You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Sunday, October 26, 2014

1436 starts today

As-slaamu alaikum
,
كُل عَام وَأَنْتُم بِخَيْر
May Allah make it a happy year


 filled with His worship and


forgiveness, Aameen                                                                                                                                     



 

Thursday, October 23, 2014



عبد الرشید مومن نہیں رہے
آگری پاڑہ فینسی مارکیٹ ،بی آئی ٹی چال کے ساکن مختلف اخباروں میں مختلف عنوان پر مضامین تحریر کرنے والے عبد الرشید مومن جو جماعت اسلامی ہند مدنپورہ سے وابستہ تھے اور کافی عرصہ سے وہاں لائبریرین کے فرائض انجام دے رہے تھے ۔بروز بدھ 22 ؍اکتوبر کو اچانک صبح انتقال فرماگئے۔انا للہ و نا الیہ راجعون ۔ تدفین ناڑیل واڑی قبرستان میں ہوئی ۔اطراف و اکناف کے دوست احباب اور رشتہ داروں نے نم آ نکھوں کے ساتھ انہیں الواداع کہا۔دعاء کریں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی خطاؤں سے در گزر کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے ۔اور رشتہ داروں اور دوست احباب کو صبر جمیل عطا کرے ۔آمین 

Wednesday, October 22, 2014

قصہ خضر ؑو موسیٰ

راز حیات پوچھ لے خضر خستہ گام سی٭ زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سی
قصہ خضر ؑو موسیٰ  ؑ
……… عبد العزیز ………
مکہ معظمہ میں آنحضرت ؐ اور آپ ؐکے ساتھیوں پر جب کفار و مشرکین ہر طرح سے ستانے لگی۔ مار پیٹ، معاشی دباؤ کے ہتھیار استعمال کرنے لگی، ظلم و ستم اور مزاحمت انتہا کو پہنچ گئی تو مسلمان حبشہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ اسی وقت مسلمانوں کو اصحاب کہف کا قصہ سنایا گیا کہ ان کی ہمت بندہے اور ان کو معلوم ہو کہ اہل ایمان اپنا ایمان بچانے کیلئے اس سے پہلے کیا کچھ کر چکے ہیں۔ اس کے بعد قصہ خضر ؑ و موسیٰ  ؑ سنایا گیا یہ بتانے کیلئے کہ مؤمنین کو تسلی ہواور کفار کو ان کے کئے ہوئے سوال کا ایسا جواب بھی مل جائے جو اس وقت کے حالات پر پورے کا پورا چسپاں ہوجائی۔ قصہ ذوالقرنین بھی اسی نوعیت کا ہی۔ یہ تینوں سوالوں کا جواب سورہ کہف میں اختصار کے ساتھ دیا گیا ہی۔
قصہ اصحاب کہف اور چند بنیادی باتوں کے بعد قصہ خضر ؑ و موسیٰ  ؑ کو اللہ تعالیٰ یوں شروع کرتا ہی:۔

(ذرا ان کو وہ قصّہ سناؤ جو موسیٰ کو پیش آیا تھا) جبکہ موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا تھاکہ ’’میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ میں ایک زمانۂ دراز تک چلتا ہی رہوں گا۔‘‘ پس جب وہ ان کے سنگم پر پہونچے تو اپنی مچھلی سے غافل ہوگئے اور وہ نکل کر اس طرح دریا میں چلی گئی جیسے کہ کوئی سُرنگ لگی ہو۔ آگے جاکر موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا ’’لاؤ ہمارا ناشتہ، آج کے سفر میں تو ہم بُری طرح تھک گئے ہیں۔‘‘ خادم نے کہا آپ نے دیکھا! یہ کیا ہوا؟ جب ہم ا‘س چٹان کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے اس وقت …… مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کردیا کہ میں اس کا ذِکر (آپ سے کرنا)بھُول گیا۔ مچھلی تو عجیب طریقے سے نِکل کر دریا میں چلی گئی۔‘‘ موسیٰ نے کہا ’’اسی کی تو ہمیں تلاش تھی۔‘‘ چنانچہ وہ دونوں اپنے نقشِ قدم پر پھر واپس ہوئے اور وہاں انہوںنے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص 
علم عطا کیا تھا۔

Saturday, October 18, 2014

سرسیّد ڈے گزشتہ دنوں ایم اے یو ایسوسی ایشن آف مہاراشٹر کے زیر اہتما م ممبرا کوسہ میں'' یوم سرسیّد "کی تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔ جس کی صدارت بھیونڈی کی معروف علمی شخصیت ایڈوکیٹ یاسین مومن نے کی ۔اور نظامت کے فرائض ایڈوکیٹ عبدالسلام نے انجام دیۓ ۔تقریب کا آغاز قاری عبدالمالک کی تلاوت سے ہوا ۔سرسید ڈے کی تقریب کے روح رواں تنورعالم نے کہا کہ سر سیّد احمد خان نے تعلیم کا ایک پودا لگایا تھا ۔جو آج تناور درخت ہو گیا ہے ۔جس سے قوم کے ہونہار طلباء مستفیض ہورہے ہیں ۔ہم نے اپنے رفقاء کے ساتھ تعلیم کے میدان میں پیش رفت جاری رکھے ہوۓ ہیں ایڈوکیٹ یا سین مومن نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ مہاراشٹر میں انجمن اسلام جیسے تعلیمی ادارے سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تعلق ہوگیا تو قوم و ملّت کو بہت فائدہ ہوگا۔ اس طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمد نے اپنے اظہار خیال میں کہا کہ سر سید احمدخان نے علی گڑھ یونیورسٹی قائم کرکے جدید تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کو بھی اپنا مقصد بنایا انہوں نے پچھڑے پن کا م مقابلہ کرنے لیے قوم و ملت کو حصول تعلیم کو اپنا مقصد بنانے کے لیے ہرطرح کی قر بانیاں دیں شہر ممبئی کے مشہور سماجی سوشل ورکر فریداحمد خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ آج کے حالات بدل رہے ہیں ۔ آج پھر ایک سرسید کی ضرورت ہے ۔انھوں نے ایک معنی خیز شعر کے ساتھ اپنی تقریر کا اختتام کیا جیسے سیاہ رات نام نہیں لیتی ڈھلنے کا یہی وقت ہے سورج کے نکلنے کا جمال اعظمی علیگ نے کہا اعلی تعلیم کے لیے ہم آگے آئيں ۔ پسماندہ لوگوں کی مدد کریں ، مرکزی حج کمیٹی کے رکن الیاس خان نے انتظامیہ کو ممبرا کوسہ میں یوم سرسید کی تقریب منعقد کرنے پر مبارک باد دی ۔ ارشاد احمد نے کہا کہ غدر کے بعد سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو مایوسی سے نکالا ۔ اس تقریب میں التمش فیضی ، ڈاکٹر چندرشیکھر ،عبدالحکدیم ندوی ، وغیرہ بھی اظہار خیال کیا ۔مقامی نوجوانوں نے آخر میں ترانہ علی گڑھ ترنم سے پڑھ کر سنایا اس طرح سے اس تقریب کا اختتام ہوا ،














































جمہوری حکومت اور عوام کی سوچ


مہاراشٹر اور ہریانہ میں انتخابی عمل ختم ہو چکا ہے ۔ ہزاروں امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ مشین میں بند ہو چکا ہے جو عوام یا ملک کی خدمت کیلئے نہیں بلکہ انہوں نے جو کچھ سرمایہ کاری اس الیکشن میں کی ہے اس کی سودسمیت واپسی کی لالچ میں شامل ہوئے اور اسی وجہ سے انہوں نے سرمایہ لگایا اور جیتنے کے بعد ان کی ترجیح عوامی املاک اور ملکی سرمایہ کی بندر بانٹ اور کروڑ پتی سے ارب پتی بننے کی طرف پیش قدمی ہی ہوتی ہے۔ ملک میں 65 سال سے یہ تماشہ جاری ہے ۔ اس درمیان ملک میں ارب پتیوں اور کروڑ پتیوں کی تعداد تو بڑھی ہے لیکن اسی کے ساتھ غریب اور غریب ہوا اور کسانوں کی حالت اتنی خراب ہوئی کہ انہیں موت کی آغوش میں ہی سکون مل رہاہے ۔ ایک بار پھر ابھی چار ماہ قبل پارلیمانی انتخاب ہو اتھا ۔ اب دو ریاستوں کی اسمبلی کیلئے انتخاب ہوا۔
بھاری سرمایہ کاری کرکے سیاسی جماعتیں اور امیدواروں نےملک کی خدمت اور عوام کو بہتر زندگی دینے کے وعدے کے ساتھ طرح طرح کی ترکیبیں اختیار کرکے نئے نئے جدید ذرائع سے عوام میں پہنچ بنانے کی بھرپور کوشش کی ۔ انہوں نے اس میں کتنی کامیابی حاصل کی 19
؍اکتوبر کو نتیجہ کی آمد کے ساتھ اس کا پتہ چلے گا۔ لیکن اتنا تو طے ہے کہ عوام کی زندگی میں کوئی خاص فرق نہیں آنے والا۔ بدعنوانی کا یونہی بو ل بالا رہے گا کسان اسی طرح خود کشی کرتے رہیں گے ۔سرمایہ دار عوام کا خون اسی طرح چوستے رہیں گے۔سرکاری افسران عوام کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہیں گے ۔ اس کی دو وجہ ہیں ۔ اول یہ کہ مغربی جمہوری طریقہ انتخاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کا سارا دارو مدار بھرپور تشہیر پر ہے جس میں کثیر سرمایہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ ملک اور بیرون ملک کے سرمایہ دار اپنے کاروباری مفاد کی خاطر مشروط سرمایہ لگاتے ہیں۔ اس بار آخری دو دن بی جے پی نے تشہیر کے سارے جدید ذرائع کو سرمایہ کی قوت سے خرید لیا ۔ کیا ایسی صورت میں یہ امید کی جاسکتی ہے کہ کوئی عام آدمی اس انتخابی عمل میں شامل ہوکر عوام کی خدمت کرے ۔ دوسری خاص وجہ ہے کہ اس ملک کے لوگ فرقہ وارانہ خطوط اور ذات پات اور لسانی اور علاقائی بنیادوں پر بری طرح تقسیم ہیں۔ جب عوام میں اتنا تفرقہ ہو تو پھر حکومت کے گریبان کون پکڑے ۔ اس لئے آپ اور ہم بس اس نظام کو یونہی چلائے چلئے ۔ آنکھیں بند کرکے جمہوریت کی لاٹھی پکڑ کر آگے بڑھتے رہئے ۔ انتخابی عمل میں حصہ لیتے رہئے ۔ کیوں کہ بڑی بڑی مشہور ہستیوں کے مطابق یہ ملک کا سب سے بڑا تہوار ہے اور اس سے غفلت ملک کی ترقی سے غفلت یا اعراض ہے۔ ان کے لئے تو واقعی یہ صحیح اور نفع بخش ہوسکتا ہے لیکن کیا مقہور ،مجبور اور پسماندہ آبادی کے لئے بھی ایسا ہی معاملہ ہے ۔ یقینا ً جواب نفی میں ہوگا۔ اس کی سچائی کی تصاویر ملک میں ہر طرف بکھڑی پڑی ہیں ۔ آپ بھی اس کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم دیکھ کر بھی ان دیکھی کریں اور اس کے سدھار سے متعلق کسی نکتہ پر پہنچنے کی کوشش نہ کریں تو اس میں کسی کا کیا قصور ۔ تعلیم کا ہر طرف چرچا ہے لوگ نئی نئی ایجادوں سے مستفید ہو رہے ہیں لیکن اپنی سوچ کو آج بھی انہوں نے کسی نہ کسی کا غلام بنا رکھا ہے ۔ نہ جانے یہ غلامی کہاں جا کر رکے گی۔ آج تو جانور بھی سوچنے سمجھنے والا ہو چکا ہے لیکن انسان ہے کہ کچھ سوچنے اور خود کو تبدیل کرنے کو راضی ہی نہیں سکہ کا ایک رخ ہی دیکھ کر فیصلہ کرلیتا ہے ۔ دوسرا رخ دیکھنے کیلئے اس کے پاس وقت ہی نہیں اس کے لئے اسے شاید کسی صور اسرافیل کا انتظار ہے۔ میری باتوں سے اختلاف ہو سکتا ہے اور ہونا بھی چاہئے لیکن بتائیے کہ کیجریوال کو کیوں ناکام مان لیا گیا ۔ اور عوام کیوں ذرائع ابلاغ کے گمراہ کن پروپگنڈہ کی رو میں بہے چلے جارہے ہیں۔ کیجریوال نے تو خالص عوامی خدمت کی تحریک شروع کی تھی ۔ جو وہ آج بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔لیکن لوگوں کی ان کے تئیں طرح طرح طنز سنیں تو یہ احساس جاگتا ہے کہ شاید عوام اسی سڑے گلے نظام میں بے حسوں کی زندگی ہی گزارنا چاہتے ہیں ۔ ایک امیدوار کے بارے میں ابھی حالیہ ممبئی انتخاب میں ایک شخص نے کہا کہ امیدوار تو اچھا ہے لیکن پیسہ خرچ نہیں کرتا ۔اب بتائیے جہاں لوگ سترہ پیسہ روز کے حساب سے اپنے ووٹ کو بیچ دیتے ہوں ۔اور اچھے امیدوار کو جتانے کی کوشش کرنے کی بجائے یہ کہتے ہوں کہ یہ پیسہ خرچ نہیں کرتا ۔ بس یہی کمال ہے اس مغربی جمہوری نظام کا ۔جہاں لوگوں کے سوچنے کا انداز بھی بدل جاتا ہے ۔اور اب ایسی سوچ کے ساتھ سوچتے ہیں کہ تبدیلی آجائے اور بد عنوانی ختم ہو جائے تو بھائی یہ ناممکن ہے ۔ 
نہال صغیر

ممبئی ۔ موبائل: 9987309013
https://ssl.gstatic.com/ui/v1/icons/mail/images/cleardot.gif


Friday, October 17, 2014

سر سید نے تعلیم کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ کردار کو اعلی بنانے کی وکالت کی تھی:محترمہ رو حامہ احمد
اسماعیل نیشنل گرلز انٹر کالج میں سر سید لیکچر و کوئز سریز کا انعقاد
            (پریس ریلیز)   میرٹھ5اکتو بر014ء
             شعبۂ اردو، چو دھری چرن سنگھ یو نیورسٹی اور سر سید ایجو کیشنل سو سائٹی، میرٹھ کے باہمی اشتراک سے منعقد ہو رہے ہفت روزہ جشن سر سید تقریبات کے چوتھے دن اسماعیل نیشنل گرلز انٹرکالج ،پرانی تحصیل ،میرٹھ میںسر سید لیکچر سیریز و کوئز کا انعقاد ہوا۔جس کی صدارت کے فرائض محترمہ نایاب زہرا زیدی نے انجام دیی۔مہمان خصوصی کے طور پر ڈاکٹر سراج الدین احمد ،مہان ذی وقار کے طور پر ڈاکٹر سلطان الحق( جوائنٹ ڈائریکٹر زراعت) اورمقررین کے طور پر، محترمہ طاہرہ رضوی،ڈاکٹر شاداب علیم ،روحامہ احمد اور ذیشان احمد خاں نے شرکت کی۔ نظا مت کے فرا ئض ڈاکٹر آصف علی نے انجام دیے  نیز پروگرام کا مفصل خاکہ اور سرسید کے مشن کا مفصل تعارف پیش کیا۔استقبالیہ اور مہمانوں کے تعارف سلطانہ جیلا نی اورشکریے کی رسم اسکول کی پرنسپل محترمہ تبسم بیگم نے ادا کی۔

            واضح ہوکہ ہر سال شعبۂ اردو، چو دھری چرن سنگھ یو نیورسٹی سر سید ایجو کیشنل سوسائٹی،میرٹھ کے اشتراک سے محسن قوم، عظیم تعلیمی رہنما سر سید احمد خاں کی یو م پیدا ئش کے موقع پر ہفت روزہ ’’ جشن سر سید تقریبات‘‘کا اہتمام کرتا ہی۔جس کا مقصد اسکول، کالجزاور یونیورسٹیوں میں پڑھنے وا لے طلبا و طالبات کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی سر سید احمد خاں کی زندگی،ان کی خدمات اور ان کے کاموں سے روشناس کرا نا ہے ۔اس کے تحت سر سید لیکچر سیریز اور سر سید کوئز کا اہتمام کیا جاتاہی۔ جس میںشہر کے سر کردہ دانشور اور ما ہر تعلیم حضرات مختلف اسکولوں اور کالجز میں جا کر سرسید احمد خاں کی حیات اور ان کے کار ناموں پر لیکچر دیتے ہیںساتھ ہی کوئز مقابلے کا اہتمام کیا جاتا ہی۔اسی سلسلے کے تحت ہفت روزہ جشن سر سید تقریبات کے چوتھے دن اسماعیل نیشنل گرلز انٹر کالج ،پرانی تحصیل ،میرٹھ میںسر سید لیکچر سیریز اور کوئز کا اہتمام ہوا۔جس میں نے مختلف سوالات کے جوابات دے کر لبیبا، مہ جبیں،شعیبہ،رمشہ ،فرحین ، شگفتہ، اروبہ، صبا،گل صبا، شبینہ، صفیہ اور کوثر نے انعا مات حاصل کیی۔

Monday, October 13, 2014

مودی کا دورہ امریکا اور میڈیا کا رول ڈاکٹر محمد منظور عالم

جمہوریت کا ایک اہم غیر تحریری ستون میڈیا ہے۔ میڈیا فطری طورپر ملک کی ترقی، تہذیب و تمدن، تعلیمی و اقتصادی بشمول خارجہ و دفاعی پالیسیاں جو حکومت کو قائم رکھنے، مستحکم رکھنے، عوام کے حقوق اور ان کے مسائل کو پیش کرنے میں میڈیا کا کلیدی رول ہوتا ہے۔ یہ وہ رول ہے جو تجزیہ کرکے اچھے اور برے اثرات، غلط اور صحیح پہلو کو ابھارنے، حال اور مستقبل کے اثرات کا بغیر کسی خاص آئیڈیالوجی کی طرف جھکاؤ کے عوام کے سامنے پیش کرتا ہے باالفاظ دیگر جمہوریت کی بقا عوام الناس کی ضروریات میں مضمر ہے۔ اسی لیے اسے پروپیوپل کہا جاتا ہے۔ یہ رول میڈیا ادا کرتا ہے لیکن جب یہ رول کمزور ہوجاتا ہے اتنا ہی زیادہ اقتدار، سرمایہ داری اور صرف اپنے فائدے کے لیے ملک کے اصل جمہوری مقصد کو چھوڑتے ہوئے انٹی پیوپل کا رول ادا کرنا شروع کر دیتا ہے۔
اس پس منظر میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک طرف ہمارے وزیر اعظم نریندرمودی کے دورہ بالخصوص امریکا اور دوسری طرف موہن بھاگوت جو آر ایس ایس کے سربراہ ہیں ان کی تقریر دور درشن پر لائیو نشر ہوئی ہے، اس کا تجزیہ کیا جائے۔ اس تجزیہ سے قبل جمہوریت کی فطرت کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جب فطرت کے اندر سماج کے تانے بانے اور قوت برداشت کی اہمیت کو قائم دوائم رکھنے کی کوشش دستور کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ قوت برداشت اس کا ہرگز نام نہیں ہے کہ ہم کسی ایک شخص، گروہ یا مذہبی اکائی یا لسانی اکائیوں کو برداشت کریں بلکہ اس کی روح اس میں مضمر ہے کہ ہم ایک دوسرے کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور اس کے لیے کیا لچک اختیار کرتے ہیں تاکہ ملک کی ترقی، اس کی سالمیت، اس کا ارتقاء، آپسی بھائی چارہ کی مذکورہ بنیادوں پر کسی طرح کی رکاوٹ نہ کھڑی ہو اور اگر رکاوٹ کھڑی ہوتی ہے تو جہاں دستور اور قانون کے ذریعہ اسے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں میڈیا اپنے تجزیاتی حقائق، نتائج اور صحیح صورتحال کو پیش کرنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے وہ رکاوٹیں جو منفی اثرات قائم کرسکتی ہیں اسے ختم کیا جاسکے۔
ہمارے وزیر اعظم نے اپنی پارلیمانی تقریر میں بہت اچھے انداز میں یہ نعرہ دیا کہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ اور ’وکاس پرش‘ کے نام سے اپنے آپ کو پیش کرتے رہے ہیں۔ اس لیے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بہت اچھے اچھے نعرے انہوں نے مختلف کاموں اور میدانوں کے لیے دےئے ہیں۔ ممکن ہے یہ نعرے مستقبل بعید میں کچھ اثرات قائم کریں مگر حال اور قریب ترمیں جو روش رہی ہے وہ اس کی غمازی نہیں کر رہی ہے۔ امریکا کا دورہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ جس شخص کو گزشدہ 13سال سے امریکا جانے پر پابندی تھی انہیں وزیر اعظم کے عہدہ کی بناء پر اس ملک میں جانے کی اجازت مل گئی اور وہاں انہیں ہمارے ملک کے میڈیا کے مطابق ’والہانہ‘ استقبال کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں اراکین پارلیمنٹ کے جوائنٹ اجلاس کو خطاب کرنے کی دعوت نہیں دی گئی۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس سے ان کے وقار میں کوئی کمی آگئی مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے پیش رو ہندوستانی وزیر اعظم کے استقبال میں اس اجلاس کو خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ یہ ’والہانہ‘ استقبال امریکن کی فراخدلی کا ثبوت ہے یا ہمارے وزیر اعظم کے کسی بڑے کارنامے کا نتیجہ ہے۔ اگر بڑے کارنامے کا نتیجہ ہوتا تو ان پر 2002میں مسلم نسل کشی کا جو الزام ہے اس کی بنیاد پر سمن نہیں کیا جاتا ۔ اسی ’والہانہ‘ استقبال کا ایک منظر میڈ سین اسکوائر پر بھی نظر آیا جہاں مشہور فلمی ایکٹر بھی اسٹیج پر نظر آئے اور کہا جاتا ہے کہ 18/20 ہزار ہندوستانی امریکن شریک ہوئے اور ہمارے وزیر اعظم کی تقریر کو سننے کے لیے بجا طور پر ہندوستانی امریکیوں میں ذوق و دلولہ نظر آرہا تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ہندوستانی امریکن کی بڑی تعداد گجراتیوں کی تھی۔ اس لیے ہمارے وزیر اعظم کو اس بات کی کوشش کرنا چاہئے کہ وہ پین (PAN) انڈین کا نمونہ پیش کریں نہ کہ صرف پین گجراتی کا ، کیونکہ وہ اپنی تقریروں میں اکثر و بیشتر اپنے گجراتی تجربات کو پیش کرتے ہیں ناکہ ہندوستان جو ایک بڑا ملک ہے اس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ان تجربات میں وہ الزامات بھی ہیں جو 2002میں ایک ہزار سے زائد ہندوستانی گجراتیوں کا قتل عام ہوا جس میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کی تھی اور اسی الزام کی روشنی میں وہاں ان کے خلاف مظاہرہ ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے میڈیا نے اس مظاہرہ کو جگہ نہیں دی۔ جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ میڈیا حقیقی صورتحال کو پیش کرنے میں چشم پوشی کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ایک سرکردہ صحافی کی نہ صرف توہین کی گئی بلکہ اس کی مار پٹائی ہوئی اور درگت بنائی گئی۔ میڈیا نے اسے بھی جگہ نہیں دی۔ کیا یہ جمہوریت کی بقا کی علامت ہے یا جمہوریت کی روح کو کمزور کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ دوسری طرف یو این او کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم کا خطاب بلاشبہ اچھا تھا جسے مستحن کہا جاسکتا ہے مگر وہی وزیر اعظم بابائے قوم کا صحیح نام نہیں لے سکے اور زیادہ وقت لے کر اپنی بات پوری کی۔ وہ اسٹیٹس مین شپ پر سوال کھڑا کرتا ہے۔ صدر اوبامہ سے وہائٹ ہاؤس میں گفت و شنید ہوئی مگر جو اہم مسائل تھے اس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی اور سی ای او کی بھی میٹنگ میں سرمایہ کاروں کے اشکال و جمود کو توڑنے میں کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی۔ ہاں وزیراعظم پوری قوت سے یہ بات پیش کرنے میں کامیاب رہے کہ ہندوستان ایک عظیم ملک ہے اور وہاں بڑی آبادی ہونے کے ساتھ ساتھ ذہانت بھی پائی جاتی ہے اور علم کی طرف تیزی سے قدم اٹھ رہا ہے جو خود امریکا کے لیے اساتذہ کی فراہمی کا رول ادا کرسکتا ہے۔ ہندوستان بنیادی طورپر امن و شانتی کا گہوارہ رہا ہے اور اس کا علمبردار ہے۔ امن و شانتی قائم رکھنے کے لیے وزیر اعظم نے جو یقین دہانی کرائی ہے کہ دہشت گردی ختم ہو، ہندوستان بھی اپنا تعاون ہمیشہ دیتا رہا ہے۔ 

Sunday, October 12, 2014

Moments with Mr.Basharat Shikoh

گزشتہ دنوں  سینئر صحافی اور مشہور و معروف شاعرو ادیب  جناب بشارت  شکوہ صاحب سے لنترانی کی ٹیم سے ایک  خوش گوار ماحول   میں          ملاقات ہوئی ۔    اس موقع پر فرید احمد خان  جو کہ لنترانی میڈیا ہاؤس کے ایڈوائزر ہیں انھوں نے اپنے خوب صورت انداز میں گفتگو کیں
{ انٹرویو } کی شکل میں ملاحظہ فرماۓ۔  


Monday, October 06, 2014

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP