ماسڑمحمد یعقوب ایوبی
مسجدوں اور میناروں کے شہر مالیگاؤں کی ایک قدیم مسجد ’’ انگنو سیٹھ کی مسجد موتی پورہ ‘‘ میں آج سے 25برس قبل مسجدی سطح پر بیت المال کا نظام قیام کیا گیا۔ محلہ کے چند بزرگ سر جوڑ کر بیٹھے اور آپس میں باتیں کرنے لگے کہ اکثر ہماری مسجد میں کوئی پریشان حال مسافر نماز کے بعد کھڑا ہوکر مصلیوں سے فریاد کرتا ہے ۔ ایک وقت کے کھانے کا سوال تو کبھی اپنے وطن تک واپس لوٹنے کے کرایہ کا سوال کبھی کبھار محلے کی غریب خاتون سرکاری اسپتال میں زچگی کے ٹیبل پر صرف اس لئے دم توڑ دیتی ہے کہ اس کے مزدور پیشہ خاوند کے پاس فوری آپریشن کیلئے دو پانچ ہزار کا نظم نہیں ہوتا۔ اس طرح کے چند واقعات نے بزرگوں کو سوچنے پر مجبور کردیا اور بالآخر انہی لوگوں نے آپس میں چندہ کرکے سات آٹھ سو روپیہ جمع کرلیا۔ جمعہ کی نما زمیں بیت المال کے قیام کا اعلان ہوا تو مذید سات آٹھ سو روپئے آگئے ۔ پھر اسی طرح دن گذرتا رہا اور مسجد کی باقائدہ بیت المال کمیٹی بنا لی گئی جو پریشان حال سوالیوں کی جانچ پڑتال کرکے ان کی پوری پوری مدد کردیتے تھے ، مسجد انگنو سیٹھ کا یہ بیت المال اس قدر کامیاب اور مقبول و معتبر ہوا کہ لوگ عطیات کے علاوہ ماہ رمضان کی زکوۃ اور چرم قربانی سے بھی اس نظام کو مضبوط کرتے رہے مفکر ملت مولانا ادریس عقیل ملی قاسمی کی سرپرستی میں بیت المال کا نظام اس قدر مستحکم ہوا کہ اس میں کافی رقم سلک رہنے لگی ۔ حالانکہ مسجد سے ملحق محلوں میں ہی اس کیلئے فنڈ اکھٹا کیا جاتا ہے ۔ مسجد انگنو سیٹھ کے بیت المال کی کامیابی کے اثرات پڑوس کے محلوں کی مسجدوں میں بھی ہوئے اور آس پاس کئی مسجدوں میں بیت المال بن گیا۔بیت المال کمیٹی مسجد انگنو سیٹھ کے جہاندیدہ فکر مند ذمہ داران نے زکوۃ کی رقومات اسکے مستحقین تک پہنچانے کیلئے سروے کا نظام بنایا اور آس پاس کے پانچ چھ محلوں قلعہ ، غالب نگر، قلعہ جھوپڑپٹی ، رسول پورہ ،اسلام آباد اور موتی پورہ میں غریب خاندانوں کی بیوہ ہونے والی عورتوں اور بیوہ عورتوں کے یتیم بچوں کی ضرورتوں کا خیال شروع کیا۔ محلے کے پڑھے لکھے ہنر مند نوجوانوں کو روزگار کیلئے مالی مدد، ہنر مند لڑکیوں کیلئے سلائی مشین کی فراہمی ، مسافروں کی داد رسی جیسے کاموں کی انجام دہی خوش اسلوبی سے ہوتی رہی۔
25ویں سال کی سالانہ رپورٹ اس وقت میرے سامنے ہے جس میں درج ہے کہ امسال 15جولائی 2011تک دو لاکھ ساٹھ ہزار روپئے بیت المال میں جمع ہوئے اور اسے مختلف مدوں میں خرچ کیا گیا۔ رمضان کے آغاز سے قبل ایک سو پچاس بیواؤں کو لفافہ میں نقد رقم خاموشی کے ساتھ پہنچائی گئی اور دیگر اخراجات کی تفصیل کمیٹی نے ذمہ داران کے روبرو پیش کیا۔ حساب کی جانچ پڑتال کے بعد ذمہ داران نے اپنے اطمینان کا اظہار کیا اور جو صاحب اس رجسٹر کا مشاہدہ کرنا چاہے اسے دکھانے کی اجازت دی گئی ۔
فی زمانہ مسلم تنظیموں اور مسلم شخصیات کے ذریعے جو کچھ فلاحی کام ہوتے ہیں ان میں اکثریت سے نمائشی ہوتے ہیں ۔ طلبہ کو بیاضیں حاصل کرنے کیلئے قطار لگانا پڑتا ہے ۔ تو بیواؤں کو بھی عید کے کپڑے کیلئے قطار میں آنا پڑتا ہے ۔ ان مناظر سے دل بڑا کڑھتا ہے ۔ لیکن مسجد انگنو سیٹھ موتی پورہ مالیگاؤں کے بیت المال کا نظام دیکھ کر یقیناًدل خوش ہوتا ہے اور ذمہ داران ہی نہیں محلے والوں کیلئے بھی دل سے دعائیں نکلتی ہیں ۔ا س تحریر کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ محلہ محلہ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے نظام قائم کر لئے جائیں۔
***
مسجدوں اور میناروں کے شہر مالیگاؤں کی ایک قدیم مسجد ’’ انگنو سیٹھ کی مسجد موتی پورہ ‘‘ میں آج سے 25برس قبل مسجدی سطح پر بیت المال کا نظام قیام کیا گیا۔ محلہ کے چند بزرگ سر جوڑ کر بیٹھے اور آپس میں باتیں کرنے لگے کہ اکثر ہماری مسجد میں کوئی پریشان حال مسافر نماز کے بعد کھڑا ہوکر مصلیوں سے فریاد کرتا ہے ۔ ایک وقت کے کھانے کا سوال تو کبھی اپنے وطن تک واپس لوٹنے کے کرایہ کا سوال کبھی کبھار محلے کی غریب خاتون سرکاری اسپتال میں زچگی کے ٹیبل پر صرف اس لئے دم توڑ دیتی ہے کہ اس کے مزدور پیشہ خاوند کے پاس فوری آپریشن کیلئے دو پانچ ہزار کا نظم نہیں ہوتا۔ اس طرح کے چند واقعات نے بزرگوں کو سوچنے پر مجبور کردیا اور بالآخر انہی لوگوں نے آپس میں چندہ کرکے سات آٹھ سو روپیہ جمع کرلیا۔ جمعہ کی نما زمیں بیت المال کے قیام کا اعلان ہوا تو مذید سات آٹھ سو روپئے آگئے ۔ پھر اسی طرح دن گذرتا رہا اور مسجد کی باقائدہ بیت المال کمیٹی بنا لی گئی جو پریشان حال سوالیوں کی جانچ پڑتال کرکے ان کی پوری پوری مدد کردیتے تھے ، مسجد انگنو سیٹھ کا یہ بیت المال اس قدر کامیاب اور مقبول و معتبر ہوا کہ لوگ عطیات کے علاوہ ماہ رمضان کی زکوۃ اور چرم قربانی سے بھی اس نظام کو مضبوط کرتے رہے مفکر ملت مولانا ادریس عقیل ملی قاسمی کی سرپرستی میں بیت المال کا نظام اس قدر مستحکم ہوا کہ اس میں کافی رقم سلک رہنے لگی ۔ حالانکہ مسجد سے ملحق محلوں میں ہی اس کیلئے فنڈ اکھٹا کیا جاتا ہے ۔ مسجد انگنو سیٹھ کے بیت المال کی کامیابی کے اثرات پڑوس کے محلوں کی مسجدوں میں بھی ہوئے اور آس پاس کئی مسجدوں میں بیت المال بن گیا۔بیت المال کمیٹی مسجد انگنو سیٹھ کے جہاندیدہ فکر مند ذمہ داران نے زکوۃ کی رقومات اسکے مستحقین تک پہنچانے کیلئے سروے کا نظام بنایا اور آس پاس کے پانچ چھ محلوں قلعہ ، غالب نگر، قلعہ جھوپڑپٹی ، رسول پورہ ،اسلام آباد اور موتی پورہ میں غریب خاندانوں کی بیوہ ہونے والی عورتوں اور بیوہ عورتوں کے یتیم بچوں کی ضرورتوں کا خیال شروع کیا۔ محلے کے پڑھے لکھے ہنر مند نوجوانوں کو روزگار کیلئے مالی مدد، ہنر مند لڑکیوں کیلئے سلائی مشین کی فراہمی ، مسافروں کی داد رسی جیسے کاموں کی انجام دہی خوش اسلوبی سے ہوتی رہی۔
25ویں سال کی سالانہ رپورٹ اس وقت میرے سامنے ہے جس میں درج ہے کہ امسال 15جولائی 2011تک دو لاکھ ساٹھ ہزار روپئے بیت المال میں جمع ہوئے اور اسے مختلف مدوں میں خرچ کیا گیا۔ رمضان کے آغاز سے قبل ایک سو پچاس بیواؤں کو لفافہ میں نقد رقم خاموشی کے ساتھ پہنچائی گئی اور دیگر اخراجات کی تفصیل کمیٹی نے ذمہ داران کے روبرو پیش کیا۔ حساب کی جانچ پڑتال کے بعد ذمہ داران نے اپنے اطمینان کا اظہار کیا اور جو صاحب اس رجسٹر کا مشاہدہ کرنا چاہے اسے دکھانے کی اجازت دی گئی ۔
فی زمانہ مسلم تنظیموں اور مسلم شخصیات کے ذریعے جو کچھ فلاحی کام ہوتے ہیں ان میں اکثریت سے نمائشی ہوتے ہیں ۔ طلبہ کو بیاضیں حاصل کرنے کیلئے قطار لگانا پڑتا ہے ۔ تو بیواؤں کو بھی عید کے کپڑے کیلئے قطار میں آنا پڑتا ہے ۔ ان مناظر سے دل بڑا کڑھتا ہے ۔ لیکن مسجد انگنو سیٹھ موتی پورہ مالیگاؤں کے بیت المال کا نظام دیکھ کر یقیناًدل خوش ہوتا ہے اور ذمہ داران ہی نہیں محلے والوں کیلئے بھی دل سے دعائیں نکلتی ہیں ۔ا س تحریر کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ محلہ محلہ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے نظام قائم کر لئے جائیں۔
***
No comments:
Post a Comment