لبوں سے چوم کر پتھر کو لعل کرتے ہو، کمال کرتے ہو
سنا ہے صوت کے ساحر ہو اور آنکھوں میں بلا کا جادو ہے
نظر کے تیر سے دشمن نڈھال کرتے ہو، کمال کرتے ہو
تمہی نے چاک پر رکھا ، بنا کے پھر توڑا، تمہیں ہے غم
کیسا
مجھے ہی چھین کر مجھ سے ملالکرتے ہو، کمال کرتے ہو
چلو اب مان بھی جاو کہ درمیاں اپنے کوئی تو رشتہ ہے
ذرا سی بات بھی کہنے میں سالکرتے ہو، کمال کرتے ہو
جلا کر راکھ نہ کر دے تمہارے پیکر کو سنبھال کر چلنا
سلگتی آگ کو گلشن خیالکرتے ہو، کمال کرتے ہو
تمہیں آسان ہے شائد فراق لمحوں کا زبان پر لانا
بڑے آرام سے مشکل سوال کرتے ہو، کمال کرتے ہو
تمہیں تو پیار کا حق ہے، اگر سمجھتے ہو تو پھر یہ ڈر
کیسا
کرو تم یار جو بہتر خیال کرتے ہو، کمال کرتے ہو
عاطف جاوید عاطف
No comments:
Post a Comment