پارلیامنٹری بلس آبزرورس کمیٹی جو پچھلے تین سالوں سے
پارلیمنٹ میں پیش اور پاس ہونے والے بلوں اور ان کے مسلمانان ہند پر پڑنے والے
مضمرات پر نہ صرف یہ کہ نظر رکھتی ہے بلکہ اس سلسلے میں امت کی بیداری کے فرائض کو
بھی اپنی بساط بھر نبھاتی ہے ۔اسی سلسلے میں ۲۷؍ اپریل کو اسلام جم
خانہ کے لان میں شہر کے معززین کے ساتھ ایک میٹنگ کا انعقاد کیا گیا ،جس میں نسیم
الدین صدیقی ،سابق چیئر مین اقلیتی کمیشن حکومت مہاراشٹر ،ڈاکٹر ظہیر قاضی،صدر
انجمن اسلام،ایڈووکیٹ سعید اختر،پروفیسر ایس اے ایم ہاشمی اور دیگر شامل تھے
۔کمیٹی کے کوآرڈینیٹر جناب مقبول عالم نے بتایا کہ یون تو امت مسلمہ کی بہت ساری
تنظیمیں موجود ہیں لیکن پارلیمنٹ کی کارروائیوں پر نظر رکھنے والی کوئی تنظیم نہیں
تھی جو خصوصیت سے صرف پارلیمنٹ میں پیش و پاس ہونے والے بلوں پر نظر رکھ کر اس سے
امت مسلمہ کو آگاہ کرے کہ اس سے وہ کہاں تک فیض یاب ہو سکتے ہیں یا اس سے انہیں
کیا نقصانات ہو سکتے ہیں ۔ہمارا مقصد نہ صرف یہ ہے کہ اس کے مضمرات سے امت کو آگاہ
کیا جائے بلکہ اس کا نعم البدل بھی پیش کیا جائے اور پارلیمنٹ سمیت امت کی دیگر
تنظیموں کو اس سے آگاہ کرکے بل کو پاس ہونے سے قبل ہی ان میں ضروری ترمیمات کی
گزارش پارلیمنٹ کو بھیجی جائے ۔
اقلیتی کمیشن مہاراشٹرا کے سابق چیئر مین جناب نسیم الدین صدیقی نے کہا کہ یہ کام مشکل ضرورہے لیکن یہ وقت کی انتہائی ضرورت ہے کہ قانون کو بننے سے پہلے اس کے مضمرات سے آگاہ ہوکر اس میں ترمیم کی سفارش کی جائے۔ایڈووکیٹ سعید اختر نے کہا کہ اس کام کی شروعات بہت مشکل اور صبر آزما ہے لیکن یہ انتہائی ضروری ہے ۔کئی ایسے بل پارلیمنٹ میں پاس ہو گئے امت سوتی رہی آج ہمارے سامنے جب اس قانون کی رو سے مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کھویا ۔ہمارے سامنے اسمٰعیل یوسف کالج کا مسئلہ ہے جس کے لئے ۱۹۱۲ میں سر یوسف اس وقت کی حکومت کو آٹھ لاکھ روپئے دئے تھے تاکہ مسلمانوں کے لئے کوئی تعلیمی ادارہ کھولا جاسکے ، ۱۹۲۸ میں ساڑھے باسٹھ ایکڑ زمین خریدی گئی ۔لیکن آج جو کچھ اسمٰعیل یوسف کالج کے ساتھ ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔
اقلیتی کمیشن مہاراشٹرا کے سابق چیئر مین جناب نسیم الدین صدیقی نے کہا کہ یہ کام مشکل ضرورہے لیکن یہ وقت کی انتہائی ضرورت ہے کہ قانون کو بننے سے پہلے اس کے مضمرات سے آگاہ ہوکر اس میں ترمیم کی سفارش کی جائے۔ایڈووکیٹ سعید اختر نے کہا کہ اس کام کی شروعات بہت مشکل اور صبر آزما ہے لیکن یہ انتہائی ضروری ہے ۔کئی ایسے بل پارلیمنٹ میں پاس ہو گئے امت سوتی رہی آج ہمارے سامنے جب اس قانون کی رو سے مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کھویا ۔ہمارے سامنے اسمٰعیل یوسف کالج کا مسئلہ ہے جس کے لئے ۱۹۱۲ میں سر یوسف اس وقت کی حکومت کو آٹھ لاکھ روپئے دئے تھے تاکہ مسلمانوں کے لئے کوئی تعلیمی ادارہ کھولا جاسکے ، ۱۹۲۸ میں ساڑھے باسٹھ ایکڑ زمین خریدی گئی ۔لیکن آج جو کچھ اسمٰعیل یوسف کالج کے ساتھ ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔
No comments:
Post a Comment