You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Sunday, August 28, 2011

چوتھی دنیا انٹرنیشنل اردو ویکلی کے نامہ نگار فرمان چودھری اور نوازش مہدی سے خصوصی گفتگو

2011کمیٹی پاکستان کے سکریٹری اور انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے ڈپٹی جنرل سکریٹری جناب راحت سعید ہندوستان میں منعقد ہونے والی فیض صدی تقریبات میں شرکت کی غرض سے کراچی سے دہلی تشریف لے گئے تھے۔ چوتھی دنیا انٹرنیشنل اردو ویکلی کے نامہ نگار فرمان چودھری اور نوازش مہدی سے خصوصی گفتگو کے اہم اقتباسات پیش خدمت ہیں۔

خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے

۔
سوال:آپ کا ادبی سفر کب اور کیسے شروع ہوا؟
جواب:بچپن میں ہماری ماں،پھوپھیاں اور بزرگ ہم کو کہانیاں سنایا کرتے تھے۔بس تبھی سے سفر شروع ہوا۔اس کے بعد کوئی وقت ہم کو ایسا یاد نہیں جب ہم کلاس میں پڑھتے ہوں اور کہانیاں نہ پڑھتے ہوں۔اس کے بعد شاعری نہ پڑھتے ہوں۔مجھے یاد ہے کہ میرے والد شروع سے ہی مولانا روم اور اقبال کی مثنویاں سنایا کرتے تھے۔بعد میں جب ذہن بالغ ہوا تو ادب پڑھنا شروع کیااور تب سے اب تک ادب پڑھ رہا ہوں۔میں ہمیشہ سے ادب کا طالب علم رہا ہوں۔میرا کام بنیادی طور پر سماجی علوم کے حوالے سے ہے۔میں شاعر نہیں ہوں اور نہ ہی میں کہانی کار ہوں۔لکھنے کی کوششیں کیں لیکن جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ میدان ہمارا نہیں ہے۔میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر آپ اچھا شعر نہیں کہہ سکتے تو شاعری کرنا کار زیاں ہے۔اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ہمیں اچھے لوگ، اچھے کام اور اچھے شعر یاد رہتے ہیں۔اچھے کام سے مراد ایسے کام ہیں جو انسان دوستی پر مبنی ہیں۔ ہم اسی لیے انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہیں، کیونکہ اس کی اقدار انسانی اقدار ہیںاور محبت انسانی اقدار ہے۔اقدار تو بہت سی اقسام کی ہو سکتی ہیں،جو مثبت اقدار ہیں وہ آگے جانے والی ہیں اور وہی اقدار ترقی پسند اقدار ہیں۔منفی اقدار وہ ہیں جو تاریخ کو لوٹانا چاہتی ہیں۔چاہے وہ ڈھائی ہزار سال پرانی ہوں یا چودہ سو سال پرانی۔کچھ لوگ ہندوستان میں ایسے ہیں جو تاریخ کو ڈھائی ہزار سال پہلے لوٹانا چاہتے ہیں ۔اسی طرح پاکستان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو تاریخ کو چودہ سو سال پہلے لوٹانا چاہتے ہیں،یہ منفی سوچ ہے۔یہ سوچ انسانوں کی بہتری کے لیے نہیں ہے۔

سوال:انجمن ترقی پسند مصنفین کے پاکستان میں کیا حالات ہیں؟
جواب: تقسیم کے زمانے تک تو انجمن ترقی پسند مصنفین ہندوپاک کی ایک ہی تھی ،لیکن تقسیم کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین بھی تقسیم ہو گئی۔یہ پاکستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کہلائی۔یہ 1954تک کام کرتی رہی لیکنجب امریکہ سے معاہدے ہوئے ، اس کے بعد حکومت پاکستان نے اسے بائیں بازو کی سیاسی پارٹی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کردی۔پابندی کے بعد یہ دیگر ناموں سے اپنا کام کرتی رہی۔اس کے علاوہ جو دیگر تنظیمیں اس وقت ادب برائے ادب کے لیے کام کرر ہی تھیں،مثلاً حلقہ ارباب ذوق ،ان میں ترقی پسند شامل ہو گئے اور کام کرتے رہے۔اس کے بعد حلقہ ارباب ذوق لاہوربھی تقسیم ہوگئی۔حلقہ ارباب ذوق ادبی اور حلقہ ارباب ذوق سیاسی۔2006میں سجاد ظہیر صدی تقریبات منعقد کی گئیں۔ارتقا ادبی فورم کے ذریعہ ہم نے ادب کا بھی کام کیا۔ ادبی سمینار بھی کئے۔ہم نے سب سے پہلا سمینار سید احتشام حسین پر1993میں کیاتھا ۔اس سہ روزہ بین الاقوامی سمینار پرتقریباً400صفحات پر مشتمل ایک ضخیم نمبر بھی ہم نے شائع کیا تھا۔اس کے بعد جوش ملیح آبادی ، مخدوم محی الدین اور فراق گورکھپوری پر سمینار کئے اور ان کے اوپر خصوصی نمبر نکالے۔ جن کی پاکستان میں بہت پذیرائی ہوئی۔آپ تعجب کریں گے کہ ٹینا ساہنی نے ایک پوری شام فراق کو گایا۔ابھی تو فیض صدی چل رہی ہے لیکن اگلے سال مجاز صدی کی تقریبات ہوں گی۔اسی سال اکتوبر میں مجاز کا یوم پیدائش ہے۔یہ طے ہوا تھا کہ ہم اکتوبر میں مجاز پر ایک سمینار کریں گے لیکن چونکہ سارا زوراس وقت فیض پر ہے اس لیے مجاز کی تقریب دب کر رہ جائے گی ۔اسی لیے یہ طے ہوا کہ مجاز کی تقریبات اگلے سال ہوں گی۔

سوال:آپ کس شاعر سے سب سے زیادہ متاثر ہیں؟
جواب:بلا شبہ فیض۔اس کے علاوہ مجاز اور ساحر۔ہمارے یہاں دو اور شاعر بھی اہم ہیں ۔ایک جان ایلیا اور دوسرے احمد ندیم قاسمی۔ہمارے یہاں ایسے بھی شاعر ہیں جو صرف پاکستان کے شاعر نہیں کہلاتے بلکہ وہ پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے بھی کہلاتے ہیں۔
سوال:پاکستان کے ادیب و فنکار ہندوستا ن بہت آتے ہیں لیکن ہندوستان کے ادیب اور فنکار پاکستان کم جاتے ہیں۔اس کی کیا وجوہات ہیں؟
جواب:دیکھئے ایسا بالکل نہیں ہے۔ہندوستان کے ادیب و فنکار پاکستان بہت جاتے ہیں۔ہاں یہ تعداد ہندوستان آنے والے پاکستانیوں کے برابر نہیں ہو سکتی ۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہندوستان میں بازار کا اثرزندگی کے مختلف شعبوں کے ساتھ ساتھ ادب اور فن پر بھی پڑاہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں موسیقی اتنی زیادہ رائج نہیں ہے جتنی ہندوستان میں۔

سوال:ادیب و فنکار امن اور دوستی بڑھانے میں کتناکام کرتے ہیں؟
جواب:دیکھئے ادیب، شاعر اور فنکار ہی امن اور دوستی کی بات کرتے ہیں۔سیاست دانوں کا کام ہے تفریق کرنا اور ادیبوں کا کام ہے جوڑنا۔میں ایک تنظیم’’قلم و فن برائے امن‘‘ کا کنوینر ہوں ، جو بنائی ہی اس مقصد کے لیے گئی ہے۔ہمارے ایک 50رکنی وفد کو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی نے اسی حوالے سے دعوت دی تھی۔میں آپ کو ایک خاص بتاتا ہوں کہ اگر کوئی سیاست داں جوڑنے کی بات کرتا ہے تو اس کے دل میں کہیں نہ کہیں ادیب چھپا ہوا ہوتا ہے۔اس کی ایک مثال ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی ہے جو سیاست داں ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔اسی لیے انہوں نے ہمیشہ امن او راتحاد کی بات کی۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ سیاست داں جو ادب سے قریبی رشتہ رکھتے ہیں وہ بھی جوڑنے کی سیاست کرتے ہیں۔

سوال:انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستگی کے ساتھ ساتھ کیا آپ کمیونسٹ پارٹی سے بھی وابستہ ہیں؟
جواب:ہمارے یہاں کئی کمیونسٹ پارٹیاں ہیں۔لیکن میں ذاتی طور پر کسی کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ نہیں ہوں۔جہاں تک سوچ کا سوال ہے تو وہ میں کمیونسٹ سوچ ہی رکھتا ہوں۔کسی پارٹی سے وابستہ نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین دھڑوں میں تقسیم ہو جائے۔ اگر ہم کسی ایک پارٹی میں شامل ہو جائیں گے تو دوسری پارٹی والے انجمن کو اسی نظریہ سے دیکھیں گے۔یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین میں تمام کمیونسٹ پارٹیوں کے ارکان شامل ہیں۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں نہ صرف تمام کمیونسٹ پارٹیوں کے ارکان بلکہ سبھی ترقی پسند پارٹیوں کے لوگ بھی شامل ہیں۔یہ سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا پلیٹ فارم ایک ہی رہنا چاہئے۔اسی لیے میں کسی ایک کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ نہ ہوکر سب سے وابستہ ہوں۔

سوال:ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں اردو کا کیسا مستقبل ہے؟
جواب:مجھے یہ لگتا ہے کہ جو اردو کے نام پر کام کررہے ہیںوہ صحیح ڈھنگ سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کررہے ہیں۔مجھے یہ لگتا ہے کہ جو لوگ خادم اردو ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ اپنی نوکریاں اور اپنی دوکانداری چمکاتے ہیں۔میرے خیال سے ان لوگوں اور اداروں کو مزید سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ جو لوگ یہاں عام بول چال میں ہندی بولتے ہیں دراصل وہ اردو ہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2005میں جب میں یہاں ہندوستان آیا تھا توایک ٹیکسی ڈرائیور کہنے لگا کہ کیا پاکستان میں لوگ اتنی اچھی ہندی بولتے ہیں۔میں نے کہا کہ ہاں پاکستان میں لوگ اتنی ہی اچھی ہندی بولتے ہیں جتنی کہ تم اردو بول ہے ہو۔

سوال:آپ کس طرح کے پروگرام کراتے ہیں؟
جواب:پاکستان میں ہماری 27شاخیں ہیں جہاں مختلف قسم کے پروگرام کرائے جاتے ہیں۔جیسے مشاعرہ، مذاکرہ ،شعری نشست اور سمینار وغیرہ۔کراچی میں ہم نے یہ طے کیا ہے کہ مہینے میں کم سے کم ایک مرتبہ ایک گیسٹ لیکچر اور ایک شعری نشست ضرور کریں گے۔نومبر میں ہم عالمگیر پیمانے پر اسلام آباد ، کراچی اور لاہورمیںپروگرام کرتے ہیں۔

سوال:فیض صدی کی تقریبات منانے کا فیصلہ کب اور کہاں ہوا؟
جواب:جب 2006میں ہم سجاد ظہیر صدی تقریبات منا رہے تھے تو اس میں ہندوستان کا ایک وفد پاکستان گیا ہوا تھا۔اسی وقت یہ طے ہوا کہ ہم 2011میں پوری شان و شوکت کے ساتھ فیض صدی منائیں گے۔فیض صدی تقریبات منانے کی دو بڑی وجوہات تھیں۔پہلی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے شدت پسندانہ ماحول میں فیض کے نظریات کو عام کیا جائے گا۔تاکہ پاکستان کے مظلوموں اور مجبوروں کی آواز کو بلند کیا جا سکے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ یہ بتایا جائے کہ پاکستان میں صرف شدت پسند ہی نہیں رہتے ہیں بلکہ پاکستان میں فیض کے حامی بھی رہتے ہیں جو شدت پسندی کے خلاف ہیں۔ہندوستان کی انجمن ترقی پسند مصنفین پہلے سے ہی فیض صدی منانے کے لیے تیار تھی۔

No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP