پروین شاکر ٢٢ نومبر ١٩٥٢ء کو کراچی پاکستان میں پیدا ہوئی ان کے آبا و اجداد کا آبائی وطن ہندوستان تھا. ان کے والد سید ثاقب حسین خود بھی شاعر تھے اور شاکر تخلص کرتے تھے اسی نسبت سے پروین شاکر بھی اپنے نام کے آگے شاکر لکھا کرتی تھیں برصغیر کی تقسیم کے بعد ان کے والد ہجرت کر کے پاکستان جا پہنچے . پروین شاکر کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی بعد میں رضیہ گرلز ہائی اسکول پاکستان میں داخل ہوئی جہاں سے انہوں نے میٹرک کی سند حاصل کی بعد میں انہوں نے سرسید کالج کراچی سے آئی اے اور انگلش لٹریچر کے ساتھ بی اے آنر کا امتحان پاس کیا ١٩٨٢ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کا امتحان اعلی درجے سے پاس کیا پھر لسانیات کی ماسٹر ڈگری، اس کے بعد پی ایچ ڈی "جنگ میں ذرائع بلاغ کا کردار "کے عنوان کے تحت مقالہ لکھا، اس کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے ایک اور ماسٹر ڈگری بینک ایڈمنسٹریشن میں پاس کیا پھر پاکستان کے ایک کالج عبداللہ گرلز کالج میں انگریزی کی لیکچرار ہوگئیں نو سال درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کر کے محکمہ کسٹمر میں کلیکٹر ہوگئی اس عہدے سے ترقی کرتے ہوئے پرنسپل سیکرٹری پھر سی آر بی آر میں مقرر ہوئیں ١٩٧٩ میں پروین شاکر کی شادی ان کے خالہ ذات بھائی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی اور ١٩٩٤ میں اس شادی کا اختتام طلاق کی صورت میں ہوگیا اور یہ ہی وہ موڑ تھا جہاں پروین شاکر پوری طرح ٹوٹ چکی تھی اور انہوں نے کہا کہ
طلاق دے تو رہے ہو مجھے غرور و قہر کے ساتھ
مرا شباب بھی لوٹا دو مہر کے ساتھ
پروین شاکر کی پوری شاعری ان کے اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار ہے جو درد کائنات بن جاتا ہے،اس لیے انہیں دورِ جدید کی شاہرات میں نمایاں مقام حاصل ہے. پروین شاکر نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ محبت کا فلسفہ میری شاعری کی بنیاد ہے اور اسی کے حوالے سے اس ازلی مثلث یعنی انسان، خدا اور کائنات کو دیکھتی ہوں اور سمجھتی ہوں
پروین شاکر کی شاعری میں عورت کے جذبات و احساسات کی شدت ہے جس کا وہ اعتراف بھی کرتی ہیں وہ اپنے ہم عصروں میں کشور ناہید، پروین فنا سید، فہمیدہ ریاض کو پسند کرتی ہیں لیکن ان کے یہاں احساسات کی جو شدت ہے وہ ان کے ہم عصروں میں نہیں، بلکہ وہ کہتی ہیں کہ اگر میرے ڈکشن میں کوئی روایتی رکھ رکھاؤ ہے تو وہ میرے اپنے مزاج اور مطالعے کی وجہ سے ہے پروین شاکر نے کلاسیکل ادب کا مطالعہ بھی کیا ہے جس کی پہچان ان کے لب و لہجہ احساس ہے جو ان کی نظموں اور غزلوں میں ملتا ہے
جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہمراہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے
راستوں کا علم تھا نہ ہم کو سمتوں کی خبر
شہر نا معلوم کی جانب مگر کرتے رہے
اور انہی کھوئے ہوؤں کی جستجو کرتے ہوئے عین جوانی میں وہ چل بسی ٢٦ دسمب١٩٩٤ کو ایک کار حادثے میں انتقال ہو گئیں اس وقت ان کی عمر صرف ٤٢ سال تھی اس کے باوجود پروین شاکر نے شاعری کا قابل قدر سرمایہ چھوڑا ہے جسے کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا
غزل
چارہ سازوں کی اذیت نہیں دیکھی جاتی
تیرے بیمار کی حالت نہیں دیکھی جاتی
دینے والے کی مشیت پہ ہے سب کچھ موقوف
مانگنے والے کی حاجت نہیں دیکھی جاتی
دن بہل جاتا ہے لیکن تیرے دیوانوں کی
شام ہوتی ہے تو وحشت نہیں دیکھی جاتی
تمکنت سے تجھے رخصت تو کیا ہے لیکن
ہم سے ان آنکھوں کی حسرت نہیں دیکھی جاتی
کون اترا ہے یہ آفاق کی پنہائی میں
آئینہ خانے کی حیرت نہیں دیکھی جاتی
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment