You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Sunday, September 18, 2011

ڈاکٹر سلیم خان کے ناول ’’سکندر کا مقدر‘‘ کا جائزہ : محمد اسلم غازی




















باسمہٖ تعالیٰ
ڈاکٹر سلیم خان کے ناول ’’سکندر کا مقدر‘‘ کا جائزہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر سلیم خان ایک سائنسداں ہیں۔ وہ کیمسٹری میں PHDہیں۔ ماحولیات کا مطالعہ اور اُس کے بگاڑ کی روک تھام اُن کا موضوع ہے۔ اُن کی دوسری مصروفیت اقامت دین کی جدوجہد ہے۔ میرا اُن سے تعلق اُس وقت سے ہے جب ہم دونوں اسلامی طلباء تنظیم میں تھے۔ تحریک اسلامی میں بھی برسوں ہم ساتھ رہے تھے۔ اُس وقت اُن کی باتوں سے کبھی کبھی اُن کے ادبی ذوق کا اظہار ہوا کرتا تھا۔ ایک بار اُن کے ادبی ذوق کے متعلق استفسار کرنے پر پتہ چلا تھا کہ وہ کسی زمانے میں شاعری بھی کرتے تھے جسے طلباء تنظیم کے ایک ذمے دار نے غیرمفید شوق بتا کر اُن سے ترک کروادیا تھا۔ سعودی عرب جانے کے بعد اُن کا دبا ہوا ادبی ذوق انگڑائی لے کر بیدار ہوگیا اور وہ پے درپے ادبی تخلیقات پیش کررہے ہیں۔ پہلے انہوں نے افسانے لکھے اور اُن کا مجموعہ بعنوان ’’حصار‘‘ شائع کروایا جو اہل ادب سے خراج تحسین حاصل کرچکا ہے۔ اب انہوں نے ایک ناول پیش کیا ہے۔جس کا نام ’’سکندر کا مقدر‘‘ ہے۔ 
ناول کا نام متوجہ کرتا ہے۔ اس میں کشش ہے کیوں کہ مشہور محاورے اور کامیاب ہندی فلم مقدر کا سکندر کی یہ ترکیب معکوس ہے۔ نام دیکھتے ہی تجسس پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس سکندر کے مقدر کی کہانی ہے؟ لیکن کہانی کا تعلق ناول کے ایک کردار سکندر سے اُتنا نہیں ہے جتنا دوسرے کرداروں سے ہے، اس لیے اس ناول کا نام ’’سمیہ کا تہیہ‘‘ ، ’’ثریا کا رویہ‘‘، ’’خضر کا حجر‘‘ ، ’’صفدر کا مرڈر‘‘ بھی ہوسکتا تھا۔ لیکن یہ تمام عنوانات قاری کو ہرگز اپنی طرف متوجہ نہ کرپاتے۔ 
مضبوط بائنڈنگ، عمدہ کاغذ اور نفیس طباعت کی ظاہری خوبیوں والے اس ناول میں 29 ابواب ہیں جو 250سے زائد صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کی قیمت 200 روپے بہت زیادہ ہے، اُردو قاری کو کتابوں سے دور کرنے میں ان کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ یہ ناول مجھے 8 ؍ستمبر 2011ء ؁ کو ملا تھا۔ اسی رات 10بجے میں نے اسے پڑھنا شروع کیا اور چند لمحوں بعد ہی اُس نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا اور اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک میں نے اسے ختم نہیں کرلیا۔ڈاکٹر سلیم خان کا یہ ناول بے انتہا دلچسپ ، تہہ دار سس پنس سے بھرپور اور بعض بعض مقامات پر سنسنی خیز بھی ہے۔ ناول کا ہر باب مجھ سے یہ تقاضہ کرتا تھا کہ اگلا باب ضرور پڑھوں چنانچہ جب ناول ختم ہوا اُس وقت رات کا 01:30بج رہا تھا۔
سسپنس کی تہہ داری ناول نگاری میں ایک انوکھا تجربہ ہے جس کا کریڈٹ ڈاکٹر سلیم خان کو جاتا ہے۔ بعض امور تو قاری کے ذہن کو شروع سے ہی تجسس میں مبتلا رکھتے ہیں۔ مثلاً خضرحیات خان اور ثریا کے درمیان کیا تعلق ہے؟ خضرحیات خان کی موت اور اس کے بیٹے سکندر کی مسلسل بے ہوشی (کوما) کا کیا راز ہے؟ سمیہ اور ثریا کا تعلق بھی قاری کو یک گو نہ تجسس میں مبتلا رکھتا ہے۔ سمیہ اپنے آپ کو خضرحیات خان کا قاتل کیوں سمجھ رہی ہے؟ صفدر کا خضرحیات ، ثریا اور سمیہ سے کیا تعلق ہے؟ ناول کا سب سے زیادہ سنسنی خیز اور سسپنس سے بھرپور حصہ، عدالتی کارروائی ہے، جو 20ابواب پر پھیلا ہوا ہے۔ ایڈوکیٹ ظفر اقبال جس طرح صفدر کو آہستہ آہستہ قتل کے الزام میں الجھاتا ہے تو ایسا لگتا ہے گویا مکڑی شکار کو اپنے جالے میں پھانس رہی ہے۔قاری کے دل میں اس دوران صفدر سے ہمدردی اور ظفر اقبال سے نفرت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ وہ صفدر کے لیے بے چینی محسوس کرتا ہے۔ ناول میں ان کے علاوہ بھی مزید سسپنس ہے جو اچانک ہی آخری حصے میں سامنے آتا ہے۔ 
اس ناول میں دو ’’کلائمکس‘‘ ہیں۔ پہلا کلائمکس عدالتی کارروائی کے اختتام پر سامنے آتا ہے۔ اس کے فوراً بعد قاری کو اندازہ ہوتا ہے کہ ناول میں ابھی مزید سسپنس باقی ہے جو دوسرے کلائمکس پر ختم ہوتا ہے۔ یہ اس ناول کی ایک اور خوبی ہے۔ 
ناول کا پلاٹ بے حد مربوط ہے۔ ایک کے بعد ایک واقعات کی بھرمار سے قاری مسلسل حیرت و استعجاب میں مبتلا رہتا ہے اور کسی مقام پر بوریت محسوس نہیں کرتا۔ ڈاکٹر سلیم خان مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پہلے ناول میں ہی اپنا سکہ جما دیا ہے اور کسی قادرالقلم مصنف کی طرح بے شمار واقعات اور کرداروں میں ناول کے پلاٹ کو گم نہیں ہونے دیا۔ ناول کی ایک بڑی خوبی قصہ پن اور ماجرا نگاری ہے۔ 
وکیلوں کی نوک جھونک، ظفر اقبال کی چالاکی، جلول جلال کی کمزور خود اعتمادی، پولس افسر کیپٹن سعید اور اس کے معاون اکرام کی صفدر سے اعتراف جرم کرانے کی تدابیر، جعلی گواہ قلندر کی عیاریاں وغیرہ واقعات ناول کی جان ہیں جنہیں ڈاکٹر سلیم خان نے بڑے ہنرمندانہ انداز میں بیان کیا ہے ۔
اپنے پہلے ہی ناول میں سلیم خان نے کردار سازی میں حیرتناک مہارت دکھائی ہے۔ سمیہ، ثریا، صفدر ، وکیل جلول جلال، وکیل ظفر اقبال، جعلی گواہ قلندر، نرس چھمیہ، کرنل ڈیوڈ وغیرہ جیتے جاگتے کردار ہیں۔ ناول کا ایک اہم کردار خضرحیات خان پہلے ہی باب میں فوت ہوجاتا ہے لیکن وہی کہانی کا مرکزی کردار بھی ہے۔ناول نگار نے اپنے اس کردار کو اس طرح زندہ رکھا ہے کہ وہ ناول کی ایک ایک سطر میں نظر آتا ہے۔ اس ناول کے بعض کردار مثلاً دونوں وکیل، جعلی گواہ قلندر ،کرنل ڈیوڈ شاید تا عمر ذہن سے چپکے رہیں گے بالکل اسی طرح جیسے ابن صفی کی جاسوسی دنیا اور نکہت سیریز کے بعض کردار زندۂ جاوید ہوگئے ہیں۔ 
ڈاکٹر سلیم خان اس نکتے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ مکالمہ نگاری سے ناول کا پلاٹ اپنی منزل کی طرف کامیابی سے بڑھتا ہے۔ چنانچہ ناول کا ہر کردار اپنے حالات اور حیثیت کے مطابق مکالمے ادا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ مکالمے بھی اس ناول کی دلچسپی میں اضافہ کرتے ہیں۔ 
اس دلچسپ ناول کا پس منظر کلیتہً اسلامی ہے اور اس کی سب سے بڑی خوبی اِس میں موجود اسلامی تہذیب و ثقافت اور ماحول ہے جہاں مردوں کے ایک سے زائد نکاح پر پابندی لگانا توکجا کوئی اعتراض بھی نہیں کرسکتا۔ یہ ڈاکٹر سلیم خان کے قلم کی خصوصیت ہے جو اُن کے افسانوں اور اُن کے ناول میں ہر جگہ موجود ہے۔ 
ڈاکٹر سلیم کا اسلوب رواں اور زبان آسان ہے۔کہیں کہیں مزاح اور ظرافت کی مٹھاس اور کہیں طنز کی ترشی ناول کو مزید دلچسپ بناتی ہے۔ 
ناول میں کچھ کمزوریاں بھی ہیں۔ مثلاً : 
وکیل جلول جلال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ بے حد ذہین ہے، موکل کے چہرے پڑھ لیتا ہے، غلط مقدمات میں ہاتھ نہیں ڈالتا اور اپنے مقدمات ہمیشہ جیت جاتا ہے۔ لیکن بعد کے حالات ان تمام باتوں کے برعکس ہیں۔ وہ صفدر اور سمیہ کا غلط کیس ہاتھ میں لیتا ہے۔ ایک بالکل نا تجربہ کار وکیل ظفر اقبال اسے قدم قدم پر شکست دیتا ہے۔ غصے سے اس کا ذہن ماؤف ہوجاتا ہے۔ 
سمیہ جب کرنل ڈیوڈ کو خضرحیات خان کی ڈائری پڑھنے کو دیتی ہے جس میں خضرحیات خان، ثریا ،صفدر اور ان کی تعمیراتی کمپنی کے حالات و واقعات، ورلڈ کپ میچ میں عراق اور امریکہ کے مقابلے سے قبل کے احساسات ، خضرحیات کی شادی پر ثریا کا کمپنی سے استعفیٰ، پھر کمپنی دوبارہ جوائن کرنا وغیرہ بیان کیے گئے ہیں۔ ایسی باتیں خضرحیات خان کی ڈائری میں کیسے درج ہوپائیں جو اُس کے غیاب میں وقوع پذیر ہوئیں؟
صفحہ 126 پر حَل من مزید میں حل غلط ہے ۔ ھَل ہونا چاہیے جس کا معنی ’’کیا‘‘ ہے۔ یہ ایک قرآنی آیت ہے۔ 
تین چار مقامات پر بمبئیا لفظ ’’چالو‘‘ بمعنی شروع کرنا استعمال کیاگیا ہے جو سماعت پر ناگوار اثر چھوڑتا ہے۔ 
باب نمبر10 (صفحہ نمبر 77 ) کا ذیلی عنوان ’’اندیشہ لولاک‘‘ قائم کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں’’اگر تم نہ ہوتے کا خوف‘‘ اور جو انتہائی مہمل اور باب کے مندرجات سے قطعی لاتعلق ہے۔ لولاک دراصل ایک موضوع حدیث کے الفاظ ہیں جس میں یہ من گھڑت بات کہی گئی ہے کہ اگر آپ( نبیﷺ )نہ ہوتے تو کائنات بھی نہ بنائی جاتی۔ 
سلیم خان ہندی فلموں سے کافی متاثر ہیں۔ ان کے ناول کے بعض مناظر ہندی فلموں کی یاد دلاتے ہیں۔ مثلاً جب خضر حیات کے انتقال کی خبر سے ناواقف سمیہ، ثریا کے سامنے خضرحیات سے اپنے تعلقات کو سدھارنے کی بات کہتی ہے تو پس منظر میں فلمی گانا ’’سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا ہوا ‘‘ بجتا رہتا ہے۔ ناول کا اختتام بھی ہندی فلموں کی طرح سب بچھڑے ہوؤں کی ملاقات یعنی Happy Ending پرہوتا ہے۔ یہ اختتام یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ڈاکٹر سلیم اُردو کی خاتون ناول نگاروں مثلاً رضیہ بٹ، سلمیٰ کنول، نادرہ خاتون، ہاجرہ نازلی وغیرہ سے بھی کافی متاثر ہیں جن کے ہلکے پھلکے رومانی ناول خوب پڑھے جاتے تھے۔ لیکن الحمدللہ ان کا ناول عشق بازی کی اُس خرافات سے بالکل پاک ہے جو اُردو ادب کو لاگو ہوگیا ہے اور گھن کی طرح اُسے کھوکھلا کررہا ہے۔ 

محمد اسلم غازی 

No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP