You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Saturday, September 24, 2011

ہماری میڈیا کتنی ذمہ دار؟



 ہمارے ملک کے اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا نے سیاست اور فلم کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ملک کے تمام روزنامے سال کے تین سو پینسٹھ دن میں سے کم و بیش تین سو دن اور ہفتہ روزہ اخبارات سال کے باون ہفتوں میں سے قریب چالیس ہفتے سیاست اور فلم سے وابستہ خبروں کو سہ سرخی یا کور اسٹوری بناتے ہیں۔مثلاً کسی سیاست داں نے پارٹی بدلی ،اسپتال میں داخل ہوا یا گھوٹالے میں گرفتا ہوکر جیل پہونچا تو اسے رات میں نیند نہیں آئی ۔یہ ساری باتیں مع تصویر کے صفحہ اول پر شائع کی جاتی ہیں ۔اسی طرح کوئی بڑا لیڈر مثلاً راہل گاندھی یا سونیا وغیرہ نے کسی شہر کا دورہ کیا تو انکی ایک ایک منٹ کی خبریں حتیٰ کہ اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے کی باتیں براہ راست دکھنے کی کوشش الیکٹرانک میڈیا والے کرتے ہیں ۔یہاں تک کہ اگر انہیں اسٹیج پر جھپکی آگئی یا اپنی گاڑی روک کر سڑک کنارے ڈھابے والے سے چائے پی لی تو وہ ایک بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔اسی طرح ایک فلمی ہیرو ئن کے ہاں لڑکے کی ولادت ہوئی تو اس بات کو ایک مشہور نیوز چینل نے بریکنگ نیوز کے طور پر دو گھنٹے تک دکھایا ۔اب تو سیاست داں جان بوجھکر کوئی متنازعہ بیان دے ڈالتے ہیں اور پھر سبھی زبانوں کے نیوز چینلوں پر دن بھر اور دوسرے روز ملک کے سارے اخبارات میں صفحہ اول پر مع تصویر وں کے چھائے رہتے ہیں ۔ٹی وی والے ان کے متنازعہ بیان کو لیکر خصوصی پروگرام دکھاتے ہیں تو اخبارات میں مضامین اور اداریے لکھے جاتے ہیں ۔اتنی پبلسٹی کروڑوں روپئے کے اشتہارات کے ذریعے بھی نہیں مل پاتی اور پھر اپنا سیاسی الو سیدھا کرکے یہ اپنے متنازعہ بیان سے ’’توڑ مروڑ‘‘ کا بہانہ کرکے قانونی طور پر صاف بچ نکلتے ہیں ۔
میڈیا کو چاہئے کہ وہ اس طرح کے غیر ضروری اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کو بدلے اور وہ عوامی مسائل کو اپنا موضوع بناتے ہوئے اسے شاہ سرخی بنائے اور اسے اول صفحہ پر نمایاں جگہ دے ۔ساتھ ہی صفحہ اول پر ہی ادارتی کالم تحریر کرکے حکومت اور خود غرض سیاست دانوں کے ہاتھ مروڑ کر اپنا فرض نبھانے پر مجبور کرے ۔کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کو ہائی کیا جانا زیادہ ضروری ہوتا ہے ۔لیکن میڈیا اس سے غفلت برتتا ہے۔جیسے گذشتہ دوسالوں میں ریل حادثے زیادہ ہوئے ہیں ان میں سینکڑوں لوگ ہلاک اور ہزاروں زندگی بھر کے لئے معذور ہوگئے۔یہ حادثات کیوں ہوئے ،ان پر بیٹھائی گئی جانچ کمیشنوں کا کیا ہوا ؟جن خرابیوں کی وجہ سے یہ حادثات ہوئے کیا ان کو مستقل طور پر دور کرلیا گیا؟یا پھر عارضی طور پر کام چلاؤ لیپا پوتی کرکے اگلے حادثے کی ایڈوانس میں تیاری کرلی گئی ہے؟ اناج کے بھر پور پیدار کے باوجود ان کی قیمتیں آسمان کیوں چھو رہی ہیں ؟ غذائی اجناس کی کالا بازاری اور سبزیوں کی قیمتوں پر حکومت کا کوئی قابو نہیں ہے اور عوام آدھا پیٹ کھاکر یا ملک کی آدھی سے زیادہ دیہی آبادی بھوکوں سونے پر مجبور ہے۔حتیٰ کی خود کشی تک کر رہے ہیں ۔تو پھر حکومت کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟
اسی طرح ممبئی کے کچھ مضافاتی علاقے جیسے گوونڈی اور مانخوردوغیرہ میں عورتیں اور بچے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر علی الصبح ریل کی پٹریاں پار کرکے پینے کا پانی لیکر آتے ہیں ۔حکومت کیا انکے لئے پانی کا انتظام بھی نہیں کر سکتی؟ یہ بھی اسی ملک کے شہری ہیں بنگلہ دیشی یا پاکستانی نہیں ہیں ۔اسی طرح کروڑوں روپئے خرچ کرکے فسادات پر جانچ کمیشن بنائے گئے اور پھر انکی رپورٹ و سفارشات کو ردی کی ٹوکری میں ڈالدیا گیا۔الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا ان باتوں کو شدت سے اٹھائے تو ملک اس طرح خلفشار اور تنگ نظری سے محفوظ ہو جائے ،لیکن لگتا ہے کہ میڈیا کے ذمے داروں کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے ۔جو عوام کی جائز ضروریات اور مظلوموں کی چیخیں بھی اس پر کوئی اثر نہیں ڈال پا رہی ہیں !!!
حفوظ الرحمن انصاری۔نیا نگر
مور لینڈ روڈ۔ممبئی 400008.
موبائل۔09869398281


No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP