You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Wednesday, June 29, 2016

*مجید امجد* کی شاعری کی جھلک جدید دور کے کئی شعرا کے ہاں بھی نظر آتی ہے۔ بلکہ بعض نے تو مجید امجد کی کچھ نظموں پر ہاتھ صاف کر کے اپنی شہرت کے مینار کھڑے کر لیے ہیں۔ مثال کے طور پر مجید امجد کے ابتدائی دور کی ایک خوبصورت نظم "بُندا" جس سے متاثر ہو کر وصی شاہ نے اپنی مشہور زمانہ نظم کنگن لکھی تھی یاد رہے کہ یہ نظم وصی شاہ کی نظم کنگن لکھنے سے تقریباً 35 سال پہلے لکھی گئی تھی. .

*" بُندا "*

کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا
رات کو بے خبری میں جو مچل جاتامیں
تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے
ملتا اس گوش کا پھر گوشہ مانوس مجھے
کان سے تو مجھے ہر گز نہ اتارا کرتی
تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی 
یوں تری قربت رنگیں کے نشے میں مدہوش
عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش
کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا!  

"مجید امجد"  

*" کنگن "*

کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
تو بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ
اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو 
اور بے تابی سے فرقت کے خزاں لمحوںمیں
تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو
میں ترے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا
جب کبھی موڈ میں آ کر مجھے چوما کرتی
تیرے ہونٹوں کی میں حدت سے د ہک سا جاتا
رات کو جب بھی تو نیندوں کے سفر پر جاتی
مرمریں ہاتھ کا اک تکیہ بنایا کرتی 
میں ترے کان سے لگ کر کئی باتیں کر تا
تیری زلفوں کو ترے گال کو چوما کرتا
جب بھی تو بند قبا کھولنے لگتی جاناں
اپنی آنکھوں کو ترے حسن سے خیرہ کرتا 
مجھ کو بے تاب سا رکھتا تری چاہت کا
نشہ میں تری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا
میں ترے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا
کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا

*"وصی شاہ"*

.. *( تلاش : شفیق جے ایچ )*..

🍁

Wednesday, June 15, 2016

ایک نظر ادھر بھی

... اس کا تعلق ہر ایک سے ہے . بہت سے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کھانے پینے کے آداب سے واقف نہیں ہے اور اس عدم واقفیت کی وجہ سے وہ دوسروں کی تکلیف کا باعث بنتے ہیں . میں یہاں کھانے کے کچھ آداب بیان کروں گا اور اگر آپ میں سے کسی کے ذہن میں مزید کوئی ادب ہو تو وہ بھی لکھ سکتا ہے1: پہلا ادب جس سے سب واقف ہیں وہ یہ ہے کہ کھانا اللہ کے نام سے شروع کرنا چاہیے اور دائیں ہاتھ سے کھانا چاہیے . دایاں ہاتھ اچھے کاموں کے لیے ہوتا ہے , اس لیے اسے کبھی ناک میں نہیں ڈالنا چاییے . سوچیے اگر کبھی کسی نے آپ کے دائیں ہاتھ کو آپ کے ناک میں دیکھ لیا تو وہ اس کے بعد کیونکر آپ کے ساتھ کھانے پر آمادہ ہو گا2: اپنے سامنے سے کھانا چاہیے .3: لقمہ چھوٹا لینا چاہیے .4: جب آپ لقمہ منہ میں رکھیں تو پھر اس کے بعد اپنا منہ بند کر کے دانتوں سے چبائیں . اگر آپ منہ کھول کر چبائیں گے تو ایک تو آپ کے منہ سے آواز نکلے گی جو ناپسندیدہ ہوتی ہےاور اگر سامنے والی کی نگاہ آپ کے منہ کی طرف چلی گئی اور اس نے چبایا گیا لقمہ دیکھ لیا تو اسے سخت تکلیف ہو گئی.5:, کھانا کھاتے ہوئے اگر زور سے چھینک آ رہی ہے یا ہنسی آرہی ہے تو اپنا منہ دوسری طرف کر لیں تاکہ آپ کے منہ کا تھوک کھانے میں نہ گرے .6: اگر آپ چاول کھا رہے ہیں تو نوالہ منہ میں ڈال کر اس کے بعد اپنے ھاتھ پلیٹ کے اندر مت چھاڑیے یہ انتہائی بری بات ہے .7:, کہیں لوگ ہاتھ دھو کر کھاتے ہیں لیکن پھر کھانے سے پہلے اسی ہاتھ سے خارش شروع کر دیتے ہیں اس سے بچنا چاہیے .8: اگر آپ چمچ سے کھا رہے ہیں تو اپنا استعمال شدہ چمچ کبھی اپنے ساتھی کے حوالے نہ کیجیے , یا تو نیا چمچ لائیں یا پھراسی چمچ کو دھو لیں .9: اگر کوئی مہمان اکیلے کھانا پسند کرتا ہے تو اسے اکیلے ہی کھانے دیں یہ کوئی ضروری نہیں کہ دو بندے مل کر کھائیں . دوسروں کو تکلیف سے بچانا فرض ہے .10: اگر آپ کے پاس ایک ہی گلاس ہے اور بہت سے بندے ہیں اور آپ کا دائیں ہاتھ آلودہ ہے تو آپ بائیں ہاتھ سے گلاس پکڑیں اور نیچے دائیں ہاتھ کا سہارا دے کر پییے . گلاس آلودہ نہ کریں.11: کھانے کھاتے ہوئے جس طرف سے آپ کھا رہے ہیں وہ طرف مکمل صاف کر کہ اٹھیں کسی دوسرے کے لیے نہ چھوڑیں .12: آخر میں یہ عرض ہے کہ اپنے دانت صاف رکھیں . آج کل سحری اور افطاری میں مسواک یا  ٹوتھ پیسٹ کر لیا کریں . اللہ تعالی کو منہ کی بدبو بالکل بھی پسند نہیں . حدیث میں جو آتا ہے کہ اللہ روزہ دار کی منہ کی بو کو پسند کرتا ہے اس سے مراد وہ مہک ہے جو بھوکے پیٹ رہنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے . دانت نہ صاف کرنے کی وجہ سے جو بو پیدا ہوتی ہے اس سےتو فرشتے بھی بھاگتے ہیں اور دوسرے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے . دوسری بات یہ کہ رمضان میں افطاری میں خاص کر کم کھانا چاہیے تاکہ تراویح میں آپ کے ڈکار سے لوگ تنگ نہ ہوں .(وسیم عبدالستار).

ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮاللہ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻧﮯ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ "ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﺅ ﻭﮨﺎﮞ ﺗﯿﻦ ﮐﺸﺘﯿﺎﮞ ﮈﻭﺑﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﯿﮟ" ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻓﻮﺭﯼ ﺣﮑﻢِ ﺍﻟﮩﯽ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﭼﻞ ﺩﯾﺌﮯ ﺳﺎﺣﻞ ﭘُﺮ ﺳﮑﻮﻥ ﺗﮭﺎ ﺑﮩﺖ ﺩﻭﺭﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﺸﺘﯽ ﺁﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯼ ﺟﻮ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺳﺎﺣﻞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﻓﺎﺻﻠﮯ ﭘﺮ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﺳﯽٰؑ ﻧﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ ﮐﮧ " ﺍﮮ ﮐﺸﺘﯽ ﻭﺍﻟﻮ ! ﺍللہ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ﮨﻮﺷﯿﺎﺭ ﺭﮨﻨﺎ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺁﭖ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭨﺎﻝ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻢ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺣﮑﻢ ﺍﻟﮩٰﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺑﻨﺪ ﮨﯿﮟ ﮐﺸﺘﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﮧ ﮨﯽ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﺝ ﺍﭨﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺸﺘﯽ ﮈﻭﻟﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺳﻮﺍﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﻣﻮﺝ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺸﺘﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮩﺎ ﮐﺮ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﯽ ﺗﮩﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﮐﺸﺘﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺧﺒﺮﺩﺍﺭ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ " ﺫﺭﺍ ﻣﺤﺘﺎﻁ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺁﻧﺎ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ "ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺸﺘﯽ ﮐﻮ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻻﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺳﺎﺣﻞ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﺗﮯ ﺁﺗﮯ ﯾﮧ ﮐﺸﺘﯽ ﺑﮭﯽ ﮈﻭﺏ ﮔﺌﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺣﮑﻤﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻮ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﮐﺸﺘﯽ ﺁﺗﯽ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯼ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺣﺴﺐِ ﺳﺎﺑﻖ ﺍِﺱ ﮐﺸﺘﯽ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﻮ ! ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺫﺭﺍ ﻣﺤﺘﺎﻁ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺁﺅ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺒﯽؑ ! ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺁﭖ ﺳﭽﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﻞ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺪﻝ ﺳﮑﺘﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ، ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﺳﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﮨﻮﮞ ﻟﮩٰﺬﺍ ﮨﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﭘﺮ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺁ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﮐﮯ ﺻﺪﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﮟ ﺿﺮﻭﺭ ﺍﻣﻦ ﻭ ﺳﻼﻣﺘﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﮮ ﮔﺎ * ﮐﺸﺘﯽ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺟﻮﺍﺏ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺟﺐ ﮐﺸﺘﯽ ﺑﺎﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﺁ ﻟﮕﯽ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮؑ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺗﯿﻦ ﮐﺸﺘﯿﺎﮞ ﮈﻭﺑﻨﮯ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺩﻭ ﺗﻮ ﮈﻭﺏ ﮔﺌﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺳﻼﻣﺘﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﺁ ﻟﮕﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ، ﮐﯿﺴﮯ ﺑﭻ ﮔﺌﯽ؟ " ﺍﺭﺷﺎﺩ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ " ﺍﮮ ﻣﻮﺳﯽٰ ! ﺁﭖ ﻧﮯ ﺳﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﮐﺸﺘﯽ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﺎ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﮑﻢ ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺭﺣﻤﺖ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﺍ ﺗﻮﮐﻞ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍِﺱ ﻟﯿﮯ ﯾﮧ ﮐﺸﺘﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺭﺣﻤﺖ ﮐﮯ ﻃﻔﯿﻞ ﺑﭻ ﮔﺌﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺭﺣﻤﺖ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺁ ﮐﺮ ﺻﺪﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﻧﺎ ﺍﻣﯿﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔۔۔ ! ========================== ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻣﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﮐﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻋﺮﺵ ﭘﺮ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺭﺣﻤﺖ، ﻣﯿﺮﮮ ﻏﻀﺐ ﭘﺮ ﻏﺎﻟﺐ ﮨﮯ. (ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ)

Monday, June 13, 2016

مختصر افسانہ

کوئی ایسی جامع تعریف جو صنف "مختصر افسانہ" کے تمام پہلوؤں اور اقسام پر محیط ہو ممکن نہیں ہے۔ اس کے اختصار کی حد کا تعین بھی ممکن نہیں۔ وہ ایک صفحہ کا بھی ہو سکتا ہے اور اسے سو صفحات پر بھی پھیلایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ "مختصر مختصر افسانہ" اور "طویل مختصر افسانہ" بھی اصطلاح کے طور پر رائج ہیں۔ مختصر افسانہ کا بنیادی وصف وحدت تاثر ہے۔ یعنی جب افسانے میں کسی ایک واقعہ، کسی ایک نفسیاتی حقیقت، کسی ایک کردار یا کسی ماحول یا صورت حال کو پیش کیا جاتا ہے۔
مختصر افسانہ نے نو عمر صنف ادب ہونے کے باوجود تمام دنیا میں ترقی کی ہے۔ اس کا بڑا سبب ادبی اور نیم ادبی رسائل اور اخبارات کی اشاعت ہے جن میں مختصر افسانے شائع ہونے لگے۔
اردو میں مختصر افسانہ کی شروعات راشد الخیری(مصورِ غم)سجاد حیدر یلدرم اور منشی پریم چند سے ہوتی ہے۔ یلدرم کے افسانوں میں رومان کا عنصر غالب تھا۔۱۹۳۲ء کے آخر میں نو افسانوں اور ایک ڈرامے کا ۳۴ا صفحات پر مشتمل مجموعہ "انگارے" منظر عام پر آیا۔ جس کے مرتب اور پبلشر سجاد ظہیر تھے۔ "انگارے سے نئے افسانے کی ابتداء ہوئی۔ اسے بعد میں نیاز فتح پوری، احمد اکبر آبادی اور مجنوں گورکھپوری نے فروغ دیا۔ پریم چند نے حقیقت نگاری کو فن کی روح قرار دیا۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں کسانوں اور محنت کش انسانوں اور متوسط طبقہ کو خاص طور پر اپنا موضوع بنایا۔ اعظم کریوی، مہاشے سدرشن، علی عباس حسینی اور سہیل عظیم آبادی نے اس روایت سے فیض اٹھایا۔ مغربی افسانہ کے بعض رحجانات اور تحریکات نے بھی اردو افسانہ کو متاثر کیا۔ سعادت حسن منٹو، محمد حسن عسکری، احمد علی، ممتاز مفتی اور عزیز احمد نے نفسیات کے نئے اصولوں کی روشنی میں اردو افسانہ کو نئی سمتیں دکھائیں۔ منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، غلام عباس اور احمد ندیم قاسمی جیسے افسانہ نگاروں نے افسانے میں انقلابی رومانیت یا نفسیاتی حقیقت نگاری کو فروغ دیا۔ ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق نے افسانے کو خاص طور پر فروغ دیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ ترقی پسند تحریک کے فروغ کا زمانہ مختصر افسانے کے لیے بہت سازگار تھا اور اس زمانے میں افسانے کے فن نے بہت ترقی کی۔ بیدی اور منٹو کا تعلق ترقی پسندی کے ساتھ نہ بہت گہرا تھا اور نہ بہت دیر قائم رہا۔ ان کے یہاں حقیقت نگاری کے متنوع رنگ ملتے ہیں اور موضوعات کی وسعت بھی اپنے معاصروں کی نسبت ان کے یہاں زیادہ ہے۔ منٹو اور بیدی کے یہاں تکنیک اور زبان کا بھی بہت تنوع ہے۔
۱۹۶۰ کے بعد اردو افسانے میں ایک نیا رحجان سامنے آیا جسے "جدید افسانہ"، "تجریدی افسانہ"، "علامتی افسانہ" جیسے نام دیے گئے۔ بعض افسانہ نگار، مثلاً انتظار حسین، اگرچہ بیانیہ طرز کے اعتبار سے بیدی اور منٹو سے قریب تھے، لیکن موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے ۱۹۶۰ کے بعد کے افسانہ نگاروں سے قریب تر معلوم ہوتے ہیں۔ انور سجاد، سریندر پرکاش، خالدہ حسین، احمد ہمیش، مین را، اکرام اللہ، حسن منظر، نیر مسعود، رشید امجد، محمد منشایامرزا حامد بیگ اورمظہرالاسلام وغرہ کے نام ۱۹۶۰ کے بعد کے افسانے سے منسلک ہیں۔ اس زمانے کے بعض اور افسانہ نگار مثلاً غیاث احمد گدّی اور اقبال مجید نے ایسی راہ اختیار کی جو ترقی پسند افسانے سے متاثر لیکن جدید افسانے کے قریب تھی۔
افسانے کے فروغ میں خواتین کا بھی نمایاں حصہ رہا ہے۔ بیشتر خواتین نے چہار دیواری میں گھری ہوئی متوسط طبقہ کی گھریلو زندگی کے حوالے سے اپنے افسانوں میں حقیقت کے رنگ بھرے۔ منٹو نے اگر گھر کے باہر کی عورتوں کی نفسیات کے حساس اور عمیق مطالعے اپنے افسانوں میں پیش کیے تو یہی کام عصمت چغتائی نے گھر کے اندر کی عورتوں کی نفسیات اور کوائف پر مبنی افسانے لکھ کر انجام دیا جن میں زبان بھی موضوع کی مناسبت سے استعمال ہوئی تھی۔ خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، قرۃ العین حیدر، واجدہ تبسم اور جیلانی بانو کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ جہاں تک فن اور تکنیک کے کامیاب تجربات کا تعلق ہے، قرۃ العین حیدر کا نام پورے اردو فکشن میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, June 11, 2016

ایک نادر تحریر


جب ابّا کی تنخواہ کے ساڑھے تین سو روپے پورے خرچ ہو جاتے تب امّاں ہمارا پسندیدہ پکوان تیار کرتیں۔ ترکیب یہ تھی کہ سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے کپڑے کے پرانے تھیلے میں جمع ہوتے رہتے اور مہینے کے آخری دنوں میں ان ٹکڑوں کی قسمت کھلتی۔ پانی میں بھگو کر نرم کر کے ان کے ساتھ ایک دو مٹھی بچی ہوئی دالیں سل بٹے پر پسے مصالحے کے ساتھ دیگچی میں ڈال کر پکنے چھوڑ دیا جاتا۔ حتیٰ کہ مزے دار حلیم سا بن جاتا اور ہم سب بچے وہ حلیم انگلیاں چاٹ کر ختم کر جاتے۔ امّاں کے لیے صرف دیگچی کی تہہ میں لگے کچھ ٹکڑے ہی بچتے۔ امّاں کا کہنا تھا کہ کھرچن کا مزہ تم لوگ کیا جانو۔
اور امّاں ایسی سگھڑ تھیں کہ ایک دن گوبھی پکتی اور اگلے دن اسی گوبھی کے پتوں اور ڈنٹھلوں کی سبزی بنتی اور یہ کہنا مشکل ہوجاتا کہ گوبھی زیادہ مزے کی تھی یا اس کے ڈنٹھلوں کی سبزی۔
امّاں جب بھی بازار جاتیں تو غفور درزی کی دکان کے کونے میں پڑی کترنوں کی پوٹلی بنا کے لے آتیں۔ کچھ عرصے بعد یہ کترنیں تکئے کے نئے غلافوں میں بھر دی جاتیں۔ کیونکہ امّاں کے بقول ایک تو مہنگی روئی خریدو اور پھر روئی کے تکیوں میں جراثیم بسیرا کر لیتے ہیں۔ اور پھر کترنوں سے بھرے تکیوں پر امّاں رنگ برنگے دھاگوں سے شعر کاڑھ دیتیں۔ کبھی لاڈ آجاتا تو ہنستے ہوئے کہتیں ’تم شہزادے شہزادیوں کے تو نخرے ہی نہیں سماتے جی، سوتے بھی شاعری پر سر رکھ کے ہو۔‘
عید کے موقع پر محلے بھر کے بچے غفور درزی سے کپڑے سلواتے۔ ہم ضد کرتے تو امّاں کہتیں وہ تو مجبوری میں سلواتے ہیں کیونکہ ان کے گھروں میں کسی کو سینا پرونا نہیں آتا۔ میں تو اپنے شہزادے شہزادیوں کے لیے ہاتھ سے کپڑے سیئوں گی۔ جمعۃ الوداع کے مبارک دن ابّا لٹھے اور پھول دار چھینٹ کے دو آدھے آدھے تھان جانے کہاں سے خرید کر گھر لاتے۔ لٹھے کے تھان میں سے ابّا اور تینوں لڑکوں کے اور چھینٹ کے تھان میں سے دونوں لڑکیوں اور امّاں کے جوڑے کٹتے اور پھر امّاں ہم سب کو سلانے کے بعد سہری تک آپا نصیبن کے دیوار ملے کوارٹر سے لائی گئی سلائی مشین پر سب کے جوڑے سیتیں۔
آپا نصیبن سال کے سال اس شرط پر مشین دیتیں کہ ان کا اور ان کے میاں کا جوڑا بھی امّاں سی کے دیں گی۔ ہم بہن بھائی جب ذرا ذرا سیانے ہوئے تو ہمیں عجیب سا لگنے لگا کہ محلے کے باقی بچے بچیاں تو نئے نئے رنگوں کے الگ الگ چمکیلے سے کپڑے پہنتے ہیں مگر ہمارے گھر میں سب ایک ہی طرح کے کپڑے پہنتے ہیں۔ مگر امّاں کے اس جواب سے ہم مطمئن ہوجاتے کہ ایک سے کپڑے پہننے سے کنبے میں محبت قائم رہتی ہے۔ اور پھر ایسے چٹک مٹک کپڑے بنانے کا آخر کیا فائدہ جنھیں تم عید کے بعد استعمال ہی نہ کر سکو۔
چھوٹی عید یوں بھی واحد تہوار تھا جس پر سب بچوں کو ابّا ایک ایک روپے کا چاند تارے والا بڑا سکہ دیتے تھے۔ اس کے انتظار اور خرچ کرنے کی منصوبہ بندی میں چاند رات آنکھوں میں ہی کٹ جاتی۔ صبح صبح نماز کے بعد ہم بچوں کی شاپنگ شروع ہوجاتی۔ سب سے پہلے ہر بہن بھائی کوڈو کے ٹھیلے سے ایک ایک پنی والی گول عینک خریدتا جسے پہن کر چال میں اتراہٹ سی آجاتی۔ پھر سب کے سب چاندی کے ورق لگی میٹھی املی اس لالچ میں خریدتے کہ رفیق افیمچی ہر ایک کو املی دیتے ہوئے تیلی جلا کر املی میں سے شعلہ نکالے گا۔
پھر خانہ بدوشوں کے خوانچے میں بھرے مٹی کے کھلونوں اور رنگین کاغذ اور بانس کی لچکدار تیلیوں سے بنے گھگو گھوڑے کی باری آتی۔ آخر میں بس اتنے پیسے بچتے کہ سوڈے کی بوتل آ سکے۔ چنانچہ ایک بوتل خرید کر ہم پانچوں بہن بھائی اس میں سے باری باری ایک ایک گھونٹ لیتے اور نظریں گاڑے رہتے کہ کہیں کوئی بڑا گھونٹ نہ بھر جائے۔
پیسے ختم ہونے کے بعد ہم دوسرے بچوں کو پٹھان کی چھرے والی بندوق سے رنگین اور مہین کاغذ سے منڈھے چوبی کھانچے پر لگے غبارے پھوڑتے بڑی حسرت سے دیکھتے رہتے۔ بندر یا ریچھ کا تماشا بھی اکثر مفت ہاتھ آ جاتا اور اوپر نیچے جانے والے گول چوبی جھولے میں بیٹھنے سے تو ہم سب بہن بھائی ڈرتے تھے اور اس کا ٹکٹ بھی مہنگا تھا۔
بقر عید پر سب کے ہاں قربانی ہوتی سوائے ہمارے۔ مگر یہاں بھی امّاں کی منطق دل کو لگتی کہ جو لوگ کسی وجہ سے دنیا میں قربانی نہیں کر سکتے ان کے بکرے اللہ میاں اوپر جمع کرتا رہتا ہے۔ جب ہم اوپر جائیں گے تو ایک ساتھ سب جانور قربان کریں گے، انشااللہ!
ایک دفعہ گڑیا نے پوچھا کہ امّاں کیا ہم جلدی اوپر نہیں جاسکتے؟ ہر سوال پر مطمئن کر دینے والی امّاں چپ سی ہوگئیں اور ہمیں صحن میں چھوڑ کر اکلوتے کمرے میں چلی گئیں۔ ہم بچوں نے پہلی بار کمرے سے سسکیوں کی آوازیں آتی سنیں مگر جھانکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر گڑیا کی بات پر رونے کی کیا بات تھی۔
کوئی چھ سات ماہ بعد ایک دن امّاں باورچی خانے میں کام کرتے کرتے گر پڑیں۔ ابّا نوکری پر تھے اور ہم سب سکول میں۔گھر آ کر پتہ چلا کہ آپا نصیبن امّاں کی چیخ سن کر دوڑی دوڑی آئیں
اور پھر گلی کے نکڑ پر بیٹھنے والے ڈاکٹر محسن کو بلا لائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ امّاں کا دل اچانک ساتھ چھوڑ گیا ہے۔
تدفین کے بعد ایک روز گڑیا نے میرا بازو زور سے پکڑ لیا اور یہ کہتے ہوئے پھوٹ پڑی کہ خود تو اوپر جا کر اگلی عید پر اکیلے اکیلے بکرے کاٹیں گی اور ہمیں یہیں چھوڑ گئیں۔ --------

تمام احباب
رمضان, عیدین اور دیگر خوشیوں میں غرباء یتیموں,مساکین اور اپنے آس پاس سفید پوش لوگوں کو بھی شریک کریں جو غربت کے باوجود سوال نہیں کرتے.

حکایت

"حکایت"
ايک دفعہ كا ذكر ہے كہ ايک تھا مچھیرا، اپنے كام ميں مگن اور راضی خوشی رہنے والا۔ وہ صرف مچھلی كا شكار كرتا اور باقی وقت گھر پر گزارتا۔ قناعت كا يہ عالم كہ جب تک پہلی شكار كی ہوئی مچھلی ختم نہ ہو دوبارہ شكار پر نہ جاتا۔
ايک دن كی بات ہے کہ ۔۔۔ مچھیرے کی بيوی اپنے شوہر کی شكار كردہ مچھلی كو چھیل كاٹ رہی تھی كہ اس نے ايک حيرت ناک منظر ديكھا۔۔۔ حيرت نے تو اس كو كو دنگ كر كے ركھ ديا تھا۔۔۔ ايک چمكتا دمكتا موتی مچھلی كے پيٹ ميں۔۔۔ سبحان اللہ ۔۔۔ سرتاج، سرتاج، آؤ ديكھو تو، مجھے كيا ملا ہے۔۔۔ كيا ملا ہے، بتاؤ تو سہی۔۔۔ یہ دیکھو اتنا خوبصورت موتی ۔۔۔ كدھر سے ملا ہے۔۔۔ مچھلی کے پيٹ سے۔۔۔ لاؤ مجھے دو ميری پياری بيوی، لگتا ہے آج ہماری خوش قسمتی ہے جو اس كو بيچ كر مچھلی كے علاوہ كچھ اور كھانا کھانے كو ملے گا۔۔۔
مچھیرے نے بيوی سے موتی لیا۔۔۔ اور محلے كے سنار كے پاس پونہچا۔۔۔ السلام عليكم۔۔۔ و عليكم السلام۔۔۔ جی قصہ یہ ہے کہ مجھے مچھلی كے پيٹ سے موتی ملا ہے۔۔۔ دو مجھے ، ميں ديكھتا ہوں اسے۔۔۔ اوہ،،،، يہ تو بہت عظيم الشان ہے۔۔۔ ميرے پاس تو ايسی قيمتی چيز خريدنے كی استطاعت نہيں ہے۔۔۔ چاہے اپنا گھر، دكان اور سارا مال و اسباب ہی كيوں نہ بيچ ڈالوں، اس موتی كی قيمت پھر بھی ادا نہیں کرسكتا میں۔۔۔ تم ايسا كرو ساتھ والے شہر كے سب سے بڑے سنار كے پاس چلے جاؤ۔۔۔ ہوسكتا ہے كہ وہ اس کی قيمت ادا كرسكے، جاؤ اللہ تيرا حامی و ناصر ہو۔۔۔
مچھیرا موتی لے كر، ساتھ والے شہر كے سب سے امير كبير سنار كے پاس پونہچا، اور اسے سارا قصہ كہہ سنايا۔۔۔ مجھے بھی تو دكھاؤ، ميں ديكھتا ہوں ايسی كيا خاص چيز مل گئی ہے تمہيں۔۔۔ اللہ اللہ ، پروردگار كی قسم ہے بھائی، ميرے پاس اس كو خريدنے کی حيثيت نہیں ہے۔۔۔ ليكن ميرے پاس اس كا ايک حل ہے، تم شہر كے والی کے پاس چلے جاؤ۔۔۔ لگتا ہے ايسا موتی خريدنے كی اس كے پاس ضرور حيثيت ہوگی۔۔۔ مدد كرنے كا شكريہ، ميں چلتا ہوں والی شہر کے پاس۔۔۔
اور اب شہر كے والی كے دروازے پر ہمارا یہ مچھیرا دوست ٹھہرا ہوا ہے، اپنی قيمتی متاع كے ساتھ، محل ميں داخلے كی اجازت كا منتظر۔۔۔ اور اب شہر كے والی كے دربار ميں اس كے سامنے۔۔۔ ميرے آقا، يہ ہے ميرا قصہ، اور يہ رہا وہ موتی جو مجھے مچھلی كے پيٹ سے ملا۔۔۔ اللہ اللہ۔۔۔ كيا عديم المثال چيز ملی ہے تمہيں، ميں تو گويا ايسی چيز ديكھنے كی حسرت ميں ہی تھا۔۔۔ ليكن كيسے اس كی قيمت كا شمار كروں۔۔۔ ايک حل ہے ميرے پاس، تم ميرے خزانے ميں چلے جاؤ۔۔۔ اُدھر تمہيں 6 گھنٹے گزارنے كی اجازت ہوگی۔۔۔ جس قدر مال و متاع لے سكتے ہو لے لينا، شايد اس طرح موتی کی كچھ قيمت مجھ سے ادا ہوپائے گی۔۔۔ آقا، 6 گھنٹے!!!! مجھ جيسے مفلوک الحال مچھیرے كے لئے تو 2 گھنٹے بھی كافی ہيں۔۔۔ نہيں، 6 گھنٹے، جو چاہو اس دوران خزانے سے لے سكتے ہو، اجازت ہے تمہيں۔۔۔
ہمارا یہ مچھیرا دوست والی شہر كے خزانے ميں داخل ہوكر دنگ ہی رہ گيا، بہت بڑا اور عظيم الشان ہال كمرا، سليقے سے تين اقسام اور حصوں ميں بٹا ہوا، ايک قسم ہيرے، جواہرات اور سونے كے زيورات سے بھری ہوئی۔۔۔ ايک قسم ريشمی پردوں سے مزّين اور نرم و نازک راحت بخش مخمليں بستروں سے آراستہ۔۔۔ اور آخری قسم كھانے پينے كی ہر اُس شئے سے آراستہ جس كو ديكھ كر منہ ميں پانی آجائے۔۔۔
مچھيرے نے اپنے آپ سے كہا،،، 6 گھنٹے؟؟؟ مجھ جيسے غريب مچھیرے كے لئے تو بہت ہی زيادہ مہلت ہے يہ۔۔۔ كيا كروں گا ميں ان 6 گھنٹوں ميں آخر؟؟؟ خير۔۔۔ كيوں نہ ابتدا كچھ كھانے پينے سے كی جائے؟؟؟ آج تو پيٹ بھر كر كھاؤں گا، ايسے كھانے تو پہلے كبھی ديكھے بھی نہيں۔۔۔ اور اس طرح مجھے ايسی توانائی بھی ملے گی جو ہيرے، جواہرات اور زيور سميٹنے ميں مدد دے۔۔۔
اور جناب ہمارا يہ مچھیرا دوست خزانے كی تيسری قسم ميں داخل ہوا۔۔۔ اور ادھر اُس نے والی شہر كی عطاء كردہ مہلت ميں سے دو گھنٹے گزار ديئے۔۔۔ اور وہ بھی محض كھاتے، كھاتے، كھاتے۔۔۔ اس قسم سے نكل كر ہيرے جواہرات كی طرف جاتے ہوئے، اس كی نظر مخمليں بستروں پر پڑی، اُس نے اپنے آپ سے كہا۔۔۔ آج تو پيٹ بھر كر كھايا ہے۔۔۔ كيا بگڑ جائے گا اگر تھوڑا آرام كرليا جائے تو، اس طرح مال و متاب جمع كرنے ميں بھی مزا آئے گا۔۔۔ ايسے پر تعيش بستروں پر سونے كا موقع بھی تو بار بار نہيں ملے گا، اور موقع كيوں گنوايا جائے۔۔۔ مچھيرے نے بستر پر سر ركھا اور بس،،،، پھر وہ گہری سے گہری نيند ميں ڈوبتا چلا گيا۔۔۔
اُٹھ اُٹھ اے احمق مچھیرے، تجھے دی ہوئی مہلت ختم ہوچكی ہے۔۔۔ ہائيں، وہ كيسے؟؟؟ جی، تو نے ٹھيک سنا ہے، نكل ادھر سے باہر كو۔۔۔ مجھ پر مہربانی كرو، مجھے كافی وقت نہيں ملا، تھوڑی مہلت اور دو۔۔۔ آہ۔۔۔ آہ۔۔۔ تجھے اس خزانے ميں آئے 6 گھنٹے گزر چكے ہيں، اور تو اپنی غفلت سے اب جاگنا چاہتا ہے۔۔۔! اور ہيرے جواہرات اكٹھے كرنا چاہتا ہے كيا؟؟؟ تجھے تو یہ سارا خزانہ سميٹ لينے كے لئے كافی وقت ديا گيا تھا۔۔۔ تاكہ جب ادھر سے باہر نكل كر جاتا تو ايسا بلكہ اس سے بھی بہتر کھانا خريد پاتا۔۔۔ اور اس جيسے بلكہ اس سے بھی بہتر آسائش والے بستر بنواتا۔۔۔ ليكن تو احمق نكلا كہ غفلت ميں پڑگيا۔۔۔ تو نے اس كنويں كو ہی سب كچھ جان ليا جس ميں رہتا تھا۔۔۔ باہر نكل كر سمندروں كی وسعت ديكھنا تونے گوارہ ہی نہ کی۔۔۔ نكالو باہر اس كو۔۔۔ نہيں، نہيں، مجھے ايک مہلت اور دو، مجھ پر رحم كھاؤ۔۔۔

يہ قصہ تو ادھر ختم ہو گيا ہے !!!
ليكن عبرت حاصل كرنے والی بات ابھی ختم نہيں ہوئی۔۔۔
اُس قيمتی موتی كو پہچانا ہے آپ لوگوں نے؟؟؟
وہ تمہاری روح ہے اے ابن آدم، اے ضعيف مخلوق!!!
يہ ايسی قيمتی چيز ہے جس كی قيمت كا ادراك بھی نہيں کیا جاسكتا۔۔۔
اچھا، اُس خزانے كے بارے ميں سوچا ہے كہ وہ كيا چيز ہے؟؟؟
جی ہاں، وہ دنيا ہے۔۔۔
اس كی عظمت كو ديكھ دیکھ اس كے حصول كے لئے ہم كيسے مگن ہيں؟؟؟
اس خزانے ميں ركھے گئے ہيرے جواہرات!!!
وہ تيرے اعمال صالحہ ہيں۔۔۔
اور وہ پر تعيش و پر آسائش بستر!!!
وہ تيری غفلت ہيں۔۔۔
اور وہ كھانا پينا!!!
وہ شہوات ہيں۔۔۔
اور اب۔۔۔ اے مچھلی كا شكار كرنے والے دوست۔۔۔
اب بھی وقت ہے كہ نيندِ غفلت سے جاگ جا،،
اور چھوڑ دے اس پر تعيش اور آرام دہ بستر كو۔۔۔
اور جمع كرنا شروع كردے ان ہيروں اور جواہرات كو جو کہ تيری دسترس ميں ہی ہیں۔۔۔
اس سے قبل كہ تجھے دی گئی 6 گھنٹوں كی مہلت ختم ہوجائے۔۔۔
تجھےء محض حسرت ہی رہ جائے گی۔۔۔
خزانے پر مامور سپاہيوں نے تو تجھے ذرا سی بھی اور زيادہ فرصت نہيں دينی،
اور تجھے ان نعمتوں سے باہر نكال دينا ہے جن ميں تو رہ رہا ہے ۔۔"

::::::: القلم :::::::ایاز نائس

Wednesday, June 08, 2016

درد کہانی

جب ابّا کی تنخواہ کے ساڑھے تین سو روپے پورے خرچ ہو جاتے تب امّاں ہمارا پسندیدہ پکوان تیار کرتیں۔ ترکیب یہ تھی کہ سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے کپڑے کے پرانے تھیلے میں جمع ہوتے رہتے اور مہینے کے آخری دنوں میں ان ٹکڑوں کی قسمت کھلتی۔ پانی میں بھگو کر نرم کر کے ان کے ساتھ ایک دو مٹھی بچی ہوئی دالیں سل بٹے پر پسے مصالحے کے ساتھ دیگچی میں ڈال کر پکنے چھوڑ دیا جاتا۔ حتیٰ کہ مزے دار حلیم سا بن جاتا اور ہم سب بچے وہ حلیم انگلیاں چاٹ کر ختم کر جاتے۔ امّاں کے لیے صرف دیگچی کی تہہ میں لگے کچھ ٹکڑے ہی بچتے۔ امّاں کا کہنا تھا کہ کھرچن کا مزہ تم لوگ کیا جانو۔
اور امّاں ایسی سگھڑ تھیں کہ ایک دن گوبھی پکتی اور اگلے دن اسی گوبھی کے پتوں اور ڈنٹھلوں کی سبزی بنتی اور یہ کہنا مشکل ہوجاتا کہ گوبھی زیادہ مزے کی تھی یا اس کے ڈنٹھلوں کی سبزی۔
امّاں جب بھی بازار جاتیں تو غفور درزی کی دکان کے کونے میں پڑی کترنوں کی پوٹلی بنا کے لے آتیں۔ کچھ عرصے بعد یہ کترنیں تکئے کے نئے غلافوں میں بھر دی جاتیں۔ کیونکہ امّاں کے بقول ایک تو مہنگی روئی خریدو اور پھر روئی کے تکیوں میں جراثیم بسیرا کر لیتے ہیں۔ اور پھر کترنوں سے بھرے تکیوں پر امّاں رنگ برنگے دھاگوں سے شعر کاڑھ دیتیں۔ کبھی لاڈ آجاتا تو ہنستے ہوئے کہتیں ’تم شہزادے شہزادیوں کے تو نخرے ہی نہیں سماتے جی، سوتے بھی شاعری پر سر رکھ کے ہو۔‘
عید کے موقع پر محلے بھر کے بچے غفور درزی سے کپڑے سلواتے۔ ہم ضد کرتے تو امّاں کہتیں وہ تو مجبوری میں سلواتے ہیں کیونکہ ان کے گھروں میں کسی کو سینا پرونا نہیں آتا۔ میں تو اپنے شہزادے شہزادیوں کے لیے ہاتھ سے کپڑے سیئوں گی۔ جمعۃ الوداع کے مبارک دن ابّا لٹھے اور پھول دار چھینٹ کے دو آدھے آدھے تھان جانے کہاں سے خرید کر گھر لاتے۔ لٹھے کے تھان میں سے ابّا اور تینوں لڑکوں کے اور چھینٹ کے تھان میں سے دونوں لڑکیوں اور امّاں کے جوڑے کٹتے اور پھر امّاں ہم سب کو سلانے کے بعد سہری تک آپا نصیبن کے دیوار ملے کوارٹر سے لائی گئی سلائی مشین پر سب کے جوڑے سیتیں۔
آپا نصیبن سال کے سال اس شرط پر مشین دیتیں کہ ان کا اور ان کے میاں کا جوڑا بھی امّاں سی کے دیں گی۔ ہم بہن بھائی جب ذرا ذرا سیانے ہوئے تو ہمیں عجیب سا لگنے لگا کہ محلے کے باقی بچے بچیاں تو نئے نئے رنگوں کے الگ الگ چمکیلے سے کپڑے پہنتے ہیں مگر ہمارے گھر میں سب ایک ہی طرح کے کپڑے پہنتے ہیں۔ مگر امّاں کے اس جواب سے ہم مطمئن ہوجاتے کہ ایک سے کپڑے پہننے سے کنبے میں محبت قائم رہتی ہے۔ اور پھر ایسے چٹک مٹک کپڑے بنانے کا آخر کیا فائدہ جنھیں تم عید کے بعد استعمال ہی نہ کر سکو۔
چھوٹی عید یوں بھی واحد تہوار تھا جس پر سب بچوں کو ابّا ایک ایک روپے کا چاند تارے والا بڑا سکہ دیتے تھے۔ اس کے انتظار اور خرچ کرنے کی منصوبہ بندی میں چاند رات آنکھوں میں ہی کٹ جاتی۔ صبح صبح نماز کے بعد ہم بچوں کی شاپنگ شروع ہوجاتی۔ سب سے پہلے ہر بہن بھائی کوڈو کے ٹھیلے سے ایک ایک پنی والی گول عینک خریدتا جسے پہن کر چال میں اتراہٹ سی آجاتی۔ پھر سب کے سب چاندی کے ورق لگی میٹھی املی اس لالچ میں خریدتے کہ رفیق افیمچی ہر ایک کو املی دیتے ہوئے تیلی جلا کر املی میں سے شعلہ نکالے گا۔
پھر خانہ بدوشوں کے خوانچے میں بھرے مٹی کے کھلونوں اور رنگین کاغذ اور بانس کی لچکدار تیلیوں سے بنے گھگو گھوڑے کی باری آتی۔ آخر میں بس اتنے پیسے بچتے کہ سوڈے کی بوتل آ سکے۔ چنانچہ ایک بوتل خرید کر ہم پانچوں بہن بھائی اس میں سے باری باری ایک ایک گھونٹ لیتے اور نظریں گاڑے رہتے کہ کہیں کوئی بڑا گھونٹ نہ بھر جائے۔
پیسے ختم ہونے کے بعد ہم دوسرے بچوں کو پٹھان کی چھرے والی بندوق سے رنگین اور مہین کاغذ سے منڈھے چوبی کھانچے پر لگے غبارے پھوڑتے بڑی حسرت سے دیکھتے رہتے۔ بندر یا ریچھ کا تماشا بھی اکثر مفت ہاتھ آ جاتا اور اوپر نیچے جانے والے گول چوبی جھولے میں بیٹھنے سے تو ہم سب بہن بھائی ڈرتے تھے اور اس کا ٹکٹ بھی مہنگا تھا۔
بقر عید پر سب کے ہاں قربانی ہوتی سوائے ہمارے۔ مگر یہاں بھی امّاں کی منطق دل کو لگتی کہ جو لوگ کسی وجہ سے دنیا میں قربانی نہیں کر سکتے ان کے بکرے اللہ میاں اوپر جمع کرتا رہتا ہے۔ جب ہم اوپر جائیں گے تو ایک ساتھ سب جانور قربان کریں گے، انشااللہ!
ایک دفعہ گڑیا نے پوچھا کہ امّاں کیا ہم جلدی اوپر نہیں جاسکتے؟ ہر سوال پر مطمئن کر دینے والی امّاں چپ سی ہوگئیں اور ہمیں صحن میں چھوڑ کر اکلوتے کمرے میں چلی گئیں۔ ہم بچوں نے پہلی بار کمرے سے سسکیوں کی آوازیں آتی سنیں مگر جھانکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر گڑیا کی بات پر رونے کی کیا بات تھی۔
کوئی چھ سات ماہ بعد ایک دن امّاں باورچی خانے میں کام کرتے کرتے گر پڑیں۔ ابّا نوکری پر تھے اور ہم سب سکول میں۔گھر آ کر پتہ چلا کہ آپا نصیبن امّاں کی چیخ سن کر دوڑی دوڑی آئیں اور پھر گلی کے نکڑ پر بیٹھنے والے ڈاکٹر محسن کو بلا لائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ امّاں کا دل اچانک ساتھ چھوڑ گیا ہے۔
تدفین کے بعد ایک روز گڑیا نے میرا بازو زور سے پکڑ لیا اور یہ کہتے ہوئے پھوٹ پڑی کہ خود تو اوپر جا کر اگلی عید پر اکیلے اکیلے بکرے کاٹیں گی اور ہمیں یہیں چھوڑ گئیں۔
   ***** ***** *****
تمام احباب
رمضان, عیدین اور دیگر خوشیوں میں غرباء یتیموں,مساکین اور اپنے آس پاس سفید پوش لوگوں کو بھی شریک کریں جو غربت کے باوجود سوال نہیں کرتے.

انتخاب

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP