بے زبانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں
اِس کہانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں
درد ایسا ہے کہ پتھّر کا کلیجہ پھٹ جائے
سخت جانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں
میہماں بن کے ستم گر نے ستم ڈھایا ہے
میزبانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں
کس نے بخشے ہیں اِن آنکھوں کو اُبلتے آنسو
حق بیانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں
تنگ ظرفی کی علامت ہے جتانا احساں
مہربانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں
ٹوٹ جائے نہ بھرم پیار کا اِک دن راغبؔ
خوش گمانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس
No comments:
Post a Comment