You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Tuesday, May 26, 2020

آہ ‏پدم شری مجتبی حسین ‏نہیں ‏رہے

اردو کے مشہور مزاح نگار پدم شری جناب مجتبیٰ حسین کا انتقال ہوگیا ۔انہوں نے 1962ء میں محکمہ اطلاعات میں ملازمت کاآغاز کیا۔ 1972 میں دہلی میں گجرال کمیٹی کے ریسرچ شعبہ سے وابستہ ہو گئے۔دلی میں مختلف محکموں میں ملازمت کے بعد 1992 میں ریٹائر ہو گئے۔ مجتبیٰ حسین ملک کے پہلے طنزومزاح کے ادیب ہیں جن کو وفاقی حکومت نے بحیثیت مزاح نگار پدم شری کے باوقار سویلین اعزاز سے نوازا۔ تاہم انہوں نے جاریہ سال کے اوائل میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بطور احتجاج پدم شری ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا تھا۔ قارئین کو زندگی بھر ہنسانے والا یہ ادیب جاتے جاتے ہمیں غمگین کرگیا ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔
مجتبیٰ حسین کے مضامین پر مشتمل 22 سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی 7 کتابیں ہندی زبان میں شائع ہویئں۔ جاپانی اور اڑیہ زبان میں بھی ایک ایک کتاب شائع کی گئی

Thursday, April 23, 2020

اردو ‏کے ‏سپاہی ‏

عروس البلاد شہر ممبئی سے شائع ھونے والے اردو روزناموں میں *روزنامہ ہندوستان* کا شمار بھی قدیم اور یلاناغہ شائع ھونے والے ج   مرااریدوں میں ھوتا ھے ۔ آج 23 اپریل کو اسکے بانی ٰ مالک و مدیرِ اعلی اور اردو کے سپاہی مرحوم  غلام احمد خان *آرزو* کو انکے یومِ وفات پر *خراجِ عقیدت* پبش کرتے ہیں ۔ 
ﷲتعالی مرحوم کو غریقِ رحمت کرے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔ آمین
اپنے دورِ ادارت میں مرحوم نے کئی نومشق شعراء ٰ ادباء اور صحافیوں کو موقع دیا جنہوں نے بعد میں آگے چل کر اپنے اپنے دائرۂ عمل میں خوب نام کمایا ۔ معروف شاعر ٰ صاحبِ دیوان اور فلمی نغمہ نگار مرحوم *عیش کنول* ( بزم شعراء کے پہلے صدر ) ٰ اور مشہور ناظمِ مشاعرہ اور معروف ادیب و قلم کار مرحوم *سعید متھراوی* ( نائب صدر بزم شعراء )  اور بھی کئی لوگ مرحوم آرزو صاحب سینئر کی ہی دین تھے ۔

Tuesday, April 14, 2020

ڈراما مالیگاؤں آ گیا؟؟؟

ڈراما مالیگاؤں آگیا؟ از۔ ایم مبین 

کردار
بوڑھی : بس کی ایک بوڑھیا مسافر
کنڈیکٹر : بس کا کنڈیکٹر
ڈرائیور : بس کا ڈرائیور
بس کے چند مسافر …
(منظر :  ایک بس کے اندر کا منظر۔ رات کا وقت ہے۔ مسافر اپنے اپنے سیٹ پر بیٹھے یا تو سورہے ہیں یا اونگھ رہے ہیں۔ اگلی سیٹ پر ڈرائیور بیٹھا بس چلا رہا ہے۔ آخر سیٹ پر بیٹھا کنڈیکٹر خراٹے لے رہا ہے۔ اس سے دو سیٹ آگے ایک بوڑھی عورت بیٹھی جاگ رہی ہے۔ وہ بے چینی سے کبھی کھڑکی کے باہر دیکھتی ہے تو کبھی مڑ کر کنڈیکٹر کو دیکھنے لگتی ہے۔)
بوڑھی : (کنڈیکٹر کو جگاتے ہوئے) بیٹا! کنڈیکٹر۔
کنڈیکٹر : (چونک کر) کون؟ کیا بات ہے؟
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آیا؟
کنڈیکٹر : (جھلا کر) اماں! تمہارا دماغ توخراب نہیں ہوگیا! ابھی تو منماڑ بھی نہیں آیا تو مالیگائوں کہا ںسے آئے گا۔!
بوڑھی : بیٹا پھر یہ کونسا اسٹاپ ہے؟
کنڈیکٹر : اسٹاپ کہاں ہے اماں! ابھی تو بس چل رہی ہے۔
بوڑھی : اب کونسا اسٹاپ آنے والا ہے۔ 
کنڈیکٹر : اماں انکائی آنے والا ہے۔ لیکن وہاں بس نہیں رکتی ہے… صرف منماڑ میں بس رکے گی۔ 
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں کب آئے گا۔؟
کنڈیکٹر : اماں! منماڑ کے بعد والا اسٹاپ مالیگائوں ہی ہے۔ 
بوڑھی : اچھا اچھا۔
کنڈیکٹر : تم ایولہ سے بیٹھی ہوں نا؟
 کنڈیکٹر : ۔اماں ابھی ایولہ چھوڑے ہوئے بس کو ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوا ہے۔ مالیگائوں آنے میں دیڑھ دو گھنٹہ لگیں گے۔ 
بوڑھی : اچھا بیٹا! رات کاوقت ہے۔ میرے پاس گھڑی بھی نہیں ہے۔ اس لئے اندازہ نہیں ہورہا ہے کہ کونسا اسٹاپ آرہا ہے۔ 
ایک مسافر : اماں تم اطمینان رکھو! بلکہ میں کہوں گا تم ایک آدھ گھنٹہ سو جائو۔ مالیگائوں آجائے گا تو بس رک جائے گی کنڈیکٹر ، میں یا کوئی مسافر تمہیں جگادے گا ۔
بوڑھی : اس بڑھاپے میں نیند کہاں آتی ہے بیٹا!
مسافر : اگر تمہیں نیند نہیں آرہی ہے تو کم سے کم دوسروں کی نیند تو خراب مت کرو۔ خود نہیں سورہی ہو تو کم سے کم دوسروں کو تو سونے دو۔
بوڑھی : سوجائو بیٹا! میں کب چاہتی ہوں کہ میری وجہ سے دوسروں کی نیند خراب ہو۔
مسافر : ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ 
(مسافر سونے کی کوشش کرتا ہے بوڑھی آنکھ بند کرتی ہے پر کھول کربے چینی سے چاروں طرف دیکھنے لگتی ہے۔ پھرآنکھ بند کرکے سیٹ سے پشت لگا دیتی ہے۔ پھر اپنے بازو والے مسافر کو اٹھاتی ہے۔)
بوڑھی : بیٹا! یہ بس مالیگائوں رکے گی نا۔
بازووالا : (آنکھ ملتے ہوئے) اماں یہ بس جلگائوں جارہی ہے۔
بوڑھی : یہ تو مجھے بھی معلوم ہے۔ 
بازووالا : پھر اتنا نہیں جانتی کہ یہ بس مالیگائوں سے ہوکر جلگائوں جائے گی اور مالیگائوں بھی رکے گی۔
بوڑھی : اطمینان نہیں ہورہا ہے نا بیٹا۔
بازووالا : اطمینان رکھو۔۔ اماں! یہ بس مالیگائوں ضرور رکے گی۔
بوڑھی : اچھا بیٹا۔ 
(سیٹ پر سر رکھ کر سونے کی کوشش کرتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد بس کے اندرکی بتی جلتی ہے۔ بس رک جاتی ہے۔ کنڈیکٹر آنکھیں ملتا ہوا جاگتا ہے۔ کھڑکی کے باہر جھانکتا ہے اور آواز لگاتا ہے۔ )
کنڈیکٹر : اے منماڑ آگیا۔ منماڑ! ہے کوئی منماڑ میں اترنے والا۔ 
(ایک مسافر اٹھتا ہے۔ اپنا بیگ لیکر بس سے اتر جاتا ہے۔ بوڑھی چونک کر اٹھتی ہے۔)
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آگیا؟
کنڈیکٹر : نہیں اماں مالیگائوں نہیں آیا۔
بوڑھی : پھر یہ بس کیوں رک گئی ہے؟ یہ کونسا اسٹاپ ہے؟
ایک مسافر : اماں یہ منماڑ ہے۔
بوڑھی : مالیگائوں کب آئے گا؟
دوسرامسافر: اماں! مالیگائوں اس کے بعد کااسٹاپ ہے۔ 
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آئے تو مجھے بتادینا۔ 
پہلا مسافر : اماں فکر مت کرو! مالیگائوں آئے گا تو ہر کوئی تمہیں بتادے گا کہ مالیگائوں آگیا ہے۔ 
بوڑھی : اچھا بیٹا۔
کنڈیکٹر : (آواز لگاکہ) ہے کوئی۔۔ مالیگائوں، دھولیہ، جلگائوں (بس میں کوئی نہیں چڑھتا ہے ۔ کنڈیکٹر ڈبل بیل دیتا ہے بس چل دیتی ہے۔ اندر کی بتی بجھ جاتی ہے۔سارے مسافر پھر سوجاتے ہیں۔ بوڑھی اپنے پیچھے والی سیٹ کے مسافر کو جگاتی ہے۔)
بوڑھی : بیٹا سنو!
مسافر : کیا بات ہے اماں؟
(مسافر آنکھیں ملتا بوڑھی کی طرف دیکھتا ہے۔)
بوڑھی : مالیگائوں کتنی دیر میں آئے گا؟
مسافر : اماں میںتو سورہا تھا۔ پتہ نہیں بس کونسے اسٹاپ پر رکی تھی اور اس وقت کہاں ہے؟
بوڑھی : بیٹاابھی منماڑ پر رکی تھی۔
مسافر : تو اماں! ایک گھنٹہ بعد مالیگائوں آجائے گا۔ رات کا وقت ہے اگر ڈرائیور نے تیز بس چلائے تو ممکن ہے 45منٹ بعد بھی مالیگائوں آجائے۔ 
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آجائے تو مجھے جگادینا۔
مسافر : اچھا اماں! میں جاگا رہا تو مالیگائوں آنے پر آپ کو جگادوں گا۔
بوڑھی : ٹھیک ہے بیٹا۔
مسافر : اماں تم سوجائو۔ اور مجھے اور دوسرے مسافروں کو بھی سونے دو…
بوڑھی : اچھا بیٹا!
(کہہ کر سیٹ سے پشت لگا کر آنکھیں بند کردیتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد گہرے گہرے خراٹے لینے لگتی ہے۔ بس چلتی رہتی ہے۔ وقت گزرتا ہے…کچھ وقفہ کے بعد بس کے اندر کی بتیاں جلتی ہیں۔ بس رک جاتی ہے ۔ کنڈیکٹر آنکھیں ملتا اٹھتا ہے۔ کھڑکی سے باہر جھانک کر آواز لگاتا ہے۔)
کنڈیکٹر : مالیگائوں آگیا۔ مالیگائوں۔ ہے کوئی مالیگائوں اتر نے والا؟
(ایک دومسافر اپنا سامان لیکر بس سے اتر جاتے ہیں ایک دو مسافر بس میں چڑھ کر سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ بوڑھی خراٹے لے رہی ہے۔ کنڈیکٹر ڈبل بیل دیتا ہے بس چل دیتی ہے۔ بس کے اندر کی بتی بجھ جاتی ہے تھوڑی دیر بعد… بوڑھی بس کو لگنے والے جھٹکے سے اچانک چونک کر اٹھتی ہے اور گھبرا کر چاروں طرف دیکھنے لگتی ہے۔ پھر بازو والے مسافر کو جگاتی ہے۔)
بوڑھی : بیٹا کیا مالیگائوں آگیا؟
بازو والا : (نیند میں) پتہ نہیں اماں! مالیگائوں آیا یا نہیں مجھے علم نہیں ہے میں تو سورہا تھا۔
بوڑھی : اچھا بیٹا۔
بازو والا : کسی اور مسافر سے پوچھ لو۔
بوڑھی : اچھا بیٹا۔
(سامنے والی سیٹ کے مسافر کو جھنجھوڑ تی ہے)
مسافر : (چونک کر) کیا بات ہے؟
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آیا؟
مسافر : پتہ نہیں اماں۔ مالیگائوں آیا یا نہیں آیا۔میں نہیں جانتا۔ میں تو سورہا تھا۔ تم کنڈیکٹر سے پوچھ لو۔
بوڑھی : بیٹا وہ بھی تو سورہا ہے۔ 
مسافر : تو ڈرائیور سے پوچھ لو۔ وہ تو جاگ رہا ہے۔ اسے تو پتہ ہوگا کہ مالیگائوں آیا یا نہیں۔ 
بوڑھی : اچھا بیٹا۔ (آواز لگا کر) اے ڈرائیور بیٹے اے ڈرائیور بیٹے۔
ڈرائیور : (پیچھے مڑکر)جی ماں جی
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آگیا؟
ڈرائیور : مالیگائوں تو کب کا آکر جا چکا ہے۔ بس اب دھولیہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مالیگائوں سے 15,10کلومیٹر آگے آگئی ہے۔ 
بوڑھی : (کلیجہ تھام کر) ہائے! مالیگائوں آکر چلا گیا اور کسی نے مجھے بتایا نہیں۔ 
(بوڑھی کی چیخ سن کر سارے مسافر جاگ اٹھتے ہیں۔)
پہلا مسافر : کیا بات ہے اماں مالیگائوں آکر چلا گیا؟
بوڑھی : ہاں بیٹا! ڈرائیور تو کہہ رہا ہے مالیگائوںآکرجاچکا ہے۔
دوسرا مسافر : مالیگائوں آکر چلا گیا اور کسی نے بھی تمہیں نہیں جگایا اماں!
بوڑھی : (روہانسی آواز میں) ہاں بیٹا۔
دوسرا مسافر : کنڈیکٹر نے بھی نہیں؟
بوڑھی : نہیں بیٹا۔
پہلا مسافر : (غصے سے) یہ تو کنڈیکٹر کی لاپرواہی ہے۔ کہاں ہے کنڈیکٹر؟
دوسرا مسافر : سو رہا ہے۔ 
پہلا مسافر : جگائو اسے؟
پہلا مسافر : (کنڈیکٹر کو جگاتے ہوئے) کنڈیکٹر صاحب ذرا نیند سے جاگنا تو…
کنڈیکٹر : (آنکھ ملتے ہوئے) کیا بات ہے۔؟
مسافر : مالیگائو ں آگیا؟
کنڈیکٹر : مالیگائوں تو کب کا آکر جا چکا ہے۔ تھوڑی دیر میں دھولیہ آئے گا۔
دوسرا مسافر : مالیگائوں آیا تو تم نے اس بوڑھیا کو کیوں نہیں جگایا۔؟
کنڈیکٹر : آئی شپت۔ مجھے یاد ہی نہیں رہا ہے۔ 
پہلا مسافر : اس بوڑھی کو مالیگائوں میں اتر نا تھا۔ اب اس کا کیا کیا جائے۔؟
کنڈیکٹر : اسے ہم دھولیہ میں اتار دیں گے۔ وہ وہاں سے کوئی بس پکڑ کر مالیگائوں چلی جائے گی۔ 
دوسرامسافر : یہ بالکل غلط بات ہے۔ آدھی رات کو یہ بوڑھی عورت دھولیہ اتر کر اکیلی کس طرح مالیگائوں جائے گی۔ یہ ساری بس کے لوگوں سے کہہ چکی تھی کہ مالیگائوں آئے تو اسے جگا دیا جائے لیکن سب سورہے تھے کسی نے اسے نہیں جگایا۔ 
پہلا مسافر : دوسرے مسافروں کو تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن کنڈیکٹر صاحب! یہ تمہاری ڈیوٹی تھی تمہیں تو اس بوڑھی کو جگانا چاہئے تھا۔ 
کنڈیکٹر : میں نیند میں تھا۔ مالیگائوں آیا تو اس کے بارے میں بھول ہی گیا۔ 
دوسرا مسافر : جو کچھ بھی ہوا ہے ۔ غلطی تم سے ہوئی ہے اس لیے اس غلطی کو تمہیں ہی سدھارنا پڑے گا۔ اس بڑھیا کو مالیگائوں پہنچا نا پڑے گا۔ 
کنڈیکٹر : لیکن بس تو مالیگائوں سے 15کلو میٹر دور آگئی ہے۔ 
پہلامسافر : بس کو واپس مالیگائوںکی طرف موڑو۔ اوراس بڑھیا کو مالیگائوں پہونچاو۔ آدھی رات کو یہ اکیلی بڑھیا بھلا کہاں جائے گی۔ 
دوسرا مسافر : بس کو مالیگائوں کی طرف موڑو۔
تیسرا مسافر : غلطی تمہاری ہے۔ تمہیں اس کو سدھار نا پڑے گا۔ 
چھوتھا مسافر : بس کو مالیگائوں لے جایا جائے بھلے ہمارا وقت برباد ہوجائے۔ لیکن اس بڑھیا کو ہم آدھی رات کو اس طرح نہیں چھوڑ سکتے۔
کنڈیکٹر : (بس ڈرائیورسے) کیا کیا جائے؟
ڈرائیور : تم کہو تو میں بس کو مالیگائوں کی طرف موڑتا ہوں۔ غلطی سچ مچ ہمار ی ہے اور یہ انسانیت کا تقاضہ بھی ہے۔ اتنی رات کو ہم اس بوڑھیا کو اکیلے دھولیہ کے بس اسٹینڈ پر کس طرح چھوڑ سکتے ہیں۔ پھر جب بس کے سار ے مسافر کہہ رہے ہیں کہ بڑھیا کو مالیگائوں لے جایا جائے بس کو واپس مالیگائوں کی طرف موڑ دیا جائے تو ہمیں بھی سب کی با ت مان لینی چاہئے۔
کنڈیکٹر : ٹھیک ہے۔ بس کو مالیگائوں کی طرف موڑ لو۔ ہم بڑھیا کو مالیگائوں چھوڑ کر واپس اپنا سفر شروع کریں گے۔ 
ڈرائیور : ٹھیک ہے۔ 
(بس کو موڑ تا ہے۔)
بوڑھی : (روتے ہوئے) مالیگائوں آکر چلا گیا اور مجھے کسی نے نہیں بتایا۔
پہلا مسافر : اماں! روومت! بس واپس مالیگائوں جارہی ہے۔ تمہاری لیے بس واپس مالیگائوں جارہی ہے۔ 
بوڑھی : ٹھیک ہے بیٹا! اس بار مالیگائوں آئے تو بتانا۔
مسافر : اماں ہر کوئی تمہیں بتائے گا مالیگائوں آگیا ہے۔ تم اطمینان رکھو۔
بوڑھی : اچھا بیٹا!
(بس چلتی ہے تھوڑی دیر بعد بس کے اندر بتی جلتی ہے اور بس رک جاتی ہے۔)
کنڈیکٹر : لو اماں! مالیگائوں آگیا۔
بوڑھی : اچھا بیٹا!(اپنی گود میں رکھی تھیلی کھولتی ہے ) 
کنڈیکٹر : اماں اپنا سامان سمیٹو اور جلدی سے بس سے اترو۔ تمہارے لیے 15کلو میٹر سے واپس آئی ہے تمہارا مالیگائوں آگیا ہے اب جو کرنا ہے وہ کرو۔
بوڑھی : ہاں بیٹا وہی تو کررہی ہوں جو مجھے مالیگائوں آنے پر کرنا تھا۔
کنڈیکٹر : اماں! مالیگائوں آنے پر تمہیں کیا کرنا تھا؟
بوڑھی : مالیگائوں آنے پر مجھے دوا کی ایک خوراک پینی تھی۔ میری بیٹی نے مجھ سے کہا تھا۔ مالیگائوں آنے پر یاد سے دھیان سے دوا کی ایک خوراک لے لینا۔ وہی کر رہی ہوں۔ 
(دوا کی خوراک لیتی ہے۔)
کنڈیکٹر : تو مالیگائوں میں تمہیں دوا پینی تھی؟
بوڑھی : ہاں بیٹا!
کنڈیکٹر : تمہیں جانا کہاں ہے؟
بوڑھی : مجھے دھولیہ جانا ہے بیٹا!
سب : (ایک ساتھ ) تم کو دھولیہ جانا ہے……


(پردہ گرتا ہے)

Sunday, April 12, 2020

ڈونلڈ ٹرمپ : دوست دوست نہ رہادشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے ڈاکٹر سلیم خانکورونا کی دوائی کو لے کر ہندوستان اور امریکہ کے درمیان حالیہ تنازع پر ایک حکایت یاد آگئی ۔ کہیں پڑھا تھا کہ ایک مرتبہ کچھ ماہرین حیوانیات میں اس بات پر اختلاف ہوگیا کہ بندریا اپنی اولاد سے کس قدر محبت کرتی ہے۔ کچھ لوگ کا خیال تھا کہ وہ اپنی جان سے زیادہ اپنی اولاد کو چاہتی ہے جیسا کہ انسانوں کی ماں اپنے بچوں کے لیے اپنی جان دے دیتی ہے لیکن کچھ اس سے متفق نہیں تھے ۔ خیر اس مفروضے کو تجربے سے گزارنے کے لیے انہوں نے ایک بندریا کو اس کو بچے سمیت حوض کے درمیان بنے چبوترے کے پاس بیٹھا دیا اور پانی کی سطح بڑھانے لگے ۔ سطح آب جب کچھ اونچی ہوئی تو بندریا اپنے بچے کے ساتھ چبوترے پر چڑھ گئی ۔ پانی کی سطح کومزید اونچا ہوتے ہوئے دیکھ کر بندریا نے بچے کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا ۔ جب پانی بندریا کے ناک تک آگیا تو بندریا اپنے بچے کو چبوترے پر رکھ اوپر کھڑی ہوگئی ۔ تجربہ ختم ہوگیا اور یہ نتیجہ اخذ کرلیا گیا کہ جب اپنی جان پر بن آتی ہے تو سارے تعلقات پامال ہو جاتے ہیں۔ کورونا کی قیامتِ صغریٰ نے اس منظر کی جھلک پیش کردی ہے کہ عذاب الٰہی سے بچنے کے لیے انسان مال و اسباب، رشتے ناطے اور دوستی یاری سب داوں پر لگادے گا۔کلورو کوین نام کی دوا ملیریا کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ فی الحال ترقی یافتہ دنیا میں نہ مچھر ہے اور نہ ملیریا اس لیے یہ دوائی ہندو پاک جیسے ترقی پذیر ممالک میں بنتی اور کھپتی ہے۔ کلورکوین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دل کا عارضہ سے محفوظ کورونا کے معالجین کی خاطر مفید ہوسکتی ہے لیکن سائنسی حلقہ میں یہ حتمی بات نہیں ہے کیونکہ اس تحقیق کا دائرہ بہت محدود ہے مزید مطالعہ درکار ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق یہ کلوروکوین انفلوئنزہ اور دوسرے وائرل انفیکشن کو روکنے میں ناکام رہی ہے لیکن یہ قیاس ہے کہ کورونا کا جرثومہ اس کے ذریعہ قابو میں آجائے گا۔ یونیورسٹی اور مینی سوٹا کے سائنسداں اس کی افادیت پر کام کررہے ہیں لیکن اب تک کووہ کسی ٹھوس ثبوت نہیں فراہم سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ فوڈ اور ڈرگس کے انتظامیہ نے اسے کووڈ 19 کا علاج تسلیم نہیں کیا ۔ یہ اور بات ہے صدر ٹرمپ اس پر فدا ہوگئے۔ ایسے میں یہ اندیشہ بھی پیدا ہوتا کہ کہیں یہ نقصان دہ تو نہیں ؟ کورونا سے ہلکے متاثرین کی حد تک تو اس کا ستعمال ہونے لگا ہے لیکن جو اس بری طرح اس کی لپیٹ میں آگئے انہیں یہ دوا نہیں دی جارہی ہے۔ دل ، جگر،گردہ اور آنکھ پر اس منفی اثرات ظاہر ہوتے ہیں ۔اس لیے ڈاکٹر کی صلاح کے بغیر اس کا ستعمال ہر گز نہیں کیا جانا چاہیے۔اس سائنسی حقائق سے قطع نظر فی الحال دنیا میں کورونا کے سب سے زیادہ مریض اور ہلاکتیں امریکہ میں ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے عصرِ حاضر کا سپر پاور کن مشکلات سے دوچار ہے ۔ ایسے میں امریکیوں نے ہندوستان سےہائیڈروکسی کلورکوین درآمد کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس سے قبل بھارت ادویات کی برآمد پر پابندی لگا چکا تھا ۔ اس معاملے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود فون کرکے وزیراعظم مودی سے درخواست بھی کی لیکن اس کا جواب سردمہری کی صورت میں ملا ۔ اقوام متحدہ میں عالمی حفظان صحت کے ادارے ڈبلیو ایچ اور نے 31جنوری 2020کوکورونا کے عالمی وباء ہونے کا اعلان کردیا مگر ٹرمپ اس کا چینی وائرس کہہ کر مذاق اڑاتے رہے ۔ فروری کے اواخر میں ہندوستان آئے اور دہلی کے فساد سے آنکھ موند کر لوٹ گئے ۔ ساری دنیا میں یہ تاثر دیا گیا کہ ہندوستان کے امریکہ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں ۔ اس دوستی کا خیال کرکے حکومت ہند امریکی گزارش کو وہاں پھیلی تباہی کے بہانے شرف قبولیت دےکر استثناء کے طور پر خاموشی سے فاضل اسٹاک روانہ کردیتی تو یہ معا ملہ خاموشی کے ساتھ نمٹ جاتا اور اس سے ہند امریکی تعلقات مزید بہتر ہوجاتے لیکن مودی سرکار میں دور اندیشی کے ساتھ ساتھ قوت فیصلہ کے فقدان نے سارا کھیل بگاڑ دیا ۔صدر ٹرمپ نے ٹرمپ نے سنیچر۴ اپریل کو فون کرکے درخواست کی تھی لیکن مودی جی دیا بتی جلانے میں مصروف تھے ۔ اس کے بعد اتوار اور پیر کا دن بھی گزر گیا مگرہماری حکومت سوتی رہی۔ امریکہ کی درخواست پر سرد مہری کا مظاہرہ کرنے والی مودی سرکار یہ بھول گئی کہ انکل سام کا گھی اگر سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو اسے ٹیڑھی کرکے نکالنے کا فن بھی آتا ہے۔ آخر وہی ہوا کہ جس کا ڈر تھا ۔ ۷ اپریل کی صبح ۴ بجے (ہندوستانی وقت کے مطابق) ٹرمپ نے دھمکی دی کہ”اگر ہندوستان کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے اہم دواؤں کی برآمد نہیں کرتا ہے تو اسے امریکہ کا بدلہ جھیلنا پڑ ے گا۔‘‘ ٹرمپ کی تنبیہ کا اثر یہ ہوا کہ ہندوستان نے کلوروکوین کے ساتھ تقریباً 25 ادویات پر لگی برآمدات کی پابندی اٹھالی ۔ مرکزی کامرس اینڈ انڈسٹری کی وزارت نے مدافعتی مزاحمت میں اضافہ کرنے اوردرد کش ادویات کے علاوہ وٹامن کی برآمدات کا راستہ بھی صاف کردیا۔امریکہ کی دھمکی سے ۶ گھنٹے بعد کیا جانے والا یہ فیصلہ اگر دھمکی سے پہلے ہوجاتاجاتا تو ملک بلا وجہ کی ذلت سے بچ جاتا ۔ اس رسوائی کے لیے مودی سرکار پوری طرح ذمہ دار ہے۔کلورو کوین کے اس تنازع نے ہند امریکی تعلقات کی قلعی کھول دی ۔ وزیر اعظم مودی کی براک اوبامہ سے بہت گہری دوستی تھی ۔ اوبامہ نے مودی کے وزیر اعظم بنتے ہی ان پر امریکہ میں داخلہ پر پابندی کو اٹھالیا اور امریکی دورے کے موقع پر غیر معمولی استقبال کیا ۔ اس میں مودی جی کا کوئی کمال نہیں تھا ان کی جگہ اگر یوگی ادیتیہ ناتھ کی بھی لاٹری لگ جاتی تب بھی یہی معاملہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کے خیمےمیں تھا اور امریکہ میں ڈیموکریٹ مرکز سے بائیں بازو والے نظریات کے حامل ہے اس لیے ان کے اقتدار میں آتے ہی ہند امریکی تعلقات بہتر ہوجاتے ہیں ۔ ریپبلکن پارٹی کے صدور کی عام طور سے پاکستان پر نظر کرم رہتی ہے۔ اسی بناء پربل کلنٹن کے اٹل جی سے اچھے تعلقات تھے۔ مودی جی کے ہیلری کلنٹن کی جانب جھکاو کی یہی وجہ تھی حالانکہ مودی بھکت ٹرمپ کی مسلم دشمنی کے سبب دوسری جانب تھے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکہ کو طالبان سے معاہدہ کرنے کی خاطر پاکستان کی ضرورت پیش آئی اور ہند امریکی تعلقات مزید سرد مہری کا شکار ہوگئے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے پچھلا سال ایک بھیانک خواب کی طرح تھا ۔ ان کے خلاف مواخذے کی قراد داد امریکی ایوان نمائندگان نے منظور کرلی ۔ٹرمپ کی عدم مقبولیت میں اس قدر اضافہ ہوگیا تھا کہ دوبارہ امیدواری مشکوک ہوگئی ۔ ایسے میں مودی جی ’ ہاوڈی مودی ‘ کا تماشا کرنے کے لیے ہیوسٹن پہنچے اور ہندوستانیوں کے جم غفیر سے خطاب کیا۔ کشمیر کے اندر اپنی حماقت کی پردہ داری کے لیے مودی کو اس کی ضرورت تھی ۔ انہوں نے امریکہ میں جاکر یہ اعلان کیا کہ ہندوستان میں سب کچھ چنگا ہے اور ٹرمپ سے بابائے قوم کا خطاب لے کر لوٹ آئے۔ واپس آنے کے بعد احسانمندی کے طور پر فروری 2020کے اواخر میں ٹرمپ کو نمستے کرنے کے لیے ہندوستان آنے کی دعوت دی اس لیے کہ این پی آر اور این آر سی کے خلاف کامیاب تحریک نے مودی غیر مقبول کردیا تھا ۔ دہلی انتخابی ناکامی سے عوام کی توجہ ہٹانا کے لیے انہیں ایک کھیل تماشے کی ضرورت تھی ۔ یہ دونوں دورے غیر سرکاری تھے اس لیے ان میں کوئی اہم معاہدہ نہیں ہوا صرف عوام کو بیوقوف بنایا گیا اور سرکاری تجوری سے کروڈوں روپیوں کی ہولی کھیلی گئی۔ شاہ جی اکثر کہا کرتے ہیں کہ اگر بی جے پی ہار جائے گی تو پاکستان میں پٹاخے پھوٹیں گے لیکن کلوروکوین کے معاملے ٹرمپ دھمکی کے اثرات کو دیکھ کر عمران خان ضرور خوش ہوئے ہوں گے ۔ ایسے میں ہاتھ جوڑ کر نمستے ٹرمپ کہنے والوں پر یہ شعر صادق آتا ہے؎اے دوست تجھ کو رحم نہ آئے تو کیا کروں دشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے

Saturday, April 11, 2020

اے دیوانے

تجھے وطن  سے بھگایا جائے گا تب اٹھے گا
ترا   نشیمن   جلایا   جائے  گا  تب  اٹھے گا
بتا  اے دیوانہ!!!!!!!!!!!!   کب  اٹھے  گا؟؟؟؟

ابھی  شرافت  کادور  ہے  تو  پڑا  ہے سویا
ترا   تماشہ   بنایا   جائے   گا  تب   اٹھے گا
بتا   اے     دیوانہ!!!!!!   کب    اٹھے   گا؟؟؟

تو سنگ بازوں کے ہاتھوں کو کیوں نہ توڑ دیتا
ترا مکاں جب گرایا جائے گا تب اٹھے گا
بتا   اے     دیوانہ!!!!!!   کب    اٹھے   گا؟؟؟

ابھی چَھڑِی کےہی خوف سےہےتوگھرمیں بیٹھا
چُھرا  گلے  پر   چلایا  جائے  گا  تب اٹھے گا
بتا   اے دیوانہ!!!!!!!!!!!!!  کب      اٹھے گا؟؟ 

پکڑ   پکڑ   کر   ترا  عزیز اور پیارا  بچہ
کڑھائی  پر جب چڑھایا جائے گا تب اٹھے گا
بتا  اے دیوانہ!!!!!!!!!!  کب   اٹھے   گا؟؟؟؟

جوان اولاد ،  بھائی  ،بہن،  اور باپ، ماں کو
جگہ جگہ پر  ستایا  جائے  گا تب اٹھے گا
بتا  اے دیوانہ!!!!!!  کب   اٹھے  گا؟؟؟؟؟

جب آبرو عورتوں کی باقی نہ بچ سکے گی
جب ان کو زندہ جلایا جائے گا تب اٹھے گا
بتا اے دیوانہ!!!!!!!!!  کب اٹھے گا ؟؟؟؟؟؟؟

لہو لہو ہے  جو سارا  منظر تو کیوں ہے سویا
لہو  ترا    جب   بہایا    جائے  گا  تب اٹھے گا
بتا  اے دیوانہ!!!!!!!!!!!!! تو  کب   اٹھے گا؟؟؟؟؟

اے فانی کب تک یوں غفلتوں میں پڑا رہے گا
ترا نشاں جب مٹایا جائے گا تب اٹھے گا
بتا  اے دیوانہ!!!!!!  کب   اٹھے  گا؟؟؟؟؟

Wednesday, January 29, 2020

بولنا ہوگا

بولنا ھوگا
ارزاں ہے بہت شہر میں جاں، بولنا ھوگا

قاتل پسِ پردہ ہے یہاں، بولنا ھوگا

خوشبو نہ کوئی پھول تتّلی نہ کوئی رنگ

گلشن میں ہے کچھ اور سماں، بولنا ھوگا

اس بار سلامت ہے کوئی سر نہ کوئی گھر

اب کے ہے عجب قحطِ اماں، بولنا ھوگا

اک چاپ ہے قدموں کی جو بستی کی طرف ہے

اُٹھنے کو ہے بستی سے دھواں، بولنا ھوگا

طاری ہے مرے شہر کی تاریخ پہ گریہ

تہذیب بھی ہے نوحہ کناں، بولنا ھوگا

ہم ہیں بہت مجبور کریں بھی تو کریں کیا

بس ایک ہی حربہ ہے میاں،بولنا ھوگا

اَسلوبِ وفا تو صفِ اوّل میں کُھلیں گے

ھونے کو ہے مقتل میں اذاں، بولنا ھوگا

سکندر مرزا

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP