تخیل میں تو ہوں لیکن
زباں ان کو ادا کرنے سے قاصر ہو
اُتر پائے نہیںجو اب تلک کاغذ کے سینے پر
خلاﺅں میں ابھی کھوئی ہوئی کرنیں جنھیں ترتیب دینی ہیں
کچھ ایسے لفظ
کچھ ایسے لفظ مجھ کو ڈھونڈنا ہیں
جنھیں پانی میں ڈالوں اور اس میں آگ لگ جائے
قلم کی نوک جن لفظوں کو لکھے اور جل جائے
کچھ ایسے لفظ مجھ کو ڈھونڈنا ہیں
جنھیں شب میں پکاروں اور شب دن میں بدل جائے
کسی پتھر کو چھُو جائیں ،تو وہ پتھر پگھل جائے
کچھ ایسے لفظ مجھ کو ڈھونڈنا ہیں
لکھوں نا جن کو کاغذ پر
مگر سب کو دکھائی دیں
فقط لب کو ہلاﺅں
اور وہ سب کو سنائی دیں
کچھ ایسے لفظ مجھ کو ڈھونڈناہیں
جنھیں سوچوں تو جملے آپ ہی ترتیب پا جائیں
اور ان جملوں کا ہر اک لفظ
مکمل نعت کا مفہوم دیتا ہو
کچھ ایسے لفظ میری دسترس میں آگئے جس دن
میں اس دن نعت لکھوں گا
--شکریہ
علی ساحل
مدیر: نظم نو
No comments:
Post a Comment