھ
مغرب کے وہ تاریخی تجربات بھی قبول کرنے اور تجربہ کرنے پڑیں گے جن کا نتیجہ یہ
آزادیاں ہیں۔ یہ بات سمجھ میں آگئی تو اب یہ سمجھنا آسان ہے کہ مثلاً مسلم ملکوں
میں یہ باہم کشت و خون کیوں ہورہا ہے۔ ابھی تیس چالیس سال پہلے تو سبھی فرقے شیر و
شکر تھے۔ تو اب کیا ہوگیا؟ جی ہاں۔ ہم یورپ کی عمرانی نقل کرنے پر بضد ہیں تو یورپ
کی تاریخ دوہرانے پر بھی مجبور ہیں۔
دوسری بات
یہ کہ جدید عمرانیات تمام ترمغرب کےسیاسی اورمعاشی تجربات کی معاشرتی اورفلسفیانہ
ناکامیوں کی تاریخ نے مرتب کی ہے. دشواری
یہ ہے کہ باقی دنیا کے لوگ اس عمرانیات کو یہ سمجھ کر پڑ
ھتے اور پڑھاتے ہیں جیسے وہ ان کی آپ بیتی ہو. اس تاریخ نے یورپ کی جدید سیاسیات مرتب کی ھے جو ہمارے
تعلیمی اداروں میں صرف اس لئے پڑھائی جاتی ہے کہ کچھ لوگوں کا اصرار
تھا اور اب بھی ہے کہ دنیا میں ترقی صرف مغرب کی نقالی ہی سے ممکن ہے ورنہ تم
سلطنت مغلیہ اورسلطنت عثمانیہ کے بوریئے سمیٹتے رہنا کیونکہ ان جیسی مسلم سلطنتوں
نے کچھ کیا نہ کیا ترقی ہرگز نہیں کی تھی.
ہمارا گمان،
بلکہ یقین یہ بھی ہے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے ھندستان میں یا مسلم دنیا میں
کہیں بھی تعلیم وغیرہ کچھ نہیں تھی اور ملک کا وزیر اعظم اور صدرالصدور (چیف جسٹس)
بھی جاہل لوگ ہوا کرتے تھے. بلکہ ہم یہ بھی باور کرتے ہیں کہ رامیشورم
اور بنارس کے مندر؛ آگرہ، لاہور، دہلی، گوالیار، گولکنڈہ اوراحمد نگرکے قلعے ؛
آگرہ کا تاج محل ؛ ٹھٹہ، لاھور، احمد آباد اورجونپورکی مسجدیں ؛ بیجاپورکا گول
گنبد؛ دلی کا قطب مینار، دولت آباد اور برہان پور کا 24 گھنٹہ گھروں میں پانی کی مفت
فراہمی کا نظام ؛ سری نگراورلاہور کےنشاط باغ اور شالامار باغ ؛ حیدر آباد اور
بخارا کے چار مینار؛ استنبول کی جامع سلطان احمد ، جامع ایوب سلطان، دولما باغچی
سرائے (محل) ؛ قاھرہ کی مسجد عمرو ؓابن العاص، مسجد سلطان حسن، بازار
خان خلیلی، دمشق کی جامع اموی، غرناطہ کا قصر الحمرا، سمر قند کی الغ بیک کی رصد گاہ،
اصفہان کا پُل خاجو، ھرات کی جامع مسجد اور شاہ شجاع الملک کا دربار، وغیرہ اگر
راتوں میں چھپ کرجنات نے نہیں بنائے تھے تو یقینا وہ بھی انگریز بنا کر ھم جہلا سے
منسوب کر گئے تھے.
اب دیکھئے کیسے
مزہ کی بات ہے کہ ڈیڑھ سو برس سے ھم اُس ملک کے پیچھے دوڑے
چلے جارہے ہیں جو 65 برس سے طوفانی رفتارسے زوال کی منزلیں طے کئے جارہا ہے، اور
ھمارا خیال ہے کہ ہم ترقی ہی کر رہےہیں ۔
ھم
میں سے بڑی تعداد نے مغرب کو اپنا نیا وطن بنا لیا ھے۔ یقینا مغرب میں کچھ
ایسی خوبیاں ضرور ہیں جو شائد کبھی ھمارے دیسوں میں بھی تھیں مگر وہاں
کی حکوتوں، وہاں کے حکمرانوں، وہاں کے لیڈروں، وھاں کے معاشروں نے ھمارے اپنے
وطنوں میں ان خوبیوں سے ھمیں محروم کردیا تھا۔ اسی لئے ھمارے قافلے اپنے ثقافتی
ڈھورڈنگروں سمیت نئے گیاہستانوں کی کھوج میں اتنی دور نکل آئے جتنا کہکشاں کے مرکز
سے ھمارا سورج ۔ ایسا تاریخ میں ہوتا رہا ہے اورجب تک انسان تاریخ بناتا رہے گا
ایسا ہوتا رہے گا۔ مگر ایک بات جو ہم اکثر بھول جاتے ہیں یہ کہ ہر معاشرے کے اپنے
تجربات ہوتے ہیں جن سے ان معاشروں کا مزاج، ان کی تہذہب وملت اور ان کی تاریخ بنتی
ھے۔ اور کوئی تہذیب آسانی سے نہیں بن جاتی۔ اس کے لئے کڑی جد وجہد کے علاوہ بہت سے
صدمات بھی جھیلنے پڑتے ہیں ۔ مغرب کی موجودہ تہذیب کے لئے ھم نے کوئی مصیبت نہیں
جھیلی۔ ھم صرف اس تہذیب کو جھیل رہے ہیں۔ یہ ایک نئی تہذیب کے صدمات کا نقطۂ آغاز
ہوسکتا ہے، بشرطیکہ ان نئے صدمات کو ھم کوئی معاشرتی عنوان دے دیں۔
قصہ مختصر،
مغرب کی موجودہ تہذیب سازی میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس تاریخ
میں ھندستان کے گندم اورمصر کی کپاس اورملایا کی ربڑ اور زنجیبار و موزمبیق کے گرم
مصالحے اورعرب کے تیل نے بڑا کردار ادا کیا ہے، مگر یہ سب اجناس ھیں،
انسان نہیں۔ اجناس سے تاریخ نہیں بنتی، تاریخ بنانے والے کا پیٹ بھرتا ہے یا تن
ڈھکتا ہے۔ ممکن ہےسو سال بعد ہماری آنے والی نسلیں مغرب میں کوئی اردو نما تہذیب
اورتاریخ بنا دیں۔ مگر اس کے لئے آج ارادہ کرنا پڑے گا۔ اب یہ ذرا بہت ہمت والوں
کا کام ہے۔ مگر اس سفر میں یہ خیال رکھنا پڑے گا کہ مغرب کے تاریخی تجربوں نے یہاں
جو معاشرہ اورجو ثقافت اورجو تہذیب بنائی ہے وہ ھماری ثقافت، تہذیب اور تاریخ نہیں
ہے اور اس لئے نہی ہے کہ وہ سب مناظر جو یہاں ہمارے سامنے ہیں ھمارے عمرانی تجربہ
کے نتائج نہیں ہیں۔ ہمارے عمرانی تجربات کے نتائج تو قاہرہ، دہلی، حیدرآباد، دمشق،
لاہور، کراچی، کابل، پشاور، جلال آباد، ھرات، سمر قند، تاشقند، ڈھاکہ،
سلہٹ، سرائیوو، ملتان، تہران، اصفہان، ادرنہ، استنبول، ازمیر، تونس، صنعا، نیروبی،
دارالسلام، ڈربن، الجزائر، بن غازی، فاس اوررباط میں رہ گئے۔
ایک بات
یاد رکھئے۔ ھر تہذیب ساری انسانیت کی میراث ہوتی ہے، مگرھر تہذیب
ساری دنیا کی ملکیت نہیں ہوتی۔ وادیٔ گنگا و جمنا کی تہذیب
اوروادیٔ دجلہ و فرات کی تہذیب پر نظر ڈالیں تو یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ یہی فرق
مشرق و مغرب کے عمرانی اورمعاشرتی اورسیاسی تجربات میں بھی پایا جاتا ہے۔
تو
بس بات صرف اتنی ہے کہ کہیں بھی کوئی نئی تہذیب بنانی ہے توخود کو ذ را مختلف
ثابت کرنا پڑے گا۔ مختلف بننا پڑے گا۔ آگے بڑھنے کا ایک یہی نسخہ ہے۔ باقی نقل
کرکے آدمی بندر تو بن سکتا ہے ، مہذب نہیں۔ تووہ برطانیہ جو زوال کی
گھاٹیوں میں اب ٹہل فرمارہا ہے اسی برطانیہ کے رہنے والے ایک نو- مسلمان
سفارت کار، استاذ اور صحافی چارلس لی گائی ایٹن نے ایک بار کہا تھا کہ مسلمان جب
تک مغرب کی نقالی کرتے رہیں گے اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔
دل کو
لگتی ہے بات ایٹن کی؟
۔
No comments:
Post a Comment