You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Saturday, May 26, 2012

خدارا غور وفکر کیجئی


            ہم اور آپ مسلمان ہونے کی وجہ سے ہمیں اپنی زندگی ہمارے نبی  کے بتائے ہوئے راستوں پر ہی گزارنی چاہئے ۔اسی میں آخرت کی کامیابی ہی۔چند دنوں پہلے ایک خبر شائع ہوئی کہ ۵۲ مسلمان اجمیر معین الدین چشتی کی درگاہ پر جارہے تھے ،ایک حادثہ میں ان کی گاڑی میں آگ لگ گئی،اور وہ لوگ جل کر مر گئی۔واضح رہے کہ ہمیں مسجد حرام (کعبتہ اللہ )،مسجد اقصیٰ اور مسجد نبی ؐ جانے کے لئے خصوصی سفر کرنے کا حکم ہے ۔قرآن و حدیث کی روشنی میں اجمیر،بغداد یا کسی اور مقام پر جانے کا قطعی حکم نہیں ہی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مرنے والے مسلمانوں کا اجمیر سفر کرنا یہ عمل کیا عین قرآن و حدیث کی روشنی میں تھا؟ ہمیں اس تعلق سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہی۔دوسری بات یہ ہے کہ اجمیر میں معین الدین چشتی  کے عرس کے موقع پر جنتی دروازہ کھولنے کی تصویر شائع ہوئی ہے ۔ہماری ناقص معلومات اور دینی کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہے کہ دین اسلام میں کسی بھی درگاہ ،خانقاہ پر اس طرح کے جنتی دروازہ کا ذکر نہیں ہی۔البتہ قرآن کی تلاوت نیز حدیثوں کی کتابوں سے جنت کی معلومات ملتی ہے اور اسکے حاصل کرنے کا واحد راستہ رضائے الٰہی ہے اور رضائے الٰہی حاصل کرنے کا واحد راستہ بقول قرآن ’’اطیعو اللہ و اطیعو الرسول‘‘ یعنی اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت۔اللہ اس تعلق سے سمجھ عطا کرے اور مختلف مذہبی ادارے قرآن اور حدیث کی روشنی میں زندگی بسر کرانے کے لئے کم پڑھے لکھے اور انپڑھ مسلمانوں کی رہنمائی کریں ۔اللہ ہم سبھوں کو عامل قرآن بنائی۔آمین
ہاشم احمد چوگلی
روہا ۔ضلع رائے گڑھ
مہاراشٹر
موبائل ۔22142352

Friday, May 25, 2012

تعلیم کی طرف لوٹتے مسلمان دشواریاں اور خدشات

سیمینار میں اعظم خان کا خطاب۔میڈیکل کالج بھی قائم کرنے کا عزم
            رام پور کے ایک کالج سے طلباء یونین سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کرنے والے اور بعد میں علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء یونین میں اپنی ایک خاص پہچان بنانے والے اعظم خان جنہوں نے سماج وادی میں بھی اپنی ایک الگ شناخت بنائی ہے ۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اعظم خان نے سماج وادی سے امر سنگھ چودھری اور کلیان سنگھ کی چھٹی کرواکر سماج وادی میں ایک مضبوط پوزیشن بنالی ہے ۔پچھلے دنوں وہ دہلی کی شاہی جامع مسجد کے امام احمد بخاری کی مخالفت کرکے بھی خوب میڈیا کی توجہ اپنی جانب کرائی تھی ۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اعظم خان میڈیا میں آنے کا فن خوب جانتے ہیں ۔اس قبل بابری مسجد تحریک اور موقعہ پر متنازعہ بیان دیکر بھی وہ کافی چرچا میں تھے ۔اس کے بعد دوسرا سر سید بننے کی کوشش میں بھی انہیں خوب میڈیا کوریج ملا ۔ممبئی کے کچھ انکے بہی خواہوں نے اور کچھ متحرک تعلیمی کارکن نے ان کے اعزاز میں’’ تعلیم کی طرف لوٹتے مسلمان دشواریاں اور خدشات...... ‘‘کے عنوان سے 
سیمینار کا انعقاد کیاتھا۔
            اتر پردیس میں سماج وادی کی حکومت بننے کے بعد پہلی مرتبہ انہوں نے ممبئی کا دورہ کیا یہ دورہ آرگنائز کیا گیا تھا دلی کی دو غیر سرکاری تنظیموں اردو پریس کلب اورمائناریٹیز فورم آف انڈیا کے ذریعہ۔ انکے ساتھ ا تر پردیس کے کئی ایم ایل اے اور راجیہ سبھا کے رکن بھی تھے ۔منور سلیم جو کہ مدھیہ پردیش سے سماج وادی کے رکن راجیہ سبھا ہیں اور جن کی نامزدگی میں اعظم خان پیش پیش رہے تھے نے اعظم خان کو اپنا قائد کہتے ہوئے کہا کہ اعظم خان اس شخص کا نام ہے جس نے حکومت میں آنے کے بعد اپنے لئے کسی پیٹرول پمپ کا لائسنس نہیں مانگا نہ ہی کسی انڈسٹریل ایریا میں کوئی پلاٹ مانگا بلکہ انہوں نے قوم کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے لئے محمد علی جوہر یونیور سٹی مانگا ۔پروفیسر آئی یو خان نے کہا کہ ہم کوشش ہی نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہم پیچھے ہیں ۔گرچہ ہمارے تعلیمی اداروں کے ساتھ کافی پریشانیاں ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں ہمت نہیں ہارنا چاہئی۔ سید شعیب رضا نے کہا کہ پینسٹھ سالوں میں چالیس سال تو ہم عالم بے چارگی میں رہے جس میں تعلیم معاش سمیت مسلمان زندگی کے تمام شعبوں میں پچھڑ گئے لیکن ادھر بیس پچیس سالوں سے تعلیمی میدان میں ہم نے جو کا کیا ہے اس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں جس کی وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب ہم میں صرف انپڑھ اور جاہل ہی نہیں بلکہ اب ہم میں شاندار تعلیمی تکنیکی مہارت رکھنے والے بے شمار نوجوانوں کی تعداد ہی،جو اپنا راستہ خود چن سکتے ہیں۔خالد عرفان جو کہ اتر پردیش اسمبلی میں سماجوادی کی طرف سے نمائندگی کرتے ہیں نے کہا کہ قرآن کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک خود اسے اپنی حالت کے بدلنے کا خیال نہ ہو۔قرآن کا ہی دوسرا قول ہے کیا علم والے اور بغیر علم والے برابر ہوسکتے ہیں۔پھر بھی تعلیمی پسماندگی کی وجہ کیا ہے ۔کسی قوم کی ترقی تعلیم کے بغیر ناممکن ہے ۔اتر پردیش کے مسلمانوں نے ملک کے مسلمانوں کو یہ اشارہ دیا ہے کہ ہم حالات کا ڑخ بدل ڈالیں ۔انکا اشارہ یقینا اس بات کی طرف تھا کہ جس کانگریس نے آزادی 
کے ۵۶ سالوں میں مسلمانوں کو جہاں پہنچایا ہے اب مسلمان بھی کانگریس کو وہیں پہنچائیں ۔
            اعظم خان نے کہا کہ نبی ؐ پر پہلی وحی ہی اقراء سے شروع ہوئی اس کے باجود ہم تعلیم میں پچھڑ گئے ۔تعلیم تو اللہ کا حکم ہی۔انہوں نے کہا کہ میری تربیت مادر علمی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے کی ہی۔ ہم نے محمد علی جوہر یونیورسٹی اس لئے بنائی ہے کہ قوم کی تعلیمی پسماندگی کو دور کیا جاسکے ۔میں سرسید کے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے یہ قدم اٹھایا ہے لیکن سر سید کو جس طرح قوم نے ذلیل کیا میں اپنے ساتھ ویسا نہیں ہونے دونگا کیوں کہ میں سر سید نہیں ہوں ۔کانگریس کے بارے میں کہا کہ ۶دسمبر ۲۹۹۱ کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد کانگریس کے وزیر اعظم نرسمہا رائو نے کہا تھا کہ’’ مسلمان اداس نہ ہوں مسجد وہیں بنے گی ‘‘ ۔ہمیں آج بھی اس وعدے کے وفا کا ہونے کا انتظار ہی۔ہمیں اپنے سیاسی فیصلے خود ہی کرنا ہے ہم آپ کی مردہ نمائندگی نہیں کرتے ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے آپ نے دیکھا کہ ’]کلیان سنگھ کے ایشو پر ہماری بات مانی گئی‘‘۔بھارت میں ۲۵ یونیورسٹی ایسی ہے جس کے پرو وائس چانسلر اس کے قائم کرنے والے ہیں لیکن چونکہ میں مسلمان تھا اس لئے کانگریس کی حکومت نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا ۔آپ کو یہ جان کر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ اس یونیورسٹی کی مخالفت میں کانگریس سب سے آگے تھی ۔اعظم خان نے کہا کہ مایا وتی حکومت نے  نو سو دو کروڑ روپیہ جو مدارس کے لئے آئے تھے اس میں سے ایک روپیہ بھی مدارس کو نہیں ملے وہ پوری رقم اسی طرح واپس ہو گئی۔حج سبسڈی پر انہوں نے کہا کہ حکومت ہند مسلمانوں کو ذلیل کر رہی ہی۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ کہ دس سالوں میں حج سبسڈی ختم کی جائے میرا کہنا ہے کہ اگر یہ سبسڈی جائز ہے تو اسے جاری رہنا چاہئے اور اگر ناجائز اور خلاف قانون ہے تو پھر دس سالوں کا انتظار کیوں اسے فی الفور ختم ہونا چاہئی۔آخر میں کہا کہ میرے جیسا کمزور انسان جب ایک یونیورسٹی بنا سکتا ہے تو پھر ممبئی کے مسلمان تو ایسی کئی یونیورسٹیاں بناسکتے ہیں۔انہوں نے وعدہ کیا کہ جس دن محمد علی جوہر یونیورسٹی کا افتتاح ہوگا اسی دن میڈیکل کالج کی بھی بنیاد رکھ دی جائے گی۔اعظم خان کے مذکورہ بالا بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر اعظم خان اپنے پرو وائس چانسلر بننے پر نہ اڑتے تو آج محمد علی جوہر یونیورسٹی بن چکی ہوتی اور جو رقم انہوں نے اس پرائویٹ یونیورسٹی کو بنانے پر خرچ کی ہے اس سے قوم کے دوسرے فلاحی کام بھی ہوسکتے تھے

Sunday, May 20, 2012

مئی ٹیپو سلطان کی شہادت کا مہینہ ہے

-مئی کا مہینہ شہیدان محبت کے امام‘حریت کے پروانے ’’سلطان ابوالفتح علی ٹیپو‘‘کی شہادت کا مہینہ ہے ۔ جس نے غیرملکی اقتدارکوروکنے کے لیے اپنی پوری زندگی مجاہدانہ سرگرمیوں میں بسرکی۔ وطن کوغیرکی غلامی سے بچانے کے لیے اپنا آرام چین بھلادیا اور اپنی زندگی اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے قربان کردیا اور آخرکار خود بھی مردانہ وارلڑتاہوا شہیدہوگیا سلطان ٹیپوکی شہادت پرلارڈہارس بے اختیارپکاراٹھاکہ ’’آج ہندوستان ہماراہے‘‘ تمام بڑے مورخ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ 1764ء میں سندھیا کی وفات کے بعدانگریزہندوستان کی سرزمین پرمکمل قبضہ کی راہ میں صرف ایک شخصیت کو اپنا حریف سمجھتے تھے اوروہ تھا میسورکا مسلم فرمانروا ’’ٹیپوسلطان‘‘ ہندوستان کو غلامی سے بچانے کے لیے ٹیپو نے اس وقت کی ہندوستان کی تمام طاقتوں کو انگریزوں کے خلاف متحدہونے کی دعوت دی۔ حالانکہ اس وقت کے والیان ریاست متحدہ قومیت کے تصورسے بھی آشنا نہیں تھے۔ ٹیپونے مرہٹوں اورنظام دونوں کو آنے والے خطرے سے آگاہ کرنے کی کوششیں کی انہیں متحد ہوکر آزادی کے حفاظت کی ترغیب دلائی لیکن افسوس ذاتی اقتدار اورشخصی مفاد کے خاطر انگریزوں کا ساتھ دیا گیا بالکل اسی طرح جیسے آج اپنے اقتدارکو قائم رکھنے کے لیے امریکیوں کا ساتھ دیا جارہاہے۔ لیکن اقتداررہا نہ حکومت ‘وہاں یہ ہواکہ پوری ہندوستانی قوم غلامی کی دلدل میں دھنس گئی جس پر ہرتاریخ داں نے انہیں غداران قوم کے لقب سے پکارا۔ اقبال نے کہا۔ جعفر از بنگال وصادق از دکن ننگِ آدم ننگ دیں ننگ وطن لیکن افسوس کہ نہ جعفروصادق سبق سیکھتے ہیں نہ ان کے حامی وموالی ہی عقل سے کام لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ ہم نے اپنی آزادی کے حقیقی ہیروں کو بھلادیا۔ غلامی اورمحکومی سوچ وفکرمیں ایسے بسائی کہ آقائوں کی ہراداکو دل سے لگایا ان کے طورطریقے ادب وآداب تہذیب وثقافت زبان لباس ہرچیزکو اپنایا ان کی خوشی کو اپنی خوشی اور ان کی ناراضگی کو اپنی ناراضی کہا ہی نہیں سمجھابھی لہٰذا ہم نے اپنی تاریخ میں آزادی کے ان تمام ہیرووںکوجگہ نہ دی جنہوں نے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ سراج الدولہ‘ حافظ رحمت خان‘ شاہ اسماعیل شہید اورسید احمدشہید سب کو فراموش کردیا۔ یہ سب اس طقبے نے کیا جو اہل دانش کی حیثیت رکھتاہے جس کی بنیادی ذمہ داری قومی زندگی کو استحکام اورقوت فراہم کرناہوتی ہے۔ اقبال نے تاریخ کی گردصاف کرکے ہمیں ان کی یاددلائی لیکن اب تو لگتاہے کہ اقبال کوبھی ہم نے فراموشی کے پردوں سے ڈھانپنے کا ارادہ کرلیاہے۔ مہینوںکیا سالوں گزرجاتے ہیں ریڈیو ٹی وی پر نہ اقبال کی شاعری سنائی دیتے ہیں نہ اس کی فکرسے آگاہی کا کوئی پروگرام کیاجاتاہے۔ یوں نئی نسل اقبال سے ناآشنا سی ہوتی جارہی ہے۔ اقبال ٹیپوسلطان سے اپنی ملاقات کا حال جاوید نامے میں یوں کہتے ہیں ۔ آں شہیدانِ محبت را امام آبروئے ہندوچین وروم وشام نامش از خورشید ومہ تابند تر خاک قبرش از من وتو زندہ تر یعنی اے اقبال! سلطان ٹیپوشہیدانِ محبت کا امام تھا اور مشرقی ممالک کی آبرو(آزادی) اس کی ذات سے وابستہ تھی آج اس کا نام سورج اورچاند سے زیادہ روشن ہے اور اس کی قبرکی مٹی ہندوستان کے رسمی مسلمانوں سے زیادہ زندگی کے خواص اور آثاراپنے اندر رکھتی ہے۔ سیاسی تدبر اور حسن تدبیرمیں ٹیپوسلطان کو تمام ہندوستانی بادشاہوں پربلند مقام حاصل ہے۔ وہ ہندوستان کے مقتدر حلقوں میں پہلا شخص تھا جس نے انگریز بادشاہت کے بڑھتے ہوئے اثرات اور اس میں پنہاں خطرات کو پوری طرح محسوس کیا اور ان کو روکنے کے لیے بہترین تدابیرجوکچھ ہوسکتیں تھیں کیں۔ اس نے فوجی طاقت کے علاوہ صنعتی اورتجارتی شعبوں کی اہمیت کو محسوس کیاتمام گردونواح کے مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ سمٹ کر اس کی سلطنت میں جمع ہوجائیں۔ کیونکہ مضبوط متحد آبادی کی اہمیت سے واقف تھا۔ اس نے مسلم اورغیرمسلم ریاستوں کو انگریزوں سے مقابلہ کرنے کے لیے متحدکرنے کی بھی حتی الامکان کوشش کی۔ ان تمام حکمتوں اور قابلیت کے باوجود وہ ناکام رہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ نظرآتی ہے کہ وہ تمام قابلیتیں اورخوبیاں اس کی شخصی تھیں اجتماعی نہیں تھیں…ہندوستان کے لوگ اخلاقی طورپر بری طرح بگڑچکے تھے۔ سب سے بڑھ کرہرفرد اپنے اپنے ذاتی فائدے کے لیے ہرانتہا پرجانے کے لیے تیارتھا۔ لہذا جہاں اجتماعی فائدے کے بجائے ذاتی فائدہ اہم بن جائے فردقوم کے بجائے اپنی ذات کو مقدم رکھے تو وہاں کسی دوسری قوم کو غلبے سے روکنا ممکن نہیں رہتا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اوراس فتنے سے بچتے رہو جواگر اٹھا تو اس کی زد انہی پرنہیں پڑے گی جو تم میں ظلم کرنے والے ہیں بلکہ سبھی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ (سورہ انفال) حضرت عبداللہ بن عباسؓ جن کو رسول اللہ نے ’’ترجمان القرآن‘‘ کا خطاب دیا تھا’’فتنہ‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’لَسّلَطُ الظَلِمَتِہ‘‘ یہ ظالم قوم کا تسلط ہے۔ قرآن میں اسی سورہ میں بھی دوآیت کے بعد اس ظلم کی تفسیر فرمادی گئی کہ کون سی بداعمالی ہے جس کا ارتکاب اگر قوم کے بعض افراد کریں تو تمام قوم کی قوم محکوم بنادی جاتی ہے فرمایاگیا’’مسلمانوں ایسا نہ کروکہ اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کرو اور نہ یہ کہ آپس کی امانتوں میں خیانت کرو‘‘ اللہ کی سنت یہ ہی ہے کہ جب کسی قوم کے مقتدر افراد قومی اورملی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں تو ان کی بداعمالی کی سزامیں تمام قوم کی قوم غلام اور محکوم بنادی جاتی ہے۔ یہ نوشتہ تقدیرہے جسے پڑھااورسمجھانہیں گیا تو غلامی کی دلدل میں دھنسنا پھرمقدرٹھہرے گا۔

Saturday, May 19, 2012

تعزیتی نشست









لنترانی ڈاٹ کام  اور بھڑاس نامی ویب سائٹ کے بانی اور 
روح رواں ڈاکٹر روپیش سری واستو  کی ناگہانی موت سے اردو طبقے میں غم کا ماحول  بن گیا ہے ۔اسی موقع پر گل بوٹے  فاؤنڈیشن کی جانب سے  احمد ذکریا ہال  انجمن اسلام  سی ایس ٹی میں تعزیتی نشست  کا انعقاد کیا گیا تھا۔ڈاکٹر کلیم ضیاء نے  روپیش سری واستو  کی شخصیت پر  قطعات پیش کيۓ۔عرفان  جعفری  نے انھیں منظوم خراج   پیش کیا ۔جسے وہاں تمام لوگوں نے پسند کیا ۔گل بوٹے کے  مدیر فاروق سیّد  نے اپنے خیالات  کا اظہار کرتے ہوۓ  بتایا  کہ کس طرح  روپیش ان کی علالت کے موقع پران سے ملنے گۓ ۔اور دواؤں کے ساتھ ساتھ  اپنے خلوص سے  انہیں مقروض کردیا  ۔اس واقعے کو یاد کرتے ہوۓ  فاروق سیّد نے کہا  کہ یہ  قرض  اتارنے  کے لۓ  انہیں کسی بھی  مریض کے ساتھ  وہی حسن سلوک کرنا ہو گا ۔روزنامہ ہندوستان کے  مدیر سرفراز  نے اپنے خیالات  کا اظہار  کرتے ہوۓ  کہا کہ  ہم اپنی  صحت سے متعلق سوچتے ہیں۔ مگر وہی ہوتا ہے ۔جو خدا کو منظور ہوتا ہے ۔ زبیر اعظم اعظمی  نے کہا  کہ  اردو کا کوئی بھی پروگرام ہو سکتا تھا ۔یہی روپیش کی خوبی بھی   عبدالا حد ساز نے کہا کہ مجھے تو روپیش کی موت  کی خبر  سن کرمجھے یقین ہی نہیں آیا ۔اس موقع پر شہر کی معزز شخصیات موجود تھیں ۔ حامد اقبال صدیقی، ڈاکٹر قاسم امام ، اقبال نیازی،شمشیر پٹھان ، انجمن کے نائب صدر حسین پٹیل ، ریحانہ اندرے ، شیخ  عبداللہ ، ڈاکٹر مصطفی پنجابی ، سلیم الوارے ،افسر دکنی،فاروق سیّد ، مسسز نجمہ قاضی ، نادرہ موٹلیکر، نجمہ امتیاز،  غزالہ آزاد ،آیڈوکیٹ زبیر اعظم اعظمی، نجر بجنوری، آصف پلاسٹک والا شاداب صدیقی، منوج وراڈے ، شاداب رشید ،اجۓ سکسینہ ،اور مالیگاؤں اور پونہ سے بھی دیگر اشخاص نے شرکت کیں ،آخری میں ڈاکٹرروپیش سری واستو کی زندگی پر ایک ڈاکیومینٹری دکھائی گئي۔ اوران کے نام پر ہر سال ایوارڈ دینے اور اردو اسکول کا نام روپیش سری واستو کے نام سے منسوب کرنے کی تجویز رکھی  گئی ۔جس کی تائيد سب نے کیں۔    

Tuesday, May 15, 2012

کرناٹک اردو اکیڈمی میں


 ’’لن ترانی ‘‘ کے ڈاکٹر روپیش شری واستوکے انتقال پر تعزیتی جلسہ 
بنگلور ۔ 15  مئی ( راست ) آج مؤرخہ 15  مئی منگل کی دوپہر کرناٹک اردو اکیڈمی میں اردو کے معروف قلمکار پریم چند کے پوتے ڈاکٹر روپیش شری واستو کے انتقال پر ایک تعزیتی اجلاس منعقد کیاگیا جس میں مرزا عظمت اللہ ، رجسٹرار کرناٹک اردو اکیڈمی، حافظ کرناٹکی ، چیرمین کرناٹک اردو اکیڈمی ، جناب حافظ سید ثناء اللہ نظامی اور جناب نیر ربانی کے علاوہ اکیڈمی کا سارا عملہ موجود تھا، اس موقع پر حافظ کرناٹکی نے مرحوم کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو کسی کونے میں بیٹھ کر اردو کی خاموش خدمت کر رہے ہیں، ایسے لوگوں میں ڈاکٹر روپیش کی بھی ایک گمنام شخصیت تھی، جن کے مرنے کے بعد اردو برادری کو اردو کے تئیں ان کی خدمات کا اندازہ ہوا ، ڈاکٹر روپیش شری واستو پریم چند برادری کے ایک ایسے فرد تھے جو پریم چند کے مشن کو ان کہے طورپر اپنا مشن بنا چکے تھے اور اسی کے تحت کام کر رہے تھی، ان کی شخصیت میں سچائی اور حق گوئی کا چارہ پوری طرح سما چکا تھا، وہ ملک دشمن عناصر کے خلاف نہایت خاموشی سے جہاد کر رہے تھی، انہیں اردو زبان سے ایک خاص لگاؤ اور محبت تھی، یہی وجہ تھی کہ وہ اس زبان کے فروغ کے لئے ہر طرح کی کوشش کر رہے تھے ۔ لن ترانی انہی کوششوں کا اثاثہ ہے ، اور ان کی خواہش تھی کے اردو کمپیوٹر جاری ہو ، تاکہ اردو برادری اس اردو کمپیوٹر سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو ۔ انہیں یہ بات ناگوار گزرتی تھی کہ لوگ اردو کی روٹی کھا کر انگریزی بات چیت کرتے ہیں، او راپنے روز مرہ کے کاموں میں انگریزی بول چال کا استعمال کرتے ہیں، حافظ کرناٹکی نے کہا کہ یہ میرے اچھے اردو دوست تھی، جن کے اندر اردو زبان کی ترقی کی حسرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس کے فروغ کے لئے وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھی، وہ آج ہمارے درمیان نہیں رہے ۔ دعا ہے کہ اردو دنیا کو ان کا نعم البدل عطا ہو ۔ امید ہے کہ ان کے شاگرد ستیہ پرکاش اس کام کو آگے بڑھائیں گے ، محترمہ منور سلطانہ باجی اس کام کو آگے بڑھائیں گے ، آج ایک اچھے اردو ساتھی اور ایک اچھے رہبر کو انہوں نے کھویا ہے ۔ اللہ انہیں صبر جمیل عطا کرے ۔
کرناٹک اردو اکیڈمی کے رجسٹرار جناب ایس مرزا عظمت اللہ نے کہا کہ اردو کے ایسے سچے خادم کی خدمات کو ممبئی جیسے بڑے شہر میںموجود سینکڑوں اردو انجمنوں نے کبھی نہیں سراہا ۔ مجھے فخر ہے کہ جناب حافظ کرناٹکی نے ڈاکٹر  روپیش کو شکاری پور بلا کر ان کی خدمات کے اعتراف میں ایک جلسہ منعقد کیا اور انہیں اعزاز سے نوازا ۔ڈاکٹر  روپیش اردو کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے اور اردو کے تئیں ان کے عزائم انتہائی بلند تھی۔ 
جناب حافظ ثناء اللہ صاحب نظامی نے کہاکہ ڈاکٹر روپیش کے انتقال کی خبر سن کر بڑا صدمہ ہوا ۔ یہ خبر نہ صرف ہمارے لئے بلکہ اردو دنیا کے لئے ہی نہایت رنجیدہ رہی ، اردو دنیا کے لئے یہ بہت بڑا نقصان تصور کیا جاسکتا ہے ۔ مرحوم بالکل خاموش اور گمنامی کے ذریعہ اردو ادب کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہے ، اب ان کا ثانی پیدا ہونا ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہے ، اردو ادب کے لئے ایسے گمنام اور بے لوث خدمات انجام دینے والے اگر دو چار بھی مل جائیں تو شاید اردو زبان کی تقدیر ہی بدل جائے ۔ اللہ کرے کہ اردو ادب میںایسے ہی افراد پیدا ہوں،اور زبان اردو کو جگمگاتے ہوئے اپنی نمایاں خدمات اپنے پیچھے چھوڑ جائیں ۔جناب منصور علی خان ( المنصور گرافکس )، جناب نوید پاشاہ (صدر ، اقراتحفظ اردو تنظیم بنگلور)نے کہا کہ جناب روپیش کی موت ہمارے لئے باعث غم ہے ، گزشتہ کچھ دنوں قبل وہ ہمارے درمیان ہنس بول رہے تھے اور ان سے بے انتہائی بے تکلفی ہوگئی تھی، لیکن آج اچانک ان کی موت کی خبر سن کر ہم پر سکتہ طاری ہوگیا ۔ جناب کلیم پاشاہ ( تاج پرنٹرس ) بھی اس تعزیتی اجلاس میں شریک رہے اور ڈاکٹر روپیش کے انتقال پر گہرے رنج کا اظہار کیا۔  رجسٹرار مرزا عظمت اللہ کے کلمات تشکر پر یہ مجلس اختتام کو پہنچی ۔ 

Monday, May 14, 2012

ماں‘ میرے لیے خاص کیوں ہے؟



میری ماں میرے لیے خاص کیوں ہے؟ جب میں سخت بارش میں گھر آیا تو میرے بھائی نے استفسار کیا: تم نے چھتری کیوں نہیں لی؟ میری بہن نے کہا: تم نے بارش رکنے کا انتظار کیوں نہ کیا؟ والد صاحب نے تنبیہہ کی کہ تم بیمار ہوئے تو تمہاری خیر نہیں۔ مگر ماں، جو اب تک میرے بال خشک کررہی تھی بولی: اے بارش، میرے بچے کے گھر پہنچنے تک انتظار تو کرلیتی۔ یہ ہے ماں… نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھا کہ میں نے اپنی معذور ماں کو کاندھوں پر بٹھاکر حج کروایا ہے، کیا میرا حق ادا ہوگیا؟ ارشاد فرمایا: ابھی تو اُس ایک رات کا حق ادا نہیں ہوا جس رات تُو نے بستر گیلا کردیا تھا اور تیری ماں نے تجھے خشک جگہ پر سلایا اور خود گیلے میں سوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اپنی والدہ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے کوہِ طور پر تشریف لے گئے تو ایک غیبی آواز آئی: ’’اے موسیٰ، اب ذرا سنبھل کے آنا اور سوچ سمجھ کر گفتگو کرنا۔‘‘ حضرت موسیٰ بہت حیران ہوئے اور پوچھا ’’یاباری تعالیٰ وہ کیوں؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اب تمہارے لیے مجھ سے رحم و کرم اور عنایت کی دعا کرنے والی ماں اس دنیا میں نہیں رہی۔‘‘ ماں… احسانات، احساسات، خوبیوں اور جذبات کا وہ مجموعہ ہے جو سارے زمانے کے وار اور موسم کی سختیاں اپنے جسم پر سہتی ہے مگر اس کا ہر لمحہ رشتوں کو پیار کی ڈوری میں پروتے اور اپنی اولاد کے لیے خوشیاں خریدتے گزرتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک دوست کے پاس اُس کی والدہ کی وفات کا افسوس کرنے گیا تو اُس نے بتایا کہ اس کی ماں نے اس کی آسائشوں کی خاطر اس سے آٹھ جھوٹ بولے اور وہ چاہنے کے باوجود اس کے لیے کچھ نہ کرسکا۔ اس نے بتایا کہ ’’اس کی ماں ہمیشہ سچ نہیں بولتی تھی۔ وہ ایک غریب فیملی کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اکثر کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا۔ اگر کبھی کچھ مل جاتا تو ماں اپنے حصے کا کھانا بھی اسے دے دیتی اور کہتی تم کھالو مجھے بھوک نہیں ہے۔ یہ اس کی ماں کا پہلا جھوٹ تھا… تھوڑا بڑا ہوا تو ماں گھر کا کام ختم کرکے قریبی جھیل پر مچھلیاں پکڑنے چلی جاتی۔ ایک دن بالآخر اس نے دو مچھلیاں پکڑلیں، انہیں جلدی جلدی پکایا اور اس کے سامنے رکھ دیا۔ وہ کھاتا جاتا اور جو کانٹے کے ساتھ تھوڑا بہت لگا رہ جاتا اسے اس کی ماں کھاتی۔ اس نے دوسری مچھلی ماں کے سامنے رکھ دی۔ اس نے واپس کی اور کہا: بیٹا تم کھالو مجھے مچھلی پسند نہیں ہے۔ یہ اس کی ماں کا دوسرا جھوٹ تھا… جب وہ اسکول جانے کی عمر کا ہوا تو اس کی ماں نے ایک گارمنٹس فیکٹری میں ملازمت اختیار کرلی، سردی کی ایک رات جب بارش زوروں پر تھی، وہ ماں کا انتظار کرتا رہا جو ابھی تک نہیں آئی تھی، بالآخر وہ اسے ڈھونڈنے آس پاس کی گلیوں میں نکلا، دیکھا تو وہ لوگوں کے دروازوں پر کھڑی سامان بیچ رہی تھی، اس نے کہا: ماں اب بس بھی کرو، سردی بھی بہت ہے، رات بھی ہوگئی ہے اور تم تھک بھی گئی ہو، باقی کل کرلینا، تو ماں بولی: بیٹا میں بالکل نہیں تھکی۔ یہ اس کی ماں کا تیسرا جھوٹ تھا… ایک روز اس کا فائنل پیپر تھا، اس کی ماں نے ضد کی کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلے گی۔ وہ اندر پیپر دے رہا تھا اور وہ باہر دھوپ کی تپش میں کھڑی اس کے لیے دعا کررہی تھی۔ وہ باہر آیا تو اس کی ماں نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا اور ٹھنڈا جوس لے کر دیا۔ اس نے ایک گھونٹ لیا اور ماں کے پسینے سے شرابور چہرے کی طرف دیکھ کر جوس اس کی طرف بڑھایا تو بولی: مجھے پیاس نہیں ہے۔ یہ اس کی ماں کا چوتھا جھوٹ تھا… اس کے باپ کی موت ہوئی تو زندگی مزید مشکل ہوگئی، اکیلے گھر کا خرچ چلانا آسان نہ تھا، اکثر نوبت فاقوں تک آجاتی۔ رشتہ داروں نے ان کی حالت دیکھ کر ماں کو دوسری شادی کا مشورہ دیا مگر ماں نے کہا: ’’مجھے کسی سہارے کی ضرورت نہیں‘‘۔ یہ اس کی ماں کا پانچواں جھوٹ تھا… گریجویشن مکمل کرنے پر اچھی ملازمت مل گئی، سوچا اب ماں کو آرام کرنا چاہیے وہ بہت بوڑھی ہوگئی ہے۔ اس نے ماں کو کام سے روک دیا اور اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ اس کے لیے مختص کردیا۔ ماں نے انکار کیا اور کہا کہ اسے پیسوں کی ضرورت نہیں۔ یہ اس کی ماں کا چھٹا جھوٹ تھا… حصولِ روزگار کے لیے وہ بیرون ملک چلاگیا۔ کچھ عرصے بعد ماں کو اپنے پاس بلایا تو اس نے بیٹے کی تنگی کے خیال سے منع کردیا اور کہا کہ اسے گھر سے باہر رہنے کی عادت نہیں۔ یہ اس کی ماں کا ساتواں جھوٹ تھا… ماں کو کینسر ہوا، وہ بہت لاغر ہوگئی۔ وہ اپنی ماں کے قدموں میں بیٹھ کر خون کے آنسو رونے لگا، ماں اسے دیکھ کر مسکرائی اور بولی: مت رو بیٹا، میں ٹھیک ہوں۔ یہ اس کی ماں کا آٹھواں جھوٹ تھا، اور پھر اس کی ماں نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب ماں کی تخلیق کی تو اسے رحمت کی چادر، چاہتوں کے پھول، پاکیزہ شبنم، دھنک کے رنگوں، دعائوں کے خزانوں، زمین و آسمان کی وسعتوں، جذبوں، چاہتوں، چاند کی ٹھنڈک، خلوص، رحمت، راحت، برکت، عظمت، حوصلے اور ہمت کے تمام رنگوں سے مزین کیا، یہاں تک کہ اس کے قدموں میں جنت ڈالی۔ یوں ماں قدرت کا بہترین تحفہ اور عطیہ ہے جس کی قدر ہم پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔ ’’ماں‘‘… یہ لفظ بہت سے معنی اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے۔ ممتا، پیار، وفا، قربانی، محبت، لگن، سچائی، خلوص، پاکیزگی، سکون، خدمت، محنت، عظمت، دعا، سایہ، دوست، ہمدرد، راہنما، استاد، بے غرضی، معصومیت، عبادت، ایمان، دیانت، جذبہ، جنت، یہ سب ماں کی خوبیوں کی صرف ایک جھلک ہے، ورنہ اس کی خوبیاں تو اس قدر ہیں کہ لفظ ختم ہوجائیں مگر ماں کی تعریف ختم نہ ہوگی۔ پس ’’ماں‘‘… ایک ایسا موضوع ہے کہ قلم بھی جس کا احاطہ نہیں کرپاتا۔ اس موضوع پر بہت ضخیم کتب لکھی جاسکتی ہیں مگر ماں کے احسانات، احساسات اور چاہتوں کا بدلہ تب بھی نہیں چُکتا۔ والدین کے احسانات کے بارے میں سوچنے بیٹھیں بھی، تو سوچ ان کے احسانات کے مقابلے میں بہت پیچھے دکھائی دیتی ہے۔ مائیں عزم و حوصلے اور ایثار و قربانی کا پیکر ہوتی ہیں۔ ہم تو مائوں کی ایک رات کا قرض بھی نہیں چکا سکتے۔ میرزا ادیب اپنی کتاب ’’مٹی کا دیا‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اباجی مجھے مارتے تھے تو امی بچا لیتی تھیں، ایک دن میں نے سوچا کہ اگر امی پٹائی کریں گی تو اباجی کیا کریں گے؟ یہ دیکھنے کے لیے میں نے امی کا کہا نہ مانا، انہوں نے بازار سے دہی لانے کو کہا میں نے بات نہ مانی، انہوں نے سالن کم دیا میں نے زیادہ پر اصرار کیا، انہوں نے کہا پیڑھی کے اوپر بیٹھ کر روٹی کھائو، میں زمین پر دری بچھاکر بیٹھ گیا، لہجہ بھی گستاخانہ اختیار کررکھا تھا۔ مجھے پوری توقع تھی کہ امی ضرور ماریں گی، مگر انہوں نے مجھے سینے سے لگاکر کہا: کیوں بیٹا! ماں صدقے جائے تم بیمار تو نہیں؟ اُس وقت میرے آنسو تھے کہ شرمندگی کے مارے رکنے میں نہیں آرہے تھے۔ جب بھی میرے دل کی مسجد میں تیری یادوں کی اذان ہوتی ہے اے ماں میں اپنے ہی آنسوئوں سے وضو کرکے تیرے جینے کی دعا کرتا ہوں بلاشبہ ماں کا وجود ایک نعمت اور اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی انسان کامیاب ہے تو اس کے پیچھے اس کی ماں ہی کا ہاتھ ہے جس کا آج وہ ثمر پارہا ہے۔ ان کی مائوں نے پال پوس کر ان پودوں کو تناور درخت بنایا اور اپنی مائوں ہی کے طفیل آج یہ پیڑ عمدہ اور رسیلا پھل دے رہے ہیں۔ ان کی تربیت میں جو خوبیاں ہیں وہ ان کی مائوں ہی کی مرہونِ منت ہیں۔ ماں کا وجود صرف گھر کے لیے ہی نہیں بلکہ ہماری زندگیوں کے لیے بھی مقدس صحیفے کی مانند ہے۔ ماaں تو تپتے صحرا میں بوند برسنے کا نام ہے۔ یہ کڑی، چلچلاتی دھوپ میں ابر کی مانند ہے۔ دعا ہے کہ جن کے والدین حیات ہیں خدا کرے ان کا سایہ ہمیشہ سلامت رہے اور وہ ہر دکھ، پریشانی، آفت اور آزمائش سے محفوظ ہوں۔ اور جو لوگ والدین کی نعمت سے محروم ہیں وہ اس دعا کا ورد کرتے رہا کریں: … رب ارحمھما کما ربینی صغیرا …

Thursday, May 10, 2012

روپیش سری واستو ہمیشہ کے لیے دلوں میں رہیں گے




تین کہانیاں جو کہ بہت ہی مشہور ہیں ۔ایک   آدمی تھا جو بہت  خوبصورت اور تعلیم یافتہ تھا ۔بہت  امیر  تھا ۔ایک  دن اچانک وہ مر گیا ۔
دوسری کہانی یہ ہے کہ ایک آدمی تھا جو بہت  دولت مند   ہر کام میں ماہر  تھا ۔بہت پیسے والا تھا ۔ لوگوں میں مشہور تھا ۔ غریبوں کا مسیح تھا۔وہ ایک دن مر گیا ۔
تیسری کہانی یہ ہے کہ  ایک آدمی تھا جو بہت غریب تھا ۔ان پڑھ تھا ۔وہ بھی مرگيا ۔
یہ کہانی جو کہ سب کو سنایا کر  تا تھا۔ہر  اردو  ادب  کی محفل کی جان تھا ۔اردو کے فروغ  کے لیے کوشش کرتا رہتا تھا ۔اردو  ویب سائٹ لنترانی ڈاٹ کام اور لنترانی میڈیا ہاؤس کا   مینیجنگ ڈائریکٹر  بروز بدھ مورخہ  9 مئی 2012ء کو حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے  اس دار فانی سے کوچ کر  گئے۔ان کی عمر 38 سال تھی ۔ لنترنی آٹ کام ، بھڑاس     ڈاٹ کام ،اردھ ستیہ بلاگ ، آیوش دید ڈاٹ کام جس پر آیوشوید کی مفت صلح دی  جاتی تھی ۔ اہل اردو سے پر تپاک  سے  ملنا ، ان کی محفلوں میں شریک ہونا اور وقت ضرورت ان کے ساتھ تعاون کرنا  ڈاکٹر روپیش سری واستو کا خاصہ تھا  اچانک اس سانحہ سے اردو حلقوں میں دکھ کی لہر دوڑ گئی ہے ۔

Saturday, May 05, 2012

سابق وزیر اعلی جناب ایڈیورپا کے ہاتھوں مختلف سرکاری عمارتوں کا افتتاح اور حق پتروں کی تقسیم









آج بتاریخ 05-05-2012کو ضلعی انتظامیہ نے ایک یادگار جلسے کا انعقاد کیا۔ جس میں سابق وزیر اعلی جناب ایڈورپا نے شکاری پور میں ایک سو چالیس کروڑ کی لاگت سے بنی مختلف سرکاری عمارتوں کا افتتاح کیا۔ اور تقریباً ایک ہزار بے گھر لوگوں میں حق پتر تقسیم کیا۔ اس اہم جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ جناب ایڈیورپا نے کہا کہ 
میں نے ہمیشہ کام کرنا چاہا اور کام کیا۔ ان دنوں آپ ٹی وی پر میرے مقدمے سے متعلق کافی خبریں دیکھ رہے ہوں گے۔ میں کورٹ کے فیصلے کا منتظر ہوں اور اس کا ہر فیصلہ ماننے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ جب میں یہاں کا ایم ایل اے تھا تب بھی کام ہی میرا مشن تھا۔ اور وزیراعلیٰ بن کر اپنی ریاست اور اپنے ضلع کی ترقی کا خواب دیکھتا تھا، مجھے موقع ملا اور میں نے کام کیا۔ آج کام ہی میری پہچان ہے۔ انہوں نے میڈیا والوں پر اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خبریں شائع کریں۔ سچ لکھیں۔ خبریں گڑھیں اور بنائیں نہیں۔ میرا نام ایڈیورپّا ہے۔ اور آپ مجھے یڈی لکھتے ہیں۔ آخر میں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے جو آپ میرا نام بگاڑ رہے ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ میں شکاری پور کو ترقی اور بیداری کی جس مقام پر دیکھنا چاہتا تھا۔ آج شکاری پور اس مقام تک پہنچ چکا ہے۔ میں نے ابھی گھر گھر جا کر شکاری پور کودیکھا ہے۔ ایک ہائی اسکول پاس آدمی کے تین بیٹوں سے ملا ہوں۔ ایک ڈاکٹر ، ایک انجنئیر ہے۔ اورایک ڈگری پڑھ رہا ہے۔ یہی تو میں چاہتا تھا کہ میرا گاؤں تعلیم کے میدان میں آگے آئے۔ سو آج میں کہہ سکتا ہوں کہ میرا خواب بہت حد تک پورا ہوا۔ یہی چیز میرے لیے اطمینان کا باعث ہے۔ 
بی وائی رگھوویندرا ایم پی شیموگا نے کہا کہ 
آج جن نئی سرکاری عمارتوں کا افتتاح ہوا ہے وہ میرے والد کا دیرینہ خواب تھا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے گاؤں کی ترقی کو اولیت دی۔ وہ چاہتے تھے کہ شکاری پور ریاست کا سب سے ترقی یافتہ تعلق بن جائے اور کہنا چاہیے کہ وہ بن گیا۔آج یہاں ایک ہزار بے گھر لوگوں کو حق پتر بھی تقسیم کیا گیا۔ یہ بھی اس تعلق کی ترقی کی ایک مثال ہے۔ آج شکاری پور کی ہرگلی پختہ ہے۔ ہر سڑک کشادہ ہے۔ اور ایک خوبصورت اور اعلیٰ قسم کا پارک بھی یہاں ہے۔ یہ سب ہمارے سابق وزیراعلیٰ جناب ایڈیورپا صاحب کی محنت کا پھل ہے۔ 
منسٹر بسوراج بومئی نے کہا کہ 
ایڈیورپا جی نے شکاری پور کو سنگاپور بنادیا ہے۔ یہاں کے اوچرا سوامی پارک کو دیکھ کر یقین نہیں آتا ہے کہ ہم ہندوستان کی ایک ریاست کے چھوٹے سے تعلق میں ہیں یا یوروپ کے کسی ترقی یافتہ ملک میں۔ شیموگا ضلع کے کئی لوگ منسٹر اور چیف منسٹر بھی بنے۔ مگر کچھ کام نہیں کرسکے۔ ایڈیورپا جی نے نہ صرف یہ کہ کام کیا۔ بلکہ سیکھ دی کہ اس طرح کام کیا جاتا ہے۔ 
منسٹر جگدیش شٹر نے کہا کہ 
ایڈیورپا جی ہمارے ایسے لیڈر ہیں جن سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اور آگے بھی سیکھتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایڈیورپا جی کی محنت ہی کا پھل ہے کہ آج شکاری پور ریاست کرناٹک کے نقشے پر نمایاں ہے۔ اور اس کی ترقی مثالی سمجھی جاتی ہے۔ 
ایم پی اینور منجوناتھ نے کہا کہ 
آج حکومت کی جن خوبصورت عمارتوں کا افتتاح ہوا ہے اورہم نے جو پنچایت راج کا دفتر دیکھا ہے۔ اسے دیکھ کر بے ساختہ دل چاہنے لگا کہ کاش میں ایم پی نہ ہو کر پنچایت کا کوئی ممبر ہوتا۔ تو آج اس شاندار عمارت کے اس خوبصورت دفتر میں کام کرتا۔ واقعی ایڈیورپا جی نے وہ کر دکھایا جو آج تک کسی سے نہ ہوسکا۔ 
حافظ کرناٹکی چیرمین کرناٹک اردو اکیڈمی نے اس موقع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
جناب ایڈیورپا جی کی شخصیت کا بڑا وصف یہ ہے کہ وہ اتحاد و مساوات کے حامی ہیں اور ہمیشہ تعمیری کاموں پر توجہ دیتے ہیں۔ ریاست کرناٹک میں آج تک کوئی ایسا لیڈر پیدا نہیں ہوا جو ایڈیورپا جی کی طرح مسلمانوں کے مسائل پر توجہ دیتا ہو۔ اور اسے جلد سے جلد حل کرنے کی کوشش کرتاہو۔ ایڈیورپا جی کی شخصیت مثال ہے۔ کہ اتحاد و اتفاق سے کس طرح ترقی کے کام کیے جاتے ہیں۔ 
اس جلسے میں سی۔ایم اداسی منسٹر P.W.Dمنسٹر وی سومنّا، منسٹر اومیش کٹی، منسٹر نارائن سوامی اور ایم۔ایل سی سدرامنا کے علاوہ ضلع سطح کے تمام بڑے افسر اور ڈائریکٹرس نے شرکت کی۔ اس جلسے کی نظامت ڈی۔ایچ شنکر مورتی سبھا پتی ودھان سودھا نے کی اور انہیں کے شکریہ پر یہ جلسہ اختتام کو پہنچا۔

BCCIکے انتخاب نو میں پروفیسر عبدالمجید صدیقی کو قومی سطح پر صدر منتخب کیا گیا رضوان عبدالمطلب کو خازن کی ذمہ داری سونپی گئی


 ۴۔مئی ۲۰۱۲ء ؁ بروز جمعہ دوپہر ۳ بجے عمل میں آیا۔جس کی صدارت زکی کرمانی صاحب (علی گڑھ) نے فرمائی۔اس میٹنگ میں کار گذار صدر پروفیسر صدیقی نے سی سی آئی کے پچھلے تین سالہ سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کی جس پر حاضرین نے اطمینان کا اظہار کیا۔
سی سی آئی کے مستقبل کے تعلق سے یہ طے پایاکہ سرکاری اسکالرشپ اسکیموں پر کام کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔نیز سہ ماہی نیوز لیٹر آن لائن جاری کیا جائے۔اسی طرح غیر سرکاری مسلم تنظیموں کے Empowerment کا سلسلہ پھر جاری کیا جائے۔ای ۔میل اور ایس ایم ایس کے زریعے سی سی آئی کے رابطوں کو مزید مظبوط کیا جائے۔اس Network میں خاص طورپر ملک گیر پیمانے پر مسلم وزراء ،ارکان پارلیمان و اسمبلی نیز اہم مسلم شخصیات کے موبائل نمبرس اور ای میل آئی ڈی شامل کیئے جائیں۔اس میٹنگ میں سی سی آئی سے متعلق کچھ ذمہ داریاں از سرِ نو تفویض کی گیءں جس کیمطابق پروفیسر عبدالمجید صدیقی کو قومی سطح پر صدر منتخب کیا گیااور بطور خازن جناب رضوان عبدالمطلب(مالیگاؤں) کو ذمہ داری سونپی گئی۔بقیہ تمام عہدے ویسے ہی برقرار رکھے گئے۔اسی طرح نیشنل کونسل کے اراکین کو بھی حسب سابق برقرار رکھا گیا۔
آخر میں پروفیسر صدیقی نے اس نئی ذمہ داری کے تفویض کئے جانے پر جس اعتماد کا اظہار اراکین نے کیا ہے اس کا آپ نے شکریہ ادا کیا گیا،تمام اراکین سے تعاؤن کی پر زور اپیل کی نیز اس بات کا یقین دلایا کہ ملک وملت کے مفاد میں سی سی آئی کے زریعے کام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
 

Friday, May 04, 2012

گلوبل کوکن ڈايئریکٹری 2013ء

کوکن کی سیاسی سماجی ادبی    تعلیمی طبی اور دیگر میدانوں میں  نمایاں  کارہاۓ انجام دینے والی  مسلم  شخصیات پر مشتمل '' گلوبل کوکن ڈايئریکٹری  ''کے   حوالے سے تفصیلات   یکجا کرنے کا کام جاری ہے ۔معروف سرجن  اور رائل  ایجوکیشن فاؤنڈیشن  کے سربراہ  ڈاکٹر  اے آر اندرے اور ڈاکٹر فاروق الرحمن  ( دائریکٹری کنوینر) نے جمعہ  4 مئی 2012ء کو رائل  ایجوکیشن کے بینر تلے   پریس کانفرنس کے دوران " گلوبل ڈائریکٹری''سے متعلق   تفصیلات کے  ساتھ  اغراض  ومقاصد  بیان  کیے۔ 2008ء میں شائع شدہ ''کوکن ڈائریکٹری مع  کوکن نامہ'' کے حوالہ سے تفصیلات   بتائی  کہ  اس میں 235 شخصیات اور ان کے کاناموں  کا احاطہ کیا گیا ہے لیکن جو ڈائریکٹری  زیر ترتیب  ہے  اس کے  لیے   ہندوستان  اور دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوۓ  کوکن  سے تعلق رکھنے والے  کم از ایک ہزار  لوگوں کی تفصیلات  یکجا      کرنے کا کام شروع کی گیا ہے ۔جو انشا اللہ جنوری  

تک   پایہ ء تکمیل  کو پہنچے گا '' انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کا بنیادی مقصد  کوکنیوں کو عالمی سطح پر  متعارف   کرانا  ان کی خدمات  کو عام کرنا  اور دنیا  کے مختلف ممالک  میں  الگ الگ  میدانوں میں  خدمات انجام  دینے والوں کو   ان  کی  بنیادوں  سے جوڑنا، آپس  میں  رشتہ داریوں کو فروغ        دینا  اور یہ  بتانا  ہے کہ ان کے آباءو اجداد  کا تعلق اسی  خطہء کوکن سے ہیں  ۔جسے قدرت نے  ایک منفرد  مقام عطا  کیا ہے ۔''اس کام کے لیے  مختلف ذرائع سے اہل کوکن  سے رابطے کا عمل  جاری ہے "


Wednesday, May 02, 2012

مسلم اور دلت اتحاد کے ساتھ ہی عوامی وکاس پارٹی کا قیام









 محروم طبقات کو انکے حقوق دلانے کا عزم یکم مئی مزدوروں کا بین ا لاقوامی دن اور یوم مہاراشٹر کے موقع پر مہراشٹر کے مسلمانوں اور دلتوں نے ایک نئے عزم کے ساتھ ایک سیاسی پارٹی کی بنیاد ڈالی ئجس کا اعلان آج یکم مئی کو ممبئی کے کنگ سرکل میں واقع شان مکھانند ہال میں سبک دوش اسسٹنٹ پولس کمشنر ممئی شمشیر خان پٹھان (صدر ) اور ببن کامبلے (نائب صدر) نے کیا ۔اس تاریخی اجلاس کا افتتاح بچوں کے ذریعہ بنے ماڈل سے ہوا جس میں کوئی شیوا جی تھا تو کوئی مولانا آزاد ۔ایم اے خالد جو کہ ایک آر ٹی آئی ایکٹیوسٹ ہیں نے اپنے افتتاحی کطاب میں کہا کہ مسلمانوں دلتوں اور دیگر محروم طبقات کے لئے یہ ایک متحدہ پلیٹ فارم ہے۔عام طور پر سیاسی پارٹیاں دو وجوہات کی بنا پر بنا کرتی ہیں ایک تو اس پارٹی بغاوت کرکے ایک الگ پارٹی بناتے ہیں دوسرے اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے ۔انہوں کہا کہ جب ہمارے مقدر کا فیصلہ پارلیمنٹ ،اسمبلی اور کارپوریشن میں ہوا کرتا ہے تو کیوں نہیں ہم اپنے نمائندے وہاں بھیجیں جو ہمارے حقوق کی حفاظت کریں۔انہوں کیرل کی مثال دی کہ وہاں مسلمان حکومت میں شراکت دار ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ وہاں مسلمانوں کے سات میڈیکل کالج ہیں۔کیرل کے مسلمانوں کی حیثیت پورے ملک کے مسلمانوں اور محروم طبقات کیلئے رہنما کی سی ہے۔ڈی ساونت نے کہا کہ سنجیدگی سے پورے عزم و حوصلے کے ساتھ قدم آگے بڑھائیں تو یقیناًکامیابی ملے گی۔امتیاز پیر زادہ (پونے) نے اپنے مسائل خود کے زریعہ بنائے گئے سیاسی پلیٹ فارم سے ہی ممکن ہے ۔ہم نے کانگریس کو ووٹ دیا لیکن کانگریس نے ہمیں TADA,POTA,MCOCA جیسے ظالمانہ قانون دیئے انہوں نے ہمیں بھیونڈی ،ممبئی سمیت انگنت فساد دئے ۔ہم نے انہیں ووٹ دیا انہوں نے ہمیں دہشت گرد اور غداری کا لیبل دیا۔ہماری یہ بری حالت کس نے بنائی اسی کانگریس اور این سی پی کی حکومت نے ،ہم اپنی کوئی مانگ لیکر جاتے ہیں تو کلکٹر ہمارے سامنے تو یہ کہتا ہے کہ ہم غور کریں گے ،لیکن ہمارے وہاں سے ہٹتے ہی وہ ہمارے مطالبات والی فہرست یا درخواست کچڑے میں پھینک دیتا ہے ۔اس لئے ہم بیداری کا ثبوت دیں عوامی وکاس پارٹی کا ساتھ دیں جو ہمارے حقوق کے لئے لڑیں گے۔ مبارک کاپڑی نے کہا کہ جو قوم قوالی میں پانچ پانچ گھنٹے دیتی تھی آج وہ تعلیمی لیکچر میں اس سے زیادہ وقت دے رہی ہے جو قوم کے اندر تبدیلی کا اشارہ ہے۔جس دن سے عوامی وکاس پارٹی کا اعلان ہوا ہے مجھے جو ای میل اور sms ملے ہیں اس میں سے نوے فیصد لوگوں نے میری حمایت کی ہے باقی جو دس فیصد مخالف ہیں انہوں نے بھی اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ کہیں سیاست میں پھنس کر تعلیمی تحریک سے میں پیچھے نہ ہٹ جاؤں ،میں وعدہ لرتا ہوں کہ میں اسی طرح اپنی تعلیمی تحریک میں جٹا رہوں گا ۔اس پارٹی میں ہوں لیکن میں کبھی الیکشن نہیں لڑوں گا ۔انہوں نے کہا کہ پچھلے کئی دہائیوں سے میں تعلیمی تحریک سے جڑا ہوا ہوں مجھے اندازہ ہے کہ ہمارے بچوں میں ذہانت کی کمی نہیں ہے لیکن چونکہ مسلمان مالی طور پر پسماندہ ہے اس لئے وہ انجینیئر بننے کے بجائے میکنک بن جاتا ہے ۔مسلمانوں کو اسکولر شپ دینے میں بھی ٹال مٹول اور آنا کانی سے کام لیا جاتا ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دو لاکھ سے زائد درخواست مولقانا آزاد اقلیتی مالیاتی کارپوریشن میں پڑا ہوا ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ماہر تعلیم مبارک کاپڑی نے کہا کہ ہمارے دکھ ایک ہیں ہمارے دشمن بھی ایک ہیں ۔ہماری ترقی کی راہوں میں سیاست داں اور برہمنی بیورو کریسی روڑا ہے۔ سرفراز آرزو ایڈیٹر روزنامہ ہندوستان نے کہا کہ شیو سینا بی جے پی حکومت میں وزیر اعلیٰ منوہر جوشی نے اردو اکیڈمی کا بجٹ تیس لاکھ کیا اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اس کو ایک کروڑ تک کر دیں گے لیکن اس وقت سے بجائے بجٹ میں اضافہ ہونے کہ ہر سال بجٹ میں کمی ہی کی جاتی رہی ہے۔مسلم یونیورسٹی کی شاخ کے لئے جس میں ریاستی حکومت کو ایک پائی بھی خرچ نہیں کرنا ہے لیکن اقلیتوں کی ہمدردی کا دعویٰ کرنے والی حکومت اس کے لئے زمین بھی مہیا نہیں کروارہی ہے۔جبکہ کیرلا بہار اور مغربی بنگال کی حکومت نے زمین مہیا کرادی ۔مہاراشٹر میں مسلمانوں کا ایک بھی میڈیکل کالج نہیں ہے۔سیاست کی بساط پر جو طئے کر دیا گیا ہے اس سے ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھاپارہے ہیں ۔نئی سیاسی پارٹی کیوں اس پر انہوں نے کہا کہ ماضی میں ایسی کوشش ہوئی لیکن وہ بار آور نہیں ہو سکی ۔یہ دوسری کوشش ہے ہم پچھلی ناکامی سے سبق لیکر اس کو ناکامی سے بچانے کی کوشش کریں گے۔ جاوید پاشا نے کہا کہ جب تک غلاموں کو غلامی کا احساس نہیں کریا جائے تب تک بیداری نہیں آتی۔ڈاکٹر ایمبیڈکر نے کہا تھا کہ جو سماج سیاست میں شریک نہیں ہوتا وہی غلط سیاست کا سب سے پہلا شکار ہوتا ہے۔ہم نے آزادی کے بعد سے جسے ووٹنگ کرتے رہے اسی نے ہمارا کردار بدنماء بنانے کی کوشش کی آج حالت یہ ہے کہ سرکاری نوکریوں میں تو ہمارا تناسب دو فیصد ہے لیکن جیلوں میں ہمارا تناسب پینتیس فیصد سے زیادہ ہے۔اگر ہم نے ہوشمندی سے کام لیا ہوتا تو نقشہ اس کا الٹا ہوتا ۔انہوں نے کہا کہ یہاں جوش خروش دکھانے سے کچھ نہیں ہوگا یہ بات آپ کے دل میں بیٹھنی چاہیئے کہ ہماری پسماندگی کا ذمہ دار کون ہے اور اس کا علاج کیا ہے ۔ہم آپ کو اس پارٹی کے ذریعہ ووٹ کی لاٹھی دینے آئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی پہلی پارٹی ہے جو یہ اعلان کرتی ہے کہ کسی بھی مجرمانہ بیک گراؤنڈ والے کو نہ تو اس پارٹی میں جگہ ملیگی اور نہ ہی ایسے شخص کو ٹکٹ دیا جائے گا ۔یہ ایک دو دن کی ایک دو سال کی لڑائی نہٰں ہے ۔یہ لمبی لڑائی ہے اس میں قربانی دیجئے گا جب ہی کامیابی ملیگی قربانی اور کامیابی ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں ۔ہم پوری مثبت انداز فکر کے ساتھ اس میں آئے ہیں ۔ارشاد خطیب نے کہا کہ وقف کی زمینوں پر جو قبضہ ہے ہم انہیں واپس لیں گے یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہمارے پاس حکومت کی طاقت ہو۔ ببن کامبلے جو کہ اس پارٹی کے نائب صدر ہیں نے کہا کہ اس حکومے اور انتظامیہ نے مسلمانوں کی ایس صورت بنادی ہے کہ مسلمان کی پہچان دہشت گرد کی سی بن گئی ہے ،جو لوگ یہ سمجھتے ہیں انسے میرا سوال ہے کہ کیا سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر مسلمان ہے؟مسلمان بھی اس ملک میں اتنا ہی حق رکھتے ہیں جتنا دوسری قومیں اور یہ ضمانت ہمیں یہاں کے دستور نے دی ہے۔انہوں نے پرجوش انداز میں سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج سے اگر کسی دلت پر کوئی پریشانی آتی ہے تو مسلمان اس کی مدد کریں اور اگر کسی مسلمان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو دلت اپنے مسلمان بھائی کی مدد کریں ۔اپنی طاقت کو سمجھئے آپ کی تعداد ۳۹ فیصد ہے اگر آپ بیدار ہوگئے تو حکومت آپ کی ہی ہوگی اس سے کم ووٹ حاصل کرنے والے آپ پر حکومت کرتے ہیں ۔پہلے حکومت پر قبضی کیجئے اور پھر اپنے لئے ریزرویشن مانگئے اس وقت آپ کو بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔صرف مسلمانوں نے اتر پردیس میں مایا کا ساتھ چحوڑ دیا تو مایا کی حکومت چلی گئی تو کیا یہا مہاراشٹر میں دلت مسلم اور ایمبیڈکر سماج ملکر حکومت پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ شمشیر خان پٹھان نے کہا کہ میڈیا پولس اور سیاست دانوں کی ملی بھگت سے مسلمانوں کی تصویر بگاڑی گئی ہے ۔ہر ہندو تیو ہاروں کے موقع پر آئی بی کی طرف سے یہ الرٹ جاری کیا جاتا ہے کہ دو یا چار یا چھ دہشت گرد بھارت میں گھس آئے ہیں ۔انکے اسکیچ بھی جاری کئے جاتے ہیں ۔جو کہ گنپتی یا کسی بھی پوجا پنڈالوں کے باہر بھی لگائے جاتے ہیں عام ہندو داخل ہوتے ہوئے اور نکلتے ہوئے اسے دیکھتا ہے اور اس کے دل میں مسلمانوں سے بھر جاتی ہے ۔لیکن یہ دہشت گرد کبھی پکڑے نہیں جاتے ایسا صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو گہرا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔حکومت عوام کو شراب اور جوئے میں پھنسا کر بنیادی ضروریات کی طرف سے انکے ذہن کو موڑ رہی ہے۔میں عزم مصمم لیکر آیا ہوں جو باتیں کہہ رہا ہوں صدق دل سے کہہ رہا ہوں یہ محض گفتار نہیں ہے ۔میں کرکے دکھاؤں گا ۔اگر ہمیں موقع ملے گا تو ہم شراب اور لاٹری پر مکمل پابندی لگا دینگے۔کیوں کہ شراب اور لاٹری کے ذریعہ غریب اور جاہل عوام کا پیسہ سفید کالر غنڈوں کے جیب میں چلا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے پاس ریکارڈ ہے کے سیاست دانوں نے مختلف بہانوں سے ہزاروں ایکڑ زمینیں ہتھیا رکھی ہیں ۔لیکن ہم ہمارا اسمٰعیل یوسف کالج کی ۵۔۶۲ ایکڑ زمیں مانگتے ہیں لیکن حکومت ہمیں ہماری زمین نہیں لوٹاتی ۔آج کے بعد میری زندگی قوم کے لئے وقف ہے اب چاہے ان راہوں میں کتنی ہی مشکلات سے گزرنا پڑے خواہ جان ہی کیوں نہ گنوانی پڑے۔ اس سلسلے میں ہم نے شرکاء میں سے بھی کچھ لوگوں کی رائے جاننے کی کوشش کی ۔محمد مسرت جو کہ رے روڈ سے آئے تھے اور جن کا تعلق اتر پردیس سے ہے نے اپنے خیالات کچھ اس طرح بیان کئے’’یہ عوامی وکاس پارٹی اس لئے ہے کہ ہم اپنے قدموں پرکھڑے ہوسکیں ،آخر کب تک ہم دوسروں پر انحصار کریں ۔مسلم عوام کی بھی رائے یہی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی سیاسی پارٹی ہو جو ہمارے حقوق کی لڑائی لڑے ۔کانگریس نے آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔تریمبک جادھو جو کہ کوپر کھیڑا نئی ممبئی سے اس افتتاحی اجلاس میں شریک ہوئے تھے کا خیال ہے کہ دلت مسلم اتحاد وقت کی ضرورت ہے اگر ہم دلت اور مسلم متحد ہوجائیں ظلم و استحصال کا خاتمہ ہوجائے گا پچھلے پینسٹھ سالوں سے مسلمان اور دلت جس ظلم کو سہتے آرہے ہیں اب اس کے اختتام کا وقت آگیا ہے۔کرلا سے آئے ہوئے خان صاحب نے کہا کہ یہ ایک اچھی کوشش ہے ہماری خواہش ہے کہ یہ کوشش کامیابی سے ہمکنار ہو اور دشمنوں کی نظر بد سے یہ محفوظ رہے۔جبکہ بھیوانڈی سے آئے ہوئے ڈاکٹر سعید انصاری کی رائے مختلف ہے ان کا کہنا ہے کہ کسی نئی یا مسلم سیاسی پارٹی کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔پہلے سے ہی بہت سی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں ۔اتنی ساری پارٹیوں کی موجودگی میں اس پارٹی کا اقتدار میں آنا مشکل ہے۔مسلمانوں کی بھی کئی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں ۔مسلمان اور دلت پہلے سے ہی کئی خانوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔یہ لوگ کس سے اتحاد کریں گے یہ ابھی سمجھ میں نہیں آیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کانگریس مسلمانوں کے لئے کم نقصاندہ ہے ۔اس سوال پر کہ آزادی کے بعد سے کانگریس ہی بر سر اقتدار رہی ہے اور مسلمانوں کی حالت کسی سے مخفی نہیں ہے ،پھر بھی آپ یہ کہتے ہیں کہ کانگریس ہی بہتر ہے ۔اس پر انہوں نے کہا کہ مسلمان ہی اس کے لئے ذمہ دار ہیں ۔ 
Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP