بقراط اور شیفتہ کو چمن میں چہل قدمی کرتے دیکھ ہم بھی شامل
ہوگئے۔ گفتگو سنی تو پتہ چلا بقراط پر موجودہ عالمی سیاست کا بھوت سوار
ہے اور حضرتِ شیفتہ پر شعر وسخن کا غلبہ طاری ہے۔ ہم نے کہا بات کچھ بنتی نظر نہیں
آتی اور موضوع ہے کہ بٹاجارہا ہے۔ شیفتہ نے کہا حضور اور دم ہے کہ گُھٹا جارہا ہے،
سیاست پر بحث فضول ہے اور وقت کا زیاں ہے، اماں ایک زہرِ ہلاہل ہے
سیاست۔ بقراط نے کہا لیکن جناب حالات سے باخبر رہنا بھی اشد ضروری ہے۔ ہم نے
کہا ایسا کیجیے سیاست کے زہر کو ادب
و سخن کے آبِ حیات میں گھول دیجیے۔ فرمایا ، ایسا ہے تو پھرخوب ہے ۔
بقراط نے کہا، ذرائع ابلاغ میں آجکل ایک امریکی تحقیقی
مقالہ زیرِ بحث ہے جس میں بی جے پی کی صوبائی حکومتوں کے ، کام کاج، پر تعریف کے پل باندھے جارہے ہیں۔ پتہ نہیں کانگریس سے کسی اختلاف کی وجہ سے یا پھر ،لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانا۔ لیکن اہلِ ہند امریکہ کی محبت سے واقفیت رکھتے
ہیں۔ اب کتنی واقفیت رکھتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ جو
ممالک ایک بار امریکہ کی ،زلفِ پیچاں، کے اسیر ہوئے وہ پھر نکل نہ سکے جب تک کہ سب
کچھ لٹا نہ بیٹھے۔ ظالم پیری میں بھی اپنے خد و خال کو مصنوعات سے سنبھالے ہوئے ہے
اور ایک عالم کو دیوانہ بنا رکھا ہے۔
شیفتہ نے فرمایا ، غالباً بقراط صاحب امریکا کی اہلِ ہند کے ساتھ ،خاصکر گجرات اور بہار کےصوبوں کےساتھ محبتوں کا ذکر فرما رہے ہیں اور ہمیں پروین شاکر
کا مصرعہ یاد آگیا کہ ۔ ،گُل کو
معلوم ہے ،کیا دستِ صبا چاہتا ہے،۔ بلکہ ہمیں تو یہ محبت میں دست درازی کا معاملہ
لگے ہے۔ بی جے پی کی چُنری میں
تو پہلے ہی سے داغ لگا ہے اس لیے عصمت پر حرف آنے کا سوال ہی نہیں۔ ہاں بی جی
پی سیاستداں اس محبت میں آنکھیں موند کر دل ہی دل خوش ہو رہے
ہیں اور انکی امریکا کے تئیں یہ کیفیت کسی بلبلہ کی طرح ہے کہ۔
موند رکھنا چشم کا ہستی میں عینِ دید ہے
کچھ نہیں آتا نظر، جب آنکھ کھولے ہے حباب
فرمایا، ناخدائے سخن میر کایہ فصاحت و بلاغت سے معمور شعر ان
اہلِ ادب کو کرارا جواب ہے جنھیں میر کی سادہ بیانی کا گِلہ رہتاہے۔ ہم نے کہا
حضور میر کا یہ لقب ،ناخدائے سخن، بھی ان اہلِ ادب کے لیے نصیحت ہے جو اکثر و بیشتر اس لقب سے ،نا، کو حدف کر
اپنی شامتِ اعمال کو دعوت دیتے ہیں۔
بقراط نے کہا، بی جے پی کے ساتھ ساتھ مودی بھی اس امریکی
تعریف و توصیف پر پھولے نہیں سما رہے ہیں اور مغرب زدہ ذرائع ابلاغ نے مودی کی
بڑ کو سرخیوں میں رکھا ہے۔ بلکہ
بی جے پی کو اپنے ،پی ایم، امیدوار کے لیے جس ،چہرہء نازیبا، کی تلاش تھی یہی میڈیا
مودی کی تصویرمیں وہ چہرہ پیش کر
رہا ہے اور ہندوستان کا دردناک مستقبل تشکیل کر رہا ہے۔ ۔ مودی اب اقلیتوں
کو لبھانے میں لگے ہیں۔
شیفتہ نے ناگواری سے
فرمایا ۔
،، شش جِہت سے اس میں ظالم! بوئے خوں
کی راہ ہے
تیرا کوچہ، ہم سے تو کہہ، کس کی بسمل گاہ ہے۔،،
بقراط نے کہا، اب ناز واندام دیکھیے کہ مودی گاندھی جی کی
تقلید میں برت بھی رکھ رہے ہیں۔ ایک تو یہ پھلوں کے رسں سے بھرپور روزہ یا برت آج
تک ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ اور کیا مجال ہے جو یہ سیاستداں ،مرن برت، یا ،مون برت، رکھیں۔ مر نہ جاویں بے
موت۔ شیفتہ نے فرمایا تقلید پر ایک شعر یاد آیا کہ۔
تری تقلید سے کبکِ دری نے ٹھوکریں کھائیں
چلا جب جانور انساں کی چال، اسکا چلن بگڑا
بقراط نے کہا، عدالتِ عالیہ کے مودی پر مقدمہ میں دئے گئے
حالیہ فیصلے کو بی جے پی اسی طرح میڈیا کے ذریعہ پیش کررہی ہے اور عوام کو گمراہ
کررہی ہے جس طرح بابری مسجد کی شہادت کے فیصلے پر پچھلی بار پیش کیا تھا۔ شیفتہ نے فرمایا جناب مودی
کے معاملہ میں ہم جیسوں کو تو عدالت کا رخ یہ لگے ہے جیسے کہہ رہی ہو۔
خود مسیحا، خود ہی قاتل ہیں، تو وہ بھی کیا کریں
زخمِ دل پیدا کریں، یا زخمِ دل اچھا کریں
اور مسلمانانِ ہند عدالت سے مذکورہ دونوں مقدمات میں یہ
توقع وابستہ کئے ہوئے ہیں کہ۔
اسی امید پر باندھے ہوئے ہیں ٹکٹکی مئےکش
کفِ نازک پہ اک دن رکھ کے ساقی جام آئے گا
بقراط نے کہا حضور اڈوانی پر کیا کہیے گا کہ وہ پھر آخری
بار رتھ یاترا پر بیٹھنے جارہے ہیں کہ چاہے اب یاترا شمشان پر ختم ہو یا پی ایم کی
کرسی پر۔ فرمایا انکی رتھ یاترا پر یہ شعر یاد آیا کہ۔
خوشی سے اپنی رسوائی گوارا ہو نہیں سکتی
گریباں پھاڑتا ہے، تنگ جب دیوانا آتا ہے۔
اور انکی پی ایم بننے کی آخری خواہش کا حال یہ ہے کہ۔
مانگا کریں گے اب سے دعا ہجرِ یار کی
آخر کو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ
بقراط نے کہا حضور کانگریس کی نیم مردہ حالت دیکھیے جو اسکے
اندر بسے خاموش ،شدت
پسند خیمہ، کا کیا دھرا ہے۔ موجودہ سیاسی حالات دیکھکر کانگریس مسلمانوں کو
پھربہلا پھسلارہی ہے۔ شیفتہ نے فرمایا مسلمان سب سمجھتا ہے اس شعر کے مصداق۔
چاہتا ہے مجھکو تو، بھولے، نہ بھولوں میں تجھے۔
تیرے اس طرزِ تغافل کے فدا ہو جائیے۔
بقراط نے کہا، لیکن جناب کانگریسی مسلم رہنماوں کو ابھی تک
یہ پتہ نہیں ہے کہ امت کے مسائل کیا ہیں اور وہ تو یہ کہے ہے کہ۔
تو کہاں جائیگی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے
ہم تو کل خوابِ عدم میں، شبِ ہجراں ہونگے
اور بی جے پی مسلم رہنما یہ کہے ہے کہ۔
مکّدر یا مصفّا، جسکو یہ دونوں ہی یکساں ہوں
حقیقت میں وہی مہ خوار ہے، پینا اسی کا ہے
یہ سنتے ہی شیفتہ طیش میں آکر گویا ہوئے۔ بی جے پی کے نام
نہاد مسلمانوں سے کہیے۔
وہ فریب خوردہ شاہین، کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے، رہ و رسمِ شاہبازی
اور کانگریسی مسلم رہنماؤں کو جواب یہ ہے کہ۔
ایک ہم ہیں، کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں، کہ جنہیں چاہ کے ارمان ہونگے۔
اور سلمان خورشید صاحب کے تعلق سے عرض ہے کہ۔
لوگوں کو ہے خورشیدِ جہاں تاب کا دھوکہ
ہر روز دکھاتا ہوں میں ایک داغِ نہاں اور
بقراط نے کہا ، جناب کانگریسی رہنماؤں کا بی جے پی کے سامنے
یہ حال ہوجاتا ہے مانو لڑ لڑ کر تھک چکے ہوں۔یاجیسے کوئی سفید پوش کسی برہنہ
دیوانے سے تنگ آکر راستہ بدلنے پر غور کررہا ہو۔ شیفتہ نے فرمایا حضور ٹی وی پر
بحث و مباحثہ میں کانگریسیوں کی نحیف و نادار دلیلیں سن کر لگتا ہے کہ۔
سر کھجاتا ہے جہاں زخمِ سر اچھا ہو جائے
لذت سنگ بہ اندازہء تقریر نہیں
بقراط نے کہا دونوں خیموں میں صنفِ نازک کے مسائل پر نالاں
خواتین سیاستدانوں کایہ حال ہے کہ۔
داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے، سو وہ بھی خموش ہے
بی جے پی میں ایک خاتون ہیں ، جن کو بی جے پی نے مسلمانوں
کے ساتھ تجدیدِ وفا کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے۔ وہ اکثر ٹی وی پرجلوہ نما ہوتیں ہیں
ایک کہنہ مشق بزرگ بی جے پی سیاستداں کا سہارا لیے یا پتہ نہیں سہارا بنے ۔ شیفتہ نے کہا ہاں
انہیں دیکھکر یہ خیال آیا کہ۔
ہوئے ہیں پاؤں پہلے ہی نبردِ عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے، نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
بقراط نے کہا ، جناب بی جے پی این ڈی اے گٹھ جوڑ میں چند
اعتدال پسند بھی ہیں اور اقلیتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں لیکن زیادہ تعداد
شدت پسندوں کی ہے۔ بی جے پی کو ایک عرصہ لگے گا اپنی دشمنی کے
داغ دھونے اور اگر وہ دھو بھی
ڈالیں تو بی جے پی کے شدت پسند انہیں مٹنے نہیں
دیں گے۔ شیفتہ نے فرمایا اس لیے مسلمان یہی سوچتا ہے کہ۔
راضی ہیں، ہمکو دوست سے ہو دشمنی، مگر
دشمن کو، ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا
اور کانگریس کے متعلق یہ بھی خیال رکھتا ہے کہ۔
بگڑیں نہ بات بات پہ کیوں، جانتے ہیں وہ
ہم وہ نہیں، کہ ہم کو منایا نہ جائے گا
بقراط نے کہا ، حضور ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان کی
سیاسی جماعتیں ،بھکاری، اور ،قلندر فقیر، کا فرق سمجھ نہیں پائیں۔ ان جماعتوں
سے مسلمان کے ،مزاجِ فقیرانہ، کو سمجھنے میں کوتاہی ہوئی ہے پھر چاہے وہ بی جے پی
ہو یا کانگریس ہو یا سماج وادی یا کوئی اور۔ شیفتہ نے فرمایا، سماج وادی کے امر
سنگھ کا حال دیکھیے، کیا بد حال ہیں
آجکل جو کبھی بادشاہ گر کہلاتے تھے۔ آج جیسے کہہ رہے ہوں کہ۔
دیکھو مجھے، جو دیدہء عبرت نگاہ ہو
میری سنو، جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
بقراط نے کہا، اور امرسنگھ کے تعلق سے ملائم جی شاید یہ
سوچتے ہوں کہ۔
میں بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے
تم نے اچھا کیا، نباہ نہ کی
شیفتہ نے فرمایا کئی سیاستداں ہیں جو رشوت خوری، بد عنوانی
اور اوچھے سیاسی ہتھکنڈوں کی پاداش میں قید و بند میں ہیں اور جنکا حال بقول میر۔
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انھیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
کئی بڑے سیاستداں و صنعتکار اور اداکار امر سنگھ کے تعلق سے
یہ سوچ رہے ہوں گے کہ۔
تو مجھے بھول گیا ہو تو پتہ بتلا دوں
کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا
بقراط نے کہا ، خود بی جے پی کے اعتدال پسند لیڈر جناب اٹل بہاری
واجپائی کا یہ حال ہے کہ بہت عرصہ قبل انکی اعتدال پسندی کی وجہ سے انھیں آرام
کرنے کا کہہ کر سیاست سے دور رکھ دیا گیا۔ اور وہ
بے چارے خود شاعر بھی ہیں۔ شیفتہ نے فرمایا یہی کہتے ہونگے کہ۔
گو ہاتھ کو جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا، مرے آگے
فرمایا، ویسے تو ہندوستان کے زیادہ تر بزرگ سیاستدانوں کا
یہی حال ہے۔ البتہ پاکستان کے سیاستدانوں کی عمر کا اوسط بہتر ہے اور وہ دن بدن
اور بہتر کرنے میں کوشاں ہیں۔ لیکن انکی سیاست کی عمر کا اللہ ہی حافظ ہے۔ امریکا سے تعلقات پر پاکستانی سیاست کی یہ سوچ ہے کہ۔
آنکھ اسکی پھر گئی تھی، دل اپنا بھی پھر گیا
یہ اور انقلاب ہوا، انقلاب میں
زرداری صاحب سوچ رہے ہیں کہ۔
گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں، کہ میری بات سمجھنا محال ہے
پاکستان کے چند مغرب زدہ سیاستداں ایسے بھی ہیں جو آج بھی
امریکا سے تعلقات پر اسی خوش فہمی میں ہیں کہ۔
ہے ہے! خدانخواستہ، وہ اور دشمنی
اے شوق، منفعل، یہ تجھے کیا خیال ہے
بقراط نے کہا، حضور امریکہ میں مقیم پاکستانی اہلِ خرد کا کچھ اور ہی خیال
ہے۔ انھوں نے نو گیارہ کی برسی پر مقامی اخباروں میں امریکیوں کو یہ باور کرانے میں تن من دھن لگا دیا کہ پاکستان دہشت
گرد ملک نہیں بلکہ خود دہشت کا شکار ہےلیکن امریکیوں کا رد عمل ایسا تھا کہ ان
اہلِ خرد کو کہنا پڑا کہ۔
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش! جانتا نہ تری راہ گزر کو میں
کچھ نے تھک ہار کر اب یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ۔
یارب! وہ نہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
شیفتہ نے فرمایا، جناب چند سال قبل تک عرب ممالک کے توسط سے
بگڑی باتیں بن جایا کرتی تھی لیکن اب تو جدید عربی نسل بہ اندازِ چکیدن سر نگوں
ہیں۔ اکثر پاکستانی
اہلِ فکر و نظر اور اہلِ علم و ادب اب یہ سوچتے ہونگے کہ ۔
تیری وفا سے کیا ہو تلافی؟ کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
عرب ممالک خود بھی خوابِ خرگوش سے چھٹکارا کہاں پاسکے ہیں۔ ہاں امریکہ کے تئیں یہ خیال ضرور ہے کہ۔
اے پیکرِ محبوبی! میں کس سے تجھے پوچھوں
جس نے تجھے دیکھا ہے، وہ دیدہء حیراں ہے
سو بار ترا دامن ہاتھوں میں میرے آیا
جب
آنکھ کھلی، دیکھا، اپنا ہی گریباں ہے
No comments:
Post a Comment