You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Thursday, February 28, 2013

آہ ہمارے پیارے رئیس بھائی ( رئیس صدیقی ، رئیس آرٹس)





آہ ہمارے پیارے رئیس بھائی ( رئیس صدیقی ، رئیس آرٹس)
جب یہ خبر  آئی کہ  علامہ  سیماب اکبر آبادی کے پوتے اور اعجاز صدیقی کے  صاحبزادے  اور مدیر ان ، ماہنامہ  ''  شاعر''  ناظر نعمان صدیقی ، افتخار امام صدیقی  اور حامد اقبال صدیقی ( کوئزٹا‏ئم) کے  بھائی رئیس مغنی صدیقی نے جو کہ  ایس  آرٹس کے نام سے مشہور تھے ۔بدھ  کی شام  دا‏عی اجل کو لبیک کہہ دیا ۔ہمیں یقین ہی نہیں آیا کیونکہ کچھ دنوں پہلے ہی ملاقات ہوئی تھی ۔ان کی شخصیت میں ملنساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔وہ ہمیشہ بڑے خلوص اور اپنایئت   سے ملتے تھے ۔رئیس بھائی  شعروادب کے دلدادہ تھے ۔ہم  ان کے اہل خانہ کے  غم میں برابر کے شریک ہیں ۔ اللہ سے دعا کرتے ہیں ۔ اللہ ان کی مغفرت کریں اور جنت المقام میں جگہ ادا فرماۓ ۔آمین ثمہ آمین۔

Monday, February 25, 2013



بہتر افسانچے وہی لکھ سکتاہے جو افسانے کے اسرارورموز سے واقف ہو۔ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری
آل انڈیا افسانچہ اکیڈمی کے زیر اہتمام دو روزہ قومی سیمینار ’’افسانہ کل آج اور کل‘‘ کا شاندار آغاز           
            درگ (24فروری ) : ’’ افسانچہ نگاری کا فن کوئی آسان کام نہیں۔بہتر افسانچے وہی لکھ سکتاہے جو افسانوی ادب کے اسرارورموز سے واقف ہی۔آزاد ہندوستان میں۸۴۹۱ میں منٹو نے افسانچے لکھے جو سیاہ حاشیے کے عنوان سے منظرِ عام پر آکر مقبول ہوچکے ہیں۔‘‘
*          مذکورہ بالا خیالات کا اظہار کرتے ہوئے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے صدر شعبہء اُردو ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری نے افسانچے کی تاریخ میں پہلی بار آل انڈیاافسانچہ اکیڈمی کے تحت درگ (چھتیس گڑھ)میں منعقد دو روزہ سیمینار میں ۳۲ جنوری کو پہلے سیشن میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے جلسے میں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔اس موقع پر انہوں نے افسانچے کے فن اوراس سلسلے میں پائی جانے والی الجھنوںکو صاف کرتے ہوئے اس بات سے خبردار کیا کہ اس کی تخلیق میں فنی معیار کا بہر حال خیال رکھا جانا ضروری ہے انہوں نے مستقبل میں اس کے روشن امکانات پر بھی روشنی ڈالی۔
`          درگ کے عالیشان ہوٹل الکا پیلس کے ہال میں منعقد مذکورہ اجلاس میں تقریباًپانچ ریاستوں کے ادباء نے شرکت کی اور فن افسانہ نگاری پر اپنے گرانقد خیالات و تاثرات کااظہار کیا۔ افسانچہ ’’کل آج کل ‘‘کے عنوان پر منعقد اس دو روزہ سیمینار میں آل انڈیا اکیڈمی کے اغراض مقاصد پر اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر ایم اے حق نے روشنی ڈالتے ہوئے اس کی اہمیت و افادیت بیا ن کی۔چونکہ ۷۸ سالہ رتن سنگھ طبیعت کی علالت کے سبب تقریب میں شرکت نہیں کرسکی۔اس لئے محترمہ ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ پروفیسر شعبہء اُردو گوتم بدھ یونیورسٹی نے معروف افسانچہ نگار رتن سنگھ کے تحریری تاثرات کو پڑھ کر سنایا ۔
            اس افتتاحی تقریب کے آغاز میں اکیڈمی کے چیئرمین نے اپنی گفتگو میں آئے ہوئے تمام ادباء کا استقبال اور خیر مقدم کیا۔ تقریب کے صدرارتی خطبے میں فن افسانچہ نگاری پر روشنی ڈالتے ہوئے بڑی پُر مغز باتیں کیں۔
            اس موقعے پر جناب یوسف انصاری افضلؔکا شعری مجموعہ ’’عکس وفا‘‘کا اجراء بھی عمل میں آیا۔ڈاکٹر وکیل احمد رضوی صدر شعبہء اُردو رام گڑھ کالج جھارکھنڈ نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں ایک صوفی شاعر ، صالح قدروں کا ایک پختہ گو ترجمان قرار دیا۔ افتتاحی تقریب میں اُردو کے علاوہ ہندی کے کئی قلم کاروں نے بھی افسانچے اور لگو کتھا کے عنوان سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔
            دوسرے سیشن میں مندوبین نے افسانچے کے فن اور اس کی تکنیک پر اپنے تاثرات اور تحریری مقالات پیش کئی۔ خورشید حیات نے کہا کہ زندہ تحریریں ہر عہد میں باتیں کرتی ہیں۔ انہوںنے مزید کہا کہ تخلیق کی لہریں بیتی رہتی ہیں اس لئے مختصر کہانیاں ہمیشہ زندہ رہیںگی۔بشیر مالیرکوٹلوی نے پوری تفصیل کے ساتھ’’ افسانچے کی تاریخ اور کامیاب افسانچوں کی خوبیوں ‘‘پر روشنی ڈالتے ہوئے ہوئے منٹو، جوگندر پال اور رتن سنگھ کو افسانچہ نگاری کی یشلیث قرار دیا اور کئی افسانچوں کے تجزیے بھی پیش کئے ۔سکریٹری ڈاکٹر ایم اے حق نے ’’افسانچوں کی عالمی گونج‘‘کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا اور دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے عام چلن اور تجربوں پر روشنی ڈالی۔افسانچہ اکیڈمی کے صدر جناب رونق جمال نے ’’افسانچہ تحقیق کے آئینے میں‘‘ کے عنوان سے پیش کئے گئے اپنے مقالے میں فن افسانچہ نگاری پر مختلف یونیورسٹیوں میں کئے جارہے تحقیقی کاموں کا ذکر کیا۔ ڈاکٹر ایم آئی ساجد نے اُردو مین افسانچہ، منی کہانی اور پوپ کہانی پر روشنی ڈالتے ہوئے پوپ کہانی کو ایک معمہ قرار دیا۔ اشتیاق سعید نے فکشن نگاروں کی گھٹتی تعداد اور افسانچے کی بڑھتی مقبولیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔معین الدین عثمانی نے ’’افسانہ اور افسانچے کا تجزیہ ‘‘پیش کرتے ہوئے مہاراشٹر کے چند معروف افسانچہ نگاروں کا تخلیقی اور تحقیقی جائزہ لیا۔انہوں نے افسانچوں میں اجزائے ترکیبی کو برتے جانے پر زور دیا۔ ڈاکٹر وکیل رضوی نے ’’جوگندر پال کا افسانوی ادب کاافسانوی ادب کتھا نگر کے حوالے سے ‘‘کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں ایک بڑا فکشن نگار قرار دیا اور اُردو افسانچوں کے معیار کو بلند کرنے اور اس کی ایک الگ شناخت قائم کرنے میںان کی کاوشوں کاذکر کیا اور ان کے افسانچوں کا مختصر و جامع تجزیہ بھی پیش کیا۔ آکر میںآسنسول سے آئے معروف افسانہ نگار ڈاکٹرعشرت بیتاب ’’سیاہ حاشیے اور منٹو‘‘ کے عنوان سے پیش کئے گئے اپنے مقالہ میں منٹو کے فن کے بلند معیار کو پیش کیا اور یہ بتایا کہ منٹو کے افسانچوں میں عورت کے خارجی نہیں بلکہ داخلی احساسات و تاثرات کا گہرا رنگ پایا جاتا ہی۔
            آخر میں دوسرے سیشن کے صدر ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری نے اپنے صدارتی خطبے میں پیش کئے تمام مقالات پر مختصر اور جامع روشنی ڈالی اس کے ساتھ ہی انہوں نے ان پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے مقالوں کی خوبیوں کا بھی ذکر کیا اور کمیوں و کوتاہیوں کی بھی پوری بے باکی کے ساتھ نشاندہی فرمائی۔ اکادمی کے صدر نے آخر میں تمام مندوبین کا شکریہ ادا کیا۔ اس سیشن کی نظامت کے فرائض نوجوان افسانہ نگار سالک 

Friday, February 22, 2013








        ما لیگا ئوں مہا راشٹرمیں ’’کردار‘‘ کے دو اردو ڈراموں کی زبردست دھوم      
            (پریس ریلیز) : مھاراشٹر کے صنعتی شہر،ما لیگائوں کے تہذیب ہا ئی اسکول کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے سات روزہ ’’جشن تہذیب‘‘میں مسلسل دو روز تک خصوصی طور پر ’’شبِ ڈراما‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں ما لیگائوں کے فنکاروں کے تیارکردہ تین ڈرامے اور ممبئی کے سر گرم اور فعال اردو ڈراما گروپ کردار آرٹ اکیڈمی کے دو مشہور ڈرامے ’’یہ کس کا لہو ہے ؟کون مرا؟‘‘اور ’’پہلے آپ‘‘ کے کامیاب شوز ہو ئی۔
            ان ڈراموں کو دیکھنے کے لیے ما لیگائوں کی خواتین ،مختلف اسکولوں کے طلبہ و طالبات اور اساتذہ کا ایک ہجوم امڈ پڑا تھا۔ٹکٹ خرید کر آنے والوں میں ایک اندازہ کے مطابق چھ ہزار سے زا ئد ڈراما شا ئقین نے دو روز تک تہذیب ہائی اسکول کے وسیع میدان میں ’’کردار‘‘کے ڈراموں کو دیکھا اور زبردست دادوتحسین سے نوازا۔کئی لوگوں کو جگہ کی قلّت کے سبب مایوس لو ٹناپڑا۔دونوں دن شہر مالیگائوں کی اہم اور مقتدر شخصیات بھی مو جود تھیں ۔
                       ’’کردار‘‘ کا بیحد مقبول ڈراما ’’یہ کس کا لہو ہے کون مرا؟‘‘ ممبئی ٹرین بم بلاسٹ کے پس منظر میں تین ڈرامائی مونولاگس ہیں جسے تحریر کیا اور ہدایت سے سجایا اقبال نیازی نے اور سنّی ڈکشت،صدف سعید،اور مظہر شیخ کی بے پناہ اداکاری نے خواتین کو زاروقطار رونے پر مجبور کیا۔ وہیں دوسرا ڈراما ’’پہلے آپ‘‘کے طنزومزاح نے شائقین ڈاراما کو خوب گد گدایا۔آیت خان کی ہدایت میں پیش کیے جانے والے اس ڈراما میں ’’کردار‘‘کے نو فنکاروں نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ۔واضح ہو کہ ’’یہ کس کا لہو ہے کون مرا؟‘‘ کا یہ ۷۵ اور ۸۵ واں شو تھا۔دونوں ڈراموں کی پسندیدگی کا یہ عالم تھا کہ اہلیانِ مالیگائوں اور با ذوق تماش بینوں نے ان ڈراموں کو نقد انعامات سے نوازا۔’’کردار ‘‘کے چیئر مین اور کریئٹیوڈائریکٹر اقبال نیازی نے اسٹیج سے یہ اعلان بھی کیا کہ ہم بہت جلد مالیگائوں کے بم بلاسٹ اور بے قصور مسلم نوجوانوں کی حراست اور ان کے اہل ِخانہ کے کرب انگیز حالات پر ایک ڈراما تیار کر رہے ہیں جو،’’ کس کا لہو ہے کون مرا؟‘‘ کا حصّہ دوّم ہو گا۔ تہذیب ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر عتیقی شکیل الرحمن اور اسکول کے جملہ اسٹاف نے ممبئی کے غیر مسلم فنکاروں کی لائق ستائش مہمان نوازی کی اور تمام فنکار اس بے پناہ خلوص ،عزت افزائی اور پذیرائی سے بیحد مر عوب و متاثر ہوئی۔پہلے دن افتتاحی تقریب میں انجمن تہذیب الاخلاق مالیگائوں کے جوا ئنٹ سیکریٹری ایڈوکیٹ خلیل احمد انصاری نے اپنی
پر جوش تقریر میں کردار آرٹ ا کیڈمی کے فنکاروں کو مبارکباد دی اور کہا کہ ’’ غیر مسلم اورغیر اردو داں فنکاروں کو لے کر اردو ڈرامے کرنا ، انھیں اردو سکھانا ۔۔یہ اردو کی بقاء اور ترقی و تر دیج کی ایک عمدہ مثال ہے ۔ ہم تو اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو انگریزی تعلیم دلوا کر اردو سے محبت کا دم بھر رہے ہیںلیکن اردو کی حقیقی اور عملی خدمت اردو  ڈرا  موںکے ذریعے اقبال نیازیؔ انجام دے رہے ہیں اور ان کی ستائش ہونی چاہیی۔‘‘ تالیوں کی گونج میں انھیں اعزاز و اکرام سے نوازا گیا۔دو روز تک تہذیب اسکول کے وائس پرنسپل محمد یعقوب ایّوبی نے اپنی سحر انگیز اور پُر اثر نظامت سے اتنے بڑے مجمع میں نظم و ضبط کو قائم رکھا۔’’کردار‘‘کے ان دو ڈراموں کے علاوہ مالیگائوں کے ہنر مند اور با صلاحیت فنکاروں نے بھی تین ڈرامے پیش کیے جن میں ‘‘منّی بائی ایم بی بی ایس‘‘(ہدایت کار شکیل چو پڑہ)’’چل رے بیوامنگل کری‘‘(ڈراما نگارفروغ راہی ،ہدایت کار حامد سبحانی)اور ’’فریکچر‘‘(آصف سبحانی کا تحریر کردہ اور حامد سبحانی کی ہدایت کاری) کو بھی شائقین ڈراما نے پسند کیا۔علاوہ ازیںتہذیب اسکول کے طلبہ و طالبات نے بھی انفرادی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
            ’’کردار‘‘کے ان دو اثر انگیز ڈراموں کو دیکھ کر گر مجوشی کا اظہار کرتے ہوئے جناب اختر احمد صدیقی (سیکریٹری انجمن تہذیب الاخلاق ) نے حیدراآباد میں ،جناب اشفاق عمر نے لاتور میں اور شری رجنیش گپتا نے جمّوں میں ان ڈراموں کو کرنے کی پیشکش کی۔


حید رآباد دھماکہ : شک کی سوئی پھرماضی کی طرح نام نہاد دہشت گردوں کی طرف پھرانے کی کوشش!
4                      لیجئے صاحب پھر بم دھماکہ ہوگیا ۔دھماکہ کے بعد مرکزی حکومت نے کہا کہ اس کے متعلق پہلے ہی ریاستی سرکاروں کو متنبہ کیا جاچکا تھا ۔لوک سبھا میں بی جے پی کی شعلہ بیان مقرر سشما سوراج بھی حکومت کی خبر لیتے ہوئے وزیر داخلہ سشیل کمار شندے پر برس پڑیں کہ آخر پہلے سے معلوم ہونے پر بھی اس پر کنٹرول کیوں نہیں کیا جا سکا ؟دھماکہ پر سشیل کمار نے ایمرجنسی بیان کے بعد آج 22فروری کو لوک سبھا میں روایتی بیان دیا اس میں نئی کوئی بات نہیں تھی اس بیان کو حکومت کی طرف سے معلوماتی بیان بھی کہہ سکتے ہیں ۔اس طرح کے بیان کے پیچھے شندے کی مجبوری بھی ہو سکتی ہے اور دو دن پہلے معافی مانگنے کا اثر بھی ۔اس دھماکہ نے موجودہ اہم خبر کو دبا دیا وہ خبر گجرات سے تھی جہاں مودی کی حکومت ہے اور جو بی جے پی کے 2014 کے متوقع وزیر اعظم کے امید وار ہیں ۔خبر تھی کہ مظلوم اور معصوم عشرت جہاں کے فرضی انکائونٹر کے سلسلے میں سی بی آئی نے گجرات کے آئی پی ایس افسر جی ایل سنگھل کو گرفتار کیا ہے ۔عشرت جہاں کے انکائونٹر کے سلسلے میں یہ پہلی باضابطہ گرفتاری بتائی جارہی ہے ۔ویسے اس سے پہلے کئی اعلیٰ افسران داخل زندان ہیں جن پر سہراب الدین ،کوثر بی اور پرجاپتی کو فرضی انکائونٹر میں ہلاک کرنے کا الزام ہے ۔یہ گرفتاری تو ہوئی ہے پہلے بھی اب بھی اور شاید آگے بھی ہو،لیکن اس پر مقدموں کی کیا صورت ہے وہ واضح نہیں ہے ۔
*          بہر حال معاملہ فی الحال حیدرآباد کے تازہ دھماکے کا ہے ۔سشما سوراج نے لوک سبھا کے اندر سشیل کمار کے بیان کے بعد سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ دھماکہ کہیں اکبر الدین اور اسدالدین کے مبینہ بھڑکائو بھاشن سے تو نہیں جڑا ہوا ہے ؟یا کیا یہ افضل گرو کی پھانسی پر دہشت گردوں کی انتقامی کارروئی تو نہیں ہے ؟اس پر حکومت کی طرف سے کوئی واضح جواب نہیں دیا جاسکا وجہ اس کی یہ تھی کہ سشیل کمار لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا میں بیان دینے چلے گئے ۔یہاں سشما سوراج کے بیان یا سوالات سے پہلے اس کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ کل شام 21 فروری کو سات بجے شام دھماکہ کے بعد بدنام زمانہ الیکٹرونک میڈیا کا کیا رویہ تھا ۔اس کا جائزہ لیتے ہوئے یہی محسوس ہوا کہ سارے ہی نیوز چینل اس دھماکے کو اسی پرانے اور گھسے پٹے انداز سے پیش کرکے عوام ،حکومت اور تفتیشی ایجنسی کو گمراہ کرکے ایک خاص فرقہ یعنی مسلمانوں کے خلاف محاذ بنانے میں مصروف کار تھے ۔اس بات کو بار بار نیوز چینل پر دوہرایا گیا کہ شک کی سوئی انڈین مجاہدین یا حرکت الجہاد اسلامی کی طرف گھوم رہی ہے ۔اس کو افضل گرو کی پھانسی کے خلاف انتقامی کارروئی سے بھی جوڑنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے ۔رہی سہی کسر سشما سوراج کے زہریلے سوالات نے بھی پوری کردی کہ کیا یہ اکبر الدین اور اسدلدین اویسی کے مبینہ نفرت انگیز تقاریر کا تو اثر نہیں ؟جس وقت سشما پارلیمنٹ میں بول رہی تھیں غالبا ً کوئی مسلمان ممبران پارلیمنٹ موجود نہیں تھا کہ وہ سشما کے اس سوال پر اعتراض کرتا ممکن ہے کہ سشما سوراج نے کئی اور بھی زہریلے سوالات کئے ہوں کیوں کہ جب وہ بیان دے رہی تھیں تو کئی بار محسوس ہوا کہ ان کے بیان کو ایڈٹ کیا جارہا ہے ۔
            اگر ہم سشما سوراج کے مذکورہ بیان کو اسی عینک سے دیکھیں جس سے  انہوں نے دیکھا اور ایک فرقہ کو ہی اپنی شعلہ بیانی کا نشانہ بنا ڈالا ۔اگر یہ دھماکہ اکبر الدین کی اس تقریر کا اثر ہو سکتا ہے تو کیا یہ توگڑیا کی تقریروں کا نہیں ہو سکتا ہے ؟اگر یہ انڈین مجاہدین کے نام نہاد دہشت گردوں کا ہو سکتا ہے تو کیا یہ بھونسلہ ملٹری ٹریننگ سینٹر سے تربیت یافتی پانچ سو لوگوں کا کیوں نہیں ہو سکتا جو کہ ہیمنت کرکرے کی تفتیش میں سامنے آنے کے بعد سے ہی غائب ہیں اور جس کے بارے میں مہاراشٹر حکومت اور مرکزی حکومت دونوں ہی سے متعد د بار سوالات کئے گئے لیکن خاموشی اور مکمل خاموشی ہے ۔آخر دھماکے کے بعد صرف حرکت الجہاد اسلامی اور نام نہاد انڈین مجاہدین ہی کا نام کیوں اچھا لا جاتا ہے ؟ سناتن سنستھا ،بجرنگ دل اور وشو ہندو جیسی ہندو تنظیموں کا نام کیوں نہیں اچھالا جاتا ؟یاسین بھٹکل اور وقار جیسے نام کو ہی کیوں اچھالا جاتا ہے پروین توگڑیا اور پرمود متالک کا نام کیوں نہیں گھسیٹا جاتا ؟ کیا یہ سشیل کمار کے بیان (جس پر انہوں نے معافی بھی مانگ لی ہے )کہ بی جے پی اور آ ر ایس ایس دہشت گردی کے اڈے ہیں پر بھگوا دہشت گردوںکی طرف سے انتقامی کارروائی بھی مانا جانا چاہیئے ۔ سشماجی کو اکبر الدین اور اسد الدین تو نظر آگئے لیکن انہیں توگڑیا کی زہر افشانی اورپرمود متالک کی بیہودہ بیان بازی کیوں یاد نہیں رہی کہ اس میں بھی وہ بم دھماکے کا سراغ ڈھونڈھنے کی کوشش کرتیں۔توگڑیا کا وہ بیان تو ابھی آن ریکارڈ ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ ’’جب جب پولس ہٹی تو ہم نے آسام اور میرٹھ کے ملیانہ میں لاشوں کے انبار لگادئیے ‘‘ لیکن مہاراشٹر کی حکومت کو اس میں ابھی تک کوئی قابل اعتراض پہلو نہیں نظر آیا اسی لئے صرف ایف آئی آر سے آگے بات نہیں بڑھی ہے ۔ہمارا شک ہی نہیں یقین ہے کہ اس دھماکہ کا تعلق افضل گرو کی پبانسی سے ہو سکتا ہے لیکن وہ اس لئے کہ افضل گرو کی ہمدردی میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے جس پامردی کا ثبوت دیا تھا اس عوام کے ذہنوں سے ہٹانے کیلئے انہیں دوسری طرف الجھانے کیلئے خود آئی بی نے ہی یہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہو ا۔یا آئی بی کا دوسرا کور گروپ سناتن سنستھا اور اس جیسی دوسری تنظیموں نے سشیل کمار کو جو کہ ایک دلت ہیں اور وزارت داخلہ جیسے اہم عہدہ پر ہیں اس سے ہٹانے کیلئے یا انکو اس بیان پر سبق سکھانے کیلئے یہ دھماکہ کیا ہو۔جس میں انہوں نے فاشسٹ طاقتوں پر راست حملہ کیا تھاجس پر وہ قائم بھی نہ رہ سکے اور معافی مانگ لی ۔کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔اس طرف بھی غور کیا جانا چاہئے تب ہی انسانیت کے یہ دشمن بے نقاب ہو پائیں گی۔
|          حالات ہر دن مسلمانوں کیلئے نا قابل برداشت ہوتے جارہے ہیں ۔الیکٹرونک میڈیا کے بعد اگر آپ آج کے پرنٹ میڈیا اور نام نہاد مین اسٹریم میڈیا میں نظر ڈالیں انڈین ایکسپریس ،ٹائمس آف انڈیا اور نو بھارت ٹائمز کے علاوہ سبھی اخبارات نے صرف اس بم دھماکہ کو ہی اپنے پورے صفحہ پر جگہ دی ہے انڈین ایکسپریس اور ٹائمس گروپ کا ٹائمس آف انڈیا اور نو بھارت ٹائمس نے اس خبر کے ساتھ گجرات کے آئی پی ایس افسر کی گرفتاری کو بھی اہمیت دی ہے ۔کم و بیش اردو اخبارات کا بھی یہی تاثر ہے صرف ایک اردو کے اخبار نے گجرات کے آئی پی ایس افسر کی گرفتاری کو اہمیت نہ دیکر اندر کے صفحہ پر دیا ہے باقی کے اردو اخبارات نے اپنی روایت کو برقرار رکھا ہے ۔سامنا نے تو حد ہی کردی کہ اس نے اپنے پورے صفحہ پر اسی خبر کو اس ہیڈنگ کے ساتھ ’’حید ر آباد پر اسلامی دہشت گردوں کا حملہ 30 ہلاک‘‘ جبکہ ابھی تک کی ہلاکت کی تصدیق بیس کی بھی نہیں ہے ۔مسلمانوں کو اس پر سامنا کے خلاف قانونی کارروائی کرنا چاہئے ۔مسلم لیڈر شپ اگر کہیں ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اونچی عدالتوں میں اس کے خلاف سخت کارروائی کرے تاکہ اس طرح کی شر انگیزی پر قابو پایا جاسکے ۔سامنا کی شرانگیزی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس نے نیچے ضمنی عنوان کے تحت سرخی لگائی ہے کہ ’’افضل اور اویسی کنکشن‘‘ اور تصویریں بھی افضل گرو اور اویسی کی لگائی ہیں ایسا ہی کچھ سشما سوراج نے بھی پارلیمنٹ میں کہا یعنی کہ اس طرح کے اخبارات ممبران پارلیمنٹ کو بھی گائڈ کرتے ہیں کہ انہیں پارلیمنٹ میں کس طرح کا بیان دینا ہے ۔کیا اب بھی ہمارے نام نہاد ممبئی اور مہاراشٹر کے مسلم قائدین صرف وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کو میمورنڈم دینا اور کارروائی کا مطالبہ کرنے سے آگے نہیں بڑھیں گے ۔
نہال صغیر۔موبائل۔987309013
نہال صغیر۔معرفت ،رحمانی میڈیکل ۔سلفی گلی نمبر 3 ۔کاندیولی(مغرب)ممبئی 400067  موبائل۔987309013 ۔ای میلagheernehal@gmail.com
Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP