Tuesday, January 01, 2019
*انتہائی منفرد لب و لہجہ اور مضامین میں جدت و ندرت رچنے والے شاعر راحت اندوری صاحب کا یوم ولادت...یکم جنوری* نام راحت اللہ اور تخلص راحت ہے۔ یکم جنوری ۱۹۵۰ء کو اندور ، بھارت میں پید ا ہوئے ۔ انھیں کراچی کے عالمی مشاعرے میں شرکت کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’ دھوپ، دھوپ‘‘، ’’میرے بعد‘‘، ’’پانچواں درویش‘‘، ’’رت بدل گئی‘‘، ’’ناراض‘‘، ’’موجود‘‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:401 راحت صاحب کے یوم ولادت کے موقع پر ان کے کچھ منتخب و منفرد اشعار احباب کی خدمت میں پیش ہیں.... *انتخاب و پیشکش....طارق اسلم* *آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو* *زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو* اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے *اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو* *دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے* ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو *بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر* *جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں* بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئے میں پینا چاہتا ہوں پلا دینی چاہئے *خیال تھا کہ یہ پتھراؤ روک دیں چل کر* *جو ہوش آیا تو دیکھا لہو لہو ہم تھے* *دوستی جب کسی سے کی جائے* *دشمنوں کی بھی رائے لی جائے* روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے *سورج ستارے چاند مرے سات میں رہے* *جب تک تمہارے ہات مرے ہات میں رہے* *شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم* *آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے* گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے *مری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے* *مرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے* مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے *میں آ کر دشمنوں میں بس گیا ہوں* *یہاں ہمدرد ہیں دو چار میرے* میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی *میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ* *گیلی زمین کھود کے فرہاد ہو گئے* میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا اک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہئے *نئے کردار آتے جا رہے ہیں* *مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے* نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا *وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا* *میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا* کالج کے سب بچے چپ ہیں کاغذ کی اک ناؤ لیے چاروں طرف دریا کی صورت پھیلی ہوئی بیکاری ہے *ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے* *کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے* *یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے* *نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو* یہ ہوائیں اڑ نہ جائیں لے کے کاغذ کا بدن دوستو مجھ پر کوئی پتھر ذرا بھاری رکھو
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment