You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Saturday, October 29, 2016

آہ اردو اکیڈمی کے چئرمین عبدالرؤف خان صاحب


السلام علیکم   ! اردو اکادیمی کے کارگزار صدر عبدالروف خان صاحب کا ناگپورمیں قلب کی دھڑکن بند ہونے کی وجہ سے انتقال ہوگیا ،  تدفین بعد نماز مغرب بھساول میں عمل میں آئے گی، مرحوم خوش مزاج شخصیت کےمالک تھے. اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین لن ترانی کی ٹیم ان کے غم میں برابر کی شریک ہے

بابا تاج الدین ناگپوری رحمتہ اللہ علیہ

بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے حیات مبارکہ کا اجمالی خاکہ
مورخہ: ۲۸؍اکتوبر کو عرس کے موقعہ پر خصوصی مضمون ملاحظہ فرمائیں!
مولانا منصور عالم قادری
مولانا منصور عالم قادری
برصغیر پاک و ہند کی ابتداء ہی سے یہ خصوصیت رہی ہے کہ یہ خطہّ توحیدکے فروغ کے لیے مسلمان برگزیدہ روحانی ہستیوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ روحانی بزرگوں نے یہاں کے باشندوں کو اپنی فیوض و برکات سے نوازا۔ ان میں خصوصی طور پر ؒ حضرت داتا گنج بخش ،ؒ حضرت بہاؤ الدین نقشبندی ؒ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ،حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ، حضرت علی احمد صابر کلیریؒ ، حضرت نظام الدین اولیا ؒ محبوب الہیؒ،  حضرت بو علی شاہ قلند رؒ ، حضرت لعل شہباز قلندر ؒ اور دیگر اولیاء کرام ؒ کے نام اس طویل میں فہرست میں شامل ہیں۔ ان ہستیوں  نے اس خطے میں اسلام کی تبلیغ کی، اسلامی تعلیمات کو فروغ دیا اورمخلوق کو خالق کی طرف بلایا۔
20 ویں صدی ہجری میں بھی انسانوں کے لیے فلاح و ترقی کا پیغام لیے چندبرگزیدہ ہستیوں نے اس سرزمین کو منور کیا ۔ ان میں حضرت حاجی وارث علی شاہ صاحب ؒ ، حضرت مولانا فضل ِالرحمن گنج مراد آبادی اور حضرت بابا تاج الدین ؒ ناگپوری کے اسماء گرامی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ہندوستان کے مرکز مہاراشٹر کے شہر ناگپور میں ایک ایسی ہستی نے جنم لیا  جسے مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام اقوام کے لوگ اپنا بزرگ مانتے ہیں۔  اس ہستی کے فیض سے ہزاروں افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ خود ناگپور کا مہاراجہ جو مرہٹہ خاندان سے تھا، اس  ہستی کا بہت بڑا معتقد ہوا،  اس عظیم روحانی ہستی کو  دنیا بھر میں حضرت باباتاج الدین اولیا ؒ کے نام سے یاد کیاجاتاہے ۔بابا تاج الدین پیدائش کے وقت سے ہی غیرمعمولی  تھے، وہ عام بچوں کی طرح روتے نہیںتھے ۔آپ ؒ کے آبا ؤ اجداد مدینہ سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے تھے۔ خاندانی پیشہ سپہ گری تھا چنانچہ آپ ؒ کے خاندان کے بیشتر بزرگ فوج میں شامل ہوئے۔ آپ ؒ کے والد محترم سیدبدرالدین ؒ آپ کی ولادت کے ایک سال بعد رحلت فرماگئے۔  جبکہ والدہ محترمہ حضرت سیدہ  بی اماں مریم ؒ صاحبہ بھی آٹھ  سال بعد خالق حقیقی سے جاملیں۔
تاج الدین کی پرورش آپ کے نانا حضرت شیخ میراں جو  ایسٹ اندیا کمپنی کی فوج میں صوبیدار میجرتھے  ،   ماموں عبدالرحمٰن اور آپ کی نانی نے کی۔ حضرت تاجِ الاولیاؒنے ابتدا ئی تعلیم کا مٹی کے ایک مدرسے میں حاصل کی۔ آپ ایک روز مکتب میں موجود تھے کہ کا مٹی میں سلسلہ قادریہ کے مشہور مجذو ب بزرگ حضرت عبد اللہ شاہ  قادری  کا مٹی ؒمکتب میں تشریف لائے اور بابا صاحب ؒ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے معلم سے فرمایا کہ ‘‘ا س کو کیا پڑھا رہے ہو ۔ یہ تو پڑھا پڑھایا آیا ہے ‘‘۔اتنا کہہ کر عبداللہ شاہ نے اپنی جھولی سے خرما نکال کر نصف خود کھایا  اور بچا ہوا   تاج الدین کے منہ میں رکھ کر کہا :‘‘کم کھاؤ، کم  سو اور کم بولو اور قرآن شریف پڑھو’’۔کہتے ہیں کہ خرما کھاتے ہی تاج الدین میں تبدیلی آ گئی، اور ان کی اندر کی دنیا ہی بدل گئی، دنیاوی چیزوں میں ان کی دلچسپی بہت کم ہو گئی۔
اس بات کا کوئی سراغ نہیں ملتا کہ بابا تاج الدین   نے کسی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ پھر بھی دو ہستیاں ایسی ہیں جن سے صرف قر بت اور نسبت کا ذکر ملتا  ہے۔ ایک سلسلہ قادریہ کے حضرت عبداللہ شاہ قادری، دوسرے سلسلۂ چشتیہ کے بابا داؤد مکی  ۔حضرت عبداللہ شاہ  قادری  کا مزار کا مٹی اسٹیشن کے پاس ہے۔ نو جوانی کے زمانے میں بابا تاج الدین  حضرت عبداللہ شاہ صاحب کی خد مت میں حاضر ہو تے تھے۔ حضرت عبداللہ شاہ کے سجاد ہ نشین کی روایت کے مطابق جب حضرت عبداللہ شاہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو تاج الدین ان کے پاس آئے۔ اس وقت شر بت بنا کر شاہ صاحب کو پیش کیا گیا۔ انہوں نے چند گھونٹ پی کر باقی تاج الدین کو پلا دیا۔روایت ہے کہ سید تاج الدین نے  پندرہ سال کی عمر میں قرآن پڑھ لیا تھا اور اس کے بعد دیگر علوم کی تحصیل کی۔جب تاج الدین  18 سال کے تھے (سن 1879تا 1880) تب كامٹی میں بہنے والے كنہان دریا میں سیلاب آ گیا۔ سیلاب سے ان کے مکان کو بھی کو کافی نقصان پہنچا۔سن 1881 میں ان کے ماموں  عبدالرحمٰن نے انہیں ناگپور کی ریجمنٹ نمبر 13 میں بھرتی کروادیا۔  فوج میں تین سال ملازمت کے بعد انہیں ساگر (مدھیہ پردیش)جانا پڑا۔
ساگر مدراسی پلٹن کے خیمہ (ملٹری کیمپ ) میں پہنچنے کے بعد دورانِ ملازمت وہیں ایک  علاقے پیلی کوٹھی میں سلسلہ چشتیہ کے بزرگ حضرت داؤد مکیؒ  کے مزار  پر تشریف  لے جاتے۔حضرت دا ؤد مکی ؒ ، خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی ؒ  کے خلیفہ تھے اور خواجہ شمس الدین ترک ؒ  کو مخدوم علاؤ الدین علی احمد صابر کلیری ؒ سے خلافت ملی تھی۔ حضرت داؤد مکی ؒ اپنے  مر شد کے حکم پر سا گر آئے اور یہیں وصال فر ما یا۔جب تاج الدین فوجی ملا ز مت کے سلسلے میں سا گر گئے تو آپ نے بابا داؤد  مکی کے مزار پر تقریباً دو سال ریاضت و مر اقبے میں گزارے ۔ روایت کے مطابق یہیں تاج الدین  کو چشتیہ نسبت اویسیہ طریقے پرمنتقل ہوئی۔اب بابا تاج الدین کا روز کا معمول تھا کہ دن میں کام کے بعد پوری رات داؤدمکی ساگری ؒ کے مزارا قدس پر گزارتے اور  یادالہٰی میں محو رہتے۔کامٹی میں جب نانی کو اس بات کی خبر ہوئی کہ نواسہ راتوں کو غائب رہتا ہے تو خیال آیا کہ کہیں کسی بری صحبت میں نہ پڑ گیا ہو۔ یہ سوچ کر نانی صاحبہ ساگر جاپہنچیں تاکہ یہ معلوم کریں کہ نواسہ راتوں کو کہاں رہتا ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ تاج الدین خدا کی بندگی میں راتیں گزارتا ہے تو  نانی کے دل کا بوجھ اتر گیا اور وہ نواسے کو دعائیں دیتی ہوئی واپس چلی گئیں ۔
لیکن رفتہ  رفتہ تاج الدین کا وقت داؤد مکی ؒ کی درگاہ پر زیادہ اور ڈیوٹی پر کم رہنے لگا ۔  ایک روز فوج کے کیپٹن  کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ تاج الدین  ڈیوٹی کے اوقات میں پیلی کوٹھی کی درگاہ  پر  دیکھے گئے ہیں۔  اس  کیپٹن  نے تاج الدین  کو تنبیہہ کی اور کہا کہ پورے وقت ڈیوٹی پر حاضر رہا کریں ، میں نوٹکروں گا….!تاج الدین کو ملٹری کیمپ میں اسلحہ خانے پر پہرہ دینے کا کام سونپا گیا ،  ایک رات دو بجے کے قریب فوج کا کیپٹن اچانک معائنے کے لیے آگیا۔ اس نے دیکھا کہ تاج الدین مستعدی سے ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ کیپٹن انہیں دیکھ کر مطمئن  روانہ ہوگیا۔آدھے فرلانگ کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی مسجد کے پاس سے گزرا ۔ مسجد کا صحن چاندنی رات میں صاف نظر آرہا تھا۔کیپٹن نے دیکھا کہ وہ جس سپاہی کو پہرہ دیتے دیکھ کر آیا ہے۔  وہ خشوع و خضوع کے ساتھ مسجد کے صحن میں نمازادا کررہا ہے۔  سپاہی کو ڈیوٹی سے غفلت برتتے دیکھ کر اسے سخت غصہ آیا اور وہ واپس اسلحہ خانے آیا۔ اس کے قدموں کی چاپ سن کر سپاہی پکارا ‘‘ہالٹ’’۔  انگریز کیپٹن سپاہی کو اپنی جگہ دیکھ کر سخت حیران ہوا  اور کچھ کہے بغیر مسجد کا رخ کیا اور وہاں جاکر وہ حیران و ششدر رہ گیا کہ تاج الدینؒ اسی طرح محویت کے عالم میں مصروف عبادت تھے۔  وہ ایک بار پھر اسلحہ خانے تصدیق کے لئے گیا اور وہاں ڈیوٹی دیتے دیکھ کر اس نے قریب آکر غور سے دیکھا کہ یہ وہی شخص ہے یا کوئی اور؟ اس نے تاج الدین ؒ سے بات چیت کرکے اپنی پوری تسلی کرلی کہ ہاں یہ وہی شخص ہے۔دوسرے دن ایک افسر کے سامنے تاج الدین کی پیشی ہوئی۔ کیپٹن نے رات کے واقعے کی چشم دیدگواہی دی۔ تاج الدین ؒ سے پوچھا گیا کہ تم ڈیوٹی چھوڑ کر عبادت کررہے تھے یا بیک وقت ڈیوٹی بھی ادا کررہے تھے اور عبادت بھی۔ اگر آخری بات سچ ہے تو صاف صاف بتاؤ تم ایک وقت میں دو کام کس طرح انجام دیتے ہو؟ تم جادوگر تو نہیں ہو؟یہ سننا تھا کہ تاج الدین کو جلال آگیا۔ انہوں نے پیٹی، بندوق ،  وردی سمیت تمام سرکاری سامان لاکر انہوں نے افسر کی میز پر رکھ دیا ’’لوجی حضّت! اب ہم دو دو نوکریاں نہیں کرتے جی حضّت‘‘۔یہ کہہ کر تاج الدین فوراً کمرے سے نکل گئے۔
ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بابا تاج الدین  ؒ نے زیادہ تر وقت ناگپور سے متصل واکی کے گھنے جنگلوں میں گزارا ، جہاں قدم قدم پر خونخوار شیر اور جنگلی درندے رہتے تھے اس جنگل کے اژدہے بھی شہرت رکھتے ہیں۔وہاں تاج الدین باباؒ نے کئی برس تک بلا خوف  و خطر ریاضت کی۔ کبھی کبھار ریاضت کے بعد آپ ستپڑا پہاڑ کی بلندیوں اور گھنے جنگلوں سے اُتر کر بستیوں میں آجاتے۔ جذب وکیف کا یہ عالم تھا کہ انہیں کھانے پینے  اور پہننے اوڑھنے کا احساس بھی نہ رہتا۔  ادھر تاج الدین کے استعفیٰ کی خبر فوج کے ذریعے ان کے گھر بھیجی گئی۔ نانی نے پھر ایک مرتبہ ساگر آکر دیکھا تو تاج الدین گلی کوچوں کی خاک چھانتے نظر آئے۔ نانی کو لگا کہ وہ پاگل ہو گئے ہیں اور وہ انہیں اپنے ساتھ كامٹی لے آئیں۔ كامٹی میں ڈاکٹروں، حکیموں کو دکھایا گیا لیکن کوئی بھی آپ کی حالت سمجھ نہ سکا۔
بابا تاج الدین شہر میں واپس آکر خوش نہیں تھے۔ انہیں  جب بھی موقع ملتا  پھر اپنے جنگل میں جانکلتے ۔ عام لوگوں نے انہیں پاگل سمجھ لیا ، بستی کے آوارہ لڑکے انہیں چھیڑتے اور تنگ کرتے۔ کوئی آوازیں کستا تو کوئی پتھر مارتا۔ دوسری طرف بہت سے لوگ عقیدت سے ان کے ہاتھ چومتے لیکن تاج الدین باباؒ فنا کی ان منزلوں پر تھے جہاں پتھروں کی مار اور پھولوں کی بارش میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا ہے۔ بستی میں آپ کادل نہیں لگتا تو آپ جنگلات میں نکل جاتے اور کبھی واپس کامٹی پہنچاتے۔ کچھ عرصے بعد آپ کی کرامات کا چرچا ہوا تو لوگ دور دور سے آپ  کے پاس اپنا درد لے کر آنے لگے۔ بابا صاحب کی دعاؤں  سے لوگوں کے کام ہونے لگے تو سائلین اور عقیدتمندوں کا  ہجوم رہنے لگا ایسے میں کچھ لوگوں نے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی سوچی تو  بابا صاحب نے اعلان کر دیا کہ‘‘ اب ہم پاگل جھونپڑی جائیں’’۔حالات کچھ ایسے بنے کہ  26 اگست، 1892 کو كامٹھی کے كینٹونمنٹ اور ضلع مجسٹریٹ نے انہیں پاگل خانے بھیج دیا۔پاگل خانہ کا سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر ما روتی راؤ تھا۔ اس کی پانچ لڑکیاں تھیں، لڑکا کوئی نہیں تھا،اولاد نرینہ کی اسے بہت تمنا تھی۔ ڈاکٹر نے بابا صاحب کی پاگل خانے میں موجودگی کا اپنی بیوی سے ذکر کیا ،اُس کی بیوی کے دل میں خیال آیا کہ میں چل کر حضور بابا صاحبؒ سے عرض کروں۔ اُس نے ایک دن اپنے خاوند سے کہا کہ مجھے باباصاحبؒ کے پاس لے چلو۔ اس کا خاوند چونکہ مذہباً مرہٹہ برہمن تھا،اس لیے اپنی بیوی سے یہ الفاظ سُن کر پہلے تو کچھ ہچکچایا ۔ بعد میں اس نے یہ چاہا کہ کسی طرح بابا صاحب کو اپنے گھر پر بلالے ۔لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔ آخر ایک دن اُس کی بیوی اپنی پانچوں لڑکیوں کے ساتھ باباصاحب کی خدمت میںپہنچ گئی اورعرض کیا کہ :باباصاحبؒ میرے کوئی لڑکا نہیں ہے ۔ میرے لیے دعاکریں۔بابا صاحبؒ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ ’’ڈاکٹروں کی دوائیاں تو بہت کھاتے جی ، پن لڑکا نہیں ہوتا۔ ‘‘یہ سُن کر وہ بیچاری رونے لگی اور پھر عرض کیا کہ باباصاحبؒ ، لوگوں کی مرادیں پوری ہورہی ہیں، میرے لیے بھی مہربانی فرمائی جائے ۔ آپ نے یہ سُن کر پوچھا :’’لڑکیا ں کتنی جی ؟‘‘ تو اس نے جواب دیا کہ لڑکیاں تو پانچ ہیں…. بابا صاحب نے فرمایا ۔‘‘ اگر لڑکیاں پانچ ہیں تو لڑکے بھی پانچ ہوجاتے جی….!’’، یہ خوشخبری سن کر ڈاکٹر کی بیوی واپس گھر آگئی۔  خدا کی شان کہ ایک سال بعد اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔ڈاکٹر ماروتی راؤ کی بیوی نے غسل کے بعد لڑکے کو حضور بابا صاحبؒ کے قدموں میں رکھ دیا۔ باباصاحبؒ نے ایک نظر دیکھا اور تبسم کے ساتھ فرمایاکہ ‘‘ابھی تو چار اور آتے جی ! لے جانا ، یہ خوش رہے گا ۔’’پاگل خانے میں بند کئے جانے کے بعد  بھی اکثر بابا تاج الدین شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں گھومتے نظر آئے اور ان سے کئی کرامات کا ظہور ہوا۔
اسی دوران ناگپور کے مرہٹہ راجہ مہاراجہ گھوراؤ جی بھونسلے پٹیل کے بیٹے ونائیک راؤ کی بیوی زچگی کے مرحلے میں نازک صورتحال سے دوچار تھیں ۔ بڑے بڑے ڈاکٹر،  وید، حکیم موجود تھے ۔ مگر کسی قسم کا کوئی افاقہ نہیں ہو رہا تھا ۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ حاملہ کے رحم میں بچہ مرچکاتھا اب زچہ کی جان بچانے کیلیے آپریشن کی ضرورت ہوگی۔ جسم میں زہر پھیل گیا تو پھر اس کے زندہ رہنے کی کوئی امید نہیں ۔مہاراجہ ڈاکٹروں کو آپریشن کی اجازت نہیں دے رہا تھا اور ادھر بہو کی طبیعت بگڑتی جارہی تھی ۔ اسی دوران مہاراجہ کے ایک ڈرائیور نے جو بابا صاحب ؒ کا بے حد معتقد تھا۔ مہاراجہ سے کہا کہ:میں ایک مسلمان ولی کو جانتا ہوں۔ آپ ان کے پاس چلیے اور دعاکی درخواست کیجئے ۔ شاید کوئی سبب بن جائے ۔مہاراجہ  نے ڈرائیور کی بات سنتے ہی کہا کہ:ہاں چلو جلدسے جلد ہمیں ان کے پاس لے چلو۔ اور اسی طرح ننگے پیر گاڑی میں بیٹھ گیا، راجہ صاحب کی موٹر پاگل خانے کے صدر دروازے پر جاکر رُکی تو لوگ راجا صاحب کے استقبال کو دوڑے لیکن وہ سب کو نظر انداز کرتے ہوئے تیزی سے اندر داخل ہوگئے۔ اندر پہنچتے ہی انہوں نے بابا صاحب کے قدموں میں خود کو گرالیا۔ ان کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا اور صدمے کی وجہ سے ان کی زبان گنگ تھی۔ بابا نے سر اُٹھا کر انہیں دیکھا اور بولے۔ادھر کیا کرتے جی حضت! ادھر جانا، لڑکا پیدا ہوا ہے تو خوشیاں منانا….! ڈرائیور نے یہ سنتے ہی کہا کہ مہاراجہ جلد واپس چلیے کام ہوگیا۔مہاراجہ جب محل میں پہنچا تو خادموں نے دروازے پر ہی مہاراجہ کو مبارک باد دی اور خوشخبری سنائی کہ آپ کی بہو کو بیٹا ہواہے اور زچہ و بچہ دونوں خیریت سے ہیں۔  مہاراجہ کا اعتقاد بابا صاحب ؒ پر اس قدر پختہ ہو اکہ اس نے اسی وقت چیف کمشنر ناگپور بینجمن رابرٹس کے پاس نقد زرضمانت جمع کرا ئی اور بابا صاحب ؒ سے عرض کہ آپ  میرے ساتھ چلیے۔ آپ ؒ نے اس کی درخواست قبول کر لی۔مہاراجہ نے محل کا ایک حصے میں  بنی ‘‘لال كوٹھی’’  آپ ؒ کے لیے مخصوص کردی ۔ راجہ خود صبح شام ان کو حاضری دیتے تھے ۔لال کوٹھی میں بھی ہروقت عام لوگوں کا ہجوم لگا رہتا اور مہاراجہ کی جانب سے ان عقیدتمندوں کے لیے دونوں وقت چائے اور کھانے کا اہتمام ہوتا ۔ آج بھی یہ محل عوام کے لیے وقف ہے اور زائرین زیارت کے لیے دور دور سےآتے ہیں۔26محرم الحرام بمطابق17اگست 1925ء بروز پیر (چھیاسٹھ برس کی عمر میں )مغرب کے وقت بابا نے ہاتھ اُٹھا کر ایک لمحے کے لیے دعا کی۔ پلنگ سے اُٹھ کر چاروں طرف دیکھا پھر سکون سے آنکھیں بند کرکے لیٹ گئے…. ا سی حالت میں  دارفانی سے کوچ فرمایا۔آپ کا مزار  تاج آباد (تاج باغ) امریڈ روڈ، ناگپور میں  مرجع خلائق ہے۔   آپؒ کا عرس مبارک پاک و ہند اور دنیا میں جہاں جہاں آپ کے عقیدتمند موجود ہیں انتہائی ادب و احترم کے ساتھ منایا جاتاہے۔

(حیا ت بابا تاج ادین سے ماخوذ)
کتاب تاریخ اولیاء ھند صفحہ نمبر 122

Friday, October 28, 2016

آہ موزہ والا صاحب

آہ ہارون موزہ والا

خیرالامت ہارون موزہ والااپنے رب کے حضور میں ۔۔
موت ایک بہت مشہورومعروف فرستادہ ہے جس سے دنیامیں بہت سارے لوگوں کو محبت ہوتی ہے توبہت سارے لوگوں کووحشت ۔ مگریہ فرستادہ آتاہے دونوں قسم کے لوگوں کے پاس ۔ صالحین کو عموما موت سے محبت ہوتی ہے اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ موت ایک پل ہے جس کوعبورکرنےکے بعد آدمی اپنے پیارے رب کے یہاں حاضری کاشرف حاصل کرتاہے ۔
ہمارے محبوب ومحترم جناب الحاح ہارون موزہ والاصاحب جن کوابھی مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منھ کوآرہاہے ایک طویل عرصہ تک لوگوں کے دلوں میں اپنے پیارے رب اورپیارے رسول سیدناحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت واطاعت کے جذبوں کی شمع روشن کرتے رہےآج نماز جمعہ سے پہلے موت کا فرستادہ ان کے پاس بھی ( ارجعی الی ربک راضیتہ مرضیہ )کاپیغام لیکر پہونچااورہارون بھائ اپنے پیارے ربا کے حضور زبان حال سے ( ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام )کا پیغام دیتے ہوئےحاضرہوگئے ۔  1941 عیسوی میں ہارون بھائ کے وجودسعودسے خاکدان عالم میں اوران کے خانوادے میں ایک مومن کااضافہ ہوا ۔پرورش کے مراحل سے گذرتے ہوئے شدبدھ کی منزل پراس نومولود مومن نے اللہ کے نام کی نسبت سے تعلیمی بسم اللہ پڑھا اورپھرپڑھتاہی چلاگیا اوراللہ علیم وخبیر بھی اپنے ہارون کونوازتاچلاگیا ۔ یہ ان کے صالح والدین کی دعائیں تھیں کہ ہارون بھائ جوبظاہر جسم وجسہ یاصحت کے اعتبارسے قوی نہ تھے بلکہ نحیف
وکمزور جسم کے حامل مگرقلب دماغ اورفکر کے اعتبارسے قوی اورصالح فکرونظرکے حامل انسان دوست غریب پرور علم اورعلماء نواز  تھے ۔ ان کے دل میں اللہ سبحانہ نے  اپنی محبت اورپیارے حبیب سیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بدرجئہ کمال ودیعت فرمائ تھی ۔چنانچہ تادم آخر شریعت وسنت پرمداومت بھی رہی اوراس کی محافظت کی فکربھی ۔ اللہ پاک ہم سب کویہ نصیب فرمائے آمین ۔
ہارون بھائ سے خاکسارکاتعارف ممبئ فساد کے دلدوز سانحہ کے بعد مرحوم جناب الحاج عبدالستاریوسف شیخ بانی سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ نے کروایاتھا ۔ اس کے بعد سے مسلسل دیرینہ تعلقات استوار رہے
فقہ اکیڈمی کے سہ روزہ سمینارآفس بیت النصربینک چونابھٹی میں تقریبا دوماہ تسلسل کے ساتھ استقبالیہ سکریٹری کی حیثیت سے ساتھ میں رہنے۔کاموقع ملا ۔ وہ شاید صدراستقبالیہ تھے اگر وہ کچھ بھی نہ ہوتے تب بھی سبھی کچھ وہ ہوتے ۔ ممبئ کی دنیامیں ہرخیر کاکام کرنے والوں کیلئے وہ میرکارواں تھے ۔ علماء دیوبند کے ممبئ میں متعارف کروانے میں بھی ان کابڑاحکیمانہ رول رہاہے ۔
ہارون بھائ مردم شناس تھے۔ زمانہ سازتھے۔ خیراورنفع کیلئے ہرشخص ان کااپناتھا اورہرتنظیم کے وہ ساتھی تھے ۔ اللہ پاک نے بے شمارخوبیوں سے ان کونوازاتھا ۔
ہارون بھائ ممبئ کے ان گنے چنے لوگوں میں تھے جن کادروازہ ہرشخص کیلئے ہمہ وقت کھلارہتاہے ۔ لوگوں کاتعاون کرتے وقت یاکرواتے وقت ان کااکرام بہت ملحوظ رکھتے ۔ کسی طرح لوگوں کا مدرسہ اورمسجدکا بیواؤں اورمطلقات اورناداروں کاکام ہوجائے یہ فکران پرسواررہتا ۔
ماہنامہ مکہ میگزین ممبئ کی مجلس ادارت کے رکن رکین تھے ۔ کئ مختلف تنظیموں کے بھی رکن تھے ۔ اکثرمضامین جب وہ لکھتے توخاکسار کوبسااوقات فون پرہی پڑھ کرسناتے یا حج میگزین اوربعدمیں مکہ میگزین کی آفس میں تشریف لاتے یاکبھی مضمون کی کاپی بھجوادیتے ۔ حالانکہ ان کاقلم ان کی سوچ وفکرکی طرح پختہ تھا ۔ مگرواہ رے بے نفسی اورحقیقی تواضع کہ ایک چھوٹے آدمی کی اس طرح قدردانی کی جارہی ہے ۔
ہارون بھائ نے رفاہی کاموں کومنظم طریقے سے انجام دینے کیلئے ایک تنظیم بنام خیرامت بھی قائم کیا ۔ اسی میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی سرپرستی میں مسلمانوں کی عائلی قوانین میں پیش آمدہ مسائل کے۔حل کیلئے دارالقضاء بھی قائم کیا ۔ رفاہی وفلاحی کام کرنا اب اس زمانے میں آسان نہیں رہا ۔ اپنوں اورغیروں کے نشتر اور دشنامی وزعفرانی بحران سے گذرناپڑتاہے ۔ ہارون بھائ بھی اس بحران سے گذرے مگرحکمت عملی کے ساتھ بغیرکسی مزاحمت یاشکوے شکایت کے ۔ یہ  فضل ربانی کے۔علاوہ اورکیاہوسکتاہے ۔
علمائے ربانیین سے ہارون بھائ کاخاص تعلق تھا ۔ حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمی اور حضرت مولاناعلی میاں ندوی رحمہم اللہ سے خاص تعلق تھا ۔ اورموجودہ علماء میں حضرت پیرذوالفقارصاحب نقشبندی مدظلہ سے بیعت وارادت کاتعلق بھی تھا ۔
بہرحال دنیا اگرچہ خیرسے خالی نہیں ہے مگرجس تیزی کے ساتھ خیرکے حامل مخلص لوگ وفات پاتے جارہے ہیں ان کی جگہ بظاہر پرہوتی نظرنہیں آرہی ہے ۔ اورشاعرکی زبان میں بقائے دوام کی تمنا عبث ہے کہ کائنات اوراس کانظام ہی فانی ہے صرف اس کے چلانے والے خلاق عالم کودوام وبقاء حاصل ہے ۔ہاں عارضی طورپریہ ہست ونیست کاسلسلہ ابد سے جاری ہے اوراللہ علیم وخبیر کوہی معلوم ہے۔کہ کب تک جاری رہے۔گا ۔
تاہم انسان کے اندر جوحس اللہ نے۔رکھی ہے اوربے پناہ انس کاجوجذبہ رکھاہے جس کے نتیجے میں محبت ہوجاتی ہے اس بناءپر ہارون بھائ کی موت سے دل نے شدید صدمہ محسوس کیا اوربے ساختہ  انا لللہ واناالیہ راجعون زبان پرجاری ہوگیا ۔ اللہ پاک ان کی بال بال مغفرت فرمائے اوران کے درجات کوبلندفرمائے۔۔ ان کے پسماندگان اورپوری ملت کوصبرجمیل مرحمت فرمائے آمین احباب مسلمین اورمکہ میگزین کے قارئین سے دعاء کی درخواست ہے ۔ ملتجی اورغمناک ۔ محمدشاہدالناصری الحنفی ۔

Thursday, October 27, 2016

علم و ٹکنا لوجی کی طاقت

☘       طاقتور مومن کے عنوان سے (✍ *مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ کی چشم کشا تحریر*) پڑھنے کا موقع ملا، افادہ عامہ کی خاطر اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے:
        موصوف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: طاقتور مؤمن کمزور مؤمن سے بہتر ہے (صحیح مسلم) کی وسعت اور جامعیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ بہت سے لوگ اس حدیث سے محض جسمانی طاقت مراد لیتے ہیں ؛ لیکن اگر غور کیا جائے تو اِس کا مفہوم اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے، طاقت اخلاق و کردار کی بھی ہوتی ہے،طاقت مال و دولت کی بھی ہوتی ہے، طاقت میں سیاسی طاقت بھی آتی ہے،طاقت علم، ٹکنالوجی اور زبان و قلم کی بھی ہوتی ہے۔ برطانیہ کو دیکھیے کہ اگر مغرب میں امریکہ اورکینیڈا تک اس نے حکومت کی ہے تو مشرق میں مشرق بعید کے ممالک بھی اُس کی غلامی کے زیر سایہ زندگی بسر کرتے رہے ہیں؛ حالاں کہ برطانیہ کا رقبہ بہت چھوٹا ہے، برطانیہ کے ایک طرف سے دوسرے طرف کا فاصلہ صرف چھ سو میل یا اُس سے کچھ زیادہ ہے، یہ کس طاقت کا اثر تھا ؟ یہ جسمانی طاقت یا عددی طاقت کا نتیجہ نہیں تھا، یہ علم اور ٹکنالوجی کی طاقت کا نتیجہ تھا، خود جاپان کو دیکھئے کہ ایک چھوٹا سا اور چند جزیروں پر مشتمل ملک ہے؛ لیکن اُس کی ٹکنالوجی کی طاقت کا کرشمہ ہے کہ پوری دنیا اُس کے سامنے سَر جُھکاتی ہے۔ یہودیوں کی تعداد کتنی کم ہے؟ امریکہ جیسے ملک میں اُن کی تعداد پانچ فیصد سے بھی کم ہے ؛ لیکن ذرائع ابلاغ جیسا مؤثر وسیلہ پوری طرح اُن کے ہاتھوں میں ہے ، بینکنگ کا نظام صد فیصد اُن کی گرفت میں ہے ، اسی لیے کسی امریکی صدر کی مجال نہیں کہ وہ یہودیوں پر کُھل کر تنقید کر ے اور جن لوگوں نے دبے لفظوں میں تنقید کی ، اُن کو ناکوں چنے چبوا دیئے گئے، یہ سب تعلیم کا کرشمہ ہے؛ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ نوبل انعام پانے والوں میں اکثریت یہودیوں کی ہے۔ خود ہم اپنے ملک میں برہمنوں کو دیکھ سکتے ہیں، برہمنوں کی تعداد تین چار فیصد سے زیادہ نہیں؛ لیکن عملاً پورے ملک کا اقتدار اُن کے ہاتھوں میں ہے۔ اس لیے ہمیں ایک ایسی اُمت بننا چاہئے جو علم کے زیور سے آراستہ اورصنعت و ٹکنالوجی کی صلاحیت سے مالا مال ہو ؛ تاکہ ہمارا ہاتھ اونچا ہاتھ رہے، تعلیم میں پسماندگی کا بنیادی سبب تعلیمی تسلسل کو برقرار نہ رکھ پاناہے، اِس کے بنیادی اسباب دو ہیں: 1⃣     ایک : یہ کہ غریب ماں باپ چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد اُن کا بچہ پچیس پچاس روپئے کمانے لگے اور اپنے ماں باپ کے ہاتھ مضبوط کرے۔ 2⃣     دوسرے: فقر و محتاجی اور مفلسی ، کتابوں کی قیمت ، تعلیم کی فیس، یونیفارم کی خریداری، یہ دو بنیادی اسباب ہیں جو مسلمان بچوں کو تعلیم میں پست سے پست تر کرتے جا رہے ہیں-
樂樂樂
      بنیادی طور پر اس سلسلہ میں تین نکات کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے :
   اول : مسلمانوں کے غریب اور مزدور طبقے کی تربیت اور اُن کو سمجھانا کہ فاقوں کو گوارا کر لو، ذاتی مکان کے بجائے کرائے کی جھونپڑی میں اپنا سر چھپا لو،لیکن کسی قیمت پر اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم نہ رہنے دو؛تاکہ بالآخر تم غربت سے مرفّہ الحالی کی طرف اور پستی سے بلندی کی طرف سفر کر سکو۔
   دوسری ضروری بات یہ کہ مسلمانوں میں تعلیمی کفالت کا مزاج پیدا ہو،جو لوگ اصحابِ ثروت اور اربابِ گنجائش ہوں، وہ اپنے خاندان ، اپنے سماج اور اپنے پڑوس کے ایسے ایک دو بچوں کی کفالت اپنے ذمہ لے لیں، جن کا سلسلۂ تعلیم غربت کی وجہ سے منقطع ہو رہا ہو،اس طرح بہت سے بچے علم کے زیور سے آراستہ ہو سکتے ہیں اور اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھ سکتے ہیں ۔
   تیسرا ضروری کام یہ ہے کہ اِس وقت بچوں کی تعلیم کے سلسلہ میں حکومت کی طرف سے جو سہولتیں دی گئی ہیں اور اقلیتوں کے لئے جو خصوصی رعایتیں کی گئی ہیں، غریب اور ناواقف مسلمانوں کے لئے اُن سے فائدہ اُٹھانے کا انتظام کیا جائے اور معلومات فراہم کی جائیں۔
کاش! یہ دعوت کانوں اور آنکھوں سے گذر کر دلوں تک پہنچ سکے اور قلب کی گہرائیوں میں اتر  جاے

*اس بیماری کا علاج کیا ہو ؟*
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنی قوم کو طاقتور مؤمن بنائیں، اُس کو ضعف و کمزوری اور پستی سے باہر لائیں، اُس کے لئے باعزت اور آبرو مندانہ زندگی فراہم کریں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ جہالت اور علم سے محرومی کی اس بیماری کو دور کرنے کے لئے اُمت کا ایک ایک فرد اس طرح اُٹھ کھڑا ہو جیسے کسی جاں بلب انسان کو بچانے کے لئے ہر سلیم الفطرت انسان دوڑ پڑتا

Sunday, October 16, 2016

آل انڈیا مشاورت

آل انڈیا  مشاورت ممبیء میں  جو پانچ روزہ پروگرام  سلسلہ جاری ہے. اسکی نہیایت اہم کڑی تعلیمی اور ملی مسایل پر مبنی آل مہاراشٹر میٹینگ انجمن کریمی لایبریری پر منعقد ہوی.
عارف فیاضی co ordinator نے افتتاحی تقریب میں غرضو غایت بیان کیا.
مجتبئ فاروقی جنرل سیکریٹری مشاورت ) جن کا تعلق جمعات اسلامیء ہند نے تعارف پےش کیا.
پروگرام کی تفصیل و اہمیت عامر ادریسی صدر ایم پی. این جی او ممبر آف مشاورت نے پیش کیا.
جناب شمیم قیصر سابق سیکریٹری وقف کاونسل نے نیء قومی تعلیمی پالیسی کے رموز ونکات بیان کیے.اور بتایا کہ کس طرح سماج کے نچلے طبقے کو کس طرح تنزولی اور تعلیم کو براے فروخت بنا کر رکھ دیا ہے.
      شبیر انصاری صدر آل انڈیا او بی سی آرگنایزیشن نے پسمادہ طبقات کی قومی اور سماجی لڑای کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی ساتھ ہی ریزرویشن کے تعلق سے مسایل کو اجاگر کیا.
جناب عبدالقیوم نقوی صاحب قومی ترجمان آل انڈیا او بی سی آرگنایزیشن نے اوقاف کے مسایل 'قومی پیچپدگیوں کی وضاحت کی.
  اور بتایا کہ کیوں اوقاف کا مسلہ مسلمانان ہند کی ترجیحات میں ہونا چاہیے.

پرگرام کے دوسرے سیشن کے آغاز میں افتتاحی کلمات ارا کیے اور مشاورت کی توجہ  اہل ممبیء کی جانب دینے پر اہل  'مشاورت اور  مقامی ٹیم کو پرگرام کی
کامیابی پر مبارکباد دی.
آل انڈیا سیکیولر فورم سے وابستہ پرفیسر رام پنیانی  نے ملک و ریاست  میں تمام سطح پر بدلتی ہوی فرقہ پرستی پر روشنی ڈالی. ساتھ ہی تاریخی حوالہء جات سے یہ ثابت کیا کہ جہاں پر قدیم بھارت میں جو بھی مسلم یا ہندو حکمراں ہوے انہوں نے زمینی یا حکومت کی لڑای لڑی تھی. نا کہ مزہب کی. مگر آج کے فرقہ پرست حاکم سیاست داں اور مورخ ہندوستاں کے شاندار ماضی کو  داغ دار بنانے کی کوشش کی.
سب ہی برادران وطن اس صورت حال کے مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے. تاکہ سنگھ کے بھارت بنانے کے منصوبے کو ناکام بنایا جا سکے.
آسام سے آے ہوے ایڈوکیٹ   عبدالحفیظ 'رشید اے چودھری ممبر مسلم پرسنل لاء بورڈ صدر آل انڈیا ملی کاونسل آسام یونٹ نے آسام میں مسلمانوں کی حالت زار پر روشنی ڈالی.
حیدرآباد سے آے ہوے مہمان ظہیرالدین احمد ایڈیٹر روزنامہ سیاست نی بھی اظہار خیال کیا.
             صدر آل انڈیا مجلس مشاورت نوید حامد نے اپنے صدارتی خطبے میں مشاورت کی تاریخ اسکی اہم ملی تحریکیں 'اسکی اہمیت و ضرورت کی وضاحت کرتے ہوے کہا کہ مشاورت ہم خیال لوگوں میں بیٹھنے کا نام نہیں بلکہ مختلف خیال رکھنے والے لوگوں میں بیٹھنے کا نام ہے.
انہوں نے مشاورت کی توسیع کو تنظیمی توسیع نہیں قرار دیا. بلکہ مشاورتی اور تنظیمی توسیع قرار دیا. 
اس اہم اجلاس میں مہاراشٹر کے سب ہی ضلاع سے بڑی تعداد میں مندوبین نے شرکت کی.
اس پروگرام کی نظامت اور کو آرڈینیٹر انتظامی امور اور نظامت فرید خان نے ادا کی...اور رسم شکریہ عبدالحفیظ فاروقی سیکیٹری  رابطہء عامہ نے ادا کیا.غلام پیش امام نے بھی جلسے سے خطاب کیا ...ساتھ ہی بیگم ریحانہ احمد ..بیگم عابدہ انعام دار ..منور پیر بھای ..انیس درانی نیء دہلی ..عظمئ ناہید ..عبدالغفار ..پروفیسر شبانہ خان ..عبدالکریم صدر جلگاوں اور شہر کی دیگر معزز ہستیوں نے شرکت کی.

اے پی جے عبدالکلام

💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐

       *A.P.J ABUL KALAM*  
         ابو الفاخر زین العابدین عبدالکلام
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹   ( مختصراً :- *اے پی جے عبد الکلام* )
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
بھارت کے سابق *صدر* اور *معروف جوہری سائنس دان* جو *15 اکتوبر1931ء* کو ریاست *تامل ناڈو*میں پیدا ہوئے، اور *27 جولائی 2015ء* کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوا۔

عبد الکلام بھارت کے *گیارہویں صدر* تھے، انہیں بھارت کے اعلٰی ترین شہری اعزازات *پدم بھوشن، پدم وبھوشن اور بھارت رتن* بھی ملے۔

عبد الکلام کی صدارت کا دور *25 جولائی 2007ء* کو اختتام پزیر ہوا۔

✨✨✨ *ابتدائی زندگی* ✨✨✨

*ڈاکٹر عبدالکلام* کا تعلق تامل ناڈو کے ایک متوسط خاندان سے تھا۔ ان کے والد ماہی گیروں کو اپنی کشتی کرائے پر دیا کرتے تھے۔ اگرچہ وہ ان پڑھ تھے، لیکن عبدالکلام کی زندگی پر ان کے والد کے گہرے اثرات ہیں۔

ان کے دیے ہوئے عملی زندگی کے سبق عبدالکلام کے بہت کام آئے۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ ابتدائی تعلیم کے دوران بھی عبدالکلام اپنے علاقے میں اخبار تقسیم کیا کرتے تھے ۔

انہوں نے مدراس *انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے خلائی سائنس میں گریجویشن* کی۔ اور اس کے بعد اس *کرافٹ منصوبے* پر کام کرنے والے دفاعی تحقیقاتی ادارے کو جوائن کیا جہاں ہندوستان کے پہلے سیٹلائٹ طیارے پر کام ہو رہا تھا۔

اس سیارچہ کی لانچنگ میں ڈاکٹر عبدالکلام کی خدمات سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اس کے علاوہ پروجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر انہوں نے پہلے سیٹلائٹ جہاز ایسیلوا کی لانچنگ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

✨✨✨ *سیاسی زندگی* ✨✨✨

15 اکتوبر 1931ء کو پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبدالکلام نے 1974ء میں بھارت کا پہلا ایٹم بم تجربہ کیا تھا جس کے باعث انہیں *"میزائل مین"* بھی کہا جا تا ہے۔

بھارت کے گیارہویں صدر کے انتخاب میں انھوں نے 89 فیصد ووٹ لے کر اپنی واحد حریف لکشمی سہگل کو شکست دی ہے۔

عبدالکلام کے بھارتی صدر منتخب ہونے کے بارے میں کسی کو کوئی شبہ نہیں تھا ، ووٹنگ محض ایک رسمی کارروائی تھی۔

عبدالکلام بھارت کے *تیسرے مسلمان صدر* تھے۔

انھیں ملک کے مرکزی اور ریاستی انتخابی حلقوں کے تقریباً پانچ ہزار اراکین نے منتخب کیا۔

✨✨✨✨ *وفات* ✨✨✨

عبدالکلام 83 برس کی عمر میں 27 جولائی 2015ء بروز پیر *شیلانگ* میں ایک تقریب کے دوران سابق بھارتی صدر کو اچانک دل کا دورہ پڑا جس سے وہ وہیں گرپڑے اور انہیں انتہائی تشویشناک حالت میں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے اور دم توڑ دیا۔

✨✨✨ *اعزازات* ✨✨✨

عبدالکلام کو حکومت ہند کی طرف سے 1981ء میں *آئی اے ایس* کے ضمن میں *پدم بھوشن اعزاز* سے نوازا گیا تھا۔

عبد الکلام کوبھارت کے سب سے بڑے شہری اعزاز *بھارت رتن* سے 1997ء میں نوازا گیا۔

18 جولائی، 2002ء کو عبد الکلام کو نوے فیصد اکثریت کی طرف سے بھارت کا صدر منتخب کیا گیا اور انہوں نے 25 جولائی کو اپنا عہدہ سنبھالا، اس عہدے کے لیے ان کی نامزدگی اس وقت کی حکمراں قومی جمہوری اتحاد کی حکومت نے کیا تھا جسے انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت حاصل تھی۔

صدر کے عہدے کے لئے نامزدگی پر ان کی مخالفت کرنے والوں میں اس وقت سب سے اہم جماعت بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی اور دیگر بائیں بازو کی ساتھی جماعتیں تھیں۔

بائیں بازو کی جماعتوں نے اپنی طرف سے 87 سالہ محترمہ لکشمی سہگل کا اندراج کیا تھا جو سبھاش چندر بوس کے آزاد ہند فوج اور دوسری جنگ عظیم میں اپنے شراکت کے لئےمعروف ہیں💐💐💐💐💐💐💐💐💐

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP