You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Wednesday, November 30, 2016

خاموش مطالبی مورچہ

*ناندیڑ میں مسلمانوں کا خاموش مطالباتی مورچہ*

آج مورخہ 27 نومبر کو ناندیڑ میں مسلمانوں  کی جانب سے خاموش مطالباتی مورچہ کا انعقاد کیا گیا، جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ خواتین اور پانچ لاکھ مرد حضرات کا تخمیناً حاضر رہے، مورچہ کئی لحاظ سے امتیازی حیثیت حاصل کرچکا ہے، مراٹها سماج کی جانب سے منعقدہ مورچہ سے کم و بیش تین گنا زیادہ تعداد کا اندازہ بهی پیش کیا جارہا ہے، مورچہ اپنے ابتدائی مقام سے نکل کر چار کلو میٹر دور کلکٹر آفس پہنچنا جس میں سب سے آگے خواتین تهیں، خواتین جب آخری مقام پر پہنچیں تو مورچہ کے ابتدائی مقام سے آخیر مقام تک افراد موجود تهے،
🔺اس مورچہ میں صرف پلے کارڈ س موجود تھے، کسی بهی قسم کی نعرہ بازی کی اجازت نہیں تهی،
🔺 مورچہ کی ایک اور امتیازی خصوصیت یہ بهی تهی کہ اس میں صرف ایک ہی جهنڈا تها اور وہ بهی ترنگا،
🔺مطالباتی محضر کالج کے طالب علموں کے ایک وفد نے پیش کیا
🔺طلبہ کے علاوہ کسی نے بهی کوئی تقریر نہیں کی
🔺تمام سیاسی اور سماجی کارکن عوام کے ساتھ ہی رہے
🔺مسلم آرکشن سنگهرش کرتی سمیتی، ناندیڑ نے غیر معمولی پلاننگ کی اور مسلمانوں کے تمام ہی طبقات کو ایک پلیٹ پر بغیر کسی امتیاز کے ایک ہی رنگ میں رنگ دیا
🔺 ناندیڑ کے تمام 16 تعلقہ سے لوگ شریک رہے
🔺کئی ہزار کارنر میٹس اور سینکڑوں خطابات عام منعقد کی گئیں.
🔺 مطالبات میں 10 فیصد ریزرویشن، پرسنل لاء میں مداخلت، نوجوانوں کی بے جا گرفتاریاں، اور گائے کے نام پر پهیلائی جانے والی دہشت کے ازالہ کی بات کہی گئی.
🔺مورچہ کے دوران کمال ڈسپلن کا مظاہرہ کیا گیا.
🔺تین مرتبہ ایمبولینس کو جانے کیلئے جس طرح راستہ دیا گیا، وہ حیرت انگیز اور فقید المثال ہے، جس کے ویڈیو چند ہی منٹوں میں سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بن چکی ہیں.
🔺سو سے زائد کیمرے تهے لیکن خواتین کی فوٹوگرافی سے انتہائی احتراز کیا گیا، یہاں تک کے موبائیل فون سے بهی خواتین کی تصویر کشی اور ویڈیو گرافی منع تهی.
🔺پردہ دار خواتین اپنے دودھ پیتے بچوں کے ساتھ شریک رہیں، جگہ جگہ ایک دوسرے سے ہمدردی اور خیر خواہی کا اچها نمونہ لوگوں نے پیش کیا، اپنے آپ کو دوسروں پر ترجیح دینے کی اپیل کی گئی اس پر ہر شریک نے عمل کرتے ہوئے اجتماعی بیداری کا ثبوت پیش کیا.
🔺جماعت اسلامی ہند ناندیڑ کی مکمل تائید و حمایت اس مورچہ کو حاصل تهی.
🔺 حلقہ خواتین جماعت اسلامی ہند، ناندیڑ اور جی آئی او ناندیڑ یونٹ نے خواتین کو منظم انداز میں جمع کیا اور مورچہ میں غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا.
🔺چلڈرن سرکل نے پانی بسکٹ اور پهول تقسیم کئے
🔺 ناندیڑ میں تمام کاروبار دوکانیں مکمل بند رہیں.
اس مظاہرہ کے ذریعہ ملت میں تعلیمی، سماجی دینی سیاسی بیداری اور اعتماد کی لہر پیدا ہوئی ہے.

علی سردار جعفری

*علی سردار جعفری کا یومِ  پیدائش*

علی سردار جعفری اترپردیش کے گونڈہ ضلع میں بلرامپور میں 29 نومبر 1913 ء میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے لکھنؤ میں ایک مذہبی ماحول میں پرورش پائ تھی۔ تعلیمی اعتیبارسے انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا تھا. فری کی ذہانت کا یہ عالم تھا کہ آٹھ سال کی عمر میں وہ انیس کےمرثیوں میں سے1000 اشعار روانی سے پڑھتے تھے. وہ صرف پندرہ برس کے تھے جب انہوں خامہ فرسائ شروع کی تھی. انہوں نے ان کا ادبی سفر افسانہ نگاری سے شروع کیا تھا۔ 1938 میں ان کا پہلا افسانوں کا مجموعہ "منزل" شائع ہؤا تھا۔ مگر اس کے بعد انہوں نے شاعری کا رُخ کیا۔ علی سردار جعفری نے انقلابی اور حب الوطنی سے جڑی شاعری کی تھی جس کے سبب 1940 میں گرفتار ہوئے تھے۔ وہ بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کے ایک رکن کے طور پر کام کرتے تھے اور اس کی ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں میں مستعدی سے۔ اپنی شاعری کے ذریعے، وہ عوام میں سیاسی شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے. شاعری کے علاوہ جعفری ڈرامے اور افسانہ نگاری میں بھی خاصا عبور رکھتے تھے۔ وہ ممبئ سے چھپنے والے سہ ماہی "نیا ادب" کے مدیر تھے۔ وہ شیکسپئر کی کچھ تحریروں کا اردو میں کامیاب ترجمہ کرچکے تھے۔ ہندی اور اردو میں حدفاصل کو گھٹانے کے ایک تجربے کے طور پر انہوں نے چار روایتی شعرا غالب، میر، کبیر اور میرا کے کلاموں کو ایک ہی کتاب میں یک جا کیا تھا۔ جعفری کو ان کی ادبی خدمات کی وجہ سے1967 میں پدماشری کا قومی اعزاز دیا گیا تھا۔
علی سردار جعفری اپنی آپ بیتی کی ابتدا یوں کرتے ہیں ’’مجھے انسانی ہاتھ بہت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی جنبش میں ترنم ہے اور خاموشی میں شاعری ان کی انگلیوں سے تخلیق کی گنگا بہتی ہے‘‘ پھر کہتے ہیں ’’میں نے ہمیشہ قلم کو ہاتھوں کا تقدس، ذہن کی عظمت اور قلب انسانی کی وسعت سمجھا ہے اور قلم کے بنائے ہوئے ہر نقش کو سجدہ کیا ہے۔ اس لیے جب قلم جھوٹ بولتا ہے یا چوری کرتا ہے تو مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میرے ہاتھ گندے ہو گئے، میں ہر ادیب سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ اپنے قلم کا احترام کرے گا کیوں کہ اس کے نفس کی عزت اور شرافت اسی طرح قائم رہ سکتی ہے۔‘‘ شمالی ہند میں ہمالیہ کی ترائی کے دامن میں ایک چھوٹی سی مسلمان ریاست بلرام پور تھی، علی سردار جعفری کا خاندان یہاں آباد تھا۔ یہ بڑا ایمان دار، مذہب کا پابند اور پرہیزگار خاندان تھا۔ محرم بڑے جوش سے مناتے تھے، مجلسیں ہوتی تھیں، علی سردار لکھتے ہیں ’’میں نے اس عہد کے تمام بڑے ذاکروں کو سنا ہے اور تمام بڑے علما اور مجتہدین کے ہاتھوں کو بوسے دیے ہیں‘‘ یہ اس ماحول کا اثر تھا کہ پانچ چھ برس کی عمر سے وہ منبر پر بیٹھ کر سلام اور مرثیے پڑھنے لگے۔ پندرہ سولہ کی عمر میں خود مرثیے کہنے لگے، مرثیے کہنے کے ساتھ ساتھ علی سردار جعفری حدیث خوانی بھی کرتے تھے اس لیے روایات اور قرآن کی بہت سی آیات انھیں زبانی یاد ہو گئی تھیں۔ لکھتے ہیں ’’ان سب کا مجموعی اثر مجھ پر یہ تھا کہ حق اور صداقت کے لیے جان کی بازی لگا دینا، انسانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔‘‘

علی سردار جعفری نے اپنی شاعری کی تخلیق میں جس کرب کا ذکر کیا ہے وہ ان کے ان تین شعروں میں عیاں ہیں، یہ شاعر کا مقدر ہے اور ہر شاعر کو اس سے گزرنا پڑتا ہے۔

ابھی ابھی میری بے خوابیوں نے دیکھی ہے
فضائے شب میں ستاروں کی آخری پرواز
خبر نہیں کہ اندھیرے کے دل کی دھڑکن ہے
یا آ رہی ہے اجالے کے پاؤں کی آواز
بتاؤں کیا تجھے نغمے کے درد کا عالم
لہو لہان ہوا جا رہا ہے سینۂ ساز

علی سردار جعفری ممبئ میں یکم اگست 2000 میں ممبئ شہر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔

میں ہوں صدیوں کا تفکر، میں ہوں قرنوں کا خیال
میں ہوں ہم آغوش ازل سے، میں ابد سے ہم کنار
   

🍁

Saturday, November 19, 2016

دل کو چھو لیا

ایک پانچ چھ. سال کا معصوم سا بچہ 👦اپني چھوٹی بہن 👩 کو لے کر مسجد کے ایک طرف کونے میں بیٹھا ہاتھ اٹھا کر اللہ سے نہ جانے کیا مانگ رہا تھا.

کپڑے میں میل لگا ہوا تھا مگر نہایت صاف، اس کے ننھے ننھے سے گال آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے.
بہت سے لوگ اس کی طرف متوذو تھے اور وہ بالکل بے خبر اپنے اللہ سے باتوں میں لگا ہوا تھا.

جیسے ہی وہ اٹھا ایک اجنبی نے بڑھ کے اس کا ننھا سا ہاتھ پکڑا اور پوچھا
"کیا مانگا اللہ سے"
اس نے کہا
"میرے پاپا مر گئے ہیں ان کے لئے جنت،
میری ماں روتی رہتی ہے ان کے لئے صبر،
میری بہن ماں سے کپڑے سامان مانگتی ہے اس کے لئے رقم ".
"آپ کو اسکول جاتے ہو"
اجنبی نے سوال کیا.
"ہاں جاتا ہوں" اس نے کہا.
"کس کلاس میں پڑھتے ہو؟" اجنبی نے پوچھا
"نہیں انکل پڑھنے نہیں جاتا، ماں چنے بنا دیتی ہے وہ اسکول کے بچوں کو فروخت کرتا ہوں، بہت سارے بچے مجھ سے چنے خریدتے ہیں، ہمارا یہی کام دھندہ ہے" بچے کا ایک ایک لفظ میری روح میں اتر رہا تھا.

"تمہارا کوئی رشتہ دار"
نہ چاہتے ہوئے بھی اجنبی بچے سے پوچھ بیٹھا.
"پتہ نہیں، ماں کہتی ہے غریب کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا،
ماں جھوٹ نہیں بولتی،

پر انکل،
مجھے لگتا ہے میری ماں کبھی کبھی جھوٹ بولتا ہے،
جب ہم کھانا کھاتے ہیں ہمیں دیکھتی رہتی ہے،
جب کہتا ہوں
ماں آپ بھی کھاؤ، تو کہتی ہے میں نے کھا لیا تھا، اس وقت لگتا ہے جھوٹ بولتا ہے "
"بیٹا اگر تمہارے گھر کا خرچ مل جائے تو پڑھائی کرو گے؟"
"بلكل نہیں"
"کیوں"

"تعلیم حاصل کرنے والے غریبوں سے نفرت کرتے ہیں انکل،
ہمیں کسی پڑھے ہوئے نے کبھی نہیں پوچھا - پاس سے گزر جاتے ہیں "
اجنبی حیران بھی تھا اور پریشان بھی.

پھر اس نے کہا "ہر روز اسی اس مسجد میں آتا ہوں، کبھی کسی نے نہیں پوچھا - یہاں تمام آنے والے میرے والد کو جانتے تھے - مگر ہمیں کوئی نہیں جانتا

"بچے زور زور سے رونے لگا" انکل جب باپ مر جاتا ہے تو سب اجنبی کیوں ہو جاتے ہیں؟ "
میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا اور نہ ہی میرے پاس بچے کے سوال کا جواب ہے.
ایسے کتنے معصوم ہوں گے جو حسرتوں سے زخمی ہیں

بس ایک کوشش کیجئے اور اپنے ارد گرد ایسے ضرورت مند يتمو، بےسهاراو کو ڈھوڈھيے اور ان کی مدد كجے .........

Wednesday, November 16, 2016

Happy Birthday to the Founder Of Lantrani Media House, Late. Dr. Rupesh Shrivastava

Saturday, November 12, 2016

سبق آموز

ایک 50 سال کی اماں نے اپنے بوڑھے شوھر کو آواز دی کہ اے جی سنئیے گا یہ الماری کا شیشہ نھی کھل رھا ، ، ، ، ، ، ، ، ، ، ، ، ،
بوڑھا باپ آگۓ بڑھا اور کھولنے کی کوشش کی لیکن زیادہ کامیاب نہ ھو سکا ،
جوان بیٹا آگے بڑھا ، ذرا سا زور لگایا آسانی سے کھل گیا اور بولا
    » لو جی ، یہ بھی کویی مشکل کام تھا «
باپ مسکرایا اور بولا
بیٹا یاد ھے جب تو بچہ تھا اور گھر کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا تھا تو میں جان بوجھ کر آھستہ آھستہ تیرے دروازے کھولنے میں اس طرح مدد کرتا تھا کہ تو سمجھے کہ دروازہ تو نے خود کھولا ھے تا کہ تیرے اندر اعتماد آیے  ، تیرا دل نہ ٹوٹنے پاۓ اور تیری ھمت بڑھے
باپ کی بات سننا تھی کہ جوان بیٹا متوجہ ھو گیا اور اسکی آنکھ سے آنسو جاری ھونا شروع ھو گے
اسی طرح ایک دفعہ بوڑھے باپ نے بیٹے سے پوچھا یہ جو تو نے نئی گاڑی خریدی ھے اس کا نام کیا ھے ؟
بیٹا بولا ھنڈا "
چند گھنٹوں بعد بوڑھے باپ نے دوبارہ سوال کیا ؟
بیٹا حیران ھو کر بولا
ابو ھنڈا "
رات کو سونے سے پہلے باپ نے پھر سوال کیا کہ کیا نام بتایا تھا ؟
اب تو جوان بیٹا کنٹرول نہ کر سکا  اور غصے میں بولا
آپ کو کتنی مرتبہ بتاؤں ھنڈا ھنڈا ھنڈا   !
باپ خاموش ھو گیا الماری سے 30 سالہ پرانی نوٹ بک نکالی اور بیٹے سے کہا
ذرا اس کا یہ والا صفحہ تو پڑھنا
بیٹے نے بادل ناخواستہ صفحہ پڑھنا شروع کیا جس میں لکھا تھا »
آج میری خوشی کا بہت بڑا دن ھے کیونکہ میرے بیٹے نے پہلی دفعہ لفظ چڑیا بولا اور مجھ سے 25 مرتبہ کہا بابا وہ کون ھے اور میں نے خوشی اور مسرت کے ساتھ 25 مرتبہ جواب دیا بیٹا بولو چڑیا چڑیا چڑیا
جوان بیٹا حیرنگی سے ایک ایک پڑھتا جاتا اور آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات جاری
                      
» " کروڑوں سلام ھوں اس ماں پر کہ جو دسترخوان پر جب بھی غذا کم پڑنے لگتی
سب سے پہلا بندہ جو کہتا کہ مجھے تو آج بھوک ھی نھی تھی وہ ھے ماں
» " حاملگی کے دوران جب جب بچہ ماں کے پیٹ میں زور سے کہنی یا لات مارتا ،
تو خوشی سے سب کو بتاتی ،
لیکن آج رات کو سونے سے پہلے اسکے پاوں دبانے کیلئے وقت ندارد _
» " اے کاش کہ ایسا ممکن ھوتا کہ زندگی آخر سے شروع ھوتی
کہ مرتے وقت ماں کی آغوش ملتی اور جان نکلتے ھوے اسکی میٹھی میٹھی لوری
» " ماں باپ جو بچوں کو خلوص عشق کے ساتھ انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ھیں ،
لیکن کتنی عجیب بات ھے کہ بچے انکی ویل چئر پکڑتے ھوئے شرماتے ہیں __
» " واقعا کسی نے کیا خوب کہا ھے کہ ایک ماں باپ دس بچوں کو سنبھال سکتے ھے لیکن دس بچے ایک ماں باپ کو نھی
اگر ممکن ھو تو کاپی کر کے آگے سینڈ کریں ممکن ھے آپکی وجہ سے کسی کے دل میں ماں باپ کی عظمت میں اضافہ ھو

Wednesday, November 09, 2016

شاعرہ پروین شاکر

   

پروین شاکر ٢٢ نومبر ١٩٥٢ء کو کراچی پاکستان میں پیدا ہوئی ان کے آبا و اجداد کا آبائی وطن ہندوستان تھا. ان کے والد سید ثاقب حسین خود بھی شاعر تھے اور شاکر تخلص کرتے تھے اسی نسبت سے پروین شاکر بھی اپنے نام کے آگے شاکر لکھا کرتی تھیں برصغیر کی تقسیم کے بعد ان کے والد ہجرت کر کے پاکستان جا پہنچے . پروین شاکر کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی بعد میں رضیہ  گرلز ہائی اسکول پاکستان میں داخل ہوئی جہاں سے انہوں نے میٹرک کی سند حاصل کی بعد میں انہوں نے سرسید کالج کراچی سے آئی اے اور انگلش لٹریچر کے ساتھ بی اے آنر کا امتحان پاس کیا ١٩٨٢ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کا امتحان  اعلی درجے سے پاس کیا پھر لسانیات کی ماسٹر ڈگری، اس کے بعد پی ایچ ڈی "جنگ میں ذرائع بلاغ کا کردار "کے عنوان کے تحت مقالہ لکھا، اس کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے ایک اور ماسٹر ڈگری بینک ایڈمنسٹریشن میں پاس کیا پھر پاکستان کے ایک کالج عبداللہ گرلز کالج میں انگریزی کی لیکچرار ہوگئیں نو سال درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کر کے محکمہ کسٹمر میں کلیکٹر ہوگئی اس عہدے سے ترقی کرتے ہوئے پرنسپل سیکرٹری پھر سی آر بی آر میں مقرر ہوئیں ١٩٧٩ میں پروین شاکر کی شادی ان کے خالہ ذات بھائی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی اور ١٩٩٤ میں اس شادی کا اختتام طلاق کی صورت میں ہوگیا اور یہ ہی وہ موڑ تھا جہاں پروین شاکر پوری طرح ٹوٹ چکی تھی اور انہوں نے کہا کہ

طلاق دے تو رہے ہو مجھے غرور و قہر کے ساتھ
مرا شباب بھی لوٹا دو مہر کے ساتھ

پروین شاکر کی پوری شاعری ان کے اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار ہے جو درد کائنات بن جاتا ہے،اس لیے انہیں دورِ جدید کی شاہرات میں نمایاں مقام حاصل ہے. پروین شاکر نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ محبت کا فلسفہ  میری شاعری کی بنیاد ہے اور اسی کے حوالے سے اس ازلی مثلث یعنی انسان، خدا اور کائنات کو دیکھتی ہوں اور سمجھتی ہوں
پروین شاکر کی شاعری میں عورت کے جذبات و احساسات کی شدت ہے جس کا وہ اعتراف بھی کرتی ہیں وہ اپنے ہم عصروں میں کشور ناہید، پروین فنا سید، فہمیدہ ریاض کو پسند کرتی ہیں لیکن ان کے یہاں احساسات کی جو شدت ہے وہ ان کے ہم عصروں میں نہیں، بلکہ وہ کہتی ہیں کہ اگر میرے ڈکشن میں کوئی روایتی رکھ رکھاؤ ہے تو وہ میرے اپنے مزاج اور مطالعے کی وجہ سے ہے پروین شاکر نے کلاسیکل ادب کا مطالعہ بھی کیا ہے جس کی پہچان ان کے لب و لہجہ احساس ہے جو ان کی نظموں اور غزلوں میں ملتا ہے
جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہمراہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے
راستوں کا علم تھا نہ ہم کو سمتوں کی خبر
شہر نا معلوم کی جانب مگر کرتے رہے

اور انہی کھوئے ہوؤں کی جستجو کرتے ہوئے عین جوانی میں وہ چل بسی ٢٦ دسمب١٩٩٤ کو ایک کار حادثے میں انتقال ہو گئیں اس وقت ان کی عمر صرف ٤٢ سال تھی اس کے باوجود پروین شاکر نے شاعری کا قابل قدر سرمایہ چھوڑا ہے جسے کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا

غزل

چارہ سازوں کی اذیت نہیں دیکھی جاتی
تیرے بیمار کی حالت نہیں دیکھی جاتی

دینے والے کی مشیت پہ ہے سب کچھ موقوف
مانگنے والے کی حاجت نہیں دیکھی جاتی

دن بہل جاتا ہے لیکن تیرے دیوانوں کی
شام ہوتی ہے تو وحشت نہیں دیکھی جاتی

تمکنت سے تجھے رخصت تو کیا ہے لیکن
ہم سے ان آنکھوں کی حسرت نہیں دیکھی جاتی

کون اترا ہے یہ آفاق کی پنہائی میں
آئینہ خانے کی حیرت نہیں دیکھی جاتی

پروین شاکر

سبق آموز کہانی


ﺑﮩﺖ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﮭﺎ ، ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﯿﭩﺎ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ۔ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻓﮑﺮ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﺨﺖ ﻭ ﺗﺎﺝ ﮐﺎ ﻭﺍﺭﺙ ﮐﻮﻥ ﮨﻮ ﮔﺎ ؟ ﻟﮩﺬﺍ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﺍﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﮔﻮﺩ ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﺨﺖ ﻭ ﺗﺎﺝ ﮐﺎ ﻭﺍﺭﺙ ﮨﻮ ﮔﺎ ۔ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﯾﮧ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﭽﮯ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﯿﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﺮ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺑﯿﺞ ﺩﯾﺎ ﺟﺎ ﺋﮯ ﮔﺎ ۔ ﺟﺲ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺑﻮ ﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﺩﮮ ﭘﺮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮭﻠﮯ ﮔﺎ ، ﻭﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﻭﺍﺭﺙ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎ ﺋﮯ ﮔﺎ ۔ ﺳﻮﻧﮓ ﭼﻦ ﻧﺎﻣﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﺎ ﺗﮭﺎ ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﺞ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺁﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﮔﻤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮ ﺩﯾﺎ ۔ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﺌﮯ
ﻭﮦ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﺍﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﺩﯾﺎ ﮐﺮ ﺗﺎ ﺗﮭﺎ ، ﺍﺳﮯ ﺍﻣﯿﺪ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﻮﺩﮮ ﭘﺮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭ ﺕ ﭘﮭﻮ ﻝ ﮐﮭﻠﮯ ﮔﺎ ۔ ﺩﻥ ﮔﺰﺭ ﺗﮯ ﮔﺌﮯ ﻣﮕﺮ ﮔﻤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮑﻼ ۔ ﺳﻮ ﻧﮓ ﭼﻦ ﮐﻮ ﺑﮍﯼ ﻓﮑﺮ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﮔﻤﻼ ﺧﺮﯾﺪﺍ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﭩﯽ ﻻﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﯿﺞ ﮐﻮ ﺩﻭ ﺑﺎﺭﮦ ﺍﺣﺘﯿﺎ ﻁ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﻣﮕﺮ ﺩﻭ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﮔﻤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﻮﺩﺍ ﻧﮧ ﻧﮑﻼ ۔ ﭘﻠﮏ ﺟﮭﭙﮑﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻮﻟﻮ ﮞ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺋﺶ ﮐﺎ ﺩﻥ ﺁ ﭘﮩﻨﭽﺎ ۔ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﺷﺎﮨﯽ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﺋﮯ ۔ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮ ﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮔﻤﻼ ﻟﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﺎ ۔ ﮔﻤﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻧﮓ ﺑﺮﻧﮕﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮭﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﻭﮦ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺑﮍﮮ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﮭﮯ ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﭘﮭﻮﻝ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺳﻮﻧﮓ ﭼﻦ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﻟﯽ ﮔﻤﻼ ﻟﯿﮯ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎﺋﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ ۔ ﺳﻮ ﻧﮓ ﭼﻦ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺭﮎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﻮ ﭼﮭﺎ : ” ﺑﯿﭩﮯ ! ﺗﻢ ﺧﺎﻟﯽ ﮔﻤﻼ ﻟﯿﮯ ﮐﯿﻮ ﮞ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ؟ “ ﺳﻮﻧﮓ ﭼﻦ ﻧﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ : ” ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﯿﺞ ﮔﻤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻻ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﻮﺩﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﮔﺎ ، ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﮔﻤﻼ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮞ ۔ “ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺑﺎﺩ ﺷﺎﮦ ﮨﻨﺲ ﭘﮍﺍ ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﻢ ﺍﯾﮏ ﺳﭽﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﮨﻮ، ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﺨﺖ ﻭ ﺗﺎﺝ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﻢ ﺟﯿﺴﮯ ﺳﭽﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﺗﮭﯽ ، ﺗﻢ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮨﻮ ﮔﮯ ۔ “ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮگ ﺟﻮ ﺑﯿﺞ ﺩﮮ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺍﺑﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﺩﮮ ﮐﺎ ﺍﮔﻨﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ۔ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺑﭽﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎ ﺏ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺧﺮﺍﺏ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﺍﭼﮭﮯ ﺑﯿﺞ ﺑﻮ ﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﮕﺮ ﺳﻮﻧﮓ ﭼﻦ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻏﻠﻂ ﺣﺮﮐﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﮭﻮ ﭦ ﺳﮯ ﮐﺎ ﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ، ﻟﮩﺬﺍ ﺍﺳﮯ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ۔

سورج سے حکومت

*```بوقت شام سورج سے حکومت چھین لیتا ھے```*
*```وہ صبحوں میں ستاروں سے قیادت چھین لیتا ھے```*

*```قرینے سیکھ لو اس کی زمیں پہ چلنے پھر نے کے```*
*```تکبرکرنے والوں سے وہ دولت چھین لیتا ھے```*

*```ہراک دانے میں اس کے فیض کی معجزہ نمائی ھے```*
*```نوالوں سےبھی ناقدروں وہ لذت چھین لیتاھے```*

*```بڑی مشکل سے ملتی ہےیہ صفت نیک نامی کی```*
*```ذراساڈگمگاجاؤ توعزت چھین لیتا ھے```*

*```کبھی کشتی بچالیتا ھے طوفانوں کےنرغوں سے```*
*```کبھی ساحل پرتیراکوں سے ھمت چھین  لیتا ھے```*

*```اس کے عدل پر قائم ھے ہر تاریخ انسانی```*
*```وہ کم ظرفوں سے ایوان حکومت چھین لیتاھے```*

*```سبق سیکھوشمیم تاریخ ہجرت کی شہادت سے```*
*```وہ اکثر آنکھ والوں سے  بصارت چھین لیتا ھے...```*

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP