You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Monday, July 17, 2017

غزل


بے زبانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں
اِس کہانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

درد ایسا ہے کہ پتھّر کا کلیجہ پھٹ جائے
سخت جانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

میہماں بن کے ستم گر نے ستم ڈھایا ہے
میزبانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

کس نے بخشے ہیں اِن آنکھوں کو اُبلتے آنسو
حق بیانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

تنگ ظرفی کی علامت ہے جتانا احساں
مہربانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

ٹوٹ جائے نہ بھرم پیار کا اِک دن راغبؔ
خوش گمانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس

Friday, July 14, 2017

مجھے خط ملا

مجھے خط ملا ہے غنیم کا
بڑی عُجلتوں میں، لکھا ہُوا

کہیں،، رنجشوں کی کہانیاں
کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ

مجھے کہہ دیا ہے امیر نے
کرو،،،، حُسنِ یار کا تذکرہ

تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن
کہو،،،،،، حاکموں کو بُرا بھلا

تمہیں،،، فکرِ عمرِ عزیز ہے
تو نہ حاکموں کو خفا کرو

جو امیرِ شہر کہے تُمہیں
وہی شاعری میں کہا کرو

کوئی واردات کہ دن کی ہو
کوئی سانحہ کسی رات ہو

نہ امیرِ شہر کا زکر ہو
نہ غنیمِ وقت کی بات ہو

کہیں تار تار ہوں،، عصمتیں
میرے دوستوں کو نہ دوش دو

جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر
تو نہ کوتوال کا،،،،، نام لو

کسی تاک میں ہیں لگے ہُوئے
میرے جاں نثار،،،،، گلی گلی

ہیں میرے اشارے کے مُنتظر
میرے عسکری میرے لشکری

جو تُمہارے جیسے جوان تھے
کبھی،،، میرے آگے رُکے نہیں

انہیں اس جہاں سے اُٹھا دِیا
وہ جو میرے آگے جُھکے نہیں

جنہیں،، مال و جان عزیز تھے
وہ تو میرے ڈر سے پِگھل گئے

جو تمہاری طرح اُٹھے بھی تو
اُنہیں بم کے شعلے نگل گئے

میرے جاں نثاروں کو حُکم ہے
کہ،،،،،، گلی گلی یہ پیام دیں

جو امیرِ شہر کا حُکم ہے
بِنا اعتراض،، وہ مان لیں

جو میرے مفاد کے حق میں ہیں
وہی،،،،،،، عدلیہ میں رہا کریں

مجھے جو بھی دل سے قبول ہوں
سبھی فیصلے،،،،،،، وہ ہُوا کریں

جنہیں مجھ کچھ نہیں واسطہ
انہیں،،،، اپنے حال پہ چھوڑ دو

وہ جو سرکشی کے ہوں مرتکب
انہیں،،،،، گردنوں سے مروڑ دو

وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں
اُنہیں،،،، زر کا سکہ اُچھال دو

جنہیں،،،،، اپنے درش عزیز ہوں
اُنہیں کال کوٹھڑی میں ڈال دو

جو میرا خطیب کہے تمہیں
وہی اصل ہے، اسے مان لو

جو میرا امام،،،،،،، بیاں کرے
وہی دین ہے ، سبھی جان لو

جو غریب ہیں میرے شہر میں
انہیں بُھوک پیاس کی مار دو

کوئی اپنا حق جو طلب کرے
تو اسے،، زمین میں اتار دو

جو میرے حبیب و رفیق ہیں
انہیں، خُوب مال و منال دو

جو، میرے خلاف ہیں بولتے
انہیں، نوکری سےنکال دو

جو ہیں بے خطاء وہی در بدر
یہ عجیب طرزِ نصاب ہے

جو گُناہ کریں وہی معتبر
یہ عجیب روزِ حساب ہے

یہ عجیب رُت ہے بہار کی
کہ،، ہر ایک زیرِ عتاب ہے

"کہیں پر شکستہ ہے فاختہ
کہیں،،، زخم زخم گلاب ہے"

میرے دشمنوں کو، جواب ہے
نہیں غاصبوں پہ شفیق میں

میرے حاکموں کو خبر کرو
نہیں،، آمروں کا رفیق میں

مجھے زندگی کی ہوس نہیں
مجھے،، خوفِ مرگ نہیں زرا

میرا حرف حرف لہو لہو
میرا،،، لفظ لفظ ہے آبلہ
                            Faiz Ahmed Faiz

Sunday, July 09, 2017

اچھی سوچ

ایک چوہا کسان کے گھر میں بل بنا کر رہتا تھا، ایک دن چوہے نے دیکھا کہ کسان اور اس کی بیوی ایک تھیلے سے کچھ نکال رہے ہیں،چوہے نے سوچا کہ شاید کچھ کھانے کا سامان ہے-
خوب غور سے دیکھنے پر اس نے پایا کہ وہ ایک چوهےدانی تھی- خطرہ بھانپنے پر اس نے گھر کے پچھواڑے میں جا کر کبوتر کو یہ بات بتائی کہ گھر میں چوهےدانی آ گئی ہے-
کبوتر نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ مجھے کیا؟ مجھے کون سا اس میں پھنسنا ہے؟
مایوس چوہا یہ بات مرغ کو بتانے گیا-
مرغ نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ... جا بھاييے میرا مسئلہ نہیں ہے-
مایوس چوہے نے دیوار میں جا کر بکرے کو یہ بات بتائی ... اور بکرا ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونے لگا-
اسی رات چوهےدانی میں كھٹاك کی آواز ہوئی جس میں ایک زہریلا سانپ پھنس گیا تھا-
اندھیرے میں اس کی دم کو چوہا سمجھ کر کسان کی بیوی نے اس کو نکالا اور سانپ نے اسے ڈس لیا-
طبیعت بگڑنے پر کسان نے حکیم کو بلوایا، حکیم نے اسے کبوتر کا سوپ پلانے کا مشورہ دیا،
*کبوتر ابھی برتن میں ابل رہا تھا*
خبر سن کر کسان کے کئی رشتہ دار ملنے آ پہنچے جن کے کھانے کے انتظام کیلئے اگلے دن مرغ کو ذبح کیا گیا
کچھ دنوں کے بعد کسان کی بیوی مر گئی ... جنازہ اور موت ضیافت میں بکرا پروسنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ......
چوہا دور جا چکا تھا ... بہت دور ............
اگلی بار کوئی آپ کو اپنے مسئلے بتائے اور آپ کو لگے کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے تو انتظار کیجئیے اور دوبارہ سوچیں .... ہم سب خطرے میں ہیں ....
سماج کا ایک عضو، ایک طبقہ، ایک شہری خطرے میں ہے تو پورا ملک خطرے میں ہے ....
ذات، مذہب اور طبقے کے دائرے سے باہر نكليے-
خود تک محدود مت رہیے- دوسروں کا احساس کیجئیے۔ پڑوس میں لگی آگ آپکے گھر تک بھی پہنچ سکتی ہے

Friday, July 07, 2017

جگرمرادآبادی

اجمیر شریف میں نعتیہ مشاعرہ تھا، فہرست بنانے والوں کے سامنے یہ مشکل تھی کہ جگر مرادآبادی صاحب کو اس مشاعرے میں کیسے بلایا جائے ، وہ کھلے رند تھے اورنعتیہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔ اگر فہرست میں ان کانام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔ منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیداہوگیا۔ کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔ دراصل جگرؔ کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔

بڑے بڑے شیوخ اور عارف باللہ اس کی شراب نوشی کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائق اصلاح۔ شریعت کے سختی سے پابند علماء حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا اچھا آدمی کس برائی کا شکار ہے۔ عوام کے لیے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔ تمام رعایتوں کے باوجود علماء حضرات بھی اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ وہ نعتیہ مشاعرے میں شریک ہوں۔آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمین مشاعرہ نے فیصلہ کیا کہ جگر ؔکو مدعو کیا جانا چاہیے۔یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ جگرؔ کی عظمت کا اس سے بڑااعتراف نہیں ہوسکتاتھا۔جگرؔ کو مدعو کیا گیا تووہ سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔ ’’میں گنہگار، رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں صاحب نہیں‘‘ ۔ اب منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب ؔکو تیار کیسے کیا جائے۔ ا ن کی تو آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔ نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے انہیں آمادہ کرنا چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے تھے، بالآخر اصغرؔ گونڈوی نے حکم دیا اور وہ چپ ہوگئے۔ سرہانے بوتل رکھی تھی، اسے کہیں چھپادیا، دوستوں سے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک نہ لے۔ دل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے مگر پھر رک جاتے تھے، لیکن مجھے نعت لکھنی ہے ،اگر شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اتراتو کس زبان سے اپنے آقا کی مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونانہیں چاہیے،

شاید یہ میری بخشش کا آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہوجائے، شایدمجھ پر اس کملی والے کا کرم ہوجائے، شاید خدا کو مجھ پر ترس آجائے ایک دن گزرا، دو دن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے تھے اور غزل کہنے لگتے تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک دن نعت کا مطلع ہوگیا۔ پھر ایک شعر ہوا، پھر تو جیسے بارش انوار ہوگئی۔ نعت مکمل ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔ مشاعرے کے لیے اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جارہے ہوں۔ کونین کی دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔ انہوں نے کئی دن سے شراب نہیں پی تھی، لیکن حلق خشک نہیں تھا۔ادھر تو یہ حال تھا دوسری طرف مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہرکے چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جارہی ہے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جگرصاحب ؔ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے یہ خطرہ بھی تھاکہ لوگ اسٹیشن پر جمع ہوکر نعرے بازی نہ کریں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔وہ کئی دن پہلے اجمیر شریف پہنچ چکے تھے جب کہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گا۔جگر اؔپنے خلاف ہونے والی ان کارروائیوں کو خود دیکھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے؎
کہاں پھر یہ مستی، کہاں ایسی ہستی
جگرؔ کی جگر تک ہی مے خواریاں ہیں

آخر مشاعرے کی رات آگئی۔جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔ سٹیج سے آواز ابھری’’رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادآبادی!‘‘ ۔۔۔۔۔۔اس اعلان کے ساتھ ہی ایک شور بلند ہوا، جگر نے بڑے تحمل کے ساتھ مجمع کی طرف دیکھا… اور محبت بھرے لہجے میں گویاں ہوئے۔۔
’’آپ لوگ مجھے ہوٹ کررہے ہیں یا نعت رسول پاک کو،جس کے پڑھنے کی سعادت مجھے ملنے والی ہے اور آپ سننے کی سعادت سے محروم ہونا چاہتے ہیں‘‘۔
شور کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بس یہی وہ وقفہ تھا جب جگر کے ٹوٹے ہوئے دل سے یہ صدا نکلی ہے…
اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ
ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ
جوجہاں تھا ساکت ہوگیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی زبان سے شعر ادا ہورہا ہے اور قبولیت کا پروانہ عطا ہورہا ہے۔نعت کیا تھی گناہگار کے دل سے نکلی ہوئی آہ تھی،خواہشِ پناہ تھی، آنسوؤں کی سبیل تھی، بخشش کا خزینہ تھی۔وہ خود رو رہے تھے اور سب کو رلا رہے تھے، دل نرم ہوگئے، اختلاف ختم ہوگئے، رحمت عالم کا قصیدہ تھا، بھلا غصے کی کھیتی کیونکر ہری رہتی۔’’یہ نعت اس شخص نے کہی نہیں ہے، اس سے کہلوائی گئی ہے‘‘۔مشاعرے کے بعد سب کی زبان پر یہی بات تھی.نعت یه تھی..

صحبت کے اثرات

ٹشوپیپر کا ایک دلچسپ تجربہ آپ نے بھی شاید بچپن میں کیا ہو۔۔۔
ایک جگہ تھوڑا سا پانی گرائیں اس پانی کے ایک طرف ٹشوپیپر کا ایک کونا رکھ دیں، اس کونے کے علاوہ باقی سارا ٹشوپیپر پانی سے باہر ہوگا۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد دیکھیے گا کہ ٹشوپیپر کا ایک بڑا حصہ گیلا ہوچکا ہے، خاموشی کے ساتھ پانی ٹشوپیپر میں سرایت کرتا جائے گا۔۔۔۔
بہت دلچسپ معلوم ہوتا ہے، سرایت کرنے کا عمل نہایت خاموشی اور سرعت کے ساتھ نظر آئے گا۔۔۔۔
اس عمل کو سائنسی اصطلاح میں Capillary Action کہا جاتا ہے۔۔۔۔
یہی حال نیک صحبت یا بری صحبت کا ہے۔۔۔۔
آپ تھوڑا وقت گزاریں یا زیادہ وقت، صحبت کے اثرات اسی طرز پر آپ کے قلب پر مرتب ہونگے اور شروع میں آپ کو معلوم بھی نہ ہوپائے گا۔۔۔۔
جتنی زیادہ صحبت، اُتنے زیادہ اثرات۔۔۔۔۔۔
صحبت کے اثرات ازخود سرایت کرتے جائیں گے اس لیے صحبتِ نیک رکھیے اور بری صحبت سے احتراز کیجیے۔۔۔۔

Sunday, July 02, 2017

اللہ کی خوشنودی


گاہک نے دکان میں داخل ہو کر دکاندار سے پوچھا: کیلوں کا کیا بھاؤ لگایا ہے؟ دکاندار نے جواب دیا: کیلے 12 درہم اور سیب 10 درہم۔

اتنے میں ایک عورت بھی دکان میں داخل ہوئی اور کہا: مجھے ایک کیلو کیلے چاہیئں، کیا بھاؤ ہے؟ دکاندار نے کہا: کیلے 3 درہم اور سیب 2 درہم۔ عورت نے الحمد للہ پڑھا۔

دکان میں پہلے سے موجود گاہک نے کھا جانے والی غضبناک نظروں سے دکاندار کو دیکھا، اس سے پہلے کہ کچھ اول فول کہتا: دکاندار نے گاہک کو آنکھ مارتے ہوئے تھوڑا انتظار کرنے کو کہا۔

عورت خریداری کر کے خوشی خوشی دکان سے نکلتے ہوئے بڑبڑائی: اللہ تیرا شکر ہے، میرے بچے انہیں کھا کر بہت خوش ہونگے۔

عورت کے جانے کے بعد، دکاندار نے پہلے سے موجود گاہک کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا: اللہ گواہ ہے، میں نے تجھے کوئی دھوکا دینے کی کوشش نہیں کی۔

یہ عورت چار یتیم بچوں کی ماں ہے۔ کسی سے بھی کسی قسم کی مدد لینے کو تیار نہیں ہے۔ میں نے کئی بار کوشش کی ہے اور ہر بار ناکامی ہوئی ہے۔ اب مجھے یہی طریقہ سوجھا ہے کہ جب کبھی آئے تو اسے کم سے کم دام لگا کو چیز دیدوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کا بھرم قائم رہے اور اسے لگے کہ وہ کسی کی محتاج نہیں ہے۔ میں یہ تجارت اللہ کے ساتھ کرتا ہوں اور اسی کی رضا و خوشنودی کا طالب ہوں۔

دکاندار کہنے لگا: یہ عورت ہفتے میں ایک بار آتی ہے۔ اللہ گواہ ہے جس دن یہ آ جائے، اُس دن میری بکری بڑھ جاتی ہے اور اللہ کے غیبی خزانے سے منافع دو چند ہوتا ہے۔

گاہک کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اُس نے بڑھ کر دکاندار کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے کہا: بخدا لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں جو لذت ملتی ہے اسے وہی جان سکتا ہے جس نے آزمایا

عثمان شیخانی کی ڈائری سے

•••••••••••••••••••••••••••
ایک پانی سے بھرے برتن میں ایک زندہ مینڈک ڈالیں اور پانی کو گرم کرنا شروع کریں - جیسے ہی پانی کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو گا ، مینڈک بھی اپنی باڈی کا درجہ حرارت پانی کے مطابق ایڈجسٹ کرے گا اور تب تک کرتا رہے گا جب تک پانی کا درجہ حرارت "بوائلنگ پوائنٹ" تک نہیں پہنچ جاتا ۔۔۔۔
جیسے ہی پانی کا ٹمپریچر بوائلنگ پوائنٹ تک پہنچے گا تو مینڈک اپنی باڈی کا ٹمپریچر پانی کے ٹمپریچر کے مطابق ایڈجسٹ نہیں کر پائے گا اور برتن سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا لیکن ایسا کر نہیں پائے گا کیونکہ تب تک مینڈک اپنی ساری توانائی خود کو "ماحول کے مطابق" ڈھالنے میں صرف کر چکا ہو گا
بہت جلد مینڈک مر جائے گا۔۔۔
یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے
"وہ کونسی چیز ہے جس نے مینڈک کو مارا؟"
سوچیئے!
میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے اکثر یہ کہیں گے کہ
مینڈک کو مارنے والی چیز وہ "بے غیرت انسان" ہے جس نے مینڈک کو پانی میں ڈالا
یا پھر کچھ یہ کہیں گے کہ
مینڈک اُبلتے ہوئے پانی کی وجہ سے مرا۔۔۔
لیکن،
سچ یہ ہے کہ مینڈک صرف اس وجہ سے مرا کیونکہ وہ وقت پر جمپ کرنے کا فیصلہ نہ کر سکا اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے میں لگا رہا ۔۔۔
ہماری زندگیوں میں بھی ایسے بہت سے لمحات آتے ہیں جب ہمیں خود کو حالات کے مطابق ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے خیال رکھیں کہ کب آپ نے خود کو حالات کے مطابق ڈھالنا ہے اور کب حالات کو اپنے مطابق ۔۔۔۔
اگر ہم دوسروں کو اپنی زندگیوں کے ساتھ جسمانی، جذباتی، مالی، روحانی اور دماغی طور پر کھیلنے کا موقع دیں گے تو وہ ایسا کرتے ہی رہیں گے
اس لیے وقت اور توانائی رہتے "جمپ" کرنے کا فیصلہ کریں ۔۔۔۔اور ہر دفعہ کنوئیں کا مینڈک بننے سے پرہیز کریں ۔

پھٹی کتاب کی آپ بیتی

میں ایک پھٹی پرانی کتاب ہوں ۔میرے بال وپر نوچ کر مجھے اس حال میں پہنچا دیا گیا ہے کہ آپ سے نظریں ملاتے ہوئے شرم آرہی ہے ۔ میں کس کے دامن میں منہ چھپاؤں ! کتابوں کی الماری کے ایک کونےمیں قید اپنے اس حشر پر آٹھ آٹھ آنسو بہاتی ہوں ۔ دن کی روشنی ،تروتازہ ہوا اور قاری کے ہاتھ کے لمس سے محروم ہوں ۔ دنیا کی بےثباتی دیکھ کر اس بات کی قائل ہوگئی ہوں کہ کبھی یہاں کے دن بڑے کبھی راتیں ۔ ہر عروج کو زوال ہے اور ہر بقا کو فنا ۔ صرف ایک ہی ذات پاک لافانی ولازوال ہے ،جو سب کا مالک و رب ذوالجلال ہے ۔
میں پہلے ایسی نہ تھی ۔ پریس سے نکلی تو سفید براق کاغذ پر سیاہ حروف دیدہ زیب،لباس رنگین وخوشنما ، حسن ظاہری دل فریب ۔ پریس سے نکل کر کتابوں کی دکان پر پہنچی جہاں ایک قدر داں کی نظر مجھ پر پڑی اور میں اسے پہلی ہی نظر میں بھاگئی ۔ میں بڑے اہتمام سے اس کی کتابوں کی الماری کی زینت بنی ۔ اپنی اس قدرو منزلت پر میں پھولے نہ سمائی ۔ میں اپنے آپ کو دیگر کتابوں سب ممتاز سمجھتی ۔ میرا سر ہمیشہ فخر سے بلند رہتا ۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا ! غرور کا سر نیچا ، آسمان کا تھوکا منہ پر ۔ میں ایک قدر ناشناس کے ہاتھ پڑگئی جو مجھے مستعار لے گئے ۔ ان کی باتوں سے لگتا تھا وہ کتابوں کے دیوانے اور شمعِ اردو کے پروانے ہیں ۔ مگر ان کا سارا شوق جھوٹا اور ساری لگن دکھاوا نکلی ۔گھر لاکر ایک کونےمیں پٹخ دیا ۔ مہینوں میری خبر نہ لی، ایک جگہ پڑے پڑے میرا دم گھٹنے لگا ۔ وقت کی گرد مجھ پر جمنے لگی ۔میری سفیدی مدھم پڑتی گئی اور مجھ پر زردی مائل رنگ حاوی ہونے لگا ۔ زمانے کی گردش نے اپنا رنگ دکھایا اور ایک وقت ایسا آیا کہ میں خود اپنی پہچان کھو بیٹھی ۔
اپنی اس ناقدری پر چیخی چلائی لیکن میری آواز سننے والا کون ؟۔ میری بپتا سننے والا کون ؟ انہی کرب وبلا کے شب و روز میں اپنے سنہرے دور کو یاد کرتی ، ان خوشگوار لمحوں کو یاد کرکے اپنے آپ کی ڈھارس بندھاتی رہی ۔
ستم بالائے ستم اس قدر ناشناس کے لڑکے نے میرے بال وپر نوچ ڈالے ۔ مجھے اس گوشے میں ڈال دیا گیا جہاں میری طرح دیگر کتابوں کو دیمک چاٹ رہی تھی ۔ تب سے یہاں قید ہوں اور انتظار کررہی ہوں اس چارہ گر کا جو میری داد کو پہنچے اور میری قدرومنزلت کو پہچانے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین

✅ 
*آج سابق صدرِ جمہوریہ ہند، ممتاز ماہرِ تعلیم اور ادیب
ڈاکٹر ذاکر حسین کے والد فدا حسین خان کا تعلق قائم گنج ضلع فرخ آباد اتر پردیش سے تھا لیکن وہ حید ر آباد منتقل ہو گئے تھے ۔ ذاکر حسین ۸ فروری ۱۸۹۷ ء کو حیدر آباد میں پیدا ہو ئے ۔ ذاکر حسین صاحب کی ابتدائی تعلیم روایتی انداز سے گھر پر ہی ہو ئی تھی ، خاص کر انگریزی پڑھانے کے لئے ایک معلم کا انتظام کیا گیا تھا ۔ بعد میں انہیں اٹاوہ کے مشہو ر اسلامیہ اسکول بھیج دیا گیا ۔ اسکول کے سر براہ مولوی الطاف حسین کی تربیت اور تعلیم نے ذاکر حسین کی شخصیت کو سنوارنے میں خا ص کردار ادا کیا ۔
ذاکر صاحب اٹاوہ سے کالج کی اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے علی گڑھ چلے گئے ، پھرالہٰ آباد یونیور سٹی کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے آپ نے اعلیٰ کا ر کردگی کا مظاہرہ کیا ۔ علی گڑھ کے قیام کے دوران ہی آپ نے افلا طون کی کتاب ’’ریاست ‘‘کا ارد و تر جمہ کر لیا تھا اور علی گڑھ کے میگزین کے لئے بھی آپ مستعد ی سے لکھتے رہے، پھر علی گڑھ یونیور سٹی سے ایم اے کیا اور وہیں اتدریس کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ اس دوران انھوں نے گاندھی جی کی تحریک میں بھی حصہ لیا۔جا معہ ملیہ کا قیام ۲۹ اکتوبر ۱۹۲۰ کو عمل میں آیا جامعہ ملیہ کے قیام اور ترقی میں انھوں نے کافی اہم رول ادا کیا ۔پھر مزید تعلی حاصل کرنے کی غرض سے جرمنی گئے ۱۹۲۶ ء میں وہاں سے معاشیات میں پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کی، وہیں انھوں نے مرزا غالب کی انتھالوجی پر بھی کام کیا۔جب دہلی آئے تو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر ہوئے۔ اس دوران تحریکِ آزادی میں بھی فعال حصہہ لیا، تقسیمِ ہند کے بعد ۱۹۴۸ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوئے اور اس عہدے پر ۱۹۵۶ تک فائز رہے، گو کہ وہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں تھے لیکن ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے اسی سال انھیں راجیہ سبھا کی رکنیت حاصل ہوئی۔۱۹۵۷ میں انھیں ریاست بہار کا گورنر نامزد کیا گیا۔۱۹۶۲ میں ذاکر صاحب ملک کے نائب صدر منتخب ہوئے، ۱۹۶۳ میں انھیں ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’بھارت رتن‘‘ تفویض ہوا اور پھر ۱۳ مئی ۱۹۶۷ کو تیسرے صدرِ جمہوریہ کے باوقار عہدے پر فائز ہوئے اور اسی عہدے پر رہتے ہوئے ۳ مئی ۱۹۶۹ کو ان کا انتقال ہوگیا، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس میں پورے قومی اعزاز کے ساتھ ان کی تدفین ہوئی۔
ذاکر صاحب ایک اہم ادیب بھی تھے، انگریزی اور اردو میں کئی اہم کتابیں لکھیں، اردو میں انھوں نے بچوں کے ادب کو ایک نئی جہت دی، ان کی کہانی ’’ابو خاں کی بکری‘‘ بہت مقبول ہوئی۔

اساتذہ کے ادب

​​اساتذہ کے ادب کی انتہا​​

​​قومیں.....​​
​ایک دفعہ ابن انشاءٹوکیو کی ایک یونیورسٹی میں مقامی استاد سے محو گفتگو تھے‘ جب گفتگو اپنے اختتام پر پہنچی تو وہ استاد ابن انشاءکو الوداع کرتے ہوئے یونیورسٹی کے باہری صحن تک چل پڑا‘ ابھی یونیورسٹی کی حدود میں ہی تھے کہ دونوں باتیں کرتے کرتے ایک مقام پر کھڑے ہو گئے‘ اس دوران ابن انشاءنے محسوس کیا کہ پیچھے سے گزرنے والے طلباءاچھل اچھل کر گزر رہے ہیں‘ باتیں ختم ہوئیں تو ابن انشاءاجازت لینے سے پہلے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ محترم ہمارے پیچھے سے گزرنے والا ہر طالب علم اچھل اچھل کر کیوں گزر رہا ہے‘کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟ٹوکیو یونیورسٹی کے استاد نے بآواز بلند قہقہہ لگایا اور ابن انشاءکو بتایا کہ سورج کی روشنی سے ہمارا سایہ ہمارے پیچھے پڑ رہا ہے اوریہاں سے گزرنے والا ہر طالب علم نہیں چاہتا کہ اس کے پاﺅں اس کے استاد کے سایہ پر پڑیں‘ اس لئے ہمارے عقب سے گزرنے والا ہر طالب علم اچھل اچھل کر گزر رہا ہے‘ یہ قوم کیوں نہ ترقی کرے‘ ہمارے معاشرے میں تو استاد کا احترام اس کے گریڈ اورعہدے سے منسلک ہے

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP