You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Sunday, October 30, 2011

مسلم یونیورسٹی شاخ : مانگے کا اجالا


عبدالحلیم صدیقی
مسجدوں ، میناروں اور درس گاہوں کے شہر مالیگاؤں میں گذشتہ26اکتوبر کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاخ کھولے جانے کے خلاف ہندو فرقہ پرست تنظیموں کی جانب سے منظم و منصوبہ بند طریقے پر شرمناک احتجاج درج کرایا گیااور اے ایم یو وائس چانسلر پی کے عبدالعزیز اور ان کی پانچ رکنی ٹیم کو یونیورسٹی برانچ کیلئے مجوزہ تین سو ایکڑ قطعۂ اراضی کا دیدار بھی نصیب نہ ہوا۔ اس عوامی احتجاج پر اے ایم یو ٹیم کا مایوس ہونا فطری تھا ۔ لیکن اس سے بھی شرمناک بات یہ ہوئی کہ موقع پر موجود ضلع کلکٹر اور سپرٹنڈنٹ آف پولس انکے حفاظتی دستے اس سارے ڈرامہ کے دوران خاموش تماشائی بنے رہے ۔ کیا وہ بھی اس ڈرامے کے ایک کردار تھے ؟ اگر کوئی ان سے پوچھے کہ مسلم یونیورسٹی کی بجائے بنارس ہندو یونیورسٹی کی برانچ کھلنے کا معاملہ ہوتا اور احتجاج کرنے والے مظاہرین کلمہ گو ہوتے تو کیا ا ن پر لاٹھی چارج نہیں ہوتا؟؟ کیا بندوقیں نہیں تانیں جاتیں ؟؟ کسی کو حیرت نہ ہوتی اگر مسلمانوں کے خون سے زمین سرخ نہ ہوجاتی ۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ ا ور یہی ہندوستان کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں مظاہرین کا مذہب دیکھ کر ان کے ساتھ سلوک ہوتا ہے کرافورڈ مارکیٹ ممبئی میں سلمان رشدی کے خلاف احتجاج کررہے 12مسلمانوں کی شہادت سے لے کر لال گڑھ کے المیہ تک ہزاروں کربناک مثالیں موجود ہیں ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مالیگاؤں کے قریب کجواڑے دیہات میں اے ایم یو کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو بھون دینا تھا ۔ لیکن دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ایک ہزار مظاہرین کے آگے پوری سرکاری مشنری بے بس کھڑی تھی اور جس مقصد کو لے کر پی کے عبدالعزیز اور انکے رفقائے کار بارہ سو کلو میٹر کا لمبا سفر طئے کرکے مالیگاؤں پہنچے تھے وہ مقصد نجی نہیں خالص سرکاری تھا اور مہاراشٹر سرکار کی دعوت پر یہ وفد مالیگاؤں پہنچا تھا ۔ لہذا سرکاری عملہ کو اپنا فرض نبھانا چاہئے تھا۔ سرکاری کام میں مداخلت کرنے پر کوئی ایکشن لینا تو دور بعد میں مظاہرین کے خلاف کیس بھی درج نہیں کیا گیا ، گرفتاریاں بھی نہیں ہوئیں۔ ویسے اس معاملے میں کچھ بنیادی کمزور یاں بھی ابھر کر سامنے آچکی ہیں ۔ اول یہ کہ ضلع کلکٹر نے مالیگاؤں سے متصل جس قطعۂ اراضی کا انتخاب کیا اس سے بددرجہ ہا بہتر جگہ منماڑ ، مالیگاؤں روڈ اور دھولیہ روڈ پر نیشنل ہائی وے سے لگ کر تلاش کی جاسکتی تھی جو زیادہ محفوظ اور سہولت آمیز ہوتی ۔ لیکن اس معاملے میں مالیگاؤں کی سیاسی قیادت کمزور اور بے اثر ثابت ہوئی ۔ اور اگر بالفر ض یونیورسٹی کیمپس وہاں تعمیر ہو بھی جاتا ہے تو فرقہ وارانہ ماحول کے پیش نظر مسلمانوں کیلئے یہ جگہ کسی طرح بھی محفوظ اور اطمینان بخش نہیں ہے ۔ رہا سوال اے ایم یو کی شاخ کا تو یہ خالص سرکاری مسئلہ تھا ۔ مالیگاؤں کے مسلمانوں نے کبھی بھی اس شاخ کا مطالبہ نہیں کیا تھا ۔ یہ تو خود حکومت مہاراشٹر کی پیشکش تھی اور وہ بھی ان حالات میں جب مالیگاؤں 2006کے بم دھماکوں سے لہولہان تھا اور پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہہ خراب ہورہی تھی۔ کچھ دن گذرے نہ تھے کہ ایک بار پھر 2008میں اس شہر کو نشانہ بنایا گیا۔ اور جب ان دھماکوں کے عوض ہیمنت کرکرے نے ہندو دہشت گروں کی گردنیں ناپیں تو حکومت مہاراشٹر کی پیشمانی بڑھ گئی ۔اسے اپنی غلطیوں کا احساس ہوا ۔ اور مالیگاؤں کے معاملے میں محض اپنی خفت اور رسوائی مٹانے کے خیال سے ریاستی حکومت نے اے ایم یو کی مہاراشٹر برانچ کیلئے سب سے پہلے مالیگاؤں کا نام پیش کیا۔ اس دوران ایک صنف نازک جنھیں ریاستی وزیر کا درجہ حاصل ہے لیکن افسوس کہ وہ خود کو علاقائی وزیر بنا بیٹھی ہیں ۔ نے اپنی ٹانگ اڑا دی اور اے ایم یو کی شاخ کیلئے اورنگ آباد کا متبادل بھی پیش کیا اور لگیں ۔ اس کے پیچھے دوڑ بھاگ کرنے ، انھیں مالیگاؤں کے مظلوموں سے کوئی ہمدردی نہیں تھی وہ صرف اپنی سیاسی دکان چمکانے کی فکر میں تھیں ۔محترمہ نے بحیثیت وزیر تعلیم مالیگاؤں کی کبھی کوئی مددد تو کی نہیں نئے اسکولوں کی پرمیشن کا معاملہ ہو یا گرانٹ کے معاملات ان کی ساری توجہ مراٹھواڑہ پر ہی مرکوز رہی ۔ خیر جب معاملہ مذید آگے بڑھا تو اے ایم یو کے پاس مہاراشٹر میں ایک نہیں دو مراکز تجویز کئے گئے آج کے دور میں غریب پسماندہ کالی کلوٹی بے رونق دلہن کون پسند کرتا۔ وہی حال مالیگاؤں کا بھی رہا ۔ اے ایم یو کی ٹیم کو خلد آباد کے تاریخی پر فضاء سیاحتی مرکز کی اراضی زیادہ پسند آگئی اوپر سے مالیگاؤں میں فرقہ پرستوں نے احتجاج کرکے فوزیہ خاں کا کام آسان کردیا۔ اب وہ لے جائیں اس یونیورسٹی کی شاخ ، مالیگاؤں کے لوگوں کو ویسے بھی مانگے کا اجالا پسند نہیں ۔ مالیگاؤں کی تاریخ تو یہ رہی ہے کہ اس شہر کے محنت کش طبقہ نے اپنی دنیا آپ بسائی ہے پہلے انگریزی حکومت اس شہر کو نشانے پر رکھتی تھی ۔ اب ان کی جگہ سیاہ فام انگریز آئے ہیں ۔ مالیگاؤں میں آج تک کوئی سرکاری کالج نہیں کھلا ۔ پھر بھی یہ مہاراشٹر کے اہم تعلیمی مراکز میں شمار ہوتا ہے یہاں کے مسلمانوں نے 1921میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کرکے نہ صرف آزادی حاصل کرلی تھی بلکہ مالیگاؤں کی اپنی عبوری حکومت اور اس کا وزیر اعظم بھی طئے کردیا تھا ۔ یہاں وہ لوگ آباد ہیں جن کے آباء واجداد کے خون سے 1857کی جنگ آزادی کی تاریخ کے ابواب روشنی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں نے اس شہر کو ریلوے لائن سے محروم رکھا ۔ آزادی ملتے ہی یہاں کے سادہ لوح ملی رہنماؤں نے مذہبی و عصری تعلیم کے ادارے کھولے ۔ جہاں دنیا کے کونے کونے سے تشنگان علم اپنی پیاس بجھانے پہنچتے ہیں یہی وہ شہر ہے جس کے مدرسہ ملت کو دارالعلوم دیوبند کی شاخ کہا جاتا ہے اور اسی مدرسہ ملت کی درجنوں شاخیں مراٹھواڑہ میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ یہاں کے جامعتہ الصالحات میں امریکہ ، افریقہ ، برطانیہ تک سے طالبات علم داخلہ پاتی ہیں اور جامعتہ الصالحات کی شاخیں لندن ،نیو یارک ، ٹورنٹو ، جیسے شہروں میں بھی قائم ہیں ۔ یہ ادارے خود اپنے آپ میں اے ایم یو جیسی حیثیت رکھتی ہے۔
آج آزادی کے 65سال بعد بھی مالیگاؤں میں گورنمنٹ کے ٹیکنکل کالج میڈیکل کالج ، ڈگری کالج ، نہیں کھلے ۔ چار سال قبل مہاراشٹر حکومت نے مہاراشٹر کے پانچ مسلم اکثریتی شہروں میں گورنمنٹ پالی ٹیکنک و انجینئرنگ کالج کھولنے کا اعلان کیا تھا ۔ فہرست میں مالیگاؤں کا نام بھی تھا لیکن اس وعدے پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ ریاستی حکومت جب اپنے حصے کا کام نہیں کرسکی تو علی گڑھ والوں سے کیوں کر امید وابستہ کی جائے ۔ فوزیہ خانم کو مانگے کا اجالا مبارک ہو۔ مالیگاؤں کے اہل دل خلدآباد آکر اس تعلیمی کیمپس کی تعمیر میں تن من دھن سے حصہ لیں گے ۔ یہ نہ بھولا جائے کہ مہاراشٹر سرکار پر مالیگاؤں والوں کا بھروسہ نہیں رہا ہے ۔ وجہ بھی معقول ہے ۔ ہم ضلع کا درجہ 35سال سے مانگ رہے ہیں ۔ لیکن تمام واجبات و معقولات کے باوجود نہیں ملتا ۔ ہم
MIDCاورD+ZONEکی سہولت طلب کرتے ہیں اور حکومت منہ پھیرتی ہے ۔ ہم اپنے سینئر کالج خود چلانا چاہتے ہیں ۔ لیکن حکومت کی طرف سے منظوری نہیں ملتی ۔ پچھلے پانچ برسوں سے تو ہم نے سب کچھ ترک کردیا ہے ۔ ہماری کوئی مانگ نہیں ہے ہم صرف اپنے معصوم بے قصوروں کی رہائی کے طلبگار ہیں وہ تو ملتی نہیں اور جو حکومت اپنے شہریوں کو انصاف سے محروم رکھتی ہو ۔ اس سے کیا امیدیں وابستہ کی جائیں ؟؟ ریاستی حکومت سے ہم یہی چاہیں گے کہ وہ اپنے حصے کا قرض پہلے ادا کرے ۔ رہی بات اے ایم یو برانچ کی ۔ مالیگاؤں کے حوصلہ مند لوگ کسی یونیورسٹی شاخ کا انتظار کئے بغیر خود اپنی یونیورسٹی قائم کرنے کی صلاحیت و ہمت رکھتے ہیں اور کچھ علاقائی وزیر اگر خواہشمند رہیں تو انکے علاقے میں بھی مالیگاؤں یونیورسٹی شاخ کھو ل دیں گے۔
***
 Abdul haleem siddiqui
Malegaon

اردو میں مکتوب نگاری



اردو زبان میں مکتوب نگاری کو بہ طور صنف ادب متعارف کرانے میں اولیت کا اعزاز مرزا رجب علی بیگ سرور کو ملتا ہے ۔تاریخ ادب اردو میں اگرچہ یہ خطوط اپنی قدامت اور اولیت کی بدولت قابل ذکر ہیں لیکن تخلیقی اعتبار سے یہ خطوط اسلوب کی چاشنی اور موضوعاتی تنوع کا کوئی قابل قدر پہلو سامنے نہ لا سکے ۔تاریخ ادب اردو سے دلچسپی رکھنے والے قارئین ادب اس حقیقت سے بہ خوبی آگاہ ہیں کہ اردو زبان میں مکتوب نگاری کو بہ حیثیت ایک ہر دل عزیز صنف ادب متعارف کرانے کا سہرا مرزا اسداللہ خان غالب(1797-1869) کے سر ہے ۔مرزا اسداللہ خان غالب کے مکاتیب گلشن اردو میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے ،جن کی عطر بیزی سے صحن چمن مہک اٹھا اور اس صنف ادب کی مہک سے آج بھی قریہ ء جاں معطر ہے ۔ غالب نے اردو میں مکتوب نگاری کا آغاز 1846 یا1848کے دوران کیا ۔اس طرح اردو زبان کو اس مکتوب نگاری کے اعجاز سے نئے آفاق تک رسائی کی نوید ملی ۔غالب کی مکتوب نگاری اردو نثر کے فروغ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔اپنے دلکش اسلوب سے غالب نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔مشاہیر کے مکاتیب تاریخ ،تہذیب ،ثقافت اور درخشاں اقدار و روایات کے امین ہوتے ہیں ۔غالب نے اپنے مکاتیب میں اپنی دلی کیفیات ،سچے جذبات اور حقیقی احساسات کے اظہار کے لیے جس طرز خاص کا انتخاب کیا وہ بعد میں آنے والوں کے لائق تقلید بن گئی ۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ہر صنف ادب میں رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے بے شمار استعارے،لاتعداد رنگینیاں،رعنائیاں ،دلچسپیاں اور دلکشیا ں موجود ہوتی ہیں ۔ہر زیرک تخلیق کار جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو اپنے افکار کی جولانیوں سے وہ مسحور کن فضا پیدا کرتا ہے جس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ مطالعہ ادب سے کار زار ہستی کے بارے میں متعدد نئے امکانات ،ارتعاشات اور ممکنات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ادب کے وسیلے سے راحتیں ،چاہتیں ،وفا اور جفا ،ہجر و فراق ،منزلیں اور راستے ،نشیب و فراز اور طرز فغاں کے متعلق لا شعور کی توانائی کو متشکل کرنے میں مددملتی ہے۔ہر صنف ادب کی دلکشی اپنی جگہ لیکن جو تاثیر ،بے تکلفی اور مسحورکن اثر آفرینی مکاتیب میں پنہاں ہے اس میں کوئی اور صنف ادب اس کی شریک و سہیم نہیں ۔صالحہ عابد حسین نے لکھا ہے :
’’ادب میں سیکڑوں دلکشیاں ہیں۔اس کی بے شمار راہیں اور ان گنت نگاہیں ہیں لیکن خطوں میں جو جادو ہے (بشرطیکہ لکھنا آتا ہو )وہ اس کی کسی ادا میں نہیں۔‘‘(1)
زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس رکھنے والاہر دور میں غالب کے مکاتیب کی نثر کو اپنے اسلوب کی اساس بنائے گا۔اگر اردو زبان و ادب کے شیدائی یہ چاہتے ہیں کہ اردو کی ایسی تحریروں کا مطالعہ کریں جن کی شگفتگی ہجوم یاس میں دل کو سنبھالنے اور مسکراتے ہوئے کٹھن حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے پر مائل کرے تو انھیں بلا تامل غالب کے مکاتیب کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔مکاتیب کے سحر سے بچنا محال ہے ایک با صلاحیت مکتوب نگار ذاتی اور شخصی رویے کو جس فنی مہارت سے آفاقی نہج عطا کرتا ہے وہ اسے ابد آشنا بنا نے کا وسیلہ ہے ۔مرزا اسداللہ خان غالب کے بعدجن مشاہیر ادب نے مکتوب نگاری پر توجہ دی ان میں سر سید احمد خان ،مولانا محمد حسین آزاد ،خواجہ الطاف حسین حالی ،علامہ شبلی نعمانی ،محسن الملک ،وقار الملک ،ڈپٹی نذیر احمد ،سید اکبر حسین اکبر ا لہ آبادی ،،داغ دہلوی،امیر مینائی ،ریاض خیر آبادی اور سید علی ناصر کے نا قابل ذکر ہیں ۔اردو میں مکتوب نگاری کو ایک مضبوط ،مستحکم اور درخشاں روایت کا درجہ حاصل ہو گیا ۔اس کے ابتدائی نقوش تو غالب کے ہاں ملتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتے ساتھ اس میں متعد نئے لکھنے والے شامل ہوتے چلے گئے۔اردو مکتوب نگاری کی روایت کو استحکام دینے اور مکاتیب کے ذریعے اردو زبان و ادب کی ثروت میں اضافہ کرنے کے سلسلے میں بعد میں جن نامور ادیبوں نے حصہ لیا ان میں ابوالکلام آزاد،علامہ محمد اقبال ،مہدی افادی ،مولوی عبدالحق ،سید سلیمان ندوی ،نیاز فتح پوری ،مولانا محمد علی جوہر ،خواجہ حسن نظامی ،عبدالماجد دریا بادی اور محمد علی ردولوی کی خدمات تار یخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔اردو مکتوب نگاری کے ارتقا میں ان تمام مشاہیر اد ب نے خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی جو سعی کی وہ تاریخ ادب میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔
ترقی پسند تحریک جو 1936میں شروع ہوئی اس کے زیر اثر فکر و نظر میں ایک واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی۔برصغیر میں افکار تازہ کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی کے امکانات کا جائزہ لیا جانے لگا۔اردو زبان کے ادیبوں نے جدید علوم اور تصورات پر توجہ دی ۔اس زمانے میں نفسیات کے زیر اثر حقیقت نگار ی اور فطرت نگاری کا عمیق مطالعہ تخلیقی عمل کی اساس بن گیا ۔اردو مکتوب نگاری پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔تخلیق ادب کے نئے رجحانات سامنے آئے ان کے زیر اثر اردو کے جن نابغہ روزگار ادیبوں نے مکتوب نگاری کے ذریعے تزکیہ نفس کے امکانات سامنے لانے کی سعی کی ان میں جو ش ملیح آبادی ،فراق گورکھ پوری ،سید سجاد ظہیر ،صفیہ اختر ،اور ڈاکٹر ایم ۔ڈی تاثیر کے نام ممتاز حیثیت کے حامل ہیں ۔اردو ادب میں مکتوب نگاری کو ہمیشہ کلیدی اہمیت کی حامل صنف ادب سمجھا جاتا رہاہے ۔اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بر صغیر کے اعلیٰ معیار کے ادبی مجلات نے مختلف اوقات میں جو مکاتیب نمبر شائع کیے انھیں بے حد پذیرائی ملی ۔ان میں سے کچھ حسب ذیل ہیں :
1۔ادبی مجلہ ایشیا،مکاتیب نمبر ،بمبئی،1941
2۔ادبی مجلہ آج کل ،خطوط نمبر،دہلی ،1954
3۔ادبی مجلہ نقوش،مکاتیب نمبر ،لاہور ،جلد اول ,1957
4۔ادبی مجلہ نقوش،مکاتیب نمبر ،لاہور ،جلد دوم ،1968
بادی النظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ مکتوب نگار کو اپنے جذبات ،احساسات اور داخلی کیفیات کو صفحہء قرطاس پر منتقل کرنے کے جو مواقع میسر ہوتے ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دل کی بات قلم و قرطاس کے معتبر حوالے سے بلا خوف و خطر کر سکتا ہے ۔مراسلہ ایک طرح کا مکالمہ بن جاتا ہے اور اس تخلیقی عمل کے معجز نما اثر سے مکتوب نگار اپنی افتاد طبع کے مطابق مکتوب الیہ سے بہ زبان قلم باتیں کر کے جانگسل تنہائیوں کے کرب سے نجات حاصل کر سکتا ہےء۔اگر مکتوب نگاری میں خلوص اور دردمندی کا عنصر شامل ہو تو مکتوب نگار ہجر و فراق کی عقوبت سے بچ کر خط کے ذریعے وصال کے نشاط آمیز لمحات سے

فیض یاب ہو سکتا ہے ۔ نفسیاتی اعتبار سے تحلیل نفسی کے سلسلے میں کسی بھی شخصیت کی داخلی کیفیات ،ہیجانات اور طور طریقوں کے جملہ اسرار و رموز کی تفہیم میں مکتوبات بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔مکاتیب ہی دراصل مکتوب نگار کی شخصیت کے سر بستہ رازوں کی کلید ہیں۔شخصیت کی تمام گتھیاں سلجھانے میں خطوط کا بڑا اہم کردار ہے۔یہ مکاتیب ہی ہیں جو کسی شخصیت کی زندگی کے پنہاں پہلو سامنے لانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مکتوب نگار اپنی زندگی کے تمام نشیب و فراز ،جذباتی میلانات،مستقبل کے اندیشہ ہائے دور دراز اور اس جہاں کے کار دراز کے متعلق مکتوب کی سطور کے ذریعے جو کچھ پیغام ارسال کرتا ہے وہ نوائے سروش کی صورت میں مکتوب الیہ تک پہنچ جاتا ہے ۔مکتوب نگاری ایک ایسافن ہے جو زندگی کی کلیت پر محیط ہے ۔ حیات و کائنات کے تمام پہلو مکاتیب کا موضوع بن سکتے ہیں یہی ان کی مقبولیت کا راز ہے ۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ مکاتیب زندگی کی حرکت و حرارت کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔مکاتیب کا زندگی کے حقائق سے گہرا تعلق ہے ۔ڈاکٹر خورشیدالاسلام نے لکھا ہے:
’’ زندگی اپنی راہیں خود بنا لیتی ہے ۔خط اپنی باتیں خود پیدا کر لیتا ہے ۔۔۔زندہ رہنے کے لیے اور خط لکھنے کے لیے زندگی کا احترام ضروری ہے ۔‘‘(2)
انسانی زندگی میں مدوجزر کی کیفیت ہمیشہ بر قرار رہتی ہے ۔ایک تخلیق کار کا رویہ عجیب ہوتا ہے کبھی سوز و ساز رومی تو کبھی پیچ و تاب رازی والا معاملہ دکھائی دیتا ہے ۔ایسے متعدد عوامل ہوتے ہیں جو کہ تخلیق کار کی زندگی میں اس کااوڑھنا بچھونا بن کر اسے ہمہ وقت اپنی گرفت میں لیے رکھتے ہیں ۔اس کے بعد ایسا بھی ہوتا ہے تما م حقیقتیں خیال و خواب بن جاتی ہیں اور جنھیں ہم دیکھ کر جیتے ہیں وہی لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں ۔صداقتوں پر سراب کا گمان گزرتا ہے لیکن دراصل یہ سب سیل زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آ کر پس منظر میں چلی جاتی ہیں اور اس طرح وہ بالآخر ہمارے اجتماعی لا شعور کا حصہ بن جاتی ہیں ۔اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اجتماعی لا شعور کا حصہ بن جانے کے باوجود پس منظر میں چلی جانے والی صداقتیں ایک لمحے کے لیے بھی غائب نہیں ہوتیں بلکہ ہمیشہ اپنے وجود کا اثبات کرتی رہتی ہیں۔مکاتیب بھی اس کی ایک صورت پیش کرتے ہیں ۔ان کی اساسی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اگرچہ ان کا تعلق ایک فرد کی نجی زندگی سے ہوتا ہے لیکن یہ اس انداز سے زندگی کی کلیت اور جامعیت کی عکاسی کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کو ان میں اپنی زندگی کے تمام موسم اترتے محسوس ہوتے ہیں ۔دل سے جو بات نکلتی ہے اس کی اثر آفرینی بہ ہر حال مسلمہ ہے ۔مکتوب نگار کی تاب سخن کے اعجاز سے فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں اور قلب و روح کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے والے پر خلوص جذبات کا یہ سیل رواں آلام روزگار کو خس وخاشاک کے مانند بہا لے جاتا ہے ۔پر خلوص جذبات سے مزین مکاتیب کی صدا پوری انسانیت کے مسائل کی ترجمانی پر قادر ہے ۔مکتوب نگار اپنے شعوری غور وفکر کو اپنے اسلوب کی اساس بناتا ہے ۔بادی النظر میں مکتوب نگاری کی حدیں جذبہ ء انسانیت نوازی سے ملتی ہیں ۔ان دونوں میں مقاصد کی ہم آہنگی فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتی چلی جاتی ہے ۔مکتوب نگارجہاں اپنی داخلی کیفیات کو صفحہ ء قرطاس پر منتقل کرتا ہے وہاں زندگی کے تلخ حقا ئق کو بھی منصہ شہود پر لاتا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مکتوب نگار تخلیق ادب کے حوالے سے زندگی کی حرکت و حرارت کی عکاسی کرنے والے جملہ پہلو سامنے لاتا ہے اور اس طرح زندگی کی جدلیاتی حرکت کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا ۔وہ جانتاہے کہ خزاں بہار کے آنے جانے سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ فرد کی زندگی اور قلب و روح پر اترنے والے تمام موسم دل کے کھلنے اور مر جھانے سے عبارت ہیں ۔مکتوب نگاری ذوق سلیم کی مظہر ہے۔ایک زیرک اور با شعور مکتوب نگار اپنے اسلوب کے ذریعے دلوں کو مسخر کر لیتا ہے ۔مرزا اسداللہ خان غالب نے اپنے ذوق مکتوب نگاری کے متعلق ایک شعر میں صراحت کی ہے ۔
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخ مکتوب ستم زدہ ہوں مگر ذوق خامہ فرسا کا
اردو ادب میں مکتوب نگاری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے ۔مرزا اسدللہ خان غالب سے لے کر عہد حاضر تک اردو ادیبوں نے اپنے خطوط کے وسیلے سے مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانے کی مقدور بھر سعی کی ہے ۔سادگی و سلاست ،خلوص و دردمندی اور انسانی ہمدردی خطوط کا امتیازی وصف قرار دیا جاتا ہے ۔مکتوب نگاری میں تکلف ،تصنع ،مافوق الفطرت عناصر ،ریاکاری اور موقع پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ۔مراسلے کو مکالمہ بناتے وقت دل کی بات قلم کے وسیلے سے صفحہء قرطاس پر منتقل کرنا ایک کٹھن مر حلہ ہے ۔حرف صداقت لکھنا اس تخلیقی عمل کے لیے نا گزیر ہے ۔یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ خط کے مندرجات اور موضوعات کا تعلق براہ راست زندگی سے ہوتا ہے ۔جس طرح زندگی کے تلخ حقائق سے چشم پوشی ممکن نہیں اسی طرح مکاتیب کی اثرآفرینی سے شپرانہ چشم پوشی احسان فراموشی کے مترادف ہے ۔مکتوب نگار اپنی ذات کو پس منظر میں رکھتے ہوئے حالات کی اس مسحور کن انداز میں عکاسی کرتا ہے کہ قاری پر تمام حقائق خود بہ خود منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں ۔خطوط کے ذریعے احساس ،ادراک ،وجدان اور عرفان کی جو متاع بے بہا نصیب ہوتی ہے کوئی اور صنف ادب اس کی برابری نہیں کر سکتی ۔تخلیق کار ،اس کے تخلیقی عمل اور اس کے پس پردہ کارفرما لاشعوری محرکات کی اساس پر جب تحلیل نفسی کا مرحلہ آتا ہے تو نقاد کو تخلیق کار کے مکاتیب کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔جب بھی کسی تخلیق کار کی حیات و خدمات پر تحقیقی کام کا آغاز ہوتا ہے تو محقق اس کے مکاتیب کو اولین ماخذ کے طور پر اپنے تحقیقی کام کی اساس بناتا ہے ۔مکاتیب میں شگفتگی ،شائستگی ،صداقت ،خلوص،دردمندی اور انسانی ہمدردی ان کے مؤثر ابلاغ کو یقینی بنانے والے عناصر ہیں۔وقت گزرنے کے سا تھ ساتھ اقدار و روایات کے معائر بدلتے رہتے ہیں لیکن مکاتیب کی دلکشی اور دل پذیری کا معیار ہر دور میں مسلمہ رہا ہے ۔محبتوں ،چاہتوں،قربتوں اور عہد و پیماں کے امین خطوط کی اہمیت ہر دور میں موجود رہے گی ۔دور جدید میں برقی ذرائع ابلاغ نے حالات کی کایا پلٹ دی ہے ۔ای میل ،ایس ۔ایم ۔ایس ،ٹیلی فون اور فیکس نے فاصلو ں کی طنابیں کھینچ دی ہیں ۔اس کے باوجود خطوط کی ترسیل کا سلسلہ جاری ہے ۔اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک جذبوں کی صداقت کا بھرم قائم ہے ۔
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہیں ہم تو عاشق ہیں تمھارے نام کے
Dr.Ghulam Shabbir Rana
ڈاکٹر غلام شبیر رانا

مآخذ
(1)صالحہ عابد حسین :یاد گار حالی ،آئینہء ادب ،لاہور ، 1966،صفحہ 310۔
(2)بہ حوالہ فرمان فتح پوری ڈاکٹر :اردو نثر کا فنی ارتقا،الوقار پبلی کیشنز ،لاہور ،1997،صفحہ 396۔

Friday, October 28, 2011

قانون حق تعلیم RTE کے مضراثرات اطفال کو مفت اور لازمی تعلیم کے حق کاقانون E-mail


 THE RIGHT OF CHILDREN TO FREE AND COMPULSORY EDUCATION ACTملک کی پارلیمنٹ نے آگسٹ۲۰۰۹ء میں منظور کیا جو صدر جمہوریہ کی دستخط کے بعد یکم/ اپریل ۲۰۱۰ء سے نافذ العمل قراردیا گیا جس کے مکمل نفاذ کے لئے تین سال کی مدت رکھی گئی گویا حکومتیں تین سال کے اندر اپنی ذمہ داریوں کو مکمل کرلیں گی اور یکم/ اپریل۲۰۱۳ء سے یہ قانون مکمل طورپر نافذ العمل ہوگا اس قانون کو عام طورپر قانون حق تعلیم RTE کہا جاتاہے۔
اس قانون کا مقصد بہت ہی اعلیٰ اور ارفع ہے جس سے اختلاف کرتا مشکل ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ملک کے ہر بچہ کے لئے جس کی عمر(۶) اور (۱۴) سال کے درمیان ہو پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک ا یلیمنٹری تعلیم کا انتظام کیا جائے اور اس کو بچوں کا حق قراردیا گیا ہے کہ کوئی بچہ ایسا نہ رہے جس کو ایلیمنٹری تعلیم نہ ملی ہو۔ مگر اتنے اچھے مقصد کے لئے جو طریقہ کا رقانون میں مقرر کیا گیا ہے اس سے یہ مقصد حاصل ہونے کی بجائے ان پڑھ بچوں کی تعداد اور تناسب میں اضافہ ہوگا ۔علاوہ ازیں یہ قانون مذہبی تعلیم کے اداروں اور اقلیتوں کے زیر انتظام اسکولوں کو نقصان پہنچائے گا۔
اس قانون کی منظوری کے بعد یہ اعلان ہواکہ تین سال کی مدت میں آبادی کے علاقوں میں مرکزی وریاستی حکومتوں اور حکومت مقامی کے اداروں (کاریوریشن‘بلدیہ‘ ضلع پریشد‘پنچایت کمیٹی) کی جانب سے ہرکیلو میٹر پر ایک اسکول قائم کیا جائے گا۔ ا گسٹ ۲۰۰۹ء کے بعد آج کی تاریخ تک ایک بھی نیا اسکول قائم نہیں ہوا۔ یوں بھی ۳۱/ مارچ ۲۰۱۳ء تک ہر ایک کیلومیٹر پر ایک سرکاری اسکول قائم ہوجائے گا۔ اس کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ یہ تقریباََ ناممکن العمل ہے ۔اس لئے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے قانون یہ بننا چاہیے تھاکہ عوامی ادارے‘ انجمنیں ‘گروپس جگہ جگہ اسکول قائم کرسکیں اور اس کے لئے ان کو ترغیبات (INCENTIVES) دیئے جائیں۔ اس کے بر خلاف خانگی اسکولس کے قیام پر پابندی لگادی گئی ہے۔ قبل از قبل حکومت سے منظوری لئے بغیر کوئی خانگی اسکول قائم نہیں ہوسکتا اور اسکول کے لئے ایسی شرایط لگائی کئی ہیں جن کی پابندی سرکاری اسکولس میں بھی نہیں ہوئی۔ بڑے شہروں میں کھلی آراضی کا ملنا بڑادشوار کام ہے۔ کیا ہر سرکاری پرائمری اسکول اور مڈی اسکول میں پلے گراونڈ ہے خانگی اسکول کے لئے اس کی شرط عائد کرنا غلط ہے ۔ قانون کا جو مقصد ہے اس کو حاصل کرنے کے لئے خانگی اسکولس کے زیادہ سے زیادہ قائم ہونے کے لئے سہولتیں فراہم کی جائیں جو میعارات مقرر کئے گئے ہیں ان کو کم سے کم کیا جائے‘ ہر موسم کے لئے سازگار عمارت(ALL WEATHER BUILDING) جیسی مبہم اور غیر واضح اصطلاحات کی بجائے واضح بات کہی جائے اور اسکول قائم کرنے کے لئے ترغیبات (INCENTIVES) دیئے جائیں تو مقصد کے حصول میں آسانی ہوگی اور جگہ جگہ اسکول قائم ہوگا۔
دوسرا پہلو معیاری اور عمدہ تعلیم کا ہے ۔اس تعلیم کی بنیاد پر ہندوستان ساری دنیا کے لئے بہترین افرادی قوت(MAN POWER) فراہم کرنے والا ملک بن رہا ہے۔ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوستانی اپنی قابلیت اور صلاحیت کا ہر جگہ‘ امریکہ‘ انگلینڈ‘ آسٹریلیا ‘کینیڈا وغیرہ میں لوہا منوارے ہیں اس کے لئے تعلیم کا معیاری اور عمدہ ہونا ضروری ہے ۔مگر RTE قانون ایسی نسل کو تیار کرنے کا منصوبہ سامنے لاتا ہے جن کے ہاتھ میں سرٹیفیکٹ نام کا کاغذ ہوگا لیکن تعلیمی صلاحیت کچھ نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس قانون میں یہ لازم کیا گیا ہے کہ طالب علم کوتعلیمی سال کے ختم پر اگلی کلاس میں ترقی دیدی جائے اس کا دارومدار کسی ٹسٹ یا امتحان پرنہیں ہوگا۔ اسی طرح کوئی لڑکا یا لڑکی اسکول میں داخلہ لینا چاہیے تو بغیر کسی ٹسٹ کے اس کی عمر کے لحاظ سے کلاس میں داخلہ دینا ہوگا۔ اگر اس کی عمر بارہ سال ہے تو چاہے وہ کچھ نہ جانتا ہوچھٹی کلاس میں داخلہ دینا ہوگا۔ آٹھویں کلاس کی تعلیم کے بعد بھی نہ کوئی امتحان ہوگا نہ کوئی ٹسٹ ہوگا۔ اس کو آٹھویں تک تعلیم حاصل کرنے کا سرٹیفکیٹ دید یا جائے گا بتلائے کیسی نسل ابھرے گی؟طلبا عموماََ امتحان کے قریب ہی سنجیدگی سے پڑھتے ہیں اور جب امتحان ہی نہ لیا جائے گا تو کتنے طلباء سنجیدگی سے پڑھیں گے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ایسی نسل نکلے گی جو دنیا میں ہندوستان کا نام بلند کرنا تو بہت دور کی بات ہے ملک میں ایسا کوئی کام انجام نہیں دے سکے گی اور ایسی کوئی خدمت نہیں کرسکے گی جس کے لئے تعلیمی صلاحیت ضروری ہے ۔یہ قانون ہماری افرادی قوت MAN POWER کو غیر معیاری اور ناکارہ بنائے گا۔

مذہبی تعلیمی اداروں کے لئے خطرہ :-  
قانون کی دفعہ ۳(۱) کی رو سے چھ سال سے چودہ سال کی عمر کے ہر بچہ کو قرب وجوار کے اسکول میں یلیمنٹری تعلیم (پہلی سے آٹھویں کلاس) کی تکمیل تک مفت اور لازمی تعلیم حاصل کرنے کا حق تسلیم کیا گیا ہے اور دفعہ۲۹(۱) کی رو سے ایلیمنٹری تعلیم کا نصاب متعلقہ حکومت کا تشکیل کردہ ادارہ تیار کرے گا۔ مطلب یہ ہوا کہ ہر بچہ کو سرکاری نصاب کے مطابق پہلی سے اُٹھویں کلاس تک تعلیم دلانا اس کا بنیاد حق ہے یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کے بعد ۱۴ سال کی عمر تک لازمی تعلیم کو دستور کے رہنمااصولوں میں سے ایک اصول کی بجائے دستور میں ترمیم کرکے آرٹیکل ۲۱(۷۱) کے ذریعہ بنیادی حق قرار دیا گیا۔
دفعات۶ تا ۱۰ میں ہربچہ کو سرکاری نصاب کے مطابق پہلی سے آٹھویں کلاس کی تعلیم کا انتظام کرنا‘ متعلقہ حکومتوں‘ حکومت مقامی اداروں اور والدین وسرپرستوں کا فریضہ (DUTY) اقرار دیا گیا ہے اور اگر وہ یہ کام نہیں کرتے ہیں تو اپنے فرض کی عدم انجام دہی کے قصوروار ہیں
ان دفعات کی موجودگی میں غور فرمائیے کیاوہ بچہ جس کی عمر ۱۴ سال یا اس سے کم ہے اور وہ کسی دینی مدرسہ میں تعلیم پارہا ہے‘اس کو اس کا بنیادی حق مل رہا ہے ‘حکومتیں ‘حکومتی ادارے‘ والدین یا سرپرست اس بچہ کے تعلق سے اپنا فرض انجام دے رہیں؟۔ نہیں ۔ یہ سب قصور وار اور مجرم ہیں اور سزا کے مستحق ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس صورت حال میں وہ دینی مدارس جہاں (۱۴) سال اور اس سے کم عمر کے بچے پڑھتے ہیں یکم/ اپریل ۲۰۱۳ء کے بعد جاری نہ رہ سکیں گے اس قانون کو تیار کرنے والوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ مذہب کی تعلیم کے اداروں کو دستور کے اُرٹیکل ۲۵ اور ۲۶ کا تحفظ حاصل ہے۔ آرٹیکل ۲۵ مذہبی عقیدہ کے رکھنے‘ اس پر عمل کرنے اور اس کی اشاعت کرنے کی آزادی کا اعلان کرتا ہے اور مذہبی تعلیم کے ادارے مذہب کی آنے والی نسل میں اشاعت کا عمل ہیں آرٹیکل ۲۶ ہر مذہبی فرقہ کو اپنے مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لئے ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق دیتا ہے۔ یہ قانون اس طرح ان دوبنیادی حقوق سے متصادم ہے ۔گزشتہ سال جو لائی میں متعلقہ وزیر مسٹرکپل سبل نے وعدہ کیا تھا کہ وہ قانون میں ترمیم کرکے مذہبی تعلیم کے اداروں کو قانون کے دائر ہ عمل سے خارج کریں گے لیکن قانون میں ترمیم کے لئے تو انھوں نے کچھ نہیں کیا البتہ گزشتہ نومبر میں ان کی وزارء ت سے گائیڈ لائنس جاری کے گئے جس کی گائیڈ لائن نمبر۳ میں کہا گیا بشمول مدرسہ اور ویدک پاٹھ شالہ خصوصاََ مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے لئے قائم اداروں کو دستور آرٹیکل ۲۹ اور ۳۰ کا تحفظ حاصل ہے۔ ایسے اداروں کی برقراری کے راستہ میں اور ایسے اداروں میں اطفال کے حقوق کے معاملہ میں RTE حائل نہیں ہوتا۔ پہلی بات تو یہ گائیڈلائنس ‘پارلیمنٹ سے منظورہ قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتے اور قانون اور ان میں اختلاف ہوتو گائیڈلائنس کا کوئی مقام نہیں ہے دوسرے یہ کہ دستور کے آرٹیکل ۲۵ اور ۲۶ کا حوالہ دینے سے احتراز کیاگیا ہے اور غلط حوالہ دیا گیا ہے۔ بتایا جائے کہ ویدک پاٹھ شالہ کس مذہبی یا لسانی اقلیت کاادارہ ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ دستور کا یہ غلط حوالہ اس وزارء ت کی طرف سے دیا جارہا ہے جس کے وزیر مشہور وکیل اور ماہر قانون رہے ہیں۔ طرفہ نماشہ یہ ہو کہ گائیڈلائن نمبر۴ میں کہا گیا ہے کہ اقلیتی تنظیموں کے اسکولوں پر RTE کی دفعات کا اطلاق ہوگا۔سوال ہے کہ نمبر۳ میں کس لسانی اقلیت کا ذکر ہے اور نمبر۴ کس لسانی اقلیت سے متعلق ہے انسانی وسائل کے فروغ کی وزارء ت سب کو کھلونے دے کے بہلا نے کی کوشش کررہی ہے بلکہ صریحاََ دہوکہ اور فریب سے کام لے رہی ہے ‘نہ ہی مذہبی تعلیمی اداروں کو مستثنیٰ قرار دیاگیا ہے اور نہ اقلیتوں کے تعلیمی حقوق کو متاثر کرنے والے دفعات کا اطلاق نہ کرنے کی بات کہی گئی ہے۔




اقلیتی تعلیمی اداروں کی خود مختاری پر ضرب :-
ہمارے دستور کا آرٹیکل (۲۹) مذہب اور زبان کی بنیاد پر اقلیتوں کو تسلیم کرتا ہے اور اپنی زبان اور کلچر کے تحفظ و فروع کا حق اقلیتوں کو عطا کرتا ہے آرٹیکل (۳۰ )اقلیتوں کو اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کو چلانے کی اجازت دیتا ہے اسی بنیادی حق کی وجہ سے ملک کے طول وعرض میں مسلمانوں ‘ عیسائیوں ‘پارسیوں کے اپنے اسکول اور کالج قائم ہیں۔ ان تعلیمی اداروں کے انتظامی معاملات میں خود مختاری حاصل ہے جس کو سپریم کورٹ نے اپنے کئی فیصلوں میں تسلیم کیا جائے سپریم کورٹ کے فیصلوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صرف دوصورتوں میں اقلیتی تعلیمی اداروں میں مداخلت کی جاسکتی ہے یہ کہ تعلیم بالکل غیر معیاری ہورہی ہوتو اس کو معیاری بنانے کے لئے اور اگر اسٹاف کے حقوق پامال کئے جارہے ہوں تو ان حقوق کو بحال کروانے کے لئے۔ ان امور کے علاوہ اقلیتی تعلیمی ادارے اپنے اندرونی معاملات میں خود مختار ہیں۔
اسRTE قانون کی کئی دفعات اس حق کو متاثر کرتی ہیں۔ پہلی بات تویہ ہے کہ اس قانون میں اقلیتی اسکولس کا ایک الگ زمرہ قائم کرنا چاہیے تھا۔ نہیں کیا گیا صرف خانگی اسکول کا ہی ایک الگ زمرہ ہے۔ ان اسکولس کو چھوڑ کرجو حکومت سے کوئی امداد نہیں لیتے دیگر تمام اسکولس کے لئے یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ اس کی مینجمنٹ کمیٹی میں کم سے کم تین چوتھائی تعداد یعنی۷۵ فیصد سے زیادہ تعداد طلباء کے والدین اور سرپرستوں کی ہو اور یہ کہ کل کی نصف تعداد خواتین کی ہو۔ اولیائے طلباء کی تین چوتھائی تعداد کو مینجمنٹ میں لینے کے بعد کیا اس اسکول کا انتظام اس کو قائم کرنے والے اقلیتی ادارے کے ہاتھ میں رہے گا۔؟ علاوہ ازیں یہ بھی لازم قرار دیا گیا کہ اسکول میں ۲۵فیصد تعداد اطراف کی آبادی کے کمزور طبقات کے طلباء کی ہو‘ طلباء کے داخلہ کے لئے شرط نہ ہو اور کوئی فیس نہ لی جائے۔ اس قانون کے اور بھی دفعات جن سے اقلیتی اسکولس کی داخلی خود مختاری پر ضرب پڑتی ہے اور اس کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔
ان مضراثرات کے پیش نظر آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ نے دینی تعلیم کے اداروں کے لئے استثنیٰ اور اقلیتی تعلیمی اداروں کے لئے داخلی خود مختاری کو متاثر کرنے والی دفعات کے عدم اطلاق کا مطالبہ کیا ہے اور ان کی عبارتیں مرتب کرکے پیش کی ہیں کہ قانون میں ترمیم کرکے ان کا اضافہ کیا جائے۔ یہ مطالبہ ہر ریاست اور ہر تعلیمی ادارے کی جانب سے ہونا چاہیے۔

اتر پردیش اردو ایکیڈیمی کا ایوارڈ - Email


اتر پردیش اردو اکیڈیمی کی جانب سے مجموعی ادبی خدمات کے لئے سال 2011-2012 کے انعام کا اعلان کیا گیا ہے جس میں پہلا مولانا ابوا لکلام آزاد انعام(پانچ لاکھ ) روپے اردو کے افسانہ نگار جناب عابد سہیل اور پرنٹ میڈیا کے لئے مولانا عبد الماجد دریابادی صحافت ایوارڈ کے لئے مشہور صحافی عالم نقوی کا نام تفویض کیا گیا ہے۔میں نے تو خبروں کی سرخی پڑھ کر یہ سمجھا کہ عالم نقوی کو بھی افسانہ نگار عابد سہیل کے برابری ہی انعام کا حق دار بنایا گیا ہوگا لیکن اندرونی خبر پڑھ کر مایوسی ہوئی۔اس سے بھی زیادہ مایوسی اس وقت ہوئی جب خبروں میں یہ پڑھا کہ وہ انعام بھی مولانا عبد لماجد دریابادی کے نام سے موسوم ہے جن کے علم و فضل کا ایک زمانہ معترف ہے ہاں مولانا آزاد کی طرح ملانا عبد الماجد کو عوامی مقبولیت نہیں ملی کیوں کہ وہ ایک صاحب طرز ادیب و انشاء پرداز،ناقد ،فلسفی،محقق ،باکمال صحافی ،بے مثال مفسراور کئی کتابوں کے مصنف تو تھے۔لیکن نہ تو سیاست سے وابستہ تھے اور نہ ہی کبھی کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ رہے ۔انہوں نے’’ صدق جدید‘‘ جاری کیا جو نہ صرف انکی زندگی میں بے مثل صحافت کا ایک نقیب بن کر رہا ہی بلکہ مولانا مرحوم کی زندگی کے بعد بھی انکے عزیزوں نے صحافت کے اس روشن منارے کواپنی بساط بھر باقی رکھنے کی کوشش کی ،جو کئی سالوں تک قائم رہا ۔مولانا کی بے مثال تفسیر تفسیر ماجدی بھی انکی علمی بصیرت اور قرآن فہمی کا بین ثبوت ہے۔لیکن اس سب کے باوجود اردو اکیڈیمی کی طرف سے مولانا کی یہ بے قدری اہل علم کی بے قدری کے برابر ہے ۔مجھے امید ہے کہ اہل علم کا طبقہ اردو اکیڈیمی کی حرکت پر احتجاج ضرور درج کرائے گا اور مولانا کے شایان شان اردو اکیڈیمی کو فیصلہ کرنے کے لئے مجبور کرے گا۔
مجھے اردو اکیڈیمی اترپردیش سے کچھ سوال نہیں کرنا ہے کیوں کہ مجھے پتہ ہے کہ اردو اکیڈ یمیاں اردو کے لئے سرکاری جلاد کا ہی رول اپنایا کرتی ہیں ۔کسی کو میرے اس جملے سے اعتراض ہو سکتا ہے لیکن اردو اکیڈیمیوں نے اب تک کیا بنیادی کام کئے ہیں اس کو عوامی طور پر بتایا جائے ۔اس اعلان انعام میں دو باتیں قابل اعتراض ہیں ۔اول یہ کہ مولانا آزاد اور مولانا عبد الماجد دریا بادی میں اتنا فرق کیوں ؟جبکہ دونوں ہم عصر تھے اور علمی اور صحافتی خدمات جو مولانا عبد الماجد دریابادی نے انجام دیے وہ کیا مولانا آزاد سے کم تھے ؟ اگر عبد الماجد دریابادی علم و فضل میں مولانا آزاد سے بڑھ کر نہیں تو ان سے کم بھی نہیں ہونگے۔دوسرا اعتراض یہ کہ اکیڈیمی نے عالم نقوی کی خدمات بطور اردو صحافی بہت کم آنکی ہے ۔ عالم نقوی فی الحال اردو صحافت میں ایک ایسی شخصیت ہیں جنکا کوئی ہم پلہ کوئی نظر نہیں آتا ۔
مولانا آزاد اور عبد الماجد میں جو بنیادی فرق تھا وہ بس اتنا کہ مولانا آزاد کانگریس کے اہم لیڈروں میں سے تھے اور کانگریس میں موجود برہمنی فرقہ پرستوں کے بیچ واحد مسلم چہرہ تھے جن کی کانگریس کو خود کو سیکولر ہونے کا ثبوت پیش کرنے کی ضرورت تھی۔ ہم مولانا آزاد کی شخصیت اور انکی علمی حیثیت کے منکر نہیں ہیں،بلکہ دل سے دوسرے تمام مسلمانوں یا حق پسند انسانوں کی طرح ہم بھی اس بات کے قائل ہیں کہ بلاشبہ مولانا آزاد ایک علمی اور سیاسی شخصیت تھے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ہم تو صرف یہ پوچھنے کی جرات کر رہے ہیں کہ مولانا عبد الماجد دریا بادی حیثیت اتنی کیوں گھٹائی گئی ۔جیسا اوپر میں نے کہا کہ دونوں میں صرف ایک فرق تھا کہ مولانا آزاد کانگریس سے وابستہ رہے جس کی وجہ سے ملکی سیاست میں کردار نبھایا جس کاپھل بعد میں ان کو وزیر تعلیم بناکر ملا۔گرچہ مولانا آزاد کا کردار جنگ آزادی کے آخری دنوں میں غیر یقینی رہا جو اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی تقسیم کو روکنے میں انہوں نے کوئی قابل قدر کارنامہ انجام نہیں دیا اور نتیجتاً محمد علی جناح مسلمانوں کی قوت کو تین ٹکڑوں میں بانٹنے میں صہیونیت کے آلہ کار بن گئے۔
آخری بات یہ کہ اصل بات یہ ہی ہے کہ جیسا کہ میں نے اوپر کہا کہ اردو اکیڈیمیاں سیاسی اثر رسوخ والی شخصیت کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں جس سے حقیقی لوگ جو حقیقت میں انعام واکرام سے نوازے جانے کے قابل ہوتے ہیں ان کا حق ماراجاتا ہے، سرکاری گرانٹ کی بندر بانٹ ہوجاتی ہے ۔میں نے دلی میں دلی اردو اکیڈیمی کی کارروائیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے کس طرح ایوارڈ ایرینج کیا جاتا ہے۔حد تو یہ کہ دلی اردو اکیڈیمی نے ایک ایسی کتاب کو بھی انعام کا حق دار قرار دے دیا جو کہ ایک پاکستانی کتاب کی ہو بہو نقل تھی۔وجہ یہ تھی کہ اس کتاب کے ناشر کی اکیڈیمی کے سکریٹری سے قربت تھی۔جب جو اردو اکیڈیمی کا چیر مین بنتا ہے تب وہ اپنے قریبی لوگوں یا اپنے آقاؤں کے کارندے کو انعام کی رقم تقسیم کرتا ہے ۔لیکن بعض لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو بہر صورت بچاکر رکھتے ہیں وہ صرف کام کرتے ہیں ۔خواہ انہیں اسکے لئے سراہا جائے یا نہیں ۔اپنے گرد و پیش پر نظر دورایئے ایسے لوگ آپ کو اپنے قریب ہی کہیں مل جائیں گے۔
E-mail from Nehal sagheer
sagheernehal@gmail.com

Monday, October 24, 2011

غزل


سوچتا ہوں ،سوچ میں کیسی غضب کی دھارہے
آدمی ہی آدمی کے واسطے تلوار ہے
میں بھی کہتا تھا بہت آسان ہے سچ بولنا
وقت جب آیا تو جانا کس قدر دشوار ہے
دل دھڑکنے لگتا ہے سیٹی کی ہر آواز پر
خوف پھیلاتا ہوا بستی کا پہریدار ہے
چاند اوجھل ہو گیا ،ہالہ ہے لیکن بر قرار
ایک شاعر کی طرح  یہ  رات بھی فنکار ہے
دیکھ کر بھی وہ مجھے معصوم  اب  رکتا نہیں
میں پیا دہ ، اس کی دسترس میں کار ہے
     (معصوم انصاری )

Sunday, October 23, 2011

ممشاعرہ

مشاعرہ
ڈاکٹر عائشہ بنات والا ٹرسٹ کے زیر اہتمام  مورخہ 16اکتوبر   روز اتوار بوقت شام 7 بجے   بمقام پاٹکر ہال نیومرین لائنس  ممبئ میں مشہور و معروف شاعر  عبدالاحد سازکی سالگرہ  کے موقع پر مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا ۔اس مشاعرے کے صدر محترم افتخار امام صدیقی  صاحب ( مدیر ماہنامہ شاعر )  تھے ۔اور نظامت کے فرائض مشہور ومعروف  شاعرپروفیسر قاسم امام صاحب نے انجام ديۓ ۔ مہمانان خصوصی محترم جناب ای ۔احمد صاحب (وزیر خارجہ و  وزیر براۓ ترقی انسانی و سائل ، حکومت ) تھے ،اور مہمان اعزازی پرنسپل محمد سہیل لوکھنڈوالاصاحب،ڈاکٹر عبدالرؤف سمار ،جناب محمد حسین پٹیل صاحب ، جناب علی ایم شمسی،ڈاکٹر محمد علی پاٹنکر صاحب ،جناب عبد علی باناپور والا صاحب جیسی اہم شخصیات موجود تھیں۔   اس مشاعرہ میں شہر کے تمام مشہور شعراۓ کرام  جیسے ندا فاضلی ، جناب حسن کمال۔ جناب ظفر گورکھپوری ،جناب ممتاز راشد،  جناب ارتضی نشاط ،جناب احمد وصی ،جناب شمیم طارق،جناب ضمیر کاظمی ،جناب ابراہیم اشک ،جناب ساگر ترپاٹھی ،جناب شمیم عباس،جناب ندیم صدیقی ،جناب شاہد لطیف ،جناب  حامد اقبال صدیقی،جناب راجیش ریڈی،جناب شکیل ا‏عظمی،جناب عرفان جعفری،جناب قمر  صدیقی ،جناب عبید اعظم اعظمی ، جناب سعید راہی  ، اور شاعرات میں ڈاکٹر رفیعہ شبنم عابدی ،محترمہ دپتی مشرا اور ریکھا روشنی  نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا  ۔ شیخ عبداللۂ  صاحب ، مصطفی  پنجابی صاحب ،انجمن اسلام بلاسیس روڈ کی پرنسپل مسسز نجمہ قاضی صاحبہ ، دہلی دربار کے مالک جعفر بھائی اور خوشبو خانم  اور  شہر کی اہم شخصیات  رونق افروز تھیں ۔   

مشاعرے


ڈاکٹر عائشہ بنات والا ٹرسٹ کے زیر اہتمام  مورخہ 16اکتوبر   روز اتوار بوقت شام 7 بجے   بمقام پاٹکر ہال نیومرین لائنس ممبغی میں مشہور و معروف شاعر  عبدالاحد سازکی سالگرہ  کے موقع پر مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا ۔اس مشاعرے کے صدر محترم افتخار امام صدیقی  صاحب ( مدیر ماہنامہ شاعر )  تھے ۔اور نظامت کے فرائض مشہور ومعروف  شاعرپروفیسر قاسم امام صاحب نے انجام ديۓ ۔ مہمانان خصوصی محترم جناب ای ۔احمد صاحب (وزیر خارجہ و  وزیر براۓ ترقی انسانی و سائل ، حکومت ) تھے ،اور مہمان اعزازی پرنسپل محمد سہیل لوکھنڈوالاصاحب،ڈاکٹر عبدالرؤف سمار ،جناب محمد حسین پٹیل صاحب ، جناب علی ایم شمسی،ڈاکٹر محمد علی پاٹنکر صاحب ،جناب عبد علی باناپور والا صاحب جیسی اہم شخصیات موجود تھیں۔   اس مشاعرہ میں شہر کے تمام مشہور شعراۓ کرام  جیسے ندا فاضلی ، جناب حسن کمال۔ جناب ظفر گورکھپوری ،جناب ممتاز راشد،  جناب ارتضی نشاط ،جناب احمد وصی ،جناب شمیم طارق،جناب ضمیر کاظمی ،جناب ابراہیم اشک ،جناب ساگر ترپاٹھی ،جناب شمیم عباس،جناب ندیم صدیقی ،جناب شاہد لطیف ،جناب  حامد اقبال صدیقی،جناب راجیش ریڈی،جناب شکیل ا‏عظمی،جناب عرفان جعفری،جناب قمر  صدیقی ،جناب عبید اعظم اعظمی ، جناب سعید راہی  ، اور شاعرات میں ڈاکٹر رفیعہ شبنم عابدی ،محترمہ دپتی مشرا اور ریکھا روشنی  نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا  ۔ شیخ عبداللۂ  صاحب ، مصطفی  پنجابی صاحب ،انجمن اسلام بلاسیس روڈ کی پرنسپل مسسز نجمہ قاضی صاحبہ ، دہلی دربار کے مالک جعفر بھائی اور خوشبو خانم  اور  شہر کی اہم شخصیات  رونق افروز تھیں ۔   

Friday, October 21, 2011

اردو ڈرامہ کشمکش




Monday, October 17, 2011

لنترانی : ریاض منصف

Riyaz Munsif


نخلستان کی تلاش




Thursday, October 13, 2011

Lantrani at Urdu markaz with Saud undre





















اردو مرکز امام باڑا ممبئی اور لنترانی میڈیا ہاؤس کے اشتراک سے لندن سے آۓ ہوۓ شاعر سعود اندرے اور فاطمہ سعود اندرے کے اعزاز میں بروز بدھ مورخہ 12 اکتوبر 2011ء کو شام سات بجے بمقام اردو مرکز امامباڑا بھنڈی بازار ممبئی ۔میں اعزازی و نشست کا انعقاد کیا گیا ۔سعود اندرے لندن میں فروغ اردو کے لۓ بے حد سرگرم ہیں ۔اور برٹش ایرویز میں کمپیوٹر انالسیٹ ہیں ۔ ان کی پیدائش اور تعلیم لندن میں ہی ہوئی ہے ۔ان کے گھر میں اطراف میں انگریزی کا ماحول ہے پروہ اردو سے محبت کرتے ہیں اور اپنا کلام اردو میں ہی لکھتے ہیں اس پروگرام کی صدارت مشہور ومعروف شاعر عبدالاحد سازصاحب نے کیں اور نظامت کے فرائض پروفیر عائشہ شیخ  نے انجام دیۓ ۔پروگرام کا آغاز حمد اور نعت سے پروفیسر عائشہ نے کیا اور پھر اردو مرکز کے ڈائریکٹر زبیر اعظم اعظمی صاحب نے اردو مرکز کے کاموں پر اور پروگرام کے مقاصد پر روشنی ڈالی ۔ لنترانی میڈیا ہاؤس کے مینیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر روپیش سریواستو نے لنترانی میڈیا ہاؤس کے کاموں کی تفصیل بتائی کہ عالمی طور پر لنترانی کی ایک اچھی پہچان بن گئی ہے ۔لنترانی کے ذریعے ہماری ملاقات انٹر نیٹ پر سعود اندرے سے ہوئی تھی ۔ اور آج ہم ساتھ میں ہیں اور ایک دوسرے سے روبرو ہیں ۔اس موقع پر شہر اوراطراف کی علمی و ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات موجود تھیں ۔ مشہور شاعر ریاض منصف نے اپنے کلام سے سامعین کو مسرور کر دیا ۔ شاداب صدیقی ،عارف اعظمی ، کمال بلیاوی ، زبیر اعظمی ،نذر بجنوری ،منّان خان ، وقار خان نےاپنے کلام سناکر سماں باندھ دیا ۔ مسسز نادرہ موٹلیکر کو لنترانی ڈاٹ کام کا سب ایڈیٹر کے طور پر نامزد کیا گیا ۔ اور ساتھ ہی مالیگاؤں سے تشریف لاۓ ہوۓ عبدالحلیم صدیقی کو مالیگاؤں کے بیورو چیف کے لۓ ا‏عزاز تہنیت پیش کے گۓ۔ اس موقع پر لنترانی ڈاٹ کام کے فائین آرٹ شعبہ سے تعلق رکھنے والے راکیش مشرا نے مہمان خصوصی سعود اندرے اور زبیر اعظمی کی پانچ منٹ کے وقفہ میں پوٹریٹ تیار کر کے بطور تحفہ پیش کیں ۔ پروگرام کافی کامیاب رہا ۔ضیافت کا انتظام کیا گیا تھا ۔ ۔ معروف شاعر ساز بھائی نے اپنے صدارتی خطبہ میں اردو زبان سے محبت پر سعود اندرے اور لنترانی ڈاٹ کام کو مبارکباد پیش کیں ۔اس پروگرام کے ےساتھ منہ بولتی تصویریں ہیں ۔ آخری میں لنترانی میڈیا ہاؤس کی ڈائریکٹر منور سلطانہ نے رسم شکریہ ادا کیا ۔

Sunday, October 09, 2011

حج رہنمائی ( مفت تربیتی کیمپ)








عبدالحمید بوبیرے میموریل، الکمال اردو فاؤنڈیشن اور سہیواگ کلچرل سوسائٹی کی مشترکہ کوشش سے  حجاج کرام کی عزت افزائی اوران کے  اعزاز  میں   حج ہاؤس ممبئی میں حج رہنمائی کے لۓ مفت تربیتی کیمپ اور الوداعی تقریب منعقد کی گئی ۔پروگرام  میں ہزایکسیلینسی براۓ یمن ال حمیدی ،کاؤنسل جنرل براۓ ملیشیا حطیمی عباس اور اسلامی جمہوریہ  ایران کی پروین دانشور انڈونیشیا کی سریلچیاری  نظامالدین رائین مولانا حیدری اورشہر کی مشہور ومعروف شخصیات نے شرکت کیں ۔ حج کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوۓ زائرین  کی رہنمائی کے لۓ انگریزی اور اردومیں حج و عمرہ پر آسان زبان میں حج کی بہترین تربیت کے لۓ دستاویزی  فلموں نما‏ش   کا اہتمام کیا گیا۔  اسکرین پر  تین چار   سی ڈی دکھائی گئی اور پروگرام کے اختتام پر تمام مہمانان کو مفت کتابیں '' حج و زیارت اور آ‏ۓ حج کریں" بطور تحفہ دی گئی ۔ اور حج  سے متعلق اداروں اور افراد کی نمایاں خدمات پر ایوارڈز  تفویض کۓ گۓ ۔یمن کے قونصل جنرلالحامدی اور ملیشیا کے حاتمی عباس نے حج کمیٹی آف انڈیا کی چیف ایگزیکٹیوافسر روحی خان کو بیسٹ حج سروس کا ایوارڈ دیا گیا ۔  الخالد ٹورس اینڈ ٹراویلس ، اکبر ٹراویلس   پرائویٹ لیمیٹٹ اور الائنز کو بہترین ٹراویلس  اور  ٹور کے ایوارڈز سے نوازا گیا ۔اس تقریب کے روح رواں  سمیع بوبیرے تھے ۔گزشتہ 16 برسوں سے عبدالسمیع بوبیرے میموریل سہیوگ کلچرل سوسائٹی یہ تربیتی پروگرام منعقد کرتی آ رہی ہے ۔       بتایا کہ وہ اس طرح کے پروگرام سولہ سالوں سے کررہے ہیں ۔ حج کے وقت پوری دنیا کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم کرسکتے ہیں ۔ایک تہذیب میں ایک  ہی اہرام میں سب ایک جیسے نظر آتے ہیں ۔مولانا محمد پرویز صاحب کی دعاؤں کے بعد پروگرام کا اختتام ہوا ۔

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP