(میرے بیٹے معین نیازیؔ کے گھر سے پہلی بار باہر قدم نکلنے پر۔۔)
ہم نے تجھے بھیڑ میں جھونک دیا ہے مو نوؔ !!
زندگی کی پٹری پر دوڑتی
کر ئیر کی ٹرین میں سوار کر کے
تازہ دم حوصلوں اور اُمنگوں کے ساتھ۔۔
ہم نے تجھے بھیڑ میں جھونک دیا ہے مو نوؔ
کندھے سے کندھے چھلیں گے ہر دم
بو پسینے کی ،سانسوں کی دُرگندھ
سانس اٹکے گی سینے میں۔۔مگر تجھ کو
سانس لینا ہے۔۔اسی طرح سے جینا ہے۔۔
کو ئی پیچھے سے، کو ئی آگے سے
تجھ کو ہر دم ڈھکیلتا رہے گا
بال بکھریں گے ترے ۔۔بیگ بھی پھنس جائے گا
جیب خالی ہو گی تری اور کپڑے۔۔
شکنوں سے بھر جا ئیں گے
بھیڑ کچلے گی تجھے ، غراّے گی، دھمکائے گی
بھیڑ سے ڈرنا نہیں ، لڑنا ہے مسلسل تجھ کو
بھیڑ بھڑکائے گی ، ستائے گی، گا لیاں دے گی،
بھیڑ پیروں پہ ترے پیر رکھ کر کھڑی ہو گی
مگر غصّہ کو اپنی طاقت بنا لینا ہے تجھے
کیوں کہ اپنے ہی پیروں پہ کھڑے ہونا ہے تجھے۔۔
تجھ کو ہر حال میں جدّو جہد مگر کرنی ہے
اپنی منزل کی طرف تجھ کو نظر رکھنی ہے
تھام کر زندگی کی اُنگلی کو
اسڑ گل کر کے تجھے آگے آگے بڑھنا ہے!
سیدھے سیدھے سپاٹ رستوں پر
بے فکر ہو کے چلنا بھی کو ئی چلنا ہے؟؟
اپنے خوابوں کے ہجوم کو ساتھ لے کر بھیڑ کے ساتھ اُلجھنا ہے تجھے
اپنی خوش آئندزندگی کا تصّور کر کے
بھیڑ کو چیرنا ، ٹھیلنا، نکلنا ہے تجھے
کیا ہو ا جو تجھے ہم نے
بھیڑ میں جھونک دیا ہے مو نو؟؟
مانا مجبوریاں ہماری ہیں۔۔
ہم کہاں تجھ کو اکیلے روانہ کر سکتے ہیں؟؟
ہم کار ، بائیک دے کر تجھے
جھوٹی خوشیوں کی نمائش نہیں کر سکتے ہیں ؟؟
ہم نے بھی بس میں کھائے ہیں دھکّے
برسوں ٹرینوں کے پُر ہجوم جہنم میں
خود کو جھونکا ہے، بکھیرا ہے، سمیٹا بھی ہے۔۔
ہم بھی بہت خرچ ہو ئے ، اس بھیڑ میں مگر ہم نے
خود کو اس بھیڑ کے حوالے نہیں کیا ہے کبھی
ہاں! لوگ ہمارے بھی پیروں پہ کھڑے ہوتے تھے
لیکن ہم نے اُن کو نہیں کُچلا ہے کبھی۔۔
گالیا ں کھاتے تھے، دھکّے سہے، پسینے میں نہائے تھے ہم بھی
پھر بھی اس بھیڑ کو اپنے اندر
جذب ہونے نہیں دیا ہے کبھی
بھیڑ چھٹ جائے گی جب میرے بچّے!!
تو ہر منظر نیا نیا ہو گا
بھیڑ سے نکلو گے تو بھر پور آسماں ہوگا
بھیڑ سے ہٹتے ہی ایک نیا دروا ہوگا
بھیڑ چھٹ جائے گی تو
مستی پرواز کا سماں ہوگا
بھیڑ کو روندنے کا فن سیکھو
بھیڑ سے بِھڑ نے کا چلن سیکھو
بھیڑ کو چیر کر نکلنا سیکھو
بھیڑ ڈھکیلے تو سنبھلنا سیکھو
بھیڑ میں ہم نے تجھے جھونک دیا مو نو ؔ !
یاد رکھنا یہ میری بات میر ے بچّے تم!
بھیڑ کے ریوڑسے الگ ہونا ہے
دور سے شور تو سننا ہے، سنبھلنا ہے، نکل جانا ہے۔
بھیڑ میں سب سے الگ دکھنا ہے۔
بھیڑ کا حصّہ نہیں بننا ہے!!
بھیڑ کا حصّہ نہیں بننا ہے!!
۲۵۔جولائی۔ ۲۰۱۱
No comments:
Post a Comment