منقول
اجمیر میں نعتیہ مشاعرہ تھا، فہرست بنانے والوں کے سامنے یہ مشکل تھی
کہ جگر صاحب کو اس مشاعرے میں کیسے بلایا جائے ،
وہ کھلے رند تھے اورنعتیہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔
وہ کھلے رند تھے اورنعتیہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔
اگر فہرست میں ان کانام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔
منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیداہوگیا۔ کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔
دراصل جگر کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔
بڑے بڑے شیوخ اور عارف باﷲ ان کی شراب نوشی کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائق اصلاح۔ شریعت کے سختی سے پابند مولوی حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا اچھا آدمی کس برائی کا شکار ہے۔ عوام کے لیے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔ تمام رعایتوں کے باوجود مولوی حضرات بھی اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ وہ نعتیہ مشاعرے میں شریک ہوں۔
آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمین مشاعرہ نے فیصلہ کیا کہ جگؔر کو مدعو کیا جانا چاہیے۔ یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ جگرؔ کی عظمت کا اس سے بڑااعتراف نہیں ہوسکتا تھا۔ جگرؔ کو مدعو کیا گیا تووہ سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔ ’’میں رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں صاحب نہیں‘‘ ۔
اب منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب کو تیار کیسے کیا جائے۔ ا ن کی تو آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔ نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے انہیں آمادہ کرنا چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے، بالآخر اصغرؔ گونڈوی صاحب نے حکم دیا اور وہ چپ ہوگئے۔
سرہانے بوتل رکھی تھی، اسے کہیں چھپادیا، دوستوں سے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک نہ لے۔ دل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے مگر پھر رک جاتے تھے، شیرازن سے ہمارا رشتہ فراق کا ہے لیکن شراب سے تو نہیں لیکن مجھے نعت لکھنی ہے ، شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اتراتو کس زبان سے اپنے آقا کی مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونانہیں چاہیے، شاید یہ میری بخشش کا آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہوجائے، شایدمجھ پر اس کملی والے کا کرم ہوجائے، شایدخدا کو مجھ پر ترس آجائے۔
ایک دن گزرا، دودن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے تھے اور غزل کہنے لگتے تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک دن نعت کا مطلع ہوگیا۔ پھر ایک شعر ہوا، پھر تو جیسے بارش انوار ہوگئی۔ نعت مکمل ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔
مشاعرے کے لیے اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جارہے ہوں۔ کونین کی دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔ انہوں نے کئی دن سے شراب نہیں پی تھی، لیکن حلق خشک نہیں تھا۔ ادھر تو یہ حال تھا دوسری طرف مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہرکے چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جارہی ہے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جگرصاحب کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے یہ خطرہ بھی تھاکہ لوگ اسٹیشن پر جمع ہوکر نعرے بازی نہ کریں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔ وہ کئی دن پہلے اجمیر پہنچ چکے تھے جب کہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گے۔ جگر اپنے خلاف ہونے والی ان کارروائیوں کو خود دیکھ رہے تھے اور مسکرارہے تھے؎
کہاں پھر یہ مستی کہاں ایسی ہستی
جگرؔ کی جگر تک ہی مے خواریاں ہیں
آخر مشاعرے کی رات آگئی۔ جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔
منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیداہوگیا۔ کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔
دراصل جگر کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔
بڑے بڑے شیوخ اور عارف باﷲ ان کی شراب نوشی کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائق اصلاح۔ شریعت کے سختی سے پابند مولوی حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا اچھا آدمی کس برائی کا شکار ہے۔ عوام کے لیے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔ تمام رعایتوں کے باوجود مولوی حضرات بھی اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ وہ نعتیہ مشاعرے میں شریک ہوں۔
آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمین مشاعرہ نے فیصلہ کیا کہ جگؔر کو مدعو کیا جانا چاہیے۔ یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ جگرؔ کی عظمت کا اس سے بڑااعتراف نہیں ہوسکتا تھا۔ جگرؔ کو مدعو کیا گیا تووہ سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔ ’’میں رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں صاحب نہیں‘‘ ۔
اب منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب کو تیار کیسے کیا جائے۔ ا ن کی تو آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔ نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے انہیں آمادہ کرنا چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے، بالآخر اصغرؔ گونڈوی صاحب نے حکم دیا اور وہ چپ ہوگئے۔
سرہانے بوتل رکھی تھی، اسے کہیں چھپادیا، دوستوں سے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک نہ لے۔ دل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے مگر پھر رک جاتے تھے، شیرازن سے ہمارا رشتہ فراق کا ہے لیکن شراب سے تو نہیں لیکن مجھے نعت لکھنی ہے ، شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اتراتو کس زبان سے اپنے آقا کی مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونانہیں چاہیے، شاید یہ میری بخشش کا آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہوجائے، شایدمجھ پر اس کملی والے کا کرم ہوجائے، شایدخدا کو مجھ پر ترس آجائے۔
ایک دن گزرا، دودن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے تھے اور غزل کہنے لگتے تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک دن نعت کا مطلع ہوگیا۔ پھر ایک شعر ہوا، پھر تو جیسے بارش انوار ہوگئی۔ نعت مکمل ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔
مشاعرے کے لیے اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جارہے ہوں۔ کونین کی دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔ انہوں نے کئی دن سے شراب نہیں پی تھی، لیکن حلق خشک نہیں تھا۔ ادھر تو یہ حال تھا دوسری طرف مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہرکے چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جارہی ہے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جگرصاحب کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے یہ خطرہ بھی تھاکہ لوگ اسٹیشن پر جمع ہوکر نعرے بازی نہ کریں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔ وہ کئی دن پہلے اجمیر پہنچ چکے تھے جب کہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گے۔ جگر اپنے خلاف ہونے والی ان کارروائیوں کو خود دیکھ رہے تھے اور مسکرارہے تھے؎
کہاں پھر یہ مستی کہاں ایسی ہستی
جگرؔ کی جگر تک ہی مے خواریاں ہیں
آخر مشاعرے کی رات آگئی۔ جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔
’’رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادابادی!‘‘
اس اعلان کے ساتھ ہی ایک شور بلند ہوا، جگر نے بڑے تحمل کے ساتھ مجمع
کی طرف دیکھا…’’آپ لوگ مجھے ہوٹ کررہے ہیں یا نعت رسول پاک ﷺ کو، جس کے پڑھنے کی
سعادت مجھے ملنے والی ہے اور آپ سننے کی سعادت سے محروم ہونا چاہتے ہیں‘‘۔شور کو
جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بس یہی وہ وقفہ تھا جب جگر کے ٹوٹے ہوئے دل سے یہ صدا نکلی ہے
اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ
ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ
جوجہاں تھا ساکت ہوگیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی زبان سے شعر
ادا ہورہا ہے اور قبولیت کا پروانہ عطا ہورہا ہے۔ نعت کیا تھی گناہگار کے دل سے
نکلی ہوئی آہ تھی، خواہشِ پناہ تھی، آنسوؤں کی سبیل تھی، بخشش کا خزینہ تھی۔ وہ
خود رو رہے تھے اور سب کو رلا رہے تھے، دل نرم ہوگئے، اختلاف ختم ہوگئے، رحمت عالم
ﷺ کا قصیدہ تھا، بھلا غصے کی کھیتی کیونکر ہری رہتی۔’’یہ نعت اس شخص نے کہی نہیں
ہے، اس سے کہلوائی گئی ہے‘‘۔ مشاعرے کے بعد سب کی زبان پر یہی بات تھی۔ اس نعت کے
باقی اشعار یوں ہیں:
دامان نظر تنگ و فراوانیِ جلوہ
اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ
اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق
تو خلد ہے تو جنت ِسلطان مدینہ
اس طرح کہ ہر سانس ہومصروفِ عبادت
دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہ
اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید
صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ
کونین کا غم یادِ خدا ور شفاعت
دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ
ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم
شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ
اس امت عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا
نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ
کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ اور کسی سے
کافی ہے بس اک نسبت ِسلطان مدینہ
اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ
اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق
تو خلد ہے تو جنت ِسلطان مدینہ
اس طرح کہ ہر سانس ہومصروفِ عبادت
دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہ
اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید
صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ
کونین کا غم یادِ خدا ور شفاعت
دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ
ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم
شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ
اس امت عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا
نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ
کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ اور کسی سے
کافی ہے بس اک نسبت ِسلطان مدینہ
No comments:
Post a Comment