You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Tuesday, September 27, 2011

مہاراشٹر گورو پرسکار



ستمبر مہینے میں ضلع پربھنی مہاراشٹر میں  مشہور ومعروف شیکشنیک سنستھا  جۓ ہند سیوا بھاوی سنستھا پربھنی  نے اپنے دس سال پورے کۓ اور اس موقع پر انھوں نے مہاراشٹر گورو ایوارڈ  کا پروگرام  منعقد کیا ۔یہ تقریب رگوناتھ سبھا گرہ نامی ایک خوبصورت ہال میں منعقد کی گئي جو کہ شیواجی پتلے کے سامنے  ہے  پوری ریاست  سے تعلیمی  ، علمی وادبی ، سماجی ،  ثقافت و
ايگریکلچر اور مختلف کلاؤں اور دوسرے  شعبے سے تعلق رکھنے والوں اہم شخصیات  جنھوں نے اس سال ان شعبوں میں نمایاں کارہاۓ انجام دیۓ ہیں ۔یا کوئی خاص کارکردگی انجام دی ہیں  انھیں جناب پرکاش داداسولنکے وزیر محصول ضلع پربھنی اور سابق وزیر مہاراشٹر راجیہ سریش روؤجی وڑپورکر کے ہاتھوں مہاراشٹر گورو ایوارڈز سے نوازا گیا  اس تقریب کے صدر پرکاش دادا سولنکے تھے اور مہمان خصوصی ،  شالی گرام جی  وانکھڈے ، تکارام جی رینگنے پاٹل، وجۓ روؤجی بھانبڑے ، محمد خالد ( سجّو دالا ) اقبال بھائی انصاری  پونے   عمران راہی  وردھا اور محمد غفار ماسٹر پربھنی اور ایکتاسیوابھاوی سنستھا کے بھیم راؤ پردھان پربھنی سے موجود تھے  دل کو  چھولینے والی موسیقی کے ساتھ پروگرام کا آغاز ہوا ۔مہمانان کا استقبالیہ انجینیر آر آر ڈی مگر نے کیا ۔پھر پروگرام کے منتظیم اور اس سنستھا کے روح رواں جناب عبداستار انعامدار صاحب نے اپنی سنستھا کے کاموں پر روشنی اس شعر  کے ساتھ ڈالی کہ   حوصلے بلند ہو تو منزل آسان   ہوتی ہے ۔ اس موقع  پر پوری ریاست سے 25 خاص اور اہم شخصیتوں کو مہاراشٹر گورو ایوارڈ کے لۓ منتخب کیا گیا ۔جن میںمنور سلطانہ ،محمد یوسف حسین کاٹے والے، عظمت علی ،عمران راہی ، عزیز عرفان،مختار احمد مسٹر بٹاٹے والے  ۔اس موقع پر لنترنی میڈیا ہاؤس کی ڈاءریکٹر اور لنترانی ڈاٹ کام کی   چیف ایڈیٹر  منوّر سلطانہ کو پرکاش دادا سولنکے وزیر محصول ضلع پربھنی کے ہاتھو ں   ان کے  کام کا اعتراف کرتے ہوۓ انھیں مہاراشٹر گورو ایوارڈز سے نوازا گیا ۔اس موقی پر وزیر محصول نے کہا کہ بارش کی  بوندیں  سمندر میں بے حساب پڑتی ہے ۔مگر   کچھ ہی خاص  بوند ایسی ہوتی ہے   جوکہ سیپ کے منہ میں پڑتی ہے اور وہی بوند سیپ میں موتی بن جاتی ہے  مہاراشٹر گورو ایوارڈز کے لۓ منتخب وہی موتی کی مانند ہیں ۔ہم انھیں تہہ دل سے مباکباد دیتا ہوں ۔پھر یہ بھی کہا کہ ہمارے سماّن کے بعد  ہماری سماج کے لے  ذمہ داری بڑھ جاتی ہے ۔اوپر والا انھیں اور  زیادہ کا م کرنے کی توفیق دیے ۔ یہ پرگرام کافی کامیاب رہا ۔ر  



















Sunday, September 25, 2011

ساتھ رہو : سعود اندرے



چاہے دن ہو یا رات میرے ساتھ رہو 
رہے نہ رہے کوئی ساتھ میرے ساتھ رہو 
مل رہے ہیں دو دل آہستہ آہستہ 
کہہ رہے ہیں جذبات میرے ساتھ رہو 
رفتہ رفتہ بڑھتے جائنگے تعلقات 
باتوں سے نکلے گی بات میرے ساتھ رہو 
مجھے تم سے ملانے کی سازش میں
کب سے لگی تھی کائنات میرے ساتھ رہو 
عمر بھر نہیں تو کچھ پل ذرا تو ٹھہرو 
دور تلک ہے برسات میرے ساتھ رہو 
ہزاروں سے نہیں بس تم سے وفا کی ہے 
تھام لیا ہے تیرا ہاتھ میرے ساتھ رہو

                   ======

وقت سے پہلے ہی قیامت ہو جاےگی 
ہمیں اگر آپ سے محبّت ہو جاےگی 
اس قدر چاہت سے ہمیں نہ دیکھئے 
جان جو بچی ہے رخصت ہو جاےگی 
میرے ساتھ کسی نے دیکھا ہے تم کو 
کل تک شہر میں آفت ہو جاےگی 
شروع شروع میں دل پر اختیار رہتا ہے 
آگے آگے دیکھنا شرارت  ہو جاےگی 
آج خدا کا درجہ دیا ہے تم کو 
روز نہیں ملنا عادت ہو جاےگی 

سعود اندرے 

Saturday, September 24, 2011

غزل : اسعد بدایونی



سارے خیمے خاک سے اٹ گئے ہو گئی رن میں شام
ایک کہانی ، ایک حقیقت، صدیوں سے ہے عام
ہر سنّاٹا ، ہر محرومی ، میرے گھر کا رزق
سبز مناظر ، روشن لمحے ، سب یاروں کے نام
اب کے سفر سے ہم لوٹے تو ، یوں محسوس ہوا
ایک تھکن ہے جس کے بیاں سے قاصر لفظ تمام
قریۂ وحشت اب کے برس ہے کیوں اتنا خاموش
کیا افتاد پڑی لوگوں پر سوگئے سب سرِ شام
اپنے یقیں کے خون سے اس کو ہم سیراب کریں
ایک مدّت سے سوکھ رہی ہے جو فصلِ اوہام
میں لفظوں کی کوزہ گری میں کب مشّاق ہوا
کاش ودیعت ہوتا مجھ کو اور ہی کوئی کام
۔۔۔۔۔۔۔

میں وحشت خوردہ آہو تھا دنیا نے مجھے زنجیر کیا
مری کھال کو اپنے کمروں کی آرائش سے تعبیر کیا
تھی چہروں کی پہچان مجھے اس جرم پہ ظالم لوگوں نے
مرے سر کو نیزے پر رکّھا ، مرے دل میں ترازو تیر کیا
ہر دھوپ کو تیرے روپ کی چھب، ہر رنگ کو تیرا رنگِ لب
ہر جھیل سمندر دریا کو تری آنکھوں سے تعبیر کیا
میں سیدھا سچّا بندہ تھا مرا کام دکھوں کا دھندا تھا
اک روز اچانک موسم نے مجھ زندہ کو تصویر کیا
میں ایسا دانا کب کا تھا، میں ایسا بندہ کس کا تھا
کچھ خواب دیے اس مالک نے اور ان کو مری تقدیر کیا
۔۔۔۔۔۔۔

جہاں تک نظر جائے برپا جزیروں میں ہیجان دیکھوں
سمندر کی موجوں کو اک روز اپنا نگہبان دیکھوں
سوالوں کے مشکل جوابوں کی جانب مرا ذہن پہنچے
کتابوں میں لکھی عبارت کا مفہوم آسان دیکھوں
مقدر میں میرے گھنے جنگلوں کی شبیں لکھ گئی ہیں
ہواؤں کی سرگوشیوں سے درختوں کو حیران دیکھوں
مکانوں کے آنگن اُجالوں سے خالی میں ہر صبح پاؤں
چراغوں کی لمبی قطاریں سرِ شام بے جان دیکھوں
سفر کس لیے مجھ کو بخشا ہے ساکت سمندر کا یا رب!
مری اصل خواہش تو یہ تھی کہ میں کوئی طوفان دیکھوں
کبھی تو کنول دوستوں کی نگاہوں سے خوشیوں کے جھانکیں
منافق زمانے کا چہرہ کبھی تو پریشان دیکھوں
۔۔۔۔۔۔

بستیوں میں آہ و زاری ہو رہی ہے شام سے
کچھ نہ کچھ نازل تو ہو گا چرخِ نیلی فام سے
دشتِ غربت میں ہوا ساری طنابیں لے اُڑی
میرا خیمہ رہ سکا کب ایک پل آرام سے
اب تو آوازوں کے جمگھٹ ہیں مرے چاروں طرف
رابطہ پہلے تھا میرا بس سُکوتِ شام سے
کارِ دنیا میں کہاں تک عاشقی کوئی کرے
وہ بھی اپنے کام سے ہے میں بھی اپنے کام سے
میری آنکھوں کو اسی منظر کی اب تک جستجو
میرا دل اب تک دھڑکتا ہے اسی کے نام سے
میں بھی سارے مسئلوں سے سرسری گزروں اگر
سوچتا ہوں عمر گزرے گی بڑے آرام سے
 ۔۔۔۔۔۔

زیاں رسیدہ جزیرے بھی میری آنکھیں بھی
بکھر رہے ہیں کنارے بھی میری آنکھیں بھی
یہ دیکھنا ہے کرن کس طرف سے گزرے گی
کھلے ہوئے ہیں دریچے بھی میری آنکھیں بھی
لکھا ہے سب کے مقدر میں تہہ نشیں ہونا
بھنور نصیب، سفینے بھی میری آنکھیں بھی
میں انتشار کا مارا ہوا مسافر ہوں
بھٹک رہے ہیں یہ رستے بھی میری آنکھیں بھی
گداز برف جو خورشید لمس سے پگھلی
تو رو اٹھے کئی چشمے بھی میری آنکھیں بھی
خزاں نے مجھ کو بھی قربت سے ہم کنار کیا
کہ زرد ہو گئے پتّے بھی میری آنکھیں بھی
--
اسعد بدایونی

ہماری میڈیا کتنی ذمہ دار؟



 ہمارے ملک کے اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا نے سیاست اور فلم کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ملک کے تمام روزنامے سال کے تین سو پینسٹھ دن میں سے کم و بیش تین سو دن اور ہفتہ روزہ اخبارات سال کے باون ہفتوں میں سے قریب چالیس ہفتے سیاست اور فلم سے وابستہ خبروں کو سہ سرخی یا کور اسٹوری بناتے ہیں۔مثلاً کسی سیاست داں نے پارٹی بدلی ،اسپتال میں داخل ہوا یا گھوٹالے میں گرفتا ہوکر جیل پہونچا تو اسے رات میں نیند نہیں آئی ۔یہ ساری باتیں مع تصویر کے صفحہ اول پر شائع کی جاتی ہیں ۔اسی طرح کوئی بڑا لیڈر مثلاً راہل گاندھی یا سونیا وغیرہ نے کسی شہر کا دورہ کیا تو انکی ایک ایک منٹ کی خبریں حتیٰ کہ اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے کی باتیں براہ راست دکھنے کی کوشش الیکٹرانک میڈیا والے کرتے ہیں ۔یہاں تک کہ اگر انہیں اسٹیج پر جھپکی آگئی یا اپنی گاڑی روک کر سڑک کنارے ڈھابے والے سے چائے پی لی تو وہ ایک بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔اسی طرح ایک فلمی ہیرو ئن کے ہاں لڑکے کی ولادت ہوئی تو اس بات کو ایک مشہور نیوز چینل نے بریکنگ نیوز کے طور پر دو گھنٹے تک دکھایا ۔اب تو سیاست داں جان بوجھکر کوئی متنازعہ بیان دے ڈالتے ہیں اور پھر سبھی زبانوں کے نیوز چینلوں پر دن بھر اور دوسرے روز ملک کے سارے اخبارات میں صفحہ اول پر مع تصویر وں کے چھائے رہتے ہیں ۔ٹی وی والے ان کے متنازعہ بیان کو لیکر خصوصی پروگرام دکھاتے ہیں تو اخبارات میں مضامین اور اداریے لکھے جاتے ہیں ۔اتنی پبلسٹی کروڑوں روپئے کے اشتہارات کے ذریعے بھی نہیں مل پاتی اور پھر اپنا سیاسی الو سیدھا کرکے یہ اپنے متنازعہ بیان سے ’’توڑ مروڑ‘‘ کا بہانہ کرکے قانونی طور پر صاف بچ نکلتے ہیں ۔
میڈیا کو چاہئے کہ وہ اس طرح کے غیر ضروری اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کو بدلے اور وہ عوامی مسائل کو اپنا موضوع بناتے ہوئے اسے شاہ سرخی بنائے اور اسے اول صفحہ پر نمایاں جگہ دے ۔ساتھ ہی صفحہ اول پر ہی ادارتی کالم تحریر کرکے حکومت اور خود غرض سیاست دانوں کے ہاتھ مروڑ کر اپنا فرض نبھانے پر مجبور کرے ۔کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کو ہائی کیا جانا زیادہ ضروری ہوتا ہے ۔لیکن میڈیا اس سے غفلت برتتا ہے۔جیسے گذشتہ دوسالوں میں ریل حادثے زیادہ ہوئے ہیں ان میں سینکڑوں لوگ ہلاک اور ہزاروں زندگی بھر کے لئے معذور ہوگئے۔یہ حادثات کیوں ہوئے ،ان پر بیٹھائی گئی جانچ کمیشنوں کا کیا ہوا ؟جن خرابیوں کی وجہ سے یہ حادثات ہوئے کیا ان کو مستقل طور پر دور کرلیا گیا؟یا پھر عارضی طور پر کام چلاؤ لیپا پوتی کرکے اگلے حادثے کی ایڈوانس میں تیاری کرلی گئی ہے؟ اناج کے بھر پور پیدار کے باوجود ان کی قیمتیں آسمان کیوں چھو رہی ہیں ؟ غذائی اجناس کی کالا بازاری اور سبزیوں کی قیمتوں پر حکومت کا کوئی قابو نہیں ہے اور عوام آدھا پیٹ کھاکر یا ملک کی آدھی سے زیادہ دیہی آبادی بھوکوں سونے پر مجبور ہے۔حتیٰ کی خود کشی تک کر رہے ہیں ۔تو پھر حکومت کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟
اسی طرح ممبئی کے کچھ مضافاتی علاقے جیسے گوونڈی اور مانخوردوغیرہ میں عورتیں اور بچے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر علی الصبح ریل کی پٹریاں پار کرکے پینے کا پانی لیکر آتے ہیں ۔حکومت کیا انکے لئے پانی کا انتظام بھی نہیں کر سکتی؟ یہ بھی اسی ملک کے شہری ہیں بنگلہ دیشی یا پاکستانی نہیں ہیں ۔اسی طرح کروڑوں روپئے خرچ کرکے فسادات پر جانچ کمیشن بنائے گئے اور پھر انکی رپورٹ و سفارشات کو ردی کی ٹوکری میں ڈالدیا گیا۔الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا ان باتوں کو شدت سے اٹھائے تو ملک اس طرح خلفشار اور تنگ نظری سے محفوظ ہو جائے ،لیکن لگتا ہے کہ میڈیا کے ذمے داروں کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے ۔جو عوام کی جائز ضروریات اور مظلوموں کی چیخیں بھی اس پر کوئی اثر نہیں ڈال پا رہی ہیں !!!
حفوظ الرحمن انصاری۔نیا نگر
مور لینڈ روڈ۔ممبئی 400008.
موبائل۔09869398281


Thursday, September 22, 2011

ایک غزل یاد آگئی۔۔۔


 بدن کا روح سے رشتہ بحال کرتے ہو، کمال کرتے ہو
لبوں سے چوم کر پتھر کو لعل کرتے ہو، کمال کرتے ہو
سنا ہے صوت کے ساحر ہو اور آنکھوں میں بلا کا جادو ہے
نظر کے تیر سے دشمن نڈھال کرتے ہو، کمال کرتے ہو
تمہی نے چاک پر رکھا ، بنا کے پھر توڑا، تمہیں ہے غم کیسا
مجھے ہی چھین کر مجھ سے ملالکرتے ہو، کمال کرتے ہو
چلو اب مان بھی جاو کہ درمیاں اپنے کوئی تو رشتہ ہے
ذرا سی بات بھی کہنے میں سالکرتے ہو، کمال کرتے ہو
جلا کر راکھ نہ کر دے تمہارے پیکر کو سنبھال کر چلنا
سلگتی آگ کو گلشن خیالکرتے ہو، کمال کرتے ہو
تمہیں آسان ہے شائد فراق لمحوں کا زبان پر لانا
بڑے آرام سے مشکل سوال کرتے ہو، کمال کرتے ہو
تمہیں تو پیار کا حق ہے، اگر سمجھتے ہو تو پھر یہ ڈر کیسا
کرو تم یار جو بہتر خیال کرتے ہو، کمال کرتے ہو
عاطف جاوید عاطف

مالیگاؤں کی تعلیمی ، مذہبی اور ادبی بیداری سے ایک جہاں روشن ہوا


ناگپور کی علمی ادبی سماجی شخصیت وکیل پرویز کے اعزاز میں محفل مشاعرہ کا اہتمام
مالیگاؤں ، ۲۱ ؍ ستمبر ، نامہ نگار
مالیگاؤں کی مسجدوں کے پر شکوہ مینارے اگر اس شہر محنت کشاں کی عظمت کو چار چاند لگارہے ہیں تو اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مالیگاؤں کے شعراء اس کے ادبی مینار بن کر دنیائے اردو کو اپنی روشنی سے منور کررہے ہیں ۔ ان توصیفی کلمات کا اظہار سنتروں کے شہر میں علم و ادب کے حوالوں سے معروف و معتبر شخصیت جناب وکیل پرویز نے کیا۔ گذشتہ روز وہ خانوادۂ جلال صابر کی دعوت پر جشن شادی میں شرکت کی غرض سے مسجدوں ، میناروں کے شہر میں مقیم تھے ۔ اور اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے ۔ غالب نواز شخصیت ماسٹر سعید پرویز ( سبکدو ش صدر مدرس ) کی ایماء پر وکیل پرویز کے اعزاز میں کائنات نجم النساء میں قالینِ نظر بچھائی گئی ۔ معروف اسلامی اسکالر مولانا جلال الدین قاسمی کی صدارت میں پرتکلف اعزازی شعری نشست کا اہتمام ہوا جسے اثر صدیقی کی معیاری نظامت نے ادبی وقار کی معراج عطا کی ۔ محفل مشاعرہ میں عروس البلاد سے تشریف فرما جاوید حیدری کے علاوہ ممتاز عالم دین جامعہ محمدیہ منصورہ کے شیخ الحدیث مولانا دکتور فضل الرحمن المدنی ، ہارون بی اے ، سبکدوش پرنسپال لئیق انصاری ، شبیر رمضان ، قریشی مختار احمد ، پروفیسر ارشد حسین ، رفیق مقادم ، ڈاکٹر احتشام دانش ، انیس اظہر ، نہال غفران ، عبدالرحیم فاروقی بطور مہمان شریک تھے۔
صاحب اعزاز وکیل پرویز نے اس موقع پر اپنے دلی تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ جب دہشت گروں نے اس شہر کے معصوموں کو نشانہ بنایا۔ تو ہم لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ ہم نے برملا یہ بات کہی تھی کہ مالیگاؤں کے سیدھے سادے محنت کش لوگ جو چائے کی ایک پیالی پر ہی خوش ہوجاتے ہیں ۔ جومہمانوں کیلئے دل و جان نکال کر رکھ دیتے ہیں ، ایسے سادہ لوح لوگوں کے خون میں دہشت گری نہیں ہوسکتی۔ انھوں نے اپنے مرحوم بھائی جلیل ساز کے حوالے سے کہا اسی سر زمین سے معاشی ترقی کے حوصلے اور تعلیمی ، مذہبی ، بیداری کی چنگاری لے کر ناگپور لوٹے تھے۔ وکیل پرویز کے مطابق ہندوستان کے کسی شہر کو یہ اعزاز نہیں کہ جہاں اتنی کثرت سے مسجدیں اور مدرسے ہوں اور ان میں سے چند مدرسے تو عالمی سطح پر اپنی شناخت رکھتے ہیں ۔ بالخصوص جامعہ محمدیہ منصورہ ، جامعتہ الصالحات جیسے مدرسوں کی شہرت و مقبولیت مغربی ملکوں کو بھی فتح کررہی ہے ۔ اپنے اعزاز میں منعقدہ محفل مشاعرہ کے بعض شعراء کے حوالے سے آپ نے کہا کہ اتنے اچھے اشعار تو ہمیں بڑ ے بڑے کل ہند مشاعروں میں بھی سننا نصیب نہیں ہوتے ۔ اس اعزازی مشاعرہ میں بزرگ شاعر امین صدیقی ، رفعت صدیقی ، پرواز اعظمی ، جمیل ساحر اور اثر صدیقی نے اپنے کلام بلاغت سے سامعین کومحظوظ کیا۔
فوٹو کیپشن : محفل مشاعرہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے صاحب اعزاز وکیل پرویز
***

Tuesday, September 20, 2011

یوم اساتذہ





بروز پیرمورخہ 5 ستمبر کو  آرمی گڈویل اسکول  کھارپورہ  ضلع بانڈی پورہ  اسٹیٹ جمّوں اور کشمیر میں یوم اساتذہ کی تقریب منائی گئی ۔اس وقت وہاں کا ماحول بہت خوشگوار تھا ۔ہر طرف بچے پروگرام کی کی تیاری کررہے تھے ۔ دف اور وہاں کے ڈھول پر بچے پریکٹس کر رہے تھے ۔  سارے ہی اساتذہ مصروف نظر آرہے تھے ۔ سب ہی مسرور تھے ۔میں۔لنترانی ڈاٹ کام کی چیف ایڈیٹر منوّر سلطانہ اور نارتھ ذون ( شمالی علاقے ) کے بیورو چیف نصرالاسلام راتھر وہاں پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے  بڑے ہی پر خلوص انداز میں ان کا استقبال کیا ۔آرمی گڈ ویل اسکول ایک چھوٹے سے گاؤں میں آرمی کے ذریعے چلایا جارہا ہے یہاں پر 250 طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔او ر بیس ٹیچرس اور نان ٹیچرس کا اسٹاف ہے ۔یہ اسکول آرمی کے ذریعے چلایا  جارہا ہے ۔یہاں پر ہر قسم کی سرگرمیاں انجام دی جارہی ہے ۔ہر طرح کے  پروگرام مناۓ جاتے ہیں ۔ میں پہلی بار1995 میں جب کشمیر آئ تھی اس وقت یہاں کے حالات بہت خراب تھے ۔یہاں کے لوگ گھبراۓ اور سہمے ہوۓ تھے بہت کم لوگ ہندی اور اردو زبان جانتے تھے ۔مگر  اب کی بار یہاں بہت بدلاؤ نظر آیا ۔آرمی اسکول جو کہ ایک انگلش میڈیم اسکول ہے  اور  2004۔میں شروع کیا گیا ہے ۔ یہاں کےلوگ بہت اچھی طرح ہندی اور اردو بولتے ہیں ۔ ہر طرف خوشگوار ماحول ہے ۔ آرمی کے سی ای او  آفیسر ونود نیگی صاحب کی صدارت میں پروگرام کا آغاز کیا گیا ۔  بچوں نے یوم اساتذہ کے موقع پر تقریریں کیں ۔استقبالیہ  گیت پیش کۓ اور کشمیری لوک گیت اور وہاں کا ڈانس پیش کرکے  سامعین کو مسحور کر دیا ۔پھر اسکول کے عارف  سر نے اپنی تقریر کی پھر اسکول ھذا کے کے پرنسپل وانی سر نے سب کا شکریہ ادا کیا  اور سی ای او صاحب نے اپنی تقریر کے بعد اسکول کے تمام اسٹاف  کو یوم اساتذہ کی مبارکباد کے ساتھ تحائف پیش کۓ۔           

Monday, September 19, 2011

بخش دے


 بخش دے ساری خطائیں سن لے میری التجا
مانگتا تجھ سے دعا ہے ایک دل ٹوٹا ہوا
کس میں ہے طاقت کرے جو دور میری مشکلیں
بن نہیں سکتا کوئی آدم کبھی مشکل کشا
رشتے ناطے دوستی بیکار سب ثابت ہوۓ ۔
سب سے بڑھکر میرے مالک ہے تیرا آسرا
میری امیديں تو غیروں سے ہی وابستہ رہیں
ورنہ ہر نعمت مجھے تونے ہی کردی تھی عطا
عرض اتنی ہے یا رب وہ گھڑی آسان ہو
جب فرشتہ موت کا ہوگا میرے سر پر کھڑا
اندھا بنا کر روز محشر میں اٹھانا تم مجھے
منہ دکھاؤں کیا میں ہوگا سامنے جب مصطفے
ہے یہی بس آخری خوہش میری یوں موت ہو
نام ہونٹوں پر ہو تیرا ،سر ہو سجدے میں میرا
(اے مجید وانی احمد نگر )

Sunday, September 18, 2011

ڈاکٹر سلیم خان کے ناول ’’سکندر کا مقدر‘‘ کا جائزہ : محمد اسلم غازی




















باسمہٖ تعالیٰ
ڈاکٹر سلیم خان کے ناول ’’سکندر کا مقدر‘‘ کا جائزہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر سلیم خان ایک سائنسداں ہیں۔ وہ کیمسٹری میں PHDہیں۔ ماحولیات کا مطالعہ اور اُس کے بگاڑ کی روک تھام اُن کا موضوع ہے۔ اُن کی دوسری مصروفیت اقامت دین کی جدوجہد ہے۔ میرا اُن سے تعلق اُس وقت سے ہے جب ہم دونوں اسلامی طلباء تنظیم میں تھے۔ تحریک اسلامی میں بھی برسوں ہم ساتھ رہے تھے۔ اُس وقت اُن کی باتوں سے کبھی کبھی اُن کے ادبی ذوق کا اظہار ہوا کرتا تھا۔ ایک بار اُن کے ادبی ذوق کے متعلق استفسار کرنے پر پتہ چلا تھا کہ وہ کسی زمانے میں شاعری بھی کرتے تھے جسے طلباء تنظیم کے ایک ذمے دار نے غیرمفید شوق بتا کر اُن سے ترک کروادیا تھا۔ سعودی عرب جانے کے بعد اُن کا دبا ہوا ادبی ذوق انگڑائی لے کر بیدار ہوگیا اور وہ پے درپے ادبی تخلیقات پیش کررہے ہیں۔ پہلے انہوں نے افسانے لکھے اور اُن کا مجموعہ بعنوان ’’حصار‘‘ شائع کروایا جو اہل ادب سے خراج تحسین حاصل کرچکا ہے۔ اب انہوں نے ایک ناول پیش کیا ہے۔جس کا نام ’’سکندر کا مقدر‘‘ ہے۔ 
ناول کا نام متوجہ کرتا ہے۔ اس میں کشش ہے کیوں کہ مشہور محاورے اور کامیاب ہندی فلم مقدر کا سکندر کی یہ ترکیب معکوس ہے۔ نام دیکھتے ہی تجسس پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس سکندر کے مقدر کی کہانی ہے؟ لیکن کہانی کا تعلق ناول کے ایک کردار سکندر سے اُتنا نہیں ہے جتنا دوسرے کرداروں سے ہے، اس لیے اس ناول کا نام ’’سمیہ کا تہیہ‘‘ ، ’’ثریا کا رویہ‘‘، ’’خضر کا حجر‘‘ ، ’’صفدر کا مرڈر‘‘ بھی ہوسکتا تھا۔ لیکن یہ تمام عنوانات قاری کو ہرگز اپنی طرف متوجہ نہ کرپاتے۔ 
مضبوط بائنڈنگ، عمدہ کاغذ اور نفیس طباعت کی ظاہری خوبیوں والے اس ناول میں 29 ابواب ہیں جو 250سے زائد صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کی قیمت 200 روپے بہت زیادہ ہے، اُردو قاری کو کتابوں سے دور کرنے میں ان کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ یہ ناول مجھے 8 ؍ستمبر 2011ء ؁ کو ملا تھا۔ اسی رات 10بجے میں نے اسے پڑھنا شروع کیا اور چند لمحوں بعد ہی اُس نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا اور اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک میں نے اسے ختم نہیں کرلیا۔ڈاکٹر سلیم خان کا یہ ناول بے انتہا دلچسپ ، تہہ دار سس پنس سے بھرپور اور بعض بعض مقامات پر سنسنی خیز بھی ہے۔ ناول کا ہر باب مجھ سے یہ تقاضہ کرتا تھا کہ اگلا باب ضرور پڑھوں چنانچہ جب ناول ختم ہوا اُس وقت رات کا 01:30بج رہا تھا۔
سسپنس کی تہہ داری ناول نگاری میں ایک انوکھا تجربہ ہے جس کا کریڈٹ ڈاکٹر سلیم خان کو جاتا ہے۔ بعض امور تو قاری کے ذہن کو شروع سے ہی تجسس میں مبتلا رکھتے ہیں۔ مثلاً خضرحیات خان اور ثریا کے درمیان کیا تعلق ہے؟ خضرحیات خان کی موت اور اس کے بیٹے سکندر کی مسلسل بے ہوشی (کوما) کا کیا راز ہے؟ سمیہ اور ثریا کا تعلق بھی قاری کو یک گو نہ تجسس میں مبتلا رکھتا ہے۔ سمیہ اپنے آپ کو خضرحیات خان کا قاتل کیوں سمجھ رہی ہے؟ صفدر کا خضرحیات ، ثریا اور سمیہ سے کیا تعلق ہے؟ ناول کا سب سے زیادہ سنسنی خیز اور سسپنس سے بھرپور حصہ، عدالتی کارروائی ہے، جو 20ابواب پر پھیلا ہوا ہے۔ ایڈوکیٹ ظفر اقبال جس طرح صفدر کو آہستہ آہستہ قتل کے الزام میں الجھاتا ہے تو ایسا لگتا ہے گویا مکڑی شکار کو اپنے جالے میں پھانس رہی ہے۔قاری کے دل میں اس دوران صفدر سے ہمدردی اور ظفر اقبال سے نفرت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ وہ صفدر کے لیے بے چینی محسوس کرتا ہے۔ ناول میں ان کے علاوہ بھی مزید سسپنس ہے جو اچانک ہی آخری حصے میں سامنے آتا ہے۔ 
اس ناول میں دو ’’کلائمکس‘‘ ہیں۔ پہلا کلائمکس عدالتی کارروائی کے اختتام پر سامنے آتا ہے۔ اس کے فوراً بعد قاری کو اندازہ ہوتا ہے کہ ناول میں ابھی مزید سسپنس باقی ہے جو دوسرے کلائمکس پر ختم ہوتا ہے۔ یہ اس ناول کی ایک اور خوبی ہے۔ 
ناول کا پلاٹ بے حد مربوط ہے۔ ایک کے بعد ایک واقعات کی بھرمار سے قاری مسلسل حیرت و استعجاب میں مبتلا رہتا ہے اور کسی مقام پر بوریت محسوس نہیں کرتا۔ ڈاکٹر سلیم خان مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پہلے ناول میں ہی اپنا سکہ جما دیا ہے اور کسی قادرالقلم مصنف کی طرح بے شمار واقعات اور کرداروں میں ناول کے پلاٹ کو گم نہیں ہونے دیا۔ ناول کی ایک بڑی خوبی قصہ پن اور ماجرا نگاری ہے۔ 
وکیلوں کی نوک جھونک، ظفر اقبال کی چالاکی، جلول جلال کی کمزور خود اعتمادی، پولس افسر کیپٹن سعید اور اس کے معاون اکرام کی صفدر سے اعتراف جرم کرانے کی تدابیر، جعلی گواہ قلندر کی عیاریاں وغیرہ واقعات ناول کی جان ہیں جنہیں ڈاکٹر سلیم خان نے بڑے ہنرمندانہ انداز میں بیان کیا ہے ۔
اپنے پہلے ہی ناول میں سلیم خان نے کردار سازی میں حیرتناک مہارت دکھائی ہے۔ سمیہ، ثریا، صفدر ، وکیل جلول جلال، وکیل ظفر اقبال، جعلی گواہ قلندر، نرس چھمیہ، کرنل ڈیوڈ وغیرہ جیتے جاگتے کردار ہیں۔ ناول کا ایک اہم کردار خضرحیات خان پہلے ہی باب میں فوت ہوجاتا ہے لیکن وہی کہانی کا مرکزی کردار بھی ہے۔ناول نگار نے اپنے اس کردار کو اس طرح زندہ رکھا ہے کہ وہ ناول کی ایک ایک سطر میں نظر آتا ہے۔ اس ناول کے بعض کردار مثلاً دونوں وکیل، جعلی گواہ قلندر ،کرنل ڈیوڈ شاید تا عمر ذہن سے چپکے رہیں گے بالکل اسی طرح جیسے ابن صفی کی جاسوسی دنیا اور نکہت سیریز کے بعض کردار زندۂ جاوید ہوگئے ہیں۔ 
ڈاکٹر سلیم خان اس نکتے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ مکالمہ نگاری سے ناول کا پلاٹ اپنی منزل کی طرف کامیابی سے بڑھتا ہے۔ چنانچہ ناول کا ہر کردار اپنے حالات اور حیثیت کے مطابق مکالمے ادا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ مکالمے بھی اس ناول کی دلچسپی میں اضافہ کرتے ہیں۔ 
اس دلچسپ ناول کا پس منظر کلیتہً اسلامی ہے اور اس کی سب سے بڑی خوبی اِس میں موجود اسلامی تہذیب و ثقافت اور ماحول ہے جہاں مردوں کے ایک سے زائد نکاح پر پابندی لگانا توکجا کوئی اعتراض بھی نہیں کرسکتا۔ یہ ڈاکٹر سلیم خان کے قلم کی خصوصیت ہے جو اُن کے افسانوں اور اُن کے ناول میں ہر جگہ موجود ہے۔ 
ڈاکٹر سلیم کا اسلوب رواں اور زبان آسان ہے۔کہیں کہیں مزاح اور ظرافت کی مٹھاس اور کہیں طنز کی ترشی ناول کو مزید دلچسپ بناتی ہے۔ 
ناول میں کچھ کمزوریاں بھی ہیں۔ مثلاً : 
وکیل جلول جلال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ بے حد ذہین ہے، موکل کے چہرے پڑھ لیتا ہے، غلط مقدمات میں ہاتھ نہیں ڈالتا اور اپنے مقدمات ہمیشہ جیت جاتا ہے۔ لیکن بعد کے حالات ان تمام باتوں کے برعکس ہیں۔ وہ صفدر اور سمیہ کا غلط کیس ہاتھ میں لیتا ہے۔ ایک بالکل نا تجربہ کار وکیل ظفر اقبال اسے قدم قدم پر شکست دیتا ہے۔ غصے سے اس کا ذہن ماؤف ہوجاتا ہے۔ 
سمیہ جب کرنل ڈیوڈ کو خضرحیات خان کی ڈائری پڑھنے کو دیتی ہے جس میں خضرحیات خان، ثریا ،صفدر اور ان کی تعمیراتی کمپنی کے حالات و واقعات، ورلڈ کپ میچ میں عراق اور امریکہ کے مقابلے سے قبل کے احساسات ، خضرحیات کی شادی پر ثریا کا کمپنی سے استعفیٰ، پھر کمپنی دوبارہ جوائن کرنا وغیرہ بیان کیے گئے ہیں۔ ایسی باتیں خضرحیات خان کی ڈائری میں کیسے درج ہوپائیں جو اُس کے غیاب میں وقوع پذیر ہوئیں؟
صفحہ 126 پر حَل من مزید میں حل غلط ہے ۔ ھَل ہونا چاہیے جس کا معنی ’’کیا‘‘ ہے۔ یہ ایک قرآنی آیت ہے۔ 
تین چار مقامات پر بمبئیا لفظ ’’چالو‘‘ بمعنی شروع کرنا استعمال کیاگیا ہے جو سماعت پر ناگوار اثر چھوڑتا ہے۔ 
باب نمبر10 (صفحہ نمبر 77 ) کا ذیلی عنوان ’’اندیشہ لولاک‘‘ قائم کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں’’اگر تم نہ ہوتے کا خوف‘‘ اور جو انتہائی مہمل اور باب کے مندرجات سے قطعی لاتعلق ہے۔ لولاک دراصل ایک موضوع حدیث کے الفاظ ہیں جس میں یہ من گھڑت بات کہی گئی ہے کہ اگر آپ( نبیﷺ )نہ ہوتے تو کائنات بھی نہ بنائی جاتی۔ 
سلیم خان ہندی فلموں سے کافی متاثر ہیں۔ ان کے ناول کے بعض مناظر ہندی فلموں کی یاد دلاتے ہیں۔ مثلاً جب خضر حیات کے انتقال کی خبر سے ناواقف سمیہ، ثریا کے سامنے خضرحیات سے اپنے تعلقات کو سدھارنے کی بات کہتی ہے تو پس منظر میں فلمی گانا ’’سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا ہوا ‘‘ بجتا رہتا ہے۔ ناول کا اختتام بھی ہندی فلموں کی طرح سب بچھڑے ہوؤں کی ملاقات یعنی Happy Ending پرہوتا ہے۔ یہ اختتام یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ڈاکٹر سلیم اُردو کی خاتون ناول نگاروں مثلاً رضیہ بٹ، سلمیٰ کنول، نادرہ خاتون، ہاجرہ نازلی وغیرہ سے بھی کافی متاثر ہیں جن کے ہلکے پھلکے رومانی ناول خوب پڑھے جاتے تھے۔ لیکن الحمدللہ ان کا ناول عشق بازی کی اُس خرافات سے بالکل پاک ہے جو اُردو ادب کو لاگو ہوگیا ہے اور گھن کی طرح اُسے کھوکھلا کررہا ہے۔ 

محمد اسلم غازی 
Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP