You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Tuesday, January 29, 2019

انٹرویو

     بڑی دوڑ دھوپ کے بعد وہ آفس پہنچ گیا _ آج اس کا انٹرویو تھا ۔

     وہ گھر سے نکلتے ہوئے سوچ رہا تھا : اے کاش ، آج میں کامیاب ہو گیا تو فوراً اپنے پشتینی مکان  کو خیر باد کہہ دونگا اور یہیں شہر میں قیام کروں گا  _ امی اور ابو کی روزانہ کی مغزماری  سے جان چھڑا لوں گا ۔!
      صبح جاگنے سے لےکر رات کو سونے تک ہونے والی مغز ریزی سے اکتا گیا ہوں ، بیزار ہو گیا ہوں ۔
     صبح غسل خانے کی تیاری کرو تو حکم ہوتا ہے :پہلے بستر کی چادر درست کرو پھر غسل خانے جاؤ !
     غسل خانے سے نکلو تو فرمان جاری ہوتا ہے: نل بند کردیا _ تولیہ سہی جگہ پر رکھا ہے یا یوں ہی پھینک دیا ؟
     ناشتہ کرکے کے گھر سے نکلنے کا سوچو تو ڈانٹ پڑی : پنکھا بند کیا یا چل رہا ہے ؟
    کیا کیا سنیں؟؟! یار، نوکری ملے تو گھر چھوڑ دوں گا -

     آفس میں  بہت سے امیدوار بیٹھے "باس " کا انتظار کر رہے تھے _ دس بج گئے تھے  _ اس نے دیکھا ، پیسج کی  بتی ابھی تک جل رہی ہے _ امی یاد  آگئیں تو بتی بجھا دی ۔ آفس کے دروازے پر کوئی نہیں تھا _
بازو میں رکھے واٹر کولر سے پانی رس رہاتھا ، اس کو بند کردیا _ والد صاحب کی ڈانٹ یاد آگئی _
      بورڈ لگا تھا : انٹرویو دوسری منزل پر ہوگا !
      سیڑھی کی لائٹ بھی جل رہی تھی _ اسے بند کرکے آگے بڑھا تو ایک کرسی سر راہ دکھائی دی _ اسے ہٹاکر اوپر گیا_  دیکھا ، پہلے سے موجود امیدوار اندر جاتے اور فوراً واپس آجاتے تھے _ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وہ اپلیکیشن لے کر کچھ پوچھتے نہیں ہیں ، فوراً واپس بھیج دیتے ہیں ۔

      میرا نمبر آنے پر میں نے اپنی فائل مینجر کے سامنے رکھ دی _ تمام کاغذات دیکھ کر مینجر نے پوچھا : کب سے جوائن کر رہے ہو ؟
      ان کے سوال پر مجھے یوں لگا ، جیسے آج یکم اپریل ہو اور یہ مجھے 'فول' بنا رہے ہیں -
مینجر نے محسوس کر لیا اور کہا : اپریل فول نہیں ، حقیقت ہے ۔

     آج کے انٹرویو میں کسی سے کچھ پوچھا ہی نہیں گیا ہے_  صرف CCTV میں امیدواروں کا برتاؤ دیکھا گیا ہے _  سبھی امیدوار آئے ، مگر کسی نے  نل یا لائٹ بند نہیں کی ، سوائے تمھارے _
     مبارک باد کے مستحق ہیں تمہارے والدین ، جنہوں نے تمہیں تمیز اور تہذیب سکھائی ہے  _
     جس شخص کے پاس Self Discipline نہیں ، وہ چاہے جتنا ہوشیار اور چالاک ہو ، مینجمینٹ اور زندگی کی دوڑ میں پوری طرح کام یاب نہیں ہو سکتا  _
     یہ سب ہو جانے کے بعد میں نے پوری طرح طے کر لیا کہ گھر پہنچتے ہی امی اور ابو سے معافی مانگ کر انہیں بتاؤں گا کہ آج اپنی زندگی کی پہلی آزمائش میں ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر روکنے اور ٹوکنے کی باتوں نے مجھے جو سبق پڑھایا ہے ان کے مقابل میری ڈگری کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔
     زندگی کے سفر میں تعلیم ہی نہیں ، تہذیب کا اپنا مقام ہے _
( منقول )

Sunday, January 27, 2019

کرشن موہن

*آج - 27 / جنوری

*اسلوب زبان، قدیم ہندوستانی فکر اور ممتاز و معروف شاعر” کرشن موہنؔ “ کی برسی...*

نام *کرشن لال بھاٹیا*   تخلص *کرشن موہنؔ* تھا ۔ *٢٨ نومبر ١٩٢٢ء* کو *سیالکوٹ* پیدا ہوئے ۔  ان کے والد، *گنپت رائے بھاٹیا* میروت کی ضلعی عدالت میں وکیل تھے۔ *گنپت رائے* بھی اردو شاعر تھے، ان کا تخلص *شاکرؔ* تھا۔ اپنے اسکول کے مطالعے کو مکمل کرنے کے بعد، کرشن موہن نے اپنا بی اے  (Hon' s)کی ڈگری حاصل کی اور فارسی میں مریے کالج، سیالکوٹ کے طالب علم کے طور پر جہاں وہ کالج ہاؤس میگزین کے ایڈیٹر بھی تھے۔ بعد میں انہوں نے گورنمنٹ کالج، لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی، برطانوی بھارت کے تقسیم کے بعد ان کے خاندان کرنال منتقل ہوگئے جہاں کرشن موہن نے فلاح و بہبود کے ملازمین کے طور پر عارضی ملازمت کی ۔  اس کے بعد صحافیوں کے طور پر آل انڈیا ریڈیو کے اشاعت *"موج"* کے طور پر کام کیا. ان کی نظموں کی مجموعی آٹھ کتابیں شائع کی گئیں ہیں جن میں اب تک *'شبنم شبنم '، دلِ ناداں '،' تماشا '،' غزل '،' نگاہِ ناز '،'آہنگِ وطن'، 'بیراگی بھنورا '، ' شیرازہ '،' میشگان '،' گیان مارگ کی نظمیں '،' کفرستان '،' اداسی کے پانچ روپ '،' ہرجائی '،' تیری خوشبو '* وغیرہ۔سال  *٢٧ جنوری ٢٠٠٤ء* کو دہلی میں کرشن موہن کی وفات ہوی۔

💦 *معروف شاعر کرشن موہنؔ  کی برسی پر منتخب اشعار اظہارِ عقیدت...* 💦

جب بھی کی تحریر اپنی داستاں
تیری ہی تصویر ہو کر رہ گئی
---
جب بھی ملے وہ ناگہاں جھوم اٹھے ہیں قلب و جاں
ملنے میں لطف ہے اگر ملنا ہو کام کے بغیر
---
زندگی کے آخری لمحے خوشی سے بھر گیا
ایک دن اتنا ہنسا وہ ہنستے ہنستے مر گیا
---
مکاں اندر سے خستہ ہو گیا ہے
اور اس میں ایک رستہ ہو گیا ہے
---
*وہ کیا زندگی جس میں جوشش نہیں*
*وہ کیا آرزو جس میں کاوش نہیں*
---
کریں تو کس سے کریں ذکرِ خانہ ویرانی
کہ ہم تو آگ نشیمن کو خود لگا آئے
---
*نالۂ صبح کے بغیر گریۂ شام کے بغیر*
*ہوتا نہیں  وصال یار سوز دوام کے بغیر*
---
کچھ حقائق کو اگر میں نے کیا ہے بے نقاب
ہو گئے ناراض مجھ سے شعر کے نباض کیوں
---
*جنوں عرفان بن کر رہ گیا ہے*
*یہ کفر ایمان بن کر رہ گیا ہے*
---
*ترس رہا ہوں عدم آرمیدہ خوشبو کو*
*کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں رمیدہ آہو کو*
---
آرزو  تدبیر  ہو  کر رہ گئی
جستجو تاخیر ہو کر رہ گئی
---
بابِ حسرت داستانِ شوق تصویرِ امید
لمحہ لمحہ زندگی اوراق الٹتی جائے ہے
---
*چاہتوں کا جہان ہے اردو*
*راحتوں  کا  نشان  ہے  اردو*
---
کوئی امید نہ بر آئی شکیبائی کی
اس نے باتوں میں بہت حاشیہ آرائی کی
---
ہم تو اب جاتی رتیں ہیں ہم سے یہ اغماض کیوں
جرم کیا ہم نے کیا ہے آپ ہیں ناراض کیوں
---
*دبستانِ سخن اب کرشنؔ موہن*
*شعور‌ستان

             

         

Tuesday, January 01, 2019

*انتہائی منفرد لب و لہجہ اور مضامین میں جدت و ندرت رچنے والے شاعر راحت اندوری صاحب کا یوم ولادت...یکم جنوری* نام راحت اللہ اور تخلص راحت ہے۔ یکم جنوری ۱۹۵۰ء کو اندور ، بھارت میں پید ا ہوئے ۔ انھیں کراچی کے عالمی مشاعرے میں شرکت کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’ دھوپ، دھوپ‘‘، ’’میرے بعد‘‘، ’’پانچواں درویش‘‘، ’’رت بدل گئی‘‘، ’’ناراض‘‘، ’’موجود‘‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:401 راحت صاحب کے یوم ولادت کے موقع پر ان کے کچھ منتخب و منفرد اشعار احباب کی خدمت میں پیش ہیں.... *انتخاب و پیشکش....طارق اسلم* *آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو* *زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو* اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے *اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو* *دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے* ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو *بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر* *جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں* بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئے میں پینا چاہتا ہوں پلا دینی چاہئے *خیال تھا کہ یہ پتھراؤ روک دیں چل کر* *جو ہوش آیا تو دیکھا لہو لہو ہم تھے* *دوستی جب کسی سے کی جائے* *دشمنوں کی بھی رائے لی جائے* روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے *سورج ستارے چاند مرے سات میں رہے* *جب تک تمہارے ہات مرے ہات میں رہے* *شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم* *آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے* گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے *مری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے* *مرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے* مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے *میں آ کر دشمنوں میں بس گیا ہوں* *یہاں ہمدرد ہیں دو چار میرے* میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی *میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ* *گیلی زمین کھود کے فرہاد ہو گئے* میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا اک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہئے *نئے کردار آتے جا رہے ہیں* *مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے* نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا *وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا* *میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا* کالج کے سب بچے چپ ہیں کاغذ کی اک ناؤ لیے چاروں طرف دریا کی صورت پھیلی ہوئی بیکاری ہے *ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے* *کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے* *یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے* *نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو* یہ ہوائیں اڑ نہ جائیں لے کے کاغذ کا بدن دوستو مجھ پر کوئی پتھر ذرا بھاری رکھو

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP