☘ طاقتور مومن کے عنوان سے (✍ *مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ کی چشم کشا تحریر*) پڑھنے کا موقع ملا، افادہ عامہ کی خاطر اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے:
موصوف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: طاقتور مؤمن کمزور مؤمن سے بہتر ہے (صحیح مسلم) کی وسعت اور جامعیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ بہت سے لوگ اس حدیث سے محض جسمانی طاقت مراد لیتے ہیں ؛ لیکن اگر غور کیا جائے تو اِس کا مفہوم اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے، طاقت اخلاق و کردار کی بھی ہوتی ہے،طاقت مال و دولت کی بھی ہوتی ہے، طاقت میں سیاسی طاقت بھی آتی ہے،طاقت علم، ٹکنالوجی اور زبان و قلم کی بھی ہوتی ہے۔
برطانیہ کو دیکھیے کہ اگر مغرب میں امریکہ اورکینیڈا تک اس نے حکومت کی ہے تو مشرق میں مشرق بعید کے ممالک بھی اُس کی غلامی کے زیر سایہ زندگی بسر کرتے رہے ہیں؛ حالاں کہ برطانیہ کا رقبہ بہت چھوٹا ہے، برطانیہ کے ایک طرف سے دوسرے طرف کا فاصلہ صرف چھ سو میل یا اُس سے کچھ زیادہ ہے، یہ کس طاقت کا اثر تھا ؟ یہ جسمانی طاقت یا عددی طاقت کا نتیجہ نہیں تھا، یہ علم اور ٹکنالوجی کی طاقت کا نتیجہ تھا،
خود جاپان کو دیکھئے کہ ایک چھوٹا سا اور چند جزیروں پر مشتمل ملک ہے؛ لیکن اُس کی ٹکنالوجی کی طاقت کا کرشمہ ہے کہ پوری دنیا اُس کے سامنے سَر جُھکاتی ہے۔
یہودیوں کی تعداد کتنی کم ہے؟ امریکہ جیسے ملک میں اُن کی تعداد پانچ فیصد سے بھی کم ہے ؛ لیکن ذرائع ابلاغ جیسا مؤثر وسیلہ پوری طرح اُن کے ہاتھوں میں ہے ، بینکنگ کا نظام صد فیصد اُن کی گرفت میں ہے ، اسی لیے کسی امریکی صدر کی مجال نہیں کہ وہ یہودیوں پر کُھل کر تنقید کر ے اور جن لوگوں نے دبے لفظوں میں تنقید کی ، اُن کو ناکوں چنے چبوا دیئے گئے، یہ سب تعلیم کا کرشمہ ہے؛ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ نوبل انعام پانے والوں میں اکثریت یہودیوں کی ہے۔
خود ہم اپنے ملک میں برہمنوں کو دیکھ سکتے ہیں، برہمنوں کی تعداد تین چار فیصد سے زیادہ نہیں؛ لیکن عملاً پورے ملک کا اقتدار اُن کے ہاتھوں میں ہے۔
اس لیے ہمیں ایک ایسی اُمت بننا چاہئے جو علم کے زیور سے آراستہ اورصنعت و ٹکنالوجی کی صلاحیت سے مالا مال ہو ؛ تاکہ ہمارا ہاتھ اونچا ہاتھ رہے،
تعلیم میں پسماندگی کا بنیادی سبب تعلیمی تسلسل کو برقرار نہ رکھ پاناہے، اِس کے بنیادی اسباب دو ہیں:
1⃣ ایک : یہ کہ غریب ماں باپ چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد اُن کا بچہ پچیس پچاس روپئے کمانے لگے اور اپنے ماں باپ کے ہاتھ مضبوط کرے۔
2⃣ دوسرے: فقر و محتاجی اور مفلسی ، کتابوں کی قیمت ، تعلیم کی فیس، یونیفارم کی خریداری، یہ دو بنیادی اسباب ہیں جو مسلمان بچوں کو تعلیم میں پست سے پست تر کرتے جا رہے ہیں-樂樂樂
بنیادی طور پر اس سلسلہ میں تین نکات کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے :
اول : مسلمانوں کے غریب اور مزدور طبقے کی تربیت اور اُن کو سمجھانا کہ فاقوں کو گوارا کر لو، ذاتی مکان کے بجائے کرائے کی جھونپڑی میں اپنا سر چھپا لو،لیکن کسی قیمت پر اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم نہ رہنے دو؛تاکہ بالآخر تم غربت سے مرفّہ الحالی کی طرف اور پستی سے بلندی کی طرف سفر کر سکو۔
دوسری ضروری بات یہ کہ مسلمانوں میں تعلیمی کفالت کا مزاج پیدا ہو،جو لوگ اصحابِ ثروت اور اربابِ گنجائش ہوں، وہ اپنے خاندان ، اپنے سماج اور اپنے پڑوس کے ایسے ایک دو بچوں کی کفالت اپنے ذمہ لے لیں، جن کا سلسلۂ تعلیم غربت کی وجہ سے منقطع ہو رہا ہو،اس طرح بہت سے بچے علم کے زیور سے آراستہ ہو سکتے ہیں اور اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھ سکتے ہیں ۔
تیسرا ضروری کام یہ ہے کہ اِس وقت بچوں کی تعلیم کے سلسلہ میں حکومت کی طرف سے جو سہولتیں دی گئی ہیں اور اقلیتوں کے لئے جو خصوصی رعایتیں کی گئی ہیں، غریب اور ناواقف مسلمانوں کے لئے اُن سے فائدہ اُٹھانے کا انتظام کیا جائے اور معلومات فراہم کی جائیں۔
کاش! یہ دعوت کانوں اور آنکھوں سے گذر کر دلوں تک پہنچ سکے اور قلب کی گہرائیوں میں اتر جاے
*اس بیماری کا علاج کیا ہو ؟*
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنی قوم کو طاقتور مؤمن بنائیں، اُس کو ضعف و کمزوری اور پستی سے باہر لائیں، اُس کے لئے باعزت اور آبرو مندانہ زندگی فراہم کریں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ جہالت اور علم سے محرومی کی اس بیماری کو دور کرنے کے لئے اُمت کا ایک ایک فرد اس طرح اُٹھ کھڑا ہو جیسے کسی جاں بلب انسان کو بچانے کے لئے ہر سلیم الفطرت انسان دوڑ پڑتا
No comments:
Post a Comment