مالیگاؤں ، ۲۲؍ اپریل ، ( عبدالحلیم صدیقی)
فردوس اردو میں انجمن اردو کی حیثیت رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ شاعر و ادیب حضرت عتیق احمد عتیق کے سانحۂ ارتحال ( مورخہ ۱۵؍ اپریل ۲۰۱۲ء ) پر مالیگاؤں کی علمی ادبی فضا سوگوار ہے گذشتہ شب کائناتِ نجم النساء میں منعقدہ مجلس تعزیت میں شریک ہر چہرہ یہ کہہ رہا تھا کہ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے تب کہیں ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا ۔ حضرت عتیق کے شاگر دِ رشیدغلام مصطفی اثر صدیقی کی ایماء پر آج یہاں مالیگاؤں تعلیمی ، سماجی ، مذہبی ، ادبی و صحافتی حلقہ سے وابستہ افراد خانوادۂ عتیق کی دل جوئی و غمگساری کیلئے جمع تھے ۔ مجلس تعزیت کی صدارت ڈاکٹر الیاس صدیقی نے فرمائی اور فریضۂ نظامت انصاری لئیق احمد عبدالحمید نے فرمائی ۔ مجلسِ تعزت میں خانوادۂ عتیق کے چشم چراغ پرنسپال شکیل الرحمن سر، مسعود احمد ، عامر عتیقی اور دوسرے احباب موجود تھے ۔
خطبۂ صدارت میں ڈاکٹر صدیقی نے کہا کہ حضرت عتیق پوری زندگی پھل دار درخت کی طرح جھکے جھکے سے رہے علم کا سمندر ہونے کے باوجود انھوں نے کبھی تکبر نہ کیا۔ انھوں نے شاعری کے تین ادوار ، مکمل روایات ، ترقی پسندی اور مابعد جدیدیت کو نہ صرف برتا بلکہ قدم سے قدم ملا کر چلے ۔ ا لبتہ آخری دو دہائیوں میں وہ مشاعرہ بازی کے ماحول سے کنارہ کش نظر آئے ۔ ڈاکٹر الیاس صدیقی نے کہا کہ مالیگاؤں کے ادبی منظر عام میں توازن کی حیثیت آخر شمع کی سی تھی ۔ ڈاکٹر منظور حسن ایوبی نے کہا کہ عتیق احمد عتیق دوسروں کیلئے زندہ رہے ،شا ہد ماہمی نے کہا کہ ایک لازوال شخصیت تھی جس کے اٹھ جانے سے ویرانی چھاگئی ۔ ڈاکٹر غلام حیدر رفعت صدیقی نے کہا مسلم و ادیب کے بعد ان کا ہی مقام تھا ، عبدالرحیم فاروقی نے کہا کہ وہ دینی معاملات میں بھی بڑے سخت اور پابند شریعت تھے ، قران سے گہرا شغف تھا ، انھوں نے ادب کے ساتھ ساتھ دین کی بھی بڑی خدمت کی ۔ پروفیسر ارشد محوی نے کہا کہ وہ چھوٹوں سے بھی نہایت ادب و احترام سے پیش آتے تھے ۔ مدیر خیر اندیش خیال انصاری کے مطابق اکثر مدیر اپنے اخبار کے حوالے سے شناخت بناتے ہیں لیکن عتیق احمد عتیق نے رسالہ توازن کو اپنی شناخت عطا کی تھی ۔ پرنسپال محمد رضا انصاری نے کہا کہ عالمگیر شہرت کا حامل یہ شخص اپنے گھر و خاندان والوں کیلئے بھی نہایت شفیق ، ملنسار ، مخلص اور با اخلاق ثابت ہوا ۔ ان کی وضع داری کی ایک دنیا معتر ف ہے وہ پوری زندگی کام کرتے رہے ۔ ان کے نزدیک آرام حرام تھا ۔ ماسٹر سعید پرویز نے کہا کہ یہ شخص پوری زندگی حالات سے نبر د آزما رہا ۔ نوجوانوں کی طرح دوڑتا رہا ۔ شعیب صدیقی نے کہا کہ وہ چھوٹوں سے بڑی شفقت سے پیش آتے تھے ان کی مجلس سراسر تربیت کا ذریعہ تھی مختار عدیل نے کہا کہ انھوں نے اردو ادب کو جو کچھ دیا ہے وہ لازوال اور ناقابل فراموش ہے وہ ایک عظیم شاعر ہی نہیں ماہر ترتیب کار کہنہ مشق مدیر ، نثر نگا ر ، غیر جانبدار نقاد بھی تھے ، انھوں نے اپنے رسالہ کو عالمی حیثیت عطا کی تھی غلام مصطفی اثر صدیقی نے اپنے استاذ محترم کی شان میں تعزیتی نظم کا نذرانہ پیش کرکے مجلس کو گرما دیا ۔ لئیق انصاری سر نے کہا کہ پیرانہ سالی کے باوجود حضرت عتیق ہمہ تن مصروف رہا کرتے تھے ۔ کام کے تئیں ان کی لگن و انہماک دیکھ کر ہم جیسوں کو حوصلہ ملتا تھا وہ علم عروض پر بھی دسترس رکھتے تھے انھوں نے ادبی دنیا کو اپنے علم و قلم کے حوالوں سے بہت کچھ دیا ۔ ان کا اٹھ جانا پوری اردو تہذیب کا خسارہ ہے ۔ عبدالحلیم صدیقی نے ان کے شہرہ آفاق شعر سے انھیں یاد کیا ۔
ابھی تو صبح کی پہلی کرن ہی پھوٹی ہے
جمال صبح ذرا دیکھنا نکھا ر کے بعد
موصوف نے کہا کہ عتیق احمد عتیق کے معیاری کلام کو نئی نسل تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ان کی تخلیقات کو نصاب تعلیم میں جگہ دی جائے ۔ شبیر رمضان نے کہا کہ عتیق احمد عتیق کی پوری زندگی حصول علم اور ترسیل علم و ادب میں گذری ہے ۔ ان کی وضع ، قطع ، ان کا انداز تکلم ، ان کی وضع داری ہم سب کیلئے ایک مثال ہے ۔شرکاء مجلس میں لئیق ہاشمی ، رفیق مقادم ، عبدالخالق فارقلیط ، ڈاکٹر آصف سلیم ، امین صدیقی ، محمد یوسف ترجمان، صالح تابش ، شاکر شیخ ، مختار احمد قریشی ، ڈاکٹر راشد خلیقی ، پرواز اعظمی ، جاوید اخترسر ، پروفیسر حافظ عبدالحفیظ بھی موجود تھے ۔ بزرگ عالم دین مولانا شمس الضحیٰ کی دعا پر مجلس تعزیت اختتام پذیر ہوئی ۔
***
No comments:
Post a Comment