خیرالامت ہارون موزہ والااپنے رب کے حضور میں ۔۔
موت ایک بہت مشہورومعروف فرستادہ ہے جس سے دنیامیں بہت سارے لوگوں کو محبت ہوتی ہے توبہت سارے لوگوں کووحشت ۔ مگریہ فرستادہ آتاہے دونوں قسم کے لوگوں کے پاس ۔ صالحین کو عموما موت سے محبت ہوتی ہے اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ موت ایک پل ہے جس کوعبورکرنےکے بعد آدمی اپنے پیارے رب کے یہاں حاضری کاشرف حاصل کرتاہے ۔
ہمارے محبوب ومحترم جناب الحاح ہارون موزہ والاصاحب جن کوابھی مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منھ کوآرہاہے ایک طویل عرصہ تک لوگوں کے دلوں میں اپنے پیارے رب اورپیارے رسول سیدناحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت واطاعت کے جذبوں کی شمع روشن کرتے رہےآج نماز جمعہ سے پہلے موت کا فرستادہ ان کے پاس بھی ( ارجعی الی ربک راضیتہ مرضیہ )کاپیغام لیکر پہونچااورہارون بھائ اپنے پیارے ربا کے حضور زبان حال سے ( ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام )کا پیغام دیتے ہوئےحاضرہوگئے ۔ 1941 عیسوی میں ہارون بھائ کے وجودسعودسے خاکدان عالم میں اوران کے خانوادے میں ایک مومن کااضافہ ہوا ۔پرورش کے مراحل سے گذرتے ہوئے شدبدھ کی منزل پراس نومولود مومن نے اللہ کے نام کی نسبت سے تعلیمی بسم اللہ پڑھا اورپھرپڑھتاہی چلاگیا اوراللہ علیم وخبیر بھی اپنے ہارون کونوازتاچلاگیا ۔ یہ ان کے صالح والدین کی دعائیں تھیں کہ ہارون بھائ جوبظاہر جسم وجسہ یاصحت کے اعتبارسے قوی نہ تھے بلکہ نحیف
وکمزور جسم کے حامل مگرقلب دماغ اورفکر کے اعتبارسے قوی اورصالح فکرونظرکے حامل انسان دوست غریب پرور علم اورعلماء نواز تھے ۔ ان کے دل میں اللہ سبحانہ نے اپنی محبت اورپیارے حبیب سیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بدرجئہ کمال ودیعت فرمائ تھی ۔چنانچہ تادم آخر شریعت وسنت پرمداومت بھی رہی اوراس کی محافظت کی فکربھی ۔ اللہ پاک ہم سب کویہ نصیب فرمائے آمین ۔
ہارون بھائ سے خاکسارکاتعارف ممبئ فساد کے دلدوز سانحہ کے بعد مرحوم جناب الحاج عبدالستاریوسف شیخ بانی سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ نے کروایاتھا ۔ اس کے بعد سے مسلسل دیرینہ تعلقات استوار رہے
فقہ اکیڈمی کے سہ روزہ سمینارآفس بیت النصربینک چونابھٹی میں تقریبا دوماہ تسلسل کے ساتھ استقبالیہ سکریٹری کی حیثیت سے ساتھ میں رہنے۔کاموقع ملا ۔ وہ شاید صدراستقبالیہ تھے اگر وہ کچھ بھی نہ ہوتے تب بھی سبھی کچھ وہ ہوتے ۔ ممبئ کی دنیامیں ہرخیر کاکام کرنے والوں کیلئے وہ میرکارواں تھے ۔ علماء دیوبند کے ممبئ میں متعارف کروانے میں بھی ان کابڑاحکیمانہ رول رہاہے ۔
ہارون بھائ مردم شناس تھے۔ زمانہ سازتھے۔ خیراورنفع کیلئے ہرشخص ان کااپناتھا اورہرتنظیم کے وہ ساتھی تھے ۔ اللہ پاک نے بے شمارخوبیوں سے ان کونوازاتھا ۔
ہارون بھائ ممبئ کے ان گنے چنے لوگوں میں تھے جن کادروازہ ہرشخص کیلئے ہمہ وقت کھلارہتاہے ۔ لوگوں کاتعاون کرتے وقت یاکرواتے وقت ان کااکرام بہت ملحوظ رکھتے ۔ کسی طرح لوگوں کا مدرسہ اورمسجدکا بیواؤں اورمطلقات اورناداروں کاکام ہوجائے یہ فکران پرسواررہتا ۔
ماہنامہ مکہ میگزین ممبئ کی مجلس ادارت کے رکن رکین تھے ۔ کئ مختلف تنظیموں کے بھی رکن تھے ۔ اکثرمضامین جب وہ لکھتے توخاکسار کوبسااوقات فون پرہی پڑھ کرسناتے یا حج میگزین اوربعدمیں مکہ میگزین کی آفس میں تشریف لاتے یاکبھی مضمون کی کاپی بھجوادیتے ۔ حالانکہ ان کاقلم ان کی سوچ وفکرکی طرح پختہ تھا ۔ مگرواہ رے بے نفسی اورحقیقی تواضع کہ ایک چھوٹے آدمی کی اس طرح قدردانی کی جارہی ہے ۔
ہارون بھائ نے رفاہی کاموں کومنظم طریقے سے انجام دینے کیلئے ایک تنظیم بنام خیرامت بھی قائم کیا ۔ اسی میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی سرپرستی میں مسلمانوں کی عائلی قوانین میں پیش آمدہ مسائل کے۔حل کیلئے دارالقضاء بھی قائم کیا ۔ رفاہی وفلاحی کام کرنا اب اس زمانے میں آسان نہیں رہا ۔ اپنوں اورغیروں کے نشتر اور دشنامی وزعفرانی بحران سے گذرناپڑتاہے ۔ ہارون بھائ بھی اس بحران سے گذرے مگرحکمت عملی کے ساتھ بغیرکسی مزاحمت یاشکوے شکایت کے ۔ یہ فضل ربانی کے۔علاوہ اورکیاہوسکتاہے ۔
علمائے ربانیین سے ہارون بھائ کاخاص تعلق تھا ۔ حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمی اور حضرت مولاناعلی میاں ندوی رحمہم اللہ سے خاص تعلق تھا ۔ اورموجودہ علماء میں حضرت پیرذوالفقارصاحب نقشبندی مدظلہ سے بیعت وارادت کاتعلق بھی تھا ۔
بہرحال دنیا اگرچہ خیرسے خالی نہیں ہے مگرجس تیزی کے ساتھ خیرکے حامل مخلص لوگ وفات پاتے جارہے ہیں ان کی جگہ بظاہر پرہوتی نظرنہیں آرہی ہے ۔ اورشاعرکی زبان میں بقائے دوام کی تمنا عبث ہے کہ کائنات اوراس کانظام ہی فانی ہے صرف اس کے چلانے والے خلاق عالم کودوام وبقاء حاصل ہے ۔ہاں عارضی طورپریہ ہست ونیست کاسلسلہ ابد سے جاری ہے اوراللہ علیم وخبیر کوہی معلوم ہے۔کہ کب تک جاری رہے۔گا ۔
تاہم انسان کے اندر جوحس اللہ نے۔رکھی ہے اوربے پناہ انس کاجوجذبہ رکھاہے جس کے نتیجے میں محبت ہوجاتی ہے اس بناءپر ہارون بھائ کی موت سے دل نے شدید صدمہ محسوس کیا اوربے ساختہ انا لللہ واناالیہ راجعون زبان پرجاری ہوگیا ۔ اللہ پاک ان کی بال بال مغفرت فرمائے اوران کے درجات کوبلندفرمائے۔۔ ان کے پسماندگان اورپوری ملت کوصبرجمیل مرحمت فرمائے آمین احباب مسلمین اورمکہ میگزین کے قارئین سے دعاء کی درخواست ہے ۔ ملتجی اورغمناک ۔ محمدشاہدالناصری الحنفی ۔
موت ایک بہت مشہورومعروف فرستادہ ہے جس سے دنیامیں بہت سارے لوگوں کو محبت ہوتی ہے توبہت سارے لوگوں کووحشت ۔ مگریہ فرستادہ آتاہے دونوں قسم کے لوگوں کے پاس ۔ صالحین کو عموما موت سے محبت ہوتی ہے اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ موت ایک پل ہے جس کوعبورکرنےکے بعد آدمی اپنے پیارے رب کے یہاں حاضری کاشرف حاصل کرتاہے ۔
ہمارے محبوب ومحترم جناب الحاح ہارون موزہ والاصاحب جن کوابھی مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منھ کوآرہاہے ایک طویل عرصہ تک لوگوں کے دلوں میں اپنے پیارے رب اورپیارے رسول سیدناحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت واطاعت کے جذبوں کی شمع روشن کرتے رہےآج نماز جمعہ سے پہلے موت کا فرستادہ ان کے پاس بھی ( ارجعی الی ربک راضیتہ مرضیہ )کاپیغام لیکر پہونچااورہارون بھائ اپنے پیارے ربا کے حضور زبان حال سے ( ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام )کا پیغام دیتے ہوئےحاضرہوگئے ۔ 1941 عیسوی میں ہارون بھائ کے وجودسعودسے خاکدان عالم میں اوران کے خانوادے میں ایک مومن کااضافہ ہوا ۔پرورش کے مراحل سے گذرتے ہوئے شدبدھ کی منزل پراس نومولود مومن نے اللہ کے نام کی نسبت سے تعلیمی بسم اللہ پڑھا اورپھرپڑھتاہی چلاگیا اوراللہ علیم وخبیر بھی اپنے ہارون کونوازتاچلاگیا ۔ یہ ان کے صالح والدین کی دعائیں تھیں کہ ہارون بھائ جوبظاہر جسم وجسہ یاصحت کے اعتبارسے قوی نہ تھے بلکہ نحیف
وکمزور جسم کے حامل مگرقلب دماغ اورفکر کے اعتبارسے قوی اورصالح فکرونظرکے حامل انسان دوست غریب پرور علم اورعلماء نواز تھے ۔ ان کے دل میں اللہ سبحانہ نے اپنی محبت اورپیارے حبیب سیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بدرجئہ کمال ودیعت فرمائ تھی ۔چنانچہ تادم آخر شریعت وسنت پرمداومت بھی رہی اوراس کی محافظت کی فکربھی ۔ اللہ پاک ہم سب کویہ نصیب فرمائے آمین ۔
ہارون بھائ سے خاکسارکاتعارف ممبئ فساد کے دلدوز سانحہ کے بعد مرحوم جناب الحاج عبدالستاریوسف شیخ بانی سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ نے کروایاتھا ۔ اس کے بعد سے مسلسل دیرینہ تعلقات استوار رہے
فقہ اکیڈمی کے سہ روزہ سمینارآفس بیت النصربینک چونابھٹی میں تقریبا دوماہ تسلسل کے ساتھ استقبالیہ سکریٹری کی حیثیت سے ساتھ میں رہنے۔کاموقع ملا ۔ وہ شاید صدراستقبالیہ تھے اگر وہ کچھ بھی نہ ہوتے تب بھی سبھی کچھ وہ ہوتے ۔ ممبئ کی دنیامیں ہرخیر کاکام کرنے والوں کیلئے وہ میرکارواں تھے ۔ علماء دیوبند کے ممبئ میں متعارف کروانے میں بھی ان کابڑاحکیمانہ رول رہاہے ۔
ہارون بھائ مردم شناس تھے۔ زمانہ سازتھے۔ خیراورنفع کیلئے ہرشخص ان کااپناتھا اورہرتنظیم کے وہ ساتھی تھے ۔ اللہ پاک نے بے شمارخوبیوں سے ان کونوازاتھا ۔
ہارون بھائ ممبئ کے ان گنے چنے لوگوں میں تھے جن کادروازہ ہرشخص کیلئے ہمہ وقت کھلارہتاہے ۔ لوگوں کاتعاون کرتے وقت یاکرواتے وقت ان کااکرام بہت ملحوظ رکھتے ۔ کسی طرح لوگوں کا مدرسہ اورمسجدکا بیواؤں اورمطلقات اورناداروں کاکام ہوجائے یہ فکران پرسواررہتا ۔
ماہنامہ مکہ میگزین ممبئ کی مجلس ادارت کے رکن رکین تھے ۔ کئ مختلف تنظیموں کے بھی رکن تھے ۔ اکثرمضامین جب وہ لکھتے توخاکسار کوبسااوقات فون پرہی پڑھ کرسناتے یا حج میگزین اوربعدمیں مکہ میگزین کی آفس میں تشریف لاتے یاکبھی مضمون کی کاپی بھجوادیتے ۔ حالانکہ ان کاقلم ان کی سوچ وفکرکی طرح پختہ تھا ۔ مگرواہ رے بے نفسی اورحقیقی تواضع کہ ایک چھوٹے آدمی کی اس طرح قدردانی کی جارہی ہے ۔
ہارون بھائ نے رفاہی کاموں کومنظم طریقے سے انجام دینے کیلئے ایک تنظیم بنام خیرامت بھی قائم کیا ۔ اسی میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی سرپرستی میں مسلمانوں کی عائلی قوانین میں پیش آمدہ مسائل کے۔حل کیلئے دارالقضاء بھی قائم کیا ۔ رفاہی وفلاحی کام کرنا اب اس زمانے میں آسان نہیں رہا ۔ اپنوں اورغیروں کے نشتر اور دشنامی وزعفرانی بحران سے گذرناپڑتاہے ۔ ہارون بھائ بھی اس بحران سے گذرے مگرحکمت عملی کے ساتھ بغیرکسی مزاحمت یاشکوے شکایت کے ۔ یہ فضل ربانی کے۔علاوہ اورکیاہوسکتاہے ۔
علمائے ربانیین سے ہارون بھائ کاخاص تعلق تھا ۔ حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمی اور حضرت مولاناعلی میاں ندوی رحمہم اللہ سے خاص تعلق تھا ۔ اورموجودہ علماء میں حضرت پیرذوالفقارصاحب نقشبندی مدظلہ سے بیعت وارادت کاتعلق بھی تھا ۔
بہرحال دنیا اگرچہ خیرسے خالی نہیں ہے مگرجس تیزی کے ساتھ خیرکے حامل مخلص لوگ وفات پاتے جارہے ہیں ان کی جگہ بظاہر پرہوتی نظرنہیں آرہی ہے ۔ اورشاعرکی زبان میں بقائے دوام کی تمنا عبث ہے کہ کائنات اوراس کانظام ہی فانی ہے صرف اس کے چلانے والے خلاق عالم کودوام وبقاء حاصل ہے ۔ہاں عارضی طورپریہ ہست ونیست کاسلسلہ ابد سے جاری ہے اوراللہ علیم وخبیر کوہی معلوم ہے۔کہ کب تک جاری رہے۔گا ۔
تاہم انسان کے اندر جوحس اللہ نے۔رکھی ہے اوربے پناہ انس کاجوجذبہ رکھاہے جس کے نتیجے میں محبت ہوجاتی ہے اس بناءپر ہارون بھائ کی موت سے دل نے شدید صدمہ محسوس کیا اوربے ساختہ انا لللہ واناالیہ راجعون زبان پرجاری ہوگیا ۔ اللہ پاک ان کی بال بال مغفرت فرمائے اوران کے درجات کوبلندفرمائے۔۔ ان کے پسماندگان اورپوری ملت کوصبرجمیل مرحمت فرمائے آمین احباب مسلمین اورمکہ میگزین کے قارئین سے دعاء کی درخواست ہے ۔ ملتجی اورغمناک ۔ محمدشاہدالناصری الحنفی ۔
No comments:
Post a Comment