جمہوریت
کا ایک اہم غیر تحریری ستون میڈیا ہے۔ میڈیا فطری طورپر ملک کی ترقی، تہذیب و
تمدن، تعلیمی و اقتصادی بشمول خارجہ و دفاعی پالیسیاں جو حکومت کو قائم رکھنے،
مستحکم رکھنے، عوام کے حقوق اور ان کے مسائل کو پیش کرنے میں میڈیا کا کلیدی رول
ہوتا ہے۔ یہ وہ رول ہے جو تجزیہ کرکے اچھے اور برے اثرات، غلط اور صحیح پہلو کو
ابھارنے، حال اور مستقبل کے اثرات کا بغیر کسی خاص آئیڈیالوجی کی طرف جھکاؤ کے
عوام کے سامنے پیش کرتا ہے باالفاظ دیگر جمہوریت کی بقا عوام الناس کی ضروریات میں
مضمر ہے۔ اسی لیے اسے پروپیوپل کہا جاتا ہے۔ یہ رول میڈیا ادا کرتا ہے لیکن جب یہ
رول کمزور ہوجاتا ہے اتنا ہی زیادہ اقتدار، سرمایہ داری اور صرف اپنے فائدے کے لیے
ملک کے اصل جمہوری مقصد کو چھوڑتے ہوئے انٹی پیوپل کا رول ادا کرنا شروع کر دیتا
ہے۔
اس پس منظر میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک طرف ہمارے وزیر اعظم نریندرمودی کے دورہ بالخصوص امریکا اور دوسری طرف موہن بھاگوت جو آر ایس ایس کے سربراہ ہیں ان کی تقریر دور درشن پر لائیو نشر ہوئی ہے، اس کا تجزیہ کیا جائے۔ اس تجزیہ سے قبل جمہوریت کی فطرت کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جب فطرت کے اندر سماج کے تانے بانے اور قوت برداشت کی اہمیت کو قائم دوائم رکھنے کی کوشش دستور کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ قوت برداشت اس کا ہرگز نام نہیں ہے کہ ہم کسی ایک شخص، گروہ یا مذہبی اکائی یا لسانی اکائیوں کو برداشت کریں بلکہ اس کی روح اس میں مضمر ہے کہ ہم ایک دوسرے کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور اس کے لیے کیا لچک اختیار کرتے ہیں تاکہ ملک کی ترقی، اس کی سالمیت، اس کا ارتقاء، آپسی بھائی چارہ کی مذکورہ بنیادوں پر کسی طرح کی رکاوٹ نہ کھڑی ہو اور اگر رکاوٹ کھڑی ہوتی ہے تو جہاں دستور اور قانون کے ذریعہ اسے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں میڈیا اپنے تجزیاتی حقائق، نتائج اور صحیح صورتحال کو پیش کرنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے وہ رکاوٹیں جو منفی اثرات قائم کرسکتی ہیں اسے ختم کیا جاسکے۔
ہمارے وزیر اعظم نے اپنی پارلیمانی تقریر میں بہت اچھے انداز میں یہ نعرہ دیا کہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ اور ’وکاس پرش‘ کے نام سے اپنے آپ کو پیش کرتے رہے ہیں۔ اس لیے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بہت اچھے اچھے نعرے انہوں نے مختلف کاموں اور میدانوں کے لیے دےئے ہیں۔ ممکن ہے یہ نعرے مستقبل بعید میں کچھ اثرات قائم کریں مگر حال اور قریب ترمیں جو روش رہی ہے وہ اس کی غمازی نہیں کر رہی ہے۔ امریکا کا دورہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ جس شخص کو گزشدہ 13سال سے امریکا جانے پر پابندی تھی انہیں وزیر اعظم کے عہدہ کی بناء پر اس ملک میں جانے کی اجازت مل گئی اور وہاں انہیں ہمارے ملک کے میڈیا کے مطابق ’والہانہ‘ استقبال کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں اراکین پارلیمنٹ کے جوائنٹ اجلاس کو خطاب کرنے کی دعوت نہیں دی گئی۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس سے ان کے وقار میں کوئی کمی آگئی مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے پیش رو ہندوستانی وزیر اعظم کے استقبال میں اس اجلاس کو خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ یہ ’والہانہ‘ استقبال امریکن کی فراخدلی کا ثبوت ہے یا ہمارے وزیر اعظم کے کسی بڑے کارنامے کا نتیجہ ہے۔ اگر بڑے کارنامے کا نتیجہ ہوتا تو ان پر 2002میں مسلم نسل کشی کا جو الزام ہے اس کی بنیاد پر سمن نہیں کیا جاتا ۔ اسی ’والہانہ‘ استقبال کا ایک منظر میڈ سین اسکوائر پر بھی نظر آیا جہاں مشہور فلمی ایکٹر بھی اسٹیج پر نظر آئے اور کہا جاتا ہے کہ 18/20 ہزار ہندوستانی امریکن شریک ہوئے اور ہمارے وزیر اعظم کی تقریر کو سننے کے لیے بجا طور پر ہندوستانی امریکیوں میں ذوق و دلولہ نظر آرہا تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ہندوستانی امریکن کی بڑی تعداد گجراتیوں کی تھی۔ اس لیے ہمارے وزیر اعظم کو اس بات کی کوشش کرنا چاہئے کہ وہ پین (PAN) انڈین کا نمونہ پیش کریں نہ کہ صرف پین گجراتی کا ، کیونکہ وہ اپنی تقریروں میں اکثر و بیشتر اپنے گجراتی تجربات کو پیش کرتے ہیں ناکہ ہندوستان جو ایک بڑا ملک ہے اس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ان تجربات میں وہ الزامات بھی ہیں جو 2002میں ایک ہزار سے زائد ہندوستانی گجراتیوں کا قتل عام ہوا جس میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کی تھی اور اسی الزام کی روشنی میں وہاں ان کے خلاف مظاہرہ ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے میڈیا نے اس مظاہرہ کو جگہ نہیں دی۔ جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ میڈیا حقیقی صورتحال کو پیش کرنے میں چشم پوشی کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ایک سرکردہ صحافی کی نہ صرف توہین کی گئی بلکہ اس کی مار پٹائی ہوئی اور درگت بنائی گئی۔ میڈیا نے اسے بھی جگہ نہیں دی۔ کیا یہ جمہوریت کی بقا کی علامت ہے یا جمہوریت کی روح کو کمزور کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ دوسری طرف یو این او کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم کا خطاب بلاشبہ اچھا تھا جسے مستحن کہا جاسکتا ہے مگر وہی وزیر اعظم بابائے قوم کا صحیح نام نہیں لے سکے اور زیادہ وقت لے کر اپنی بات پوری کی۔ وہ اسٹیٹس مین شپ پر سوال کھڑا کرتا ہے۔ صدر اوبامہ سے وہائٹ ہاؤس میں گفت و شنید ہوئی مگر جو اہم مسائل تھے اس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی اور سی ای او کی بھی میٹنگ میں سرمایہ کاروں کے اشکال و جمود کو توڑنے میں کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی۔ ہاں وزیراعظم پوری قوت سے یہ بات پیش کرنے میں کامیاب رہے کہ ہندوستان ایک عظیم ملک ہے اور وہاں بڑی آبادی ہونے کے ساتھ ساتھ ذہانت بھی پائی جاتی ہے اور علم کی طرف تیزی سے قدم اٹھ رہا ہے جو خود امریکا کے لیے اساتذہ کی فراہمی کا رول ادا کرسکتا ہے۔ ہندوستان بنیادی طورپر امن و شانتی کا گہوارہ رہا ہے اور اس کا علمبردار ہے۔ امن و شانتی قائم رکھنے کے لیے وزیر اعظم نے جو یقین دہانی کرائی ہے کہ دہشت گردی ختم ہو، ہندوستان بھی اپنا تعاون ہمیشہ دیتا رہا ہے۔
اس پس منظر میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک طرف ہمارے وزیر اعظم نریندرمودی کے دورہ بالخصوص امریکا اور دوسری طرف موہن بھاگوت جو آر ایس ایس کے سربراہ ہیں ان کی تقریر دور درشن پر لائیو نشر ہوئی ہے، اس کا تجزیہ کیا جائے۔ اس تجزیہ سے قبل جمہوریت کی فطرت کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جب فطرت کے اندر سماج کے تانے بانے اور قوت برداشت کی اہمیت کو قائم دوائم رکھنے کی کوشش دستور کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ قوت برداشت اس کا ہرگز نام نہیں ہے کہ ہم کسی ایک شخص، گروہ یا مذہبی اکائی یا لسانی اکائیوں کو برداشت کریں بلکہ اس کی روح اس میں مضمر ہے کہ ہم ایک دوسرے کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور اس کے لیے کیا لچک اختیار کرتے ہیں تاکہ ملک کی ترقی، اس کی سالمیت، اس کا ارتقاء، آپسی بھائی چارہ کی مذکورہ بنیادوں پر کسی طرح کی رکاوٹ نہ کھڑی ہو اور اگر رکاوٹ کھڑی ہوتی ہے تو جہاں دستور اور قانون کے ذریعہ اسے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں میڈیا اپنے تجزیاتی حقائق، نتائج اور صحیح صورتحال کو پیش کرنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے وہ رکاوٹیں جو منفی اثرات قائم کرسکتی ہیں اسے ختم کیا جاسکے۔
ہمارے وزیر اعظم نے اپنی پارلیمانی تقریر میں بہت اچھے انداز میں یہ نعرہ دیا کہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ اور ’وکاس پرش‘ کے نام سے اپنے آپ کو پیش کرتے رہے ہیں۔ اس لیے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بہت اچھے اچھے نعرے انہوں نے مختلف کاموں اور میدانوں کے لیے دےئے ہیں۔ ممکن ہے یہ نعرے مستقبل بعید میں کچھ اثرات قائم کریں مگر حال اور قریب ترمیں جو روش رہی ہے وہ اس کی غمازی نہیں کر رہی ہے۔ امریکا کا دورہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ جس شخص کو گزشدہ 13سال سے امریکا جانے پر پابندی تھی انہیں وزیر اعظم کے عہدہ کی بناء پر اس ملک میں جانے کی اجازت مل گئی اور وہاں انہیں ہمارے ملک کے میڈیا کے مطابق ’والہانہ‘ استقبال کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں اراکین پارلیمنٹ کے جوائنٹ اجلاس کو خطاب کرنے کی دعوت نہیں دی گئی۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس سے ان کے وقار میں کوئی کمی آگئی مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے پیش رو ہندوستانی وزیر اعظم کے استقبال میں اس اجلاس کو خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ یہ ’والہانہ‘ استقبال امریکن کی فراخدلی کا ثبوت ہے یا ہمارے وزیر اعظم کے کسی بڑے کارنامے کا نتیجہ ہے۔ اگر بڑے کارنامے کا نتیجہ ہوتا تو ان پر 2002میں مسلم نسل کشی کا جو الزام ہے اس کی بنیاد پر سمن نہیں کیا جاتا ۔ اسی ’والہانہ‘ استقبال کا ایک منظر میڈ سین اسکوائر پر بھی نظر آیا جہاں مشہور فلمی ایکٹر بھی اسٹیج پر نظر آئے اور کہا جاتا ہے کہ 18/20 ہزار ہندوستانی امریکن شریک ہوئے اور ہمارے وزیر اعظم کی تقریر کو سننے کے لیے بجا طور پر ہندوستانی امریکیوں میں ذوق و دلولہ نظر آرہا تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ہندوستانی امریکن کی بڑی تعداد گجراتیوں کی تھی۔ اس لیے ہمارے وزیر اعظم کو اس بات کی کوشش کرنا چاہئے کہ وہ پین (PAN) انڈین کا نمونہ پیش کریں نہ کہ صرف پین گجراتی کا ، کیونکہ وہ اپنی تقریروں میں اکثر و بیشتر اپنے گجراتی تجربات کو پیش کرتے ہیں ناکہ ہندوستان جو ایک بڑا ملک ہے اس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ان تجربات میں وہ الزامات بھی ہیں جو 2002میں ایک ہزار سے زائد ہندوستانی گجراتیوں کا قتل عام ہوا جس میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کی تھی اور اسی الزام کی روشنی میں وہاں ان کے خلاف مظاہرہ ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے میڈیا نے اس مظاہرہ کو جگہ نہیں دی۔ جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ میڈیا حقیقی صورتحال کو پیش کرنے میں چشم پوشی کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ایک سرکردہ صحافی کی نہ صرف توہین کی گئی بلکہ اس کی مار پٹائی ہوئی اور درگت بنائی گئی۔ میڈیا نے اسے بھی جگہ نہیں دی۔ کیا یہ جمہوریت کی بقا کی علامت ہے یا جمہوریت کی روح کو کمزور کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ دوسری طرف یو این او کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم کا خطاب بلاشبہ اچھا تھا جسے مستحن کہا جاسکتا ہے مگر وہی وزیر اعظم بابائے قوم کا صحیح نام نہیں لے سکے اور زیادہ وقت لے کر اپنی بات پوری کی۔ وہ اسٹیٹس مین شپ پر سوال کھڑا کرتا ہے۔ صدر اوبامہ سے وہائٹ ہاؤس میں گفت و شنید ہوئی مگر جو اہم مسائل تھے اس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی اور سی ای او کی بھی میٹنگ میں سرمایہ کاروں کے اشکال و جمود کو توڑنے میں کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی۔ ہاں وزیراعظم پوری قوت سے یہ بات پیش کرنے میں کامیاب رہے کہ ہندوستان ایک عظیم ملک ہے اور وہاں بڑی آبادی ہونے کے ساتھ ساتھ ذہانت بھی پائی جاتی ہے اور علم کی طرف تیزی سے قدم اٹھ رہا ہے جو خود امریکا کے لیے اساتذہ کی فراہمی کا رول ادا کرسکتا ہے۔ ہندوستان بنیادی طورپر امن و شانتی کا گہوارہ رہا ہے اور اس کا علمبردار ہے۔ امن و شانتی قائم رکھنے کے لیے وزیر اعظم نے جو یقین دہانی کرائی ہے کہ دہشت گردی ختم ہو، ہندوستان بھی اپنا تعاون ہمیشہ دیتا رہا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کی جو ملاقات
اسرائیل کے وزیراعظم سے آدھے گھنٹے کی ہوئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ مضبوط رشتوں کی
جانب ایک قدم ہے ساتھ ہی یہ بھی کہا جارہا ہے کہ دو تاریخی تہذیبوں کو آگے بڑھانے
کی سمت ایک پہل ہے اور اس سے سائنس، زراعت اور دفاع وغیرہ کے شعبوں میں مضبوطی آئے
گی اور ہمارا ملک 6بلین ڈالر سے زائد پیکیج کو استعمال کرسکے گا مگر یہ ضروری ہے
کہ حکومت اور آر ایس ایس کے سربراہ کی توجہ اس جانب ہونی چاہیے کہ کبھی ان کی
تاریخ کو نظرانداز کرکے وقتی یا جذباتی فائدے کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کے فیصلے
میں بے بسی نہ پیدا ہو جیساکہ آج امریکا بڑے پیمانے پر بے بس نظر آرہا ہے۔
ابھی کچھ دن قبل آر ایس ایس کے سربراہ نے ہمارے وزیراعظم کے دورہ بالخصوص امریکا کو تاریخی قرار دیا اور انھوں نے بہت سارے ایشوز پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ جہاں اپنے کو ’بڑا بھائی‘ ہونے کی اہمیت کو جتانے کی کوشش کی وہاں وزیراعظم نے بھی اس تقریر کو خوب سراہا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ ’’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘‘ (تم مجھے حاجی کہو میں تمہیں حاجی کہوں) بلکہ مکمل طور پر نہ صرف افہام و تفہیم ہے موجودہ حکومت اور آر ایس ایس کے درمیان بلکہ عملی طور پر بی جے پی قیادت والی حکومت وہی رول ادا کرے گی جو وہاں سے کھلے اور چھپے انداز میں حکم جاری ہوگا۔ اس افہام و تفہیم کا ایک پہلو یہ ہے کہ حکومت آر ایس ایس اور اس کے اثرات کو قبول کرنے والی تنظیموں کو اس بات کی مکمل اجازت ملی ہوئی ہے کہ ملک کی اقلیتوں اور کمزور طبقات خاص طور سے مسلمانوں کی شناخت، شعائر اسلامی، اس کے تعلیمی ادارے بالخصوص مدارس اسلامیہ کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کریں اور انھیں خوفزدہ کریں، اور ملک کا قانون محض ایک تماش بین بنا رہے جس کے نتیجہ میں ان کی فکری تنظیموں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کی جاسکے اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی شکایتوں کا مداوا بھی نہ ہوسکے۔
یہ عجیب بات ہے کہ میانمار، نیپال، جاپان اور امریکا کے دورہ میں ہمارے وزیراعظم نے ایک گلیمر کے انداز میں اپنی خطابت کی صلاحیت کو پیش کرتے ہوئے باتیں ضرور رکھی ہیں جو گلیمر کی مثال تو بنتی ہے لیکن گلوری کی مثال نہیں بنتی۔ ہاں یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ جیسے ماضی میں ہمارے ملک کے دیگر وزیراعظم نے یو این او میں یہ بات رکھی ہے کہ سیکورٹی کونسل صرف 5 ملکوں تک محدود رکھنا صحیح نہیں ہے۔ اس بات کو نریندر مودی نے اپنے حالیہ دورہ میں مزید پرزور انداز میں پیش کیا ہے۔ یہ بات وہاں گو نجی ہے ہم اسے یقینی طور پر پسندیدہ نظروں سے دیکھتے ہیں۔
الیکشن کے دوران نریندر مودی نے بڑے بڑے وعدے کیے اور جے بی جے نے اسے اپنے مینی فسٹو میں بھی شامل کیا۔ حکومت ان کی پوری اکثریت کے ساتھ قائم ہوگئی۔ قائم ہونے کے بعد بڑے بڑے خوبصورت نعرے بھی دیے اور چار مہینے گزر گئے ابھی تک خوش کن نعرے اور بڑے بڑے وعدے کرتے چلے جارہے ہیں۔ ہم ایک طرف اپنے وزیراعظم سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ آپ وعدے سے نکل کر اپنے ملک کی زمینی حقیقت پر آیئے جہاں مہنگائی، بدعنوانی وغیرہ نہ صرف بدستور قائم ہے بلکہ بڑھتا ہوا رجحان پیدا ہوچکا ہے۔ ملک کا نظم و نسق بہتر ہونے کے بجائے فرقہ واریت، فرقہ پرستی، کمزور طبقات اور مسلمانوں کو مزید خوفزدہ کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے نہ یہ دستوری طور پر صحیح ہے، نہ یہ قانون کی بالادستی ہے۔ مزید ’وعدوں کی افیم‘ دینے کے بجائے عملی کارنامہ پیش کریں تاکہ ہمارے ملک کی عظمت بھی اپنی نگاہ میں ہو اور دوسرے پوری دنیا پر قائم ہوسکے۔ وہاں میڈیا سے بھی گزارش ہے کہ ’افیمی وعدوں‘ کے نقصانات کا تجزیہ کریں اور حکومت کو باور کرائیں کہ ملک کا استحکام، ترقی اور اپنی قوت کے ساتھ دنیا کے نقشہ پر اسی وقت قائم ہوگا جب حقیقت پسندانہ عمل شروع کیا جائے جس میں بصیرت، پلاننگ، حکمت عملی اس طرح سے شامل ہو جو انہی کے نعرے ’سب کا ساتھ سب وکاس‘ عام انسانوں کو نظر آنے لگے۔
ہمارا ملک 67 سال کا سفر طے کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ اگر ہمارے افرادی وسائل، ہماری ذہانت، ہماری روایات، ہمارے دستور کی منشا اور اس کی روح ’’نیز کثرت میں وحدت‘‘ کے فلسفہ کو مناسب انداز سے سامنے لایا جائے جہاں کوئی بھی سرمایہ کار خواہ جاپان کے ہوں، امریکا کے ہوں سرمایہ کاری کرنے میں وحشت محسوس نہ کرے اور ہندوستان جیسے ملک میں اپنی بے شمار خصوصیات کی وجہ سے یہاں سرمایہ کاری میں دلچسپی لے سکتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کو اس کا خوب اندازہ ہونا چاہیے کہ وہاں کے سرمایہ کار بہت زیادہ لبیک نہیں کہہ سکے اس کی وجہ امن کی کمی اور فرقہ وارانہ ذہنیت کا بڑھاوا نیز کثرت میں وحدت کے تصور کو ختم کرنے یا کم کرنے میں رکاوٹ بنی ہے۔ ماضی سے بھی سبق لینا ضروری ہے کہ سرمایہ کار اپنے سرمایہ کو کسی ایک ملک میں محدود نہیں کرتا بلکہ کوئی بھی ملک جہاں اسے امن و آشتی، اچھی حکومت، بہتر حکمرانی اور پالیسی آسان ہوتی ہیں وہ اپنی سرمایہ کاری کو وہاں لے جانے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں آر ایس ایس سربراہ کو یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ دنیا کے نقشہ پر ابھرتی ہوئی طاقت ہمارا ملک اسی وقت بن سکتا ہے جب کثرت میں وحدت اور سماجی تانے بانے کو مضبوط کریں ناکہ اسے توڑیں، وہیں ہمارے وزیراعظم جو صرف آر ایس ایس کے وزیراعظم نہیں ہیں بلکہ پورے ملک کے ہیں۔ مذکورہ باتوں کو مضبوط کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔ خدا کے واسطے نئے وعدے کرنے کے بجائے ماضی کے سارے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں تو ہمارے ملک کو دنیا کے نقشے میں مضبوطی سے ابھرنے میں موجودہ ماحول مددگار ہوگا ورنہ تاریخ یہ لکھے گی کہ ہندوستانی موجودہ حکومت الفاظ کے گلدستہ کو پیش کرتی ہے مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)
ابھی کچھ دن قبل آر ایس ایس کے سربراہ نے ہمارے وزیراعظم کے دورہ بالخصوص امریکا کو تاریخی قرار دیا اور انھوں نے بہت سارے ایشوز پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ جہاں اپنے کو ’بڑا بھائی‘ ہونے کی اہمیت کو جتانے کی کوشش کی وہاں وزیراعظم نے بھی اس تقریر کو خوب سراہا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ ’’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘‘ (تم مجھے حاجی کہو میں تمہیں حاجی کہوں) بلکہ مکمل طور پر نہ صرف افہام و تفہیم ہے موجودہ حکومت اور آر ایس ایس کے درمیان بلکہ عملی طور پر بی جے پی قیادت والی حکومت وہی رول ادا کرے گی جو وہاں سے کھلے اور چھپے انداز میں حکم جاری ہوگا۔ اس افہام و تفہیم کا ایک پہلو یہ ہے کہ حکومت آر ایس ایس اور اس کے اثرات کو قبول کرنے والی تنظیموں کو اس بات کی مکمل اجازت ملی ہوئی ہے کہ ملک کی اقلیتوں اور کمزور طبقات خاص طور سے مسلمانوں کی شناخت، شعائر اسلامی، اس کے تعلیمی ادارے بالخصوص مدارس اسلامیہ کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کریں اور انھیں خوفزدہ کریں، اور ملک کا قانون محض ایک تماش بین بنا رہے جس کے نتیجہ میں ان کی فکری تنظیموں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کی جاسکے اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی شکایتوں کا مداوا بھی نہ ہوسکے۔
یہ عجیب بات ہے کہ میانمار، نیپال، جاپان اور امریکا کے دورہ میں ہمارے وزیراعظم نے ایک گلیمر کے انداز میں اپنی خطابت کی صلاحیت کو پیش کرتے ہوئے باتیں ضرور رکھی ہیں جو گلیمر کی مثال تو بنتی ہے لیکن گلوری کی مثال نہیں بنتی۔ ہاں یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ جیسے ماضی میں ہمارے ملک کے دیگر وزیراعظم نے یو این او میں یہ بات رکھی ہے کہ سیکورٹی کونسل صرف 5 ملکوں تک محدود رکھنا صحیح نہیں ہے۔ اس بات کو نریندر مودی نے اپنے حالیہ دورہ میں مزید پرزور انداز میں پیش کیا ہے۔ یہ بات وہاں گو نجی ہے ہم اسے یقینی طور پر پسندیدہ نظروں سے دیکھتے ہیں۔
الیکشن کے دوران نریندر مودی نے بڑے بڑے وعدے کیے اور جے بی جے نے اسے اپنے مینی فسٹو میں بھی شامل کیا۔ حکومت ان کی پوری اکثریت کے ساتھ قائم ہوگئی۔ قائم ہونے کے بعد بڑے بڑے خوبصورت نعرے بھی دیے اور چار مہینے گزر گئے ابھی تک خوش کن نعرے اور بڑے بڑے وعدے کرتے چلے جارہے ہیں۔ ہم ایک طرف اپنے وزیراعظم سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ آپ وعدے سے نکل کر اپنے ملک کی زمینی حقیقت پر آیئے جہاں مہنگائی، بدعنوانی وغیرہ نہ صرف بدستور قائم ہے بلکہ بڑھتا ہوا رجحان پیدا ہوچکا ہے۔ ملک کا نظم و نسق بہتر ہونے کے بجائے فرقہ واریت، فرقہ پرستی، کمزور طبقات اور مسلمانوں کو مزید خوفزدہ کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے نہ یہ دستوری طور پر صحیح ہے، نہ یہ قانون کی بالادستی ہے۔ مزید ’وعدوں کی افیم‘ دینے کے بجائے عملی کارنامہ پیش کریں تاکہ ہمارے ملک کی عظمت بھی اپنی نگاہ میں ہو اور دوسرے پوری دنیا پر قائم ہوسکے۔ وہاں میڈیا سے بھی گزارش ہے کہ ’افیمی وعدوں‘ کے نقصانات کا تجزیہ کریں اور حکومت کو باور کرائیں کہ ملک کا استحکام، ترقی اور اپنی قوت کے ساتھ دنیا کے نقشہ پر اسی وقت قائم ہوگا جب حقیقت پسندانہ عمل شروع کیا جائے جس میں بصیرت، پلاننگ، حکمت عملی اس طرح سے شامل ہو جو انہی کے نعرے ’سب کا ساتھ سب وکاس‘ عام انسانوں کو نظر آنے لگے۔
ہمارا ملک 67 سال کا سفر طے کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ اگر ہمارے افرادی وسائل، ہماری ذہانت، ہماری روایات، ہمارے دستور کی منشا اور اس کی روح ’’نیز کثرت میں وحدت‘‘ کے فلسفہ کو مناسب انداز سے سامنے لایا جائے جہاں کوئی بھی سرمایہ کار خواہ جاپان کے ہوں، امریکا کے ہوں سرمایہ کاری کرنے میں وحشت محسوس نہ کرے اور ہندوستان جیسے ملک میں اپنی بے شمار خصوصیات کی وجہ سے یہاں سرمایہ کاری میں دلچسپی لے سکتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کو اس کا خوب اندازہ ہونا چاہیے کہ وہاں کے سرمایہ کار بہت زیادہ لبیک نہیں کہہ سکے اس کی وجہ امن کی کمی اور فرقہ وارانہ ذہنیت کا بڑھاوا نیز کثرت میں وحدت کے تصور کو ختم کرنے یا کم کرنے میں رکاوٹ بنی ہے۔ ماضی سے بھی سبق لینا ضروری ہے کہ سرمایہ کار اپنے سرمایہ کو کسی ایک ملک میں محدود نہیں کرتا بلکہ کوئی بھی ملک جہاں اسے امن و آشتی، اچھی حکومت، بہتر حکمرانی اور پالیسی آسان ہوتی ہیں وہ اپنی سرمایہ کاری کو وہاں لے جانے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں آر ایس ایس سربراہ کو یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ دنیا کے نقشہ پر ابھرتی ہوئی طاقت ہمارا ملک اسی وقت بن سکتا ہے جب کثرت میں وحدت اور سماجی تانے بانے کو مضبوط کریں ناکہ اسے توڑیں، وہیں ہمارے وزیراعظم جو صرف آر ایس ایس کے وزیراعظم نہیں ہیں بلکہ پورے ملک کے ہیں۔ مذکورہ باتوں کو مضبوط کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔ خدا کے واسطے نئے وعدے کرنے کے بجائے ماضی کے سارے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں تو ہمارے ملک کو دنیا کے نقشے میں مضبوطی سے ابھرنے میں موجودہ ماحول مددگار ہوگا ورنہ تاریخ یہ لکھے گی کہ ہندوستانی موجودہ حکومت الفاظ کے گلدستہ کو پیش کرتی ہے مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)
No comments:
Post a Comment