✅
*آج سابق صدرِ جمہوریہ ہند، ممتاز ماہرِ تعلیم اور ادیب
ڈاکٹر ذاکر حسین کے والد فدا حسین خان کا تعلق قائم گنج ضلع فرخ آباد اتر پردیش سے تھا لیکن وہ حید ر آباد منتقل ہو گئے تھے ۔ ذاکر حسین ۸ فروری ۱۸۹۷ ء کو حیدر آباد میں پیدا ہو ئے ۔ ذاکر حسین صاحب کی ابتدائی تعلیم روایتی انداز سے گھر پر ہی ہو ئی تھی ، خاص کر انگریزی پڑھانے کے لئے ایک معلم کا انتظام کیا گیا تھا ۔ بعد میں انہیں اٹاوہ کے مشہو ر اسلامیہ اسکول بھیج دیا گیا ۔ اسکول کے سر براہ مولوی الطاف حسین کی تربیت اور تعلیم نے ذاکر حسین کی شخصیت کو سنوارنے میں خا ص کردار ادا کیا ۔
ذاکر صاحب اٹاوہ سے کالج کی اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے علی گڑھ چلے گئے ، پھرالہٰ آباد یونیور سٹی کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے آپ نے اعلیٰ کا ر کردگی کا مظاہرہ کیا ۔ علی گڑھ کے قیام کے دوران ہی آپ نے افلا طون کی کتاب ’’ریاست ‘‘کا ارد و تر جمہ کر لیا تھا اور علی گڑھ کے میگزین کے لئے بھی آپ مستعد ی سے لکھتے رہے، پھر علی گڑھ یونیور سٹی سے ایم اے کیا اور وہیں اتدریس کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ اس دوران انھوں نے گاندھی جی کی تحریک میں بھی حصہ لیا۔جا معہ ملیہ کا قیام ۲۹ اکتوبر ۱۹۲۰ کو عمل میں آیا جامعہ ملیہ کے قیام اور ترقی میں انھوں نے کافی اہم رول ادا کیا ۔پھر مزید تعلی حاصل کرنے کی غرض سے جرمنی گئے ۱۹۲۶ ء میں وہاں سے معاشیات میں پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کی، وہیں انھوں نے مرزا غالب کی انتھالوجی پر بھی کام کیا۔جب دہلی آئے تو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر ہوئے۔ اس دوران تحریکِ آزادی میں بھی فعال حصہہ لیا، تقسیمِ ہند کے بعد ۱۹۴۸ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوئے اور اس عہدے پر ۱۹۵۶ تک فائز رہے، گو کہ وہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں تھے لیکن ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے اسی سال انھیں راجیہ سبھا کی رکنیت حاصل ہوئی۔۱۹۵۷ میں انھیں ریاست بہار کا گورنر نامزد کیا گیا۔۱۹۶۲ میں ذاکر صاحب ملک کے نائب صدر منتخب ہوئے، ۱۹۶۳ میں انھیں ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’بھارت رتن‘‘ تفویض ہوا اور پھر ۱۳ مئی ۱۹۶۷ کو تیسرے صدرِ جمہوریہ کے باوقار عہدے پر فائز ہوئے اور اسی عہدے پر رہتے ہوئے ۳ مئی ۱۹۶۹ کو ان کا انتقال ہوگیا، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس میں پورے قومی اعزاز کے ساتھ ان کی تدفین ہوئی۔
ذاکر صاحب ایک اہم ادیب بھی تھے، انگریزی اور اردو میں کئی اہم کتابیں لکھیں، اردو میں انھوں نے بچوں کے ادب کو ایک نئی جہت دی، ان کی کہانی ’’ابو خاں کی بکری‘‘ بہت مقبول ہوئی۔
Sunday, July 02, 2017
ڈاکٹر ذاکر حسین
Labels:
فرحین ناز
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment