You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Sunday, April 29, 2012

شمشیر خان پٹھان قوم کے ہمدرد






شمشیر خان پٹھان قوم کے ہمدرد ،استقبالیہ اور الوداعی تقریب میں معززین کا اظہار خیال۔
شمشیر خان پٹھان جنہوں نے مہاراشٹر پولس میں نمایاں خدمات انجام دیں ، اور انہیں پروموشن دیکر اے سی پی بنایا گیا ہے۔پچھلے کئی دنوں سے وہ اردو داں حلقوں اور اردو میڈیا میں گفتگو کا موضوع ہیں ۔انہوں نے پولس کی ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی سرگرم عوامی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔وہ مہاراشٹر میں مسلم اور پسماندہ طبقات کے وسیع تر مفاد میں ایک سیاسی پارٹی کی بناڈال رہے ہیں ۔ان کے پولس میں رہتے ہوئے کارناموں اور ریٹائر منٹ کے بعد کے سیاسی عزائم کو دیکھتے ہوئے موو منٹ فار ہیومن ویلفیئر نے الوداعیہ اور استقبالیہ دیا الوداعیہ انکے پولس سے ریٹائر منٹ کے لئے جبکہ استقبالیہ انکے سیاسی عزائم کے لئے ۔اس تقریب میں شہر کی مشہور و معروف شخصیتوں نے شرکت کی اور ان کے ماضی کے کارناموں اور مستقبل کے عزائم کو سراہا۔تقریب میں شریک ایک کانگریسی ترجمان کو مسلمانوں کا کوئی سیاسی پلیٹ فارم بنانا شاید کچھ اچھا نہیں لگا انہوں نے انہیں ڈرانے کی کوشش کی کہ مسلمان اپنے قائد کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے ۔تقریب موجود جہاں اکثر لوگوں نے انکی اس بات پر تالیاں بجائیں وہیں کچھ لوگوں کو اعتراض تھا ۔سامعین میں سے ایک شخص سے اس سلسلے میں استفسار کرنے پر انہوں نے اس نمائندہ کو بتا یا کہ یہ سراسر غلط اور مسلمانوں پر الزام ہے کہ مسلمان اپنے قائد کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے یہ بات کوئی شخص صرف دو وجوہات کی بنا پر کہہ سکتا ہے ۔اول اس کی تاریخی اور مسلمانوں کی حالیہ معلومات صفر ہو ،دوئم وہ کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہو اور جان بوجھ کر مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کے لئے ایسی باتیں کر رہا ہو۔ تقریب میں موجود ایک اور شخص نے یہ کہا، انشاء اللہ اگر لوگ اخلاص نیت کے ساتھ مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کے لئے کام کرنے کے لئے قدم آگے بڑھائیں تو مسلمان انہیں مایوس نہیں کریں گے ۔ اس تقریب میں علی ایم شمشی ،مبارک کاپڑی،ڈاکٹر عبد اللہ ،نظام الدین راعین،ماہر نفسیات ڈاکٹر ماچس والا،سلیم الوارے ،مولانا شعیب کوٹی،فرید شیخ،مولانا محمود دریاآ بادی، مولانا اعجاز احمد کشمیری،ڈاکٹر عظیم الدین اور دیگر کئی معززین نے اپنے خیالات اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

پارلیامنٹری بلس آبزرورس کمیٹی



پارلیامنٹری بلس آبزرورس کمیٹی جو پچھلے تین سالوں سے پارلیمنٹ میں پیش اور پاس ہونے والے بلوں اور ان کے مسلمانان ہند پر پڑنے والے مضمرات پر نہ صرف یہ کہ نظر رکھتی ہے بلکہ اس سلسلے میں امت کی بیداری کے فرائض کو بھی اپنی بساط بھر نبھاتی ہے ۔اسی سلسلے میں ۲۷؍ اپریل کو اسلام جم خانہ کے لان میں شہر کے معززین کے ساتھ ایک میٹنگ کا انعقاد کیا گیا ،جس میں نسیم الدین صدیقی ،سابق چیئر مین اقلیتی کمیشن حکومت مہاراشٹر ،ڈاکٹر ظہیر قاضی،صدر انجمن اسلام،ایڈووکیٹ سعید اختر،پروفیسر ایس اے ایم ہاشمی اور دیگر شامل تھے ۔کمیٹی کے کوآرڈینیٹر جناب مقبول عالم نے بتایا کہ یون تو امت مسلمہ کی بہت ساری تنظیمیں موجود ہیں لیکن پارلیمنٹ کی کارروائیوں پر نظر رکھنے والی کوئی تنظیم نہیں تھی جو خصوصیت سے صرف پارلیمنٹ میں پیش و پاس ہونے والے بلوں پر نظر رکھ کر اس سے امت مسلمہ کو آگاہ کرے کہ اس سے وہ کہاں تک فیض یاب ہو سکتے ہیں یا اس سے انہیں کیا نقصانات ہو سکتے ہیں ۔ہمارا مقصد نہ صرف یہ ہے کہ اس کے مضمرات سے امت کو آگاہ کیا جائے بلکہ اس کا نعم البدل بھی پیش کیا جائے اور پارلیمنٹ سمیت امت کی دیگر تنظیموں کو اس سے آگاہ کرکے بل کو پاس ہونے سے قبل ہی ان میں ضروری ترمیمات کی گزارش پارلیمنٹ کو بھیجی جائے ۔
اقلیتی کمیشن مہاراشٹرا کے سابق چیئر مین جناب نسیم الدین صدیقی نے کہا کہ یہ کام مشکل ضرورہے لیکن یہ وقت کی انتہائی ضرورت ہے کہ قانون کو بننے سے پہلے اس کے مضمرات سے آگاہ ہوکر اس میں ترمیم کی سفارش کی جائے۔ایڈووکیٹ سعید اختر نے کہا کہ اس کام کی شروعات بہت مشکل اور صبر آزما ہے لیکن یہ انتہائی ضروری ہے ۔کئی ایسے بل پارلیمنٹ میں پاس ہو گئے امت سوتی رہی آج ہمارے سامنے جب اس قانون کی رو سے مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کھویا ۔ہمارے سامنے اسمٰعیل یوسف کالج کا مسئلہ ہے جس کے لئے ۱۹۱۲ میں سر یوسف اس وقت کی حکومت کو آٹھ لاکھ روپئے دئے تھے تاکہ مسلمانوں کے لئے کوئی تعلیمی ادارہ کھولا جاسکے ، ۱۹۲۸ میں ساڑھے باسٹھ ایکڑ زمین خریدی گئی ۔لیکن آج جو کچھ اسمٰعیل یوسف کالج کے ساتھ ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔

تعزیتی جلسے کی رپورٹ



آج بروز جمعرات بتاریخ ۲۶؍ اپریل ۲۰۱۲ء کوکرناٹک اردو اکیڈمی کے محمود ایاز ہال میں معروف غزل گو شاعر جوہر صدیقی کے سانحہ ارتحال پر ایک تعزیتی نشست رکھی گئی۔ جس کی صدارت کے فرائض حافظ کرناٹکی نے ادا کئے۔ اس تعزیتی نشست میں بنگلور کے بہت سے ادبا و شعرا نے شرکت کی۔ جب کہ بنگلور میں مقیم بنارس کے ادبا و شعرا نے کچھ زیادہ ہی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ 

اس نشست میں جن لوگوں نے شرکت کی، ان میں جناب محمد خورشید اکرم کاملی، جناب عبدالقدیر بنارسی، الحاج محمد یسین، الحاج وزیرالدین، اکرم اللہ، جمیل بنارسی خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ 
اس نشست کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اہم بات یہ ہوئی کہ اس نشست میں مرحوم جوہر صدیقی کی حمد اور نعت بھی پڑھی گئی۔ اس نشست کی نظامت کے فرائض جناب شفیق عابدی نے ادا کیے۔ تمام شرکا ئے نشست نے مرحوم جوہر صدیقی کے سانحہ ارتحال پر اپنے غم کا اظہار کیا۔ اور ان کی غزل گوئی کی انفرادیت کو سراہا۔ 
کرناٹک اردو اکیڈمی کے رجسٹرار مرزاعظمت اللہ صاحب نے کہا کہ مرحوم جوہر صدیقی ایک خوش فکر شاعر تھے۔ انہیں اس معنی میں مرحوم نہیں کہا جاسکتا جس معنی میں عام انسانوں کو مرحوم کہاجاتا ہے۔ کیوں کہ میرا احساس ہے کہ شعرائے کرام مر کر بھی زندہ رہ جاتے ہیں۔ اور بعض شعرا تو مرنے کے بعد ہی اپنی زندگی کا احساس دلا پاتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جوہرصدیقی کی غزلوں میں جوتازگی اور توانائی ہے وہ انہیں تا دیر زندہ رکھے گی۔ 
غفران امجد نے جوہر صدیقی مرحوم کے حالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی شاعرانہ انفرادیت اور ان کی غزل گوئی کی ندرت پر کھل کر گفتگو کی۔ اور بتایا کہ جوہر صدیقی صاحب نے نئی نسل کے شعرا کی کس طرح تربیت کی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جناب مرحوم جوہر صدیقی استاد شاعر تھے۔ جس سے کتنے ہی شعرا نے شاعری کی باریکیوں کا علم حاصل کیا۔ اور غزل کی ندرت کا درس لیا۔ ان کے سانحۂ ارتحال نہ صرف یہ کہ اردو شعرو ادب کا نقصان ہوا ہے۔ بلکہ بہت سے نو آموز شاعر ایک مہربان استاد سے محروم ہوگئے ہیں۔ 
حافظ کرناٹکی نے کہا 
اگر یہ کہاجائے کہ پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے اردو زبان و ادب نہایت ہی صبر آزما صورت حال سے گزر رہا ہے۔ تو کوئی مبالغہ نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اس عرصے میں اردو برادری نے تقریباً ایک درجن اہم شعرا و ادبا سے محروم ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے گویا تمام کہنہ بادہ خوار اٹھتے جارہے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ اردو والے ابھی ایک سانحہ سے جانبر نہیں ہوپاتے ہیں کہ دوسرے سانحہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہم عصری حسیت کے تازہ کار شاعر جوہر صدیقی جیسی شخصیت سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ موصوف کو غزل سے عشق تھا اور سچی بات یہ ہے کہ وہ غزل تہذیب کا جیسا شعور رکھتے تھے وہ ان دنوں خال خال ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ وہ آج کے عہد کے ایک عمدہ غزل گو شاعر تھے۔ اور خوب غزلیں کہتے تھے۔ ان کے بعض اشعار تو گویا اردو کے باذوق قارئین کے قلب و نظر پر چسپاں ہو کر رہ گئے ہیں۔ مثلاً 
روداد ستم آپ کی ہم اپنے لہو سے 
لکھیں گے مگر آپ سے بہتر نہ لکھیں گے 

یوں امن کے گلاب کھلائے گئے یہاں 
زخموں کی طرح لوگ ہنسائے گئے یہاں 
وہ جس خوبصورتی اور نزاکت سے عصری مسائل کو غزل کے لب و لہجے میں ڈھالنے کا ہنر جانتے تھے وہ انہیں کا خاصہ تھا۔ 
انہوں نے کتنا پیارا شعر کہاتھا۔ 
ہمارے ڈوب جانے تک لبِ ساحل کھڑے رہنا 
کہ میرے دل کے ارمانوں کی دنیا کون دیکھے گا 
آج ہم سب لب ساحل کھڑے ہیں۔ جوہر صدیقی لامتناہی حیات کے ساگر میں ڈوب چکے ہیں۔ مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو ان کے ارمانوں کی دنیا دیکھ سکتے ہیں۔ 
ہم مرحوم کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔ اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے ۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج سے کرناٹک اردو اکیڈمی ایک نئی روایت کا آغاز کر رہی ہے۔ یعنی آئندہ جو بھی اہم شعرا اور ادبا داغ مفارقت دے جائیں گے۔ نہ صرف یہ کہ ان کی شایان شان تعزیت کا اہتمام کیا جائے گا، بلکہ ان کی ایک تصویر بھی اکیڈمی کی محمود ایاز لائبریری میں آویزاں کی جائے گی۔ 
ہم جوہر صدیقی مرحوم کی تصویر آویزاں کر کے اس روایت کو فروغ دینے کی پہل کر رہے ہیں۔ 

چند لمحات جناب افتخار امام صدیقی کے ساتھ



آج بروز جمعہ ۲۷؍ اپریل ۲۰۱۲ء کودوپہر بعد چار بجے کرناٹک اردو اکیڈمی نے اردو کے نہایت غیرجانبدار رسالے کے ’’ماہنامہ شاعر‘‘ بمبئی کے ہر دل عزیز مدیر اور نیک انسان جناب افتخار امام صدیقی کی آمد پر محمود ایاز لائبریری میں ایک شاندار اعزازی جلسے کا اہتمام کیا۔
اس جلسے میں ریاست کے کئی اہم شعرا اور ادبا کے علاوہ کئی اہم صحافیوں نے بھی شرکت کی۔ جب کہ شعر وادب سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کی بھی کثیر تعداد ہال میں موجود تھی۔
ریاست کرناٹک کے جوان رعنا شاعر غفران امجد نے مہمانوں کا استقبال کیا اور جناب افتخار امام صدیقی صاحب کی شخصیت اور ان کی خدمات کا اجمالی تعارف پیش کیا۔
روزنامہ راشٹریہ سہارا بنگلور کے ایڈیٹر اسجد نواز نے افتخار امام صدیقی کی آمد، اور کرناٹک اردو اکیڈمی کے اعزاز پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ اور صدیقی صاحب کو ادب دوست مدیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدیقی صاحب نے فنکاروں کے مستور ہونے کے جوبات کہی تھی وہ سچ تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی محبت سے فضا بدل رہی ہے۔ قاسم سید جو خود بھی روزنامہ راشٹریہ سہارا دہلی سے منسلک ہیں۔ انہوں نے بھی افتخار امام صدیقی کی مدیرانہ صلاحیت اور تخلیقیت شناسی کا اعتراف کیا اور اکیڈمی کے اس اقدام کو نیک فال قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تو میرے والد مجھے کبھی کبھار مشاعرے میں لے جایا کرتے تھے۔ اسی زمانے میں میں نے ایک مشاعرے میں جناب افتخار امام صدیقی صاحب کو سنا، ان کا انداز اور ان کا ترنم آج بھی میری سماعت میں محفوظ ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ صدیقی صاحب پیشہ ور شاعر نہیں ہیں۔ وہ واقعی ایک فنکار ہیں، اور فنکارانہ شان سے زندگی جیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جب مجھے کرناٹک اردو اکیڈمی کے بجٹ اور عملے کا علم ہوا تو مجھے بے حد افسوس ہوا۔ دہلی اردو اکیڈمی کا بجٹ آٹھ کروڑ ہے اور عملے کی فراوانی ہے۔ یہ یقیناًحیرت انگیز بات ہے کہ کرناٹک اردو اکیڈمی اتنے کم بجٹ اور نہ کے برابر عملے کے ساتھ اتنے بڑے بڑے کارنامے انجام دے رہی ہے۔
حافظ کرناٹکی چیرمین کرناٹک اردو اکیڈمی نے افتخار امام صدیقی کی آمد پر منظوم خراج تحریر کیا جسے ریاست کے مشہور سنگر جناب حمید اکبر صاحب نے گاکر سنایا۔
جناب افتخار امام صدیقی نے کرناٹک کی ادبی صورت حال پر نہایت خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بڑی بات ہے کہ کرناٹک میں دوسری ریاستوں کی بہ نسبت شعرو ادب کا ماحول نہایت خوشگوار ہے۔ انہو ں نے کرناٹک اردو اکیڈمی کے کاموں کی بھی ستائش کی اور کہا کہ مہاراشٹر اردو اکیڈمی کی کارکردگی کی بہ نسبت کرناٹک اردو اکیڈمی کی کاکردگی نہایت ہی تشفی بخش ہے۔ انہوں نے حافظ کرناٹکی ادبی خدمات کابھی ضمنی طور پر ذکر کیا۔ اور اکیڈمی کو فعال بنانے کے لیے انہیں مبارکباد دی۔
اس موقع سے حافظ کرناٹکی صاحب کا لکھا ہوا ایک بڑا سپاس نامہ بھی جناب صدیقی صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا۔
آخر میں حافظ کرناٹکی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
آج کا دن ہمارے لیے بڑا قیمتی اور قابل افتخار ہے۔ کیوں کہ آج ہمارے درمیان محترمی افتخار امام صدیقی صاحب تشریف فرما ہیں۔
حضرت افتخار امام صدیقی صاحب محض ایک تاریخ ساز مدیر کا ہی نہیں بلکہ ایک لازوال تاریخ کا نام ہے جسے اردو دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔ علامہ سیماب اکبرآبادی کے گھرانے کے اس روشن چراغ سے میرا تعارف آفاق عالم صدیقی نے کرایا۔ یہ تعارف ہمارے لیے نیک فال ثابت ہوا۔ کیوں کہ میں نے پایا کہ افتخار امام صدیقی صاحب محض ایک مدیر اور شاعر ہی نہیں بلکہ ایک نہایت ہی مخلص، فن شناس، اور نورایمانی سے منور اس شخصیت کا نام ہے جس کی قربت کسی بھی انسان کا دل جیب سکتی ہے۔ ان کی شخصیت میں جو صداقت اور اپناپن پایا جاتا ہے اس کی مثال بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ ’’شاعر‘‘ کی ادارت کے علاوہ کسی کام پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ان کے اندر تخلیقیت خیزی کا ایک سیل رواں جاری ہے۔ جس کے باہر آنے کی دیر ہے۔ اب تک نظم ونثر میں ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ ’’چاند غزل‘‘ حمدوں کے دو مجموعے ’’اللہم‘‘ اور ’’انک سمیع الدعا‘‘ نعتوں کے چار مجموعے ’’آپؐ‘‘، ’’آقاؐ‘‘، ’’سرداؐر‘‘، ’’سرکاؐر‘‘اور افسانوں کا ایک مجموعہ ’’ربع دیدی آپ کہاں ہیں‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔ جب کہ ’’شاعر‘‘ کے ہزاروں صفحات پر بکھرے ان کے ’’جرعات‘‘، ’’انٹرویوز‘‘ اس کے ماسوا ہیں۔ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ان کے پاس ہزاروں غیرمطبوعہ غزلوں کا مخزونہ محفوظ ہے۔ بقول افتخار امام صدیقی صاحب، جماعت اسلامی کی ڈائری ’’شب و روز‘‘ کی آٹھ جلدیں ان کی شاعری سے بھری پڑی ہیں۔ یہ حالت ہے ان کے تخلیقی وفور کا۔
یہ ہمارے لیے یقیناًخوشی کی بات ہے کہ آج ہم اردو ادب کے باقیات صالحات جیسی شخصیت کے ساتھ یہاں بیٹھے ہیں۔ اور انہیں دیکھنے اور ان سے باتیں کرنے کا شرف حاصل کر رہے ہیں۔ میں یہاں ایک بات جو خاص طور پر کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر جناب افتخار امام صدیقی صاحب اپنی شاعری کی اشاعت کے لیے راضی ہوں تو اکیڈمی ان کا مجموعہ کلام اپنی طرف سے شائع کرکے خوشی محسوس کرے گی۔
یوں بھی جناب صدیقی صاحب کے کلام کو منصہ شہود پر لانا ضروری ہے۔ تاکہ لوگوں کو اندازہ ہوسکے کہ جو مدیر اپنا ہر رسالہ تخلیق کرتا تھا۔ اس نے تخلیق شعر و ادب کی کیسی کیسی منزلیں سرکی ہیں۔ میں جناب افتخار امام صدیقی صاحب کا اپنی اور کرناٹک اردو اکیڈمی کی طرف سے دلی خیرمقدم کرتا ہوں۔ اور اپنی ممنویت کا اظہار کرتا ہوں کہ انہوں نے اکیڈمی میں تشریف لانے کی زحمت گوارہ کی۔
ہمیں یقین ہے کہ ان کی آمد کی برکت سے ہم تمام لوگوں میں زبان و ادب کی خدمت کا انہیں جیسا سچا جذبہ پیدا ہوگا اور ہم سب لوگ ان کے خواب کی (جو تمام اردو والوں کا خواب ہے) کی تعبیر کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
اللہ جناب افتخار امام صدیقی صاحب کی عمر دراز کرے۔ اور انہیں صحت مند رکھے۔ تاکہ اردو زبان و ادب کے سر پر ان کا سایہ تادیر قائم رہے۔ آمین

Saturday, April 28, 2012

چند لمحات افتخار امام صدیقی کے ساتھ


بمقام : کرناٹک اردو اکامی محمود ایاز لائبری ہال، کنڑا بھون، جے سی روڈ، بنگلور 
بروز جمعہ 27اپریل2012ء 


تیری صدا سے باغِ سخن میں بہار ہے


تو نصف لاکھ غزلوں کا تخلیق کار ہے


پرگوئی تیری جاری و ساری ہے آج بھی


میدانِ شعر و فکر کا تو شہسوار ہے

یہ سچ ہے اور سچ تو سدا بے نیام ہے

اے افتخار امام تو فن کا امام ہے

سیماب کی روایتِ شعری کا پاسباں

شاعر کے کاروان کا سالارِ کارواں

ہے بے مثال تیری ہمہ جہت شخصیت

اس عہد بے رِجان میں تیرا بدل کہاں

ہر شخص کی نظر میں تیرا احترام ہے

اے افتخار امام تو فن کا امام ہے


تیرے قلم نے کی کئی ذہنوں کی تربیت

انجام پائی تجھ سے ہزاروں کی تربیت

ایک ایک لفظ دے گیا صدیوں کا درس انہیں

راس آئی ہے جنہیں تیرے لمحوں کی تربیت

مصروف کار آج بھی تو صبح شام ہے

اے افتخار امام تو فن کا امام ہے


معمار اولین ہے تو اردو گاؤں کا


ہر شمسِ نو کو لمس ملا تیری چھاؤں کا


اردو زباں کا عشق ہے تیری سرشت میں

عالم ہے معترف تیری فکری وفاؤں کا

ہر اہل دل کے قلب میں تیرا مقام ہے

اے افتخار امام تو فن کا امام ہے

خدمت میں تیری یہ گلِ اظہار پیش ہیں

مبنی بر اعتراف کچھ اشعار پیش ہیں

حافظؔ بھی تیرے چاہنے والوں میں ایک ہے

دل سے یہ چند لفظ ضیا بار پیش ہیں

کاوش یہ میری ماناکہ حد درجہ خام ہے



اے افتخار امام تو فن کا امام ہے

نتیجہ فکر 
امجد حسین حافظ کرناٹکی 
چیر مین کرناٹک اردو اکادمی ،بنگلور

Friday, April 27, 2012

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا



عتیق احمد عتیق رجحان ساز تھے 
عبدالحلیم صدیقی 
مالیگاؤں میونسپل کارپوریشن انتخابات کے نتائج آنے کے ۲۴؍ گھنٹہ بعد ہی کانگریس آئی کے ساتھ تیسرا محاذ کا ملاپ ہوا تو بے اختیار یہ شعر ہزاروں دانشمندوں کی زبان پر آگیا کہ

’’ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ‘‘
اس موضوع پر مذید کچھ اظہار سے قبل میں اپنے قارئین کو پانچ برس قبل کے حالات و واقعات کی یاد دہانی کرادینا چاہتا ہوں ۔ جب مالیگاؤں کی عوام نے تمام روایتی پارٹیوں سے اظہار بیزاری کرتے ہوئے علمائے دین کی قیادت میں قائم ہونے والے تھرڈ فرنٹ یعنی تیسرا محاذ کو سر آنکھوں پر بٹھایا تھا اس وقت بھی رائے عامہ کے خلاف تیسرا محاذ نے کانگریس آئی سے سمجھوتہ کرکے میونسپل اقتدار بنا لیا تھا ۔تب عوام نے تیسرا محاذ کے ذمہ داران کو لعن طعن کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم کو دھوکہ دیا گیا ۔ ہمارے جذبات سے کھلواڑ کیا گیا ۔ جو ووٹ ہم نے کانگریس این سی پی سرکار کو سبق سکھلانے کیلئے دیا تھا وہ رائیگاں گیا ۔ یہ ناپاک اتحاد بالآخر اسمبلی چناؤ کے عین پہلے ٹوٹ گیا ۔ کیونکہ اسمبلی میں کانگریس اور تیسرا محاذ دونوں کو اپنے اپنے امیدوار اتارنے تھے ۔اور دونوں نے ساس بہو کی طرح ایکدوسرے کو کوستے کوستے طلاق مغلظہ دے دی ۔ اسمبلی چناؤ ہوا اور عوام نے سابقہ پیشہ ور سیاستدانوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے ایک عالم دین کو اپنا ووٹ دے دیا ۔ انھیں کل ۷۲ ہزار ووٹ ملے ۔ اور کانگریس امیدوار کو ۵۴ ہزار ووٹ ملی ۔ لیکن حالیہ میونسپل چناؤ سے قبل انھیں مفتی اسمٰعیل نے جانے کونسا آکسیجن دیا کہ وہ پوری قوت سے اٹھ بیٹھے اور دونوں لیڈران نے زبردست سیاسی حکمت عملی سے حالیہ چناؤ میں اول و دوم پوزیشن حاصل کرلی ۔کانگریس کو حسب سابق اسمبلی میں جتنے ووٹ ملے تھے لگ بھگ اتنے ہی یعنی ۵۲ ہزار ووٹ ملے البتہ تیسرا محاذ کو اسمبلی کے مقابلے ۲ ۲ ہزار ووٹ کم ملے ۔ اسمبلی میں مفتی اسمٰعیل کو ۷۲ ہزار ووٹ ملے تھے آج انھیں مجموعی طور پر ۸ ۴ ہزار ووٹ ملے پانچ سال قبل ان کے ۲۸ کارپوریٹر چنے گئے تھے آج ۱۹ ہیں ۔ آج جب کہ کانگریس کے ساتھ تیسرا محاذ نے تجدید ملاپ کا ڈرامہ پھر سے رچا ہے عوام کے ذہنوں میں بالخصوص تیسرا محاذ کوو وٹ دینے والے ۴۸ ہزار ووٹروں کے ذہن میں یہ سوال کھٹک رہا ہے کہ ہم نے تو اپنا ووٹ تیسرا محاذ کو دیا تھا۔ ہم نے تو اپنا ووٹ کانگریس کے خلاف دیا تھا ، ان ووٹوں کو ہول سیل داموں میں مفتی صاحب ورشا پر گروی رکھ کر کیوں آگے کس سے صلاح لی گئی ۔ کس سے پوچھا گیا کیا یہ ووٹوں کی تجارت نہیں ہے ۔ اس سے بھی بڑا سوال کانگریس اور تیسرا محاذ کے ہمدردوں ، ورکروں کے ذہن میں کھٹک رہا ہے کہ آخری دونوں سیاسی حریف اگر میونسپل اقتدار کیلئے آج مل گئے تو کیا یہ اتحاد اسمبلی چناؤ میں بھی قائم رہے گا ۔ اگر قائم رہے گا تو دونوں میں سے کون ہوگا اگلا ایم ایل اے ؟؟ اعلیٰ سطح پر کیا کسی قسم کی ساز باز ڈیلنگ یا معاہدہ ہوا ہے ۔اگر ہوا ہے تو اس کا علم عوام کو کیوں نہیں ؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔ بس قارئین عرض تو یہی کرنا ہے کہ اب اس سیاسی ڈرامہ کے اگلے ڈراپ سین کا انتظار کریں ۔

میں نے گذشتہ مضامین میں بھی لکھاتھا کہ مالیگاؤں کی عوام کو ان کے احساسات ان کے جذبات کو روند کر سیاستداں صرف اپنے ذاتی مفادات کیلئے عوام کو ٹھگ رہے ہیں ۔ اور یہ حالت خود عوام نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے ان کے ہاتھ جب ووٹوں کا ہتھیار تھا تو ان کی آنکھوں پر عقیدت کی پٹی چڑھی ہوئی تھی ۔ یہ اپنے ووٹوں کا سودا کررہے تھے ، خالص مذہبی دین دار تعلیم یافتہ مہذب سوسائٹی سے جو قابل ؟ شریف ؟ نمائندے چنے گئے ہیں ان کے اوصاف بیان کرکے ہم اپنا قلم گندہ نہیں کرنا چاہتے۔ اعمال کی خرابی اور نیت کی کھوٹ مالیگاؤں کو زوال کے دن دکھلائے ہیں، کانگریس اور خفیہ کانگریس کے درمیان جب ممبئی کے ورشاء بنگلے پر میل ملاپ کی شرطیں طئے ہورہی تھیں ۔ تو پاور لوم صنعت کو تباہی کے دہانے پر دھکیلنے والی جکات وصولی کے خاتمہ کا ذکر تک نہ ہوا ۔ جب کہ حالیہ اسمبلی اجلاس کے دوران خود وزیر اعلیٰ مہاراشٹر نے مہاراشٹر کی تمام Dکلاس میونسپل کارپوریشنوں سے جکات وصولی 16اپریل 2012سے ختم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن آج ماہِ اپریل ختم ہورہا ہے مالیگاؤں سے آکٹرائے کا جنازہ نہیں نکلا ۔شاید آکٹرائے ٹھیکدار سے ملنے والی ملائی نے ہمارے لیڈران کے گلے کو جکڑ لیا ہے ۔ ہمارے مفتی صاحب نے وزیر اعلیٰ کے سامنے یہ بھی نہیں کہا کہ جن بے قصوروں کو اسلحہ ضبطی کے الزام میں چھ سال سے آپ نے بند کر رکھاہے انھیں کب چھوڑو گے ؟؟ ہمیں انصاف کب دو گے ؟؟ دونوں کانگریس کے ملاپ والے معاہدہ میں بہت سے خیالی پلاؤ پکائے گئے لیکن یہ سوال نہیں کھڑا ہے کہ مالیگاؤں کو D+Zoneکی صنعتی سہولت کب دو گے ( جو ایچل کرنجی کو حاصل ہے ) ؟؟ یہ پوچھنے کی زحمت بھی گوارانہ کی گئی کہ مالیگاؤں کو ضلع کا درجہ کب دیا جائے گا جبکہ مالیگاؤں کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان عبدالرحمن انتولے نے بحیثیت وازیر اعلی کیا تھا ۔ لیکن اس پر عمل آج تک نہیں ہوا ۔ مالیگاؤں میں ریلوے لائن بچھانے کی توفیق نہ انگریزوں کو ہوئی نہ آزاد ہندوستان میں کانگریس سرکاروں کو ہوئی ۔
مالیگاؤں آج جو کچھ بھی ہے عوام کی محنت کے بل پر ہے یہاں کے بنکروں سے سرکار کو سالانہ ایک ہزار کروڑ روپئے کا فائدہ ہوتا ہے اس میں سے سو دو سو کروڑ کی بھیک دے کر اگر یہ سرکار ہم پر احسان جتانے کی کوشش کرے گی ۔ تو ہم قطعئ اسے نہیں مانیں گے۔ اور بم دھماکوں اسلحہ ضبطی کیس کے معاملات میں تو مالیگاؤں کی عوام کانگریس کی دوغلی پالیسوں سے سخت نالاں و ناراض ہے ۔ لیکن نادان لیڈر شپ نے ذاتی مفادات کیلئے مالیگاؤں کے پچاس ہزار ووٹروں کے کانگریس مخالف ووٹ کا سودا کرلیا ۔ انھیں ہول سیل میں ورشا پر بیچ آئے آج تیسرا محاذ کو اپنا قیمتی ووٹ دینے والوں کے دل کی کیفیت ایسی ہے ’’جیسے دہلی کے چاندنی چوک میں کسی ٹھگ اسکے تینوں جیب خالی کردئے ہوں ۔ ‘‘
***

عتیق احمد عتیق رجحان ساز تھے


مالیگاؤں کے شعراء ادباء اور صحافیوں نے صدی کے عظیم شاعر کو خراج عقیدت پیش کیا 
مالیگاؤں ، ۲۲؍ اپریل ، ( عبدالحلیم صدیقی) 
فردوس اردو میں انجمن اردو کی حیثیت رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ شاعر و ادیب حضرت عتیق احمد عتیق کے سانحۂ ارتحال ( مورخہ ۱۵؍ اپریل ۲۰۱۲ء ؁ ) پر مالیگاؤں کی علمی ادبی فضا سوگوار ہے گذشتہ شب کائناتِ نجم النساء میں منعقدہ مجلس تعزیت میں شریک ہر چہرہ یہ کہہ رہا تھا کہ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے تب کہیں ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا ۔ حضرت عتیق کے شاگر دِ رشیدغلام مصطفی اثر صدیقی کی ایماء پر آج یہاں مالیگاؤں تعلیمی ، سماجی ، مذہبی ، ادبی و صحافتی حلقہ سے وابستہ افراد خانوادۂ عتیق کی دل جوئی و غمگساری کیلئے جمع تھے ۔ مجلس تعزیت کی صدارت ڈاکٹر الیاس صدیقی نے فرمائی اور فریضۂ نظامت انصاری لئیق احمد عبدالحمید نے فرمائی ۔ مجلسِ تعزت میں خانوادۂ عتیق کے چشم چراغ پرنسپال شکیل الرحمن سر، مسعود احمد ، عامر عتیقی اور دوسرے احباب موجود تھے ۔

خطبۂ صدارت میں ڈاکٹر صدیقی نے کہا کہ حضرت عتیق پوری زندگی پھل دار درخت کی طرح جھکے جھکے سے رہے علم کا سمندر ہونے کے باوجود انھوں نے کبھی تکبر نہ کیا۔ انھوں نے شاعری کے تین ادوار ، مکمل روایات ، ترقی پسندی اور مابعد جدیدیت کو نہ صرف برتا بلکہ قدم سے قدم ملا کر چلے ۔ ا لبتہ آخری دو دہائیوں میں وہ مشاعرہ بازی کے ماحول سے کنارہ کش نظر آئے ۔ ڈاکٹر الیاس صدیقی نے کہا کہ مالیگاؤں کے ادبی منظر عام میں توازن کی حیثیت آخر شمع کی سی تھی ۔ ڈاکٹر منظور حسن ایوبی نے کہا کہ عتیق احمد عتیق دوسروں کیلئے زندہ رہے ،شا ہد ماہمی نے کہا کہ ایک لازوال شخصیت تھی جس کے اٹھ جانے سے ویرانی چھاگئی ۔ ڈاکٹر غلام حیدر رفعت صدیقی نے کہا مسلم و ادیب کے بعد ان کا ہی مقام تھا ، عبدالرحیم فاروقی نے کہا کہ وہ دینی معاملات میں بھی بڑے سخت اور پابند شریعت تھے ، قران سے گہرا شغف تھا ، انھوں نے ادب کے ساتھ ساتھ دین کی بھی بڑی خدمت کی ۔ پروفیسر ارشد محوی نے کہا کہ وہ چھوٹوں سے بھی نہایت ادب و احترام سے پیش آتے تھے ۔ مدیر خیر اندیش خیال انصاری کے مطابق اکثر مدیر اپنے اخبار کے حوالے سے شناخت بناتے ہیں لیکن عتیق احمد عتیق نے رسالہ توازن کو اپنی شناخت عطا کی تھی ۔ پرنسپال محمد رضا انصاری نے کہا کہ عالمگیر شہرت کا حامل یہ شخص اپنے گھر و خاندان والوں کیلئے بھی نہایت شفیق ، ملنسار ، مخلص اور با اخلاق ثابت ہوا ۔ ان کی وضع داری کی ایک دنیا معتر ف ہے وہ پوری زندگی کام کرتے رہے ۔ ان کے نزدیک آرام حرام تھا ۔ ماسٹر سعید پرویز نے کہا کہ یہ شخص پوری زندگی حالات سے نبر د آزما رہا ۔ نوجوانوں کی طرح دوڑتا رہا ۔ شعیب صدیقی نے کہا کہ وہ چھوٹوں سے بڑی شفقت سے پیش آتے تھے ان کی مجلس سراسر تربیت کا ذریعہ تھی مختار عدیل نے کہا کہ انھوں نے اردو ادب کو جو کچھ دیا ہے وہ لازوال اور ناقابل فراموش ہے وہ ایک عظیم شاعر ہی نہیں ماہر ترتیب کار کہنہ مشق مدیر ، نثر نگا ر ، غیر جانبدار نقاد بھی تھے ، انھوں نے اپنے رسالہ کو عالمی حیثیت عطا کی تھی غلام مصطفی اثر صدیقی نے اپنے استاذ محترم کی شان میں تعزیتی نظم کا نذرانہ پیش کرکے مجلس کو گرما دیا ۔ لئیق انصاری سر نے کہا کہ پیرانہ سالی کے باوجود حضرت عتیق ہمہ تن مصروف رہا کرتے تھے ۔ کام کے تئیں ان کی لگن و انہماک دیکھ کر ہم جیسوں کو حوصلہ ملتا تھا وہ علم عروض پر بھی دسترس رکھتے تھے انھوں نے ادبی دنیا کو اپنے علم و قلم کے حوالوں سے بہت کچھ دیا ۔ ان کا اٹھ جانا پوری اردو تہذیب کا خسارہ ہے ۔ عبدالحلیم صدیقی نے ان کے شہرہ آفاق شعر سے انھیں یاد کیا ۔ 
ابھی تو صبح کی پہلی کرن ہی پھوٹی ہے 
جمال صبح ذرا دیکھنا نکھا ر کے بعد 
موصوف نے کہا کہ عتیق احمد عتیق کے معیاری کلام کو نئی نسل تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ان کی تخلیقات کو نصاب تعلیم میں جگہ دی جائے ۔ شبیر رمضان نے کہا کہ عتیق احمد عتیق کی پوری زندگی حصول علم اور ترسیل علم و ادب میں گذری ہے ۔ ان کی وضع ، قطع ، ان کا انداز تکلم ، ان کی وضع داری ہم سب کیلئے ایک مثال ہے ۔شرکاء مجلس میں لئیق ہاشمی ، رفیق مقادم ، عبدالخالق فارقلیط ، ڈاکٹر آصف سلیم ، امین صدیقی ، محمد یوسف ترجمان، صالح تابش ، شاکر شیخ ، مختار احمد قریشی ، ڈاکٹر راشد خلیقی ، پرواز اعظمی ، جاوید اخترسر ، پروفیسر حافظ عبدالحفیظ بھی موجود تھے ۔ بزرگ عالم دین مولانا شمس الضحیٰ کی دعا پر مجلس تعزیت اختتام پذیر ہوئی ۔
***

Monday, April 23, 2012

تعزیتی تحریر


نائب صدر انجمن اسلام ،مسلم ایمبولینس کے چیئرمین   ،اور اہم اور جانی مانی شخصیت    جناب محمد حسین پٹیل  کی اہلیہ حلیمہ محمد حسین پٹیل   کل شام ساڑھے سات بجے اس دارفانی  دنیا سے کوچ کرگئيں۔ان کی  عمر 74 سال تھیں ۔انھوں نے  سینٹ زیویئیرس کالج ممبئی سے انگریزی  لیٹریچر میں ایم ۔اے کیا تھا ۔تعلیم یافتہ ، صوم وصلواۃ کی پابند اور بہت ملنسار تھیں ۔قوم کی فلاح وبہبودی اور سماجی کاموں میں حصہ لیتی تھیں ۔کئی غریب عورتوں کی امداد کی کرتی تھیں۔کئی بار ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہواتھا ۔ جب بھی ان سے میں ملنے جاتی وہ بڑے پیار سے مجھے اپنے گلے لگاتی تھیں ۔ان کے قریب رہنے سے اپنے پن کا احساس ہوتا تھا ۔ان کی پر اثر شخصیت بار بار آنکھوں میں گھوم جاتی ہے ۔آج صبح منگلواڑی قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئيں ۔ممبئی اور اطراف کی علمی ،ادبی و سماجی شخصیات موجود تھیں ۔ہم دعا کرتے ہیں کہ
خداۓعزوجل مرحومہ کی مغفرت فرماۓ ۔( آمین)اور پٹیل صاحب اور ان کے اہلہ خانہ کو صبرجمیل عطا کریں ۔   

اقرا تحفظ اردو تنظیم و کرناٹک اردو اکیڈمی کامشترکہ کل ہند مشاعرہ



اقرا تحفظ اردو تنظیم و کرناٹک اردو اکیڈمی کامشترکہ کل ہند مشاعرہ 
کرناٹک اردو اکیڈمی جس تندہی اور لگن سے اردو کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے وہ ایک اہم واقعے سے بڑھ کر مثال کی سی حیثیت حاصل کرتی جارہی ہے۔ 
گذشتہ دن یعنی 19اپریل 2012کو اقرا تحفظ اردو تنظیم اور کرناٹک اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام ایک کل ہند مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں ریاست اور بیرون ریاست کے شعرا نے شرکت کی۔ اس مشاعرے کے آغاز سے پہلے افتتاحی جلسے کا انعقاد کیاگیا۔ جس میں جناب سید ضمیر پاشا آئی۔اے۔ ایس سکریٹری محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود، جناب حافظ کرناٹکی چیرمین کرناٹک اردو اکیڈمی جناب جے شفیع اللہ جوائنٹ سکریٹری الامین ایجوکیشنل سوسائٹی جناب اقبال حبیب سیٹھ مالک سونا ہونڈا، جناب سید وحید اقلیتی چیرمین شیموگا، جناب مفتی صفی اللہ صدر قدوائی اسکول، جناب نجیب اللہ مائناریٹی ڈیپارٹمنٹ، جناب محمد اسلم ٹارگیٹ سیکوریٹی سروس جناب ایم سمیع اللہ ڈسٹرکٹ اقلیتی صدر، جناب جاوید پاشا چیرمین انس گروپ ایجوکیشنل شیموگا، جناب فیاض احمد ایکس منسپل کونسلر اور جناب سید علیم اللہ صاحت نے شرکت کی۔ 
اس مجلس کی صدارت اور مشاعرے کی صدارت کے فرائض حافظ کرناٹکی صاحب نے ادا کیے۔ جب کہ مشاعرے کا افتتاح شمع روشن کر کے جناب ضمیر پاشا صاحب نے۔ افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سید ضمیر پاشا صاحب نے کہا کہ یہ میری زندگی کا پہلا مشاعرہ ہے جس کا میں افتتاح کر رہا ہوں۔ انہوں نے اردو زبان کی شیرینی و چاشنی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں اردو کا طالب علم ہوں۔ میں نے آئی، اے۔ ایس کا امتحان پاس کیا۔ اور آج آپ کے سامنے محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے سکریٹری کی حیثیت سے حاضر ہوں۔ 
اس لیے میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اردو کی تعلیم سے زندگی میں کامیابی کے راستے نہیں کھلتے ہیں تو سراسر غلط ہے۔ اردو ہماری زندگی میں کامیابی کے نئے راستے کھولتی ہے۔ اس لیے مادری زبان کی تعلیم پر ضرور توجہ دینی چاہیے۔ 
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ ہی کے ضلع کے ہیں جناب امجد حسین حافظ کرناٹکی جو ان دنوں کرناٹک اردو اکیڈمی کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کی معیت میں اردو اکیڈمی نے نئی پہچان بنائی ہے۔ اور ایسے ایسے کام کیے ہیں اور کر رہی ہے کہ پورے ملک میں اس اکیڈمی کی مثال دی جارہی ہے۔ 
انہوں نے اکیڈمی کی کار کردگی سے اپنے بھرپور اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا۔ اور کہا کہ اکیڈمی اس وقت چار چار رسالے نکال رہی ہے۔ ’’خبرنامہ‘‘کی دھوم مچی ہے۔ بچوں کے رسالے ’’صدائے اطفال‘‘ کی ہر طرف تعریف ہو رہی ہے۔ ’’ادیب‘‘ نئی مقبولیت کی مثال قائم کررہا ہے جب کہ ’’اذکار‘‘ اپنے سابقہ معیار کے ساتھ اردو کابہترین رسالہ شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ ہم خواتین کی تخلیقی صلاحیت کے فروغ کے لیے خواتین کے لیے بھی ایک رسالہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس خبر کی حاضرین نے پر زور انداز میں تائید کی۔ اور اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ اخیر میں ضمیر پاشا صاحب نے کہا کہ میرا محکمہ اردو کی ترقی کے لیے جو بھی تعاون ممکن ہوگا، ضرور کرے گا۔ 
جے شفیع اللہ صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ بات قابل تعریف ہے کہ جناب حافظ کرناٹکی صاحب نے کرناٹک اردو اکیڈمی کو نہایت فعال بنادیا ہے۔ اور ریاست کے گوشے گوشے میں اس کی موجودگی اور کارکردگی کا نشان ثبت کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیموگا والوں کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ حافظ کرناٹکی صاحب کو ذریعہ بنا کر اپنے ایم۔ ایل۔ اے، اور ایم۔پی سے مل کر اردو ہال کی تعمیر پر زور دیں۔ لوگوں نے اس خیال کی بھی پر زور تائید کی۔ 
حافظ کرناٹکی صاحب نے منظوم خطبہ صدارت پڑھا۔ انہوں نے اپنے خطبے میں اردو زبان کی چاشنی، اس کی کشش اور اس کی اہمیت پر توجہ مرکوز کرانے کی بڑی خوبصورت کوشش کی۔ انہوں نے آئے ہوئے مہمان کا بھی منظوم انداز میں استقبال کیا۔ اور تمام مہمانوں کی حاضری کو اردو زبان سے ان کی محبت پر محمول کیا اور ادبا و شعرا اور دانشوروں کی حاضری کو اردو کے فروغ کے لیے نیک فال قرار دیا۔ 
انہوں نے یہ بھی کہاکہ اردو ہال کا خواب بہت مشکل اور بہت دور کا خواب نہیں ہے۔ اگر آپ تمام لوگ اسی طرح آپسی تعاون اور اتحاد سے کام لیں گے تو انشاء اللہ یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔ البتہ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ اردو ہال پہلے بنگلور میں تعمیر ہوگا۔ اس کے بعد شیموگا میں تعمیر ہوگا۔ اقرا تحفظ اردو تنظیم کے روح رواں جناب نوید پاشا نے مہمانوں کی شال پوشی اور گل پوشی کے ساتھ مومنٹو بھی پیش کیا۔ 
اس افتتاحی نشست کی نظامت کے فرائض سید ظہیر احمد فنا نے انجام دےئے۔ حاضرین میں عمائدین شہر کے علاوہ شعرائے کرام بھی ایک بڑی جماعت شامل تھی۔

ہم متحد ہم ہوجائیں تو ہماری ساری ضرورتیں پوری ہوسکتی ہیں۔



شیموگہ گورنمنٹ گیسٹ ہاؤس میں جناب سید ضمیر پاشا صاحب (آئی۔ اے۔ ایس سکریٹری شعبہ اقلیتی فلاح و بہبود حکومت کرناٹک ) کی صدارت میں شیموگہ کے عمائدین اور قائدین کا ایک مشاورتی اجلاس بوقت 3بجے منعقد ہوا۔
 

تلاوت کلام پاک کے بعد حافظ کرناٹکی نے حاضرین کا استقبال کیا۔ استقبال کرتے ہوئے جلسے کی غرض و غایت بھی پیش کی۔ او رکہا کہ یہ شیموگہ ضلع کا ایک تاریخ ساز جلسہ ہے، ہم اپنی سعادت مندی اور نیک بختی سمجھتے ہیں کہ سید ضمیر پاشاہ صاحب نے جس دن سے اپنی ذمہ داری سنبھالی ہے وہ خاموش نہیں بیٹھے ہیں۔ آج آپ کی خدمت میں حاضرین نے اپنی ضرورتیں پیش کیں۔ انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حق بات بولنے میں ڈریں نہیں، البتہ حق بات کو اچھے انداز میں پیش کریں۔ 
جناب عبدالوحید اڈّو نے یہاں کے اوقاف، قبرستان و دیگر مسلمانوں کی کسم پرسی کا اظہار کیا، بہت سے کاموں کی طرف توجہ دلائی۔ مختلف حضرات نے اپنی رائے سے نوازا۔ علاقے کی ضرورتوں کا اظہار کیا۔ 
سید ضمیر پاشا صاحب نے اپنے اظہار میں کہا کہ ساری ضرورتیں اپنی جگہ ہیں لیکن ملت میں اتحاد کی ضرورت ہے۔ میں اس کو اپنے ڈیپارٹمنٹ میں اپنی سعادت سمجھتا ہوں جب بھی ملت کے لوگوں سے ملتا ہوں، تو لوگوں کی ضرورتوں کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارے اندر خیر سے زیادہ شر ہے اس کو دور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ 
سید ضمیر پاشا صاحب نے بہت درد سے کہا کہ آج ہمارا شیرازہ بکھر رہا ہے، ہم سب متحد ہوجائیں تو یہ سارے کام آسان ہوجائیں گے۔ سید ضمیر پاشاہ صاحب کی تقریر نے لوگوں کو بہت متاثر کیا۔ مزید ایک گھنٹہ کی گفتگو نے بہت سے مسائل کا حل نکالا، عمائدین وحاضرین کہہ رہے تھے، تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے جو آج سکریٹری سے ہم بات کر رہے ہیں۔ 
حاضرین میں عثمان صاحب، واجد صاحب، امتیاز صاحب، نیاز صاحب، جے شفیع اللہ صاحب، مولانا صفی اللہ قاسمی صاحب، تلقین صاحب، نجیب اللہ خاں، عظمت اللہ صاحب، جاوید پاشا صاحب اور فاضل صاحب شریک تھے۔

Wednesday, April 18, 2012

جماعت اسلامی ممبئی میٹرو کی جانب سے یک روزہ میڈیا ورکشاپ کا انعقاد

مسلمانوں میں میڈیا کے تئیں بیداری لانے اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی نیز میڈیا پر نظر رکھنے کے لئے ایک ٹیم کی تیاری کے لئے جماعت اسلامی ممبئی میٹرو نے میڈیا سیل جماعت اسلامی مہاراشٹر کے اشتراک سے یک روزہ میڈیا ورکشاپ کا انعقاد کیا جس میں ۲۳ مرد و سولہ خواتین نے شرکت کی ۔میڈیا ورکشاپ صبح ۳۰۔۱۰ سے شروع ہوکر شام ۴۰۔۰۵ پر اختتام پذیر ہوا۔شرکاء ورکشاپ میں میڈیا کے تئیں دلچسپی دیکھی گئی ۔انمیں یہ فکر مندی بھی پائی گئی کہ اس اکیسویں صدی میں جب کہ ذرائع ابلاغ کی قوت تسلیم شدہ ہے ،ہم مسلمان آج بھی اس کی اہمیت سے غافل ہیں ۔جبکہ کئی معروف اسکالروں کا کہنا ہے کہ ذرائع ابلاغ اکیسویں صدی کا سب سے طاقت ور ہتھیار ہیں ۔
میڈیا ورکشاپ کے چار سیشن ہوئے پہلے سیشن میں تلاوت قرآن اور اسکی ترجمانی کے بعد ریحان انصاری میڈیا سکریٹری جماعت اسلامی مہاراشٹر نے ’’ذرائع ابلاغ جمہوریت کا ستون‘‘ کے عنوان پر اپنے خطاب میں جمہوری قدروں کے فروغ میں ذرائع ابلاغ کے رول پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔اس کے بعد محمد ساجد نے ’’ذرائع ابلاغ کا طریقہ کار‘‘ اس موضوع پر انہوں ذرائع ابلاغ کے کام کرنے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔دوسرے سیشن میں ’’اسلامی تنظیموں کے لئے ذرائع ابلاغ میں مواقع‘‘ کے عنوان پر عبد المجیب عادل نے اسلامی تحریکات کے افکار و نظریات کو عوام الناس تک پہنچنے میں میڈیا کے رول پر گفتگو کی۔اس کے بعد فیروز پٹیل نے ’’ذرائع ابلاغ پر اثر انداز ہونے والے ذرائع ‘‘ کے تحت مختلف سوشل نیٹورکنگ کے حوالے سے شرکاء کو ٹوئٹر اور فیس بک سمیت انٹر نیٹ کی افادیت اور اور اسکے استعمال سے متعلق معلومات بہم پہنچائی۔
تیسرا سیشن ظہر کی نماز اور کھانے کے بعد شروع ہوا ’’ذرائع ابلاغ پر نظر ‘‘ اس کے تحت عبد المجیب عادل ،ریحان انصاری،افروز عالم ساحل اور محمد ساجد نے میڈیا پر نظر رکھنے کے مختلف نکات حاضرین کو بتائے جوکہ کافی معلوماتی اور قابل عمل ہیں۔چوتھے اور آخری سیشن میں میڈیا واچ کی عملی مشق کرائی گئی ،اس میں پرنٹ اور الیکٹرانک دونوں ہی میڈیا پر کس طرح نظر رکھی جائے اس میں بہتری کے لئے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے اس پر تفصیل سے حاضرین کوعملی مشق کرایا گیا۔اس کے بعد افروز عالم ساحل نے حق معلومات کا حق قانون اور ذرائع ابلاغ پر روشنی ڈالتے ہوئے حاضرین کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ حق معلومات کے قانون کے تحت آپ معلومات حاصل کرکے میڈیا کو ایشو دے سکتے ہیں اور آپ میڈیا میں اپنے لئے جگہ پاسکتے ہیں ۔ افروز عالم نے کہا کہ آپ صرف میڈیا یا غیروں کو الزام دینے کے بجائے اپنے اندر کے دشمنوں کو تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ ابھی حال ہی میں کرناٹک میں بڑے پیمانے پر وقف جائداد میں بد عنوانی کا جو معاملہ سامنے آیا ہے اس میں کوئی غیر نہیں اپنے ہی لوگ شامل ہیں ۔

Monday, April 16, 2012

ایک اور صدمہ

مالیگاؤں جیسے علمی وادبی اور صنعتی شہر کے بزرگ شاعر ، مدیر توازن حضرت

عتیق احمد(89) طویل علا لت کے سبب ممبئی کے کرلا میں واقع حبیب اسپتال میں اتوار کی دوپہر انتقال کر گئے۔ ان کے جسد خاکی کو مالیگاؤں لے جایا گیا ۔اور وہاں رات ان کی تدفین عمل میں آئی۔پسماندگان میں اہلیہ 5 بیٹے اور 4 بیٹیاں شامل ہیں۔عتیق احمد عتیق

مالیگاؤں کے ممتاز شعراء میں شمار کیے جاتے تھے ۔70 کی دہائی میں توازن نامی ادبی رسالہ ''توازن" جاری کیا ۔جو کہ اب تک ہندوستان کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی برابر روانہ کیا جاتا رہا ہے ۔ عتیق احمد عتیق ہر چند کہ روایتی اسلوب کے شاعر تھے ۔ لیکن جدیدیت کے دور میں انہوں نے جدید رحجانات کو قبول کرنے سے پرہیز نہیں کیا ۔وہ تمام لوگوں سے بڑی اپنایت سے ملتے تھے ۔ان کے انتقال کی وجہ سے علمی و ادبی اور سماجی فضا سوگوار ہے ۔ان کے جلوس جنازہ میں ادیبوں ، شاعروں اور ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد موجود تھی ۔

Saturday, April 14, 2012

غزل


تم قتل کی خواہش سے گزر کیوں نہیں جاتے


اک بار مجھے مار کے مر کیوں نہیں جاتے


کیوں کرتے ہو حالات کی بھٹّی میں تماشا


سونا ہو تو کندن سے نکھر کیوں نہیں جاتے


گھر جاتے ہو،ڈرجاتے ہو ،کرتے ہی نظر بند


سورج کی شعاعوں سے مکر کیوں نہیں جاتے


خوابوں کے جزیروں سے سفر کرتے ہیں منظر


بے خواب نگاہوں میں اتر کیوں نہیں جاتے


دم گھٹتا ہے رشتوں کی فصیلوں میں تمہارا



سب توڑ کے اس پار اتر کیوں نہیں جاتے


اس پار درختوں سے جدا ہو کے چلے پھل


میں سوچ رہا ہوں کہ شجر کیوں نہیں جاتے


پلکوں کے افق ٹوٹے ستاروں سے منوّر



ہیں ہاتھ دعا شاخ تو بھر کیوں نہیں جاتے


( احمد منظور)


Friday, April 13, 2012

ممبئی یونیورسٹی میں ''کتاب وسط ہند میں اردو ادب ''پر مذاکرہ













شعبہ ء اردو ممبئی میں یونیورسٹی کے زیر اہتمام ڈاکٹر مہتاب عالم کی علمی و تحقیقی کتاب پر منعقدہ مذاکرہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر عبدالستار دلوی نے کہا کہ تحقیق کا عمل جوۓئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے ۔۔اور اس میں قدم قدم پر ٹھوکر لگنے کا امکان ہوتا ہے ۔ ان تمام باتوں کے باوجود ڈاکٹر مہتاب عالم نے اس راہ پر چلتے ہوئے اعتدال وتوازن برقرار رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے ۔جس کے نتیجےم دو ضحیم جلدوں کی کتابیں وجود میں آئيں۔ناگپور سے تشریف لانے والے محقق شرف الدین ساحل نے کتاب کی تصنیف پر مہتاب عالم کو مبارک باد دی ۔ اس پروگرام کی شروعات صدر شعبہء اردو پروفیسر صاحب علی ابتدائی کلمات سے ہوئی۔انہوں نے مہتاب عالم کی اس تحقیقی تصنیف کو گراں قدر علمی و ادبی کار نار نامہ قرار دیتے ہوے کہا انہوں نے اس مشکل ترین کام کو جس حسن و حوبی کے ساتھ پایہء تکمیل تک پہنچایا یہ ان کی علمی صلاحیتوں اور محققانہ بالغ نظری کی دلیل ہے ۔اس کتاب کی رونمائی پروفیسر عبدالستاردلوی کے ہاتھوں عمل میں آئیں۔۔کتاب پر مذاکہ کے بعد ایک شعری نششت کا بھی انعقاد کیا گیا ۔شہر و اطراف کی علمی و ادبی شخصیات موجود تھیں ۔

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP