عتیق احمد عتیق رجحان ساز تھے
عبدالحلیم صدیقی
مالیگاؤں میونسپل کارپوریشن انتخابات کے نتائج آنے کے ۲۴؍ گھنٹہ بعد ہی کانگریس آئی کے ساتھ تیسرا محاذ کا ملاپ ہوا تو بے اختیار یہ شعر ہزاروں دانشمندوں کی زبان پر آگیا کہ
’’ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ‘‘
اس موضوع پر مذید کچھ اظہار سے قبل میں اپنے قارئین کو پانچ برس قبل کے حالات و واقعات کی یاد دہانی کرادینا چاہتا ہوں ۔ جب مالیگاؤں کی عوام نے تمام روایتی پارٹیوں سے اظہار بیزاری کرتے ہوئے علمائے دین کی قیادت میں قائم ہونے والے تھرڈ فرنٹ یعنی تیسرا محاذ کو سر آنکھوں پر بٹھایا تھا اس وقت بھی رائے عامہ کے خلاف تیسرا محاذ نے کانگریس آئی سے سمجھوتہ کرکے میونسپل اقتدار بنا لیا تھا ۔تب عوام نے تیسرا محاذ کے ذمہ داران کو لعن طعن کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم کو دھوکہ دیا گیا ۔ ہمارے جذبات سے کھلواڑ کیا گیا ۔ جو ووٹ ہم نے کانگریس این سی پی سرکار کو سبق سکھلانے کیلئے دیا تھا وہ رائیگاں گیا ۔ یہ ناپاک اتحاد بالآخر اسمبلی چناؤ کے عین پہلے ٹوٹ گیا ۔ کیونکہ اسمبلی میں کانگریس اور تیسرا محاذ دونوں کو اپنے اپنے امیدوار اتارنے تھے ۔اور دونوں نے ساس بہو کی طرح ایکدوسرے کو کوستے کوستے طلاق مغلظہ دے دی ۔ اسمبلی چناؤ ہوا اور عوام نے سابقہ پیشہ ور سیاستدانوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے ایک عالم دین کو اپنا ووٹ دے دیا ۔ انھیں کل ۷۲ ہزار ووٹ ملے ۔ اور کانگریس امیدوار کو ۵۴ ہزار ووٹ ملی ۔ لیکن حالیہ میونسپل چناؤ سے قبل انھیں مفتی اسمٰعیل نے جانے کونسا آکسیجن دیا کہ وہ پوری قوت سے اٹھ بیٹھے اور دونوں لیڈران نے زبردست سیاسی حکمت عملی سے حالیہ چناؤ میں اول و دوم پوزیشن حاصل کرلی ۔کانگریس کو حسب سابق اسمبلی میں جتنے ووٹ ملے تھے لگ بھگ اتنے ہی یعنی ۵۲ ہزار ووٹ ملے البتہ تیسرا محاذ کو اسمبلی کے مقابلے ۲ ۲ ہزار ووٹ کم ملے ۔ اسمبلی میں مفتی اسمٰعیل کو ۷۲ ہزار ووٹ ملے تھے آج انھیں مجموعی طور پر ۸ ۴ ہزار ووٹ ملے پانچ سال قبل ان کے ۲۸ کارپوریٹر چنے گئے تھے آج ۱۹ ہیں ۔ آج جب کہ کانگریس کے ساتھ تیسرا محاذ نے تجدید ملاپ کا ڈرامہ پھر سے رچا ہے عوام کے ذہنوں میں بالخصوص تیسرا محاذ کوو وٹ دینے والے ۴۸ ہزار ووٹروں کے ذہن میں یہ سوال کھٹک رہا ہے کہ ہم نے تو اپنا ووٹ تیسرا محاذ کو دیا تھا۔ ہم نے تو اپنا ووٹ کانگریس کے خلاف دیا تھا ، ان ووٹوں کو ہول سیل داموں میں مفتی صاحب ورشا پر گروی رکھ کر کیوں آگے کس سے صلاح لی گئی ۔ کس سے پوچھا گیا کیا یہ ووٹوں کی تجارت نہیں ہے ۔ اس سے بھی بڑا سوال کانگریس اور تیسرا محاذ کے ہمدردوں ، ورکروں کے ذہن میں کھٹک رہا ہے کہ آخری دونوں سیاسی حریف اگر میونسپل اقتدار کیلئے آج مل گئے تو کیا یہ اتحاد اسمبلی چناؤ میں بھی قائم رہے گا ۔ اگر قائم رہے گا تو دونوں میں سے کون ہوگا اگلا ایم ایل اے ؟؟ اعلیٰ سطح پر کیا کسی قسم کی ساز باز ڈیلنگ یا معاہدہ ہوا ہے ۔اگر ہوا ہے تو اس کا علم عوام کو کیوں نہیں ؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔ بس قارئین عرض تو یہی کرنا ہے کہ اب اس سیاسی ڈرامہ کے اگلے ڈراپ سین کا انتظار کریں ۔
میں نے گذشتہ مضامین میں بھی لکھاتھا کہ مالیگاؤں کی عوام کو ان کے احساسات ان کے جذبات کو روند کر سیاستداں صرف اپنے ذاتی مفادات کیلئے عوام کو ٹھگ رہے ہیں ۔ اور یہ حالت خود عوام نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے ان کے ہاتھ جب ووٹوں کا ہتھیار تھا تو ان کی آنکھوں پر عقیدت کی پٹی چڑھی ہوئی تھی ۔ یہ اپنے ووٹوں کا سودا کررہے تھے ، خالص مذہبی دین دار تعلیم یافتہ مہذب سوسائٹی سے جو قابل ؟ شریف ؟ نمائندے چنے گئے ہیں ان کے اوصاف بیان کرکے ہم اپنا قلم گندہ نہیں کرنا چاہتے۔ اعمال کی خرابی اور نیت کی کھوٹ مالیگاؤں کو زوال کے دن دکھلائے ہیں، کانگریس اور خفیہ کانگریس کے درمیان جب ممبئی کے ورشاء بنگلے پر میل ملاپ کی شرطیں طئے ہورہی تھیں ۔ تو پاور لوم صنعت کو تباہی کے دہانے پر دھکیلنے والی جکات وصولی کے خاتمہ کا ذکر تک نہ ہوا ۔ جب کہ حالیہ اسمبلی اجلاس کے دوران خود وزیر اعلیٰ مہاراشٹر نے مہاراشٹر کی تمام Dکلاس میونسپل کارپوریشنوں سے جکات وصولی 16اپریل 2012سے ختم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن آج ماہِ اپریل ختم ہورہا ہے مالیگاؤں سے آکٹرائے کا جنازہ نہیں نکلا ۔شاید آکٹرائے ٹھیکدار سے ملنے والی ملائی نے ہمارے لیڈران کے گلے کو جکڑ لیا ہے ۔ ہمارے مفتی صاحب نے وزیر اعلیٰ کے سامنے یہ بھی نہیں کہا کہ جن بے قصوروں کو اسلحہ ضبطی کے الزام میں چھ سال سے آپ نے بند کر رکھاہے انھیں کب چھوڑو گے ؟؟ ہمیں انصاف کب دو گے ؟؟ دونوں کانگریس کے ملاپ والے معاہدہ میں بہت سے خیالی پلاؤ پکائے گئے لیکن یہ سوال نہیں کھڑا ہے کہ مالیگاؤں کو D+Zoneکی صنعتی سہولت کب دو گے ( جو ایچل کرنجی کو حاصل ہے ) ؟؟ یہ پوچھنے کی زحمت بھی گوارانہ کی گئی کہ مالیگاؤں کو ضلع کا درجہ کب دیا جائے گا جبکہ مالیگاؤں کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان عبدالرحمن انتولے نے بحیثیت وازیر اعلی کیا تھا ۔ لیکن اس پر عمل آج تک نہیں ہوا ۔ مالیگاؤں میں ریلوے لائن بچھانے کی توفیق نہ انگریزوں کو ہوئی نہ آزاد ہندوستان میں کانگریس سرکاروں کو ہوئی ۔
مالیگاؤں آج جو کچھ بھی ہے عوام کی محنت کے بل پر ہے یہاں کے بنکروں سے سرکار کو سالانہ ایک ہزار کروڑ روپئے کا فائدہ ہوتا ہے اس میں سے سو دو سو کروڑ کی بھیک دے کر اگر یہ سرکار ہم پر احسان جتانے کی کوشش کرے گی ۔ تو ہم قطعئ اسے نہیں مانیں گے۔ اور بم دھماکوں اسلحہ ضبطی کیس کے معاملات میں تو مالیگاؤں کی عوام کانگریس کی دوغلی پالیسوں سے سخت نالاں و ناراض ہے ۔ لیکن نادان لیڈر شپ نے ذاتی مفادات کیلئے مالیگاؤں کے پچاس ہزار ووٹروں کے کانگریس مخالف ووٹ کا سودا کرلیا ۔ انھیں ہول سیل میں ورشا پر بیچ آئے آج تیسرا محاذ کو اپنا قیمتی ووٹ دینے والوں کے دل کی کیفیت ایسی ہے ’’جیسے دہلی کے چاندنی چوک میں کسی ٹھگ اسکے تینوں جیب خالی کردئے ہوں ۔ ‘‘
***
عبدالحلیم صدیقی
مالیگاؤں میونسپل کارپوریشن انتخابات کے نتائج آنے کے ۲۴؍ گھنٹہ بعد ہی کانگریس آئی کے ساتھ تیسرا محاذ کا ملاپ ہوا تو بے اختیار یہ شعر ہزاروں دانشمندوں کی زبان پر آگیا کہ
’’ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ‘‘
اس موضوع پر مذید کچھ اظہار سے قبل میں اپنے قارئین کو پانچ برس قبل کے حالات و واقعات کی یاد دہانی کرادینا چاہتا ہوں ۔ جب مالیگاؤں کی عوام نے تمام روایتی پارٹیوں سے اظہار بیزاری کرتے ہوئے علمائے دین کی قیادت میں قائم ہونے والے تھرڈ فرنٹ یعنی تیسرا محاذ کو سر آنکھوں پر بٹھایا تھا اس وقت بھی رائے عامہ کے خلاف تیسرا محاذ نے کانگریس آئی سے سمجھوتہ کرکے میونسپل اقتدار بنا لیا تھا ۔تب عوام نے تیسرا محاذ کے ذمہ داران کو لعن طعن کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم کو دھوکہ دیا گیا ۔ ہمارے جذبات سے کھلواڑ کیا گیا ۔ جو ووٹ ہم نے کانگریس این سی پی سرکار کو سبق سکھلانے کیلئے دیا تھا وہ رائیگاں گیا ۔ یہ ناپاک اتحاد بالآخر اسمبلی چناؤ کے عین پہلے ٹوٹ گیا ۔ کیونکہ اسمبلی میں کانگریس اور تیسرا محاذ دونوں کو اپنے اپنے امیدوار اتارنے تھے ۔اور دونوں نے ساس بہو کی طرح ایکدوسرے کو کوستے کوستے طلاق مغلظہ دے دی ۔ اسمبلی چناؤ ہوا اور عوام نے سابقہ پیشہ ور سیاستدانوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے ایک عالم دین کو اپنا ووٹ دے دیا ۔ انھیں کل ۷۲ ہزار ووٹ ملے ۔ اور کانگریس امیدوار کو ۵۴ ہزار ووٹ ملی ۔ لیکن حالیہ میونسپل چناؤ سے قبل انھیں مفتی اسمٰعیل نے جانے کونسا آکسیجن دیا کہ وہ پوری قوت سے اٹھ بیٹھے اور دونوں لیڈران نے زبردست سیاسی حکمت عملی سے حالیہ چناؤ میں اول و دوم پوزیشن حاصل کرلی ۔کانگریس کو حسب سابق اسمبلی میں جتنے ووٹ ملے تھے لگ بھگ اتنے ہی یعنی ۵۲ ہزار ووٹ ملے البتہ تیسرا محاذ کو اسمبلی کے مقابلے ۲ ۲ ہزار ووٹ کم ملے ۔ اسمبلی میں مفتی اسمٰعیل کو ۷۲ ہزار ووٹ ملے تھے آج انھیں مجموعی طور پر ۸ ۴ ہزار ووٹ ملے پانچ سال قبل ان کے ۲۸ کارپوریٹر چنے گئے تھے آج ۱۹ ہیں ۔ آج جب کہ کانگریس کے ساتھ تیسرا محاذ نے تجدید ملاپ کا ڈرامہ پھر سے رچا ہے عوام کے ذہنوں میں بالخصوص تیسرا محاذ کوو وٹ دینے والے ۴۸ ہزار ووٹروں کے ذہن میں یہ سوال کھٹک رہا ہے کہ ہم نے تو اپنا ووٹ تیسرا محاذ کو دیا تھا۔ ہم نے تو اپنا ووٹ کانگریس کے خلاف دیا تھا ، ان ووٹوں کو ہول سیل داموں میں مفتی صاحب ورشا پر گروی رکھ کر کیوں آگے کس سے صلاح لی گئی ۔ کس سے پوچھا گیا کیا یہ ووٹوں کی تجارت نہیں ہے ۔ اس سے بھی بڑا سوال کانگریس اور تیسرا محاذ کے ہمدردوں ، ورکروں کے ذہن میں کھٹک رہا ہے کہ آخری دونوں سیاسی حریف اگر میونسپل اقتدار کیلئے آج مل گئے تو کیا یہ اتحاد اسمبلی چناؤ میں بھی قائم رہے گا ۔ اگر قائم رہے گا تو دونوں میں سے کون ہوگا اگلا ایم ایل اے ؟؟ اعلیٰ سطح پر کیا کسی قسم کی ساز باز ڈیلنگ یا معاہدہ ہوا ہے ۔اگر ہوا ہے تو اس کا علم عوام کو کیوں نہیں ؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔ بس قارئین عرض تو یہی کرنا ہے کہ اب اس سیاسی ڈرامہ کے اگلے ڈراپ سین کا انتظار کریں ۔
میں نے گذشتہ مضامین میں بھی لکھاتھا کہ مالیگاؤں کی عوام کو ان کے احساسات ان کے جذبات کو روند کر سیاستداں صرف اپنے ذاتی مفادات کیلئے عوام کو ٹھگ رہے ہیں ۔ اور یہ حالت خود عوام نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے ان کے ہاتھ جب ووٹوں کا ہتھیار تھا تو ان کی آنکھوں پر عقیدت کی پٹی چڑھی ہوئی تھی ۔ یہ اپنے ووٹوں کا سودا کررہے تھے ، خالص مذہبی دین دار تعلیم یافتہ مہذب سوسائٹی سے جو قابل ؟ شریف ؟ نمائندے چنے گئے ہیں ان کے اوصاف بیان کرکے ہم اپنا قلم گندہ نہیں کرنا چاہتے۔ اعمال کی خرابی اور نیت کی کھوٹ مالیگاؤں کو زوال کے دن دکھلائے ہیں، کانگریس اور خفیہ کانگریس کے درمیان جب ممبئی کے ورشاء بنگلے پر میل ملاپ کی شرطیں طئے ہورہی تھیں ۔ تو پاور لوم صنعت کو تباہی کے دہانے پر دھکیلنے والی جکات وصولی کے خاتمہ کا ذکر تک نہ ہوا ۔ جب کہ حالیہ اسمبلی اجلاس کے دوران خود وزیر اعلیٰ مہاراشٹر نے مہاراشٹر کی تمام Dکلاس میونسپل کارپوریشنوں سے جکات وصولی 16اپریل 2012سے ختم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن آج ماہِ اپریل ختم ہورہا ہے مالیگاؤں سے آکٹرائے کا جنازہ نہیں نکلا ۔شاید آکٹرائے ٹھیکدار سے ملنے والی ملائی نے ہمارے لیڈران کے گلے کو جکڑ لیا ہے ۔ ہمارے مفتی صاحب نے وزیر اعلیٰ کے سامنے یہ بھی نہیں کہا کہ جن بے قصوروں کو اسلحہ ضبطی کے الزام میں چھ سال سے آپ نے بند کر رکھاہے انھیں کب چھوڑو گے ؟؟ ہمیں انصاف کب دو گے ؟؟ دونوں کانگریس کے ملاپ والے معاہدہ میں بہت سے خیالی پلاؤ پکائے گئے لیکن یہ سوال نہیں کھڑا ہے کہ مالیگاؤں کو D+Zoneکی صنعتی سہولت کب دو گے ( جو ایچل کرنجی کو حاصل ہے ) ؟؟ یہ پوچھنے کی زحمت بھی گوارانہ کی گئی کہ مالیگاؤں کو ضلع کا درجہ کب دیا جائے گا جبکہ مالیگاؤں کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان عبدالرحمن انتولے نے بحیثیت وازیر اعلی کیا تھا ۔ لیکن اس پر عمل آج تک نہیں ہوا ۔ مالیگاؤں میں ریلوے لائن بچھانے کی توفیق نہ انگریزوں کو ہوئی نہ آزاد ہندوستان میں کانگریس سرکاروں کو ہوئی ۔
مالیگاؤں آج جو کچھ بھی ہے عوام کی محنت کے بل پر ہے یہاں کے بنکروں سے سرکار کو سالانہ ایک ہزار کروڑ روپئے کا فائدہ ہوتا ہے اس میں سے سو دو سو کروڑ کی بھیک دے کر اگر یہ سرکار ہم پر احسان جتانے کی کوشش کرے گی ۔ تو ہم قطعئ اسے نہیں مانیں گے۔ اور بم دھماکوں اسلحہ ضبطی کیس کے معاملات میں تو مالیگاؤں کی عوام کانگریس کی دوغلی پالیسوں سے سخت نالاں و ناراض ہے ۔ لیکن نادان لیڈر شپ نے ذاتی مفادات کیلئے مالیگاؤں کے پچاس ہزار ووٹروں کے کانگریس مخالف ووٹ کا سودا کرلیا ۔ انھیں ہول سیل میں ورشا پر بیچ آئے آج تیسرا محاذ کو اپنا قیمتی ووٹ دینے والوں کے دل کی کیفیت ایسی ہے ’’جیسے دہلی کے چاندنی چوک میں کسی ٹھگ اسکے تینوں جیب خالی کردئے ہوں ۔ ‘‘
***
No comments:
Post a Comment