You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Monday, February 28, 2011

اسلامي ادب كي ترويج ميں اقبال كا كردار

ايك ايسے وقت جب مغربي ذرائع ابلاغ كے شبانہ روز زہرناك شور و غوغا سے بننے والي ہوش ربا فضا ميں (1) اسل

ام اور اھل اسلام كي حيثيت ايك دہشت گرد مذہب اور غير شائستہ قوم كي بنائي جا رہي ہو--
علامه اقبال
------ اسلامي ادب كي بات كرنا شايد بے وقت كي راگني قرار پائے ليكن اہل مغرب كے ايك مخصوص طبقے كي اس جانبدارانہ، يك رخي اور شديد متعصبانہ روش سے قطع نظر يہ ايك زندہ اور روشن حقيقت ہے كہ اسلام اور اہل اسلام پوري نوع انساني كے محسن رہے ہيں اور آج بھی اسلام اپني اصلي شكل ميں انسانيت كے ليے اتنا ہي فيض رسان ثابت ہو سكتا ہے جتنا ماضي ميں تھا . جس طرح اسلام ايك زندہ و پايندہ حقيقت ہے اسي طرح اسلامي ادب بھي ايك روشن حقيقت اور ارفع صداقت ہے جس كا انكار صرف شپرہ چشم ہي كر سکتے ہیں.

گر نبیند بروز شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ ؟

اقبال بھی اسلام كے اسي چشمہ آفتاب كے نور سرمدي سے فيض اندوز رہے اور عمر اس كي آفاقي صداقتوں كو بے نقاب كرتے رہے.

ليكن يہاں ايك سوال پيدا ہوتا ہے كيا ادب كي آزاد حيثيت كسي يہودي، عيسوي يا اسلامي سابقے كي متحمل ہو سكتي ہے اور كيا ايسا كرنا ادب كي لا محدود وسعتوں كو زنجير كرنے كے مترادف نہ ہوگا. يہ سوال اٹھايا گيا ہے ماضي ميے بھی بار بار اٹھايا جاتا رہا ہے اور اہل نظر اس كا جواب فراہم كرتے رہے ہيں۔ مختصر يہ ہے كہ دنيا بھر کا بڑا ادب دائمي و آفاقي مذہبي صداقتوں كا حامل رہا ہے . اور يہ صداقتيں رنگ و نسل و زبان و مكان كي حدود سے ماورا رہي ہيں۔ ڈيويڈ دیشز نے جو يہودي مذہب كا پيرو تھا اپنے ايك مضمون شاعري اور اعتقاد ميں اس موضوع پر بڑي عمدہ بحث كي ہے۔

يہ بحث اصلا اس كي پوري كتاب "God and poets" كے تاروپود ميں رچي بسي ہے ۔ ڈیشز سوال اٹھاتا ہے كہ تخيلاتي ادب اور شاعري ميں آخر وہ كونسي شے ہے جو قاري كو اس كے ذاتي معتقدات سے آزاد كركے اسے اس قابل بناتي ہے كہ وہ شاعر كي دنيا ميں صرف رواداري ہي سے نہيں مثبت مسرت كے احساس كے ساتہ داخل ہو جاتا ہے . اس كے نزديك اس سوال كا اطلاق ان عيسائيوں پر بھی اسي قدر ہوتا ہے جو ہومر، سوفوكليز اور ورجل كي تحسين كرتے ہيں جتنا ان غير عيسائيوں پر جو دانتے يا ڈن كي تعريف كرتے ہيں . پھر اس سوال كا جواب ديتے ہوئے ڈیشز كہتا ہے كہ بڑے ادب ميں يقين و اعتقاد كي حيثيت ايك قسم كي زبان كي ہوتي ہے اور زبان ذريعہ ہے ابلاغ كا. حساس قاري كي ايك نشاني زبان كے معاملے ميں اس كي وسيع القلمي ہے اور يہ وسيع القلمي اس كي اس آمادگي كو منحصر ہوتي ہے جو معتقدات كے كسي بھی نظام كو اس صورت ميں مان لينے پر تيار ہوتي ہے جب وہ نظام كسي ماہر اور بڑے متخيلہ كے حامل شاعر كے ہاتھوں شعر كا روپ دھارتا ہے . بڑي شاعري معتقدات كو زبان ميں اس طرح جذب كر ليتي ہے كہ زبان ابلاغ كي اس سطح پر پہنچ جاتي ہے جو ان نعتقدات كي حدود سے ماور ہوتا ہے .

ايك شے جس كو ڈیشز نے اپنے مذكورہ مبحث ميں نظر انداز كيا ہے وہ الہامي مذاھب كي ماورائي وحدت ہے جس كے باعث ايك يہودي، عيسائي عقايد سے انجذاب پذير شاعري سے لطف اندوز ہوتا ہے اور ايك يہودي، عيسائي يا مسلم عناصر شاعري سے مسرت كشيد كرتا ہے .

اس مختصر مبحث سے مقصود يہ تھا كہ مذہبي معتقدات كي حامل شاعري قاري كے لئے زنجير پا نہيں ہوتي ہے بشرطيكہ يہ معتقدات شاعري تاروپود ميں اس طرح حل ہو جائيں كہ "بو گلاب اندر" كي صورت دلپذير پيدا ہوجائے.

1. اس هوش ربا مهم كي تفضيل كے ليے محض دو كتابيں هي ديكه لينا كافي هو گا. ايڈوڑڈ سعيد "covering Islam" كا نيا ايڈشن (1996 ء) اور اكبر ايس احمد كي كتاب "post-modernism and Islam" . گو كه اكبر ايس احمد كو ايڈوڑڈ سعيد كي بعض تعبيرات سے اتفاق نهيں مگر بحيثيت مجموعي دونوں كي فراهم كرده تفضيلات بڑي چشم كشا هيں.

جاری هے

ڈاکٹر تحسین فراقی

شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان



Friday, February 25, 2011

بزم نسواں مہاراشٹرمیلہ















بروز جمعرات مورخہ 24 اور 25 فروری 2011ء کو بوم نسواں مہاراشٹر کی جانب سے دو روزہ میلے کا انعقاد بمقام گورڑن ہائی اپارٹمنٹ صفیہ زبیر روڈ ناگپاڑہ ممبئی میں کیا گیا ۔اس میلے کاخاص مقصد اپنی بہنوں کی مالی امداد کرنا تھا۔ میلے کے افتتاح کے موقع پر بزم نسواں مہاراشٹر کی صدرمسسز ذکیہ خطیب ،مسسز دشیدہ قاضی ،ڈاکٹر یاسمین لقمانی ، فرحین وسیم پیش امام ،صبیحہ اے آر فقیہ،عزیزہ انجم ،شاہینہ تانبے ،مسسز نسیم فقیہہ اور غزالہ آزاد و اراکین مجلس و منتظیم موجود تھے ۔وہاں 100 سے زائد اسٹالس لگاۓ گۓ تھے ۔مختلیف قسموں کے پکوان ۔ملبوسات ۔زیورات مہندی ، تمام چیزیں گھر کی بنی ہوئ یعنی کہ ہوم میڈ تھیں ۔سارا دن وہاں لوگوں کی بھیڑ نظر آرہی تھی ۔ یہ میلہ کافی کامیاب رہا ۔

Monday, February 14, 2011

میت کو نہلانے کا طریقہ

کل آج اور کل


عالمی پرنٹ میڈیا و الیکٹرانک میڈیا اور دوغلے سیاسی منافع خور عناصر آج حسنی مبارک کو ڈکٹیٹر کہہ رہے ہیں۔ جن میں وہ عناصر بھی شامل ہیں جنہوں نے حسنی مبارک کو امریکی پالیسی کا پالتو خبیث بھی قرار دیا اور وہ عناصر بھی شامل ہیں جنہوں نے حسنی مبارک کو ڈکٹیٹر شپ ، غیر ملکی پالیسی کی مبارکباد پیش کی اور مصری عوام کو خوابِ خرگوش میں غلطاں رکھا۔ دیر آید درست آید کے مصداق مصری عوام کا حسنی مبارک کو اقتدار سے بے دخل کرنا محض قابل تعریف نہیں ہے، مصری عوام کی خود غرضی اور اُن کی مستقبل کی ضرورتیں ہیں اور نہ ہی مصری عوام کا جامع مقصد Muslim Brother Hood ہے۔ مصری عوام کو جمہوریت میں مستقبل روشن نظر آتا ہے جس کے لیے البرداعی بھی نگاہوں کا مرکز یا نورِ نظر نہیں کیونکہ البرداعی بھی اقوام متحدہ کا بھاڑے کا ٹٹو ہے جس کی لگام امریکی ہے۔ مشاہدات اور تجربات کا کہنا ہے کہ سیاسی جمہوریت کے آسمان کا مرکزی سورج امریکہ ہے اور دیگر جمہوری ممالک امریکی پالیسی کے تحت منعکس ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ امریکی سرپرستی سے محروم ہونے کی صورت میں تاریکی ممکن ہے جس کا ثبوت ایران امریکی تنازعہ اور ہند امریکی نیوکلیئر معاہدہ بھی ہے اور جمہوری ہندوستان کے اندرونی حالات بھی ہیں۔ ہندوستان میں جمہوریت کی وجہ سے Capitalism کو غربت پر سبقت حاصل ہے۔ سیاسی منافع خور دن دونی رات چوگنی ترقی اور من مانی کررہے ہیں۔ ملک کی غربت کا رونا روتے ہیں لیکن منتریوں کی سہولتیں اور تنخواہیں بڑھادی جاتی ہیں۔لیکن ملک کے لئے اپنی جانوں کو قربان کرنے والوں کی حالت پوشیدہ نہیں ہے ۔لگاتار گھوٹالے انکشاف کررہے ہیں، کسان خود کشی سے دوچار ہیں۔ اوقافی املاک سے ناانصافی ہے۔ قانون کا ڈنڈا غریبوں اور محروم طبقوں کے لئے ہے۔ چوری ، ڈاکہ، یرغمالی، عصمت دری، جوا خانے، شراب خانے، قحبہ خانے، منشیات اور رشوت خوری عام ہے۔ اسلام دشمن پالیسیوں اور حکومت کی وجہ سے مسلم دہشت گردی مشہور ہے ہی لیکن ہندوتوادی اور اسرائیلی معاونت کے ہوتے ہوئے ہندو دہشت گردی عروج پر ہے اور کرشچین کمیونٹی کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اقلیتوں اور دلتوں کا استحصال ، تعلیمی استحصال، اقتصادی استحصال اور معاشی استحصال کا دور دورہ عام ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی کا بول بالا ہے۔ غیر ملکی ملازمت کے سنہرے خوابوں کا جال ہے غیر ملکی ملازمت کے گیت گائے جارہے ہیں غیر ملکی ویزا کی لوٹ مار ہے۔ سرکاری ملازمت کے لیے فارم کی تقسیم ، راشن کارڈ کے لیے فارم کی فروخت کا کاروبار ہے جو کہ جانبدار بھی ہے۔ ماپ میں پاپ اور ملاوٹ عام ہے۔ نسل کشی اور عیاشی کے لیے فیملی پلاننگ کی ہدایات پر عمل کیا جاتا ہے، اسپتالوں میں سہولیات محدود ہیں، ڈاکٹروں کی ہڑتال، آمد و رفت کی ہڑتال عام ہے۔ دوائیاں غریبوں کے لئے ناقابل خریدہیں۔ بلڈروں کی لوٹ مار ہے، پروپرٹی کی فروخت ناقابل قابو ہے۔ مستقبل مذکورہ وجوہات کی وجہ سے تاریک معلوم ہوتا ہے لیکن امید آبِ حیات ہے۔ بہرحال قصہ مختصر یہ کہ تمام مصیبتوں کا حل اور تکافیت کا جواب دین اسلام کی سلامتی میں ہے لیکن برادران اسلام دین میں کمزور ہیں اس لیے کفار مسلط ہیں دور دور تک ٹوپیاں اور عمامے نظر آتے ہیں لیکن امیرالمؤمنین کا نام و نشان نہیں ہے باطل کی بھرمار ڈاڑھی کی سنت چہرے کے نقاب کے لیے اپنائی جاتی ہے۔ جہاں ہندوستانی سپریم کورٹ کے جج نے کہا ہے، ہندوستان کو بھگوان ہی بچا سکتا ہے، وہیں قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں میرا کہنا ہے کہ تمام فتنے دجّال کا خاتمہ حضرت اِمام مہدی ؑ اور حضرت عیسیؑ ٰ کے مبارک ہاتھوں ہوگا۔ واللہ اعلم۔

M. Rafique Usman Mansuri
2/B, Rupvin Appt., Chanebori,
Papdy, Vasai, Dist - Thane 401201
Mob.: 9320506190

Friday, February 11, 2011

فارغینِ مدارس اور ان کامستقبل مولانا عبدالسلام عادل ندوی ناظمِ تعلیمات مدرسہ جامعہ رشیدیہ بنگلور E-mail to Lantrani


دینی مدارس میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے مستقبل اور ان کے ذریعہ معاش کو موضوع بحث بنا کراہل قلم و دانشوران امت موقع بموقع خامہ فرسائی کرتے رہتے ہیں ۔ ہر قلم کار ایک مضمون لکھتا ہے اور اپنی رائے کا اظہاراس طرح کرتا ہے کہ یہی حتمی اوردائمی حل ہے۔ اوراپنی رائے کو فارغین طلباء پر تھوپنا اپنا موروثی حق سمجھتا ہے۔ چاہے وہ قلم کار مسلم ہوں ،غیرمسلم ہوں، عالم ہوں یا غیر عالم ہوں ، سیاسی اشخاص ہوں یا سماجی لیڈران ہو ں ہر شخض کی نظر فارغین مدرسے پرلگی ہوئی ہیں۔ کیا واقعی یہ امت کا بہت بڑا المیہ ہے ؟ اور اس کی گتھیاں اتنی الجھی ہوئی ہیں کہ سلجھائے سلجھـ نہیں رہی؟ اور اس بھول بھلیاں میں طلباء بھی غلطاں و پیچاں ہیں ا ور فراغت کے بعد اس شش و پنج میں مبتلا ہوتے ہیں کہ میں فارغ ہو کر کیاکروں گا۔اور عملی زندگی کا سفر کہاں سے اور اکس اسٹیشن سے شروع کروں گا؟

آج ہر قلم کارجو اس موضو ع پر قلم اٹھاتا ہے اس کی اولین رائے یہی ہوتی ہے کہ طلباء کو دینی علوم کے ساتھ عصری علوم سے مثلاً انگریزی زبان، کمپیوٹر، اوردیگر صنعت و حرفت سے آراستہ کیا جا ئے تاکہ عملی زندگی میں وہ بےکارمحض نہ رہے اور اسی فکر کے مدنظر ہندوستان کے مدارس میں طلباء کو مذکورہ صفات سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔

ذمہ دارانِ مدارس کا یہ قدم نہایت غلط ا ور گمراہ کن ہے۔ یہ ایک چوردروازہ ہے جس کو شیطان نے امت کے اندر سے دینی علوم کو یکسر ختم کرنے کے غرض سے کھولا ہے ۔ اور تجربہ بھی یہی کہتی ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہو سکتاہے کہ ایک شخص مولوی بھی بنے اور ڈاکٹر بھی بنے اور ایک ڈگری کالج کے طالب علم کو جہاں جراحی کا درس دیا جائے وہیں اس کوحدیث وقرآن کی الجھی ہوئی گتھیاں سلجھانے کے راز بھی بتلائے جائیں۔ اور اگر مقصد یہ ہے کہ چند طلباء دینی میدان کو چھوڑکر اور صرف اپنی زندگی میں عمل کو باقی رکھتے ہوئے دنیوی کام کریں گے۔ تو سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس کیا اتنے طلباء ہو چکے ہیں جو علوم نبوت کے اتنے بڑے سرمائے کا علمبردار ہوں ۔

سوال یہ ہے کہ علوم اسلامیہ کے اتنے بڑے ذخیرہ کا وارث کون ہوگا؟ آنے والے دور میں جو نئے مسائل ابھر کر سامنے آئیں گے اس کے سامنے کون سینہ سپر ہوگا؟ حدیث کا اتنا بڑا ذخیرہ مع شروحات ،قرآن کریم کا ترجمہ ، مطالب اوراس کی تفسیر ،ادب عربی کا اتنا قیمتی سرمایہ ،فقہ کا اتنا بڑذخیرہ مختصراً علوم دینیہ آخر کس کے سینے میں محفوظ رہے گی۔کیاان طلباء کے سینوں میں جو علوم دینیہ کے حصول کے بعد کسی انگریزی اور کمپیوٹر کے ڈپارٹمنٹ میں کام کر رہے ہوں گے؟

سوال یہ ہے کہ صرف دو فیصد مسلم نوجوا ن مدارس کا رخ کرتے ہیں اور ان میں سے اکثریت ان کی ہوتی ہے جو گھر میں کسی کے کام کے نہیں ہوتے اور اپنے بھائیوں میں کند ذہن ہوتے ہیں ان کو مدارس کا راستہ دکھا دیا جا تا ہے کہ چلو یہ مدرسے میں ہی جا کر وقت گزارلے گا اور کچھ سیکھ بھی لے گا (یہ بات ہر ذمہ دار پر مطابق نہیں آتی )اور 98 فیصد مسلم نوجوان اسکولوں میں عصری علوم حاصل کرتے ہیں جن کو دینی علوم سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ اور ان دو فیصد مسلم نوجوانوں میں سے بھی جو مدارس میں ہیں اکثریت ان کی ہے جو صرف ضیاع وقت کرتے ہیں اور تعلیم کی مدت پوری کرتے ہیں۔ وہ نہ کبھی اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں اورنہ اس موضوع پر بحث کرنا پسند کرتے ہیں ۔ اور ان میں سے مشکل سے دو فیصد طلباء ایسے ہوں گے جن کا کوئی خاص مقصد اور کوئی مستقبل ہوگا۔

ایسی حالت میں اگران طلباء کو جن کی گنتی انگلیوں میں ہو سکتی ہے علوم عصریہ کی تعلیم دی جائے تومدرسہ کااصل مقصد ہی فوت ہوجائے گا اور مدرسہ کی روح ہی نکل جائے گی۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ یہ کورسیس ان طلباء کے لئے ہے جن کو مولوی بن کر رہنا پسند نہیں اور دینی علوم کی ترویج و اشاعت ان کو پسند نہیں تو جواب ہے کہ پھر اس نے مدرسے میں داخلہ ہی کیوں لیا اور عوام کی دی ہوئی رقم کا ضیاع کیوں کیا۔کیا اس کام کے لئے یہ ترکیب نہیں ہوسکتی کہ کالجوں میں جو مسلم طلباء پڑھتے ہیں ان کو ایک پروفیشنل کورس کرایاجائے اور ان کے لئے یہ ضروری کیا جائے کہ فراغت کے بعد یا دوران تعلیم ہی اس پروفیشنل کورس کو پڑھے اور ا س کے امتحانات میں پابندی کے ساتھ حاضر ہوں۔ جیسا کہ ہندوستان میں بعض جگہوں میں اس کا چلن ہے اور مسلم والدین کسی نہ کسی طرح اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم سے آرا ستہ کرتے ہیں۔ اور ان کو مسجد یا مدرسہ میں پڑھا کر اس بوجھـ سے سبکدوش ہو جاتے ہیں کہ میرا بچہ تو ماشاء اللہ قرآن پڑھ لیتاہے اور میری بیٹی بہشتی زیور پڑھ لیتی ہے۔ ان ہی مکتبوں کے تعلیمی نظام میں ترمیم کرکے اور اسکے لئے ایک عمدہ کورس تیار کر کے بھی عصری علوم حاصل کرنے والے مسلم نوجوانوں کو اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور کیا جا سکتا ہے اور ان کا ذہن اسلامی بنایا جا سکتاہے۔ اور بھی دوسرے اقدام علماء اس راستہ میں اٹھا سکتے ہیں۔ مگر دینی مدرسے میں داخلہ کا شرطِ اول ہی یہی ہونی چاہئے کہ وہ دین کا داعی و معلم قرآن بن کر پیدا ہوں نہ کہ معلم شیطان بن کرپیدا ہوں۔ مدارس کا تعلیمی نظام اتنا ٹھوس اور اتنا پختہ ہو نا چاہئے کہ طلباء اپنا اوڑھنا بچھونا اسی کوبنالیں اوروہی ان کی زندگی کا نصب العین ہوجائے۔ ان کی تربیت ایسی مدبرانہ اور مفکرانہ انداز میں ہونی چاہئے کہ وہ مادیت سے نہ گھبرائیں اور اخروی زندگی کے عیش و آرام دنیوی زندگی کے سامنے بھدہ اور ناکارہ لگے۔ ان کی ذہنیت کی پرورش اتنی چالاکی اور ہوشیاری سےکی جائے کہ وہ بس اتنا جانیں کہ ان کے پیدا ہونے کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے دینی علوم کو سیکھنا اور اس کی ترویج و اشاعت کرنا۔ اور بار بار ان کو اس بات کا احساس دلایا جا تا رہے۔ جس طرح عیسائیوں میں جو عورتیں سسٹر بنتی ہیں یا جو مرد فادر بنتے ہیں ان کو اس بات سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا کہ باہر کی دنیا میں کیسی کیسی ایجادات ہو رہی ہیں اور ٹکنالوجی کا عروج کہا ں تک ہو چکا ہے۔ فکر یہی ہونی چاہئے کہ طلباء خالص مولوی و مفکر اسلام بن کر پیداہوں اور قرآن و حدیث ان کو ازبر ہو اس کے لئے چاہے دس سال سے پندرہ سال لگیں ۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ آج اہل مدارس ایک دوسرے پر عمارتوں کی بلندی اور اس کی تعداد پر فخرکرتے ہیں جو بالکل حرام اور ناجائز ہے اگر فخر ہی کرنا ہے تو ایک مدرسہ دوسرے مدرسہ کے بچوں کو قرآنی تفسیرات پراحادیث کی یادداشت پر، عربی زبان دانی ، اردو وعربی تعبیرات وانشاء پردازی پر فخر کرے ، غزالی و ابن تیمیہ جیسی شخصیت پیدا کرنے پر فخر کرے۔

کوئی بھی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ مدارس کے طلباء یک قلم انگریزی زبان، حساب وکتاب، اور دیگر عصری علوم سے ناواقف اور بے بہرہ ہوں بلکہ ان کو اس حد تک ان علوم کی تعلیم دی جائے کہ وہ اس سے فائدہ تو اٹھا سکیں لیکن اس کو ذریعہ معاش نہ بنا سکیں۔ کیوں کہ اگر ان کو انہیں علوم کو ذریعہ معاش بنانا تھا توپھر مدارس میں داخلہ کی ضرورت ہی کیا تھی ۔ قوم مدارس کی امداد اس لئے نہیں کرتی کہ اس کے اندر کوئی ڈاکٹر اور کوئی انجینیر پیدا ہوگا بلکہ اس لئے کرتی ہے کہ کوئی عالم ، حافظ و قاری ، مفکر و مدبر پیدا ہوکر دین کی خدمت کرے گا اور ان کو بھی اس کا ثواب ملیگا۔ اگر ان کو اس بات کا احساس ہوجائے کہ یہاں دینی علوم سے واسطہ رکھنے والے کم اور دنیوی علوم میں دماغ لگانے والے زیادہ تیار ہوتے ہیں تو بلا شبہ وہ اپنی امداد روک لیں ۔

Mohd. Inamul Haque Qasmi
Al-Subeaei United Trading Co. Ltd.
P.O. Box 1617, Riyadh-11441, K.S.A.
Tel: +966-1-4021055-4029980
Fax: +966-1- 4026478
Mob. +966 559 064 904

Wednesday, February 09, 2011

اایک ملاقات اپنے اساتذہ کے ساتھ

اردو مرکز کی بزم خواتین کے زیر اہتمام انجمن اسلام کی سبکدوش خواتین اساتذہ کی تہنیتی نشست بروز اتوار 6فروری شام میں 4 بجے منعقد کی گئیں ۔اس تقریب میں انجمن اسلام ٹرسٹ کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی صاحب ،انجمن اسلام بورڈ کی ڈائریکٹر مسسز ریحانہ اندرے صاحبہ ،انجمن اسلام بلاسیس کی پرنسپل نجمہ قاضی صاحبہ ،ممبئی اور اطراف کی تمام معزّز سبکدوش خواتین اساتذہ اور دوسری مشہور و معروف شخصیتیں موجود تھیں ۔ اس تہنیتی نشست کی صدارت باندرہ انجمن کی سبکدوش پرنسپل رشیدہ قاضی صاحبہ نے کی اور مہمان خصوصی ڈاکٹر ظہیر قاضی صاحب رہے ۔ اس پروگرام میں نظامت کے فرائض انیسہ انصاری نے ادا کۓ ۔ ریحانہ اندرے صاحبہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ انجمن اسلام نے ہمیں جینے کا سلیقہ سکھایا ہے ۔ہماری اساتذہ نے ہمیں سماج اور سو سائٹی میں رہنے کا طریقہ سکھایا ہے ۔ ہم تو زندگی بھر ان کے قرضدار رہیں گے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ عورت کمزور ہوتی ہے ۔مگر عورتیں کمزور نہیں ہوتیں ۔بلکہ وہ ایک اچھی معمار ہوتی ہیں ۔ایک اسکول ہی انسان کی زندگی میں ایک اہم رول ادا کرسکتا ہے ۔ہم اردو زبان سے پڑھ رہے ہیں ۔ ہمارا انجمن ہماری زبان آکسفورڈ سے کم نہیں ہے ۔ ممتاز نکہت نے کہا کہ میں اپنے اساتذہ کا شکریہ ادا کروں گی ۔ ان کی بدولت ہی آج میں اونچائی تک پہنچ گئی ہوں ۔ محترمہ نجمہ قاضی صاحبہ نے بہت ہی جذباتی انداز میں گفتگو کیں اور اپنے تاثرات بیان کۓ ۔اور کہا کہ ہر ایک سبکدوش ٹیچرس انجمن کی اینٹوں سےجڑے ہوۓ ہیں ۔ہمیں بن تمام سبکدوش اساتذہ کو ریٹائرڈ نہیں ماننا ہے بلکہ ان کی اب ایک نئی شروعات ہوئی ہے ۔ وہ اب اپنا زیادہ وقت دے سکتے ہیں ۔ہمیں ان اساتذہ کو ساتھ لے کر ۔ ایک مینٹرشیپ بنانی ہے ۔ جس میں ہمیں ان کے تجربات کام آئيں گے ۔ اس بات کی تائید صدر انجمن نے بھی کیں ۔ نجمہ میم نے انجمن بلاسیس کی پہلی پرنسپل مس سمسن کا بھی ذکر کیا ۔ اور اسکول کو انٹرنیشنل اسکول بنانے کی بات کیں ۔ڈاکٹر ظہیر قاضی صاحب نے اپنے تاثرات بیان کۓ ۔پھر دشیدہ قاضی صاحبہ ،فاطمہ انیس صاحبہ ، سعیدہ مس نعمانی مس ،نور جہاں مس ، ریحانہ آپا ،عزیزہ موزہ والا ، مسسز تاج آپا ،حسنہ داؤد ، مہرالنساء آپا ، مم۔۔تاز نکہت اور غزالہ باجی نے اپنے تاثّرات پیش کۓ۔ وہاں کا ماحول بہت خوش گوار تھا ۔ تمام کے چہرے خوشی سے مسکرارہے تھے ۔ ایک دوسرے سے مل کر خوشی محسوس کررہے ۔تھے ۔ارد و مرکز کے ڈائریکٹر زبیر اعظم اعظمی صاحب نے سب کا استقبال کیا ۔ اور آخر میں فریدخان نے رسم شکریہ ادا کیں ۔ یہ نشست کامیاب رہیں
۔

مراسلہ

Friday, February 04, 2011

علّامہ سیماب اکبرآبادی کی یادیں چھہ دہایوں بعد


حامد اقبال صدیقی









Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP