You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Wednesday, August 31, 2011

Eid Mubarak


Powered by Lantrani.com

Tuesday, August 30, 2011

تبسم زیر لب-حصہ دوم

1 بشیر بدر فرماتے ہیں: میں لمحہ موجود میں سوچتا ہوں تو فورا میرا ذہن تین سو سال پیجھے اور تین سو سال آگے چلا جاتا ہے۔ ہم نے بشیر بدر کا یہ جملہ استاد لاغر مراد آبادی کو سنایا تو انہوں نے کہا: اس عزیز کو سوچنا نہیں چاہیے۔ سوچنے کے دوران ذہن کا دو حصوں میں تقسیم ہوکر ہجرت کرجانا اچھی بات نہیں، آدمی کا ذہن اس کے پاس رہنا چاہیے۔ (خامہ بگوش)

------

2

کیفی اعظمی ہمیشہ زبانی شاعری سناتے تھے۔ انہوں نے لکھی ہوئی شاعری کبھی نہیں سنائی۔ ایک مرتبہ جب وہ مشاعرہ پڑھنے لگے تو سامعین سے کہا : "میں نے تمام عمر زبانی مشاعرے پڑھے ہیں مگر آج جو کچھ میں نے سنانا ہے وہ لکھ کر لایا ہوں تاکہ آپ لوگ جان لیں کہ میں اَن پڑھ نہیں ہوں بلکہ پڑھا لکھا آدمی ہوں"۔ قتیل شفائی بھی وہاں موجود تھے ، بولے : "حضرات ! کیفی صاحب کے ہاتھ میں جو کاغذ ہے وہ کورا ہے"۔ مجمع تو ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گیا مگر ہنسی تھمتے ہی کیفی صاحب بول اٹھے : "سامعین ! آج معلوم ہوا ہے کہ قتیل بھی اَن پڑھ ہے۔ لکھے ہوئے کو کورا کہہ رہا ہے" !!!

-----

3

پطرس بخاری ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر تھے ایک مرتبہ مولانا ظفر علی خان صاحب کو تقریر کے لئے بلایا تقریر کی ریکارڈنگ کے بعد مولانا پطرس کے دفتر میں آ کر بیٹھ گئے۔ بات شروع کرنے کی غرض سے اچانک مولانا نے پوچھا۔ پطرس یہ تانپورے اور تنبورے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ پطرس نے ایک لمحہ سوچا اور پھر بولے۔ مولانا آپ کی عمر کیا ہوگی؟ اس پر مولانا گڑ بڑا گئے اور بولے۔ بھئی یہی کوئی پچھتر سال ہوگی۔ پطرس کہنے لگے۔ مولانا جب آپ نے پچھتر سال یہ فرق جانے بغیر گذار دئے تو دو چار سال اور گزار لیجئے۔ ----

-----

4

دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے ہیں ' جون کا مہینہ ہے ' سمن آباد میں ایک ڈاکیہ پسینے میں شرابور بوکھلایا بوکھلایا سا پھر رہا ہے محلے کو لوگ بڑی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔۔اصل میں آج اس کی‌ڈیوٹی کا پہلا دن ہے۔۔وہ کچھ دیر ادھر ادھر دیکھتا ہے پھر ایک پرچون والے کی دکان کے پاس سائیکل کھڑی کر کے دکان دار کی طرف بڑھتا ہے 'قاتل سپاہی کا گھر کون سا ہے ' ؟ اس نے آہستہ سے پوچھا۔۔ دکان دار کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔۔اس کی آنکھیں خوف سے ابل پڑیں۔۔ قق قاتل سپاہی۔۔ مم مجھے کیا پتا ؟ اس نے جلدی سے دکان کا شٹر گرا دیا۔۔ ڈاکیہ پھر پریشان ہو گیا۔۔اس نے بہت کوشش کی کہ کسی طریقے سے قاتل سپاہی کا پتا چل جائے لیکن جو کوئی بھی اس کی بات سنتا چپکے سے کھسک جاتا۔۔ڈاکیہ نیا تھا نہ جان نہ پہچان اور اوپر سے قاتل سپاہی کے نام کی رجسٹری آکر وہ کرے تو کیا کرے کہاں سے ڈھونڈھے قاتل سپاہی کو؟؟اس نے پھر نام پڑھا نام اگرچہ انگلش میں تھا لیکن آخر وہ بھی مڈل پاس تھا' تھوڑی بہت انگلش سمجھ سکتا تھا بڑے واضح الفاظ میں۔۔ قاتل سپاہی ' غالب اسٹریٹ ' سمن آباد لکھا ہوا تھا۔۔دو گھنٹے تک گلیوں کی خاک چھاننے کے بعد وہ ہانپنے لگا' پہلے روز ہی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔۔اب وہ اپنے پوسٹ ماسٹر کو کیا منہ دکھائے گا۔۔اس کا حلق خشک ہو گیا اور پانی کی طلب محسوس ہوئی وہ بے اختیار اٹھا اور گھر کے دروازے پر لگی بیل پر انگلی رکھ دی۔۔اچانک اسے زور دار جٹھکا لگا۔۔جھٹکے کی اصل وجہ یہ نہیں تھی کہ بیل میں کرنٹ تھا بلکہ بیل کے نیچے لگی ہوئی پلیٹ پر انگلش میں ' قاتل سپاہی ' لکھا ہوا تھا۔۔ خوشی کی لہر اس کے اندر دور گئی۔۔اتنی دیر میں دروازہ کھلا اور ایک نوجوان باہر نکلا۔۔ڈاکیے نے جلدی سے رجسٹری اس کے سامنے کر دی۔۔ کیا آپ کا ہی یہ نام ہے ؟ نوجوان نے نام پڑھا اور کہا نہیں یہ میرے دادا ہیں۔۔ ڈاکیے نے جلدی سے پوچھا ۔۔''کیا نام ہے ان کا ؟ نوجوان نے بڑے اطمینان سے کہا '' قتیل شفائی '' Qatil Shiphai -----

----

5

اورئنٹل کالج لاہور میں انور مسعود فارسی کے طالبعلم تھے ان کی کلاس کے پروفیسر وزیر الحسن عابدی نے ایک دفعہ چپڑاسی کو چاک لانے کو کہا ۔ چپڑاسی نے بہت سے چاک جھولی میں ڈالے اور لے کر حاضر ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا۔ انور مسعود شرارتی لہجے میں بولے ۔ "سر! دامنِ صد چاک ، اسی کو کہتےہیں۔ "

-----

6

سن 1913 میں پیارے لال شاکر، ایڈیٹر "العصر" لکھنو میں مقیم تھے۔ جب مولانا ارشد تھانوی صاحب وہاں گئے تو انہوں نے پُرتکلف دعوت دی۔ اس میں من جملہ اور اصحاب کے ایک نوعمر صاحب زادی بھی تھیں۔ کھانے کے بعد شعر و شاعری کا آغاز ہوا۔ کسی نے ان کی طرف اشارہ کیا اور کہا "یہ بھی شعر کہتی ہیں"۔ چنانچہ تقاضا ہوا کہ یہ بھی اپنا کلام سنائیں۔ انہوں نے کہا "میں شاعرہ نہیں ہوں' میں تو صرف اپنے ذاتی جذبات کو شعر کا جامہ پہناتی ہوں"۔ کہا گیا کہ آپ وہی سنا دیجیی، چنانچہ انہوں نے ایک نظم سنائی جس کا مفہوم یہ تھا کہ میں اپنی ماں سے بڑی محبت کرتی ہوں اور ان کی خدمت ہی کو اپنا مطمع نظر سمجھتی ہوں۔ اس نظم کا ایک مصرعہ تھا: "قدموں سے جدا تم مجھے لِلّٰہ نہ کرنا" ارشد صاحب فوراً بولے: "میں کہتی ہوں اماں مرا تم بیاہ نہ کرنا

خیر اندیش

راشد اشرف

کراچی سے

Monday, August 29, 2011

چاند

پاکستان ایک ایسا ملک بن چکا ہے کہ جہاں ہر طرف مسائل ہی مسائل ہیں۔ پانی کا مسئلہ ' بجلی کا مسئلہ ' آٹے کا مسئلہ' چینی کا مسئلہ' جس طرح ہم اپنے سر کے بالوں اور آسمان کے تاروں کو گننے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح ہم پاکستان کے مسائل کو گننے سے قاصر ہیں۔ ہمیں اپنے بچپن کا زمانہ یاد ہے کہ ہم روزانہ مزدوروں کی طرح روزہ رکھنے جاتے تھے اور روزہ کھولنے کے بعد گھر والوں سے کہتے کہ ہمارے اتنے روزے ہو گئے ہیں۔ روزوں کے اختتام پر لوگ اپنی اپنی چھتوں پر چڑھ کر چاند دیکھتے اس دور کا چاند بڑا وفادار' ملنسار' روزہ داروں کا طرف دار اور وقت کا پابند تھا۔ وہ اپنا پتہ خود بتا دیتا تھا اور یہ ہر گز نہیں سوچتا تھا کہ " میرے پتے سے لوگوں کو کیوں "میرا گھر" ملے ہمارے صاف شفاف ذہن کی سکرین پر صرف یہ الفاظ موجود ہوتے تھے۔ پہلے روزے رکھیں گے۔ پھر چاند چھت پر دیکھیں گے ساری رات اپنے نئے کپڑے تکیوں کے نیچے رکھ کر جاگتے رہیں گے۔ اس دور میں آسمان اپنی مرضی سے نیلے رنگ کا ہوتا تھا' رکشوں' بسوں اور ٹرکوں کے دھوئیں سے نیلا نہیں ہوتا تھا اور چاند بھی بروقت نظر آنے کے لئے پوری منصوبہ بندی کر لیتا تھا اور روزہ داروں سے یہ نہیں کہتا تھا کہ

اپنی آنکھیں اگلے دن تک اٹھا رکھئے۔ چاند سے ہمیں سارا سال ایک ہی تو کام پڑتا تھا کہ اسے دیکھ کر عید کر لیتے تھے۔ جب ہم بڑے ہوئے تو مردان کے چاند نے مہنگائی کی طرح پہلے بازار میں آنا شروع کر دیا۔ ہم سوچا کرتے تھے کہ مردان کے لوگوں کی بینائی اتنی تیز ہے کہ وہ اسے قبل از وقت دیکھ لیتے ہیں۔ پھر ایک وقت آیا کہ چاند نے پورے پاکستان کو غچے دینے شروع کر دئیے۔ کہیں سے نکلتا تھا اور کہیں سے نکلتا ہی نہیں تھا۔ پھر اس پر ریسرچ شروع ہو گئی۔ پوری رویتِ ہلال کمیٹی وجود میں آ گئی۔ چاند کی نفسیات تک کا مطالعہ شروع ہو گیا۔ پاکستان میں ایک مسئلے کا اضافہ ہو گیا۔ اب چاند بھی ایک مسئلہ ہے۔ جس طرح پاکستان بہت بحرانوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہر سال چاند کا بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ بہت سے علماءچاند کی بدولت ایک دوسرے سے روٹھ جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے گھر سے آنے والی سویوں کو واپس لوٹا دیتے ہیں۔

چاند کا دیکھنا ایک شرعی مسئلہ ہے اور ہمارے علماءحضرات کی اس مسئلے پر گرفت بھی بڑی مضبوط تھی بلکہ اس موضوع پر علماءکی اجارہ داری تھی۔ رفتہ رفتہ یہ چاند شعراءحضرات کے ہاتھوں میں کھیلنے لگا۔ شعراءنے چاند کے موضوع پر ایسی طبع آزمائی کی کہ ہر شاعر کا چاند دور سے پہنچانا جانے لگا اب چاند کا موضوع علماءحضرات کے قبضہ ¿ قدرت سے نکل کر مزاح نگاروں کے ہتھے چڑھا ہوا ہے ہر سال چاند کے حوالے سے بہت سے مزاحیہ اشعار تخلیق ہوتے ہیں۔ کالم نگار' چاند کے مسائل پر خامہ فرسائی کرتے نظر آتے ہیں۔ بڑے بڑے پ ±رمغز اور چاند کی طرح خوبرو کالم معرض وجود میں آتے ہیں۔ ذمہ دار غیر ذمہ دار چاند چڑھانے کے بجائے چاند دیکھنے پر توجہ مرکوز رکھیں تو آئندہ ایک ہی عید ہوسکتی ہے

تنویر حسین ۔۔۔

Sunday, August 28, 2011

چوتھی دنیا انٹرنیشنل اردو ویکلی کے نامہ نگار فرمان چودھری اور نوازش مہدی سے خصوصی گفتگو

2011کمیٹی پاکستان کے سکریٹری اور انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے ڈپٹی جنرل سکریٹری جناب راحت سعید ہندوستان میں منعقد ہونے والی فیض صدی تقریبات میں شرکت کی غرض سے کراچی سے دہلی تشریف لے گئے تھے۔ چوتھی دنیا انٹرنیشنل اردو ویکلی کے نامہ نگار فرمان چودھری اور نوازش مہدی سے خصوصی گفتگو کے اہم اقتباسات پیش خدمت ہیں۔

خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے

۔
سوال:آپ کا ادبی سفر کب اور کیسے شروع ہوا؟
جواب:بچپن میں ہماری ماں،پھوپھیاں اور بزرگ ہم کو کہانیاں سنایا کرتے تھے۔بس تبھی سے سفر شروع ہوا۔اس کے بعد کوئی وقت ہم کو ایسا یاد نہیں جب ہم کلاس میں پڑھتے ہوں اور کہانیاں نہ پڑھتے ہوں۔اس کے بعد شاعری نہ پڑھتے ہوں۔مجھے یاد ہے کہ میرے والد شروع سے ہی مولانا روم اور اقبال کی مثنویاں سنایا کرتے تھے۔بعد میں جب ذہن بالغ ہوا تو ادب پڑھنا شروع کیااور تب سے اب تک ادب پڑھ رہا ہوں۔میں ہمیشہ سے ادب کا طالب علم رہا ہوں۔میرا کام بنیادی طور پر سماجی علوم کے حوالے سے ہے۔میں شاعر نہیں ہوں اور نہ ہی میں کہانی کار ہوں۔لکھنے کی کوششیں کیں لیکن جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ میدان ہمارا نہیں ہے۔میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر آپ اچھا شعر نہیں کہہ سکتے تو شاعری کرنا کار زیاں ہے۔اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ہمیں اچھے لوگ، اچھے کام اور اچھے شعر یاد رہتے ہیں۔اچھے کام سے مراد ایسے کام ہیں جو انسان دوستی پر مبنی ہیں۔ ہم اسی لیے انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہیں، کیونکہ اس کی اقدار انسانی اقدار ہیںاور محبت انسانی اقدار ہے۔اقدار تو بہت سی اقسام کی ہو سکتی ہیں،جو مثبت اقدار ہیں وہ آگے جانے والی ہیں اور وہی اقدار ترقی پسند اقدار ہیں۔منفی اقدار وہ ہیں جو تاریخ کو لوٹانا چاہتی ہیں۔چاہے وہ ڈھائی ہزار سال پرانی ہوں یا چودہ سو سال پرانی۔کچھ لوگ ہندوستان میں ایسے ہیں جو تاریخ کو ڈھائی ہزار سال پہلے لوٹانا چاہتے ہیں ۔اسی طرح پاکستان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو تاریخ کو چودہ سو سال پہلے لوٹانا چاہتے ہیں،یہ منفی سوچ ہے۔یہ سوچ انسانوں کی بہتری کے لیے نہیں ہے۔

سوال:انجمن ترقی پسند مصنفین کے پاکستان میں کیا حالات ہیں؟
جواب: تقسیم کے زمانے تک تو انجمن ترقی پسند مصنفین ہندوپاک کی ایک ہی تھی ،لیکن تقسیم کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین بھی تقسیم ہو گئی۔یہ پاکستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کہلائی۔یہ 1954تک کام کرتی رہی لیکنجب امریکہ سے معاہدے ہوئے ، اس کے بعد حکومت پاکستان نے اسے بائیں بازو کی سیاسی پارٹی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کردی۔پابندی کے بعد یہ دیگر ناموں سے اپنا کام کرتی رہی۔اس کے علاوہ جو دیگر تنظیمیں اس وقت ادب برائے ادب کے لیے کام کرر ہی تھیں،مثلاً حلقہ ارباب ذوق ،ان میں ترقی پسند شامل ہو گئے اور کام کرتے رہے۔اس کے بعد حلقہ ارباب ذوق لاہوربھی تقسیم ہوگئی۔حلقہ ارباب ذوق ادبی اور حلقہ ارباب ذوق سیاسی۔2006میں سجاد ظہیر صدی تقریبات منعقد کی گئیں۔ارتقا ادبی فورم کے ذریعہ ہم نے ادب کا بھی کام کیا۔ ادبی سمینار بھی کئے۔ہم نے سب سے پہلا سمینار سید احتشام حسین پر1993میں کیاتھا ۔اس سہ روزہ بین الاقوامی سمینار پرتقریباً400صفحات پر مشتمل ایک ضخیم نمبر بھی ہم نے شائع کیا تھا۔اس کے بعد جوش ملیح آبادی ، مخدوم محی الدین اور فراق گورکھپوری پر سمینار کئے اور ان کے اوپر خصوصی نمبر نکالے۔ جن کی پاکستان میں بہت پذیرائی ہوئی۔آپ تعجب کریں گے کہ ٹینا ساہنی نے ایک پوری شام فراق کو گایا۔ابھی تو فیض صدی چل رہی ہے لیکن اگلے سال مجاز صدی کی تقریبات ہوں گی۔اسی سال اکتوبر میں مجاز کا یوم پیدائش ہے۔یہ طے ہوا تھا کہ ہم اکتوبر میں مجاز پر ایک سمینار کریں گے لیکن چونکہ سارا زوراس وقت فیض پر ہے اس لیے مجاز کی تقریب دب کر رہ جائے گی ۔اسی لیے یہ طے ہوا کہ مجاز کی تقریبات اگلے سال ہوں گی۔

سوال:آپ کس شاعر سے سب سے زیادہ متاثر ہیں؟
جواب:بلا شبہ فیض۔اس کے علاوہ مجاز اور ساحر۔ہمارے یہاں دو اور شاعر بھی اہم ہیں ۔ایک جان ایلیا اور دوسرے احمد ندیم قاسمی۔ہمارے یہاں ایسے بھی شاعر ہیں جو صرف پاکستان کے شاعر نہیں کہلاتے بلکہ وہ پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے بھی کہلاتے ہیں۔
سوال:پاکستان کے ادیب و فنکار ہندوستا ن بہت آتے ہیں لیکن ہندوستان کے ادیب اور فنکار پاکستان کم جاتے ہیں۔اس کی کیا وجوہات ہیں؟
جواب:دیکھئے ایسا بالکل نہیں ہے۔ہندوستان کے ادیب و فنکار پاکستان بہت جاتے ہیں۔ہاں یہ تعداد ہندوستان آنے والے پاکستانیوں کے برابر نہیں ہو سکتی ۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہندوستان میں بازار کا اثرزندگی کے مختلف شعبوں کے ساتھ ساتھ ادب اور فن پر بھی پڑاہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں موسیقی اتنی زیادہ رائج نہیں ہے جتنی ہندوستان میں۔

سوال:ادیب و فنکار امن اور دوستی بڑھانے میں کتناکام کرتے ہیں؟
جواب:دیکھئے ادیب، شاعر اور فنکار ہی امن اور دوستی کی بات کرتے ہیں۔سیاست دانوں کا کام ہے تفریق کرنا اور ادیبوں کا کام ہے جوڑنا۔میں ایک تنظیم’’قلم و فن برائے امن‘‘ کا کنوینر ہوں ، جو بنائی ہی اس مقصد کے لیے گئی ہے۔ہمارے ایک 50رکنی وفد کو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی نے اسی حوالے سے دعوت دی تھی۔میں آپ کو ایک خاص بتاتا ہوں کہ اگر کوئی سیاست داں جوڑنے کی بات کرتا ہے تو اس کے دل میں کہیں نہ کہیں ادیب چھپا ہوا ہوتا ہے۔اس کی ایک مثال ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی ہے جو سیاست داں ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔اسی لیے انہوں نے ہمیشہ امن او راتحاد کی بات کی۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ سیاست داں جو ادب سے قریبی رشتہ رکھتے ہیں وہ بھی جوڑنے کی سیاست کرتے ہیں۔

سوال:انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستگی کے ساتھ ساتھ کیا آپ کمیونسٹ پارٹی سے بھی وابستہ ہیں؟
جواب:ہمارے یہاں کئی کمیونسٹ پارٹیاں ہیں۔لیکن میں ذاتی طور پر کسی کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ نہیں ہوں۔جہاں تک سوچ کا سوال ہے تو وہ میں کمیونسٹ سوچ ہی رکھتا ہوں۔کسی پارٹی سے وابستہ نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین دھڑوں میں تقسیم ہو جائے۔ اگر ہم کسی ایک پارٹی میں شامل ہو جائیں گے تو دوسری پارٹی والے انجمن کو اسی نظریہ سے دیکھیں گے۔یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین میں تمام کمیونسٹ پارٹیوں کے ارکان شامل ہیں۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں نہ صرف تمام کمیونسٹ پارٹیوں کے ارکان بلکہ سبھی ترقی پسند پارٹیوں کے لوگ بھی شامل ہیں۔یہ سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا پلیٹ فارم ایک ہی رہنا چاہئے۔اسی لیے میں کسی ایک کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ نہ ہوکر سب سے وابستہ ہوں۔

سوال:ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں اردو کا کیسا مستقبل ہے؟
جواب:مجھے یہ لگتا ہے کہ جو اردو کے نام پر کام کررہے ہیںوہ صحیح ڈھنگ سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کررہے ہیں۔مجھے یہ لگتا ہے کہ جو لوگ خادم اردو ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ اپنی نوکریاں اور اپنی دوکانداری چمکاتے ہیں۔میرے خیال سے ان لوگوں اور اداروں کو مزید سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ جو لوگ یہاں عام بول چال میں ہندی بولتے ہیں دراصل وہ اردو ہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2005میں جب میں یہاں ہندوستان آیا تھا توایک ٹیکسی ڈرائیور کہنے لگا کہ کیا پاکستان میں لوگ اتنی اچھی ہندی بولتے ہیں۔میں نے کہا کہ ہاں پاکستان میں لوگ اتنی ہی اچھی ہندی بولتے ہیں جتنی کہ تم اردو بول ہے ہو۔

سوال:آپ کس طرح کے پروگرام کراتے ہیں؟
جواب:پاکستان میں ہماری 27شاخیں ہیں جہاں مختلف قسم کے پروگرام کرائے جاتے ہیں۔جیسے مشاعرہ، مذاکرہ ،شعری نشست اور سمینار وغیرہ۔کراچی میں ہم نے یہ طے کیا ہے کہ مہینے میں کم سے کم ایک مرتبہ ایک گیسٹ لیکچر اور ایک شعری نشست ضرور کریں گے۔نومبر میں ہم عالمگیر پیمانے پر اسلام آباد ، کراچی اور لاہورمیںپروگرام کرتے ہیں۔

سوال:فیض صدی کی تقریبات منانے کا فیصلہ کب اور کہاں ہوا؟
جواب:جب 2006میں ہم سجاد ظہیر صدی تقریبات منا رہے تھے تو اس میں ہندوستان کا ایک وفد پاکستان گیا ہوا تھا۔اسی وقت یہ طے ہوا کہ ہم 2011میں پوری شان و شوکت کے ساتھ فیض صدی منائیں گے۔فیض صدی تقریبات منانے کی دو بڑی وجوہات تھیں۔پہلی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے شدت پسندانہ ماحول میں فیض کے نظریات کو عام کیا جائے گا۔تاکہ پاکستان کے مظلوموں اور مجبوروں کی آواز کو بلند کیا جا سکے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ یہ بتایا جائے کہ پاکستان میں صرف شدت پسند ہی نہیں رہتے ہیں بلکہ پاکستان میں فیض کے حامی بھی رہتے ہیں جو شدت پسندی کے خلاف ہیں۔ہندوستان کی انجمن ترقی پسند مصنفین پہلے سے ہی فیض صدی منانے کے لیے تیار تھی۔

Friday, August 26, 2011

مولانا قاضی معین اللہ صاحب ندویؒ کے خلف أکبر قاضی عبیداللہ اندوری ؒ کی رحلت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مولانا قاضی معین اللہ صاحب ندویؒ کے خلف أکبر
قاضی عبیداللہ اندوری ؒ کی رحلت
سعید مرتضی ندوی
المرتضی کلچرل ایجوکیشنل فاؤنڈیشن۔ لکھنؤ

حضرت مولینا علی میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دست راست، ندوۃ العلماء کے سابق نائب ناظم حضرت مولانا قاضی معین اللہ صاحب ندوی اندوری رحمہ اللہ کے خلف أکبر مولانا قاضی عبیداللہ صاحب اندوری جو گزشتہ سال بھر سے کینسر جیسے موذی مرض کا شکار تھے جمعرات ۱۰/رمضان المبارک۱۴۳۲ ؁ھ مطابق ۱۱/ اگست۲۰۱۱ ؁ء شب جمعۃ ساڑھے گیارہ بجے میڈی کیئر اسپتال اندور میں تقریبا ۶۳ سال کی عمر میں اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ ۱۱/ رمضان المبارک بعدنماز جمعۃ شہر اور اطراف کے علماء، اعزاء، عمائدین اور اہل تعلق کی بڑی تعداد نے مرحوم کے برادر خورد مولانا قاضی عبداللہ صاحب ندوی کی امامت میں مدرسۃ الفلاح کے سبزہ زار بپرنماز جنازہ، اور آزاد نگر قبرستان میں تدفین میں شرکت کی۔انا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
مولانا معین اللہ صاحبؒ کو دوران تعلیم سے ہی اپنے استاد اور مربی مولانا علی میاں صاحب کا اعتماد حاصل تھا۔ چنانچہ طالب علمی کے دور سے ہی مولانا کی دعوتی اصلاحی جدوجہد میں شریک رہے۔اور دارالعلوم سے فراغت کے بعد دارالعلوم میں تدریس کیلئیے انتخاب ہوا، پھر اپنی بہترین اتظامی صلاحیت کی برکت سے بتدریج ناظر شعبہ تعمیر وترقی اور بعد میں نائب ناظم منتخب ہوئے۔
قاضی عبیداللہ اندوریؒ ۱۹/۵/۱۹۴۸ ؁ء کو پیدا ہوئے۔ اور والدمحترم رحمہ اللہ کے ندوہ میں قیام کی وجہ سے ابتدائ تعلیم دارالعلوم کے مکتب میں ہوء۔ اور حفظ قرآن عارف باللہ حضرت قاری صدیق احد صاحب باندویؒ کے ادارہ جامعہ عربیہ ہتھورا ۔ضلع باندہ میں مکمل کرکے، عربی تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء میں حاصل کی۔
تعلیم سے فراغت کے بعدماسٹر منظور صاحب ( مدرس مکتب دارالعلوم) کی صاحبزادی ( ہمشیرۂ جنا ب مولانا ہارون اندوری صاحب حال ناظر کتب خانہ ندوۃ العلماء)کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ اور اپنے عزیز مولانا سراج الدین صاحبؒ ندوی مدنی (جوعرصہ دراز سے دارالإفتاء سعودی عرب کی طرف سے یوگنڈا میں دینی دعوتی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے، اور عرصہ تک حج کے زمانہ میں دارالإفتاء کی طرف سے سعودی ریڈیو اور ٹی وی پر حجاج کرام سے اردو میں خطاب کرتے رہے ) کی دعوت پر یوگنڈا گئے اور دو سال (۷۶۔۷۸ء) وہاں دعوتی تعلیمی خدمات انجام دے کر وطن واپس تشریف لائے۔
والد گرامیقدر مولانا معین اللہ صاحب کو دعوتی نقطہ نظر سے ہر شہر اور علاقہ میں مدارس ومکاتب کے قیام سے خصوصی دلچسپی تھی۔ چنانچہ ان کی ذاتی دلچسپی اور ندوہ کی طرف سے ممکنہ تعاون کی برکت سے نہ صرف لکھنؤ اور اس کے اطراف میں متعدد دینی مکاتب اور دارالعلوم سے ملحقہ مدارس کھلے، بلکہ مولانا کی تحریک وتأیید بلکہ بسا اوقات مطالبہ اور اصرار سے بہت سے فرزندان ندوہ نے اپنے اپنے علاقہ میں بھی مکاتب ومدارس قائم کئے۔
مولاناؒ نے یوگنڈا سے واپسی پر اپنے صاحبزادہ مولانا عبیداللہؒ کو بھی وطن عزیز اندور میں مدرسہ قائم کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ انھوں نے آزاد نگر۔ اندور میں ایک مکتب قائم کیا۔ اور ۱۹۸۶ ؁ء میں باقاعدہ ایک قطعہ اراضی لے کر مفکر اسلام مولانا سید ابولحسن علی ندوی صاحبؒ سے’مدرسۃ الفلاح’ کا سنگ بنیاد رکھوایا۔جو حضرت والا کی سرپرستی اور مولانا معین اللہ صاحب کی نظامت ، اور قاضی عبید اللہ صاحبؒ کے اہتمام ونگرانی میں بدستور ترقی کرتا رہا۔حضرت مولینا رحمہ اللہ نے تاحیات مدرسہ کی سرپرستی فرمائ اور وہ اور حضرت باندویؒ ودیگر بزرگان دین وقتا فوقتا مدرسہ میں تشریف لاکر منتظمین وکارکنان کی ہمت افزائ فرماتے رہے۔خود مولانا معین اللہ صاحبؒ اپنی حیات مستعار کے آخری سالوں میں خرابئ صحت اور مقامی دعوتی مصلحتوں کی بناء پر اندور منتقل ہوگئے تھے، جس سے مدرسہ اور علاقہ واطراف میں دعوتی اصلاحی جدوجہدمیں بڑی ترقی ہوء۔
۲۳/ اگست ۹۹۹۱ ؁ء کو مولانا معین اللہ صاحب ؒ کی رحلت کے بعدان کے فرزندان کی درخواست پر ندوۃ العلماء کے نائب ناطم ( حال ناظم ندوۃ العلماء، وصدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)نے مدرسہ کی نظامت وسرپرستی قبول فرمالی۔اور مولانا عبیداللہ صاحب بدستور مہتمم کی حیثیت سے اپنے برادر خورد مولانا عبداللہ ندوی کے تعاون سے مدرسہ کو ترقی دیتے رہے، جس میں اب ۲۰۰ سے زائد طلبہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے نصاب کے مطابق عالیہ أولی تک تعلیم پارہے ہیں۔ عالیہ اولی کے طلبہ نظام کے مطابق آخری امتحان دارالعلوم میں دینے آرہے ہیں۔
مولانا عبیداللہ صاحبؒ مدرسہ کی تعلیمی اور انتظامی ہر دو ترقی کے لئے کوشاں رہتے، اور اس سلسلہ میں اندرون وبیرون ملک سفر بھی کرتے۔ بالخصوص اندرون ملک دعوت واصلاح اور دینی تعلیم سے متعلق حضرات کو اپنے ادارہ کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے۔ اور حسب موقع مدرسہ میں ان کے پروگرام کراتے رہتے تھے۔ ابھی مئی میں برادر معظم مفتی عبید اللہ صاحب اسعدی کا اندور کا سفر ہوا تو عبیدبھائ نے اپنی بیماری کے باوجود ان کا گرمجوش استقبال کیا۔
دینداری ، تعبد وابتہال، صلحاء اور اہل تدین سے محبت وتعلق اور ان کی پذیرائکے ساتھ ، ہم فکر علماء وخواص کو باہم جوڑے رکھنے اور عامۃ المسلمین کو علاقہ کی دینی شخصیات اور اداروں سے وابستہ رکھنے کی فکر اور اس کے لئے ممکنہ کوشش مولانا معین اللہ صاحبؒ کا امتیازی وصف تھا۔رمضان المبارک میں عموما ، اور سیلاب وناگہانی کے موقع پر خصوصا دارالعلوم کے آس پاس آباد غریب مسلمانوں کے تئیں ان کی انسانیت نوازی غمخواری ودلجوئ ان شاء اللہ ان کے ائے بہترین توشہ آخرت ہوگی۔
عبیدبھائنے اپنے والد گرامی سے یقیناًبہت کچھ سیکھا ہوگا۔ واقعہ یہ ہیکہ مولانا معین اللہ صاحبؒ کے مقام ومنزلت کے ساتھ عبید بھائؒ کے حسن اخلاق وتواضع، وضعداری وملنساری، نے علاقہ اور ندوی حلقہ کو بالخصوص، مولانا معین اللہ صاحبؒ کی وفات کے بعد بھی مدرسہ اور علاقہ کی دینی دعوتی سرگرمیوں سے جوڑ رکھا تھا۔
مرحوم مدرسہ کے طلباء ، اساتذہ اور اسٹاف کا بہت خیال رکھتے تھے۔ طلباء کی تعلیمی صلاحیت اجاگر کرنے کیلئے وقتا فوقتا باہر کے اساتذہ کو بلاکر طلباء کا تعلیمی جائزہ لیا کرتے۔ بھوپال سے قربت کی وجہ سے وہاں کی فعال شخصیت قاضی مشتاق علی صاحبؒ ندوی کو تقریبا ہر ماہ مدرسہ میں طلباء کا ٹسٹ لینے اور تعلیم کی طرف ترغیب دینے کے لئے دعوت دیتے رہتے تھے۔چند سال قبل مدرسۃ الفلاح میں آل ایم پی مسابقۃ القرآن رکھوایاتھا جو الحمدللہ بہت کامیاب رہا۔اور مدرسہ کے طلباء کے ساتھ علاقہ کے عوام کے لئے بھی بہت فائدہ مند رہا۔

مولانا عبید اللہ صاحب ’مدرسۃ الفلاح’ کے ساتھ ’مدرسۃ المحسنات’ للبتات کے بھی ذمہ دارتھے۔ جس کا سنگ بنیاد چند سال قبل حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب ندوی دامت برکاتہم نے رکھاتھا۔اس مدرسہ میں بھی بحمد اللہ عالمیت تک تعلیم کا نظم ہے، جس سے ڈھائسو سے زائد طالبات مستفید ہورہی ہیں۔مولانا اس مدرسہ کی تعلیمی ترقی کے لئے بہی کوشاں رہتے۔ اور ہر سال اہتمام سے اس کا جلسہ کرواتے۔ شہر اور اطراف کے بزرگان، عمائدین اور دینی تعلیم وتربیت سے متعلق حضرات کو مدرسہ کا دورہ کراتے رہتے۔
مولانا قاضی عبیداللہ صاحبؒ اپنے آبائ وطن امجھیرہ ۔ضلع دھا رکے ’قاضی’ بھی تھے۔ برابر وہاں کا دورہ کرتے رہتے، عوام کے مسائل سے دلچسپی لیتے، اور انھیں خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش کرتے۔نکاح وغیرہ کے فارم انھیں کے دستخط سے جاری ہوتے تھے۔
برادرم یحیی اور عزیزم عبد اللہ سے ہماری دارالعلوم میں خوب ملا قاتیں رہیں کہ ہم لوگ عرصہ تک ایک دوسرے کے پڑوسی رہے۔ اور دارالعلوم کی تعلیم میں معاصرت بھی تھی۔ برادرم یحیی ہم سے سینئیر تھے اور عبد اللہ بہت جونیئر، اور سب سے چھوٹے قاضی عطاء اللہ شاید مکتب میں رہے ہوں ۔ پھر ریاض میں بھی ان دونوں کا مختلف اوقات میں ساتھ رہا۔مولوی یحیی ملازمت کے سلسلہ میں کئ سال رہے، اور عبداللہ جامعۃ الملک سعود میں عربک ٹیچنگ کے ایک کورس کے لئے مختصر عرصہ وہاں رہے۔ عبید اللہ بھائ سے کبھی کوئ تفصیلی ملاقات یا نشست کی شاید نوبت نہیں آء۔ جب ملاقات ہوئ چلتے پھرتے ہوء، مگر ہر ملاقات ان کی برادرانہ شفقت ومحبت اور گھریلو تعلقات کا آیئنہ دار رہی۔سادگی ، تواضع اور محبت ان کا نمایاں وصف رہا۔ جو جانتا تھا کہ مولانا معین اللہ صاحبؒ کے صاحبزادے ہیں جانتا تھا ۔ انھں نے کبھی اپنی شخصیت کو اجاگر کرنے یا کسی مجلس وجلسہ میں اپنا تشخص جتانے کی کوشش نہیں کی۔ اور اپنے ذاتی تجربے اور تعلقات کی حد تک یہ شہادت دے سکتا ہوں کہ یہ تواضع الو ملنساری مولانا کے تمام صاحبزادگان کا مشترکہ امتیاز ہے۔ اللہ استقامت نصیب فرمائے۔ اور ہم سب کو دین وایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے۔
مولانا عبید اللہ صاحبؒ پچھلے تقریبا سال بھرسے کینسر کا شکار تھے۔باِین ہمہ انھوں نے مدرسہ کے لئے کئ سفر کیے۔ اور اخیر تک مدرسہ پابندی سے آتے رہے۔ایک ماہ قبل جب بیماری بہت بڑھ گئ تھی مدرسہ آنا موقوف ہوگیا تھا۔بالآخر ۱۰ / رمضان المبارک کو وقت موعود آگیا، اور وہ داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے شب جمعہ تقریبا ساڑھے گیارہ بجے اس دار فانی سے دارالبقاء کو رخصت ہوگئے۔ للہ ما أخذ ولہ ما أعطی وکل شیء عندہ لأجل مسمی وانا للہ واِنا اِلیہ راجعون۔
پسماندگان میں چھوٹے بھائ بہنوں کے ساتھ اہلیہ محترمہ، ایک صاحبزادی اور ۶ صاحبزادے ہیں۔ صاحبزادی اور بڑے تینوں صاحبزادگان شادی شدہ اور برسر روزگار ہیں ۔ سب سے بڑے قاضی انعام اللہ ندوی مولانا محمد ہارون صاحب ندوی کے داماد ہیں۔تین چھوٹے ابھی زیر تعلیم ہیں۔
عزیز گرامی مولانا عبد اللہ صاحب اندوری ندوی جو اپنے بھائیوں میں سب سے زیادہ اپنے والد سے قریب رہے ہیں ۔ ا ور براہ راست گھر میں اور بیرونی مجالس وتعامل میں ان سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ اور مولانا علیہ الرحمۃ کی زندگی سے ہی مدرسہ کے تعلیمی انتظامی امور میں اپنے برادر بزرگ مولانا عبیداللہ صاحبؒ کے دست راست رہے ہیں۔ اب مدرسہ کے ذمہ دار ہیں۔ اللہ پاک انھیں اپنے والد کا سچا جانشین اور برادر بزرگ کا نعم البدل بنائے۔ اور ان سے دین، دعوت دین اور تعلیم دین کا کام لے اور قبول فرمائے۔آمین

۔۔۔۔۔۔۔۔سمن شاہ کو فیض احمد فیض ایوارڈ دیا گیا

Sunday, August 21, 2011

دھوکہ دیتے ہیں یہ بازیگر کھلا۔۔۔۔

جب میں اپنے مسلم لیڈروں سے متعلق سوچتا ہوں دیکھتا ہوں اور پڑھتا ہوں تو تو شرم محسوس کرتا ہوں۔یہ ہیں ہمارے مسلم لیڈر جو قوم کے نام پر ایک بد نما داغ کے علاوہ کچھ نہیں ۔رمضان المبارک کے پہلے عشرہ میں ہی مسلم این جی اوز کا مشترکہ اعلان تھا کہ چونکہ ارباب اقتدار ہمارے مطالبات کی طرف دھیان نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ پچھلے پانچ سالوں سے مالیگاؤں کے مسلم محروسین کی ضمانت نہیں ہو پارہی ہے اس کے باوجود کہ جس جرم میں انہیں مشق ستم بنایا جارہا ہے وہ انہو ں نے کیا ہی نہیں ہے اس کے اصل مجرم نے اس کا اقبال بھی کرلیا کہ وہ جرم انہوں نے کیا ہے۔مسلمانوں میں اس سلسلے میں کافی ناراضگی تھی اس لئے مسلم عمائدین نے اس کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے سیاسی افطار پارٹیوں کی بائیکاٹ کا نعرہ دیا ۔اس کاکچھ حد تک اثر بھی ہورہا تھا کہ نام نہاد مسلم ایم ایل ایز نے وزیر اعلیٰ سے ملکر مسلمانوں کی اس بے چینی پر تبادلہ خیال کیا اور پھر ان لوگوں کا قافلہ دلی وزیر داخلہ سے ملنے گیا لیکن وزیر داخلہ نے وہی سالوں پرانا گھسا پٹا تسلی تشفی والا جملہ دہرایا کہ اقلیتوں(مسلمانوں) کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دی جائے گی ۔یقین جانیئے میں نے چدمبرم کے اس بیان اور مسلم عمائدین کی سادہ لوحی اور ضمیر فروشی پر اپنی ہنسی اور غصہ کے ملے جلے جذبات کو بڑی مشکل سے کنٹرول کیا۔میں جان بوجھ کر مسلم عمائدین کو سادہ لوح بھی اور ضمیر فروش بھی لکھ رہا ہوں جی ہاں ان میں دونوں ہی قسم کے لوگ تھے ۔اس قافلے میں اخباری اطلاعات کے مطابق مالیگاؤں کل جماعتی تنظیم کے لوگ بھی تھے تو یہ صد فی صد سادہ لوح لوگ تھے اس کے علاوہ لوگوں کو آپ جس خانے میں چاہیں رکھیں ۔بس اس میں مسلمانوں کے ہمدرد نہیں تھے اس کا خیال رکھیں۔
کانگریس کی طرف سے دی گئی سیاسی افطار پارٹی میں ان میں کہ اکثر لوگ شامل تھے جنہوں نے بڑی شدو مد کے ساتھ سیاسی افطار پارٹیوں کے بائیکاٹ کا نعرہ دیا تھا تا وقت کہ مالیگاؤں کے بے گناہ رہا نہ کر دیئے جائیں ۔لیکن تعجب ہے ان بے شرموں پر کہ بڑی شان بے نیازی سے اس سیاسی افطار پارٹی میں شریک ہوئے اور اس طرح سیاسی آقاؤں کی قدمبوسی کی اپنی برسوں پرانی روش سر عام ادا کیا۔آپ کیا کہیں گے ان ضمیر و ایمان کے سوداگروں کو۔جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں تو ان سے یہ سوال کرتا ہوں اور اس میں اپنے آپ کو حق بجانب پاتا ہوں کہ وزیر اعلیٰ کی افطار پارٹی میں شرکت کی اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مالیگاؤں کے محروسین رہا کردیئے گئے ۔اور آئندہ سے مسلمانوں کے ساتھ انصاف کا انہیں پورا یقین ہے۔لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔اب بھی معاملہ ویسا ہی ہے۔بے گناہ جبر کی چکی میں پسے جارہے ہیں اور گناہگار انسانیت کے دشمن انسانیت کو اور ہندوستانی نظام عدل کو انگوٹھا دکھا رہے ہیں۔
پورے ملک میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے ۔ہمارے تعلیمیافتہ نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں زبردستی پھنسایا جارہا ہے۔انکے مستقبل کو بعباد کیا جارہا ہے ۔ہمارے مسلم سیاسی لیڈر خانوش تماشائی بنے اسے دیکھ رہے ہیں ۔اور حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں بھر رہے ہیں گویا فرمان رسول ﷺ کے مطابق اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں۔یہ ہم لوگ کس دور میں جی رہے ہیں یہ دور شاید ایمان فروشوں ضمیر فروشوں کا دور ہے جب ہی تو ہمارے یہ ضمیر فرش مسلمانوں کی لاشوں کا اس کی عزت و آبرو کا سودا کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔کیا اب ہمارا دور اس لیڈر کو پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ جس کا نام ابولکلام آزاد،محمد علی جوہراور سر سید ہوا کرتا تھا ۔میرے خیال میں اب ہم مردوں کی طرح ہیں اسی لئے ہم پر گدھ اور دوسرے مردہ خورمسلط ہیں۔جنہیں ہم نے اپنا قائد مان رکھا ہے۔


آصف پلاسٹک والا۔امبریلہ ہاؤس۔
حلقہ احباب مارگ مدنپورہ۔ممبئی،11
موبائل۔9323793996

حکومت کی بے حسی اور ہمارے نمائندوں کی منافقت!!!!


7
؍اگست کو خیر امت ٹرسٹ میں ایک میٹنگ اس مقصد کے تحت رکھی گئی تھی کہ مسلمانوں کے خلاف روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک پر کوئی لائحہ عمل مرتب کیا جائے اور متحد ہوکر اپنے حقوق کی لڑائی لڑی جائے میٹنگ کا انعقاد مسلمس این جی اوز کی ایک مشترکہ کمیٹی نے کیا تھا جس کا قیام تقریباً ایک سال قبل عمل میں آیا تھا ۔میٹنگ اس اضطرابی حالات کے بعد منعقد ہوئی تھی جو کہ مالیگاؤں بلاسٹس میں گرفتار بھگوا دہشت گردوں کو ممبئی ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت دئے جانے سے پیدا ہوا تھا ۔اس میٹنگ سے قبل بھی ایک آدھ میٹنگ منعقد ہو چکی تھی۔یہ اضطراب اور بے چینی جائز ہی تھی اس میں کوئی برائی نہیں تھی اور نہ اب ہے ۔عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ وہ چند ماہ قبل کی باتوں کو بھول جائیں۔میرا اشارہ چند ماہ قبل اسی عنوان اور اسی مقصد سے آزاد میدان میں منعقد اس احتجاجی جلسہ کی جانب ہے۔ اسیمانندکے اقبال جرم اور اس کے بعد حیدر آباد کے محمد کلیم کی رہائی سے پیدا شدہ صورت حال اور مہاراشٹر و مرکزی حکومت پر دباؤ بنانے کے لئے یہ ایک اچھی کوشش کہی جاسکتی تھی لیکن اس میں سوائے پرجوش تقریروں اور چیخ و پکار کے کچھ نہیں ہوا حد تو یہ ہے کہ اس جلسہ میں جو تجاویز پاس ہوئیں اس پر بھی عمل آوری کی توفیق کسی کو نہیں ہوئی جب کہ اس وقت عوامی مزاج بھی حکومت کے خلاف مظاہروں کا بن گیا تھا ۔ حکومت دباؤ میں آسکتی تھی لیکن جانے کیا ہوا کہ سب خاموش بیٹھ گئے بعد میں کچھ یوں معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو ایوان سیاست میں قوم کے دلال کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ،کو حکومت نے جھاڑ پلائی کہ تمہارے رہتے ہوئے ایسا کیوں ہو رہا ہے اور انہوں نے کچھ لیڈروں سمیت عوامی اشتعال کو یہ کہہ کر ٹھنڈا کردیا کہ حکومت نے مسلمانوں کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنے کا وعدہ کیا ہے اور یہ کہ حکومت مسلمانوں کے جذبات کی قدر کرتی ہے۔
لیجئے صاحب مسلم لیڈروں نے اسے سچ سمجھ کر مان لیا مسلمانوں کے اشتعال کو خوبصورت الفاظ کے کولڈ اسٹوریج میں ڈال کر ٹھنڈا کردیا گیا۔لیکن مسلمانوں کا یہ نشہ اس وقت اترا جب اسی مالیگاؤں والے مقدمہ میں گرفتار بھگوا دہشت گردوں کی رہائی ممبئی ہائی کورٹ کے ذریعہ دی گئی ضمانت سے ہو گئی ۔بہر حال ایک اورمیٹنگ کے لئے سارے قائدین اکٹھا ہوئے کیوں کہ انہیں ڈر تھا کہ کہیں امت کاکوئی بیدار طبقہ انکا احتساب نہ شروع کر دے کہ تم نے تو ہم سے وعدہ کیا تھا کہ حکومت ہمارے جذبات کی قدر کرتی ہے ۔یہ اس کی کون سی قدر دانی ہے کہ بے گناہ تو جیلوں میں ایڑیاں رگڑیں اور گناہ گار رہا ہوتے رہیں ۔بہر حال اس میٹنگ میں پھر ایک بار مسلمانوں کو انکے ہی قائدین نے لالی پاپ دیا کہ ایک مشترکہ کمیٹی بنائی جائے گی جس میں ریٹائرڈ ججز،وکلاء اور دوسرے ماہرین اپنی خدمات پیش کریں گے ۔حسب توقع اس میں بھی سیاست دانوں عوامی نمائندوں اور خصوصی طور پر مسلم نام والے عوامی نمائندوں کو جی بھر کوسا گیا ۔بظاہر یہ کوئی برائی بھی نہیں ہے۔کیوں کہ ان مسلم نام والے عوامی نمائندوں نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ زخم دئے ہیں ۔مسلمان اتنا سادہ لوح ہے کہ انہیں اپنا نمائندہ سمجھنے کی بھول پچھلے پینسٹھ سالوں سے کر رہا ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ مسلم نام کی وجہ سے اپنی پارٹی کے نمائندے ہیں مسلمانوں کے درمیان ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا‘‘ یہاں تو بات صرف دوبارہ کی ہے لیکن ہم تو بار بار ڈسے جاتے ہیں ۔آقا ﷺ کے اس ارشاد کی روشنی میں ہم کیا ہیں اسکا اندازہ ہم خود ہی لگا سکتے ہیں۔
خیر امت ٹرسٹ کی اس میٹنگ میں وہ مشترکہ لائحہ عمل کو ترتیب تو نہیں دیا جاسکا لیکن فاروق ماپکر کی تجویز کا بڑے پیمانے پر خیر مقدم کیا گیا اور اتفاق رائے سے سیاسی افطار پارٹیوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا ۔ عام مسلمانوں کی طرح میں بھی سادہ لوح ہی واقع ہوا ہوں اسی لئے تو جب اٹھارہ رمضان المبارک اور انیس رمضان المبارک کو بالتر تیب کانگریس اور این سی پی کی سیاسی افطار پارٹی میں ان میں سے کچھ کی شرکت نے چونکادیا کہ وہ بھی تو اس میں شامل تھے جس میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ بطور احتجاج سیاسی افطار پارٹی کا بائیکاٹ کیا جائے۔حد تو یہ ہوگئی کہ جمیعتہ العلماء جو کہ بے گناہ مسلمانوں کے مقدمات کی وجہ سے جانی پہچانی جاتی ہے کہ بھی ذمہ دار اس سیاسی افطار پارٹی میں موجود تھے ایک ذمہ دار نے تو اپنا بچاؤ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں عارف نسیم خان سے کچھ بات کرنا تھی لیکن اسے تسلیم کرنے میں قباحت ہے کہ ان سے ملاقات کی یہی ایک جگہ تھی ؟حالانکہ انہی بزرگ نے مسلم نام والے نمائندوں کا سب سے زیادہ رونا رویا تھا اور کہا تھا کہ ان کا جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔
میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ تاوقت کہ ان نوجوانوں کی رہائی نہیں ہو جاتی یہ بائیکاٹ جاری رہے گا۔تو کیا وہ بے قصور نوجوان رہا ردئے گئے یا مسلمانوں کے ساتھ انصاف کیا جائے گا اس کا ہمیں پختہ یقین ہو گیا ہے یا ہمارے بے عمل اور بدعمل سیاست دانوں نے اپنا دل ناانصافیوں کی آلودگی سے پاک کرلیا ہے جو ہمارے یہ نام نہاد قائدین اس وعدہ کو توڑنے پر مجبور ہو گئے جس کا وعدہ انہوں نے قوم سے کیا تھا۔اسی کو کہتے ہیں لاشوں کی تجارت قوم کی لاشوں سے یہ اپنے محلوں میں آرائش و زیبائش کرتے ہیں ہماری لاشوں پر یہ اپنے اقتدار کی مسند جماتے ہیں ۔مولانا عبد الحمید ازہری نے کہا تھا کہ ہم یقین دہانیوں سے اوب چکے ہیں ۔لیکن اس وفد میں وہ بھی شامل تھے جو وزیر اعلیٰ کی قیادت میں چدمبرم سے ملنے گیا تھا اور چدمبرم نے ایک مخصوص جملہ کہہ کر بات ختم کردی کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے پتہ نہیں کسی نے ان سے یہ بات کہی کہ نہیں آپ اس بات کو کتنی بار کہہ چکے ہیں کہ ناانصافی نہیں ہونے دی جائے گی لیکن یہاں تو مسلمانوں کے ساتھ مسلسل ناانصافی ہو رہی ہے اور وہ مسلسل ظلم برداشت کررہا ہے۔ آپ کس ناانصافی کی بات کر رہے ہیں ۔مجھے کہہ لینے دیجئے کہ وزارت داخلہ سے لیکر وزیر اعظم تک ہر مقتدر اعلیٰ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور اس پر ہونے والے ظلم میں برابر کا شریک ہے۔اگر ہم اس کو صرف بیورو کریسی کی شرارت کہیں تو یہ ایک اور سادہ لوحی ہوگی۔کیوں کہ سچر کمیٹی میں شامل ایک مسلم سکریٹری نے یہ بات قبول کی ہے کہ مسلمانوں کی یہ حالت مرکزی حکومت کی پالسی کا حصہ ہے۔اس بات کو سچر کمیٹی میں صرف مصلحتاً شامل نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن جب وہ بھی مسلمانوں کے فلاح و بہبود سے متعلق مرکزی حکومت کے سرد مہرانہ رویہ سے مایوس ہو گئے تو اس بات کو عام کردیا۔
سیاسی افطار پارٹیوں کے بائیکاٹ کے فیصلے کا یہ حشر دیکھ کر مجھے اسی میٹنگ میں شامل عوامی بھارت کے فرید خان کا وہ جملہ یاد آگیا کہ ’’ہماری بے وقعتی کی واحد وجہ ہماری بے عملی ہے۔ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں نتیجہ کے طور پر ہماری باتیں ناقابل اعتبار ہو گئیں۔‘‘کتنی صحیح باتیں ہیں ہم دوسروں کا گلہ کس منہ سے کریں کہ جن کو ہم اپنا سمجھتے ہیں وہی اپنے نہیں ہیں ۔ضرورت ہے ہمیں ایک بے مثال اتحاد و یگانگت کی جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی پہچان ہوا کرتی تھی ۔اور اسی سے وہ ساری دنیا میں چھاگئے تھے ۔وہ کیا لوگ تھے جس کا ایک ادنیٰ سا فرد بھی کوئی بات کہہ دیتا یا کسی سے کوئی وعدہ کرلیتا تھا تو سارے مسلمانوں پر اس کی پابندی لازم ہوجاتی تھی لیکن آج ہماری بے وقعتی کی اس سے بری بھی کوئی مثال ہو سکتی ہے کہ ہم اپنی ہی باتوں وعدوں پر قائم نہیں رہ پاتے ۔اللہ اس قوم کی حالت پر رحم و کرم فرمائے۔



نہال صغیر۔سلفی گلی نمبر ۳۔گاندھی نگر۔چار کوپ۔کاندیولی(مغرب)Nehal sagheer.salfigalino.3Gandhi Nagar Charkop,Kandivali(W)Mumbai400067 Mo.9987309013

Saturday, August 20, 2011

آخری عشرہ کی شروعات

رمضان کا مہینہ اپنی برکتوں و رحمتوں کے ساتھ اب وداع چاہتا ہے ۔آخری عشرہ کی شروعات ہے۔ یعنی اب یہ ماہ مبارک گذرجانے والا ہے۔ بے شک امت میں بہت سے ایسے ہوں گے جنہوں نے اس ماہ مقدس میں اپنی بخشش کر والی ہوگی ، بہت سے ایسے ہونگے جنھوں نے اپنے درجات بلند کر لیے ہونگے بہتوں کی دعا صبح شام قبولیت کا شرف حاصل کر رہی ہوگی اللہ اپنے ایسے بندوں کی برکات سے اپنی رحمت خصوصی سے ہم سب کو فیض یاب کر ے ۔(آمین)
امت اس ماہ میں کا رخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے نہ صرف حصہ لیتی بلکہ اس ملت میں ایسے دردمند افراد بھی موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ ملت کے ان افراد کو بھی اس ماہ کا فیض پہنچائیں جو اس قابل نہیں ہیں کہ اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔ یہ ضرورت غذا ،لباس ،مکان اور تعلیم سے لے کر قرض کی ادائیگی ،چھوٹے موٹے کاروبار وغیرہ کے لیے کی جاتی ہے۔ یہ لوگ اہل خیر حضرات سے مالی تعاون حاصل کر مختلف کمیٹیوں، اداروں (NGOs) کی شکل میں اپنا کام انجام دیتے ہیں۔ ملت میں اپنی زکوۃ و صدقات کے تئیں کافی بیداری آئی ہے اب اہل خیر حضرات روایتی مصارف کے علاوہ زکوۃ کو اسلام کی تبلیغ کرنے والے اداروں ، دارالاشاعتوں نیز اسلام کی تبلیغ و ترویج میں مصروف TV چینلس و اخبارات وغیرہ کو بھی ادا کررہے ہیں۔
قرآن مجید سورۂ التوبہ آیت 60 میں زکوۃ کے آٹھ مستحقین کی نشاندہی کی گئی ہے جنھیں زکوۃ دی جائے۔
۱) فقراء: فقہ کی رو سے فقراء ( غریب)ان لوگوں کو کہا گیا ہے جن کے پاس اس قد ر مال موجود نہ ہو جس سے انکی ضرورتیں پوری ہوتی ہوں اس کے باوجودیہ لوگ کسی سے نہیں مانگتے۔
۲) مساکین: یہ بہت ہی تباہ حال لوگ ہیں جن کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھ بھی نہ ہو۔ حضرت عمر مساکین میں ان لوگوں کا بھی شمار کرتے ہیں جو کمانے کے لائق تو ہوں مگر انہیں روزگار نہیں مل رہا ہو۔
۳) عاملین علیہا: ان سے مراد وہ لوگ جو اسلامی حکومت کی جانب سے زکوۃ وصول کرنے پر مامور ہوں۔
۴) مؤلفتہ القلوب: یہ ان لوگوں کو کہا گیا ہے جو اسلام کی حمایت کرتے ہیں۔ مؤلفتہ القلوب میں ان لوگوں کا بھی شمار ہوتا ہے جو اپنے آبائی دین کو ترک کرکے اسلام میں داخل ہوئے ہوں جس کے باعث ان کا کاروبار تباہ ہوگیا ہو۔ ایسے افراد کا شمار بھی مؤلفتہ القلوب میں کیا جائے گا جو ایمان تو نہیں لائے البتہ ان افراد کے تعلق سے امید ہو کہ مستقبل میں اسلام قبول کرلیں گے۔
۵) فی الرقاب : وہ شخص جو غلامی سے آزاد ہونا چاہتا ہو لیکن اس کے پاس آزادی کے لیے درکار مال اسکے پاس موجود نہ ہو ایسے شخص کو بھی زکوۃ سے مدد دی جائے گی۔
۶) الغارمین : ان سے مراد وہ لو گ جو مقروض ہوں اور قرض ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہوں ۔انہیں قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں زکوۃ سے مدد دی جاے گی۔ البتہ اس بات کا اطمینان کر لیں کہ مطلوبہ شخص بے جا اصراف، بدکاریوں ،غیر اخلاقی و غیر اسلامی کاموں کی وجہ سے مقروض نہ ہوا ہو ، ورنہ ایسے فرد کا ان کاموں میں دوبارہ مرتکب ہونے کا اندیشہ رہتاہے۔
۷) فی سبیل اللہ: یہ لفظ اپنے آپ میں بہت وسعت رکھتا ہے ۔ اس کے تحت ان تمام نیک کاموں میں زکوۃ استعمال میں لائی جائے گی جس سے دین اسلام کو سربلندی حاصل ہو۔
۸) ابن السبیل: مطلب مسافر جو اگرچہ مالدار بھی ہو لیکن حالت سفر کی وجہ سے محتاج ہو تو اس کی مدد زکوۃ سے کی جائے۔
آئیے ہم اپنی زکوۃ کہاں صرف ہورہی ہے اس کا جائزہ لیں۔
۲۔۱) فقراء اور مساکین : یہ وہ لوگ ہیں جو اپنا حال خود نہیں بتاتے ۔ ہمارے رشتہ دراوں ، محلے کے تمام گھروں کا ہم جائزہ لیں تو یہ لوگ ہماری نظروں میں بآسانی آجاتے ہیں ۔ لیکن مارے غیرت کے زکوۃ لینا گوارہ نہیں کرتے۔ ہمارا فرض کہ مستحق کو اسکا حق پہنچائیں اور اس کے لیے بھی بہترین طریقہ اختیار کریں جس سے لینے والے کی عزت نفس کو بھی ٹھیس نہ پہنچے اور ہماری زکوۃ صحیح ہاتھوں میں پہنچ جائے۔
ہمارے محلے و شہر میں ایسے گھر بھی موجود ہوتے ہیں جن کے کمانے والے حکومت کے ظلم کا شکارہوکر بے وجہ جیلوں میں بند ہیں۔ اب ان کے اہل و عیا ل کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہیں۔ ان کے بچے صرف یہ سوچ کر ہی عید پر صبر کر لیتے ہیں کہ جب ابو چھوٹ کر آجائیں گے نہ تو ہم بھی نئے کپڑے پہنیں گے۔ حد تو یہ ہے کہ ان لوگوں کے یہاں اکثر افطار بھی پانی سے ہوتا ہے۔ یہ لوگ ہر طرح سے زکوۃ کے مستحق ہیں۔
عوام ایسے لوگوں کو اپنی زکوۃ ،فطرہ و صدقات ادا کرکے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے زکوۃ ادا کردی ہے۔ جب کہ زکوۃ اس کے اصل حقدار سے کافی دور رہتی ہے ۔ ایسے لوگ جو مانگنے کے عادی ہیں اور اسی کو اپنے گذر بسر کا ذریعہ بنا لیا ہے ایسوں کو ہم ’سائل‘ تو کہہ سکتے ہیں ۔ قرآن و احادیث میں سائلین کی ضرورت پوری کرنے کے متعلق احکام موجودہیں۔ساتھ ہی یہ بھی ہدایت کی گئی کہ سائل کو جھڑکایا، دھتکارا نہ جائے۔ لیکن یہ لوگ فقراء و مساکین کی تعریف میں ہرگز نہیں آسکتے۔
افسوس کہ امت کا پیسہ ان لوگوں کی جیبوں میں دھڑلے سے چلاجاتا ہے جو اوپر درج کسی بھی زمرے میں نہیں آتے ۔ رمضان آتے ہی سارے جواری ، بھکاری جن میں سے بیشتر نشے کے عادی اور کئی غیر اخلاقی و اسلامی عادات اور گناہوں کے عادی ہوتے ہیں ، سر پر ٹوپی سجائے ،اپنے عورتوں بچوں سب کے ساتھ گلی گلی ، گھرگھر دھاوا بول دیتے ہیں اور بعض کا تو حال یہ ہوتا ہے کہ وہ باضابطہ قبول کرتے ہیں کہ رمضان میں سال بھرکا 50تا 80 فیصد بندوبست ہوجاتا ہے۔
۳) عا ملین علیہا:ہم جس نظام حکومت میں رہ رہے ہیں وہ اسلامی نہیں ہے اس لیے عاملین علیہا یعنی حکومت کے وہ کارندے جو زکوۃ وصول کرنے پر مامور ہوں موجود نہیں۔
۴) مؤلفتہ القلوب: اس ملک میں رہنے کا سب سے بڑا فائدہ اس ملک کی عوام تک اسلام کا پیغام پہنچانا ہے اور جو افراد ہماری دعوت کی طرف راغب ہوں ان کے مؤلفتہ القلوب کے تحت زکوۃ کام میں لائی جا سکتی ہے ۔ اس ملک میں بعض ایسی بھی جگہیں ہیں جہاں اشرار سے اسلام اور اہل ایمان کی حفاظت کرنا بے حد ضرور ی ہے اس کے تحت بھی ہم ایسے افراد سے پیسہ دے کر جان چھڑا سکیں تواس کے لیے بھی زکوۃ کام میں لائی جاسکتی ہے۔
۵) فی الرقاب کے تحت غلام کو آزاد کرانے کا دور آج نہیں رہا۔ لیکن ذرا غور کریں کہ آج ملت کے نوجوان بے قصور ہونے کے باوجود جیلوں میں بند ہیں ۔ ان میں کثیر تعداد ایسے افراد کی بھی جنھیں گرفتاری سے پہلے دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے کڑی محنت کرنی پڑتی تھی۔ اب جیل میں نبد ہیں تو ضمانت کے لیے ہزاروں روپے کا مچلکہ کہاں سے بھریں ۔ ایسے افراد کے گھروں کا حال یہ ہے کہ بچوں کی عید کا پتہ نہیں اگر کہیں سے کچھ مدد آبھی جائے تو جیل میں بند افراد کو چھوڑانے کی امید میں آدھی سے زیادہ رقم عدالتی کاروائی ، وکیل کی فیس میں چلی جاتی ہے بہتوں کے پاس تو وکیل کے لیے بھی فیس نہیں۔ ہماری زکوۃ اس کام کے استعمال کی جائے تو جانے کتنے ہی گھروں کی خوشیاں واپس آسکتی ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جب مولانا غلام یحیٰ ( امام حج ہاؤس ،ممبئی) کی ضمانت کے لیے 25؍ ہزار روپے ماہانہ کمانے والے 2؍ ملازمین کی ضرورت پیش آئی تب کیا اس ملک میں کوئی اہلِ خیر ایسا موجود نہیں ہے کہ جو مولانا موصوف کی ضمانت اپنے ذمہ لے سکے ۔ آج ملت کے کئی نوجوان صرف اس لیے جیلوں میں بندہیں کیونکہ انکے پاس زر ضمانت موجود نہیں ہے۔ اگرہمارے پاس زکوۃ کا اجتماعی نظام موجود ہوتا تو کیا آج ہم سب کی نہ سہی لیکن کچھ کی ضمانت کرواکر انہیں آزادی نہیں دلا سکتے تھے؟
۶) ہم اگر اپنے رشتہ داروں کا ہی جائزہ لیں تو ہمیں ایسے لوگوں کی طویل فہرست نظر آجائے گی جو کسی بیماری ، کاروبار کے سلسلے میں مقروض ہوگئے ۔ بعض کی حالت تو یہ ہے کہ وہ سود کے چکر میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ الغارمین کے تحت ایسے مقروض افراد کی مدد کی جاسکتی ہے۔
۷) ہماری زکوۃ اگر آج کسی مد کے تحت کام لائی جاتی ہے تو وہ ہے فی سبیل اللہ ۔جس میں فلاحی ، اسلام کی تبلیغ کرنے والے ، طلباء کے مسائل حل کرنے والے اور اس طرح کے کا رخیر کرنے والے کئی ادارے ہیں جو زکوۃ وصول کرتے ہیں۔ ان اداروں میں 60تا 70 فی صد عربی مدارس ہیں جو بڑھ چڑھ کر زکوۃ وصول کرتے ہیں ۔
اسکولی طلبہ کے لیے زکوۃ جمع کرنے والے ادارے بھلے ہی کتنے ہی نیک مقصد کو سوچ کر یہ کام انجام دے رہے ہوں لیکن حقیقت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا حقیقت یہ ہے کہ امت کے پیسے پر نصرانیت او رشرک کی تبلیغ زوروں پر کی جاتی ہے ۔ اسکولی طلبہ میں بھاری فیس مشنری اسکول میں پڑھنے والے طلباء کی ہوتی ہے۔ مشنری اسکول کے نصاب کا اگر ہم جائزہ لیں تو KG سے ہی بچوں کے نصاب میں عسائیت کی کتابیں شامل ہوتی ہیں ۔ اسکول کی کتب کی فہرست میں غیر عیسائی طلبہ کے لیے عیسائی عقائد پر مبنی کتاب باضابطہ لکھا ہوتا ہے ۔ آگے چل کر بچوں میں غیر اسلامی اخلاق واقدار اور بے دینی پروان چڑھتی ہے۔ جن والدین کی لڑکیاں مشنری اسکولوں میں پڑھتیں ہیں پتہ نہیں انکی عقل پر کونسے پتھر پڑے ہیں جو اپنی جوان بیٹوں کو نیم برہنہ( اسکرٹ میں) ان اسکولوں میں خوشی خوشی بھیجتے ہیں ۔ کیا ہماری زکوۃ ان کاموں کے لیے ہے؟
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کئی اردو اسکول خستہ عمارت اور صحیح انتظام و سہولیات کی فراہمی نہ ہونے کے سبب بند پڑ رہے ہیں ۔آج کے دور میں اسکولوں کے لیے نئی عمارت یا جگہ ملنا محال ہے لیکن اس جانب کسی کی توجہ نہیں جاتی ۔ زکوۃ و صدقات سے ملت کے مستقبل کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی خاطر ایسے خستہ اسکولوں کی درستی و سہولیات کی فراہمی کی خاطر کی جاسکتی ہے۔
۸) زکوۃ کے آٹھویں مستحق مسافر ہیں لیکن آج کل پائے جانے والے مستحق مسافر شاذ ونادر ہی ملتے مثلاً کسی کا سامان روپیہ چوری ہوگیااور محتاج بن جائے ایسے لوگ زیادہ نہ مانگ کر نہایت ہی انکساری اور شرمندگی کے ساتھ واپسی کا ٹکٹ بنوانے کی گذارش کرتے ہیں ۔ جنھیں دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے یہ واقعی سچ بول رہا ہے۔
لیکن آج کل لوگ کندھے پر جھولا تانے چلے آتے ہیں ، مساجد گھر ،آفس جہاں کہیں بھی موقع ملے اپنی جھوٹی داستان سفرسنانے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں مسافرہیں مدد کردو ۔ یہ لوگ زکوۃ کے بالکل بھی مستحق نہیں البتہ ایسے لوگو ں کو ازراہ ہمدردی کھا نے کا کچھ بندوبست ضرور جا سکتا ہے ۔
ان دنوں نصاب کے تعلق سے بھی لوگ کا فی تذبذب کا شکار ہورہے ہیں ۔ جن کے پاس سونا ہے وہ جب دیکھ رہا ہے کہ سونے کی قیمت آسمان چھو رہی ہے تب اسے زکوۃ کی قیمت بھی بڑھتے ہوئے بوجھ کی مانند لگ رہی ہے ۔ کوئی ہے کہ محلے کے امام صاحب سے مل کر عرض کر رہا ہے کہ ہمارے زیورات پر زکوۃ کتنی عائد ہوتی ہے ؟ فلاں مولوی صاحب تواتنا اتنا بتا رہے تھے۔ یاد رکھیے ہمارے یہاں جو نصاب کی طے شدہ مقدار ہے وہ کم سے کم کی آخری حد پر طے کی گئی ہے ۔ جب دینے کی بات آتی ہے تو اہل ایمان کم سے کم نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ پر نگاہ رکھتے ہیں۔ کم سے کم کے طرز پر عمل کرنے والے ذرا اپنے آپ کو ’قابل اور ہابل ‘ کے پیمانے پر خود کو جانچیں کہ وہ کیا دے رہے ہیں ۔ مال کی وہ مقدار جسے ادا کرنے میں خوشی محسوس ہورہی ہو اس سے ذرا زیادہ دینے کی کوشش کریں تب خود بہ خود اپنی حیثیت اور اپنے ایمان کا پتہ چل جائے گا۔
زکوۃ انفرادی دینے کے بجائے اجتماعی دینے کی کوشش کی جائے ۔ شہر کے تمام لوگ اگر آپ کی بات سے متفق نہیں تو محلے سے ہی شروع کیجیے۔ محلے میں بھی ممکن نہ ہو تو اپنی قریب کی مسجد میں ہی کوشش کیجیے ۔ اگریہ بھی ممکن نہ ہوتو جتنے لوگ آپ کے ہم خیال بنیں ان سے ملکر ہی اجتماعی زکوۃ و فطرہ کا بندوبست کریں۔
اللہ کہنے ، سننے سے بڑھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے روزوں ، قیام اللیل اور زکوۃ و صدقات کو شرف قبولیت بخشے اور ہمیں اجتماعیت کی دولت سے سرفرازکرے۔آمین

عبدالمقیت عبدالقدیر، بھوکر


Friday, August 19, 2011

سی سی ای کے بارے میں افواہ



تعلیمی سال 2010ء سے مسلسل ہمہ جہت ترقی کا پروگرام شروع کیا گیا تھا اور اسکولوں میں یہ سرکیولر دیا گیا کہ اب امتحانات نہیں ہوں گے ۔ بلکہ ہمیں بچوں کی مسلسل ہمہ جہت جانچ تشکیلی وسائل کے ذریعے کرنی ہے ۔ہر بچے کا انفرادی طور پر مشاہدہ کرنا ہے ۔ مگر اب ایک افواہ یہ سننے میں آرہی ہے کہ سی سی ای یعنی مسلسل جانچ کا طریقہ ردّ کردیا گیا ہے اور اب ہمیں بچوں کے ٹیسٹ اور امتحان لینے ہوں گے ۔ اور ٹیچرس پر زیادہ کام کا دباؤ ہوگا ورک لوڈ بڑھے گا ۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں جماعت دوّم سے جماعت ہفتم تک دو مہینوں میں بچوں کی جانچ کرنی ہے اور حکومت کا یہ قدم ( Educational Quality Improvement Programme ) کے ذریعے تعلیم معیار کو بڑھانا ہے ۔ اور اس کا سرکیولر جلد ہی گورنمنٹ مہاراشٹر ( MSCERT) کے طرف سے آۓ گا ۔ اس سے ہمارا کوئی بھی ورک لوڈ نہیں بڑھے گا ۔بلکہ ہمیں اپنے کام کا اندازہ ہو گا ۔کہتے ہیں کہ خوش دلی سے کیاہوا کام کامیابی کا ضامن ہے ۔

لنترانی کے دفتر میں مہمان



بروز اتوار مورخہ 14 اگست 2011ء کو شام افطاری کے بعد بھیونڈی کے سماجی ر کن پرویز خان ۔ذکی محبوب انصاری ( بھیونڈی اوبی سی سیل کے صدر ) ہفتہ واری اخبار حالات کے ایڈیٹر اور اردو ساہیتہ اکیڈمی کے ایوارڈز یافتہ خان ابو بکر صاحب اور مالیگاؤں سے تشریف لاۓ ۓۓے ہو ۓمہاراشٹر اردو پترکار سنگھ کے صدر اور اخبار تحفّظ ملّت کے ایڈیٹر لقمان انصاری نے لنترانی میڈیاہاؤس کے دفتر میں وزیٹ کی۔اردو ویب سائٹ کے کاموں کا جائزہ لیا ۔لنترانی ڈاٹ کام اور آئيوشوید ڈاٹ کام پر وزیٹ کی اور لنترانی کے ذریعے اردو کے فروغ کے لیے اور ادیبوں اور شاعروں کو انٹرنیٹ کے ذریعے سائبر پر جگہ دینے کی ستائش کیں ۔اور لنترانی کی ٹیم کو مبارکباد دی۔لنترانی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر روپیش نے جب یہ بات عملی طور پر کر کے بتا ئی کہ بغیر کسی سافٹ ویئر کے ہم اپنے کمپیوٹر پر اردو ایکٹیویٹ کرکے کہیں بھی اردو لکھ سکتے ہیں ۔ ابو بکر صاحب نے فیس بک پر اردو لکھی ۔اور حیرت زدہ ہو گے اور اس بات کو مانا کہ وہ جس سافٹ ویئر سے اب تک اپنے سارے کام کرتے آرہے ہیں ۔اس سے فیس بک پر اردو نہیں ہکھ سکتے ۔ابو بکر صاحب بہت خوش ہوے انھوں نے کافی تعریف کیں اور کہا کہ یہ بات تو سب کو ورکشاپ لے کر سمجھا نی چاہیے۔بہت دیر تک سب نے اردو کے فروغ کے لیے گفتگو کیں ۔ اور یہ طے پایا کہ عیدالفطر کے بعدبھیونڈی میں ایک سیمینار اور ورکشاپ کا انعقاد کیا جاۓے گا ۔اور انھوں نے پورے تعاون کا وعدہ کیا ۔یہ ملاقات بہت اچھی رہی۔

Wednesday, August 17, 2011

ٹریجیک ہیرو مالیگاؤں کا سپر مین








کئی سالوں سے ہم اکثر ٹی وی سیریئل اور فلموں میں سپر مین کے کارنامے دیکھتے آرہے ہیں ۔کہ کس طرح وہ ظلم و نا انصافی کے خلاف لڑتا ہےاور غریب و مظلوم لوگوں کی مدد کرتا ہے ۔ پچھلے سال جب ہم کسی ضروری کام سے مالیگاؤں گۓ تھے ۔ وہاں ہمیں شیخ شفیق کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ مالیگاؤں کا سپر مین کا کردار انوراگ کشیپ اور سنیل بھورا کی فلم میں ادا کررہا ہے اس بات پر بڑی خوشی محسوس ہوئی ۔ ویسے تو مالیگا ؤں علم ادب کا گہوارہ ہے۔ وہاں کے لوگ تعریف کے قابل ہیں کہ سارا دن اپنی روزانہ کی مصروفیت کے باوجود شام کو وقت نکال کر علم و ادب کی محفلیں سجاتے ہیں ۔سارا دن لوم کی آوازوں میں رہنے کے بعد وہ شام کو شعر شاعری ،نظموں اور افسانوں کے لۓ پروگرام منعقد کرتے ہیں ۔ اس پر تبصرہ ہوتا ہے ۔اور لوگوں کی تخلیقات کی اصلاح کی جاتی ہے ۔ یہ بات بہت اچھی لگی ۔ہم نے بھی یہ طے کر لیا کہ ہم پوری ایمانداری سے لنترانی ڈاٹ کام کے ذریعے مالیگاؤں کے ادباء کے لۓ کام کریں گے ۔اور یہ بھی طے پایا گیا کہ شیخ شفیق کا انٹرویو لیا جاۓ ۔ مگر اس خبر سے دل کو دھچکا لگا کہ مالیگاؤں کا سپر مین میں سپر مین کا کردار نبھانے والا جس نے صرف زندگی کی 28 بہاریں ہی دیکھی ہیں ۔ تمباکو مافیاء سے ٹکرانے والا ہیرو اصلی زندگی میں خود گلے کے کینسر کا شکار ہے کیونکہ وہ خود بھی گٹگا کا شوقین تھا ۔ اوراب آخری اسٹیج پر ہے ۔ صرف کچھ ہی دنوں کا مہمان ہے ۔ اور اس کے پاس اتنا بھی وقت نہیں ہے کہ وہ اپنی خود کی فلم کے پریمیئر شومیں موجود رہے ۔ اس بات کو لیکر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب جلد ہی اس فلم ( مالیگاؤں کا سپر مین) کو عید کے موقع پر ریلیز کر دیا
جاۓ گا ۔‎
ہم یہ دعا کرتے ہیں آئندہ کوئی سپرمین اس طرح کے حالات کا شکار نہ ہو ۔

Tuesday, August 16, 2011

انّا ہزارے کی تحریک کے پس منظر میں جماعت اسلامی ہند کا بیان



پریس ریلیز
کرپشن سے پاک ہندوستان کی تعمیر وقت کی اہم ضرورت

نئی دہلی۔ ہندوستانی کو کرپشن جیسی مہلک بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیے اس وقت مضبوط تحریک چلانے اور مسلسل جدوجہد کرنے کو جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری جنرل نصرت علی نے وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کے لیے وہ خود بھی مخلصانہ تدابیر اختیار کرے اورعوام کی جانب سے ملک کی بہی خواہی میں جو آوازیں اٹھ رہی ہیں ان کو وہ توجہ سے سننے کی کوشش کرے تاکہ ملک کو مزید خرابیوں اور برائیوں میں ڈوبنے سے بچایاجاسکے۔
آزادی کی 64 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے جناب نصرت علی نے کہا کہ اگرچہ آزادی کے بعد ملک نے سائنس و ٹیکنالوجی وغیرہ کے پہلوؤں سے غیر معمولی ترقی کی ہے لیکن عدل و انصاف ،سچائی و ایمانداری اور اخلاق و کردار کی جو قوت کسی ملک اور قوم کو حقیقی معنوں میں عظمت کے مقام پر پہنچاتی ہے اس کے اعتبار سے ملک کہا ں کھڑا ہے اس کا اندازہ مرکزی وزراء ، اہم منصب پر فائز شخصیات اور ممبران پارلیمنٹ کے کرپشن کے الزامات میں جیلوں میں موجود ہونے سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات سخت حیرت و افسوس کی ہے کہ جن افراد پر ملک کے عوام اعتماد کرکے ملک کی تعمیر و ترقی اور اس کے نظام کو چلانے کے لیے اپنا نمائندہ بتاتے ہیں وہی نظم و قانون کو پس پشت رکھ کر ملک کے خزانوں کا بے دریغ استعمال کرکے اس کی رسوائی کا باعث بنتے اور عوام کی مشکلات و مسائل میں اضافہ کرتے ہیں۔
جماعت کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ اسی تکلیف دہ صورت حال کی شدت کو محسوس کرکے بزرگ سماجی کارکن انّا ہزارے نے کرپشن کے خاتمے کے لیے عوامی لوکپال بل کی تشکیل کے لیے تحریک شروع کی ہے تو حکومت ان کی معقول تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرنے اور مفید مشورے اختیار کرنے کے بجائے ان کو اپنا مد مقابل تصور کررہی ہے اور غیر ضروری طور پر ایک کشمکش کی صورت پیدا ہورہی ہے جو موزوں نہیں کہی جاسکتی ہے۔ اس کو تبدیل کرنا مناسب ہوگا۔
جناب نصرت علی نے یہ بھی کہا کہ جماعت اسلامی ہند انا ہزارے کی کرپشن فری انڈیا کی تحریک اور اس مقصد کے لیے کی جارہی دیگر کوششوں کوقدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور حکومت کو بھی متوجہ کرتی ہے کہ وہ کرپشن سے ملک کو نجات دلانے کو وقت کی ضرورت سمجھ کر مناسب اقدام و عمل کرے۔



(انتظار نعیم)
برائے اشاعت اسسٹنٹ سکریٹری جماعت اسلامی ہند
Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP