تم قتل کی خواہش سے گزر کیوں نہیں جاتے
اک بار مجھے مار کے مر کیوں نہیں جاتے
کیوں کرتے ہو حالات کی بھٹّی میں تماشا
سونا ہو تو کندن سے نکھر کیوں نہیں جاتے
گھر جاتے ہو،ڈرجاتے ہو ،کرتے ہی نظر بند
سورج کی شعاعوں سے مکر کیوں نہیں جاتے
خوابوں کے جزیروں سے سفر کرتے ہیں منظر
بے خواب نگاہوں میں اتر کیوں نہیں جاتے
دم گھٹتا ہے رشتوں کی فصیلوں میں تمہارا
سب توڑ کے اس پار اتر کیوں نہیں جاتے
اس پار درختوں سے جدا ہو کے چلے پھل
میں سوچ رہا ہوں کہ شجر کیوں نہیں جاتے
پلکوں کے افق ٹوٹے ستاروں سے منوّر
ہیں ہاتھ دعا شاخ تو بھر کیوں نہیں جاتے
( احمد منظور)
No comments:
Post a Comment