’’لن ترانی ‘‘ کے ڈاکٹر روپیش شری واستوکے انتقال پر تعزیتی جلسہ
بنگلور ۔ 15 مئی ( راست ) آج مؤرخہ 15 مئی منگل کی دوپہر کرناٹک اردو اکیڈمی میں اردو کے معروف قلمکار پریم چند کے پوتے ڈاکٹر روپیش شری واستو کے انتقال پر ایک تعزیتی اجلاس منعقد کیاگیا جس میں مرزا عظمت اللہ ، رجسٹرار کرناٹک اردو اکیڈمی، حافظ کرناٹکی ، چیرمین کرناٹک اردو اکیڈمی ، جناب حافظ سید ثناء اللہ نظامی اور جناب نیر ربانی کے علاوہ اکیڈمی کا سارا عملہ موجود تھا، اس موقع پر حافظ کرناٹکی نے مرحوم کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو کسی کونے میں بیٹھ کر اردو کی خاموش خدمت کر رہے ہیں، ایسے لوگوں میں ڈاکٹر روپیش کی بھی ایک گمنام شخصیت تھی، جن کے مرنے کے بعد اردو برادری کو اردو کے تئیں ان کی خدمات کا اندازہ ہوا ، ڈاکٹر روپیش شری واستو پریم چند برادری کے ایک ایسے فرد تھے جو پریم چند کے مشن کو ان کہے طورپر اپنا مشن بنا چکے تھے اور اسی کے تحت کام کر رہے تھی، ان کی شخصیت میں سچائی اور حق گوئی کا چارہ پوری طرح سما چکا تھا، وہ ملک دشمن عناصر کے خلاف نہایت خاموشی سے جہاد کر رہے تھی، انہیں اردو زبان سے ایک خاص لگاؤ اور محبت تھی، یہی وجہ تھی کہ وہ اس زبان کے فروغ کے لئے ہر طرح کی کوشش کر رہے تھے ۔ لن ترانی انہی کوششوں کا اثاثہ ہے ، اور ان کی خواہش تھی کے اردو کمپیوٹر جاری ہو ، تاکہ اردو برادری اس اردو کمپیوٹر سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو ۔ انہیں یہ بات ناگوار گزرتی تھی کہ لوگ اردو کی روٹی کھا کر انگریزی بات چیت کرتے ہیں، او راپنے روز مرہ کے کاموں میں انگریزی بول چال کا استعمال کرتے ہیں، حافظ کرناٹکی نے کہا کہ یہ میرے اچھے اردو دوست تھی، جن کے اندر اردو زبان کی ترقی کی حسرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس کے فروغ کے لئے وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھی، وہ آج ہمارے درمیان نہیں رہے ۔ دعا ہے کہ اردو دنیا کو ان کا نعم البدل عطا ہو ۔ امید ہے کہ ان کے شاگرد ستیہ پرکاش اس کام کو آگے بڑھائیں گے ، محترمہ منور سلطانہ باجی اس کام کو آگے بڑھائیں گے ، آج ایک اچھے اردو ساتھی اور ایک اچھے رہبر کو انہوں نے کھویا ہے ۔ اللہ انہیں صبر جمیل عطا کرے ۔
کرناٹک اردو اکیڈمی کے رجسٹرار جناب ایس مرزا عظمت اللہ نے کہا کہ اردو کے ایسے سچے خادم کی خدمات کو ممبئی جیسے بڑے شہر میںموجود سینکڑوں اردو انجمنوں نے کبھی نہیں سراہا ۔ مجھے فخر ہے کہ جناب حافظ کرناٹکی نے ڈاکٹر روپیش کو شکاری پور بلا کر ان کی خدمات کے اعتراف میں ایک جلسہ منعقد کیا اور انہیں اعزاز سے نوازا ۔ڈاکٹر روپیش اردو کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے اور اردو کے تئیں ان کے عزائم انتہائی بلند تھی۔
جناب حافظ ثناء اللہ صاحب نظامی نے کہاکہ ڈاکٹر روپیش کے انتقال کی خبر سن کر بڑا صدمہ ہوا ۔ یہ خبر نہ صرف ہمارے لئے بلکہ اردو دنیا کے لئے ہی نہایت رنجیدہ رہی ، اردو دنیا کے لئے یہ بہت بڑا نقصان تصور کیا جاسکتا ہے ۔ مرحوم بالکل خاموش اور گمنامی کے ذریعہ اردو ادب کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہے ، اب ان کا ثانی پیدا ہونا ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہے ، اردو ادب کے لئے ایسے گمنام اور بے لوث خدمات انجام دینے والے اگر دو چار بھی مل جائیں تو شاید اردو زبان کی تقدیر ہی بدل جائے ۔ اللہ کرے کہ اردو ادب میںایسے ہی افراد پیدا ہوں،اور زبان اردو کو جگمگاتے ہوئے اپنی نمایاں خدمات اپنے پیچھے چھوڑ جائیں ۔جناب منصور علی خان ( المنصور گرافکس )، جناب نوید پاشاہ (صدر ، اقراتحفظ اردو تنظیم بنگلور)نے کہا کہ جناب روپیش کی موت ہمارے لئے باعث غم ہے ، گزشتہ کچھ دنوں قبل وہ ہمارے درمیان ہنس بول رہے تھے اور ان سے بے انتہائی بے تکلفی ہوگئی تھی، لیکن آج اچانک ان کی موت کی خبر سن کر ہم پر سکتہ طاری ہوگیا ۔ جناب کلیم پاشاہ ( تاج پرنٹرس ) بھی اس تعزیتی اجلاس میں شریک رہے اور ڈاکٹر روپیش کے انتقال پر گہرے رنج کا اظہار کیا۔ رجسٹرار مرزا عظمت اللہ کے کلمات تشکر پر یہ مجلس اختتام کو پہنچی ۔
No comments:
Post a Comment