*علی سردار جعفری کا یومِ پیدائش*
علی سردار جعفری اترپردیش کے گونڈہ ضلع میں بلرامپور میں 29 نومبر 1913 ء میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے لکھنؤ میں ایک مذہبی ماحول میں پرورش پائ تھی۔ تعلیمی اعتیبارسے انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا تھا. فری کی ذہانت کا یہ عالم تھا کہ آٹھ سال کی عمر میں وہ انیس کےمرثیوں میں سے1000 اشعار روانی سے پڑھتے تھے. وہ صرف پندرہ برس کے تھے جب انہوں خامہ فرسائ شروع کی تھی. انہوں نے ان کا ادبی سفر افسانہ نگاری سے شروع کیا تھا۔ 1938 میں ان کا پہلا افسانوں کا مجموعہ "منزل" شائع ہؤا تھا۔ مگر اس کے بعد انہوں نے شاعری کا رُخ کیا۔ علی سردار جعفری نے انقلابی اور حب الوطنی سے جڑی شاعری کی تھی جس کے سبب 1940 میں گرفتار ہوئے تھے۔ وہ بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کے ایک رکن کے طور پر کام کرتے تھے اور اس کی ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں میں مستعدی سے۔ اپنی شاعری کے ذریعے، وہ عوام میں سیاسی شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے. شاعری کے علاوہ جعفری ڈرامے اور افسانہ نگاری میں بھی خاصا عبور رکھتے تھے۔ وہ ممبئ سے چھپنے والے سہ ماہی "نیا ادب" کے مدیر تھے۔ وہ شیکسپئر کی کچھ تحریروں کا اردو میں کامیاب ترجمہ کرچکے تھے۔ ہندی اور اردو میں حدفاصل کو گھٹانے کے ایک تجربے کے طور پر انہوں نے چار روایتی شعرا غالب، میر، کبیر اور میرا کے کلاموں کو ایک ہی کتاب میں یک جا کیا تھا۔ جعفری کو ان کی ادبی خدمات کی وجہ سے1967 میں پدماشری کا قومی اعزاز دیا گیا تھا۔
علی سردار جعفری اپنی آپ بیتی کی ابتدا یوں کرتے ہیں ’’مجھے انسانی ہاتھ بہت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی جنبش میں ترنم ہے اور خاموشی میں شاعری ان کی انگلیوں سے تخلیق کی گنگا بہتی ہے‘‘ پھر کہتے ہیں ’’میں نے ہمیشہ قلم کو ہاتھوں کا تقدس، ذہن کی عظمت اور قلب انسانی کی وسعت سمجھا ہے اور قلم کے بنائے ہوئے ہر نقش کو سجدہ کیا ہے۔ اس لیے جب قلم جھوٹ بولتا ہے یا چوری کرتا ہے تو مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میرے ہاتھ گندے ہو گئے، میں ہر ادیب سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ اپنے قلم کا احترام کرے گا کیوں کہ اس کے نفس کی عزت اور شرافت اسی طرح قائم رہ سکتی ہے۔‘‘ شمالی ہند میں ہمالیہ کی ترائی کے دامن میں ایک چھوٹی سی مسلمان ریاست بلرام پور تھی، علی سردار جعفری کا خاندان یہاں آباد تھا۔ یہ بڑا ایمان دار، مذہب کا پابند اور پرہیزگار خاندان تھا۔ محرم بڑے جوش سے مناتے تھے، مجلسیں ہوتی تھیں، علی سردار لکھتے ہیں ’’میں نے اس عہد کے تمام بڑے ذاکروں کو سنا ہے اور تمام بڑے علما اور مجتہدین کے ہاتھوں کو بوسے دیے ہیں‘‘ یہ اس ماحول کا اثر تھا کہ پانچ چھ برس کی عمر سے وہ منبر پر بیٹھ کر سلام اور مرثیے پڑھنے لگے۔ پندرہ سولہ کی عمر میں خود مرثیے کہنے لگے، مرثیے کہنے کے ساتھ ساتھ علی سردار جعفری حدیث خوانی بھی کرتے تھے اس لیے روایات اور قرآن کی بہت سی آیات انھیں زبانی یاد ہو گئی تھیں۔ لکھتے ہیں ’’ان سب کا مجموعی اثر مجھ پر یہ تھا کہ حق اور صداقت کے لیے جان کی بازی لگا دینا، انسانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔‘‘
علی سردار جعفری نے اپنی شاعری کی تخلیق میں جس کرب کا ذکر کیا ہے وہ ان کے ان تین شعروں میں عیاں ہیں، یہ شاعر کا مقدر ہے اور ہر شاعر کو اس سے گزرنا پڑتا ہے۔
ابھی ابھی میری بے خوابیوں نے دیکھی ہے
فضائے شب میں ستاروں کی آخری پرواز
خبر نہیں کہ اندھیرے کے دل کی دھڑکن ہے
یا آ رہی ہے اجالے کے پاؤں کی آواز
بتاؤں کیا تجھے نغمے کے درد کا عالم
لہو لہان ہوا جا رہا ہے سینۂ ساز
علی سردار جعفری ممبئ میں یکم اگست 2000 میں ممبئ شہر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔
میں ہوں صدیوں کا تفکر، میں ہوں قرنوں کا خیال
میں ہوں ہم آغوش ازل سے، میں ابد سے ہم کنار
🍁
No comments:
Post a Comment